Bain Us Sutoor بین السطور

359
ب ی ن ر و ط س ل ا روف پ ی ر س ت م ح ر ب ف س و ب ر ی

description

‫‫پروفیسر رحمت یوسف زئی‬http://kitaben.urdulibrary.org/AllBooks.html.

Transcript of Bain Us Sutoor بین السطور

Page 1: Bain Us Sutoor بین السطور

السطور نیب

یزئ وسفی رحمت سریپروف

Page 2: Bain Us Sutoor بین السطور

فہرس

4........................................ک مطالعہیں ........�یں گاہیں کمیآ�سمان م

آ�فاق 21.....................................................................تی�دب �ور

24.................................................................... صورت حالی�دب

29........................................................... روزگار علامہ �عجاز فرخۂنابغ

آ�باد للہ 35.........................................................................ی�کبر �

49............................................................................ باقریعل

54......................................................... شخص �ور شاعر،یوسفیبرق

59........................................................ی نعت گوئںی قصائد میدکن

68............................................................ �ردو ناول کا �رتقاںیدکن م

74.............................................. درد مند شاعرکی: ��لی �لحسن خضیف

77.................................................................. غمۂغالب کا فلسف

87................................................................ی �ور �ردو شاعرکویہائ

Page 3: Bain Us Sutoor بین السطور

95.......................................................ی شاعری فد� �ور �ن کنی�مام �لد

103.............................................................ی صناعںیکلام �قبال م

110........................................................... شاعرتیثیمنجو قمر بح

114....................................... چاندخی شاگرد شزی عبد�لحق �ور �نکے عزیمولو

123.........................................................ی �ور حالیمقدمہ شعر و شاعر

126.................................................................. ناظم کا فنوسفی

132...................................................ںی �صلاحیمشاعرے �ور �ساتذہ ک

138...................................................... سفری ہمہ لسانکیقند ہند‘‘ �’’

145.......................................................ی روزگار �ور دہلکیسود�، تضح

151................................................. مرحومبی خطمانیدکن کا بانکا، سل

156.................................................................... کا منصبدیتنق

159...................................................... نئے رجحاناتںی میتلگو شاعر

165........................................................... ساجدوسفی�ردو �فسانہ �ور

170........................................................�ردو ترجمہ...... �صول ومسائل

176.......................................................... پس منظری�ردو زبان کا تمدن

180............................................................ی نگاردہی قصیذوق ک

Page 4: Bain Us Sutoor بین السطور
Page 5: Bain Us Sutoor بین السطور

کی........ا ںیہگا ںیکم ںیم آسمانہمطالع

شاید دوسال گزر گئے �س و�قعے کو....... جب �یک سرد صبح یوسف کمال صاحب میرے

غریب خانے پر تشریف لائے۔ �ن کے ساتھ چار پیاری پیاری نظمیں تھیں �ور وہ چاہتے تھے کہ میں

�ن نظموں کو خوشخط لکھ دوں۔ مجھے حیرت ہوئی �ب تک تو یہ ہوتا تھا کمال صاحب کوئی نظم

آ�تے .....کبھی کسی �فسانے کا �نگریزی ترجمہ کیا تو مجھے تخلیق کرتے تو �سے سنانے چلے

�سکا سب سے پہلا سامع ہونے کا �فتخار حاصل ہوتا.....�سی کلیہ کے تحت �نھیں پہلے تو نظمیں

آ�نکھوں میں تھرکتے سنانی چاہئے تھیں ... میں �ستفہامیہ نگاہوں سے �ن کی طرف دیکھتا رہا۔ میری

اا �نھوں نے پڑھ لیا �ور کہا ... ’’یہ نظمیں میری نہیں ‘‘ ’’پھر ‘‘.... میں نے مزید سو�لوں کو غالب

..... حیرت میں ڈوب کر پوچھا

‘‘...... یہ کمار صاحب کی نظمیں ہیں’’

کمار صاحب .......؟ کون کمار صاحب....؟ میں نے سمندر میں غوطے لگائے ! ’’�رے

بھئی کمار صاحب ........؟ شیو کے کمار ‘‘ �وہ .... مرے ذہن میں �یک جھماکہ ہو�۔ شیو کے

آ�باد یونیورسٹی کے بھی �یک مایہ ناز کمار، �نگریزی �دب کے پروفیسر ....عثمانیہ یونیورسٹی بلکہ حیدر

ہستی ......وہ �ستاد جو �پنے شاگردوں میں برسوں تک �نگریزی �دب کے رنگین قمقمے بانٹتا رہا۔

روشنی پھیلاتا رہا..... کمار صاحب �دب کے نقاد بھی ہیں �ور تخلیق کار بھی ...ناول، ڈر�مے،

آ�نے سے قبل میں جس کمپنی میں شاعری ....سب کچھ ہے �ن کے پاس ....! �س یونیورسٹی میں

Page 6: Bain Us Sutoor بین السطور

ملازم تھا، وہاں میرے �یک دوست تھے مسٹر سی �ین وٹھل ر�ؤ ... یہ پروفیسر کمار کے شاگرد رہ

ذکر ضرور شاعری پر بات چلتی تو پروفیسر کمار کا چکے تھے �ور بیشتر �وقات جب �دب �ور

آ�تا.....وٹھل ر�ؤ بڑی عقیدت سے �ن کا تذکرہ کرتے تھے �ور �سطرح مجھ پر بھی پروفیسر کمار کا

....!رعب چھا گیا تھا

آ�باد کے شعبۂ �ردو۱۹۸۰ر میں نے سیا ببی�خر �ز پھر کچھ یوں ہو� کہ بعد آ�ف حیدر ء میں یونیورسٹی

وقار شخصیت کو �تر میں د�خلہ لیا۔ �یک دن گولڈن تھریشولڈ کی سیڑھیوں سے میں �یک بہت ہی با

کے کمار ہیں .... میں تو بس �نہیں دیکھتا ہی رہ ۱تے دیکھا۔ کسی نے بتایا کہ یہ پروفیسر شیو

آ�گے بڑھ کر �ن سے ملتا .... طبیعت گیا..... �یک عجیب سا رعب طاری ہو�.... ہمت ہی نہ پڑی کہ

آ�پ کو �یک تنکے کی طرح محسوس کر رہا کی جولانی جیسے غائب ہو گئی تھی �ور میں �پنے

تھا..... کمار صاحب نے �پنے ساتھی �ساتذہ سے ہاتھ ملایا .... کار میں بیٹھے �ور چلے

گئے ....جیسے �یک ہو� کا جھونکا.....�ور مجھ سے �تنا بھی نہ ہو سکا کہ �نھیں سلام ہی کر

لیتا .... پھر �ن کے بارے میں �ن کی شاعری کے بارے میں مختلف لوگوں سے تبصرے سنتا

اا �س وقت تک کمار صاحب ریٹائرڈ ہو چکے تھے لیکن کبھی کبھی شعبہ �نگریزی میں تشریف رہا۔ غالب

لایا کرتے تھے۔ �ور پھر بعد میں جب کبھی وٹھل ر�ؤ سے میری ملاقات ہوتی تو کمار صاحب کا ذکر

شدومد سے ہوتا۔ �ور �ب مجھے بھی یہ �فتخار حاصل تھا کہ جس یونیورسٹی میں کمار صاحب تھے

وہاں کا میں بھی طالب علم تھا �ور �س طرح میں بھی �ن کا بالو�سطہ شاگرد تھا.... �سی لئے جب

کمار صاحب کا ذکر ہوتا تو �یک عجیب سی �پنائیت کا �حساس مجھ میں �بھرتا تھا۔ دس سال بعد

آ�ئیں .... میں نے نظمیں جب یوسف کمال نے کمار صاحب کا نام لیا تو ساری باتیں ذہن میں لوٹ

ہاتھ میں لیں �ور �نھیں دیکھنے لگا ......یہ نظمیں یوسف کمال نے �نگریزی سے �ردو میں ترجمہ

آ�یا کہ یہ تو لی سطح کا شعری �ظہار ہے ....لیکن یہ بھی خیال کی تھیں۔ �حساس ہو� کہ یہ تو بہت �عل

Page 7: Bain Us Sutoor بین السطور

محض ترجمہ ہے .... کیوں نہ �سے �نگریزی میں دیکھا جائے۔ میں نے �نگریزی نظم کا مطالبہ کیا

�ور کمال صاحب نے جب نظمیں دیں تو میں �ن میں کھوسا گیا ....میرے �حباب کا خیال ہے

کہ میری �نگریزی �چھی ہے .....لیکن �یاز خود بشناسد کے مصد�ق میں جانتا ہوں کہ پہلی نظر میں

�نگریزی نظم کے مفاہیم �ور �س کے �ندر پوشیدہ �ستعار�تی نظام تک رسائی �یک مشکل �مر ہے۔ کمال

صاحب نے میری رہنمائی کی .....ہم دونوں نے بیٹھ کر �ن نظموں کا تفصیلی مطالعہ کیا....ترجمے

پر بحث ہوئی .... کہیں �ختلاف ہو� تو ڈکشنریاں نکال لی گئیں .... ہم نے �یک �یک لفظ پر بڑی

کے لئے میرے پاس کوئی لفظ فی �لحال(Wild discussion ..... )وحشیانہ بحثیں کیں

کیا کہ خد� کی پناہ .... کمال صاحب چاہتے تھے کہ میں نہیں ہے۔ �یک �یک نظم پر �تنا جھگڑ�

نظموں کو خوشخط لکھ دوں لیکن میں تو �ن کے ترجمے کے عمل میں دخیل ہو گیا تھا ...! وہ

تو خیر گزری کہ کمال صاحب نے بر� نہیں مانا بلکہ �لٹے خوش ہوئے ......میں یہ تونہیں جانتا کہ

ترجمے کی سطح میں کچھ �ضافہ ہو� یا نہیں لیکن مجھے یہ فائدہ ضرور ہو� کہ میری �نگریزی نظموں

کے کمار کی نظموں میں پوشیدہ لطیف کی تفہیم کی سطح قدرے بلند ہو گئیں۔ �ور میں نے شیو

تک سمجھنے کی صلاحیت پید� کر لی۔ �حساس کو کچھ حد

�یک، دو، تین، چار ......یہاں تک کہ جملہ سینتالیس نظمیں دیکھی گئیں ...... لفظ

اا چھ ماہ کے عرصے میں �ن کے ترجمے بدلتے رہے .....کاغذ چاک کئے جاتے رہے �ور تقریب

آ�ئی گئی ہو گئی...... �یک کو آ�خری شکل دی گئی۔ پھر مسودہ ساہیتہ �کیڈیمی بھیج دیا گیا.... بات

دن میں کسی کام سے عثمانیہ یونیورسٹی گیا تو یوسف کمال سے بھی ملا۔ �نھوں نے بتایا کہ کمار

آ�باد میں ہیں۔ خو�ہش پید� ہوئی کہ �ن صاحب کچھ عرصہ دہلی میں گز�ر نے کے بعد �ب پھر حیدر

سے ملوں .... لیکن میرے کہنے سے قبل ہی کمال صاحب نے کہا ’’چلو گے ......‘‘ ’کیوں

نہیں ‘ میں نے بلا کسی تامل کے جو�ب دیا...... �ور ہم دونوں کمار صاحب کی رہائش گاہ

Page 8: Bain Us Sutoor بین السطور

پہنچے۔ �ور جس �ند�ز میں کمار صاحب مجھ سے ملے وہ میرے ذہن پر ہمیشہ نقش رہیگا.....

آ�باد کے آ�ف حیدر �نھیں میرے بارے میں پوری طرح علم تھا.... وہ جانتے تھے کہ میں یونیورسٹی

شعبہ �ردو سے و�بستہ ہوں۔ �نھیں یہ بھی معلوم تھا کہ ترجمے کے عمل میں میں بھی شامل رہا ہوں۔

�ور پھر بہت سی باتیں ہوئیں ....غالب پر، �قبال پر�ور فیض پر .....تب مجھے پتہ چلا کہ فیض �ن کا

محبوب شاعر ہے۔ �ور یہ کہ �نھوں نے فیض کو بر�ہ ترجمہ نہیں پڑھا .... میر� مطلب ہے �نھوں نے

فیض کو �نگریزی میں نہیں بلکہ �ردو میں پڑھا تھا۔ وہ �ردو بہت �چھی طرح جانتے ہیں �ور پھر �نھوں

نے فیض کا مجموعہ کلام نکالا �ور �س کی مشہور نظم ’’تنہائی ‘‘ سنائی �ور میں بس عقیدت سے

..... �نھیں تکتا رہا

آ�ئی تو کمال صاحب �سے کچھ مہینے �ور گزر گئے۔ جب کتاب بے حد خوبصورت چھپ کر

لے کر سیدھے میرے پاس تشریف لائے۔ کتاب بے حد خوبصورت چھپی تھی۔ �س وقت میں نے

کمال صاحب سے کہا تھا کہ بھئی �س پر مجھے حق ہے لکھنے کا ..... �ور میں لکھوں

آ�سمان کی �ن کمیں گا ہوں کی سیر کریں جہاں سے کمار صاحب �س سارے آ�یئے گا..... تو

کرہ �رض کو دیکھ رہے ہیں ..... کبھی �پنے وطن میں رہ کر، کبھی �پنے وطن سے باہر ....

میکملن نے چھاپی ہے۔ قیمت پینتیس روپیہ ہے۔ گٹTraofalls in the sky �نگریزی کتاب

آ�سمان میں کمیں گاہیں ‘‘ ساہیتہ �پ کچھ نہیں .... پیپر بیک پرچھپی ہے۔ �ور�س کا ترجمہ ’’

�کیڈیمی نے شائع کیا ہے۔ قیمت چالیس روپیہ ہے مجلد، ڈسٹ کور کے ساتھ ....�ور بے حد

خوبصورت ٹائٹل..... �نگریزی کتاب کو ساہیتہ �کیڈیمی نے �نعام سے نو�ز� تھا پھر �س کے ترجمے کو

شائع کیا۔ کتاب تین حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا حصہ ہے ’’�پنی دھرتی پر‘‘ جس میں وہ نظمیں

ہیں جن کا موضوع ہندوستان کے کچھ مقامات کچھ و�قعات �ور کچھ حادثات کے علاوہ خود کمار

صاحب کی �پنی شخصیت ہے .... یا پھر وہ شخصیتیں ہیں جن کا تعلق کمار صاحب سے ہے۔ �ن

Page 9: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�نکھ سے دیکھا ہے۔ �یک کیمرہ وہ مقامات، و�قعات �ور شخصیتوں کو کمار صاحب نے �پنے فن کی

ہوتا ہے جو جوں کا تو توں تصویر کھینچ دیتا ہے۔ لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ کیمرہ کسی فن کار

آ�تا ہے تو تصویر میں بے پناہ حسن پید� ہو جاتا ہے ..... �سی طرح �یک کیمرہ �دیب کے ہاتھ میں

آ�نے و�لے منظر کے �ندر سے کچھ �یسی چیزیں ، کچھ �یسی باتیں �ور شاعر کا بھی ہوتا ہے جو نظر

بالا کر کھوج نکالتا ہے جو کبھی روح کو بالیدگی بخشتی ہیں تو کبھی �حساس کی پرتوں کو تہہ و

.. ... دیتی ہیں

�س مجموعہ کی سب سے پہلی نظم ’’مدرٹریسا‘‘ ہے ....... کیا کہنا چاہتے ہیں کمار

صاحب �س نظم میں۔ ......؟ کیا صرف �س شخصیت کی توصیف مقصود ہے یا �س عمل کو بھی

ت لافانی حیثیت �ختیار کر گئی ہے۔ وہ دیکھ رہےینظر رکھا گیا ہے جس سے مدرٹریسا کی شخص مد

ہیں کہ �د�س کھوپڑیاں جو نحیف گردنوں پر ٹکی ہوئی ہیں .......وہ بڑھے جو جہد کا حوصلہ کھو

چکے ہیں .....وہ دیکھ رہے ہیں �یک دبیز شعاع مہر کو جو�ن مردی جسموں کو زندہ رہنے کا

حوصلہ عطا کر رہی ہے .... یہ دبیز شعاع مہر کو ئی �ور نہیں مدر ٹریسا ہے ...... جس کا مخملیں

لمس برگ نخیل کے سایوں سے گھرے نخلستان کی طرح ہے۔ یہ منظرنامہ سڑک کی �یک جانب کا

ہے �ور دوسری طرف �یک مندر ہے جس میں منتروں کا جاپ ہو رہا ہے ، گھنٹیاں بج رہی ہیں �ور

آ�نکھیں خوں رنگ ہیں �ور جو �پنا جہاں پتھر میں تر�شا ہو� �یک دیوی کا بت ہے ..... جس کی

آ�مادہ ہے۔ شاید یہ تقابل ہے مذہبی رسومات کا د�ہنا ہاتھ �ٹھائے �یک کہنہ رسم کی �د�ئیگی کے لئے

�ور خدمت خلق کا .... �ور کونسی شئے عظیم ہے ....خدمت خلق....یا عبادتیں �ور

قربانیاں .....؟ کیا وہ دیوی عظیم ہے۔ جس نے مردہ جسموں کو جینے کی توفیق دی یا وی دیوی

عظیم ہے جس کے درپرقربانی دی جا رہی ہے �ور جو قربانیاں قبول کرتی رہتی ہے .....؟ �یک طرف وہ

آ�و�زیں گونج رہی ہیں �ور دیوی ہے جس کا خوش کرنے کے لئے منتروں کے جاپ �ور گھنٹیوں کی

Page 10: Bain Us Sutoor بین السطور

دوسری طرف وہ دیوی ہے جو �یسے لوگوں کو مسرت بخش رہی ہے جو زندہ رہنے کی لگن کھو

چکے ہیں .... یہ وہ دیوی ہے جو نیم فانی ہے جیسے کنول.... کمار صاحب مذہب بیز�ر نہیں

ہیں ...... وہ دہریے بھی نہیں ہیں .... وہ مذ�ہب کا �حتر�م کرنا جانتے ہیں لیکن مذہب کو �پنے

دینے لگے ... �ن کے ہاں محبت �ور آ�پ پر �س طرح لادنا نہیں چاہتے کہ وہ نفرت �ور تعصب کو ہو�

آ�تی ہے۔ دوسری نظم ’’لمحۂ خدمت کی �ہمیت ہے .... �ور شاید یہی جھلک ہم کو �س نظم میں نظر

سپردگی‘‘ �یک ماں کی نصیحت ہے �پنی بیٹی کے لئے۔ �یک خوش گو�ر زندگی گز�رنے کے لئے ہر

غریب ہے۔ جس میں کچھ ماں �پنی بیٹی کو نصیحتیں کرتی ہے۔ لیکن یہ نصیحت کچھ عجیب و

خاص لمحات کو �سیر کر لینے کی ہد�یت ہے .... �س میں بحث سے بچنے کی نصیحت ہے۔ خود

کو محسوس کرنے کا درس ہے �ور شوہر کو �پنے گیسوؤں کے جال میں �سیر کرنے کے فن کے

نفسیاتی نکات ہیں۔ کمار صاحب یہ بات جانتے ہیں کہ عورت کے لئے سب سے قیمتی لمحہ کونسا

ہوتا ہے �ور مرد کا سب سے کمزور لمحہ کونسا ہے۔

پہلے �سے گرم ریت پر تپانا’’

کچھ دیر کے لئے

کہ یہی وقت

کچھ پانے کا بھی ہے

......!‘‘محض دینے کا نہیں

�ور کمار صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام تر بے ر�ہ روی کے باوجود، دور تاریکیوں میں

آ�خری پناہ گاہ �س کا گھر ہی ہوتی ہے ...... شرط یہی ہے مچھلیوں کے شکار کے باوجود، مرد کی

کہ �س کو پہلے لمحۂ سپردگی میں ہی یہ �حساس دلادیا جائے کہ سیر جوجانے کے بعد چٹان کی

Page 11: Bain Us Sutoor بین السطور

طرح بے حس ہو جانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قصہ تمام ہو�۔ �ور �سی لئے کمار صاحب تجربہ

کارماں کی زبانی بیٹی پر یہ ر�ز حیات �فشا کر رہے ہیں کہ مرد کو حاصل کرنے کا لمحہ وہی ہے

......!جب پہلی بار خود کو کھودینا پڑے

میں ‘‘ ہے جو بجائے خود بے حد شاعر�نہ تیسری نظم کا عنو�ن ’’سورج گہن کے سائے لہو

آ�گے نکل گیا ہے �نگریزی عنو�ن ہے۔ To a "ہے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ وہ �صلی عنو�ن سے بہت

friend who dies of cancer bequeathing his body for

research "یک مصرعے کا ترجمہ ہے جو یوں ہے۔�نگریزی نظم ہی کے �ن �ردو عنو�لیکن

Needles in your bones, shadows of a solar eclipse in

your blood

�س نظم میں کمار صاحب نے �پنے �یک دوست کی وصیت پر �پنے �حساسات کو پیش کیا

ہے .... �س دوست کی موت کینسر سے ہوئی تھیں �ور�س نے وصیت کی تھی کہ �س کی لاش کو

آ�خری حصہ جلانے کی بجائے تحقیقی مقاصد کے لئے �ستعمال کیا جائے .... �س نظم کا

دیکھئے جس میں �یک بھرپور تاثر موجود ہے۔

�ور کھنگال ڈ�لو’’

ہڈیوں کی جوڑ بھول بھلیاں مری جوڑ

تاکہ تم پر کھل جائے

�صل مرے درد کی

میرے جوئے خوں میں کہیں نہ کہیں

Page 12: Bain Us Sutoor بین السطور

!‘‘�س مردہ مچھلی نے کوئی سر�غ تو چھوڑ� ہو گا ضرور

A tibetan "�ور پھر یہ نظم ہے جس کا عنو�ن کے ’’تلاش‘‘ .......�نگریزی عنو�ن ہے۔

refugee woman on a Delhi pavement "یہ نظم دہلی کے فٹ پاتھ پر

پناہ گزیں عورت کو دیکھ کر لکھی گئی ہے۔

کمار صاحب کہتے ہیں

بدن تمہار�’’

سیاہ پتھر میں

‘‘ڈھل گیا ہے

تبتی سیاہ فام نہیں ہوتے بلکہ کچھ زردہ مائل سیاہ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں کمار صاحب نے

Black stoneس تبتی�لی تیز دھوپ �ہے۔ دہلی کی جھلس دینے و �ا لکھا ہے ..... �ور یہ قصد

عورت کے جسم کو سیاہی مائل کر گئی تھی..... �س تبتی عورت کے بال بکھرے بکھرے ہیں جن

میں جوئیں رینگ رہی ہیں .... میلے کچیلے کپڑے ... لیکن �س کے ہاں �یک بہت قیمتی شئے

آ�نکھ میں �د�س موتی ہیں ..... جن کی قیمت کا تعین مشکل ہے ..... �س کے بازو ہے۔ �س کی

بظاہر �یک معمولی سی چیز لیکن �س کے( Onyx amulet )پر بندھا ہو� سنگ سلیمان کا تعویذ

پیچھے عقیدے کی علامت ہے یہ تعویذ کس کی حفاظت کے لئے ہے ....؟ �د�س موتیوں کی

حفاظت کے لئے ....؟ کیا یہ تعویذ �س تبتی عورت کی عصمت کی حفاظت کے لئے ہے ....؟ کیا

یہ تعویذ تبتی تہذیب کی حفاظت کی علامت بن رہا ہے .....؟ سو�لات �ٹھتے چلے جاتے ہیں ...

آ�پ کو لے آ�پ کی فکر عمیق آ�پ دیجئے ....غور کیجئے .... �ور پھر جہاں بھی جو�ب

پر کہہ دی گئی ہے کہ جائے ...!! �ور یہی شاعری کا حسن ہے ..... بس �یک بات قطعی طور

Page 13: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�دمی کو تمہاری قبر میں د�خل ہونے سے نہیں روک مقدس لاما کی منت بھری �لتجائیں بھی، زرد

سکتیں۔

Not even the lama's supplication

can turn the yellow man

away from your grave

�ور" Adolescence‘‘ ........ "�س کے بعد وہ نظم ہے جس کا عنو�ن ہے ’’عنفو�ن شباب

یہ �حساس ہے �یک باپ کا ..... جو �پنے بیٹے کو نصیحت کر رہا ہے .....یا نصیحت کرنا چاہتا

.... بالا کر دینے و�لے جذبے کو محسوس کرتا ہے ہے �ور �س کائنات کا تہہ و

کمار صاحب کہتے ہیں

�ب تم محسوس کرنے لگے ہو

د�نہ سنگ کی قوت نمو

لبوں سے �وپر بڑھتا ہو� رو�ں

�ور ز�نوؤں میں مچلتا �یک نیا خطرہ

آ�غاز �س قبل �س طرح سے کرتے ہیں کہ کمار صاحب نظم کا

میں خود کہاں کا بے گناہ

کہ تمہار� �حتساب بھی کر سکوں

Page 14: Bain Us Sutoor بین السطور

کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شاید یہ نصیحت بے �ثر ثابت ہو �ور �گر �یسا ہو� تو لڑکے کی �نگلیاں

گٹار کے تاروں پر پھسلنے کی بجائے

یں سانپ کی دم سے زیادہ گہری گہر�ئیوں میں تو چرچر بھونے کباب کی مانند جل جائیںئجا �تر

......گی

وہ �پنے باپ کا حو�لہ دیتے ہیں جنھوں نے کچھ �سی طرح کی نصیحت کی تھی کہ

لو �گر �بھرتی قوت کے �س عفریت کو ر�م کر

تو �ہر�م کے سارے �سر�ر

تم پر کھل جائیں گے

آ�تش فشانی دہانوں سے �ور چاند کے

.......�مرت دھار�ئیں پھوٹ پڑیں گی

�ور پھر وہ بڑی حسرت سے خود �پنا محاسبہ کرتے ہیں

‘‘ لیکن کون سنتا ہے’’

آ�رزو پوشیدہ ہے کہ میں نے تو �س عفریت کو ر�م نہیں کیا لیکن میرے بیٹے �ور �س محاسبہ میں یہ

لو..... �ور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ خو�ہش بے سود میری خو�ہش ہے کہ تم �س کو ر�م کر

آ�خری سطر میں نوجو�نی کا تجزیہ بھی ہے �ور ہے ....لیکن بہرحال کہنا تو چاہئے ...... �س �یک

تجربہ کار باپ کی نصیحت بھی جو خود �پنے باپ کی نصیحت پر عمل کر کے زندگی کی �مرت

کہہ کر صرف نظر کرWho cares �گر بیٹا بھی ’’کون سنتا ہے ‘‘ یا دھار� تک پہنچ نہ سکا �ور

Page 15: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ئند دے تو �سے کوئی نہیں روک سکتا ......لیکن کاش وہ رک جائے .......کاش �س کا خوش

.......خو�ب کا بوس میں نہ بدلے

�س کے بعد کمار صاحب قحبہ خانے کی سیر کر�تے ہیں لیکن �پنے مخصوص �ند�ز

میں .... قحبہ خانے کا صرف �یک مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح روپیہ کمایا جائے ....یہ نہیں کہ

نیاز � �ور زندگی کے حسین سفر کا لطف لیا جائے۔ بس چابی لگی �ور کام تمام ہو� ...لیکن ر�ز و

لمحوں �جنبی ر�گ سے لئے ملانے کا عمل ... یہ سب ممکن ہی نہیں .....کیونکہ بہرحال چند

کا سود� ہے �ور �س نے صرف چابی نگلنے کا معاہدہ کیا ہے .....لالہ دہن سے شیرینی چکھا نے

آ�تا ہے کہ ہاں ! یہ سود� تو ہو� ہی نہیں کا وعدہ تو ہر گز نہ تھا ...خود �حتسابی کی کیفیت میں یہ یاد

تھا ... �ور پھر ذہن کے تمام فاسد خیالات دور ہو جاتے ہیں ......ذہن میں معصومیت بھر جاتی ہے

.... �یک �یسے بچے کی معصومیت جو �نکو بیٹر میں ہانپ رہا ہو.... ! �س کا سفر ناتمام �س �عتبار

تک درست ہے کہ ہانپ رہا ہے ..... لیکن �س میں سے ہے کہ جسمانی �عتبار سے تو وہ �س حد

وکمی ہے ..... کمی ہے �س فطری گرمی کی ....�س محبت کی .....جو صرف �سی وقت نشو

سکتی تھی جب �جنبی ر�گ سے لئے ملانے کا عمل ہو� ہوتا ......یہ بچہ روتا نہیں کیونکہ روتا نما پا

تو زندگی کی علامت ہے ...... یہ صرف ہانپ رہا ہے ..... کیونکہ �سے عدم تکمیل کا �حساس ہے

آ�باد ہے۔ �ور �س �عتبار سے یہ ... �س نظم کے �یک �یک لفظ کے �ند�ر مفاہیم کی �یک وسیع دنیا

..... !�یک بے حد کامیاب نظم ہے

لیحدگی کا �یک �یسا لمحہ جب سفید ننھے...... Divorce ..... �ور پھر طلاق عل

آ�ز�د �نسان �پنے تمام بوجھ کو سر سے جھٹک کر نئیگپرندے کی طرح خوشی سے گن ناتا گاتا

....زندگی کی تلاش میں نکل کھڑ� ہو� ہے

.....�س نظم میں کچھ سو�لات جاگتے ہیں

Page 16: Bain Us Sutoor بین السطور

بے بسی میں پکڑے ہوئے

آ�سماں کا سر

ر�ت درو�زہ سے

......کر�ہتی رہی

The night moaned in labour

pain, clutching at the sky's bed head.

آ�سمان کون ہے .. ر�ت کونسی شخصیت ہے .. ہم سوچ سکتے ہیں �ور شائد �ن کی یہ

�صلیت تک پہنچ بھی جائیں ...لیکن کیوں سوچیں ...جس �ستعارے کو �ستعمال کیا گیا ہے وہ

خود �تنا طاقتور ہے کہ �س کے پیچھے شخصیتوں کی تلاش عبث ہے ...... ہم ذ�تیات میں کیوں

�لجھیں ، مونچھوں و�لی چمگاڈر ہو یا کوئی �ور .... جب ہم نے ریت میں �یک لکیر کھینچ کر �پنی

.....!�پنی ر�ہیں �لگ کر لیں تو پھر کسی �ور چیز کی فکر نہیں ہونی چاہئے

�گلی نظم دوپہر کے وقفہ میں �پنے بچے کو دودھ پلاتی مزدور عورت پر لکھی گئی

ہے ...... �نگریزی میں �س کا عنو�ن ہے۔

A woman labourer, breast feeding her child, during "۔۔

lunch break."

‘‘ موسم �س کا ترجمہ دیکھئے کس قدر شاعر�نہ ہے ’’بدن کے دو

کیونکہ یوسف کمال نے نظم کا عنو�ن تجویز کرتے ہوئے �س بات کو ملحوظ رکھا کہ �س میں

آ�ئے .....! سچ تو یہ ہے کہ یہ عنو�ن خود �یک مکمل نظم ہے .......! �س نظم نظم کی روح سمٹ

Page 17: Bain Us Sutoor بین السطور

میں �یک عجیب سے کیفیت کو، �یک بے حد مقدس قسم کے لمحے کو �سیر کر لیا گیا ہے۔ �یک

مشقت کے سخت لمحات کے بعد جب وقفہ پاتی ہے تو سیدھے �پنے بچے کے ماں، محنت و

آ�گیں سکون محسوس کرتی ہے۔ پاس جا کر �س کے منھ میں �پنی چھاتی دے کر �یک بے حد سرور

چاروں طرف سے نور کی بارش ہونے لگی ہے ..... �ور چر چر دودھ پیتے ہوئے بچے کے دل کی

دھڑکنیں محسوس کرنے کے لئے

حجر �ور شیشے کو شجر و’’

بے تکان کرنے و�لے وقت نے بھی

‘‘�پنے کان کھڑے کر دیئے ہیں

آ�گ کا بپتسمہ‘‘ یا �ب �یک �ور �ہم نظم پر گفتگو کرنا چا ہوں گا۔ یہ نظم ہے ’’

Baptism of Fire

Baptism ئگی کے بعد بچہ مکمل�د�یک عیسائی رسم ہے ..... جس کی �یا بپتسمہ

عیسائی بن جاتا ہے۔ کچھ �سی طرح کی رسم برہمنوں میں بھی ہوتی ہے جسے دھاگے کی رسم، یا

کہتے ہیں ..... �س رسم میں برہمن بچہ کو زنا رThread Marriage جنیؤں کی رسم یا

پہنایا جاتا ہے �ور گرہیں لگائی جاتی ہیں ..... کمار صاحب نے گرہ دینے کے �نہی لمحات جنیؤ یا

کو �پنی نظم میں جامد کر دیا ہے ......�نھوں نے �یک �یک گرہ کو �یک نیا مفہوم دیا ہے .... وہ

خاند�نی رسم کی �د�ئیگی کے لئے مجبور ہیں .....لبوں پر منتروں کا جاپ ہے لیکن دل شیلا کے

جوبنوں میں کھویا ہو� ہے .... �ن تینوں گرہوں کا مطلب ہے ضبط نفس، تیاگ �ور ہمدردی ......

لیکن دیکھئے شاعر �ن تین گرہوں کو کس طرح محسوس کر رہا ہے .... پہلی گرہ ضبط نفس کی ہے۔

لیکن شاعر کہتا ہے۔

Page 18: Bain Us Sutoor بین السطور

(یہ رہی زنار کی پہلی گرہ )یہاں کاتب نے غلطی سے سالگرہ لکھ دیا

جوئے خوں میں رو�ں

شیروں کو لگام دے کر

یہ تمہیں لے جائے گی

آ�فاق کے کناروں تک بحر

آ�تی ہے جو تیاگ کی ہے �ور شاعر سوچتا ہے پھر دوسری گرہ کی نوبت

ہی کیا ہے مگر �ب میرے پاس رہا

پیش کرنے کو

میں خود عشق پیچاں کی طرح

آ�پ ..... لپٹ گیا ہوں �پنی نال سے

کی ہے ..... جس کے لئے شاعر کہتا ہےی�ور پھر تیسری گرہ ہمدرد

آ�گ سدھا نے و�لے �ور

کاش کہ تو میری حسرتوں کو سمجھتا

میں نے کبھی چاہا تھا

قزح پر جھول جاؤں �فق تا �فق قوس و

لب ساحل نہنگوں کے ساتھ دھوپ سینکوں

Page 19: Bain Us Sutoor بین السطور

کشمیر کی بلند وسعتوں کے پار �سپان تازی کا تعاقب کروں یا

�ور حسرت بھرے لہجے میں شاعر کے یہ �لفاظ سننے و�لوں کے ذہن میں ہمدردی کی �یک لہر

بید�ر کر دیتے ہیں ....... لیکن شاعر کو صرف رسم کے ختم ہونے کا �نتظار ہے �ور جب رسم ختم

........ہوتی ہے تو

پڑتا ہوں �ور دوڑ

�سی چاند سے چہرے کی جانب

کے تلے آ�م کے پیڑ

تاکہ کھول دوں ساری گرہیں زنار کی

جاتی ہے .... �یک بولتا ہو� �یک عجیب سا سناٹا چھوڑ یہاں نظم �ختتام پذیر ہوتی ہے۔ �ور �ور

سناٹا جو شاعر کی بقیہ �ن کہی باتوں کو دہر� رہا ہے کہ۔ پہلی گرہ ضبط نفس کی کھولوں �ور شیلا

جاؤں ، تیاگ کی دوسری گرہ کھولوں �ور �س نوجو�ن تنفس کی گرمی حاصل کر کے جوبنوں میں کھو

تیسری گرہ ہمدردی کی کھول کر شیلا کے ساتھ قوس قزح پر جھولوں .....! یہ سب کمار لوں �ور

صاحب نے نہیں کہا لیکن کچھ �س طرح یہ نظم ختم ہوتی ہے کہ �یک �یک لفظ قاری کے ذہن پر

نازل ہونے لگتا ہے۔ �یک �یک گرہ کھلنے لگتی ہے �ور قاری کمار صاحب کے ہمر�ہ مفہوم کے �سپان

......تازی کے تعاقب میں نکل پڑتا ہے

�گر �س مجموعہ کی تمام نظموں کا �حاطہ کیا جائے تو بجائے خود �یک کتاب تیار ہو سکتی

صاحب کے موضوعات بندھے ٹکے نہیں ہیں۔ �ردو شاعری ہے ہے۔ لیکن یہ کہنا ناگزیر ہے کہ کمار

آ�شیاں کے فرسودہ موضوعات �ن کے ہاں نہیں۔ وہ زندگی کی ہمہ بلبل، برق و رقیب، گل و محبوب و

Page 20: Bain Us Sutoor بین السطور

جہتی کیفیات کو، رنگینیوں کو تلخیوں کو �ور کرب کو محسوس بھی کرتے ہیں �ور �نہیں لفظوں

کے روپ میں دینے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ بچپن کی معصوم و�دیوں سے نوجو�نی کی سنگلاخ چٹانوں

آ�تے ہیں لیکن کتنے ہمیں جو �ن کے سفر کے دور�ن کئی �ہم و�قعات ہر شخص کی زندگی میں

کے لئے ہر شاعر تجربات کو شعری سانچے میں �س ندرت کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں ......!

آ�نے و�لی چیز �یک موضوع کس طرح بن سکتی ہے �س کا �یک نمونہ ہمیں کمار صاحب کی نظر

آ�تا ہے تاج محل دیکھ کر تو ہر �یک کا جی چاہے گا کہ وہ نظم کہے لیکن قحبہ شاعری میں نظر

و عورت کو دوپہر کے وقفہ میں �پنے بچے کو دودھ پلاتے دیکھ درخانے کے تلخ تجربے پر یا م

آ�نے و�لے ہجڑے یا بھٹکتی ہوئی گائے یا عد�لت یا گنگا کے گھاٹ پر نظم کہنا کر یا سڑک پر نظر

کو نظم کا روپ دیتے ہیں ... موڑ �ہم ہر �یک کے بس کی بات نہیں۔ کمار صاحب زندگی کے ہر

�ہم چیز بھی �ہم بن کر نظم کا موضوع بن جاتی ہے۔ کمار صاحب کی نظمیں �ن کے ہاں بظاہر غیر

پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار �سی لئے عظیم ہوتا ہے کہ �س کی سوچ کا تعاقب کرنا ممکن

نہیں .... �ور جب قاری تخلیق کار کے تعاقب میں نکلتا ہے تو ر�ہ میں �س کے چھوڑے ہوئے

نشان نظم یا شعری صورت میں ر�ستہ روک لیتے ہیں ..... کما ر صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ

زنار بندی کی رسم میں شیلا کے جوبنوں کا تصور کر سکتے ہیں �ور قحبہ خانے میں �نھیں �نکوبیٹر

آ� جاتی ہے ... بظاہر یہ �یک تضاد محسوس ہوتا ہے لیکن شعور کی رو میں ہانپتے ہوئے بچے کی یاد

پر کون پہرے لگا سکتا ہے ؟

آ�سمانوں تلے ‘‘ ہمیں کمار �س کتاب کا دوسر� آ�نکھوں سے کرہ حصہ ’’�جنبی صاحب کی

�رض کے �س حصہ کی سیر کر�تا ہے جو متمدن کہلاتا ہے .... �یک دوڑتی ہوئی �مریکی لڑکی کو

دیکھ کر کمار صاحب کی رگ شعری پھڑک �ٹھتی ہے .... کبھی وہ ٹریفل گر �سکو�ئر کے کبوتروں

کو گٹھیا میں مبتلا پاتے ہیں .... وہ کبھی ہتھ رو�یرپورٹ پر ہونے و�لے �حتساب کو لفظوں کا پیر�ہن

Page 21: Bain Us Sutoor بین السطور

دیتے ہیں تو کبھی �یک یاد کی شکل میں �نہیں وہ دن گھیر لیتے ہیں جب وہ کیمبرج سے فارغ

�لتحصیل ہونے کے بعد لندن کی سڑکوں پر �شتہار �س تعفن سے نجات نہیں دے سکتے جو �پنے

آ�نے سایوں سے بھاگتے �نسانوں کے پسینے سے پید� ہو رہا ہے .... زنار بندی کی رسم میں یاد

آ�تی ہے ..... �وکلا ہاما یونیورسٹی میں ہونے و�لے و�لی شیلا �نہیں کسی �ور روپ میں پھر سے یاد

رہی ہے .... وہاں شاعر کسی �ور خیال میں گم ہے �ور پھر شاعری کی شیکسپیر کے فن پر بات ہو

آ�غوش کے نظریں �یک گوشہ میں جا پڑتی ہیں جہاں لکۂ �بر کے سایہ کا �نتظار کئے بغیر لذت

لمحے چر�ئے جا رہے ہیں ..... �یک �ور �ہم بات ....�نگریزی کے مشہور شاعر کیٹس کے ہاں فینی

آ�تے ہیں لی، عذر� �ور ریحانہ کے کرد�ر نظر یا �ردو کے رومانیت پسند شاعر �ختر شیر�نی کے ہاں سلم

�ور �ن شعر� نے �ن کرد�روں کو �پنا محور بنا کر �ظہار کو قوت بخشی تھی...... کمار صاحب کے

آ�پ ہے �س کرد�ر کے پردے یہاں بھی �یک کرد�ر ہے .....سیلا کا کرد�ر.... یہ کرد�ر �پنی مثال

میں کمار صاحب نے �پنا دل کھول کر رکھ دیا ہے �ور یوں �ن کا �ظہار بے حد طاقتور بن جاتا ہے۔

آ�فرینش صرف چھ نظموں سے مزین ہے’’ آ�سمان میں کمیں گاہیں ‘‘ کا سب سے �ہم حصہ

آ�زمائی کی ہے .... د�نتے آ�فاقی موضوع پر کہی گئی ہیں جس پر ہر بڑے شاعر نے طبع �ور یہ چھ �س

کی ڈیو�ئین کامیڈی ہو یا �قبال کا جاوید نامہ، شاعر نے عبد �ور رب کے تعلق کو ہمیشہ سے سمجھنے

کی کوشش کی ہے .... کمار صاحب نے �ن نظموں میں �یک بہت دلچسپ پیر�یہ �ختیار کیا

آ�دم �ور میلاد حو� میں خد� کی خود کلامی ہے۔ تیسری نظم میں سانپ کی شکل میں ہے .... میلاد

آ�گہی کی طرف بڑھتے آ�دم حو� سے مخاطب ہو کر شیطان حو� سے مخاطب ہے۔ چوتھی نظم میں

آ�دم کو جو�ب دے رہی ہے �ور پھر چھٹی ہوئے فنا ہو جانے کی تمنا کرتا ہے۔ پانچویں نظم میں حو�

آ�دم �ور حو� کو زمیں پر پھینک دیا نظم خد� کی خود کلامی کی شکل میں ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب

گیا ہے۔

Page 22: Bain Us Sutoor بین السطور

مندرجہ بالا سطور میں صرف موضوعات کا �حاطہ کیا گیا ہے۔ یہ مناسب نہیں کہ یہاں کمار

صاحب کے فن پر بہت زیادہ تفصیل سے بات کی جائے۔ شاید �نگریزی نظموں کا تجزیہ کرتے ہوئے

یوسف کمال نے �ردو کے سکتی ہے۔ یہ نظمیں ڈ�کٹر ہی �ن نظموں کے محاسن پر روشنی ڈ�لی جا

قالب میں ڈھالی ہیں �س لئے صرف ترجمہ شدہ متن پر ہی بات کی گئی ہے۔ ترجمہ کرتے ہوئے

آ�تی ہے جب وہ نظم کا ترجمہ کر رہا ہو۔ کیونکہ نظم کا معاملہ مترجم کو سخت مشکل �س وقت پیش

�ور دوچار دوسرے علوم پر مبنی مقالے کی طرح کا نہیں ہوتا کہ �س میں دو کسی سائنسی مضمون یا

یو�ن�کی طرح کی بات ہو .... نظم میں تو شاعر علامتوں، �ستعاروں، تلمیحوں �ور تشبیہوں سے �پنے

سجاتا ہے �ور �ن کے ذریعہ موضوع پر �پنی گرفت کو مضبوط کرتا ہو� قاری کے ذہن تک رسائی حاصل

کرتا ہے .... تخلیق کا ر جب کسی زبان میں �پنے خیالات کو پیش کرتا ہے تو وہ �س زبان کی وسعت

کا سبب بنتا ہے۔ وہ �پنی تخلیق کو پیش کرنے کے لئے جن لفظوں کا سہار� لیتا ہے وہ �پنے لغوی

مفہوم سے ہٹ کر بہت کچھ کہتے ہیں .... �ور لفظوں کی �س گنگناہٹ کو صرف �سی زبان میں

سننا ممکن ہے جس زبان میں تخلیق کی گئی ہو ..... �گر تخلیق کو دوسری زبان میں منتقل کیا

جائے تو بڑ� مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ تشبیہات، محاورے ، علامتیں �ور �ستعارے بجنسہ پیش نہیں کئے

جا سکتے کیونکہ یہ عناصر زبان کے تہذیبی سرمایہ سے مربوط ہوتے ہیں �ور ہر زبان کا تہذیبی سرمایہ

مختلف ہوتا ہے۔ �سی لئے کسی شہ پارہ کو دوسری زبان میں منتقل کرنا ہو تو �سے گوں ناگوں

مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نظر کیا جاتا ہے۔ مقدس �س لئے کہ �س ترجمہ �یک مقدس گناہ ہے جو عو�می مفاد کے مد

تبلیغ کی جا سکتی کے ذریعے �نسانی جذبات، تجربات �ور �فکار کی بڑے پیمانے پر تفہیم تحسین و

ہی عمدہ کیوں نہ ہو �صل مفہوم کے ساتھ �نصاف نہیں ہے �ور گناہ �س لئے کہ کوئی ترجمہ خو�ہ کتنا

تک �ختلاف کرنے کی گنجائش یوں پید� ہو جاتی ہے کہ ہمارے کر سکتا۔ �س خیال سے کچھ حد

Page 23: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�سمان میں کمیں گاہیں ‘‘ موجود ہے جہاں مترجم نے �س بات کی بھرپور کوشش کی ہے سامنے ’’

آ�تی کہ �صل متن کے ساتھ �نصاف کیا جائے۔ در�صل تخلیق سے ترجمہ تک سفر میں کئی منزلیں

ہیں۔ پہلے تو �صل متن کی زبان پر �ور ترجمہ کی جانے و�لی زبان پر عبور بے حد ضروری ہے۔ پھر �صل

متن کی تفہیم بھرپور �ند�ز سے �ور مختلف جہتوں سے ہونی چاہئے �ور وہ بھی �س طرح کہ شاعر کے

فی �لضمیر تک رسائی ہو سکے۔ پھر شاعر کے �سلوب کا �در�ک بھی ضروری ہے �ور تب عمل شروع ما

ثانی کرنے �ور دوسرے ماہرین سے تبادلۂ خیال کے بعد ہوتا ہے ترجمہ کا ...... �ور پھر کئی بار نظر

)ہی ترجمہ �س قابل ہو سکتا ہے کہ �سے پیش کیا جا سکے۔ یوسف کمال �س سارے عمل

Process )نہ قدرت�نگریزی زبان پر بھی ماہر�ردو پر تو عبور ہے ہی وہ �نھیں �سے گزرے ہیں۔

کا ترجمہ Trap falls in the sky رکھتے ہیں ..... �ور �سی لئے جب �نھوں نے

آ�سمان میں کمیں گاہیں ‘‘ کے نام سے کیا تو تفہیم کے �ہم مرحلے کو �نھوں نے رو� روی میں ’’

طے نہیں کیا۔ �نہوں نے �یک �یک لفظ پر محنت کی �ور تب ترجمہ کی �یک شکل بنی۔

ترجمہ کے ساتھ �یک �ور مشکل ہوتی ہے۔ مصنف کی حیثیت کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ وہ

جاہل ہو.... لیکن مترجم جاہل نہیں ہو مبتدی ہو سکتا ہے ..... �س بات کا بھی �مکان ہے کہ وہ نر�

میں رکھنا ضروری ہوتا ہے �س لئے جہالت تمام جہتوں کو نظر سکتا �ور نہ ہی مبتدی ..... �سے تو

کا سو�ل ہی نہیں پید� ہوتا۔ یہاں بصیرت کی بے پناہ ضرورت ہوتی ہے۔ کمال صاحب کے لئے یہ

بات بھی �یک مسئلہ تھی کہ مصنف خود �یک مستند عالم ہے .... لفظ کے مختلف پہلوؤں سے

و�قف ہے .... �س کے ہاں لفظ کی رو�یتی سطحیں بھی ہیں �ور �س کی �پنی تر�شیدہ جہتیں بھی

موجود ہیں �ور �سی لئے یوسف کمال کے لئے کچھ زیادہ ہی مشکل درپیش تھی �ور کسی نے کہا

ہے۔

جن کے رتبے ہیں سو�، �ن کو سو� مشکل ہے

Page 24: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�سمان میں لیکن یوسف کمال نے �س مشکل کو جس خوبی سے حل کیا ہے �س کا �ند�زہ تو ’’

کمیں گاہیں ‘‘ کا مطالعہ کر کے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ مترجم کا فرض ہے کہ وہ مصنف یا شاعر

کے عندیے کا �حتر�م کر کے �ور �سے ضائع نہ ہونے دے۔ یوسف کمال نے �س بات کو پوری طرح

ملحوظ رکھا ہے کہ نہ صرف کمار کے شعری رویہ کو محفوظ رکھا جائے بلکہ ساتھ ہی ساتھ �نہوں نے

�نگریزی زبان کی شعریت کو �ردو کی مترنم شعریت میں �س طرح منتقل کیا ہے کہ یہ نظمیں ترجمہ کی

گئی ہیں۔ �س کا کریڈٹ خود کمار صاحب کو بھی جاتا بجائے خود تخلیق کا درجہ حاصل کر

ہے ....... �س لئے وہ �ردو شاعری سے بہت قریب ہیں۔ فیض �ور غالب کے مد�ح �ور مترجم ہونے

کی وجہ سے �ردو شعری رو�یات سے کماحقہ و�قف ہیں �ور �ن کی �نگریزی شاعری میں بھی کہیں

آ�تا ہے۔ یوسف کمال نے �ن سارے مقامات کو �پنی گرفت کہیں �ردو مز�ج سر نکال کر جھانکتا ہو� نظر

صاحب کے ذہن کو نہایت کامیابی کے ساتھ �ردو کے قالب میں منتقل کر دیا۔ میں لیا �ور کمار

فی �لضمیر سے �نحر�ف کی صاحب نے بھی �س ترجمہ کو خود دیکھا ہے �س لئے ما چونکہ کمار

گنجائش کم ہی ہے۔

آ�سمان میں کمیں گاہیں ‘‘ کے بارے میں صرف �تنا عرض کر دینا کافی ہے کہ آ�خر میں ’’

کہ وہ نہیں پڑھ سکتا، یا جسے یہ �حساس ہو Trap falls in the sky جو �نگریزی میں

جسے �نگریزی کتاب ملی ہی نہ ہو وہ �گر تحسین سے قاصر ہے یا �نگریزی شاعری کی بخوبی تفہیم و

اا �س لطف و آ�سمان میں کمیں گاہیں ‘‘ پڑھ لے تو یقین �نبساط کو محسوس کر سکتا ہے جو �سے ’’

�نگریزی نظموں کو پڑھتے ہوئے حاصل ہو� ہوتا.... ! �نگریزی مجموعہ کے لئے تو کمار صاحب کو

ہ �کیڈیمی نے �نعام سے نو�ز� �ور �س کی قدر کی..... کاش �ردو ترجمہ کو بھی �س کایساہت

......!!!مستحقہ مقام مل جائے

-------------------------٭٭-------------------------

Page 25: Bain Us Sutoor بین السطور

آافاقیت اور ادب

لی درجہ کا حامل قر�ر مفکرین عالم نے �دب کو دیا ہے۔ فن لطیف فنون لطیفہ میں سب سے �عل

�حساسات کے مستحسن �ظہار کا نام ہے۔ چنانچہ �دب کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کہیں وہ

ر�ہ سے ہٹ تو نہیں رہا۔ لیکن �دب کے ساتھ یہ دشو�ری رہی ہے کہ �سے ہمیشہ مختلف عینکوں

سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ �دب کی �فادیت کی پیش نظر جب یہ محسوس کیا گیا کہ �دب، �نسانی فکر پر

آ�لۂ کار بنا لیا �ور �پنے مقاصد کی تکمیل کے لئے �ند�ز ہو سکتا ہے تو مختلف تحریکوں نے �سے �پنا

�دب کو �یک ہتھیار کے طور پر �ستعمال کرنے لگے۔ ’’کبھی فن بر�ئے فن‘‘ کے نظریے نے �تنی

سخت گیری �ختیار کی کہ سماج بے معنی ہو کر رہ گیا۔ زندگی �ور �س کے تجربات پش پشت ڈ�ل

تفریط کا شکار ہو گیا۔ مقصد کی دیئے گئے۔ دوسری طرف ’’فن بر�ئے زندگی‘‘ کا نظریہ بھی �فر�ط و

کی سرحدوں میں د�خلےپروپگنڈتکمیل کے لئے �دب کا �ستحصال کرنے و�لوں نے تخلیق کو

کر دیا۔ سماج کی معنویت سے صرف نظر کر کے �پنے نظریات کی تبلیغ کے لئے �قد�ر حیات کو

کر�نا�در�کبھلا دیا گیا۔ جب جہت �ور سمت جاتی رہی تو بے سمتی کے �حساس نے �پنے وجود کا

چاہا۔ �ور وجودی فلسفہ کی گھن گرج نے �دب کو �پنی لپیٹ میں لے لیا۔ �ور پھر ترقی پسندی �ور

جدیدیت کے درمیان جو مناظرے ہوئے �ن میں �یک ہی بات کو کئی طریقوں سے کہہ کر صفحات

سیاہ کئے گئے۔

Page 26: Bain Us Sutoor بین السطور

جب ہم سماج کی بات کرتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ سماج تو �نسان کے لئے ناگزیر

ہے ..... لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ �س کی کچھ �پنی قدریں ہوتی ہیں .... �س کے پیچھے

رو�یات کا �یک تسلسل ہوتا ہے �ور بقول ڈ�کٹر �حمد سجاد۔

�دب کو سماج میں رہ کر �پنی ر�ہ بنانی پڑتی ہے۔ وہ کارو�ں کے ساتھ بھی ہوتا ہے �ور کارو�ں کی’’

‘‘رہبری بھی کرتا ہے۔

جہاں ہر سماج کی �پنی قدریں ہوتی ہیں وہیں کچھ قدریں �یسی ہیں جو ہر جگہ مساوی

آ�ز�دی، ہمدردی، حسن، صد�قت خیز ......یعنی ہر سماج طور پر �ہمیت کی حامل ہیں ..... جیسے

آ�فریدہ ہے �س لئے �دب میں بھی سمت �ور کا �یک متعین رخ ہے �ور چونکہ �دب �نسانی زندگی کا

جہت کا ہونا �زبس ہے۔ بے سمتی �ور لادینیت کی فضاء میں �دب تخلیق نہیں ہو سکتا۔ ہاں لفظوں

بن سکتا ہے۔ جدیدیت کا لبادہ �وڑھ کر ہمارے د�نشوروں نے جو �دب تخلیق کا گورکھ دھندہ ضرور

آ�یا کہ تفہیم کا سر�ہی نہ مل سکا۔ جب �دب میں ہپی �زم د�خل ہو تو کیا �س میں �بہام �س حد تک در

�س کا نتیجہ بھی ظاہر تھا....... نہ رشتے باقی رہے نہ محبت کا معیار .....درون خانہ گفتگو �ور

بستر کی ہر شکن باز�ر تک پہنچ گئی .....سورج کو مرغ کی چونچ میں لٹکا کر دن �ور ر�ت کا تعین

میں �یساردو صرف �س بات پر ہونے لگا کہ کھڑکی کے پردے کھینچ دیئے جائیں .......!لیکن ہر

آ�پ بلا تکلف چھوٹوں �ور بڑوں کی محفل میں پیش �دب بھی ملتا ہے جو صالح ہے .....جسے

کرتے ہوئے حجاب محسوس نہیں کرتے ......یہ وہ �دب ہے جسے کبھی زو�ل نہیں وجہی و

مومن پھر ترقی پسند شعر�ء �ور پھر جدیدیت کے مصحفی، میرو سود�، غالب و غو�صی، �نشاء و

علمبرد�روں کے کلام کو چھان پھٹک کر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہر وہ شعر جس میں

آ�نچ ہے .......جس میں تجربے کی کسک ہے ....... جس میں �حساس کی فر�و�نی زندگی کی

تذکروں کے ین کی زینت ہیں یاو چیزیں صرف دو�معام ہے۔ باقی تما ہے .......وہ زبان زد خاص و

Page 27: Bain Us Sutoor بین السطور

بڑے شاعر تسلیم کئے پر وہ متفقہ طور صفحات میں گم ...... ! �بھی جن �ساتذہ کا ذکر کیا گیا

گئے ہیں لیکن �ن کی ساری کی ساری شاعری قابل �عتبار نہیں سمجھی گئی۔ صرف وہی �شعار قبول

عام کی سند حاصل کر سکے جن میں �نسانی جذبات کی بھرپور عکاسی تھی......وہی تخلیقات

آ�فاقی فکری عنصر موجود تھا۔ پسند کی گئیں جن میں �یک

دور میں �یک خاص نہج سے جو �دب تخلیق ہو�، �س ساری گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ہر

�س میں وہ بات موجود تھی جو �نسانی فکر کو مہمیز کرتی ہے۔ یہ �دب صرف �سی دور کے لئے

دور کے لئے تھا �ور ہے۔ یہی فکر کو مہمیز کرنے و�لا �دب �پنے �ندر محدود نہیں تھا۔ یہ �دب ہر

آ�فاقیت آ�فاقیت ہی �سے لازو�ل �ور زندہ جاوید بناتی ہے۔ جس �دب میں آ�فاقیت لئے ہوئے ہے �ور یہ

نہیں وہ وقت کی پید�و�ر ہے �ور وقت کے ساتھ ہی دھند لا جاتا ہے۔ لیکن صرف مقصد �ور فکر ہی

سب کچھ نہیں ....... �ور نہ ہی صرف فن �دب �نتہا ہے جب تک �ن دونوں میں تو�زن نہیں ہو گا،

آ�فاقی �دب کے لئے �فر�ط و تفریط نہیں بلکہ تو�زن کی ر�ہ چاہئے �ور یہی وہ آ�فاقیت پید نہیں ہو گی۔

.... !!!ر�ہ ہے جس پر گامزن ہو کر �دب لافانی ہو سکتا ہے

Page 28: Bain Us Sutoor بین السطور

حال صورت ادبی

و فکر کی �ردو کے �یک �ہم نقاد ڈ�کٹر �حمد سجاد نے �دب کی موجودہ صورت حال پر غور

دعوت دیتے ہوئے تحریکات �ور رجحانات کے پس منظر میں کچھ سو�لات �ٹھائے ہیں ...... �ن کا

طاری ہے۔ �شتہار�ت )پروپگنڈہ(، �جتماعات �ور کہنا ہے کہ �دھر کچھ دنوں سے �فق پر جمود سا

دہریت کے خلاف جدیدیت کے رجحان نے ناو�بستگی کو �پنایا.....پھر علامتی �ور �ساطیری �ظہار نے

جگہ پائی...... لیکن �ب بھی �دبی مسائل جوں کے توں ہیں۔

یہ بات صحیح ہے کہ ہمارے ناقدین �ور تخلیق کار بے سمتی �ور بے یقینی کا شکار ہو گئے

ہیں۔ �س زمرے میں محقق کو شامل رکھا جا سکتا .... �س لئے کہ محقق کا منصب یہ نہیں ہے

حقائق کھوجتا ہے۔ گمشدہ کڑیوں کو کہ وہ �دب کی جہتوں کو متعین کرنے میں معاون ہو۔ وہ تو

معلوم کنے کی کوشش کرتا ہے �ور بس۔

ہمارے ناقدین کا �لمیہ یہ ہے کہ �نہوں نے جب فکری سطح پر �دب کو پرکھنے کی کوشش

کی تو مختلف �لنوع تصور�ت میں �یسے �لجھے کہ نتیجہ بے سمتی کی شکل میں ظاہر ہو�.....

جسے جدیدیت سے تعبیر کیا گیا۔ کر کے گارڈ �ور سارتر جیسے وجودی فلسفہ کے ناخد� کشتی کو

ریخت کا �یک موجوں کے حو�لے کر گئے۔ عدم و�بستگی نے فروغ پایا تو قدروں کی شکست و

کیجئے تو جدیدیت کا وہ رجحان جس پر عدم و�بستگی غریب سلسلہ شروع ہو�۔ لیکن �گر غور عجیب و

�صل میں خود بھی �یک طرح کی و�بستگی ہے ..... عدم و�بستگی کے نظریہ سے غالب ہو

Page 29: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ئی کہ بہرحال و�بستگی �ز بس ہے۔ رہیں علامتیں تو �ن کا و�بستگی.....! �ور پھر یہ بات سامنے

محور بھی �یک کھونٹ تک سفر کرتا رہتا ہے۔ �ور یوں علامتیں بھی مختلف زمروں میں تقسیم ہو کر رہ

گئیں۔ جہاں تک �ساطیریت کا تعلق ہے ، دلچسپ بات یہ ہے کہ �ساطیر کا مذہبی رو�یات سے گہر�

تعلق ہے ..... چاہے وہ یونانی دیومالاؤں سے ماخوذ ہوں یا ہندوستانی دیومالاؤں سے ، �ن پر عہد نامۂ

آ�ن کی جھلکیاں دکھلائی دیں ....... �یسے کرد�ر چنے جاتے ہیں جو قدیم کا پرتو ہو یا قصص �لقر

سے �ہم کہے جا سکتے ہیں۔ غرض مدعا یہ ہے کہ �دب کی کوئی بھی سمت کسی نہ کسی �عتبار

ہو، �س میں علامتیں ، �ستعارے ، �ساطیری �ند�ز سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ مقرر

تخلیق کار چپ رہے۔ وہ �پنے کرب کو چھپا نہیں سکتا کبھی کبھی جھلاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے جو

کی تہذیب کی جائے تو پھر یہ جھلاہٹ بھی فلاحی رخ �ختیار �یک فطری بات ہے .....لیکن �گر فکر

کر سکتی ہے۔

�نسان کسی دور میں مشینی نہ تھا......؟ پتھر کے زمانے سے لیکر کمپیوٹر کے دور تک

طبقہ مشینی رہا ہے۔ �ور مشینی زندگی کو �دب سے کیا سروکار ....؟ زندگی کی �نسانوں کا �یک بڑ�

یہاں نہ �لجھتی ہے نہ سلجھا نے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ بس جس حال میں ہیں جئے ڈور

جا رہے ہیں۔ کسی دیہات میں نکل جایئے ، کسی بھی شہر پر نظر ڈ�لئے ......ہز�رہا �نسان �یسے

آ�ئیں گے جن کا مقصد صرف زندہ رہنا ہے ..... �ن کے پاس کوئی خو�ہش �ور نہ کوئی عزم .... نکل

... �صل میں �نہیں کسی نے روشنی بتلائی ہی نہیں .... وہ جانتے ہی نہیں کہ فلاح کیا ہے ....

درد کس طرح محسوس کیا جا سکتا ہے �ور �س میں شامل �نہیں یہ بھی علم نہیں کہ دوسرے کا

آ�پسی یگانگت کو کیونکر فروغ کیسے ہو� جا سکتا ہے ....روز و شب کے مشینی عمل کے درمیان

دیا جا سکتا ہے .....�رتکاز فکر کیوں کر ممکن ہے .... �ن سو�لات پر بیشتر �نسانوں نے نہ غور کیا

�ور نہ ہی مشینی عمل نے �نہیں غور کرنے کی فرصت دی۔ وہ کچھ نہیں جانتے۔ �س لئے بھی کہ

Page 30: Bain Us Sutoor بین السطور

�نہیں کسی نے بتلایا ہی نہیں۔ نقاد �دیب کو پڑھتا ہے �ور �دب کو �یک سمت دینے کی کوشش کرتا

آ�پ میں �س قدر گم ہوتا ہے کہ �سے عام �نسان کے قریب جانے یا ہے �ور بعض �وقات �دیب �پنے

�سے سمجھنے کی طرف توجہ دینے کا خیال ہی نہیں رہتا۔ نتیجہ یہ کہ وہ �س شخص کے بارے

کیت سے بغل گیر ہوتا ہے تو�میں نہیں سوچتا جو �س کے تخلیق کی روح رو�ں ہے۔ وہ کبھی �شتر

کبھی وجودیت کو گلے لگا کر یہ سوچتا ہے کہ شاید �سی میں نرو�ن ہے۔ لیکن حقیقی نرو�ن تو�سی

لی ترین �قد�ر کو �پنائے �ور نہ صرف �پنا ئے بلکہ �نہیں قلم کے ذریعہ وقت ممکن ہے جب �دیب �عل

عام �نسانوں �پنے قاری �ور سامع تک پہنچائے ..... �نہیں بتائے کہ صحیح �قد�ر حیات کے ساتھ

جینے کا نام ہی زندگی ہے۔

جہاں تک ہیئتوں کا تعلق ہے یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ہیئت کے پیچھے لٹھ لے کر

آ�ز�د غزل ہو یا نثری نظم.....�ن دوڑنے سے کچھ حاصل نہیں .....�ینٹی پوئٹری ہو یا �ینٹی �فسانہ،

کر نئے �فق بندیوں کو توڑ سب میں �یک بات تو مشترک ہے �ور وہ یہ ہے کہ فن کار مروجہ فنی جکڑ

تلاش کرنا چاہتا ہے۔ �س میں کوئی خر�بی نہیں۔ ہیئت �ہم نہیں ہوتی .....موضوع �ہم ہوتا ہے۔ محض

لی �دب نہیں .....موضوع کی �نفر�دیت �ور �س میں پیش مسجع و قافیہ پیمائی یا لی کلام ہی �عل مقف

لی �دب کی سطح تک پہنچانے میں معاون ہو سکتی ہیں۔ پابند غزل میں کیا کردہ قدریں ہی �س کو �عل

بھر کر �ظہار کچھ نہیں ہو�۔ کس کس طرح جسم کی �یک �یک پور، �یک �یک مسام پر چٹخارے بھر

خیال ہو�۔ تو یہ نہیں ہے کہ ہیئت ٹوٹنے سے قدریں بھی ٹوٹ جائیں گی۔ یہ دیکھنا ضروری ہو گا کہ

کیا کہا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ کون سا سانچہ �ستعمال ہو� ہے۔

یہ بات بھی بالکلیہ درست نہیں ہے کہ �س عہد کے قلمکار �ور �دیب کا رشتہ معاشرے �ور

آ�ج کا فنکار �پنے معاشرے �ور تہذیب کے بارے تہذیب سے منقطع ہو رہا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ

ہے۔ یہ �ور بات ہے کہ فکری �نحطاط پذیری کی وجہ سے بے سمتی �ور بے میں زیادہ سوچنے لگا

Page 31: Bain Us Sutoor بین السطور

لی قدروں کے بغیر �دب کا سفر جاری آ� گئی ہے۔ لیکن �یک طبقہ ہے جو یہ سوچتا ہے کہ �عل یقینی

نہیں رہ سکتا۔ �سے یہ �حساس ہو گیا ہے کہ عظیم �دب وہی ہے جو نصب �لعین رکھتا ہو۔ محبوبہ کے

دینے و�لے �دب سے لے کر شور شر�بے ، آ�سمان کے قلابے ملا �نگ �نگ کی تعریف میں زمین و

ھرنڈ �ورک�شتہار بازی �ور �نقلاب زندہ باد کے نعروں تک کا �دبی سفر �ور خون کی بارش، بارود کے

جنگوں کی دہشت ناکی سے لے کر بے چینی، بے یقینی �ور بے سمتی تک کی ذہنی قلابازیاں

آ�تی رہیں۔ لیکن ہر چیز جب �نتہا کو پہنچی تو پھر شکست کا شکار کچھ عرصہ تک تو تابناک نظر

شکن چیخنے بام کیا کہ بستر کی ہر ہوئی۔ وجودی طرز فکر نے �زدو�جی تعلقات کو یوں طشت �ز

جانے کا ماتم کیا جانے لگا۔ علامتوں رنے سے پہلے سگنل کے گرزلگی..... �ور گاڑی کے گ

نے مرغ کی چونچ میں سورج لٹکا دیا۔ لیکن ہر دور کے �دب میں �یک چیز مسلسل متحرک رہی ہے

لی نصب �لعین، سچائی، ہمدردی، محبت..... یہ و �ور وہ ہے مطہر جذبہ، روحانی �قد�ر، بلند �عل

فنکار سے دور نہ ہو سکے۔ یہ �ور بات ہے کہ باضابطہ �ند�ز میں جذبات کسی بھی دور میں �دیب و

�س بارے میں نہیں سوچا گیا۔ �صل میں یہ �حساس �دیب �ور شاعر کے ذہن میں ہمیشہ جاگزیں رہا

ہے کہ بے سمتی میں بھی �یک سمت ہے ..... وہ و�ضح �ند�ز میں �س بات پر سوچ نہ سکا .....

لی قدروں کا �حتر�م ضرور کرتا رہا۔ ہو� میں چپو چلانے کی کوشش �س لئے تھی کہ لیکن درون ذہن �عل

آ� رہی ہیں ...دھیرے دھیرے معاشرہ کروٹ لے رہا ہے پیروں تلے زمین ہی نہ تھی۔ لیکن �ب تبدیلیاں

....زمین �نگڑ�ئیاں لے رہی ہے �ور �دیب و�ضح �ند�ز میں یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کشتی کے لئے

نہ سمت باقی ہو گی۔ �ور پھر یہ طوفان لنگر ضروری ہے ..... بادبان ناگزیر ہیں ورنہ نہ روک رہے گی �ور

حیات کے پرخچے �ڑ� کر رکھ دے گا۔بدتمیزی کشتی

کاری یا جدید �دبی نظریات یہ خیال بالکل لایعنی معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی نظریات کی پیوند

لی تخلیق ممکن ہے۔ گویا ہم نے تخلیق کو بھی مشینی بناGRAFTING کی گر�فٹنگ سے بھی �عل

Page 32: Bain Us Sutoor بین السطور

آ� گئی....�فسانہ بن گیا.....!! لیا۔ کمپیوٹر کے بٹن دبا دیئے ....غزل تیار ہو گئی...نظم وجود میں

حسابی فارمولہ نہیں �صل میں تخلیقی عمل کا کوئی طریقہ کار متعین نہیں ہوتا۔ یہ سائنس کا فارمولہ یا

ہے کہ �سے �ستعمال کر کے �دب تخلیق کیا جا سکے۔ فن فارمولے پر نہیں بلکہ جہت پر �نحصار

کرتا ہے ...نصب �لعین پر �نحصار کرتا ہے .....پھر یہ بھی ہے کہ سائنسی نظریات نے نصب �لعین

لی �نسانی �خلاقی �قد�ر پر کبھی ضرب نہیں کی تکذیب کبھی بھی نہیں کی۔ سائنس نے �عل

لی �قد�ر کی توثیق کرتی ہے ...... صرف سمجھنے کا ڈھنگ بدلنے کی لگائی .... سائنس تو �عل

آ�یئے مذہبی �قد�ر کی طرف...... کیا کوئی مذہب �یسا ہے جہاں بر�ئی کو، جھوٹ ضرورت ہے۔ �ب

کو، حر�م کاری کو فروغ دیا گیا ہے ......؟ �گر بظاہر کہیں ہے تو �صل میں یہ �ن ٹھیکید�روں کی

کر پیش کیا۔ �نہی تاویلات نے مروڑ تاویلات ہیں جنہوں نے �پنے ذ�تی مفاد کے لئے مذہب کو توڑ

تفہیم کے نتیجے میں مذہب بیز�ری کا سلسلہ شروع ہو�۔ ڈ�لا۔ مفاد پرستانہ �فہام و مذہب کو �یک ہو� بنا

�ور ملحد�نہ تصور�ت نے جنم لیا۔ پھر مذہب دشمنوں نے بھی �پنے مفاد�ت حاصلہ کے لئے �یسی

گئی۔ مذہب پابندی لگاتا ہے تو �س کے پیچھے پوری �نسانی تاریخ کا باتیں �چھالیں کہ بات بگڑ

ھپکنے میں سارے مر�حل طے ہو جائیں۔ �ور �یکجتجربہ پوشیدہ ہے۔ �ور یہ بھی ممکن نہیں کہ پلک

خوشگو�ر صبح ہم جاگیں تو دیکھیں کہ ساری دنیا کے �نسان �یک ڈور میں بندھے ہوئے ہیں ....

صدیوں کی جدوجہد درکار ہے۔ بشرطیکہ یہ سچائی �ور ر�ست بازی شعار بن گئی ہے ..... �س لئے تو

�ڈلر �ور یونگ �ور کر کے گارڈ �ور جدوجہد بھی منضبط �ند�ز میں کی جائے۔ ڈ�رون �ور مارکس �ور فر�ئڈ

�ور سارتر کے نظریات پر بحث کر کے ہی بتوں کو نہیں توڑ� جا سکتا �نہیں توڑنے کے لئے �نہیں

نظر�ند�ز کرنے کا حربہ بھی کار گر ہو سکتا ہے۔ جسارت کے لئے معاف کیا جائے ’’وژموں ‘‘کا بت

آ�پ کو و�ضح بنا کر بات کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ یہ �حساس ہی غلط ہے کہ ہم مغرب کے بغیر �پنے

نہیں کر سکتے۔

Page 33: Bain Us Sutoor بین السطور

نقاد معاشرے کے وہ حساس �ور �دیب �ور شاعر �ور فنکار �ب رہا یہ سو�ل کہ �ہم کیا کریں۔ تو

�ور ذہین �فر�د ہیں جو قوموں کی تقدیر بگاڑتے �ور سنو�رتے ہیں۔ �نہیں �یک و�ضح سمت کی ضرورت

بھی ہے کہ �یسا ر�ستہ �ختیار کرنا پڑے گا جو عو�م کے ذہن میں ہو کر گزرتا ہے۔ �نہہے۔ پھر ی

لی نصب �لعین کو فروغ دینے میں معاون ہوں نوجو�ن فنکاروں کی ہمت �فز�ئی کی ضرورت ہے جو �عل

آ�گے چل کر پتو�ر �پنے ہاتھ میں لے سکیں۔ د�نشور�نہ سطح پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ عو�می �ور

آ�ج کا �نسان �ور سطح پر بھی فنکار�نہ صلاحیتوں کو جلا دینے �ور صیقل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ

آ�نے و�لے کل کا �نسان �حساس جمال کی تسکین کے ساتھ ساتھ ذہنی ترفع بھی حاصل کر

......!!!سکے

------------------------- ٭٭ -------------------------

Page 34: Bain Us Sutoor بین السطور

فرخ اعجاز علامہ روزگار نابغۂ

علامہ �عجاز فرخ کی شخصیت ہمہ جہات کی حامل ہے۔ شعر و �دب �ن کا �وڑھنا بچھونا، ذ�

آ�سمانوں میں �ڑ�نا �ن کا سابق ذریعۂ معاش، تنظیمی �مور میں کری �ن کا محبوب مشغلہ، ہو�ئی جہاز کو

بے پناہ مہارت �ن کی خصوصیت، �یکسپورٹ �ن کا ضمنی شغل،مختلف زبانوں �ور بیشمار علوم و فنون

پر �ن کی دسترس .....کن کن باتوں کا ذکر کیا جائے .... یہ �ور �یسے بے شمار گوشے ہیں جن

میں �تمام حجت کا وسیلہ تلاش کرنا ہو تو علامہ �عجاز فرخ کی ر�ئے سب سے زیادہ مدلل �ور دل کو

لینے و�لی ہو گی۔ چھو

کی بات ہے جب میں نے �عجاز فرخ کو پہلی1963 یا 1962کئی سال گزرے .... شائد

بار دیکھا۔ منڈی میر عالم کے قریب کسی حویلی کی دوسری منزل پر �یک مشاعرہ تھا جس میں میں

نے بھی شرکت کی تھی۔ �س مشاعرے میں �گر کسی شاعر نے بے حساب د�د بٹوری تو وہ �عجاز

فرخ تھے۔ لہجہ �ستاد شعر�ء کا ہم پلہ، �سلوب نیا �ور عصری حسیت سے معمور... �ب یہ تو یاد نہیں

کہ �نہوں نے کون سی غزل سنائی تھی لیکن غزل کی چاشنی �ور �ند�ز غزل گوئی نے مجھے �یسا

آ�ج تک �ن کا �سیر ہوں۔ بارہا میں نے �ن سے �ن کی شاعری کے بارے میں مسحور کیا تھا کہ

دریافت کیا مگر وہ نہ جانے کیوں ٹال گئے۔ �گر کوئی علامہ کے کاغذ�ت میں سے �ن کا کلام

ڈھونڈ نکالے تو میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ �ردو شاعری میں �یک بیش بہا �ضافہ

ثابت ہو گا۔

Page 35: Bain Us Sutoor بین السطور

آ� سکتا ہے۔ �ستاذی سید مجاور حسین رضوی پروفیسر �ن کے حافظے پر کسی کو بھی رشک

خود بھی بے پناہ حافظے کے مالک ہیں لیکن وہ بھی علامہ �عجاز فرخ کا لوہا مانتے ہیں۔ �یک و�قعہ

آ�غا حیدر آ�یا۔ کچھ برس قبل علامہ سے میری ملاقات �ردو مجلس کے �یک جلسے میں ہوئی جو یاد

حسن مرحوم کی یاد میں منعقد ہو� تھا۔ �س جلسے میں مختلف �کابرین نے مضامین پیش کیے �ور

آ�خر میں جب میں نے حاضرین کو �ظہار خیال کی دعوت دی تو علامہ �عجاز فرخ نے تقریریں کیں۔

اااخود ہی یہ چاہتا تھا۔ فور� �شارہ کیا۔ میں تو آ�دھا گھنٹہ تقریر کی �نھیں مائیک پر بلا لیا۔ �نھوں نے تقریب

آ�غا حیدر حسن کے کئی �قتباسات زبانی سنا ڈ�لے۔ ساری محفل �ن کی تقریر کے �ور تقریر کے دور�ن

گئی �ور د�د و تحسین کی صد�ؤں سے ہال گونج �ٹھا۔ سچ پوچھیے تو علامہ کی تقریر جادو میں کھو

�س محفل کا حاصل رہی۔

کا لطف علامہ �عجاز فرخ کی تحریر �ور تقریر تو مسحور کن ہے ہی لیکن �ن کے ساتھ گفتگو

کچھ �ور ہی ہے۔ جب �ن سے گفتگو کا موقع ملتا ہے تو ذہن میں فکر کے نئے درو�زے و� ہونے

لگتے ہیں، �یک نئی فضا میں سانس لینے کا لطف محسوس ہوتا ہے �ور �ک جہان نو کی خوشبو وجود

کو منور و معطر کر دیتی ہے۔ ندرت خیال �ن کا �یک �ہم وصف ہے �ور �س پر ندرت زبان و بیان سونے پر

سہاگہ کا کام کرتے ہیں۔ �ن چیزوں کا �متز�ج دیکھنا ہو تو علامہ �عجاز فرخ سے مل لیجیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ دس کتابوں کو پڑھ کر جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کسی عالم سے کچھ

فتگو کے نتیجے میں حاصل ہونے و�لے علم سے بدرجہا کم ہوتا ہے۔ مجھے یہ شرف حاصل گدیر

ہے کہ کبھی کبھی وہ مجھے ملاقات کا موقع عطا کرتے ہیں۔ �ور جب کبھی ملاقات ہوتی ہے یا فون

پر گفتگو ہوتی ہے تو سرور سا چھا جاتا ہے۔ ذہن و دل �نبساط میں ڈوب جاتے ہیں۔

میں نے علامہ �عجاز فرخ کا کوئی مضمون سیاست کے علاوہ کسی �ور رسالے یا �خبار میں

�س نہیں دیکھا۔ �ن کی تحریریں صرف �ور صرف سیاست کے صفحات کی زینت بنتی رہی ہیں �ور

Page 36: Bain Us Sutoor بین السطور

اا سے وہ سیاست کے71، 70 طرح وہ سیاست خاند�ن کے �یک �ہم رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالب

لیے لکھ رہے ہیں۔ �گر �ن مضامین کو جمع کر کے شائع کیا جاتا تو کئی کتابوں کے مصنف ہو

گئے ہوتے۔ لیکن �ن کی قلندر�نہ طبیعت �ور بے نیازی نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ در�صل علامہ خود

�یک کتاب ہیں �ور شائد کوئی کتاب �پنی ذ�ت میں �ضافے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بہرحال �ن

کے چاہنے و�لے بہت ہیں �ور سب کی یہ خو�ہش ہے کہ �ن کے مضامین کتابی شکل میں دستیاب

ہوں۔ دیکھتے ہیں وہ �پنے چاہنے و�لوں کے �صر�ر کو کب تک ٹالیں گے۔

پچھلے دو تین مہینوں سے �خبار سیاست میں علامہ �عجاز فرخ نے مضامین کا �یک �ہم

آ�باد کی تہذیبی �ور ثقافتی تاریخ کو بڑی خوبصورتی سے سلسلہ شروع کیا ہے۔ �ن مضامین میں حیدر

سمیٹا گیا ہے۔ قطب شاہی فرماں رو�ؤں سے شروع ہونے و�لے �ن مضامین کا تسلسل �بھی نظام ششم

میر محبوب علی خان تک پہنچ پایا ہے �ور میرے �ند�زے کے مطابق علامہ �عجاز فرخ کی زنبیل میں

�س قدر مو�د ہے کہ مزید دس بارہ قسطیں تو ہو ہی سکتی ہیں۔ �ن مضامین کو پڑھیے تو محسوس ہوتا

ہے کہ یہ سطحی جائزہ نہیں ، صرف لفظوں کی بازی گری نہیں بلکہ علامہ �عجاز فرخ نے ناقابل

تردید حقائق پیش کیے ہیں �ور پھر زبان کی چاشنی نے تحریر کو �یسا حسن عطا کیا ہے کہ بائد و

پائے۔ جس کی وجہ سے شائقین میں شائد۔ پچھلے تین چار ہفتوں سے یہ مضامین شائع نہیں ہو

قدرے مایوسی ہے۔ در�صل علامہ کو ماریشس کا سفر کرنا پڑ� �ور پھر کچھ �ور مصروفیات بھی رہی ہوں

گی۔ �ب شائد �گلی قسطیں �یام عز� کے بعد ہی لکھی جائیں گی۔

کو 2007 ستمبر 19�س سلسلے کا پہلا مضمون ’’ مر� شہر لو گاں سوں معمور کر‘‘ ہے جو

آ�باد کے بانی محمد قلی قطب شاہ کا ذکر مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ شائع ہو�۔ جس میں شہر حیدر

قطب شاہی سلطنت کے پہلے حکمر�ن سلطان قطب شاہ سے لے کر �بر�ہیم قطب شاہ تک کے عہد

�حاطہ بھی ہے لیکن �تنا جامع ہے کہ تشنگی کا �حساس نہیں ہوتا۔ �بر�ہیم قطب شاہ کے کا مختصر

Page 37: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�باد کی موجودہ تہذیب �ور بارے میں وہ رقم طر�ز ہیں کہ ’’ حقیقت میں دیکھا جائے تو حیدر

آ�غاز �بر�ہیم قطب شاہ کا دور ہے۔ �س دور میں ہندو مسلم �تحاد کو فروغ حاصل ہو� �ور ثقافت کا نقطۂ

گولکنڈہ ترکستان �ور عرب تاجرین کے لیے �یک بین �لاقو�می منڈی )کی شکل( �ختیار کر گیا۔ �گرچہ

آ�باد کی بنیاد قلی قطب شاہ نے رکھی لیکن �س کا منصوبہ در�صل �بر�ہیم قطب شاہ کا ہے شہر حیدر

‘‘چنانچہ حسین ساگر کی تعمیر �سی منصوبے کا �یک حصہ ہے۔

آ�باد کا د�من ہمیشہ ہی سے سب کے لیے سہار� بنا رہا۔ قطب شاہی دور ہو، نظام ششم حیدر

آ�ماجگاہ بلکہ پناہ گاہ �ور نظام ہفتم کا زمانہ ہو آ�باد ... یہ شہر دنیا بھر کے لوگوں کی آ�ج کا حیدر کہ

رہا ہے۔ سب نے یہاں سے بے پناہ فائدے حاصل کیے۔ �س شہر نے بلا تفریق مذہب و ملت ہر �یک

کو نو�ز� �ور �تنا نو�ز� جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ علامہ لکھتے ہیں ’’ ہندوستان تو کیا

آ�باد کا رخ کیا۔ دنیا بھر میں جہاں کسی پر وطن کی زمین تنگ ہوئی، �س نے بوریا سمیٹ کر حیدر

آ�ئے تو خالی ہاتھ تھے، وطن میں تو زندگی بھر پاؤں چادر سے باہر تھے، لیکن دکن کی سوندھی مٹی

نے یوں �سیر کیا کہ یوں جاتے ہوئے سکندر نے کفن سے ہاتھ باہر رکھ دیئے تھے، لیکن جب یہ

دنیا سے گئے تو �ولادوں کے لیے نام و نشان، خطاب، منصب، تام جھام، نوکر چاکر، ڈیوڑھی،

‘‘گیے حویلی، زمین، جاگیریں ، سب �ولادوں کے لیے چھوڑ

آ�باد کی تہذیب و ثقافت پر علامہ کا دوسر� مضمون ’’ چار مینار نے کیا کیا نہیں منظر حیدر

ستمبر کو شائع ہو�۔ جس میں �نھوں نے چکسہ، مہندی، سہاگ مصالحہ، لاک �ور16دیکھے ‘‘

آ�باد کی قدیم عمارتوں محلات عاشور نگینے جڑے چوڑیوں کے جوڑے ، عطر وغیرہ کے ساتھ حیدر

مینار کی تفصیلات بیان کر دی ہیں۔ �س مضمون میں �ن کے خانوں �ور عالمی شہرت کے حامل چار

آ�تا ہے۔ چند ہی دن قبل مکہ مسجد کے صحن میں جو بم دھماکہ ہو� �ور دل کا درد بھی نمایاں نظر

�س کے بعد پولس نے قانون کے نام پر جس وحشیانہ �ور ظالمانہ �ند�ز سے خون ریزی کی �س کے

Page 38: Bain Us Sutoor بین السطور

گئی۔ نہ مرتی تو بارے میں علامہ �پنی مرحوم �ہلیہ کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ �چھا ہو� نہ رہی، مر

یہ سن کر مر جاتی کہ مسجد میں دعا کے لیے �ٹھے ہوئے ہاتھ �ٹھے ہی رہ گئے �ور مصلے سے

سیدھے خد� کے حضور پہنچ گئے۔ جو باہر نکلے تو پولیس کی گولیوں نے بھون کر رکھ دیا‘‘۔ خون

آ�نکھوں نے آ�خری سطریں یوں ہیں ’’ جس چار مینار کی دل سے لکھے گئے �س مضمون کی

�یک پوری تاریخ، تہذیب، تمدن، یکجہتی �ور ہمیشہ شہر کو شاد دیکھا ہے، �س نے سڑکوں پر مکہ

مینار کی بوڑھی مسجد کے نمازیوں کو خون میں غلطاں بھی دیکھا۔ �حساس کی نظروں میں چار

آ�و�ز آ�نکھوں سے جوئے خوں جاری ہے۔ شب کے سناٹے میں گولکنڈے کے پتھر سے درد بھری

آ�تی ہے۔ �یک سسکی سی �بھرتی ہے مر� شہر لو گاں سے معمور کر مر� شہر لو گاں سے معمور کر۔

آ�ئے ہیں ‘‘شائد �س شہر میں �ب درندے در

تیسر� مضمون ’’ ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں ‘‘ �س بات کا مدلل ثبوت ہے

ہیروں کی کان کنی میں نمایاں حیثیت رکھتی تھی �ور دنیا کے بیشتر مشہور کہ قطب شاہی سلطنت

ہیرے دکن کی سرزمین کی دین ہیں۔

عنو�ن مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ کیا زمانے گئے کیا لوگ زمانے سے گئے ‘‘ کے زیر’’

تھے۔ �یک �یسا علاقہ جہاں کی عو�می زبان تلگو ہو وہاں فارسی �ور د�ر قطب شاہی حکمر�ن کس قدر رو�

آ�نکھوں پر نہیں بٹایا گیا۔ یہ حکمر�ن رعایا ترکی بولنے و�لے ترکی �لنسل حکمر�نوں کو یوں ہی سر

آ�نکھوں کے تارے یوں ہی نہیں بن گئے۔ تلگو کے عالموں �ور فاضلوں کا �س سلطنت میں کی

�یک �ہم مقام تھا۔ تلگو کے متعدد شعر�ء کو بادشاہوں کی سرپرستی حاصل تھی �ور �نھیں جاگیریں

عطا کی گئی تھیں۔ دفتری کام کاج میں تلگو کا بڑ� دخل تھا۔ یہاں تک کہ فر�مین بھی تلگو میں

جاری کیے جاتے تھے۔ �س مضمون میں بھی علامہ نے �پنے پچھلے مضامین کی طرح ماضی �ور

آ�ئیں۔ آ�نسو نکل حال کا تقابل �س طرح کیا ہے کہ پتھر کے بھی

Page 39: Bain Us Sutoor بین السطور

�گلے مضمون ’’ �س پہ �نسان کو ہے خو�ہش دنیا کیا کیا‘‘ میں قطب شاہی سلطنت کے

�ورنگ زیب کے تسلط �ور پھر �س کے �نتقال کے علاوہ �س ساری دولت کا بھی ذکر ہے آ�خری دور �ور

جو �ورنگ زیب نے دکن سے سمیٹی تھی۔

یہاں �یک بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ �بو�لحسن تانا شاہ �یک درویش صفت بادشاہ تھا۔

شاہی خاند�ن سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ شاہ ر�جو قتال کا عقیدت مند تھا �ور �ن ہی کی خانقاہ

ولد عبد�للہ قطب شاہ کو بستر مرگ پر �پنے جانشین کی تلاش ہوئی تو قسمت نے سے و�بستہ تھا۔ لا

لحسن کے سر پر تاج شاہی رکھ دیا۔ دکنی میں تانا کا مطلب ہے لاڈلا۔ لیکن وقت کی ستم ��بو

ظریفی دیکھیے۔ �س درویش صفت، نازک مز�ج �ور سیدھے سادے بادشاہ کا نام ہندی بولنے و�لے ظلم

کی علامت کے طور پر دھڑلے سے �ستعمال کرتے ہیں۔ تانا شاہی نہیں چلے گی،تانا شاہی بند کرو

شاہ کی روح کتنا تڑپتی ہو گی۔ کے نعرے بلند کرنے و�لے یہ نہیں جانتے کہ �ن نعروں پر تانا

آ�خری در�صل صحیح روزمرہ نادر شاہی ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ نادر شاہ نے مغلیہ سلطنت کے

دیے تھے، ظلم کی �نتہا کر دی تھی �ور دلی دور میں دلی پر حملہ کیا تھا �ور وہاں خون کے دریا بہا

شاہی ظلم کے کیے کو لوٹ کر تباہ و تار�ج کر دیا تھا۔ �س کے بعد دلی کے روزمرہ میں نادر

آ�ز�دی ہند کے بعد نہ جانے کس بد بخت نے نادر شاہی کو تانا شاہی سے بدل�ستعمال ہونے لگا۔

دیا �ور پھر ہندی میں �س کا رو�ج عام ہو گیا۔ �فسوس �س بات کا ہے کہ �ب تو �ردو بولنے و�لے بلکہ

دکن کے �ردو بولنے و�لے بھی �س روزمرہ کو بغیر سوچے سمجھے �ستعمال کرنے لگے ہیں۔

آ�سماں کیسے کیسے ‘‘ مغل سلطنت کے علامہ �عجاز فرخ کا �گلا مضمون ’’ زمیں کھا گئی

عروج و زو�ل کا جائزہ �ور نادر شاہ کے دلی پر حملے کے بارے میں حقائق پیش کرتا ہے۔ �ور ساتھ ہی

آ�صف جاہ �ول کا تذکرہ ہے۔ �س کے بعد ’’ بازیچۂ �طفال آ�صفیہ حکومت کے بانی �س میں دکن میں

آ�گے ‘‘ �ور ’’ میر محبوب علی خان کو نہیں جانتے کیا‘‘ کے زیر عنو�ن دو مضامین ہے دنیا مرے

Page 40: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�باد کے میں نظام دوم سے نظام ششم تک کا عہد سمیٹا گیا ہے۔ میر محبوب علی خان ریاست حیدر

سب سے محبوب فرماں رو� تھے۔ میں نے �پنے بچپن میں کہن سالہ بزرگوں �ور بڑی بوڑھیوں کو

آ�پ و ’’محبوب علی پاشا‘‘ کے لیے رطب �للساں دیکھا ہے۔ �ن کی سخاوت �ور د�د دہش �پنی مثال

آ� پڑ� تھی۔ بیحد کم عمری میں یعنی صرف ڈھائی سال کی عمر میں �ن کے سر پر سلطنت کا بوجھ

تھا۔ ظاہر ہے کہ مشیر�ن سلطنت نے ساری ذمہ د�ری سنبھالی لیکن پوری وفاد�ری سے۔ نہ کوئی سازش نہ

عہدے کا ناجائز �ستعمال۔

میر محبوب علی خان پر لکھے گئے �س مضمون کے بعد مضامین کا یہ سلسلہ عارضی طور پر رک گیا

آ�باد کا ہے۔ یہ بھی ہے کہ �س کے بعد میر عثمان علی خان کا دور شروع ہوتا ہے جو ریاست حیدر

آ�یا، ہائی کورٹ قائم ہوئی، سنہری دور ہے۔ یہی وہ دور ہے جب عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں

آ�ئی، باب �لحکومت کی تنظیم نو ہوئی،متعدد کارخانے قائم ہوئے، دو�خانے �ور مجلس مقننہ وجود میں

آ�باد ہند تالاب بنے، بے شمار فلاحی کام �نجام دئیے گئے، پولس �یکشن کا سانحہ ہو� �ور ریاست حیدر

آ�نے و�لا آ�نے و�لے مضامین �س دور کا �حاطہ کس طرح کرتے ہیں یہ تو یونین میں ضم کر لی گئی۔

وقت ہی بتائے گا۔ میں تو صرف �تنا کہہ سکتا ہوں کہ علامہ �عجاز فرخ کے قلم میں جو جادو ہے

�س کا جو�ب نہیں۔ جن مضامین کا میں نے بالائی سطور میں ہلکا سا ذکر کیا �ن میں مستند حو�لوں

سے مدد لی گئی ہے �ور یہ مضامین تحقیق کے معیار پر کھرے �ترتے ہیں۔ �نہوں نے شیشے کو

شیشے کی طرح �ور ریشم کو ریشم کی طرح برتا ہے۔ وہ شیشہ صفت بھی ہیں �ور تیشہ بدست بھی۔ یہ

علامہ �عجاز فرخ کا مز�ج ہے۔ وہ کوئی بات یوں ہی نہیں لکھتے، پوری جانچ �ور پرکھ کے بعد ہی �ن

آ�باد کی تہذیب �ن میں رچی بسی ہے۔ �س مٹی آ�بادی ہیں �ور حیدر کا قلم چلتا ہے۔ وہ پکے حیدر

آ�شنا �ور آ�گہی کے عذ�ب سے کی سوندھی خوشبو �ن کے رگ و پئے میں سمائی ہوئی ہے۔ وہ

آ�گاہ ہیں۔ �سی لیے �نھوں نے �پنے غم زدہ دل کے درد کو قرطاس پر بکھیر آ�گہی کے کرب سے نا

Page 41: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�نے و�لا مورخ �ن آ�گہی سے روشناس ہوں �ور آ�نے و�لی نسلیں �س آ�گہی کو وسعت ملے، دیا ہے تاکہ

حقائق سے بہر ہ ور ہو سکے۔ �ن مضامین کے لیے وہ خود کو بھلا بیٹھے ہیں، �یک بے چینی سی

....�ن میں نہاں بھی ہے �ور عیاں بھی۔ �کثر سوچتا ہوں

جانے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

Page 42: Bain Us Sutoor بین السطور

ل#ہ اکبر آابادی ا

�یک نصابی مضمون

تمہید1.1

مختصر حالات زندگی1.2

�کبر کی �بتد�ئی شاعری1.3

مز�حیہ شاعری �کبر کی طنزیہ و1.4

خلاصہ1.5

نمونہ �متحانی سو�لات1.6

فرہنگ1.7

سفارش کردہ کتابیں1.8

Page 43: Bain Us Sutoor بین السطور

تمہید1.1

ء کا خونیں �نقلاب جسے �نگریزوں نے غدر کا نام دیا تھا، ہندوستان کی تاریخ کا �یک1857

�ہم باب ہے۔ �نگریزوں کے �ستبد�د کے خلاف ہندوستانیوں نے متحدہ طور پر جدوجہد کی لیکن

آ�ز�د کر�نے کی یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی۔ �س کے بعد تو ہندوستان کو �نگریزوں کے چنگل سے

ستم ڈھائے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ جس کسی پر یہ شبہ ہو� �نگریز حکمر�نوں نے �س قدر ظلم و

کہ �س نے �نگریزوں کے خلاف ہتھیار �ٹھائے �سے توپ سے �ڑ� دیا گیا یا پھانسی دیدی گئی۔ دہلی

کے �طر�ف سولیوں پر کئی دن تک لاشیں لٹکتی رہیں جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ عو�م میں

آ�و�ز �ٹھانے کی ہمت نہ کر سکیں۔ عام مسلمانوں خوف پید � ہو جائے �ور وہ �نگریزوں کے خلاف

آ�ہستہ ہستہ کچھ بید�ریآ�کی ہمتیں پست ہو چکی تھیں �ور �نھیں کچھ سوجھائی نہیں دے رہا تھا۔

آ�ئی۔ عو�م کو یہ �حساس ہونے لگا کہ �گر وہ زمانے کے ساتھ نہیں چلیں گے تو پھر �ن کا نام و

نشان مٹ جائے گا۔

آ�ئیں �ن کا گہر� �ثر یہاں کی سماجی �ور1857 ء کے بعد ہندوستان کے �فق پر جو تبدیلیاں

معاشرتی زندگی پر بھی پڑ�۔ �یک گروہ نے یہ سوچنا شروع کیا کہ نئی تہذیب کو �پنائے بغیر �ور مغربی

سید �حمد خان �ور �ن کے ساتھیوں کی علوم کو حاصل کئے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ چنانچہ سر

آ�یا جہاں مسلمانوں کو جدید علوم کی کاوشیں رنگ لائیں �ور �ینگللو محمڈن کالج کا قیام عمل میں

طرف ر�غب کیا گیا۔ �یک گروہ کا خیال تھا کہ صرف مذہبی علوم کے حصول سے ہی ہندوستانیوں

کی فلاح ممکن ہے۔ �ن لوگوں کو سر سید �حمد خان کی کوششیں پسند نہ تھیں۔ �ن کا خیال تھا کہ

�س طرح مسلمان دین سے دور ہو جائیں گے چنانچہ کٹر مذہبی علماء نے سر سید کی مخالفت پر

باندھ لی۔ �یک گروہ �یسا تھا جو ہندوستانیوں کی تہذیبی شناخت کو �ہم جانتا تھا۔ یہ گروہ تعلیم کا کمر

Page 44: Bain Us Sutoor بین السطور

مخالف نہ تھا لیکن �قد�ر کی شکست و ریخت �س کے لیے ناقابل برد�شت تھی۔ لسان �لعصر خان

آ�بادی �سی گروہ کے علم برد�ر �کبر حسین بہادر �کبر للہ آ�بادی نے سنجیدہ شاعری بھی � للہ تھے۔ �کبر �

طنزیہ شاعری سے ہے۔ �ودھ پنچ �ردو کا وہ �ہم رسالہ ہے جس کی ہے لیکن �ن کی شناخت ظریفانہ �ور

�یک �یسا مز�ح کے پیر�ئے کو �پنایا۔�ور �ردو کو نے لندن سے نکلنے و�لے پنچ کی طرح طنز و

�سلوب دیا جس میں تلخی، طنز، شوخی �ور مز�ح بنیادی حیثیت کے حامل تھے۔ �س رسالے نے �پنی

تیکھی �ور طنزو مز�ح میں ڈوبی ہوئی تحریروں کے ذریعے ہندوستانیوں کی تہذیبی �قد�ر کو ٹوٹنے �ور

آ�بادی �سی دور کی پید�و�ر ہیں۔ �ودھ پنچ کے �یک �ہم للہ بکھرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ �کبر �

قلم کار کی حیثیت سے �نہوں نے �س دور کی �یک �ہم ضرورت کو پور� کیا۔

Page 45: Bain Us Sutoor بین السطور

تت مختصر1.2 زندگی حالا

للہ بادی کا پور� حسین تھا۔ �ن کے و�لد تفضل حسین رضوی نائب تحصیل د�ر نام سید �کبر �کبر �

ء کو قصبہ بار� میں پید� ہوئے۔ �ن کی پید�ئش کے کچھ1846 نومبر 16کے عہدے پر فائز تھے۔ �کبر

ہی سال بعد و�لد کا �نتقال ہو گیا �ور �ن کے تایا سید و�رث علی نے پرورش کی۔ معمولی سی تعلیم کے

ا� �نہیں پندرہ روپئے ما ہو�ر کی ملازمت کرنی پڑی پھر �نہوں نے 17بعد برس کی عمر میں مجبور

ریلوے کے دفتر میں محرر کی حیثیت سے کام کیا۔ �سی دور�ن �نھوں نے �نگریزی میں �ستعد�د

ء میں1869ء میں وکالت کا �متحان کامیاب کر کے وکالت کا پیشہ �ختیار کیا۔ 1857حاصل کی �ور

آ�بکاری کا عہدہ سنبھالا۔ پھر وہ ہائی کوٹ میں وہ نائب تحصیل د�ر مقرر ہوئے۔ �س کے بعد د�روغۂ

ء میں �نھوں نے ہائی کوٹ کی وکالت کا �متحان کامیاب کیا �ور منصف کے1873ملازم ہو گئے۔

ء میں �نھیں نائب جج بنایا گیا پھر عد�لت حفیفہ کے جج بنے �ور �س1888عہدے پر فائز ہوئے۔

ء میں برطانوی1907ء میں �کبر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ 1905کے بعد سیشن جج ہو گئے۔

آ�باد للہ حکومت نے �ن کی خدمات کے پیش نظر خان بہادر کے خطاب سے نو�ز� جس کے بعد �

برس کی عمر میں وفات پائی۔ 75ء کو �کبر نے 1921ستمبر 9یونیورسٹی نے �نھیں فیلو مقرر کیا۔

شاعری ابتدائی کی اکبر 1.3

اا پچپن برس تک �قلیم شعر پر حکمر�نی کی ......�بتد�ئی شاعری میں وہ قدیم �کبر نے تقریب

آ�وردہ تھی۔ آ�تی ہے جو شعر�ئے لکھنؤ کی نازک خیالیوں کی روش نمایاں طور پر نظر

Page 46: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�خر دی میرے دل کو شکست �لفت گیسو نے

آ� گیا ہائے کیا �نمول شیشہ تھا مگر بال

�نہوں نے غزل کی قدیم رو�یت کی پاسد�ری میں جو �شعار کہے ہیں �ن میں �یسے ہی

آ�تی ہے جو �س دور کی شاعری کا خاصہ رہے ہیں۔ مضامین کی بہتات نظر

آ�پ کی دو پھر دن میں طبیعت کیسی گئی

یہ وفا کیسی تھی صاحب یہ مروت کیسی

آ�پ بوسہ جو نہیں دیتے تومیں دل کیوں دوں

�یسی باتوں میں میری جان مروت کیسی

یاد قیامت سے جو �س دن مل گئی فرصت ہمیں

کا دیکھ لیں گے دور سے ہم بھی تماشہ حشر

غزل میں �کبر نے جو گل کھلائے ہیں �ن سے فکری سطح پر بھی کہیں کہیں مشام جاں

معطر ہوتے ہیں �ور یہ فیض غزل کی ہمہ جہتی کیفیت کا ہے۔

ر فنا سے لے نہ چلے کچھ تو غم نہیں د�

فرمایئے تو، لائے تھے ملک بقا سے کیا

Page 47: Bain Us Sutoor بین السطور

مد�و�ئے رہنمائے گمرہاں �س دشت غربت میں

ہوں پریشان حال ہوں گم کردہ منزل ہوں مسافر

دم کہ دم لینے کی مہلت ہے توقع رہتی ہے ہر

معاذ�للہ �پنی موت سے کس درجہ غافل ہوں

میں دیتا جاؤں یار�ن وطن کو کیا پتہ �پنا

جانے مجھے لے جائے وحشت کس بیاباں میں خد�

خانۂ دل کو کیا عشق بتاں نے برباد

کیا سے کیا ہو گئی �للہ کے گھر کی صورت

نیاز و �ب کہاں �گلے سے وہ ر�ز

مل گئے صاحب سلامت ہو گئی

�ن ہی کا ہے۔ �ور یہ مشہور شعر

Page 48: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام ہم

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

�س شاعری سے ہے جس میں طنز کی کاٹ �ور مز�ح کی �س کے باوجود �کبر کی عظمت تو

چاشنی غالب عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔

شاعری مزاحیہ و طنزیہ کی اکبر1.4آ�بادی سرکاری ملازم بھی رہے �ور شاید �سی لیے �ن کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ ر�ست �کبر للہ �

آ�میز لب و آ�و�ز بلند کرتے لیکن شعری زبان کی وسعت �ور ظر�فت لہجہ میں �نگریزی �ستبد�د کے خلاف

�ظہار نے �س کمی کو پور� کر دیا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں۔

شاہد معنی نے �وڑھا ہے ظر�فت کا لباس

�ور �س طرح �کبر نے �پنے موقف کی وضاحت کر دی ہے کہ ظر�فت کے پیچھے جو معنی

چھپے ہوئے ہیں �ن کی تلاش کرنے پر در مقصود مل سکتا ہے۔

آ�غا �کبر کی طنزیہ و مز�حیہ شاعری �ودھ پنج کی مرہون منت ہے۔ بقول ڈ�کٹر وزیر

مز�ح کے و �ودھ پنج نہ صرف �ردو کا پہلا مز�حیہ �خبار تھا بلکہ �س نے پہلی بار �ردو میں مغربی طنز’’

(192مز�ح صفحہ و �ردو �دب میں طنز‘‘ ) حربوں کو بھی �ستعمال کیا۔

�س �خبار کے �یڈیٹر منشی سجاد حسین نے سیاسی، معاشی �ور معاشرتی مسائل پر بے خوف

مز�ح کے پیر�ئے میں نکتہ چینی کی �ور یہی حال �ودھ پنج کے تمام معاونین کا تھا۔ برج و خطر طنز و

: نار�ئن چکبست لکھتے ہیں

Page 49: Bain Us Sutoor بین السطور

اا ’’ آ�گے ہیں۔ عموم وشل، پولیٹکل �ورسظریفانہ نظم کے مید�ن میں حضرت �کبر سب سے دس قدم

آ�میز پہلو جس خوبی کے ساتھ �کبر نے نظم کئے ہیں وہ دوسرے کو مذہبی مسائل کے ظر�فت

نصیب نہیں ‘‘

(14گلدستۂ پنج صفحہ )

سچ بات تو یہ ہے کہ �کبر کے مز�ج میں ظر�فت �ور مز�ح کا مادہ بدرجۂ �تم موجود تھا۔ مز�ح

�ن کی طبیعت کا خاصہ تھا �ور �سی لئے سرکاری ملازمت کے باوجود وہ �ودھ پنج کے لئے لکھتے

رہے۔ �ن کی فطری شوخی، ظر�فت �ور قلم کی کاٹ نے جب شعر کی زبان میں سماج، تعلیم،

سیاست، معاشرت �ور بدلتی �قد�ر پر چوٹ کی تو فکری سطح پر تیزی سے فروغ پاتی ہوئی بے ر�ہ روی

کو �یک رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ�۔

�ن کی شاعری میں چھپے ہوئے قومی جذبے کا جائزہ لیا جائے تو یہ �ند�زہ کرنا مشکل نہیں

کہ وہ �نگریزوں کی �ستعماریت �ور ہندوستانی تہذیب پر�ن کے تسلط کے ہمیشہ شاکی رہے۔ سرکاری

آ�ز�دی ملازمت نے �ن کے �ظہار کی ر�ہ میں روڑے ضرور �ٹکائے لیکن وہ دل سے قومی تحریک �ور

وطن کے قائل تھے۔ گاندھی جی کے لئے وہ کہتے ہیں۔

نہ ہوتا مدخولۂ گورنمنٹ �کبر �گر

پاتے �سے بھی �ک دن گاندھی کی گوپیوں میں

مغربی تعلیم کے سیلاب سے �کبر بیز�ر تھے۔ یہ نہیں ہے کہ وہ تعلیم کے خلاف تھے۔ خود

لی تعلیم کے لیے لندن بھیجا تھا۔ �ور جب �نہیں �پنے لڑکے عشرت حسین کو �نہوں نے �عل

محسوس ہو� کی لندن کی فضا ء نے عشرت کو �سیر کر لیا ہے تو وہ مشہور نظم مکمل ہوئی کہ

Page 50: Bain Us Sutoor بین السطور

بھول گئے وفا کے لندن کی ہو� عہد کھا

بی �قد�ر کی بڑی �ہمیت تھی۔ وہ مغربی تعلیم کے �سی�ن کے نزدیک وطن �ور وطن کی تہذ

خطرناک پہلو سے قوم کو بچانا چاہتے تھے جس سے ہندوستانیوں کی شناخت ختم ہو سکتی تھی۔

حامدہ چمکی نہ تھی �نگلش سے جب بے گانہ تھی

�ب ہے شمع �نجمن پہلے چر�غ خانہ تھی

ہم �یسی کل کتابیں باعث ضبطی سمجھتے ہیں

پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو

جرمن ہو مبارک تجھ کو �ے فلک �نگلش و

ہندی میں بسر کرنا ہے ہم کو تو �ردو و

بی بیاں علم مغرب پڑھ کے ہوں گی �یسی خود سر

بی بیاں شوہر بنیں گی �ور شوہر بی بیاں

وہ �س دور کی فیشن پرستی پر و�ر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔.

مرید دہر ہوئے وضع مغربی کر لی

نئے جنم کی تمنا میں خود کشی کر لی

Page 51: Bain Us Sutoor بین السطور

�یک �ور جگہ کہتے ہیں۔

نئی مخمل کی نکٹائی تو گویا طوق گردن ہے

وہی بت خانہ بہتر تھا وہی زنار �چھی تھی

�ن کے خیال میں تعلیم کا مقصد یہ نہیں ہے کہ صرف ملازمت حاصل کر لی جائے �ور

بس۔

ر نمایاں کر گئے ہم کیا کہیں �حباب کیا کا

گئے بی �ے ہوئے نوکر ہوئے پنشن ملی پھر مر

وہ تجارت کو طرۂ �فتخار مانتے ہیں۔ �گرچہ وہ خود ملازم رہے لیکن ملازمت سے نالاں نظر

آ�تے ہیں۔ �نہوں نے مغربی �قو�م کی سربلندی کا سبب تجارت بتایا ہے۔

پاتی ہیں قومیں تجارت سے عروج

بس یہی �ن کے لئے معر�ج ہے

ہے تجارت و�قعی �ک سلطنت

آ�ج ہے ناز یوروپ کو �س کا

�ن کی ظریفانہ شاعری میں آ�تی ہے �س کا پرتو �کبر کی �بتد�ئی شاعری میں جو نازک خیالی نظر

آ�تا۔ �پنے مخصوص ظریفانہ رنگ میں شعر کہتے ہوئے �کبر نے نازک خیالی کے لبادے کو نظر نہیں

نہ گئی۔ �تار پھینکا لیکن رعایت لفظی سے فائدہ �ٹھانے کی خو

پا کر خطاب ناچ کا بھی ذوق ہو گیا

Page 52: Bain Us Sutoor بین السطور

ہو گئے تو بال کا بھی شوق ہو گیا سر

زلف نے پرتو دیں نام کو رہنے نہ دیا

آ�خر �س لام نے �سلام کو رہنے نہ دیا

اا �کبر نے �ردو شاعری کو نئی لفظیات سے روشناس کر�یا �ور دوسری زبانوں کے �لفاظ خصوص

�نگریزی کے �لفاظ کا �ستعمال کر کے مز�ج کی �یسی کیفیت پید� کی جو �ہل نظر کے لئے تازیانے

کا کام کرتی ہے۔

آ�تے ہیں مید�ن کے بیچ آ�نر کے لئے شیخ

ووٹ ہاتھوں میں ہے �سپیچ قلمد�ن کے بیچ

کہوں �س کو میں بدبختی نیشن کے سو� کیا

آ�تا نہیں �ب کچھ �مٹیشن کے سو� �سکو

سے کوئی نہ بچ سکا .......سیاسی جماعتیں ، فلاحی �د�رے �ور �ن �ن کے قلم کے نشتر

کے سربر�ہ، مذہبی علماء سبھی کو �کبر نے نشانہ بنایا ......�یسے لیڈر جنہوں نے �پنے فائدے

کے لئے قوم کا نعرہ لگایا، �ن کے لئے �کبر کے شعر �یک نشتر کی طرح ہیں۔

گردن ریفا رمر کی �ک سمت تن گئی

ملک کی �ن کی تو بن گئی بگڑی ہو قوم و

Page 53: Bain Us Sutoor بین السطور

لیڈر تمام قوم �یڈیٹر بنی ہے یا

لگی نہ رہیل سبب یہ ہے کہ کوئی �ور د

قوم کو ہے ترقی کی بات میں عذر کیا

رغبت کے ساتھ خود سے وہ لیڈر کے ہات میں

زندگی کو ضرور ہے �ک شغل

بالفعل لیڈری ہی سہی خیر

سروس میں میں د�خل نہیں ، ہوں کا خادم

آ�س ہے تنخو�ہ کہاں ہے چندوں کی فقط

جہاں تک نئی روشنی، مغربی علوم کے حصول �ور سائنس �ور ٹکنالوجی کی طرف بڑھتے ہوئے

آ�بادی نے �پنے کان بند کر رجحان کا تعلق ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ �کبر للہ آ�نے و�لے � لئے تھے۔ وہ

آ�ہٹ محسوس نہیں کر سکے۔ قد�مت پرستی نے �نہیں نئی روشنی کے خلاف کہنے پر دنوں کی

�کسایا تھا۔ مصلحان قوم کے عظیم کارنامے �ن کے سامنے ہیچ تھے۔ حصول علم کے بدلتے ہوئے

رجحان پر نشانہ بازی کرتے ہوئے �نہیں �س بات کا �ند�زہ نہیں تھا کہ زمانے کی کروٹیں کیا گل

Page 54: Bain Us Sutoor بین السطور

کھلانے و�لی ہیں۔ لیکن �س بات سے بھی �نکار نہیں کیا جا سکتا کہ �کبر نے �پنے �شعار میں

آ�نے و�لے زمانے کے لئے تکلیف دہ ثابت نشتر سے �ن ناسوروں کو چھپے ہوئے تیر و کرید� تھا جو

ہو سکتے تھے۔ �نہوں نے �پنے لفظوں کی کمندوں سے بے ر�ہ روی کی طرف بڑھتی ہوئی قوم کو

روک کر �پنی تہذیبی شناخت باقی رکھنے پر زور دیا تھا �نہوں نے تو�زن کی ر�ہ �ختیار کرنے کی طرف

توجہ دلائی تھی۔ �یک طرف تو �کبر نے �ردو شاعری میں طنزو مز�ح کے ملے جلے �سلوب کو فروغ

آ�نے و�لے زمانے کے طنز مز�ح و دے کر زندگی کی تنقید کا �ہم فریضہ �نجام دیا تھا تو دوسری طرف

کارنامہ ہے۔ پر مشتمل سرمائے کے لئے �یک مشعل روشن کر گئے �ور یہی �کبر کا

خلاصہ1.5

آ�بادی کا پور للہ ء میں قصبہ بار� میں پید� ہوئے۔ معمولی1857�نام سید �کبر حسین تھا۔ �کبر �

آ�غاز کیا �ور �پنی تعلیمی قابلیت بڑھاتے رہے۔ ء میں سیشن جج کی حیثیت سے1905ملازمت سے

کدوش ہوئے۔ برطانوی حکومت نے �ن کی خدمات کے پیش نظر �نھیں خان بہادر کےبوظیفہ پر س

ء میں �کبر نے وفات پائی۔ �ن کی شاعری کا �بتد�ئی1925برس کی عمر میں 75خطاب سے نو�ز�۔

دور لکھنوی رنگ کا ہے کافی عرصہ تک وہ سنجیدہ شاعری کرتے رہے۔ چونکہ �ن کی فطرت میں

مز�حیہ شاعری میں ظر�فت کا مادہ تھا �س لئے وہ ظریفانہ شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔ �ن کی طنزیہ و

معاشرتی مسائل کا �حاطہ کیا گیا ہے۔ وہ �گرچہ سرکاری ملازم تھے مسلمانوں کے سیاسی، سماجی و

بدلتی ہوئی قدروں پر چوٹ کرتے رہے۔ لیکن �پنی ظریفانہ طبیعت �ور شاعر�نہ مز�ج کی بدولت سماج �ور

آ�ز�دی وطن کے قائل تھے �ور مغربی تہذیب کی بڑھتی ہوئی یلغار کے مخالف تھے۔ �نھوں نے �پنی وہ

شاعری میں �نگریزی �لفاظ کو بھی بڑی خوبی سے پیش کیا۔ �ن کے قلم کے نشتر سے کوئی بچ نہ

Page 55: Bain Us Sutoor بین السطور

سکا سیاسی جماعتی، فلاحی �د�رے ، مذہبی علماء، لیڈر سبھی کو �کبر نے �پنے طنز کا نشانہ بنایا۔

مز�ح کا سب سے �ہم شاعر کہا جا سکتا ہے۔ و �کبر کو بلاشبہ �ردو طنز

سوالات امتحانی نمونہ1.6

ء کا ہندوستانی معاشرے پر کیا �ثر پڑ�؟1857۔ 1

ا� بیان کیچئے۔۔ 2 آ�بادی کے حالات زندگی مختصر للہ �کبر �

آ�بادی کی سنجیدہ شاعری کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟۔3 للہ �کبر �

آ�بادی کی طنزیہ و �کبر۔ 4 للہ مز�حیہ شاعری کے بارے میں �پنی مدلل ر�ئے تحریر کیجئے۔ �

فرہنگ1.7 ظلم�ستبد�د

کوششکاوش

بے حدبدرجہ �تم

ظالمانہ �قتد�ر�ستعماریت

®®قد�مت پرستی ® ® ® ® ®پر�نے رو�ج سے لگاؤ

پاگلخبطی

Page 56: Bain Us Sutoor بین السطور

کتابیں کردہ سفارش1.8

آ�غا�ردو �دب میں طنزو مز�ح 1. ڈ�کٹر وزیر

آ�بادی �نتخاب �کبر . 2 للہ مکتبہ جامعہ دہلی�

�لدین �حمد بد�یونی قمربزم �کبر . 3

آ�بادی کلیات �کبر . 4 للہ آ�بادی �کبر� للہ �

ڈ�کٹر خالد محمودمز�ح کی رو�یت و �ردو �دب میں طنز . 5

------------------------------٭٭---------------------------

Page 57: Bain Us Sutoor بین السطور

باقر علی

آ�باد میں ہر دور میں طرح طرح کے پھول کھلتے رہے �ور دنیا بھر میں �پنی خوشبو حیدر

آ�پ کو بڑھ چڑھ کر منو�نے بکھیرتے رہے۔ یہ �ور بات ہے کہ حیدر آ�ر شپ، �پنے آ�بادی مز�ج میں پی

کی خصوصیت �ور دوسروں کو گر�نے کا رویہ نہ ہونے کے بر�بر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ �پنے �فسانوی

آ�باد کے �دیب، شاعر، فن کار �ور عالم پردۂ گمنامی میں میں رہے۔ کسی نے �نکسار کے سبب حیدر

آ�بادی فن کاروں نے خود کو کبھی نہیں منو�یا۔ آ�گے بڑھ کر حیدر نام لے لیا تو لے لیا، خود سے

آ�باد میں تو نہیں ہوئی لیکن چونکہ ڈیڑھ دو برس کی عمر میں علی باقر کی پید�ئش حیدر

آ�باد �ن کے رگ و پئے میں بس گیا۔ جو �نہیں گنڈی پیٹ کا پانی پلا دیا گیا تھا �س لیے حیدر

آ�باد سے ناو�قف ہیں �ن کی �طلاع کے کیے عرض کر دوں کہ گنڈی پیٹ �یک وسیع �صحاب حیدر

و عریض تالاب کا مقامی نام ہے جس کا پانی سارے شہر کو پینے کے لیے سربر�ہ کیا جاتا تھا۔

سرکاری طور پر �گرچہ �سے عثمان ساگر کا نام دیا گیا ہے لیکن عو�م �سے گنڈی پیٹ ہی کہتے ہیں

آ�ئی ہیں، جو در�صل �س دیہات کا نام تھا جہاں یہ تالاب بنایا گیا۔ �ب تو �س تالاب کی ہڈیاں نکل

آ�ج بھی لوگ جوق در جوق تفریح کے لیے وہاں جانا نہیں �س کا حسن مدھم پڑ چکا ہے لیکن

آ�باد کو کبھی بھلا نہیں بھولتے۔ �ور کہا جاتا ہے کہ جو �یک بار گنڈی پیٹ کا پانی پی لے وہ حیدر

پاتا۔ علی باقر نے تو زندگی کی دو دہائیاں �سی پانی کے بل پر گز�ری تھیں۔

Page 58: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�باد میں ہوئی لیکن �ن کے و�لد نے ترک1937بہر حال علی باقر کی پید�ئش تو ء میں �یبٹ

آ�باد کو �پنا وطن ثانی بنا لیا۔ یہ وہ دور ہے جب ترقی پسند تحریک نے �ردو کے وطن کر کے حیدر

آ�باد میں آ�نکھیں کھولی تھیں �ور کچھ ہی برس بعد حیدر وسیلے سے ہندوستان میں پہلی بار �پنی

ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔ ظاہر ہے کہ �س زمانے میں علی باقر بہت کم سن

رہے ہوں گے۔ لیکن جب �نہوں نے �بتد�ئی تعلیمی مر�حل طئے کرنے کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی میں

د�خلہ لیا تو �ن کے تخلیقی جوہر کھلنے لگے۔ شعر و �دب سے دلچسپی تو پہلے ہی سے تھی،

عثمانیہ یونیورسٹی کے ماحول نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ �نہوں نے �ظہار کے لیے �فسانے کا

ء میں ماہنامہ شمع1959کینوس �پنایا �ور بائیس برس کی عمر میں �نھوں نے پہلا �فسانہ لکھا۔ یہ �فسانہ

میں شائع ہو� �ور بھی کسی ترمیم یا تصیح کے بغیر۔ شمع �س زمانے میں سب سے مقبول �ور سب

سے زیادہ چھپنے و�لا پرچہ تھا �ور �س کی مقبولیت کا سبب صرف یہ نہ تھا کہ وہ �یک فلمی رسالہ تھا

بلکہ �س میں مشہور �فسانہ نگاروں �ور شعر� کی تخلیقات بھی شائع ہوتی تھیں �ور �دب کے شائقین

کے لیے �س میں کافی مسالہ ہو� کرتا تھا۔ یہ �ور بات ہے کہ بعض خود پرست �فسانہ نگاروں �ور

شاعروں نے شمع کو بظاہر کوئی �ہمیت نہیں دی۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی تخلیق کار

�پنی نا پختہ تخلیق کسی رسالے کو بھیج دیتا ہے �ور �گر �یڈیٹر نے �پنا ’�یڈیٹر�نہ حق‘ �ستعمال کرتے

ہوئے کہانی یا نظم یا غزل نہیں چھاپی تو تخلیق کار کو �س رسالے سے �یک کد سی ہو جاتی ہے۔

آ�گ سی بھڑکا دیتی ہے جو زندگی تخلیق کار کی نرگسیت �ور خود پسندی �س کے �ندر ہی �ندر �یک

بھر �س کے وجود کو جلاتی رہتی ہے �ور وہ �س رسالے میں شامل ہونے و�لے فن کاروں کو تیسرے

درجے کے فن کار قر�ر دے دیتا ہے۔ �گر کچھ �فسانہ نگاروں نے علی باقر کو محض �س وجہ سے

قابل �عتنا نہ سمجھا کہ وہ شمع میں چھپتے رہے ہیں تو یہ �ن کی �پنی کج روی ہے یا پھر خود

آ�گ �ن کو جھلسائے دیتی ہے۔ دوسرے �دبی رسالوں میں شائع ہونا �تنا �ہم نہیں ہے پسندی کی

جتنا کہ ہندوستان کے سب سے دیدہ زیب �ور سب سے زیادہ چھپنے و�لے رسالے میں شائع ہونا۔

Page 59: Bain Us Sutoor بین السطور

خیال رہے کہ شمع کے لاکھوں قارئین میں ہر طرح کے لوگ تھے۔ فلموں سے دلچسپی رکھنے

و�لے نوجو�نوں کے علاوہ �دیب، شاعر �ور �فسانہ نگار شمع کا مطالعہ بڑے شوق سے کرتے تھے۔ �س

�عتبار سے �گر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ علی باقر نے �پنی پہلی ہی تخلیق کے ذریعے شمع

کے لاکھوں قارئین کے علاوہ �فسانے کے قاری کو بھی �پنی گرفت میں لے لیا۔

کا عرصہ کافی طویل ہوتا ہے۔ �ن �نیس برسوں میں علی باقر نے متعدد1978سے 1959

ء میں شائع ہو�1978کہانیاں لکھیں �ور پھر �ن کے �فسانوں کا پہلا مجموعہ ’خوشی کے موسم‘

�ور �س مجموعے کے مشمولات کے بارے میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ’خوشی کے موسم‘

میں علی باقر نے �پنے منتخب �فسانے شامل کیے ہوں گے۔ �ن کا دوسر� مجموعہ ’جھوٹے وعدے

آ�یا۔ پھر 1984سچے وعدے ‘ میں �ن کے �فسانوں کا تیسر� مجموعہ ’بے1987 میں منظر عام پر

میں ’ مٹھی بھر دل‘ �ور بعد �ز�ں میں پانچو�ں مجموعہ ’ لندن کے1993نام رشتے ‘شائع ہو�۔

آ�ر�ستہ ہو� جو �ن کے پچھلے چار مجموعوں کے منتخب �فسانوں کا �حاطہ رطبع سے دن ر�ت‘ زیو

کرتا ہے۔

میں جینیو� گئے پھر وہاں1960عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کی تکمیل کے بعد علی باقر

سے لندن چلے گئے �ور وہیں سے سوشیالوجی میں �یم �ے کیا لیکن صرف پڑھنے پڑھانے کی حد

تک نہیں بلکہ وہ پریکٹیکل سوشل سائنٹسٹ تھے۔ ذہنی �ور جسمانی معذورین کے لیے �نھوں نے جو

کام کیا وہ بھلایا نہیں جا سکتا۔ �ور چوں کہ وہ �یک تخلیقی فن کار تھے �س لیے �ظہار کے لیے

�فسانے کے ساتھ ساتھ فلم کا میڈیم بھی �ختیار کیا �ور �س میڈیم کے ذریعے �نھوں نے ذہنی �ور

جسمانی معذوروں کے لیے گر�ں قدر کارنامے �نجام دیئے۔

علی باقر یورپ میں رہے تو وہاں کی رنگینیوں کو دیکھنے، برتنے �ور محظوظ ہونے کے

ساتھ ساتھ �نھوں نے وہاں کا ماحول، مسائل، پیچیدگیاں ، نفسیاتی گتھیاں بہت قریب سے

Page 60: Bain Us Sutoor بین السطور

دیکھیں ، �ن پر غور کیا، �ور پھر �نھیں �پنے �فسانوں میں سمیٹ کر قاری کو نئے جہانوں سے

اا وہ تارکین جن کا تعلق خود �پنے آ�شکار کیا۔ تارکین وطن کے مسائل بالکل مختلف ہوتے ہیں ، خصوص

وطن میں �قلیت سے ہو۔ سب سے پہلے تو وطن سے دور رہنے کا غم، عزیز �قربا دوست �حباب سے

جد�ئی کا ملال، تنہائی کا �حساس، جہاں وہ مقیم ہیں وہاں کے رہنے و�لوں کا متعصبانہ رویہ، غیر

یقینی حالات ...... یہ کچھ �یسے بچھو ہیں جو ذہن کے �ندر بیٹھ کر ہر وقت ڈنک مارتے رہتے

ہیں ، �پنا زہر منتقل کرتے رہتے ہیں �ور سوزش میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔ �ور پھر �ن سب پر مستز�د،

مصروف ترین زندگی، طول طویل فاصلے جن میں تارک وطن پستا رہتا ہے۔ علی باقر نے �ن سارے

�حساسات کو کامیابی سے �پنے �فسانوں میں منتقل کیا۔ تارکین وطن کے علاوہ علی باقر نے یورپ

کے سلگتے مسائل کو بھی �پنا موضوع بنایا، �ن پر بھی کہانی لکھی جو کبھی ہندوستان میں حکمر�ن

کیا، حالاں کہ تھے �ور جنھوں نے �پنی عزت بچانے کے لیے مقامی لوگوں کی عزت سے کھلو�ڑ

قصور �ن کا �پنا تھا۔ علی باقر کی کہانیوں کے کرد�ر دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ، وہ �نسان �ور

صرف �نسان ہیں ، �ن میں کمزوریاں بھی ہیں �ور �چھائیاں بھی، �ن میں کمینگی بھی ہے �ور شر�فت

بھی، وہ سنجیدہ مز�ج کے حامل بھی ہیں �ور کھلنڈرے بھی .... کیوں کہ یہی دنیا کی روش ہے ،

دنیا میں ہر جگہ ہر طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ جس روئیے کو علی باقر نے شدت سے محسوس

کیا �سے کرد�ر کا روپ دے کر �پنی کہانی کا حصہ بنا دیا۔ علی باقر کے کرد�ر سماج کی مختلف

سطحوں سے جنم لیتے ہیں جن سے فن کار کے گہرے مشاہدے کا �ند�زہ کیا جا سکتا ہے۔

علی باقر نے چودہ برس کا بن باس جھیلا۔ لیکن یہ چودہ برس وہ صرف روپیہ کمانے کی مشین

بنے نہ رہے۔ لندن کی مصروف ترین زندگی کے باوجود علی باقر کے �ندر بیٹھا ہو� فن کار خاموش نہ رہ

اا �فسانے کی شکل میں بکھرتا رہا یہاں تک کہ اا فوقت آ�تش فشاں کے �ندر کلبلاتا لاو� وقت سکا۔

آ� گئے۔ �ظہار کے دوسرے وسائل بھی آ�تے علی باقر کے دو مجموعے منظر عام پر آ�تے ہندوستان و�پس

Page 61: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�رٹسٹ کی شکل میں سامنے علی باقر نے کامیابی سے � �ستعمال کیے۔ �ن کے �ندر کا فن کار کبھی

آ�یا تو کبھی �د�کاری کے و�سطے سے پردۂ سیمیں پر پیش ہو�۔ �چھے فن کار کی �یک خصوصیت یہ

بھی ہے کہ �سے ہمیشہ عدم تکمیل کا �حساس رہتا ہے۔ علی باقر بھی �س کیفیت سے دوچار رہے ہیں

لیکن �س کے باوجود وہ خود شناس تھے �ور �پنی رنگارنگی سے خوش تھے۔ �پنی بھانجی ڈ�کٹر

قرۃ�لعین حسن کے نام خط میں وہ لکھتے ہیں

بعض لوگ یہ ضرور سوچیں گے کہ علی باقر نے �پنی پست قامتی کو زندگی بھر ڈھانکنا چاہا �ور’’

ناکام رہا، تصویریں بنائیں مگر �یم �یف حسین نہ بن سکا، کہانیاں لکھیں مگر کرشن چندر نہ بن

سکا، سیاحت کی مگر کولمبس نہ بن سکا، سوشل سائنس پڑھی مگر �ین سرینو�سن نہ بن سکا �د�کاری

کی مگر دلیپ کمار تو کیا جتیندر بھی نہ بن سکا، بین �لاقو�می �د�روں میں کام کیا مگر عابد حسین نہ

بن سکا مگر عینی بیٹی میں تم سے �تنا ضرور کہوں گا کہ میں �س رنگارنگی میں بہت خوش

.....‘‘رہا

(37مٹھی بھر دل ص )

آ�پریشن سے صرف �یک دن پہلے لکھی گئی ہیں۔ کل نہ جانے یاد رہے کہ یہ سطور دل کے پیچیدہ

آ�ج کیوں نہ دل کی ہر بات کاغذ پر بکھیر دی جائے۔ مز�ج کی یہ رنگارنگی صرف کیا ہو .... تو پھر

�س لیے ہے کہ علی باقر کو زندگی بھرپور �ند�ز میں جینے کا ہنر معلوم تھا۔ کامیابی نے ہمیشہ علی

باقر کے قدم چومے �ور �ہم بات یہ ہے کہ علی باقر نے کامیابی کے حصول کے لیے کبھی ضمیر کا

گلا نہیں گھونٹا۔ وہ سب کو چاہتے رہے �ور �پنی چاہت کے بل پر سب کو مجبور کرتے رہے کہ وہ

آ� سکی۔ شدید بیمار ہونے کے باوجود وہ بھی �نھیں ٹوٹ کر چاہیں۔ مایوسی کبھی �ن کے قریب نہ

مایوس نہیں رہے۔ علی باقر تخلیقی فن کار تھے۔ �ظہار پر �نھیں قدرت حاصل تھی �س لیے �نھوں نے

�یسی حالت میں بھی قلم کا ساتھ نہ چھوڑ� �ور �پنے وقت کو صحیح �ور مناسب طریقے سے �ستعمال

Page 62: Bain Us Sutoor بین السطور

ء کو لکھا گیا ہے �ور �گلے1992مارچ 20کیا۔ جس خط کا �وپر �قتباس پیش کیا گیا �س کا پہلا حصہ

کو لکھے گئے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب علی باقر کو تین ہارٹ �ٹیک ہو 25 �ور 24، 23، 22، 21حصے

آ�ئی سی سی یو آ�ف مڈیکل سائنس میں کارڈیالوجی ڈپارٹمنٹ کے آ�ل �نڈیا �نسٹیٹیوٹ چکے تھے �ور وہ

میں بستر پر در�ز تھے۔ وہ لکھتے ہیں

میں نے �س دور�ن نسیمہ کو �یک خط، �یک کہانی، �یک مضمون �ور �یک نظم لکھ ڈ�لے پھر بھی’’

لگتا ہے کہ تجربے کی شدت، جذبات کی ندرت، زندگی بچانے و�لے کی قدرت، ڈ�کٹروں کی

حکمت، ٹیکنالوجی کی جدت کے بارے میں کچھ نہ لکھ سکا۔ موت �ور زندگی، �مید �ور نا �میدی،

آ�نکھ مچولی ذہن کو �یک نئے �ند�ز سے جگاتی �ور نظر کو �یک نئی گہر�ئی �ندھیرے �ور �جالے کی

‘‘عطا کرتی ہے۔

(مٹھی بھر دل)

لیکن علی باقر کے �ندر �س بات کا �حساس ضرور رہا کہ �ردو کے جغادری نقادوں نے علی

باقر کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے۔ �پنے تیسرے مجموعے ’بے نام رشتے ‘ کے

دیباچے میں علی باقر ناقدین کر�م کے روئیے کے بارے میں لکھتے ہیں

�ردو �دب کے موجودہ حالات نہایت تکلیف دہ ہیں۔ لکھنے و�لوں �ور پڑھنے و�لوں کے درمیان’’

آ� کر کھڑی ہو گئی ہے �ور �ن کی وجہ سے ہر طرف �نتشار کا موسم ہے ، ناقدوں کی �یک بڑی فوج

لڑ�ئی جھگڑے کا موسم ہے گروپ بندی کا موسم ہے۔ ناقد �صر�ر کرنے لگے ہیں کہ �نھیں �ور صرف

رسوخ ہیں، �نھیں �دب کی پہچان ہے ، �دیب �ور شاعر کی پہچان ہے �ور چونکہ �کثر ناقد حضر�ت با

وہ جس کو چاہتے ہیں عزت دیتے ہیں �ور جس کو چاہتے ہیں ذلیل کرتے ہیں۔ یہ لوگ خود �دب

Page 63: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�و�ز کو وہ خود �ور �ن آ�و�ز بلند رکھتے ہیں تاکہ �س تخلیق نہیں کرتے لیکن �دب کی دنیا میں �پنی

‘‘کے حو�ری سن سکیں۔

حال ہر زمانے ء میں لکھی تھیں لیکن �گر غور کریں تو یہ صورت1987علی باقر نے یہ سطور

۔میں یونہی رہی ہے

۔۔۔۔۔۔****۔۔۔۔۔۔۔

Page 64: Bain Us Sutoor بین السطور

شاعر اور شخص یوسفی، برق

آ�میزے کا کوئی نام دیا جا سکتا سادہ دلی، معصومیت، خلوص، محبت �ور حوصلہ مندی کے

خیال ہے �سے برق یوسفی کہا جائیگا ....... برق یوسفی صرف شاعر ہے تو میر�

ہے .........سیدھا �ور سچا شاعر ....... مقصدیت سے بھرپور تازگی �ور ولولے سے

آ�تی ہے۔ لیکن معمور.........برق یوسفی کہتے ہیں کہ �نھیں کالی شئے میں بھی خوبصورت نظر

نظر کے �طمینان کا سبب بتاتے ہیں �ور جب قلب و پھر وہ کھرے �ور کھوٹے کی پہچان کو قلب و

نظر کی بات کرتے ہیں تو �نہیں �حساس ہوتا ہے کہ دل کی خصوصیت �ضطر�ب ہے �ور نظر کی

خصوصیت ہے بے چین رہنا۔ شاید �س طرح �نھوں نے �پنی شاعری کے �ندر چھپی ہوئی �ضطر�بی

کیفیت کو �یک نام دینے کی کوشش کی ہے ...... �ور �س طرح شاید �س �ضطر�ب کی وضاحت کرنے

کی کوشش کی ہے جو �ن کی شاعری کی �ندرونی تہوں میں موجود ہے �ور بے چین ہو کر کہہ �ٹھتے

ہیں کہ

آ�ندھی �ٹھی ہے )�ضطر�ب (۹۵مرے �ندر بڑی

سچ پوچھئے تو شاعری خود �یک �ضطر�بی کیفیت ہے ...... �یک مسلسل تلاش ....... �ور®

آ�ئی ہے .... �ور وہ �یک لامتناہی سلسلے کی کڑیاں یہی تلاش برق یوسفی کو شاعری کے در پر لے

توڑنے �ور جوڑنے کا عمل دہر�تے ہوئے جدت کی طرف پرو�ز کرتے ہیں ...... رو�یت سے بغاوت

آ�تی ہے۔ �س طرح �ن کی زندگی �ور شاعری کرنے کی شعوری کوشش �نہیں ترقی پسندی کی طرف لے

Page 65: Bain Us Sutoor بین السطور

کا مطمع نظر رہ جاتا ہے کہ سماج میں �ستحصال کرنے و�لی کالی قوتوں کو برباد کر دیا جائے۔ ترقی

پسندی سے برق کا �س لئے ربط بڑھا کہ �نہیں مخدوم کی رفاقت نصیب ہوئی۔ �بتد�ء میں برق یوسفی

نے ترقی پسندی کو صرف �س لئے گلے لگایا کہ یہ �س عہد کا فیشن تھا۔ لیکن رو�یت سے بغاوت

دیئے۔ �ور پھر حالات نے بھی کرنے کی خو�ہش نے برق یوسفی کو ترقی پسندی کے معنی سمجھا

�نہیں �یک �یسا ماحول دیا جہاں ترقی پسندی صرف سرخ پرچم کو سلام کرنا ہی نہیں تھا بلکہ �پنے

جانے کا حوصلہ بھی �ن کے خیال میں �سی مقصد کے حصول کے لئے سامر�جی قوتوں سے ٹکر�

پر مزدوروں کا نیتا۔ لیکن آ�ئیڈیالوجی سے ممکن تھا۔ �ور برق یوسفی کامریڈ ہو گئے ..... باضابطہ طور

آ�شوب دور میں بھی گنگناتا �ن کے �ندر چھپا ہو� شاعر �س پر

رہا......نظمیں ......غزلیں ......لیکن برق یوسفی نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ �نھوں نے

کبھی �پنے ذ�تی مقصد کے حصول کے لئے �صولوں کی قربانی نہیں دی۔ �ور �گر برق یوسفی نے یہ

کیا ہوتا تو شاید وہ �یک کامیاب �نسان رہے ہوتے .....مگر برق نے وفا کا سود� نہیں کیا.......�ور

بس یہی کہتے رہے۔

ہے نے کبھی سوچا �ے خرید �ر وفا، تو

جسم بکتا ہے محبت تو نہیں بک سکتی

عشق کی روح لطافت تو نہیں بک سکتی

برق کی زندگی غم سے عبارت ہے۔ حالات کا غم، سماج کا غم، محبت میں ناکامی کا

غم،یہ نظم دیکھئے ...... �س نظم میں برق کی د�ستان معاشقہ کا کیسا خوبصورت �ظہار

�ن چند لفظوں نے �یک زمانے کو سمیٹ لیا ہے ...... یہ نظم ہے ہے ......صرف چند لفظ �ور

’’درپن‘‘ ملاحظہ کیجئے

Page 66: Bain Us Sutoor بین السطور

‘‘درپن’’

وہ درو�زہ کھلا تھا

آ�نگن تھا آ�گے �یک �س کے

ہتوت کا تھاششجر

موتیا کی بیل ہنستی تھی

آ�گے آ�نگن کے �سی

�یک کمرہ خوبصورت تھا

جہاں پر �یک �لماری تھی

�س میں �یک درپن تھا

�سی درپن میں ہم تم مسکر� کر دیکھ لیتے تھے

کبھی �یک دوسرے کو منھ چڑ� کر دیکھ لیتے تھے

آ�دمی پاگل آ�گے آ�ئینے کے کہا تھا میں نے

آ�ئینہ ہے میرے روپ سے بسمل کہا تھا تم نے

وہی کمرہ ہے میں ہوں �ور درپن مجھ پہ ہنستا ہے

ہی عکس مجھ سے پوچھتا ہے کون بسمل ہے مر�

بتاؤ حسن د�نشمند ہے یا عشق پاگل ہے

Page 67: Bain Us Sutoor بین السطور

دل بیٹھ جاتا ہے مرے لب کانپ جاتے ہیں مر�

وہ درو�زہ کھلا ہے

آ�نگن ہے آ�گے �یک �س کے

شجر شہتوت کا ہے، موتیا کی بیل ہنستی ہے

آ�خری حصے میں حال کی تصویر کشی ہے منظر وہی نظم کی �بتد�ئی حصے میں ماضی �ور

وہ ہے جوں کا توں ہے۔ مگر صرف �یک چیز درمیان حائل ہو گئی ہے �ور ہے ........ ماحول سار�

بے وفائی، �ور حسن کی بنیاد د�نشمندی پر ہے۔ جہاں فیصلہ بہت سوچ کر کیا جاتا ہے عشق کی

بنیاد پاگل پن پر ہے۔ جہاں فیصلہ کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا جاتا کہ �س کا �نجام کیا ہو گا۔

حادثے برق یوسفی کے ساتھی رہے ہیں۔ �ور ہر حادثے کو برق یوسفی نے بڑی معصومیت سے

کمخو�ب سے محروم کر رکھا ہو لیکن برد�شت کیا ہے۔ �ن کی سادہ دلی نے �نہیں بھلے ہی ریشم و

یہی سادہ دلی �ن کا سرمایہ حیات ہے۔ برق کے ہاں صرف محبت ہے ...... وہ نفرت کرنا نہیں

جانتے �ور �ن کے ہاں دشمنی کا کوئی تصور نہیں۔ درحقیقت برق یوسفی �یک بے حد معصوم

نام ہے۔ �ور یہی کیفیت برق کی شاعری کا طرۂ �متیاز ہے ...... �یک بہت مختصر نظم شخصیت کا

درج ہے جو شاید برقی کی شخصیت پوری طرح عکاسی کرتی ہے۔

ماں باپ سے لے کر بھائی تک

معشوق سے لے کر بیوی تک

�ک پہ بھروسہ ہم نے کیا ہر

Page 68: Bain Us Sutoor بین السطور

معلوم ہو� �س دنیا میں

بے لوث محبت مہنگی ہے

بے نام شر�فت مہنگی ہے

رشتوں کا سمجھنا مشکل ہے

جذبوں کا سمجھنا مشکل ہے

لے ڈوبا ہے ہم کو بھولاپن

جل بجھ ہی گیا �پنا تن من

�ور �س نظم کا عنو�ن ہے ’’تجربے کی چوٹ‘‘ ..... برق تجربے کی چوٹ کھاتے ہیں �ور

بڑی معصومیت سے �س چوٹ کو سہلاتے ہوئے دوسری چوٹ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ..... مگر

آ�تا ہے۔ وہ تنہائی کے غم سے آ�زما نہیں ہوتےد برندلچسپ بات یہ ہے کہ �نھیں جینے کا فن بھی

بلکہ چپکے سے سرگوشی کرتے ہیں۔

�کیلے پن کو کوئی خو�ب دے دوں

شب دیجور کو مہتاب دے دوں

�ستعار�ت کی بہتات نہیں۔ �نھوں نے �پنی شاعری کو برق کی شاعری میں تشبیہات �ور

بیان �ور عروض کی نز�کتوں کاریگری سے نہیں سجایا۔ �نھوں نے زبان و صناعی �ور کر�فٹ مین شپ یا

کو خو�ہ مخو�ہ �پنے گلے کا ہار نہیں بنایا۔ برق کی شاعری میں جو سادگی ہے وہی �ن کا طرۂ �متیاز

رومانی ماحول میں بہتے ہوئے بن جاتی ہے۔ چاہے وہ �یک مزدور کے لبوں ہر مچلتا ہو� نغمہ ہو، یا

Page 69: Bain Us Sutoor بین السطور

سبک خر�م جھرنے کی طرح ہلکا پھلکا �ظہار ........سادگی �ور معصومیت �س کا �ہم پہلو ہیں۔ یہی

سادگی �ور معصومیت برق کی شخصیت کا حصہ بھی ہے �ور �ن کے فن �ور �ن کی شاعری کا جزو

بھی........ زندگی کی تمام تر کلفتوں کے باوجود برق کے ہاں مایوسی نہیں بلکہ زندگی کی

پر دفتر �منگ ہے۔ باتیں بہت کی جا سکتی ہیں۔ �یک �یک نظم، �یک �یک غزل بلکہ �یک �یک شعر

کے دفتر سیاہ کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی شاید �یک سچے شاعر کا حق �د� نہ کیا جا سکے۔

آ�خر میں صرف دو آ�پا کی تحریر سے پیش کرنا میں آ�پا، ہم سب کی زینت آ�پا، �پنی زینت سطریں �پنی

.......چا ہوں گا جو �نھوں نے برق کے بارے میں لکھا ہے وہ لکھتی ہیں

برق کو مشکلات کا بھی �ند�زہ ہے �ور غموں کا �حساس بھی، مگر وہ �ن سے مغلوب نہیں’’

آ�رزومند ہے۔ �س لئے تھکن،تنہائی، غم کی فر�و�نی، ناکامی و نامر�دی کے باوجود �س �یک نئی سحر کا

کی نظموں میں �یک بہترین زندگی �ور شریفانہ �نسان دوستی موجود ہے �ور �چھے مستقبل کی �مید

‘‘بھی۔

-------------------------٭٭ -------------------------

Page 70: Bain Us Sutoor بین السطور

گوئی نعت میں قصائد دکنی

یہ تو سب جانتے ہیں کہ قصیدہ عربی صنف سخن ہے �ور فارسی کے ر�ستے سے �ردو میں

د�خل ہوئی۔ فرق صرف یہ ہے کہ عربی شعر�ء نے صرف قافیے پر �کتفا کیا جب کہ فارسی شعر�ء نے

لی قصیدے لکھنے کے علاوہ �س میں ردیف شامل کر کے بھی عربی شعر�ء کی �تباع میں مقف

قصائد لکھے۔ �ردو کے شاعروں نے بھی �سی طریقے کو �پنایا۔

�بتد�ئی عربی شاعری میں قصیدے ہی کا سانچہ �ستعمال کیا جاتا تھا �ور �س میں ہر طرح کے

�نعام و � موضوعات باندھے جاتے تھے لیکن بعد میں مدحیہ مضامین بھی باندھے جانے لگے �ور

کر�م کے لیے رئیسوں کی مدح میں قصیدے لکھے گئے۔ پھر جب فارسی میں قصائد لکھے گئے

تو �ن کا مقصد بھی �مر�ء کی مدح کر کے �ن سے �نعام و � کر�م حاصل کرنا تھا۔ �س طرح قصیدہ مدح

سر�ئی کے لیے مخصوص ہو گیا۔ کبھی یہ بھی ہو� کہ شعر�ء نے �پنے دل کی بھڑ�س نکالنے کے لیے

ہجو لکھی �ور قصیدے کے سانچے کو ہی وسیلہ بنایا۔ چناں چہ قصیدے میں مدحیہ �ور ہجویہ دونوں

طرح کے مضامین باندھے گئے۔ ویسے عام طور پر قصیدے کا �طلاق مدح پر ہی ہوتا ہے جو ہمارے

�ور دیگر اا حضور نبی کریم روزمرہ میں بھی د�خل ہے۔ زندہ �فر�د کے علاوہ �ہم شخصیتوں خصوص

بزرگان دین کی مدح میں قصائد لکھے گئے۔

آ�غاز دکن سے ہوتا ہے۔ کئی دوسری �صناف کی طرح �ردو قصیدہ نگاری کا

Page 71: Bain Us Sutoor بین السطور

کے شاعر مشتاق �ور لطفی کا ذکر کیا ہے �ور �ن نصیر �لدین ہاشمی نے محمد شاہ بہمنی کے دور

دونوں کے قصائد کے نمونے بھی دئیے ہیں۔ لیکن یہ قصائد نعتیہ نہیں ہیں �ور نہ ہی �ن میں کوئی

نعتیہ شعر ہے۔ چونکہ �س مضمون کا موضوع نعت سے متعلق ہے �س لیے �ن شعر� کے قصائد سے

مثالیں پیش کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔

عادل شاہی سلطنت کا بادشاہ علی عادل شاہ شاعری سے گہر� شغف رکھتا تھا �ور شاہی تخلص

کرتا تھا۔ ڈ�کٹر زینت ساجدہ نے کلیات شاہی کے عنو�ن سے �س کا کلام مرتب کر کے شائع کر دیا

کی مدح میں ہے۔ �س ہے۔ �س کلیات میں چھ قصیدے ہیں جن میں سے �یک قصیدہ نبی کریم

قصیدے کا مطلع یہ ہے

دیکھو نوروز چنچل یو بہارستاں دکھایا ہے

پپھل و پھولاں تیں پون کے ہتھ کھلایا ہے بن ببرک

شاہی نے تشبیب میں بیس شعر کہے ہیں �ور �س کے بعد گریز یوں ہے

لی لگیا کرنے سمن سینتی گلابی پھول پر دعو

لی بڑ� و و ناؤں پایا ہے کھیا مالی نہ کر دعو

و و بولیا باغ مالی سوں بڑ� ہے ناؤں سو کس کا

ب�پ نپایا ہے کھیا وہ �سم �حمد � کا جنے دیں

محمد شاہ مرسل کا لگیا جب نعت کہنے میں

میٹھائی پاکے کے من میر� یو مضموں چن کے لیایا ہے

Page 72: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�غاز ہوتا ہے۔ مدح کے دو شعر ملاحظہ ہوں �ور �ب یہاں سے مدح کا رسول

تر جگ میں محمد سا نہیں پید� کیا کرتار

تر جگ کا بھر�یا ہے �وسی کے عشق تے سونسار

شریعت ہور حقیقت کا عنایت سب کیا سائیں

بڑ� رتبہ دے عالم میں کرم �پنا جتایا ہے

آ�خری تین شعر یہ ہیں �س قصیدے کے

لکھیا ہوں نعت یو سار� طبع مجھ روشنی پانے

تتہیں حق کا سر�یا ہے رسن کوں کاں �چھے طاقت

پپن کے لے چو سیتے مضامیں کے بھریا موتی چتر

قصیدیاں میں مرصع کر قصیدہ یو بنایا ہے

تمارے عشق کا نس دن دندھا دل میں دھریا شاہی

چرن تل سیس لا �پنا دعا منگنے کو دھایا ہے

قطب شاہی دور میں جو قصائد لکھے گیے �ن کے بارے میں نصیر �لدین ہاشمی لکھتے

ہیں

یل کی بلند پرو�زی کے لحاظ سے تعریف و ستائش کےخقصائد �پنی شوکت لفظی ‘ طمطر�ق �ور ت’

‘مستحق ہیں

Page 73: Bain Us Sutoor بین السطور

(80دکن میں �ردو۔ ص )

فیروز قطب شاہی دور کا �یک �ہم شاعر گزر� ہے جس کی شاعر�نہ صلاحیتوں کا وجہی �ور �بن نشاطی نے

کیا ہے۔ لیکن �س کا کوئی قصیدہ نہ مل سکا۔ �ور نہ ہی محمود ملا خیالی وجہی وغیرہ کے قصائد

اا لکھے ہیں۔ �س بات دستیاب ہو سکے۔ مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ �ن شاعروں نے قصائد یقین

کی تحریر سے بھی ہوتی ہے وہ لکھتی ہیں کی تصدیق پروفیسر سیدہ جعفر

پور کے عادل شاہی حکمر�نوں �ور گول کنڈے کے قطب شاہی سلاطین نے دکن میں بیجا’’

دوسری �صناف سخن کے ساتھ قصیدہ نگاری کی بھی حوصلہ �فز�ئی کی �ور �ن کی قدرد�نی �ور

‘‘سرپرستی نے �س صنف کو پرو�ن چڑھایا۔

(44دکنی �دب میں قصیدے کی رو�یت۔ ص )

محمد قلی قطب شاہ �ردو کا پہلا صاحب دیو�ن شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ �س نے قصائد بھی

لکھے ہیں جو �س کے کلیات میں شامل ہیں۔ عید میلاد �لنبی پر محمد قلی قطب شاہ کے قصیدے

:کا مطلع یوں ہے

نبی مولود لیایا ہے خبر سر تھے خوشی کا

سد� صلو�ۃ بھیجو سب محمد ہور علی کا

بڑ�ی ہے بہوت �س دیس کوں عید�ں میں سارے

سعادت میں سعادت ہے سعادت �س گھڑی کا

سو ساعت کی سعادت میں دعا منگے جو کوئی

Page 74: Bain Us Sutoor بین السطور

لکھیں بخشیش کا خط �س پیشانی پر جلی کا

نبی مولود ہے دیباچہ سب مولود میانے

سو ہے نوروز عید�ں میں �نند یے سروری کا

عنو�ن ’عید میلاد کلیات محمد قلی قطب شاہ مرتبہ ڈ�کٹر سیدہ جعفر میں �س قصیدے کا

(۔ لیکن یہ قصیدہ بیک وقت نعت بھی ہے �ور منقبت بھی‘ کیوں کہ �س711�لنبی‘ دیا گیا ہے۔ )ص

ر دو کی مدح کے ساتھ حضرت علی کرم �للہ وجہ‘ کی مدح بھی کے زیادہ تر �شعار میں سرکا عالم

ملتی ہے۔ �س کی وجہ یہ ہے کہ محمد قلی قطب شاہ �ثنائے عشری عقائد کا پیرو تھا۔ کلیات میں

’بعثت نبی صلی �للہ علیہ و سلم‘ کے عنو�ن سے �یک قصیدے کے صرف دو شعر درج کیے گئے

:ہیں �ور نیچے نوٹ دیا گیا ہے کہ �س کے بعد کے صفحات موجود نہیں ہیں۔ وہ دو �شعار یہ ہیں

حضرت نبی پیغمبری حق تھے سو �س دن پائے ہیں

آ�ئے ہیں جبرئیل کھن تھے مصطفی کن وحی لے کر

سارے نبیاں پر سروری دیتا خد� حضرت کوں تو

تترہوئے کر سر پر �بھالاں چھائے ہیں قدرت تھے چ

محمد قلی کے قصیدوں میں تشبیب �ور گریز نہیں ملتے۔ �س نے صرف مدح �ور دعا لکھی

ہے۔

�ن نعتیہ قصائد کے علاوہ محمد قلی نے نعتیں بھی لکھی ہیں۔ کلیات محمد قلی قطب شاہ

مرتبہ ڈ�کٹر سیدہ جعفر میں پانچ نعتیں ملتی ہیں جن کے مطلعے پیش ہیں۔

Page 75: Bain Us Sutoor بین السطور

ددیپن ہار� ہو� ل�جت کی جوت تھے عالم تج مکھ

تج دین تھے �سلام لے مومن جگت سار� ہو�

�سم محمد تھے � ہے جگ میں سو خاقانی مجھے

پسہتی ہے سلطانی مجھے بندہ نبی کا جم رہے

چاند سورج روشنی پایا تمارے نور تھے

آ�ب کوثر کوں شرف تھڈی کے پانی پور تھے

دیا بندہ کوں حق نبی کا خطاب

حکم دے دیا نور جوں ماہتاب

ل�پی نبی صدقے کیا ر�فع خد� منج مہر سوں

آ�پی دیا ر�فع لماں جوں وہی منجے تخت س

ثمینہ شوکت نے �پنے مضمون ’دکھنی ڈ�کٹر �ن میں سے تیسری نعت کے تین �شعار

دکنی �دب نمبر( میں درج کیے ہیں۔ متن کی غلطیوں سے64-1963قصائد‘)مشمولہ مجلہ عثمانیہ

قطع نظر یہ �شتباہ ہوتا ہے کہ یہ �شعار بھی صنف قصیدہ سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ ڈ�کٹر سیدہ

جعفر نے �نھیں نعت کے زمرے میں رکھا ہے �ور یہی درست ہے۔ قصیدے کی بظاہر خصوصیت یہ

ت بھی یہی ہےئہے کہ �س کے ہر شعر میں مطلع کے قو�فی کی پابندی کی جاتی ہے۔ غزل کی ہی

لیکن غزل کا ہر شعر �یک مکمل �کائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ قصیدے کی سب سے �ہم شرط مدح ہے

کی ر�ہ �ختیار کرتا ہے۔ تشبیب �ور گریز �ور مدح تک پہنچنے کے لیے شاعر

Page 76: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�غاز حمد باری سے �س مضمون کا �ختتام ہم ولی کے نعتیہ قصیدے پر کرتے ہیں۔ �س قصیدے کا

ہوتا ہے جس کا مطلع یوں ہے

عشق میں لازم ہے �ول ذ�ت کوں فانی کرے

ہو فنا فی �للہ د�ئم یاد یزد�نی کرے

:چودہ حمدیہ �شعار کے بعد نعت کے �شعار یوں ہیں

خضر وقت زندگی پاوے �بد کی جگ منیں و و

جو �پس کوں فدویء محبوب سبحانی کرے

یا محمد دو جہاں کی عید ہے تجھ ذ�ت سوں

خلق کوں لازم ہے جیو کوں تجھ پہ قربانی کرے

آ�ز�د جو باز�ر میں تجھ حسن کے وہ �چھے

آ�پ کوں جیوں ماہ کنعانی کرے بندگی میں

تم کا گر سنے د�ود ناد بک بن بحا تل � تو پن تی ز

ہو وے خوش دربار پر تیرے خوش �لحانی کرے

نوح تجھ رحمت کی کشتی باج کیئں پاوے نہ تھاہ

تجھ غضب کا گر سمندر جوش طوفانی کرے

Page 77: Bain Us Sutoor بین السطور

رتبۂ عالی میں دیکھے حق نزیک �پنا کلام

آ� تیری ثنا خو�نی کرے گر کلیم �للہ

آ�وے بہت مشتاق ہو جسم کوں سٹ روح سوں

گر تری �مت خلیل �للہ کی مہمانی کرے

تب مسیحا فقر کے خط کو سکھے گا تجھ نزیک

مشق کرنے فقر کی جب لوح پیشانی کرے

جس مکاں میں ہے تمھاری فکر روشن جلوہ گر

ر ناد�نی کرے آ�کے وھاں �قر� عقل �ول

حکمتاں کی سب کتاباں دھو سٹے یک بارگی

گر فلاطوں تجھ دبستاں میں سبق خو�نی کرے

پسرج تجھ قدم پر جو �پس کا سیس ر�کھے جیوں

وہ قیامت لگ �پس چہرے کو ں نور�نی کرے

کیا ملک کیا �نس و جن یوجگ میں کس کوں ہے سکت

آ�نی کرے خط بنا تجھ مکھ کے جو تفسیر قر

آ�وے شوق سوں لی قد تر� جنبش میں دیکھ طوب

جب گلستان �رم کی تو خر�مانی کرے

Page 78: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�فریں عارفاں بولیں گے جان و دل سوں لاکھوں

جب ولی تیری مدح میں گوہر �فشانی کرے

درج بالا قصیدہ مکمل طور پر نعتیہ ہے۔ �س کے علاوہ ولی کے کلیات میں �یک �ور قصیدہ

ملتا ہے جس کا عنو�ن ہے ’ در حمد و نعت و منقبت و موعظت ‘۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، �س

د �ور پھر منقبت خلفائے ر�شدین و �مام حسن و �مام قصیدے میں حمد باری کے بعد نعت محم

آ�خر میں دنیا کے بارے میں تفصیلی �ور نصیحت سے معمور بیان ہے۔ یہاں صرف نعت حسین ہے۔

کے �شعار درج کیے جا رہے ہیں۔

بعد حمد خد� ے بے ہمتا

یاد کر نعت سید مرسل

جس کی ہمت کی ہے تر�زو میں

دو جہاں مثل د�نۂ خردل

آ�ہو� ہے کھڑ� �س کی مجلس میں

آ�خرمیں جوہر �ول صف

آ�فتاب گرم عتاب گر ہو و و

آ�سماں جائیں مثل موم پگھل آ

دیکھ �س کے جلال و عظمت کوں

بادشاہاں کا دنگ ہے دنگل

Page 79: Bain Us Sutoor بین السطور

گر کرے بحر پر غضب کی نظر

ماہیاں جائیں جل کے بھیتر جل

ت�س فصاحت �گے دسے مج کوں

نطق سحباں عبارت مہمل

کاملاں سوں سنا ہوں یہ نکتہ

عشق �س کا ہے ہادی �کمل

ز ہر مومن نام �س کا ہے حر

یاد �س کی ہے و�قع کلول

دیکھ �س زلف و مکھ کوں بے جا ہے

بحر و بر میں عنبر و صندل

�ن �شعار میں جو صنعتیں ہیں �ن میں سے چند کی طرف �شارہ کیا جا رہا ہے۔ تیسرے شعر میں

آ�یا ہے۔ یہ تجنیس آ�خر �ستعمال ہو� ہے جو صنعت تضاد ہے۔ پانچویں شعر میں دنگ �ور دنگل �ول �ور

آاخر ہے۔ چھٹے شعر میں جل دومرتبہ �لگ �لگ معنوں میں �ستعمال کیا گیا ہے۔ یہ تجنیس مطرف ز�ئد �ل

تام مستوفی ہے۔

ولی کے �ن دو قصائد میں �یک بات بری طرح کھٹکتی ہے �ور وہ یہ ہے کہ ولی نے حضور

ر کی ذ�ت با کے عتاب �ور غضب کا بھی ذکر کیا ہے جب کہ حضو برکات رحمت �للعالمین نبی کریم

تھی۔

Page 80: Bain Us Sutoor بین السطور

***

Page 81: Bain Us Sutoor بین السطور

ارتقا کا ناول اردو میں دکن

�دبی تخلیق در�صل �نسانی ذہن کی ہمہ جہت کیفیات کے منضبط �ظہار کا نام ہے۔ تخلیق کار

�نسانی ذہن کو ہمیشہ دیتا ہے۔ یہی وہ خو�ب ہیں جو �پنے کھوئے ہوئے خو�بوں کو تخلیق میں سمو

ناول وہ صنف �دب ہے جس میں زندگی متحرک �ور فعال نظر متحرک �ور فعال بنائے رکھتے ہیں۔ �ور

آ�تی ہے۔ لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر زندگی کی عکاسی کے لئے ناول سے بہتر �ور کوئی وسیلہ نہیں۔ �س

ہتا ہےنسکتا۔ جس میں وہ کی وجہ یہ ہے کہ ناول نگار �پنا ناطہ �س عہد �ور �س سماج سے نہیں توڑ

�ور ساتھ ہی �س کا �ہنا نظریۂ حیات بھی �س کی تخلیق کے �ند�ر �یک زیریں لیر کی طرح رو�ں دو�ں

آ�تا ہے۔ ناول نگار کی یہ خوبی ہے کہ وہ �پنے معاشرے کو زندہ �ور متحرک حالت میں پیش کرنے نظر

پر قادر ہوتا ہے۔ وہ �پنے عہد کے سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی، نفسیاتی، �خلاقی �ور معاشرتی

کم �ن کے گھناؤنے پن ہی کو کم �ز مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے �گر حل نہیں پیش کر سکتا تو

پیش کر کے �پنے فرض سے سبک دوش ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ �س کا �نحصار �س بات پر ہے کہ

ناول نگار کا مشاہدہ کس حد تک پختہ ہے۔ �گر ناول نگار کے مشاہدے میں پختگی نہ ہو گی تو

حیات کی حقیقتوں کی صحیح عکاسی ممکن نہ ہو سکے گی۔ کیونکہ تفریح، دلچسپی �ور تحیر سے

نشاط کی کیفیتوں کو پید� کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ناول نگار زندگی حظ و

کے گوں ناگوں مسائل کا �پنے مخصوص �ند�ز سے تجزیہ کرے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ زندگی کے

مسائل ہی ناول میں دلچسپی �ور تحیر کا سبب بنتے ہیں �گر �نہیں صحیح �ند�ز میں پیش کیا جائے۔

Page 82: Bain Us Sutoor بین السطور

ناول نگار قر�ر دیا جاتا پہلا جہاں تک �ردو میں ناول نگاری کا تعلق ہے۔ ڈپٹی نذیر �حمد کو

ا�ۃ �لعروس کو پہلا ء میں لکھا گیا۔ �س کے �ٹھائیس سال بعد حیدر۱۸۶۹ناول ....... جو ہے �ور مر

ول�نہلا آ�باد میں مہار�جہ سرکشن پرشاد نے ’’مطلع خورشید‘‘ تحریر کیا جس کو دکن میں لکھا گیا پ

ء میں لکھا گیا۔ �س ناول کی تکمیل پر د�غ نے قطعہ۱۸۹۷ھ یعنی ۱۳۱۵کہا جا سکتا ہے۔ یہ ناول

تاریخ لکھا تھا۔ کہتے ہیں

�ے مہار�جہ بہادر شاد

آ�باد تجھ کو رکھے خد� شاد

خوب ناول نیا کہا دلچسپ

�یسے کہنے کا و�ہ کیا کہنا

‘‘نام �س کا ہے ’’مطلع خورشید

�س کی تاریخ تھی یہی زیبا

د�غ نے یہ کہا ہے مصرع سال

آ�فتاب سخن بھی �ب نکلا

آ�ر� کا ذکر ہے جو �تفاق سے مرز� مخمور �س ناول میں �یک شریف گھر�نے کی لڑکی خورشید

اا گھروں کو دیکھ کر �س کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ �س ناول میں شاد نے عورتوں �ور خصوص

میں کام کرنے و�لی عورتوں کی زبان، محاورے �ور روزمرہ کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ �س دور کے

ناولوں کے پلاٹ �ور مرکزی خیال کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’مطلع خورشید‘‘ کو کسی �عتبار سے بھی

Page 83: Bain Us Sutoor بین السطور

جا سکتا۔ ویسے خود مہار�جہ کشن پرشاد �پنی فطری �نکساری کی وجہ سے �س ناول کمتر نہیں کہا

بہت معمولی سمجھتے ہیں۔ �یک خط میں لکھتے ہیں۔

آ�پ کے پاس بھیجتا ہوں چپ چاپ نظر ے گوش گزرے۔ بائے بسم �للہ سے تائے’’ مطلع خورشید

آ�تی ہے کہ میں ٹوٹے پھوٹے تمت تک دیکھ جاؤ مگر کہیں �عتر�ض نہ جڑ دینا۔ مجھے خود ہنسی

قصے کو ناول کہہ کر ناول نویسوں کے زمرے میں گویا لہو لگا کر شہیدوں میں د�خل ہوتا ہوں۔ یا

........‘‘یوں کہو کہ �س فن ناول نویسی کو دھبہ لگاتا ہوں۔ �لغرض جو کچھ ہو مگر بک تو دیا ہے

ی(رقعات شاد بحو�لہ ڈ�کٹر حبیب ضیائ)

�سی �نکسار نے شاد پر یہ �لز�م عاید کرنے میں مدد کی کہ شاد خود نہیں لکھتے بلکہ

سرشار سے لکھو�تے ہیں۔ شاد کے دوسرے ناول ’’چنچل نار‘‘ کے بارے میں تو یہ باتیں بڑے

شدومد سے کہی گئیں �ور شاد کی زندگی ہی میں �ن پر �لز�م عائد کیا گیا۔ �س کی وجہ شاید یہ تھی

کہ شاد طبقہ �مر� سے تعلق رکھتے تھے �ور �مر� کے بارے میں یہ شہرت رہی ہے کہ وہ فن �ور علم

خریدتے ہیں۔ چنانچہ عبد�لماجد دریابادی �ور ڈ�کٹر حکم چند نیر نے �س کی تردید کی �ور ڈ�کٹر حبیب

ضیاء نے بھی تفصیلی بحث کر کے �س خیال کو غلط بتایا۔ �ور �ند�ز بیان میں لکھنوی لہجہ کی وجہ

دیا۔ سرشار کے �سلوب کا تتبع قر�ر

مغربی تہذیب کا ٹکر�ؤ بھی ہے �ور مذ�ہب ناول بزم خیال ہے۔ جس میں مشرقی و تیسر� کا شاد

تمدن �ور کی �صل پر بحث بھی ! ساتھ ہی شاد نے �س بات کی بھی کوشش کی ہے کہ تہذیب و

معاشرت کا نقشہ کھینچنے میں کوئی کمی نہ رہ جائے چنانچہ ہولی، عید، تہو�ر، شادی بیاہ، جشن

وغیرہ کی مختلف رسومات کو �س ناول میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ علاوہ �زیں �س عہد کی �یک �ہم

آ�تا ہے �ور شاد نے عورت کی �ہمیت ثابت کرتےتحریک ترقی نسو�ں کا پرتو بھی �س ناول میں نظر

Page 84: Bain Us Sutoor بین السطور

نگاری کا یہ �ند�ز نگاری �پنے عروج پر ہے۔ منظر ہوئے تعلیم نسو�ں پر زور دیا ہے۔ �س ناول میں منظر

آ�میزی �ور بیان کا پر شکوہ �ند�ز جو شرر کے یہاں ہے وہی شرر کے یہاں بھی ملتا ہے۔ تخیل کی رنگ

آ�تا ہے۔ غنیمت یہ ہے کہ ناقد�ن �دب نے محض �س وجہ سے یہ نتیجہ �خذ شاد کے ہاں بھی نظر

آ�باد کی ناول نگاری میں سناٹا نظر نہیں کیا کہ بزم خیال شرر کی تصنیف ہے۔ شاد آ�تا کے بعد حیدر

آ�تے ہیں۔ لیکن ہے۔ �لبتہ سرشار �ور رسو� کے ناول دنیائے �دب میں مہر تاباں کی طرح چمکتے نظر

آ�باد میں رہے آ�باد سے نہیں رہا بلکہ یہ صرف ملازمت کے لئے حیدر چوں کہ دونوں کا تعلق حیدر

تھے �س لئے �ن کے ذکر سے گریز کیا جا رہا ہے۔

آ�باد کی �یک خاتون طیبہ بیگم نے ’’حشمت �۱۹۳۰ء �ور ۱۹۲۵ نسا‘‘ �ورلء کے درمیان حیدر

آ�بادناول لکھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی ’’�نوری بیگم‘‘ نام سے دو میں �یک نسو�ں کی تحریک حیدر

کو متاثر کر رہی تھی �ور عورت کے حقوق کے لئے دنیا بھر میں �حتجاج کیالد لہر کی طرح ذہن و

جہو� تھا۔ طیبہ بیگم نے �پنے �ن ناولوں میں عورت کے گھریلو مسائل �ور تعلیم کے فقد�ن کی ہر جا

آ�باد کی مخصوص تہذیب و معاشرت کا بھی سے درپیش مسائل کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ حیدر

لی ہمایوں مرز� کامیاب نقشہ کھینچا آ�تا ہے وہ بیگم صغر ہے۔ طیبہ بیگم کے بعد جو نام سامنے

لی ہمایوں کا ...... جن کے ناول زہر� یا مشیر نسو�ں میں عورت کا یک نیا روپ پیش کیا گیا۔ صغر

آ�نکھ بند کر کے تقلید نہیں کرنا چاہتی مرز� کے �س ناول میں عورت نئے زمانے �ور نئی تہذیب کی

مغربی تہذیب کے تمام �چھے �صولوں کو �پنے بلکہ �نہیں پرکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ �ور مشرقی و

�ندر جذب کر کے �یک مثالی معاشرے کی تشکیل چاہتی ہے۔ وہ یہ چاہتی ہے کہ مغربی تہذیب کی

لی ہمایوںپخوبیوں کو �س طرح � لی قدریں باقی رہیں۔ صغر نایا جائے کہ مشرقی تہذیب کی تمام �عل

آ�تا ہے۔ جس کے نسو�نی مرز� کا یہ متو�زن رویہ �ن کے دوسرے ناول ’’سرگزشت ہاجرہ‘‘ میں بھی نظر

آ�ر�ستہ بھی۔ کرد�ر مشرقی تہذیب کا نمونہ بھی ہیں �ور مغربی تہذیب سے

Page 85: Bain Us Sutoor بین السطور

پرسی لیوبک کہتا ہے

آ�مد بات نہیں کہی جا سکتی جب تک کہ ہم نے �س کی تعمیرو’’ ناول کے بارے میں کوئی کار

تنظیم کے سو�ل پر غور �ور فکر نہ کی ہو۔ �ور کسی خاص مقصد سے کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے

پر جسے �س کی چھان بین نہ کی ہو ...........ناول کے �س خاص پہلو سے عدم و�قفیت کی بنا

اا وہ پہلو کہہ سکتے ہیں جس کا سامنا �ور محاکمہ ناگزیر ہے ، ناولوں کے ہم میکا نکی پہلو �ور نتیجت

‘‘بارے میں ہمارے گفتگو �دھوری رہ جاتی ہے۔

(۶۸شب خون فروری )

�ور چارلس نیومن کا خیال ہے کہ

آ�مد ہوتے ہیں جو عام ناول کے علاوہ کوئی �یسی صنف سخن نہیں ہے جس سے �یسے رد’’ عمل بر

نے جمالیاتی وجودپطور پر �نسانی رشتوں سے متعلق ہوں۔ �ور کوئی �یسی صنف سخن نہیں ہے جو �

.........‘‘کے بارے میں �س قدر بے �طمینانی �ور بے یقینی کا �ظہار کرتی ہو

(ء۸۱شب خون �پریل مئی )

آ�ر� کی روشنی میں �گر �ردو ناول نگاری کا جائزہ لیا آ�باد کے �ن دو مفکروں کی جائے تو حیدر

آ�تا ہے جس کا پہلا ناول ہوس آ�یا �ور۱۹۳۲�یک �ہم ناول نگار عزیز �حمد کا نام سامنے ء میں سامنے

جس نے دنیائے �دب کو �پنی طرف متوجہ کر لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عزیز �حمد �س زمانے میں

آ�یا۔ ء ہی میں �ن کا دوسر� ناول مرمر �ور خون منظر۳۲�بھی طالب علم تھے۔ ء۴۶ء میں گریز، ۴۲عام پر

آ�گ، ء میں شبنم لکھی گئیں۔ ہوس چونکہ �بتد�ئی عہد۴۹ء میں �یسی بلندی �یسی پستی �ور ۴۷میں

آ�تی۔ �ور �س کی تلاش بھی نہیں کی پید� و�ر ہے �س لئے �س میں فنی �ور فکری گہر�ئی نظر نہیں

بھی �س ناول کی �ہمیت �س لئے بڑھ جاتی ہے کہ بابائے �ردو مولوی عبد�لحق نے کرنی چاہئے۔ پھر

Page 86: Bain Us Sutoor بین السطور

ناول مرمر �ور خون ہے جس کے بارے میں خود عزیز �س کا دیباچہ لکھا تھا۔ عزیز �حمد کا دوسر�

آار� ناول گریز ہے جس �حمد کا خیال ہے کہ وہ �ن کا بدترین ناول ہے۔ عزیز �حمد کا سب سے معرکۃ �ل

کا مرکزی کرد�ر نعیم، زندگی �ور �س کی تلخ حقیقتوں سے گریز کرتا ہے �ور �س گریز سے شرمندہ بھی

آ�گہی بھی ہے �ور زندگی کے ہے۔ یہ کرد�ر �پنے عہد کا �یک نمائندہ کرد�ر ہے جس میں عصری

بارے میں �یک بھرپور رویہ بھی۔ �س ناول میں صیغہ و�حد متکلم �ستعمال ہو� ہے جس کی وجہ سے

نعیم کی باطنی کیفیات کی بہتر عکاسی ممکن ہو سکی۔ �ور �س کی د�خلی کیفیات، ذہنی �نتشار �ور

نفسیاتی �لجھنوں کو کھل کر سامنے لایا جا سکا۔ عزیز �حمد پر یہ �لز�م عائد کیا جاتا ہے کہ �نہوں نے

غائر نے ناولوں میں �س لئے برتا کہ سستی شہرت حاصل کی جا سکے۔ لیکن بہ نظرپجنس کو �

جائزہ لیا جائے تو محسوس ہو گا کہ جنس ہماری زندگی کا �یک �ہم جزو ہے �ور ہم چاہیں یا نہ چاہیں

�س سے فر�ر حاصل نہیں کر سکتے۔ �س سے گریز گویا زندگی سے گریز ہے۔

عزیز �حمد کے دوسرے ناولوں ’’�یسی بلندی �یسی پستی‘‘ �ور ’’شبنم‘‘ میں بھی حقیقت

نگاری ہے لیکن گریز کے مقابلے میں کم۔ �ن ناولوں میں عزیز �حمد نے قدرے �حتیاط سے کام

آ�ز�د کے مطابق عزیز �حمد جنسی �ور ذہنی طور پر مریض نہیں ہیں �س لئے �ن کے یہاں لیا۔ �سلم

عریانی تو ہے لیکن فحش نگاری نہیں۔ �ور پروفیسر یوسف سرمست کے خیال میں عزیز �حمد کی ناول

نگاری کو صرف جنس کی کسوٹی پر کس کر رد کر دینا صحیح نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ

سی کیفیات کےنجدید نفسیاتی علم نے �نسانی زندگی کی حقیقت شعار�نہ عکاسی کے لئے ج’’

دیا تھا۔ �س لئے عریاں نگاری �ور جنس سے دلچسپی پورے جدید �ظہار کو لازمی �ور ضروری قر�ر

......... ‘‘عالمی �دب کی �متیازی نشانی بن گئی تھی

آ�ہٹ نہ سننا بصیرت کے فقد�ن کی علامت ہے یہی وجہ ہے کہ ویسے بھی نئے زمانے کی

مولوی عبد�لحق نے عزیز �حمد کے پہلے ناول پر دیباچہ لکھ کر �س نوجو�ن مصنف کی ہمت �فز�ئی

Page 87: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ز�دی سے قبل کا �ور �ہم کی تھی۔ �ور نئے زمانے نئے �دب �ور نئے رجحانات کی پذیر�ئی کی تھی۔

آ�یا۔ �س ناول میں جلیس نے تعلیم یافتہ ء میں منظر۴۶ناول �بر�ہیم جلیس کا چور باز�ر ہے جو عام پر

مگر بے روزگار نوجو�نوں کے مسائل، �س کی ذہنی کیفیات �س کی �لجھنیں �ور �س کی نفسیات کو

پیش کرتے ہوئے ہندوستان کے نچلے متوسط طبقے کی معاشی مسائل کا �حاطہ کیا ہے۔ �س ناول کے

کرد�ر مہندر، ظفر، نوح �ور جلیل خو�بوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ تعلیم مکمل کرتے ہی زندگی کی

آ�سائشوں کو �ہنے د�من میں سمیٹ لینے کی تمنا لئے جب وہ عملی زندگی میں د�خل ہوتے ساری

ہیں تو بے روزگاری کا عفریت �ن کے سارے خو�ب نکھیر دیتا ہے۔ �ن کرد�روں میں صرف نوح �یسا

ہے جو �یک سفارش سے ملازم ہو جاتا ہے لیکن باقی کرد�روں میں مہندر مرد طو�ئف بننے پر مجبور

آ�گر خودکشی کر لیتا ہے۔ جلیل نوح کے ہو جاتا ہے ظفر کی بہن پیشہ کرنے لگتی ہے �ور وہ خود تنگ

گھر رہتا ہے لیکن �س کی بیوی جلیل کو برد�شت نہیں کر سکتی۔ نتیجہ میں وہ گاؤں چلا جاتا ہے

پھر فوج میں ملازمت �ختیار کر لیتا ہے۔ چار دوستوں کی �س دردناک سرگذشت کو کرشن چندر نے

بیسویں صدی کا قصۂ چہار درویش قر�ر دیا تھا۔

آ�منہ �بو�لحسن �ور آ�ز�دی کے بعد ناول نگاروں میں عفت موہانی، و�جدہ تبسم، جیلانی بانو،

رفیعہ منظور�لامین �ہم ہیں۔ عفت موہانی نے زندگی کے مسائل کا گھریلو �ند�ز میں جائزہ لیا ہے۔ �ن کے

ناولوں میں معاشرت کو �ہمیت دی گئی ہے �ور چھوٹے چھوٹے مسائل سے ناول کا ڈھانچہ تیار کیا

آ�منہ �بو�لحسن کا ناول سیاہ سرخ �ور سفید �یک �ہم ناول ہے۔ جس کا موضوع جنسی نفسیات ہے گیا ہے۔

آ�نے و�لی صورت حال کا تجزیہ کیا گیا ہے ........و�جدہ تبسم �ور نا آ�سودگی کے نتیجے میں پیش

آ�باد کے نو�بی معاشرے کو پس منظر کے طور پر �ستعمال کرتے ہوئے جو ناول لکھے وہ نے حیدر

کچھ لوگوں کو برے ضرور لگتے ہیں۔ لیکن �ن تلخ حقائق سے �نکار بھی ممکن نہیں۔ و�جدہ تبسم

کے قلم میں بے پناہ قوت ہے �ور وہ چٹخارے د�ر زبان میں جنسی معاملات کو پیش کرتے ہوئے

Page 88: Bain Us Sutoor بین السطور

�چانک نشتر چبھو دیتی ہیں تو جنس پس منظر میں چلی جاتی ہے �ور قاری �یک کسک میں مبتلا ہو

جاتا ہے۔ یہی �ن کا کمال ہے۔

جیلانی بانو کا �یو�ن غزل �یک �ہم ناول ہے جسے �ردو ناول نگاری کا �یک سنگ میل کہنا

کی خوبی یہ ہے کہ وہ چاہئے۔ �س ناول میں تین نسلوں کی �لجھنیں پیش کی گئی ہیں۔ جیلانی بانو

آ�دمی کے عمل �ور رد عمل کو جیتے جاگتے �نسانوں کو کرد�ر کی شکل دے دیتی ہیں �ور �یک عام

آ�لود کیفیت نہیں بڑی خوبی سے �پنے ناولوں میں سمو دیتی ہیں۔ �س لئے �ن کی تحریر میں وہ خو�ب

ملتی جو قرۃ �لعین کی خصوصیت ہے۔ جیلانی بانو حقائق کو �ن کے �صلی روپ میں پیش کرتی ہیں۔

دکن میں ناول نگاری کے �س مختصر تجزیہ سے یہ بات و�ضح ہوتی ہے کہ �گر چہ دکن میں ناولوں

پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی لیکن جن لوگوں نے �س فن کو �پنایا �نہوں نے �پنا خون جگر جلا کر نئی

ر�ہیں بنائیں۔ دکن کی ناول نگاری کی �یک �ور �ہم خصوصیت یہ ہے کہ یہاں رو�یت بنائی گئی۔ رو�یت

آ�خری نام مظہر �لزماں کا ہے جس کا کی �ندھا دھند تقلید نہیں کی گئی ....... �س سلسلے کا

آ�یا ہے۔ �ور مستقبل میں �س نوجو�ن سے توقع و�بستہ کی جا سکتی ہے کہ وہ صرف �یک ناول سامنے

نئے ناول کی ر� ہوں کا نقیب ہو گا۔

----------------------------------------٭٭-----------------------------------------

شاعر مند درد ایک: خیال ا#حسن فیض

Page 89: Bain Us Sutoor بین السطور

اا آ�باد کے �ن شعر� میں ہیں جو ز�ئد �ز چالیس برس سے تقریب ہر محفل فیض �لحسن خیال حیدر

کی رونق رہے ہیں۔ رو�یت �ور ترقی پسندی کے �متز�ج کے ساتھ ساتھ �پنے مخصوص ترنم کے شعر

آ�باد آ�باد بلکہ بیرون حیدر بھی �پنی مقبولیت کے سکے ذریعہ فیض �لحسن خیال نے نہ صرف حیدر

آ� چکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’ موج صبا‘ جمائے۔ �ن کے �ب تک چار مجموعے منظر میں 1965عام پر

آ�ر�ستہ ہو�۔ �س کے بعد 1972شائع ہو�۔ �ور پھر دوسر� مجموعہ ’ صبح کا سورج‘ میں زیور طبع سے

آ�یا۔ پھر �ن کا چوتھا مجموعہ ’قند 1979 ہند ‘ میں �ن کا تیسر� مجموعہ ’کانچ کا شہر‘ منصۂ شہود پر

میں �شاعت پذیر ہو�۔ 1995

مجموعہ �س �عتبار سے ندرت کا حامل ہے کہ �س میں فیض فیض �لحسن خیال کا چوتھا

�لحسن خیال کے �ردو منتخب کلام کے ساتھ �نگریزی، ہندی �ور تلگو میں ترجمہ بھی شامل ہے جو

بالترتیب پروفیسر پی وی شاستری، عزیز بھارتی �ور خو�جہ معین �لدین نے کیا۔ کسی شعری مجموعے کو

چار زبانوں میں �یک ہی جلد میں �یک ساتھ شائع کرنے کی یہ پہلی مثال ہے۔ �ور �ب �ن کا چوتھا

مجموعہ’ ‘ کے عنو�ن سے شائع ہو رہا ہے۔

فیض �لحسن خیال سیدھے سادے �ند�ز میں �پنی بات کہنے کے قائل ہیں۔ �ن کے ہاں

ناقابل فہم �ستعارے �ور لاینحل قسم کی تر�کیب نہیں ملتیں۔ وہ عو�می مز�ج کے شناسا ہیں �ور یہ

جانتے ہیں کہ مشکل زبان �ور تر�کیب سے عو�می ترسیل کامیاب نہیں ہو سکتی۔ �ن کا یہ شعر دیکھئے

�سی کا ذکر گلشن میں نہیں ہے

لہو جس نے بہاروں کو دیا ہے

دئیے گئے جنھوں نے وطن کی خاطر �پنا لہو بہایا۔ یہ آ�ز�دی کے بعد وہی متو�لے سرے سے بھلا

آ�ز�دی کی فضا میں سانس آ�ز�دی کے جنون سے سرشار جیالوں کا فیض ہے کہ ہندوستان نے �ن ہی

Page 90: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ز�دی ملی تو کیا ہو�، یہ سب جانتے ہیں۔ فیض �لحسن خیال نے �سی حقیقت کو شعر لی۔ لیکن جب

عو�می �حساس کو بید�ر کرنے کی کوشش کی ہے۔ �سی خیال کو �یک �ور غزل میں کا پیر�ہن دے کر

�نھوں نے �س طرح پیش کیا ہے۔

آ�ز�دی کے میخانے سجائے ہیں جنھوں نے �من و

�نہی کو عصر نو نے زہر کے ساغر پلائے ہیں

�وتقلیکن فیض �لحسن خیال کو �س بات کا یقین ہے کہ وقت سب سے بڑ� مصنف ہے �ور جس ش

کا مظاہرہ برد�ر�ن وطن نے کیا ہے �نھیں �س کی سز� ضرور ملے گی۔ وہ کہتے ہیں

نے نظام میخانہ بدل دیا ہے جو تو

زمانہ تجھ کو ضرور �یک دن سز� دے گا

فساد�ت کے زہر نے �نسانیت کو د�غ د�ر کر دیا۔ کوئی شہر �یسا نہیں بچا جہاں فساد�ت

کے عفریت نے تباہی نہ پھیلائی ہو۔ دیکھیے فیض �لحسن خیال کیا کہتے ہیں

آ�ندھی چلی بجلی گری گھر جل گیا کس طرح

کیا کرو گے سن کے تم یہ غم بھر� �فسانہ ہے

لطف یہ ہے کہ جو ہنگاموں کے و�قعی ذمہ د�ر ہیں وہ تو سنگھاسنوں پر بر�جمان ہیں �ور بجائے �س

کے کہ مظلوموں کو �نصاف ملتا �لٹے �ن ہی کو مجرم قر�ر دیا جاتا رہا۔ یہ شعر دیکھیے

جرم کس کا ہے یہاں �ور سز� کس کو ملی

فیصلے میں یہ عبارت نہیں دیکھی جاتی

Page 91: Bain Us Sutoor بین السطور

فیض �لحسن خیال �یک درد مند شاعر ہیں۔ �نھوں نے جو کچھ محسوس کیا �سے لفظوں میں

ڈھال دیا۔ یہ دیکھنا ضروری نہیں ہے کہ شاعر نے کیسے کہا۔ لیکن یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ وہ

کیا کہہ رہا ہے۔ �س کا مطمعء نظر کیا ہے، �س کے خو�بوں کی بنیاد کیا ہے �ور یہ خو�ب کس طرح

شکست و ریخت کے مر�حل سے دوچار ہیں۔ یہ سوچنا شاعر کا کام نہیں ہے کہ مسائل کا حل کیا

ہے۔ کیوں کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے ہر شخص کے پاس �س کا �پنا نظریہ ہے۔ شاعر تو صرف

نشاندہی کرتا ہے۔ فیض �لحسن خیال نے یہ کام بڑی خوبصورتی سے سر �نجام دیا ہے۔

آ�ج کے دور میں شعری مجموعوں کی پذیر�ئی کم ہی ہوتی ہے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ

آ�و�ز دیمک زدہ صفحات میں قید ہو کر رہ جاتی جب قاری ہی کم سے کم ہوتے جائیں تو شاعر کی

ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ �یسے ہیں جو �پنے �ظہار کو مصلحتوں کے غلاف میں چھپا کر زندگی

آ�و�ز بلند کرتے رہتے ہیں۔ فیض �لحسن آ�نکھیں نہیں چر�تے بلکہ حسب �لمقدور کے حقائق سے

خیال �یسے ہی �یک فن کار ہیں۔

خد� کرے کہ �ن کا یہ مجموعہ مقبول ہو۔

Page 92: Bain Us Sutoor بین السطور

غم فلسفۂ کا غا#ب

و ہیں۔ سوز �ور رقت کے بغیر �نسان نامکمل ہےزغم �ور جذبات �لم �نسانی زندگی کا �ہم ج

آ�رزوئیں لیکن غم ہے کیا......؟ �گر غور کیا جائے تو �ند�زہ ہوتا ہے کہ ہر�نسان کی کچھ تمنائیں �ور

ہوتی ہیں۔ �س کے ساتھ ساتھ زندگی کی کچھ بنیادی �ور دو�می قدریں بھی و�بستہ ہوتی ہیں ........

جاتی ہیں تو �نسان حسرت میں ڈوب جب یہ قدریں تمناؤں کے روپ میں ذہن �نسانی �ور فکر پر چھا

ہونے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ لیکن جب یہی قدریں کر نطشے کے فوق �لبشر سے قریب تر

ریخت کا شکار ہونے لگتی ہیں تو �نسان �س عجیب تمناؤں کا روپ دھارنے کے بعد شکست و

کہ غم دور�ں ، غم کائنات ہو کہ غم کیفیت میں ڈوب جاتا ہے جسے ہم غم کہتے ہیں۔ غم زندگی ہو

حیات، غم محبوب ہوکہ غم روزگار غم کسی نہ کسی شکل میں �نسان کے قریب ہوتا ہے۔ یعنی �نسان

غم سے چھٹکار� نہیں پاسکتا۔ دنیا کا کوئی شخص �یسانہیں ہے جس سے کوئی غم و�بستہ نہ

ہو .......�نسان کو ہمیشہ �پنی بے �طمینانی کا �حساس رہا۔ �پنی بے مائگی پر �نسان ہمیشہ سے

� کا سہار� لیتان تم پر وہ �پنی بے مائگی کے �حساس کو کم کرنے کے لئے سوچتا رہا ہے وقتی طور

ہے ...... لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہر تمنا تکمیل کے درجے تک پہنچ جائے۔ ہر خو�ب کا پیکر

میں تبدیل ہونا ضروری نہیں۔ �ور جب تمنا �ور خو�ب ٹوٹتے ہیں تو کبھی کبھی زندگی �پنی تمام

نشتریت کو لئے �یک خوفناک ہیولے کی شکل میں نمود�ر ہوتی ہے �ور یہی قنوطیت کی �بتد�ء ہے۔ غم

آ�پ پر �س حد تک طاری کر لیا جائے کہ وہ قنوطیت کی سرحدوں میں د�خل ہونے لگے تو کو �پنے

پھر زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔ دل گرفتگی کا �حساس موت کی و�دیوں میں پناہ تلاش کرنے لگتا ہے۔

�یک �یسا �نسان جس کے �عصاب کمزور ہوں �ور جس کی قوت �ر�دی کو �ستحکام نہ ہو وہ معمولی

Page 93: Bain Us Sutoor بین السطور

صدمے کو بھی برد�شت نہیں کر سکتا۔ معمولی ساغم بھی �س کے لئے جان لیو� ثابت ہو سکتا ہے۔

برخلاف �س کے �یک �یسا شخص جو �یک تربیت یافتہ ذہن کا مالک ہے ، جس کی قوت �ر�دی مضبوط

�ور فکر سلجھی ہوئی ہے یہی غم �سکی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے۔ وہ صلاحیتیں جن سے حیات

کائنات کے مسائل سلجھانے میں مدد ملتی ہے .....بصیرت �ور �در�ک کی روشنی سے ر�ہ حیات و

منور ہونے لگتی ہے یہ غم ہی تو تھا جس نے سدھارتھ کو ’’بدھ‘‘ بنایا �ور یہ بھی غم ہی تھا جس نے

بھی �س دیا......ماضی قریب میں جھانکئے تو علی گڑھ تحریک کی بنا مجنوں کو صحر�ئی دیو�نہ بنا

غم کی وجہ سے پڑی ہے۔ �سی غم نے سر سید کو قوم کی حالت سدھارنے �ور نوجو�نان قوم کو زیور

آ�ر�ستہ کرنے کی طرف ر�غب کیا۔ تعلیم سے

لی نہیں۔ �ردو �دب کا دنیا کا ہر �دب غم �ور �لم سے متصف ہے �ور شاعری �س سے مستثن

�یک �ہم عنصر غم �ور �لم سے معمور شاعری ہے۔ کہیں غم تنہائی کی شکل میں نمود�ر ہوتا ہے تو

کہیں غم عشق �ور غم روزگار کا روپ لے کر ہمارے �حساسات کو جلا بخشتا ہے۔ غالب بھی �س

جذبے سے بچ نہ سکے۔ �ن کی شاعری میں غم �یک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ لیکن چونکہ غالب بے

حد ذہین تھے �ور �ن میں فلسفیانہ فکر �ور بصیرت کی کمی نہ تھی �س لئے �ن کی حرماں نصیبی نے

لیحدہ معیار قائم کیا۔ غالب نے �پنے تجربات، مشاہد�ت �ور فکر کے ذریعے �ظہار کو �تنا �پنا �یک عل

منظم �ور مربوط کر دیا کہ جہاں �ن کا غم ذہن کے لئے تحریک �ور �منگ کا باعث بنتا ہے وہیں �یک

دبی دبی خوشی کا �حساس بھی �بھرتا ہے۔

شیخ محمد � کر�م لکھتے ہیں :۔

آ�دمی کا حزن و’’ کی �چھی چیزوں سے محبت ہے ملال ہے جسے دنیا غالب کا غم �س صحت مند

لیکن جب وہ مسلسل سعی کے باوجود �نہیں حاصل نہیں کر سکتا تو غمگین ہو جاتا ہے۔ غالب کے

�شعار میں حزن و�فسردگی کی جھلک ہے لیکن غالب کی �فسردگی عام قنوطیوں کی طرح دنیا کی

Page 94: Bain Us Sutoor بین السطور

مذمت کے باعث نہیں بلکہ دنیا کی دلفریب چیزوں سے لگاؤ کی وجہ سے ہے۔ غالب کی �نتہائی

آ�تا۔ بلکہ یہ حزن و �فسردگی مایوسی میں بھی ترک دنیا، رہبانیت یا مردم بیز�ری کا شائبہ تک نظر نہیں

آ�دمی کی ہے جو زندگی کی قدر ‘‘قیمت پہچانتا ہے �ور جسے �س سے محروم رہنا ناگو�ر ہے۔ و �س

(۲۹۰غالب نامہ صفحہ )

شیخ محمد � کر�م غالبیات کے بہت بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں

�نہوں نے غالب کی مردم بیز�ری سے �نکار کرتے ہوئے مندرجہ بالاسطور لکھیں ...... حالانکہ

کہیں کہیں غالب کے پاس مردم بیز�ری بھی ملتی ہے۔

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح �سد

آ�دمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں ڈرتا ہوں

غالب کے ہاں تنہائی پسندی، ترک دنیا �ور رہبانیت کا تصور بھی موجود ہے۔

رہئے �ب �یسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو �ور ہم زباں کوئی نہ ہو

دیو�ر سا �ک گھر بنایا چاہئے و بے در

کوئی ہمسایہ نہ ہو �ور پاسباں کوئی نہ ہو

د�ر تو کوئی نہ ہو تیمار بیمار پڑیئے گر

جایئے تو نوحہ خو�ں کوئی نہ ہو مر �ور �گر

Page 95: Bain Us Sutoor بین السطور

پر ہمیں شیخ محمد � کر�م آ�تی ہیں ....... مجموعی طور لیکن �یسی مثالیں خال خال ہی نظر

آ�گاہ تھے۔ کیونکہ غالب نے کی �س ر�ئے سے �تفاق کرنا پڑے گا کہ غالب زندگی کی قدو قیمت سے

�تنے مصائب �ٹھائے �ور �یسے �یسے �نقلابات دیکھے کہ �ن پر زندگی کی تلخ حقیقتیں و�ضح ہو

چکی تھیں۔ تبھی تو وہ یہ شعر کہنے کے مکلف بھی ہیں کہ

رنج کا خوگر ہو� �نساں تو مٹ جاتا ہے رنج

آ�ساں ہو گئیں مشکلیں مجھ پر پڑیں �تنی کہ

�س لئے شیخ محمد � کر�م لکھتے ہیں :۔

نے قلزم خوں میں شناوری کی تھی قیامت حقیقی تو خیر کس نے دیکھی ہے لیکن مرز� نے مرز�’’

آ�نکھوں سے دہلی کا سار� نظام روز حشر کی طرح تہہ و بالا ہوتے دیکھا تھا �ور �ن مصیبتوں سے �پنی

لی کہنا کسی طرح مبالغہ نہیں ہے۔ ‘‘دوچار ہوئے تھے جنہیں قیامت صغر

(۲۹۵)غالب نامہ صفحہ

غالب کے خطوط کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ وہاں بھی غم کی �یک زیریں لہر

موجود ہے۔ غالب کی �نسانیت دوستی، �ن کی �لجھنیں ، لغزشیں، وضع د�ری کے لئے جدوجہد، کنبہ

آ�خر تک لڑنے �ور مایوسی کے بجائے عزم تازہ پروری، �پنی خامیوں پر ہنسنے کا جذبہ، زندگی سے دم

پر غالب پید� کرنے کا حوصلہ، یہ تمام �یسے عو�مل ہیں جو غالب کو ’’غالب ‘‘ بناتے ہیں۔ عام طور

کے خطوط کو سادگی �ور ظر�فت کا مرقع کہا جاتا ہے لیکن �س کے ساتھ ساتھ �ن خطوط میں

شوخی �ور ظر�فت کا لباس �وڑھے ہوئے شدید غم بھی پنہاں ہے جو مکتوب نگار کی ذہنی کیفیت کا

جس نے �ن کے دل پر بہت گہر� �ثر�آ�ئینہ د�ر ہے۔ دہلی کی بربادی غالب کی زندگی کا وہ سانحہ تھ

کیا۔ �یک خط میں وہ لکھتے ہیں۔

Page 96: Bain Us Sutoor بین السطور

لکھوں ، دلی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں پر تھی، قلعہ، چاندنی چوک، پر روز کیا پوچھتے ہو،کیا’’

ہفتہ سیر جمنا کے پل کی، ہرسال میلہ پھول و�لوں کا، یہ پانچوں باتیں �ب باز�ر جامع مسجد کا، ہر

‘‘ہند میں �س نام کا تھا۔ نہیں پھر کہو، دلی کہاں ؟ ہاں کوئی شہر قلمرو

�س کے باوجود غالب نے مایوسی سے کام نہیں لیا۔ وہ �س ویر�نی میں بھی نشاط کا پہلو

نکال لیتے ہیں۔

�یک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق

نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

ڈ�کٹر عبد�للہ لکھتے ہیں۔

آ� ہونے کی غالب کا غم حقیقی ہے ، مگر وہ زخم کو گہر� ہونے نہیں دیتے، �س سے عہدہ بر’’

کوشش کرتے ہیں ، �س کو عیش بنانے کی �ہلیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ �س کے لئے وہ ہنگامہ زنگی

بناتے ہیں۔ �س ہنگامے پر �ن کی زندگی کا �نحصار ہے۔ نوحۂ غم یا نغمۂ شادی، �س سے کو نوش د�ر

�نہیں کوئی بحث نہیں ہے۔ یہ سب �نسان کی فکری صحتمندی کا کرشمہ ہے جو غم کو بھی نشاط

(۲۵۱میں بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ‘‘ )نقد میر صفحہ

غالب جانتے تھے کہ موت برحق ہے ......... لیکن �س کے ساتھ ساتھ زندگی کے ساتھ

اا ہو گی۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں۔ غم کی و�بستگی بھی یقین

بند غم �صل میں دونوں �یک ہیں قید حیات و

آ�دمی غم سے نجات پائے کیوں موت پہلے

Page 97: Bain Us Sutoor بین السطور

اا �یسا نہیں۔ یہاں یہ تسامح ہو سکتا ہے کہ غالب موت کی تمنا کر رہے ہیں لیکن حقیقت

غالب صدموں کو برد�شت کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے �ور سخت پریشانی �ور رنج کے

آ�پ کو سنبھالے رکھنے کے قائل تھے۔ غم سے چھٹکار� پانا ممکن نہیں علام میں بھی وہ �پنے

لیکن زندگی بھی کچھ قیمتی نہیں ہے .... وہ کہتے ہیں۔

تاب لاتے ہی بنے گی غالب

و�قعہ سخت ہے �ور جان عزیز

آ�گے ہیچ وہ زندگی کو عزیز رکھتے تو ہیں لیکن ساری دنیا �ور مسائل کائنات کو �پنے

آ�مادہ کر سکتی ہے۔ سمجھتے ہیں۔ وہ �نسان کی �ن قوتوں سے و�قف ہیں جو �سے تسخیر کائنات پر

�س لئے دنیا کے غموں کو وہ �ہمیت ن ہیں دیتے �ور �سے تماشے سے تعبیر کرتے ہیں۔

آ�گے بازیچۂ �طفال ہے دنیا میرے

آ�گے ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے

�للہ رقمطر�ز ہیں عبد ڈ�کٹر

شوپن ہار جس نے فلسفۂ غم کی شاید مکمل ترین تشریح کی ہے ، غم کو زندگی کی مستقل کیفیت’’

دیتا ہے �ور مسرت کو �یک سلبی کیفیت بتاتا ہے یعنی �س کے نزدیک غم کے عارضی یا حالت قر�ر

‘‘ نام مسرت ہے۔ فقد�ن کا

(۸۲)نقد میر صفحہ

آ�تے ہیں۔ �ور غالب �پنے �شعار میں �س خیال کی تائید کرتے نظر

Page 98: Bain Us Sutoor بین السطور

عشرت قتل گہ �ہل تمنا مت پوچھ

کا عریاں ہونا عید نظارہ ہے شمشیر

کے کلام کا جائزہ عبد�للہ نے �پنے مضمون ’’غالب، معتقد میر ‘‘میں غالب �ور میر ڈ�کٹر

لیتے ہوئے �ن �ہم باتوں کی طرف �شارہ کیا ہے جن کی وجہ سے غالب میر کے معتقد ہو سکے

تھے۔ لیکن حیرت ہے کہ �نہوں نے میر کے غم �ور غالب کے غم کا تقابل نہیں کیا۔ �گر بنظر غائر

دیکھا جائے تو محسوس ہو گا کہ میر کے فلسفہ غم سے غالب نے بہت کچھ �ستفادہ کیا �ور �پنے

آ�پ کو ناسخ کے خیال سے متفق ظاہر کرتے ہوئے یوں کہا ہے۔

یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ غالب �پنا

آ�پ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

اا یہ �ور بات ہے کہ میر کے غم میں جو کیفیات ہیں غالب کے پاس �ن ہی کیفیات نے نسبت

آ�فاقیت میں �ضافہ ہو گیا۔ غالب �ور میر دونوں فلسفیانہ �ند�ز �ختیار کر لیا۔ جس کی وجہ سے �ن کی

بے حد نازک مز�ج �ور زود رنج تھے لیکن غالب میر کی بہ نسبت زیادہ شگفتہ مز�ج تھے �ور �پنے مز�ج

ملال میں یکساں مقبول ہوئے۔ �ن کا خیال تھا کہ رنج وصخو� کی �س خصوصیت کی بنا پر عو�م و

کو دل میں جگہ دینے کی بجائے �طمینان �ور سکون سے کام لینا چاہئے۔

آ�ز�دوں کو بیش �ز یک نفس غم نہیں ہوتا ہے

برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم

ڈ�کٹر عبد�لرحمن بجنوری کے �لفاظ میں۔

Page 99: Bain Us Sutoor بین السطور

غالب �ن تابوت بردوش فلسفیوں میں نہیں ہیں جو زندگی کو ماتم خانہ �ور �ہل دنیا کو �صل مرز�’’

جنازہ خیال کرتے ہیں۔ وحدت �لوجود کے فلسفہ کا پہلا سبق یہی ہے کہ ماسو� �و خد� صرف عارضی

‘‘ طور پر جد� ہیں ........�ور بعد �لموت یہ جد�ئی ختم ہو جاتی ہے۔

()محاسن کلام غالب

آ�فریں کے حو�لے کرتے چنانچہ غالب موت سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ وہ تو� پنی جان جاں

ہوئے مسرت محسوس کرتے ہیں بلکہ �نہیں تو �س بات کا صدمہ بھی ہوتا ہے کہ �نہوں نے زندگی

کا حق �د� نہیں کیا۔

جان دی،دی ہوئی �سی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق �د�نہ ہو�

کا مبد� زندگی غالب کا فلسفۂ غم کئی شعوری �ور غیر شعوری عو�مل کا پروردہ ہے۔ �ن کی فکر

�ور �ن کی فکر کی �نتہا بھی زندگی ہی ہے۔ �نہوں نے ہر چیز کو زندگی کے پیمانوں پر

جانچا ...... زندگی کی خارجی کیفیات کو �نہوں نے �پنے د�خلی جذبات سے محسوس کیا۔ �پنی

ہستی کی پائید�ری کا �نہیں ہمیشہ �حساس رہا۔ غالب کا سماجی رویہ �ن کے �پنے �نفر�دی تجربات �ور

مشاہد�ت پر مبنی ہے۔ لیکن جب وہ �پنے �ن تجربات �ور مشاہد�ت کا �ظہار کرتے ہیں تو یوں محسوس

ہوتا ہے کہ

‘‘یہ بھی میرے دل میں ہے گویا’’

آ�فاقیت کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا �ور نوع �نسانی کے سماجی �ور کیونکہ �نہوں نے �پنے �ظہار میں

تاریخی شعور کو متحرک کرنے کی کوشش کی۔ غالب نے موت کی تمنا بھی کی تو �س تمنا کے

Page 100: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�رزو رکھتے ہوئے وہ �پنے پیچھے جینے کی خو�ہش موجود ہوتی ہے۔ �ور جینے کا لطف �ٹھانے کی

مخصوص فلسفیانہ �ند�ز میں موت کی لذت کا ذکر کرتے ہیں۔

ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا

کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مز�

مگر �س کے باوجود غالب کو ہمیشہ یہ گلہ رہا کہ �نہیں لوگوں نے سمجھا نہیں �پنی د�خلی

کیفیات کا �ظہار کرتے ہوئے وہ کس حسرت سے کہتے ہیں۔

نشاط تصور میں نغمہ سنج ہوں گرمی

آ�فریدہ ہوں میں عندلیب گلشن نا

درد کی دو� ہے لیکن غالب �س بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غم کا کوئی کہا جاتا ہے کہ ہر

درد کی دو� موجود ہے وہ علاج نہیں ہے۔ �ور �س طرح �نہوں نے �س کلیہ کو باطل قر�ر دیا ہے کہ ہر

کہتے ہیں۔

درد کی دو� پید� ہوئی ہے کہتے ہیں ہر

تو چارۂ غم �لفت ہی کیوں نہ ہو یوں ہو

غم سے نشاط �ور سرور کی کیفیت حاصل کرنا غالب کا خاص �ند�ز ہے۔ جب غم سے نجات

نجات ممکن نہیں تو پھر �س کا غم کیوں کیا جائے۔ �سی غم سے نشاط کا پہلو پید� کیا جا سکتا

ہے۔ بجائے �س کے کہ غم کا رونا روئیں۔ �سی غم سے سرور بھی تو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ

غالب کہتے ہیں۔

Page 101: Bain Us Sutoor بین السطور

ر تپ غم کہاں تلک کیجئے بیاں سرو

مو مرے بدن کا زبان سپاس ہے ہر

�یک �ور جگہ لکھتے ہیں۔

نشاط د�غ غم عشق کی بہار نہ پوچھ

شگفتگی ہے شہید گل خز�نی شمع

جائے تو معلوم ہو گا کہ غالب کے متد�ول دیو�ن �ور نسخہ حمیدیہ کا �یک سرسری جائزہ لیا

( بار �ستعمال کیا ہے۔ �ن �شعار سے ہٹ کر جہاں لفظ ’’غم ‘‘ کے۶۶�نہوں نے لفظ ’’غم‘‘ کو )

ذریعے �پنے فلسفہ غم کو پیش کیا ہے ، �یسے �شعار بے شمار ہیں جن میں غالب نے غم کے

تعلق سے �پنا خیال ظاہر کیا ہے۔ غم کی جو تشریح غالب نے کی ہے �ن میں سے چند �شعار درج

ذیل ہیں۔

خو کہ تحیر کو تماشہ جانے تو وہ بد

آ�شفتہ بیانی مانگے غم وہ �فسانہ کہ

�زبسکہ سکھاتا ہے غم ضبط کے �ند�زے

آ�یا �یک چشم نمائی ہے جو د�غ نظر

آ�غوش بلا میں پرورش دیتا ہے عشق کو غم

چر�غ روشن �پنا قلزم صرصر کا مرجاں ہے

Page 102: Bain Us Sutoor بین السطور

خیال ہے کہ زندگی میں غالب غم کو �نسانی زندگی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔ �ن کا

کچھ فیض �گر غم نہ ہو تو پھر کچھ بھی نہ رہ جائے گا...... �س لئے موت سے پہلے غم سے جو

حاصل ہو سکتا ہے وہ حاصل کر لینا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں

نغمہ ہائے غم کو بھی �ے دل غنیمت جانئے

بے صد� ہو جائے گا یہ ساز ہستی �یک دن

وہ �پنے غم کی بے پناہ قوتوں سے و�قف ہیں ........ کہتے ہیں

میں نے روکا ر�ت غالب کو وگر نہ دیکھتے

�سکے سیل گریہ میں گردوں کف سیلاب تھا

آ�گے �یک �ور جگہ لکھتے ہیں

کہ پھر جوش �شک سے غالب ہمیں نہ چھیڑ

بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کئے ہوئے

تو پھر زندگی بے کیف ہو کر رہ جائے �ن کا خیال ہے کہ غم ہی سب کچھ ہے۔ �ور گم نہ ہو

گی۔ پھر غم کے ساتھ غم کے لو�زمات نہ ہوں تو پھر زندگی زندگی نہ رہے گی، موت سے بدتر ہو

جائے گی۔ وہ غم کی �ہمیت کا �ظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

آ�خر و دلا یہ درد �لم بھی تو مغتنم ہے کہ

آ�ہ نیم شبی ہے نہ گریۂ سحری ہے نہ

Page 103: Bain Us Sutoor بین السطور

�ن کا �یقان ہے کہ ہر نشیب کے بعد فر�ز لازمی ہے۔ �گر غم سے نجات پانا ہو تو پھر خوشی

سے ہاتھ دھونا پڑے گا......... �ور �س طرح غم سے کنارہ کشی کر کے �نسان �س مسرت سے

ہاتھ دھو بیٹھے گا جو �س کی منتظر ہے .......وہ لکھتے ہیں۔

شادی سے گزر کہ غم نہ ہودے

�ردی جو نہ ہو تو دے نہیں ہے

بہرحال غالب کا فلسفہ �یک زندہ �نسان کی نشاندہی کرتا ہے �یسا �نسان جو ہنگاموں کا پروردہ

ہے ...... وہ �نسان جو سماجی حیو�ن ہے ، وہ �نسان جس کو غم کی دولت میسر ہے۔ �ور �س طرح

�نسان تمام مخلوقات سے بڑھ کر ہے ....... �سی لئے �شرف �لمخلوقات کہا جاتا ہے۔

-------------------------٭٭-------------------------

***

Page 104: Bain Us Sutoor بین السطور

شاعری اردو اور ہائیکو شئے بدلتی ہے۔ �نسانی فکر کے ز�ویئے بدلتے ہیں ، جب وقت بدلتا ہے تو �س کے ساتھ ہر

خیالات �ور رجحانات بدلتے ہیں فیشن بدلتا ہے۔ �ور جب یہ تبدیلی �دب میں رونما ہوتی ہے تو �ظہار

آ�غاز میں �ردو شاعری کو �یک کے پیر�ئے �سکوب کے سانچے بھی بدلتے ہیں۔ بیسویں صدی کے

آ�نا �یک لازمی �مر تھا۔ لہجہ نیا موڑ دیا۔ چونکہ موضوعات بدل رہے تھے �س لئے �سلوب میں تبدیلی

آ�ہنگ کا پید� ہونا ضروری تھا۔ عالمی شعر آ�گہی کے نتیجے میں نئی ہئیتوں کا و میں �یک �دب سے

آ�نا بھی �یک یقینی بات تھی چنانچہ دوسرے ممالک کی زبانوں میں مروجہ �صناف کو �ردو وجود میں

میں برتنے کی تجربے کئے گئے ’’ہائیکو‘‘ �سی طرح کا �یک تجربہ ہے۔ ’’ہائیکو ‘‘ �صل میں

جاپانی صنف سخن ہے وہاں �بتد�ئی دور ہی سے مختصر نظمیں قبول رہیں۔ بالکل �سی طرح جیسے

ہندوستان میں دوہے یا �یر�ن میں رباعی �ور غزل کے �شعار یا قدیم عربی �دب میں قصائد کے دور

عروج سے قبل �رجوزۃ یا �ر�جیز قبول عام کی سند رکھتے تھے۔

مقبول صنف سخن تھی۔ جاپان کی �بتد�ئی شاعری میں ’’رینگا ‘‘ یا ’’تنکا‘‘ �یک مشہور و

آ�ج بھی مقبول ہے لیکن قدیم دور میں یہ آ�ئے ہیں۔ یہ صنف آ�ٹھویں صدی سے نظر آ�ثار جس کے

کی۷، ۷، ۵، ۷، ۵ صوتی �جز� ہوئے تھے �ور ۳۱جاپانی شاعری کا طرہ �متیاز تھی �س نظم میں

ترتیب میں پانچ مصرعے کہے جاتے تھے یعنی پہلے مصرعے میں پانچ �جز�ء، دوسرے میں سات،

آ�خری دو مصرعوں میں سات سات صوتی �جز�ء ہوئے تھے سترھویں صدی کی تیسرے میں پانچ �ور

شاعری میں مزید �ختصار سے کام لیا گیا۔ صرف تین مصرعوں میں سب کچھ کہہ دینے کے جذبے

Page 105: Bain Us Sutoor بین السطور

کے تناسب۵، ۷، ۵ نے ’’ہائی کائی ‘‘ یا ’’ہائیکو‘‘ کو جنم دیا۔ جس میں صرف سترہ صوتی �جز�

( نے �س صنف کو �پنی شاعری میں۱۶۹۴۔ ۱۶۴۴سے �ستعمال ہوتے تھے۔ مشہور جاپانی شاعر باشو )

آ�ئے۔ ’’ہائیکو ‘‘ �صل میں ’’ہوکو پہلی مرتبہ �ختیار کیا �ور یوں ’’ہائی کو‘‘ وجود (Hukku ‘‘)میں

کی بدلی ہوئی شکل ہے جس کا مطلب جاپانی نظم کا �بتد�ئی حصہ ہے چنانچہ جاپانی شاعری کی

کے �بتد�ئی تین مصرعے ہوکو کہلاتے(Tanka )یا تنکا(Renga)دوسری �صناف جیسے رینگا

تھے �ور �ن میں بھی وہی پانچ صوتی �جز� کی ترتیب موجود ہوتی تھی، بالکل �سی طرح جس طرح

مصرعے جو ہم قافیہ وہم ردیف ہوں مطلع کہلاتے ہیں۔ جاپانی شاعری ہمارے پاس غزل کے پہلے دو

لیحدہ نظم کی شکل دی گئی تو �سے ’’ہائی کائی‘‘ �ور پھر میں جب ’’ہوکو‘‘ یا نظم کے مطلع کو عل

’’ہائیکو‘‘ کہا جانے لگا۔ ذیل میں باشو کا �یک جاپانی ہائیکو �س لئے پیش کیا جا رہا ہے کہ �س

کے صوتی �جز�ء کو سمجھا جا سکے۔

Kawazu tobe

Komu Furu lkeya

mizu mu oto

�س کا ترجمہ �نگریزی میں ہیر�لڈجی �ینڈرسن نے یوں کیا ہے۔

Old pond

Frog jump - in

Water sound

میں �س کا ترجمہ شاید �س طرح سے ہو �ردو

�یک بوڑھا جوہڑ

Page 106: Bain Us Sutoor بین السطور

جس میں مینڈک کو دے �ور

پانی جوں کا توں

جاپانی زبان کے مصرعوں کو پڑھنے سے �ند�زہ ہوتا ہے کہ پہلے مصرعے کے پانچ صوتی

�جز�ء ہیں دوسرے مصرعے کے سات �ور تیسرے کے پانچ صوتی �جز�ء ہیں �ور �س طرح پوری نظم

میں سترہ صوتی �جز�ء ہیں۔ �ردو ترجمہ کرتے ہوئے ر�قم �لحروف نے یہی بات پیش نظر رکھی۔ چنانچہ

یہ ترجمہ بھی سترہ سبب حفیف پر مبنی ہے۔ �صل میں دوہے ہوں یا رباعی، غزل کا شعر ہو یا ہائیکو۔

�ن سب میں �یک بات مشترک ہے۔ �ور وہ ہے دریا کو کوزے میں بند کرنے کا فن..... جس طرح

غزل کے دو مصرعوں میں شاعری تخیل کی �یک کائنات سمودیتا ہے۔ �سی طرح ہائیکو میں بھی

صرف سترہ صوتی �جز�ء پر مشتمل تین مصرعوں میں سب کچھ کہہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ء میں شاہد �حمد دہلوی نے رسالہ۱۹۳۶�ردو ہائیکو کہنے کا رو�ج �س وقت شروع ہو� جب

ساقی کا ’’جاپان نمبر ‘‘ شائع کیا۔ �س رسالے میں فضل حق �ور تمنائی نے جاپانی ہائیکو کے �ردو

تر�جم پیش کئے۔ فضل حق کا ترجمہ نثر میں تھا جبکہ تمنائی نے تین مصرعوں میں ترجمہ کیا جس

ت کے تجربے ‘‘ میں بھی ملتا ہے۔ئعنو�ن چشتی کی کتاب ’’�ردو شاعری میں ہی کا حو�لہ ڈ�کٹر

تمنائی کا ترجمہ یہ ہے۔

یہ دنیا شبنم کے قطرے جیسی ہے

بالکل شبنم کے قطرے جیسی

رج نہیںحبھی کوئی پھر

Page 107: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ہنگ کو پیش نظر رکھا وہیں سترہ صوتی �جز�ء کی پابندی کو نظر �ند�ز لیکن تمنائی نے جہاں

کر دیا۔ یہاں یہ بحث مقصود نہیں کہ �ردو کا پہلا ہائیکو کس نے لکھا......؟ یہاں تو صرف یہ

عرض کرنا ہے کہ �گرکسی خاص طرز کی پابندی کی جائے یا کسی خاص ہیئت میں نظم لکھنے کی

کوشش کی جائے تو فنی لو�زمات کو بھی نظر رکھنا چاہئے۔ یہ بات �س لئے کہی گئی کہ �ردو میں

اا سبھی نظمیں �یسی ہیں جنہیں ہائیکو کہنے ہائیکو کے نام سے جو نظمیں ملتی ہیں �ن میں تقریب

میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے کیونکہ �ن میں سترہ صوتی �جز�ء کی پابندی �ور پانچ سات پانچ کی

آ�تی ہے وہاں �ردو کے مز�ج کو ترتیب کو نظر �ند�ز کر دیا گیا ہے �ور یہاں �ن �صولوں کی پابندی نظر

پیش نظر نہیں رکھا گیا۔

نویدی �ور پاکستان میں محمد �مین نے ہائیکو کے مجموعے شائع ہندوستان میں علیم صبا

کئے۔ پاکستان ہی میں ’’جاپانی ثقافتی مرکز‘‘ کے زیر �ہتمام ’’ہائیکو مشاعرے ‘‘ بھی منعقد ہوئے جن

میں جاپانی ہائیکو کے تر�جم کے علاوہ شعر�ء نے طنع ز�د ہائیکو بھی سنائے۔ �ور �ن مشاعروں کے

چند گلدستے بھی شائع ہوئے۔ ہندوستان میں علیم صبا نویدی کے علاوہ قاضی سلیم سے لے کر

آ�تا ہے لیکن �ن تمام میں شارق جمال �ور قطب سرشار تک ہائیکو کہنے و�لوں کا �یک طویل قافلہ نظر

وہی �یک بات کھٹکتی ہے۔ کہاں ترجمہ پیش کیا گیا وہاں تو خیر �یک جو�ز پید� ہو سکتا ہے۔ لیکن

جہاں شاعر کی �پنی کاوش ہے وہاں یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ �س صنف کو �پنانے میں

تو سہ نظر نہیں رکھا گیا۔ سو�ئے �س کے کہ تین مصرعے ہوں �ور بس! �نہیں یا کسی �صول کو مد

......!سطری نظمیں کہا جا سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ مثلث یا ثلاثی

قاضی سلیم بہت �چھے شاعر ہیں �ور فنی �عتبار�ت پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ رسالہ تحریک

ء میں �ن کی چند مختصر نظمیں شائع ہوئی تھیں جن کے بارے میں �ن کا خیال۱۹۶۶جولائی

ہے کہ یہ نظمیں ہائیکو کے فارم کی سختی سے پابندی کرنی ہیں بقول �ن کے �نہوں نے سترہ

Page 108: Bain Us Sutoor بین السطور

ماتر�ؤں کے �تصال پر مبنی �ور گرد مسلسل کی پابندی کی ہے �ور یہ سترہ صوتی �جز�ء ہندی کے لگھو

ہیں۔ �ن کی �یک نظم پیش ہے۔

عکس جو ڈوب گیا

آ�ئینوں میں نہیں

آ�نکھوں میں �تر کر دیکھو

�س نظم میں ہندی چھند کے �عتبار سے پہلے مصرعے میں پانچ دوسرے مصرعے میں

آ�ئی ہیں ....... �گر عروضی �عتبارسے تجزیہ کیا جائے تو پانچ �ور تیسرے میں سات جڑو�ں ماتر�ئیں

معلوم ہو گا کہ پہلے مصرعہ میں تین سبب خفیف �یک سبب ثقیل �ور �یک وتد مجموع ہے۔ دوسرے

آ�یا ہے۔ تیسرے میں چھ سبب خفیف �ور �یک مصرعے میں چار سبب خفیف، �ور �یک وتد مجموع

وتد مجموع ہے کیا ہم �سے ہائیکو کہہ سکتے ہیں۔ علیم صبا نوید ی نے ’’ترسیلے ‘‘ کے عنو�ن سے

طرح کے ہائیکو ہیں۔ �یک ہائیکو کا جو مجموعہ شائع کیا �س میں بقول کیا کر�مت علی کر�مت دو

دیا �س کا ہر پابند ہائیکو �ور دوسرے نثری ہائیکو۔ جس نظم کا کر�مت علی کر�مت نے پابند ہائیکو قر�ر

ہے۔ �ور پہلے �ور تیسرے مصرعے میں قافیہ کی پابندی کی مصرع فاعلاتن مفاعلن فعلن کے وزن پر

گئی ہے۔ یہ نظم پیش کی جا رہی ہے۔

معتبر منزلوں کا ر�ہی وہ

ہیں سمندر پناہ میں �س کی

آ�شنا سپاہی وہ ہے صدف

�ب حمایت علی شاعر کا �یک ’’ثلاثی ‘‘دیکھئے جس کا عنو�ن ’’ز�ویہ نگاہ‘‘ ہے۔

Page 109: Bain Us Sutoor بین السطور

یہ �یک پتھر ہے جو ر�ستے میں پڑ� ہو� ہے

�سے محبت تر�ش لے تو یہی صنم ہے

�سے عقیدت نو�ز دے تو یہی خد� ہے

نویدی کی نظم میں ہیئت کے �عتبار سے کوئی فرق نہیں۔ بحر �س ثلاثی میں �ور علیم صبا

�لبتہ مختلف ہے۔ دونوں میں پہلا �ور تیسر� مصرع ہم قافیہ وہم ردیف ہے �ور ہر نظم کے تینوں مصرعے

جائے۔ �یک ہی ہیئت کے �یک ہی وزن کے ہیں۔ تو پھر علیم صبا نویدی کی نظم کو ثلاثی کیوں نہ کہا

نام کیوں ....؟ �لبتہ �سی کتاب یعنی ترسیلے کے مقدمے میں کر�مت علی کر�مت نے �پنا دو آ�خر

بھی �یک ہائیکو پیش کیا ہے جو ر�قم �لحروف کے خیال میں ہائیکو کی تعریف پر پور� �ترتا ہے۔ یہ

ہائیکو پیش کیا جا رہا ہے۔

لمحوں کی تتلی

آ�نگن میں میرے من کے

آ�ئی جانے کیوں

کی ترتیب میں �ستعمال کئے گئے ہیں کر�مت۵، ۷، ۵�س نظم میں سترہ سبب خفیف

علی کر�مت نے ’’ترسیلے ‘‘ کے مقدمے میں �یک بڑی خوبصورت بات کہی ہے، جس سے کسی کو

�نکار نہیں ہو سکتا کہ

کسی زبان کی مخصوص صنف کو دوسری زبان میں برتتے وقت �س کے فارم میں کچھ’’

........‘‘تبدیلیاں ناگزیر ہو جاتی ہیں

Page 110: Bain Us Sutoor بین السطور

�س بات میں کچھ �ضافہ ہو سکتا ہے کہ تبدیلیاں �یسی ہوں جن کے باوجود �س صنف کی

�نفر�دیت باقی رہے �ور دوسری �صناف کے ساتھ خلط ملط ہونے کا خدشہ نہ رہے۔ �ور ساتھ ہی فنی

لو�زمات �ور زبان کے مز�ج کا بھی خیال رکھا جائے .....یعنی ہیئت یا موضوع کے لحاظ سے کوئی

بات تو �یسی ہو جس سے صنف کا تعین ہو سکے۔ �گر ہم کسی نظم کو ہائیکو کہیں تو �س کے

کچھ �صول ہوں۔ ثلاثی کہیں تو �س کے کچھ ضو�بط بنیں �ور سہ سطری ہیں تو �س کا تعین بھی

کسی قاعدے کی بنیاد پر ہو۔ ورنہ �ن تین ناموں کی کیا ضرورت ہے .....؟ قرعہ ڈ�ل کر کسی �یک نام

آ�ئے وہی نام �ستعمال کرے۔ جیسا کا �نتخاب کر لیا جائے یہ کیا بات ہوئی کہ جس کے جو جی میں

کہ پہلے عرض کیا گیا، جاپانی ہائیکو کی پابندی خصوصیات میں سب سے �ہم �ختصار ہے۔ دوسری

�ہم بات یہ ہے کہ صرف سترہ صوتی �جز�ء سے پانچ، سات، پانچ کی ترتیب میں تین مصرعے تشکیل

دیئے جاتے ہیں۔ �ب �ردو شاعری جاپانی یا �نگریزی شاعری سے مختلف ہے۔ وہاں سلیبل یا صوتی

کی جاتی ہے �ور یہاں سبب �ور وتد کے ذریعے �رکان بنا کرScanning �جز�ء کے ذریعے

تقطیع ہوتی ہے ...... تو پھر کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ سبب یاوتد کو ہائیکو کے لئے بھی بنیاد بنایا

.......!جائے

ر�قم �لحروف کے خیال میں �ردو ہائیکو کے لئے بھی یہی طریقہ کار �ختیار کرنا چاہئے .....

کی ترتیب کا خیال۵، ۷، ۵یعنی سب سے پہلے تو یہ کہ تین مصرعے ہوں �ور دوسری بات یہ کہ

رکھا جائے۔ یعنی پہلے مصرعے میں پانچ ہم وزن ٹکڑے دوسرے میں سات �ور تیسرے میں پانچ

وتد مجموع کے ہو سکتے ہیں۔ �لبتہ ٹکڑے �ستعمال کئے جائیں۔ یہ ہم وزن ٹکڑے سبب خفیف یا

قافیہ �ور ردیف کی قید کو ضروری نہ رکھا جائے ..... کیوں کہ جاپانی میں بھی یہ قید نہیں ہے۔

ویسے �گر مزید حسن پید� کرنے کے لئے پہلے �ور تیسرے مصرعے ہم قافیہ ہوں تو �ور بھی بہتر ہو

گا۔

Page 111: Bain Us Sutoor بین السطور

فعلن فعلن فع

فعلن فعلن فعلن فع

فعلن فعلن فع

�ور سترہ وتد مجموع کے لئے یہ شکل بنے گی۔

مفاعلن مفاعلن فعل

مفاعلن مفاعلن مفاعلن فعل

مفاعلن مفاعلن فعل

یہاں �یک تجویز یہ بھی ہو سکتی تھی کہ کیوں نہ کسی سالم یا محذوف رکن کو سترہ بار

�ستعمال کیا جائے۔ ر�قم �لحروف کے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔ �س لئے کہ ہائیکو نظم کی سب

سے �ہم خصوصیت �ختصار ہے۔ سالم یا محذوف رکن �ستعمال کرنے سے جو طو�لت پید� ہو گی وہ

ہائیکو کی روح یعنی �ختصار کو مجروح کر دے گی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سبب ثقیل وتد

لی و لی کو بھی �ستعمال ہونا چاہئے۔ لیکن شاید �ردو کا مز�ج �س کا متحمل نہ ہو مفروق �ور فاصلہ صغر کبر

سکے۔ بہرحال �گر سترہ سبب خفیف یا ستروتد مجموع کی بحور کو �پنا کر �ردو میں ہائیکو کہے

جائیں تو بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ صنف نہ صرف مقبول ہو گی بلکہ �س کی �پنی �یک

پر ر�قم �لحروف کے کچھ ہائیکو ہیئت بھی ہو گی۔ �ور �س کے �صول بھی ہوں گے۔ نمونے کے طور

درج ہیں۔

آ�نسودیتا ہے

لمحہ تیری یادوں کا

Page 112: Bain Us Sutoor بین السطور

چٹکی لیتا ہے

میری باتوں سے

سہماسہما ہے سورج

کتنی ر�توں سے

�ک �ک پل جوڑے

زندہ رہنے کی خو�ہش

کب چھوڑے پیچھا

گلشن بلبل گل

تارے چند�سورج یا

سب لفظوں کے پل

تنہائی میری

دیتی ہے �کثر دھندلا

بینائی میری

Page 113: Bain Us Sutoor بین السطور

--------------------٭٭--------------------

Page 114: Bain Us Sutoor بین السطور

شاعری کی ان اور فدا ا#دین امام

شاعر �پنے عہد کا مؤرخ بھی ہے �ور نقاد بھی۔ زمانے کے �نقلاب کا پرتو شاعری ہر پڑنا �یک

ہے کیونکہ ہروہ چیز جو ذہن میں �رتعاش پید� کرے فن کے پیکر میں ڈھل جاتی ہے۔ جناب لازمی �مر

�مام �لدین فد� کا بھی یہی معاملہ ہے۔ فد� صاحب کی زندگی مسلسل ہنگاموں سے عبارت ہے۔ �نہوں

آ�باد کی سیاست کے۷۰نے گرم وسرد موسم جھیلے ہیں �ور �ن کی نگا ہوں نے نہ صرف حیدر

آ�شنا رہے ہیں۔ بدلتے ہوئے روز شب دیکھے ہیں بلکہ سطح پر بھی رونما ہونے و�لے تغیر�ت سے وہ

�مام �لدین فد� کے و�لد نظم جمعیت کے جمعد�ر تھے �ور نانا تحصیل د�ر۔ �س لئے �ن کا

آ�باد منتقل ہو گئے �ور آ�سائش میں گزر�۔ �ن کی �بتد�ئی تعلیم ورنگل میں ہوئی �ور پھر حیدر بچپن کافی

ء۱۹۳۰جامعہ عثمانیہ میں تعلیم حاصل کی۔ جس دور میں �مام �لدین فد� کی ذہنی نشو ونما ہوئی وہ

ء تک دور ہے۔ وہ دور ہے جب دوسری جنگ عظیم کے بھیانک �ثر�ت ساری دنیا کو۱۹۴۵سے لے کر

�پنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھے۔ �ور �دھر ہندوستان میں سیاسی طور پر پختگی پید� ہو چکی تھی،

آ�باد پر چونکہ سیاسی جماعتیں طاقتور ہو رہی تھیں۔ مختلف تحریکیں �پنے عروج پر تھیں۔ لیکن حیدر

شخصی حکومت تھی �س لئے یہاں ہندوستان بھرمیں موجود سیاسی بید�ری کے �ثر�ت پوری طرح پہنچ

نہیں پائے۔ پھر بھی عثمانیہ یونیوسٹی کے فارغ �لتحصیل طلبا کی وجہ سے عو�م میں بھی سوچنے کے

ڈھنگ میں تبدیلی ہو رہی تھی۔ کیونکہ یہ نوجو�ن نی صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھرمیں ہونے و�لی

آ�گاہ تھے ....... �ور �نھیں �س بات کا �حساس تھا کہ بنیادی ضروریات تبدیلیوں سے بڑی حد تک

Page 115: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�باد کس قدر پس ماندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ء تک۱۹۴۵ء سے ۱۹۳۰کے �عتبارسے ریاست حیدر

آ�تا تعلیم حاصل کرنے و�لا نوجو�ن �یک عجیب قسم کے تذبذب میں مبتلا تھا۔ �سے یہ سمجھ میں نہ

آ�باد تک تھا کہ وہ پورے کے د�ئرے میں رہ کر مسائل پر غور کرے یا آ�پ کو صرف حیدر پھر �پنے

لے۔ �مام �لدین فد� بھی شاید �سی طرح کے �یک نوجو�ن تھے۔ �نھوں نے مسائل کو عو�م محدود کر

ء میں ماہنامہ ’’مضر�ب‘‘ جاری کیا۔ �سی سال �نھوں نے بزم۱۹۴۶تک پہنچانے کا �ر�دہ کیا �ور سن

آ�باد �قبال سجائی جس کے پہلے صدر نو�ب حسن یار جنگ تھے۔ وہ �نجمن صحافت ریاست حیدر

�لقیوم خان باقی، علامہ �لقادری، عبد سے بھی و�بستہ رہے۔ �ور ساتھ ہی حضرت علی �ختر، مولانا ماہر

آ�ر�ئیاں بھی ہوتی رہیں۔ ماہر�لقادری سے فد� آ�فندی �ور شاہد صدیقی جیسے شعر�ء کے ساتھ بزم نجم

کیا تھا۔ �لقادری نے یہ شعر عطا صاحب بہت قریب تھے چنانچہ ’’مضر�ب‘‘ کے لئے مولانا ماہر

لمس مضر�ب فقط خالق نغمہ ہی نہیں

لرزش تار سے ہوتا ہے شرر بھی پید�

آ�باد کا عبرت ناک منظر پھر فد� دیکھا �ور �س کے نتیجے میں پید� صاحب نے سقوط حیدر

ہونے و�لی سیاسی، سماجی، تہذیبی �ور علمی �فر�تفری کے عینی شاہد بنے۔ �ن حالات نے فد� صاحب

ہر�ؤ تھا.....�یکھکی شاعری میں �یک نشتریت پید� کر دی۔ لیکن �س تلخی �ور تندی میں �یک ٹ

بالغ نظری تھی..... رو�یت �ور ترقی پسند�نہ فکر دور کے �ہم رجحانات تھے۔ فد� صاحب کی شاعری

کی جڑیں رو�یت میں پیوست رہیں۔ وہ نئے زمانے کے تقاضوں کو محسوس کر رہے تھے۔ لیکن

ڈ�لی گئی۔ فد� ء میں مرکزی �ردو محاذ کی بنا۱۹۷۵ہونے نہ دیا۔ کبھی �پنے �شہب قلم کو بے قابو

آ�باد کی علمی سرگرمیوں میں �س محاذ نے خاطرخو�ہ صاحب �س کے پہلے نائب صدر تھے۔ حیدر

پر حسب مقدور کیا۔ مشاعرے ، �نجمنیں، صحافت �ن تمام میں فد� صاحب یکساں طور �پنا کرد�ر �د�

Page 116: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�میزی رہی۔ وہ گروہی سیاست سے دور رہنا چاہتے شریک تھے۔ �س کے باوجود �ن میں قدرے کم

آ�پ آ�باد کے �دبی حلقے گروہی سیاست کا شکار تھے۔ �سی لئے �نھوں نے �پنے تھے جبکہ حیدر

کو کچھ حد تک سیاست سے �لگ رکھا۔

فد� صاحب سے میری ملاقات مرکزی �دبی محاذ کے قیام کے ضمن میں ہوئی تھی۔ مجھے

�س بات کا �عز�ز حاصل ہے کہ میں بھی �س �نجمن کا تاسیسی رکن تھا۔ �س زمانے میں وہ وقف بورڈ

سے و�بستہ ہو گئے تھے۔ �ردو محاذ کی کسی نشست کے بعد �نھوں نے �س خیال کا �ظہار کیا تھا

کہ مجموعہ کلام کو مرتب کر کے شائع کرنا چاہئے .......�س سلسلے میں �نھوں نے مجھ سے

بھی تعاون کی خو�ہش کی تھی۔ لیکن حالات نے �نھیں �س بات کی �جازت نہ دی کہ وہ �پنا مجموعہ

شائع کرتے۔ �یک عرصے بعد جب زندگی کی شام کے سائے طویل ہوئے تو �نہوں نے پھر سے

طباعت کی مجموعہ کی �شاعت کے بارے میں سوچا ...... مولوی مظفر علی صاحب نے کتابت و

ذمہ د�ری �پنے سرلی....... �ور یوں ’’مضر�ب‘‘ کی صورت گری ممکن ہو سکی۔ ’’مضر�ب ‘‘ وہ

شئے ہے جس سے تار چھیڑے جاتے ہیں۔ �سی بات کو ذہن میں رکھ کر فد� صاحب نے �پنے

ماہنامے کا نام ’’مضر�ب‘‘ رکھا تھا۔ �ور �س بات کی کوشش کی تھی کہ �دب، تہذیب �ور سیاست کے

آ�شنا کریں۔ �متد�د زمانہ نے �س مضر�ب کو تو چھیڑ تار ختم کر زندگی کو نئے �ور حسین نغموں سے

اا زندگی کے تاروں میں جو �رتعاش کر دیا لیکن فد� اا فوقت صاحب کی روح میں پوشیدہ مضر�ب نے وقت

پید� کیا وہی �ن کی شاعری کا محور بنا۔

صاحب کو بے حد محبت تھی �سی کی بنا پر �نہوں نے �پنے مجموعہ مضر�ب‘‘سے فد�’’

صاحب نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو �پنی شاعری میں کلام کا نام بھی ’’مضر�ت‘‘ رکھا۔ فد�

آ�تا ہے۔ لیکن چونکہ شاعری کی نغمگی �ور جگہ دی ہے۔ �ن کے ہاں زندگی کا کرب بولتا ہو� نظر

لی قدروں سے �ن کی گہری و�بستگی تھی �س لئے �ن کے فن میں وہ کھردر� پن پید� نہ رو�یت کی �عل

Page 117: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�نے و�لے فنکاروں کے کلام جزو بنا۔ وہ نئے عہد، نئی مز�ج کو محسوس کر ہو سکا جو بعد میں

رہے تھے۔ کہتے ہیں۔

نئے ہیں، خد�ئی نئی، نئے جلوے خد�

نئے حرم، نئے �یماں ، نئے صنم خانے

صورت حال پید� ہوئی، �س کے بارے میں یوں �ور �س ’’نئے پن‘‘ کے نتیجے میں جو

�ظہار خیال فرماتے ہیں۔

نہ مستیاں ہیں نہ کیف وسرور ہے ساقی

بھری بہار میں رسو� ہوئے ہیں میخانے

یہ بھی ہے۔ �ور �سی غزل میں �یک شعر

سفردر�ز ہے، زخموں سے چور چور حیات

غموں کی چھاؤں میں بیٹھے ہوئے ہیں سستانے

بننے کی سوچتا ہے۔ �ور �س طرح شخص رہنما جمہوری نظام کا �یک تحفہ یہ بھی ہے کہ ہر

صاحب طنز کرتے ہوئے فد� گلی گلی میں قائدین کی �یک فوج تیار ہو جاتی ہے۔ �س صورت حال پر

کہتے ہیں۔

Page 118: Bain Us Sutoor بین السطور

ہرگلی میں ہیں قیادت کے �بلتے چشمے

جس طرف دیکھئے جئے کار ہے کیا عرض کروں

خز�ں بہار کا روپ دھارے چمن کو برباد کرنے کے درپے ہو جائے �ور �س طرح عظمت

صاحب کہتے ہیں۔ جائے تو دل شاعر کانپ �ٹھتا ہے۔ فد� وطن خطرے میں پڑ

رب ہویا چمن کی خیر نشیمن کی خیر

کیا جائے شعلہ بد�ماں ہیں کیار بہا

کیا کیا جائے ‘‘ کے پیچھے جو تڑپ ہے �سے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لفظوں’’

آ�فرینش سے ہے، آ�ج سے نہیں بلکہ �بتد�ئے میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بھوک �نسانی فکر کا محور

صاحب نے بھوک کے عنو�ن پر �یک نظم تحریر کی ہے بھوک علامت کے جدوجہد حیات کی۔ فد�

شعر ملاحظہ ہوں۔ یہ نظم ماہنامہ سویر� کے ’’بھوک نمبر‘‘ میں بھی شامل ہے �س نظم کے دو

بھوک فطرت کی �مانت، بھوک ر�ز کائنات

آ�دم کی شریعت، بھوک �نعام حیات بھوک

بھوک خو�بوں کا �جالا، بھوک دنیا کا سہاگ

آ�گ آ�ز�دی کا نغمہ، بھوک طوفان بھوک بھوک

Page 119: Bain Us Sutoor بین السطور

صاحب نے ذہن �نسانی میں بھوک کی عظمت کے چر�غ روشن کر دیئے ہیں۔ �س طرح فد�

�فلاطون نے �پنی خیالی ریاست سے شاعروں کو نکال باہر کیا تھا۔ کیونکہ �س کا خیال تھا کہ شاعر

�حساسات کو بر�نگیختہ کرتا ہے �ور سماج میں �بتری کا سبب بنتا ہے۔ �سی لئے �فلاطون کی ریاست

کو خارج کر دیا گیا تھا۔ لیکن �رسطو نے طرح کے فنکاروں کی گنجائش تھی، صرف شاعر میں ہر

�پنے �ستاد کے خیال سے �تفاق نہیں کیا �ور شاعری کو �یک �لوہی جذبہ بتایا جو �نسانی فکر کی

صاحب ’’شاعر‘‘ نظم �ور سماج میں �بتری کا سبب بنتا ہے ( کرتا ہے۔ فد�( Catharsis تطہیر

کے عنو�ن سے کہی گئی نظم میں شاعر کے بارے میں کہتے ہیں۔

پیکر �خلاص، عرفان وفا کا تاجد�ر

آ�شنائے لذت غم، درد کا سرمایہ د�ر

آ�دمیت، جس کے ہیں سینے میں د�غ ز�ر خلد

سوزناطن سے جلا جاتا ہے محبت کے چر�غ

آ�یا جس کے نتیجے میں ریل کا �یک۱۹۵۶ ء میں جڑچرلہ کے قریب �یک ندی میں سیلاب

بھیانک حادثہ وقوع پذیر ہو�۔ �س حادثے میں سینکڑوں جانیں تلف ہوئیں ....... �س حادثے کی

آ�باد پہنچی تو �یک کہر�م برپا ہو گیا۔ دل شاعر �س حادثے سے متاثر ہو کر یوں چلا �طلاع جب حیدر

...�ٹھتا ہے

بیکسی، بے چارگی، چیخیں، کر�ہیں ، �ضطر�ب

چشم تصور میں قیامت کا سماں آ� گیا

آ�نکھوں کا �جالا، کتنی �میدوں کا نور کتنی

Page 120: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ہ مرگ ناگہاں چھین کر تو لے گئی ہے

د�م صیاد �جل نے ر�ستے میں رکھ دیئے

�ور نظم ونسق پر طاری ہے �یک خو�ب گر�ں

آ�باد �پنی مخصوص تہذیبی قدروں کے لئے شہرت رکھتا ہے۔ لیکن نئی ہو� نے �س حیدر

دیئے تھے۔ تہذیبی �قد�ر کی شکست و ریخت پر بر�نگیختہ ہو کر فد� صاحب تہذیب کے پرخچے �ڑ�

کہہ �ٹھتے ہیں۔

دیئے تہذیب کے دعوید�روں نے بنیاد کے پتھر توڑ

تعمیر کے نقشے بدلے ہیں ، معمار بدلنے و�لے ہیں

�ور یہ مطلع بھی دیکھئے

کیا بیاں کریں ہے خطا نظر جنبش ہر

بیاں کریں ہرسانس بن گئی ہے سز� کیا

آ�تا ہے کہ �س زمانۂ حال کی تہذیبی گر�وٹوں کو دیکھ کر دل شاعر کانپ �ٹھتا ہے �سے یاد

آ�ج کی نسل تو تبسم کے نام سے بھی نے زندگی کو �مید کے چر�غوں سے روشن کر رکھا تھا �ور

آ�شنا ہے۔ نا

صاحب کہتے ہیں۔ فد�

Page 121: Bain Us Sutoor بین السطور

ہم نے ماضی میں جلائے تھے �میدوں کے چر�غ

میں تبسم کی بھی سوغات نہیں حاضر عصر

آ�ج کی �یک دین یہ بھی ہے کہ علم و �س دور ہنر کے خز�نوں پر قز�قوں نے قبضہ کر لیا ہے۔

کوئی عالم سربلندی حاصل کرتا ہے تو �پنے علم کی بدولت نہیں نہ علم سربلند ہے �ور نہ عالم۔ �ور �گر

بلکہ �س لئے سربلند ہوتا ہے کہ �س کی سرپرستی �یسے لوگ کرتے ہیں جن کے خمیر میں صرف

جہل ہوتا ہے۔

صاحب کہتے ہیں۔ فد�

ہزنوں کے لمس میں ہےر ہنر متاع علم و

خرد کا جہل سے رشتہ مرے گماں میں نہ تھا

حیات کا سفر کبھی یکساں نہیں ہوتا۔ یہ سفر کبھی روشن و�دیوں کی سیر کر�تا ہے �ور کبھی

نام زندگی ہے جس سے فر�ز فر�ز کا ظلمتوں کے نہاں خانوں سے ہمکنار کرتا ہے۔ �سی نشیب و

آ�باد کی خو�ب ناک فضاؤں سے نکل کر فد� صاحب نے عروس �لبحر جدہ میں ممکن نہیں۔ حیدر

آ�شیانہ بنایا۔ جہاں ز�غ و آ�تے ہیں۔ فد� زغن بھی شاہین و �پنا صاحب �س کرب کو ہما کے ہم سرنظر

جھیل رہے ہیں۔ �ور یہ کرب جب لفظوں میں ڈھلتا ہے تو یہ رباعی تخلیق ہوتی ہے۔

غم ناک فضاؤں میں جی رہا ہوں لوگو

Page 122: Bain Us Sutoor بین السطور

ماحول کا زہر پی رہا ہوں لوگو

شکر جہالت کے �ندھیروں میں فد� صد

پیر�ہن حیات سی رہا ہوں لوگو

آ�گہی کے چر�غوں کو جلا کر �ور یوں فد� صاحب جہالت کے �ندھیروں میں زندہ رہنے �ور

�ن کی روشنی میں حیات کے بوسیدہ ہوتے ہوئے پیر�ہن سینے کا فریضہ �نجام دے رہے ہیں۔ خد� کر

کے کہ یہ عمل ہمیشہ جاری رہے ......’’مضر�ب‘‘ زندگی کے تار کو چھیڑتا رہے ....... نغمے

آ�گیں تند نغمے ، ملائم و �بلتے رہیں، تلخ و آ�فریں نغمے، خیال شیریں نغمے ، حیات

.........!!!نغمے

-------------------------٭٭-------------------------

Page 123: Bain Us Sutoor بین السطور

صناعی میں اقبال کلام

�قبال کے فکری پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ شاعر �قبال کو نظر �ند�ز کر کے

فلسفی �قبال پر ہز�روں صفحات سیاہ کر دیئے گئے ہیں۔ خود �قبال نے بھی متعدد جگہ �پنی شاعری

کو صرف �فکار کو پیش کرنے کا ذریعہ بتایا ......میری نو�ئے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ یا ’’نغمہ

من کجا ساز سخن بہانہ �یست‘‘ کہہ کر �قبال نے بظاہر �پنی شاعری کو زیادہ �ہمیت نہ کجا و

دی....... لیکن یہ �قبال کا �نکسار تھا۔

یی �ور �قبال کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی تھی �ور �س میں زبان �ور مولاناسید سلیمان ندو

پر کہی جا سکتی شعر کے مسائل پر جو بحثیں ہو� کرتی تھیں �ن کی روشنی میں یہ بات حتمی طور

ہے کہ �قبال نہ صرف لفظ �ور �س کے �ستعمال پر قدرت رکھتے تھے بلکہ زبان کے معاملے میں

ہہ و�قف بھی وہ کافی محتاط تھے۔ وہ فارسی �ور �ردو شاعری کے کلاسیکی سرمایہ �ور رو�یات سے کماحق

آ�گاہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ تھے۔ لیکن �س کے ساتھ ساتھ �قبال شاعری کی �ثر �نگیزی سے بھی

�دب �صلاح قوم کے لئے بہترین ذریعہ ہیں۔ �س لئے شاعری کو �نہوں نے �پنے �فکار پیش شعر و

اا وہ کلام جو �نہوں نے منسوخ کرنے کے لئے �ستعمال کیا۔ �قبال کی �بتد�ئی شاعری میں ، خصوص

آ�تی ہے۔ لیکن �نہوں نے شعری کمالات کو معر�ج شاعری نہ کر دیا صنائع �ور بد�ئع کی بہتات نظر

سمجھا۔ �ستاذی پروفیسر گیان چند جین نے بڑی عرق ریزی سے �قبال کے �بتد�ئی عہد کا غیر متد�ول

�ور منسوخ کلام جمع کیا، جس کو دیکھنے کے بعد حیرت ہوتی ہے کہ �قبال صناعی ہر کس قسدر

آ�ر�ئش شعر کے لئے کی جایے ، کیونکہ قادر تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ صناعی صرف وہ نہیں جو محض

Page 124: Bain Us Sutoor بین السطور

صناعی مقصود بالذ�ت نہیں ہوتی بلکہ وہ بات �ہم ہے جو شاعر کہنا چاہتا ہے۔ �ور �گر صناعی �س نکتہ

آ�بپر غال آ�فرینی جائے تو �صل بات دور جا پڑتی ہے۔ لیکن �گر صناعی محسوس طریقے پر شعر کی �ثر

میں �ضافہ کر کے تو یہی صناعی حسن بن جاتی ہے۔ تاثیر شعر سے و�قف ہونے کی وجہ سے �قبال

نے �پنے �فکار کی ترسیل کے لئے شعر کا وسیلہ تلاش کیا تھا �ور وہ �س میں کامیاب بھی رہے۔

بد�ئع کے چونکہ �قبال شعر کے فن سے و�قف تھے �ور تلمیحات، �ستعار�ت، علائم �ور صنائع و

لینے و�لی کیفیت �ستعمال پر بھی �نہیں قدرت حاصل تھی، �سی لئے �ن کی شاعری میں دل کو چھو

آ�مد ہے۔ �سی لئے �قبال ہاں جو صنائع ملتے آ�ورد نہیں ملتی ہے۔ �ہم بات یہ ہے کہ �ن کی شاعری میں

ہیں وہ شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں۔ ویسے �نہوں نے جہاں شعوری کوشش کی ہے۔ �یسے �شعار

: معینی نے باقیات �قبال میں تین شعر درج کئے ہیں �لو�حد کو خود ہی خارج کر دیا۔ عبد

آ�سائش نہیں دیکھ �ے غافل! یہ دنیا جائے

آ�ر�م رم �س ختن سے کر آ�ہوئے گیا ہے

آ�یا نہ کچھ �نجام �سے ہائے �پنا ہی نظر

دیکھتا تھا جام میں ہر چیز کا �نجام جم

تک دم ہے گردوں تک رسائی ہے محال دم میں جب

گلشن ہستی میں ہے سود� م کا �ک د�م دم

Page 125: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ر�م، رم، �نجام، جم �ور د�م،دم میں بالالتز�م تجنیس ناقص �ن �شعار کے قو�فی پر غور کیجئے۔

رکھی گئی ہے۔ )تجنیس ناقص میں �یک حرف کم کر دیا جاتا ہے ( �ور یہاں صنعت ذو�لقافیتین بھی

ہے ......گویا لزوم مالا یلزم، تجنیس ناقص �ور ذو�لقافیتین تین صنعتیں �س میں موجود موجود

آ�غاز میں ہے ہیں ...... پھر تیسرے شعر میں رد�لعجز علی �لصدر بھی ہے یعنی دم مصرعے کے

پھر قافیہ ہے طور پر بھی �ستعمال ہو � ہے۔ لیکن �ن �شعار کو �قبال نے �پنے مجموعے میں شامل نہیں

کیا، کیونکہ �نہیں �ند�زہ تھا کہ �ن �شعار میں صناعی غالب ہے �ور جو بات کہنے کی تھی وہ صناعی

کے پردے میں چھپ گئی ہے۔ لیکن ذیل کے �شعار دیکھئے، �ن میں صناعی ہونے کے باوجود

: گر�ں نہیں گزرتی، شاید �سی لئے �نہیں مجموعہ میں جگی دی گئی ہے

آ�شنا �پنی حقیقت سے ہو �ے دہقاں ذر�

د�نہ تو، کھیتی بھی تو، بار�ں بھی تو، حاصل بھی تو

آ�و�رہ رکھتی ہے تجھے آ�ہ کس کی جستجو

ر�ہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو

کانپتا ہے دل تر� �ندیشۂ طوفاں سے کیا

تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو تو، بحر ناخد�

آ� کر کوچۂ چاک گریباں میں کبھی دیکھ

Page 126: Bain Us Sutoor بین السطور

لی بھی تو، صحر� بھی تو، محمل بھی تو قیس تو، لیل

و�ئے ناد�نی کے تو محتاج ساقی ہو گیا

بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو مئے بھی تو، مینا

جود ہے۔ لکھنوو�ن �شعار میں لزوم مالایلزم ہے �ور مر�عات �لنظیر کے علاوہ صنعت جمع بھی م

�سکول نے تخلیق بر�ئے صناعی کا تصور پیش کیا تھا۔ �قبال �س کے خلاف تھے۔ وہ تو دلکشا صد�

کے قائل تھے۔ �سی لئے �نہوں نے کہا تھا

نہ زباں کوئی غزل کی، نہ زباں سے باخبر میں

کوئی دلکشا صد� ہو، عجمی ہو یا کہ تازی

جب �نہوں نے منکسر�نہ �ند�ز سے زبان سے �پنی بے خبری کا �علان کیا تو �س کا مطلب

یہی تھا کہ وہ تخلیق بر�ئے صناعی کے قائل نہیں۔ لیکن وہ صناعانہ تخلیق کے ضرور قائل ہیں �ور یہ

آ�تا ہے۔پتصور �ن کے آ�ہنگ نظر ورے نظام فکر سے ہم

قابل غور ہیں۔ �یک متد�ول صنعتوں پہلو �قبال کی شاعری میں صناعی کا جائزہ لیتے ہوئے دو

کا �ستعمال غیرمحسوس طریقے پر کیا گیا ہے �ور دوسرے نظم یا غزل کی معنویت �ور �ندرونی ساخت

کو ملحوظ رکھتے ہوئے مناسب صنعتوں کا �نتخاب ہو� ہے۔ یہ پہلو �یسا ہے جو �یک بڑے شاعر کو

کا یہ شعر نہ جانےل دوسرے شعر�ء سے ممیز کرتا ہے �ور یہی پہلو �قبال کے ہاں غالب ہے۔ �قبا

آ�ئے گی۔ :کتنی مرتبہ پڑھا �ور سنا گیا ہے لیکن �س شعر میں بھی صناعی نظر

خودی کو کر بلند �تنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

Page 127: Bain Us Sutoor بین السطور

خد� بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

میں تین لفظوں پر غور کیجئے ، خودی، خد�، خود .....�ن سے جو مثلث بنتا �ب �س شعر

ناقص ہے وہ �قبال کی فکر کا حاصل ہے۔ لیکن �س سے قطع نظر خود �ور خودی میں تجنیس ز�ئد و

ہے صرف �یک حرف کی کمی بیشی سے صنعت بھی پید� ہو گئی �ور بات بھی بلند ہو گئی۔ علاوہ

�زیں خد� �ور بندے میں صنعت تضاد ہے۔ خد� �ور خودی میں شبۂ �شتقاق ہے یعنی یہ شبہ ہوتا ہے

کہ �ن کا مادہ �یک ہی ہے ، جب کہ �یسا نہیں ہے۔ �ب �س شعر میں �ستعمال ہونے و�لے حروف کو

آ�خری حصہ سو�لیہ ہے ’’بتاخدیکھئے۔ ر، خ �ور ق کا �ستعمال �یک تیری �ص ترنم پید� کرتا ہے۔ شعر کا

آ�ن سے رضا کیا ہے ؟‘‘ ....... �س سو�ل میں تحکم نہیں بلکہ محبت کی کیفیت ہے۔ �س میں قر

اا لیم بع بن بکا بہ لتل بتن �ل � لتلہ بئ �ل بشا بتی با�ن با تل � بن پؤ بشا بت بما بو آ�یت دیکھئے۔ بھی �ستفادہ موجود ہے۔ سورۂ دہر کی یہ

اا کچھ باتیں �یسی ہوتی ہیں جو بعید �ز فہم ہوتی ہیں۔ خد� بندے سے کیوں پوچھے ، لیکنoبحکیم

�س کی دلیل بھی دی گئی ہے کہ �گر خودی کو بلند کیا جائے تو یہ ممکن ہے �ور �س طرح حضرت

آ�نحضرت صلی �للہ علیہ وسلم کے رب �لعزت سے کلام کرنے پر بھی مہر تصدیق ثبت ہوتی لی �ور موس

آ�شکار� ہوتی ہے کہ پیغمبری یا نبوت منصب ہے جسے �للہ نے عطا ہے �ور دوسری طرف یہ بات بھی

تو وہ بلند منصب پر فائز ہو سکتا ہے۔ یہ فرمایا ہے �س کے ساتھ ہی بندے میں �گر صلاحیت ہو

صنعت مذہب کلامی ہے۔ یہ تو �یک مثال تھی۔ کلام �قبال سے کوئی شعر �ٹھایئے ، یہی صورت ہو گی

کہ �س میں صناعی تو ہو گی لیکن �س قدر خفی کہ غور کرنے پر ہی پتہ چلے گا کہ �س میں صنعت

:موجود ہے۔ یہ شعر دیکھئے

چپ رہ نہ سکا حضرت یزد�ں میں بھی �قبال

کرتا کوئی �س بندہ گستاخ کا منہ بند

Page 128: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ئے گی۔ یہ تجنیس ز�ئد و ناقص ہے ، �س شعر میں بندہ �ور بند پر غور کیجئے صنعت نکل

:�ب ذر� یہ شعر بھی دیکھئے

تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو �یک ر�ز تھا سینۂ کائنات میں

کیا؟ �ور کیا میں تجنیس تو ہے ہی ....... لیکن �یک بہت دلچسپ صنعت �س میں موجود

ہے �ور وہ ہے صنعت مقلوب...... �ن دو لفظوں پر غور کیجئے۔ �یک �ور کیا ...... دونوں حروف

:یکساں ہیں صرف ترتیب �لٹ گئی ہے یہ شعر بھی ہم نے کئی بار پڑھا ہے

پھو ل کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

نازک بے �ثر مرد ناد�ں پر کلام نرم و

�ب �گر �س شعر کو �یک خاص �ند�ز سے پڑھا جائے تو مفہوم بدل جاتا ہے۔ یہ صنعت متحمل

�لضدین ہے۔ پہلے مصرعے کو �ثباتیہ �ند�ز میں پڑھئے تو �یک مفہوم نکلتا ہے .....�ور �گر سو�لیہ �ند�ز

سے پڑھا جائے تو دوسر� مفہوم نکلتا ہے۔ یعنی �ثباتی �ند�ز سے پڑھا جائے ، تو یہ مطلب ہوتا ہے کہ

نازک ہوتی ہے لیکن �س میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ ہیرے کا جگر بھی کاٹ پھول کی پتی نرم و

نازک کلام کا کوئی �ثر نہیں ہوتا۔ �ور �گر شعر کا پہلا مصرعہ سکتی ہے ، جبکہ مرد ناد�ں پر نرم و

سو�لیہ �ند�ز سے پڑھا جائے تو مفہوم نکلتا ہے کہ .....کیا پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کٹ

سکتا ہے۔ ؟ نہیں ......! �ور جس طرح یہ بات ممکن نہیں ہے �سی طرح مرد ناد�ں پر بھی نرم و

:نازک کلام کا کوئی �ثر نہیں ہوتا۔ �ب یہ شعر دیکھئے

عشق کی گرمی سے معرکۂ کائنات

Page 129: Bain Us Sutoor بین السطور

علم مقات صفات، عشق تماشائے ذ�ت

�س میں علم �ور عشق کا تقابل ہے۔ لیکن �س سے ہت کر بھی �یک صنعت ہے �ور وہ ہے فو

ق �لنقاط۔ یعنی �س شعر میں کوئی لفظ �یسا نہیں ہے جس مکے نقطے نیچے لگے ہوئے ہوں۔

)ماہرین کے نزدیک ’’ے ‘‘ کو تحت �لنقاط حرف مانا گیا ہے۔ لیکن چونکہ یہ نقطے تحریر میں نہیں

(آ�تے �س لئے ر�قم �لحروف کو �س بات سے �ختلاف ہے۔

: �س شعر میں کئی صنعتیں یکجا ہو گئی ہیں

خودی کی جلوتوں میں مصطفائی

خودی کی خلوتوں میں کبریائی

�س میں صنعت ترصیع ہے۔ یعنی پہلے مصرعے کے ہر لفظ کے مقابلہ میں دوسرے مصرعہ

خلوتوں میں صرف نقطے میں لفظ موجود ہے۔ �س کے علاوہ �س میں تجنیس خطی ہے۔ جلوتوں �ور

کا فرق ہے �ور �س میں ذو�لقافیتین بھی ہے۔ فن تاریخ گوئی میں صنعتیں مشکل ہوتی ہیں۔ جسٹس میاں

شاہ دیں ہمایوں کی وفات پر �قبال نے �س مصرعہ سے تاریخ نکالی تھی

علامہ فصیح زہر چارسو شنید

کو۳۳۴ ہیں۔ مصرعہ میں زہر چارسو شنید کا �شارہ موجود ہے یعنی �گر ۳۳۴علامہ فصیح کے �عد�د

آ�مد ہوتا ہے۔ یہ صنعت ضرب یاتضارب ہے �ور �س۱۳۳۶چار سے ضرب دیا جائے تو سال وفات ھ بر

قبل کے کمال فن کا �ند�زہ ہوتا ہے۔ �مسے

Page 130: Bain Us Sutoor بین السطور

لیکن �قبال کی عظمت �س میں ہے کہ �نہوں نے شاعری کو صرف لفظوں کا گورکھ دھندہ

نہیں بنایا بلکہ �س میں سوزو فکر کے �متز�ج سے نوع �نسانی کے لئے پیغام حیات بھی پیش

لی شاعری کا کیا مقام ہے۔ کیا......... کیونکہ �قبال جانتے تھے کہ �عل

یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گد�ز کرے

-------------------------٭٭-------------------------

Page 131: Bain Us Sutoor بین السطور

شاعر بحیثیت قمر منجو

آ�پ کا نام �ردو ڈر�مے کے آ�غا حشر کی طرح منجو قمر کا پور� نام سید نجی �للہ ید �للہی تھا۔

آ�غاز شاعری سے ہو�۔ میرے خیال میں شاعری �ور ساتھ جڑ� ہو� ہے۔ لیکن �ن کی علمی زندگی کا

تھا �سی لیےؤموسیقی کا چولی د�من کا ساتھ ہے �ور چوں کہ منجو قمر کو موسیقی سے بے پناہ لگا

شاعری بھی �ن کی روح میں بسی ہوئی تھی۔ چودہ برس کی عمر ہی سے �ن کے �ندر چھپے ہوئے

آ�ہستہ مقامی مشاعروں میں �نہیں مدعو کیا جانے آ�ہستہ شاعر نے �پنی جولانیاں دکھانی شروع کیں۔ �ور

لگا۔ شاعر کی حیثیت سے �نہیں دنیا کے سامنے روشناس کر�نے کا سہر� قائد ملت نو�ب بہادر یار

جنگ کے سر جاتا ہے۔ �ن کا �یک شعری مجموعہ ’تجلیات قمر ‘ شائع ہو چکا ہے۔ دوسر� مجموعہ’

رنگ و رباب ‘ کے عنو�ن سے وہ �پنی زندگی ہی میں ترتیب دے چکے تھے لیکن حیات ناپائد�ر نے

ساتھ نہ دیا۔ �ن کے صاحب ز�دے ممتاز مہدی نے �س مجموعے کو شائع کرنے کا بیڑ� �ٹھایا جس

آ� سکا ہے۔ کے نتیجے میں یہ مجموعہ منظر عام پر

آ�ف حیدر ممتاز مہدی نے منجو قمر پر میری ہی نگر�نی میں تحقیقی کام کیاجس پر یونیورسٹی

تھا۔ �ن کے مقالے کا عنو�ن ’�ردو ڈر�مے کے فروغ میں منجوؤآ�باد نے �نھیں سے بے پناہ لگا

آ�باد نے �نھیں پی �یچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ موضوع آ�ف حیدر قمر کا حصہ ‘ ہے جس پر یونیورسٹی

چوں کہ ڈر�مے سے متعلق تھا �س لیے ممتاز مہدی نے �پنے کام کو �سی د�ئرے میں محدود رکھا

تت� ذکر کر دیا۔ �ور �ب �ور �دبی کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے منجو قمر کی شعری صلاحیتیوں پر مختصر

Page 132: Bain Us Sutoor بین السطور

�س کمی کو �نھوں نے �س مجموعے کی �شاعت کے ذریعے پور� کیا ہے جس کے لیے وہ مبارک

مستحق ہیں۔ کےباد

منجو قمر بنیادی طور پر �ردو شاعری کی �ن پائد�ر رو�یات سے جڑے ہوئے ہیں جن کا سکہ

آ�ج تک چل رہا ہے۔ یہ رو�یات کوئی کھوٹا سکہ نہیں �ور نہ ہی �صحاب کہف کے سکوں کی طرح

ہیں۔ رو�یت نے �ردو شاعری کے ہر دور میں �پنا �ثر قائم رکھا ہے۔ منجو قمر �سی جاری و ساری رو�یت

کے پاسد�ر ہیں۔

سرد�ر جعفری ترقی پسندی کے �ہم ستون تھے۔ غزل کو �نھوں نے بظاہر زیادہ �ہمیت نہیں دی

آ�ہنگ نمایاں ہے۔ کچھ �یسی ہی کیفیت منجو قمر کے ہاں بھی نظر لیکن �ن کی نظموں میں غزل کا

آ�تی ہے۔ �نھوں نے �پنی تخلیقات پر عنو�ن قائم کیے جس کی وجہ سے شائد �ن کو نظموں میں شمار

کر �نھیں غزل ہی کہا جائے گا دیا جائے تو پھر چند �یک کو چھوڑ کیا جائے۔ لیکن �گر عنو�ن ہٹا

کیوں کہ ہر شعر �پنی جگہ مکمل ہے جو غزل کی �یک �ہم خصوصیت ہے۔

:کچھ شعر دیکھیے

�ہل گلشن سے نہ کہنا کہیں رود�د قفس

آ�نا جانا روز کا باد صبا ہے تر�

جو بھی گزری گزر گئی دل پر

فائدہ کیا ہے �س کہانی سے

Page 133: Bain Us Sutoor بین السطور

معیشت کا یہاں خدشہ وہاں پرسش کا �ندیشہ

تفکر سے بری شائد نہ و�ں ہوں گے نہ یاں ہوں گے

نہ ر�ستے کی خبر ہے مجھے نہ منزل کی

رو�ں دو�ں ہے بہر طور کارو�ں میر�

جائے گی ماضی کی یاد آ�ج ز�ہد کو بھی تڑپا

آ�ئی ہے مئے خانے کی بات باتوں باتوں میں نکل

چشم پرنم کی شعلہ سامانی

آ�گ پانی سے گویا جلتی ہے

منجو قمر نے �سانذہ کی زمینوں میں بھی شعر کہے ہیں۔ غالب کی غزل ہے

کسی کو دے کے دل کوئی نو� سنج فغاں کیوں ہو

منجو قمر کہتے ہیں

قمر دن ر�ت کے شکوے گلے کیا خوب کیا کہنے

(ستم گر ہو لقب جس کا بھلا وہ مہرباں کیوں ہو ) نظیر شعلہ فشاں

جلیل مانک پوری کی �یک مشہور غزل ہے

Page 134: Bain Us Sutoor بین السطور

بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی

ڈ�لی جالے گی کر کے توبہ توڑ

منجو قمر یوں گل �فشانی کرتے ہیں

لی جائے گی جب نقاب رخ ہٹا

عشق کی بنیاد ڈ�لی جائے گی

:�قبال کی �یک غزل کا مطلع ہے

گیسوئے تابد�ر کو �ور بھی تابد�ر کر

ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر

آ�زمائی کی۔ یہ در�صل �قبال سے �ن کی گہری عقیدت �س زمین میں منجو قمر نے بھی طبع

کا نتیجہ ہے۔ بہادر یار جنگ بھی تو �قبال کے مد�ح تھے تو پھر منجو قمر �قبال کے چاہنے و�لوں

میں کیوں کر نہ ہوتے۔ �قبال کا فلسفۂ مرد مومن منجو قمر کے درج ذیل شعر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ز بندگی ز زندگی ہے یہی ر� ہے یہی ر�

موت سے تو نہ ڈر کبھی موت کا �نتظار کر

�ور و�قعہ یہ ہے کہ �یک سچا مومن موت سے کبھی خوف زدہ نہیں ہوتا۔ وہ جانتا ہے کہ موت برحق ہے

آ� سکتی ہے۔ �ور کسی وقت بہی

آ�خر میں �یک �ور باب شامل کیا گیا ہے جو منجو قمر کی فن موسیقی سےم�س مج وعے کے

آ�گہی کا گہری و�بستگی کا مظہر ہے۔ ممتاز مہدی نے جامع �ند�ز میں منجو قمر کی موسیقی سے

Page 135: Bain Us Sutoor بین السطور

ذکر کیا ہے۔ �س کے علاوہ ممتاز مہدی نے منجو قمر کی کچھ �یسی تخلیقات بھی شامل کر دی ہیں

تخلیقات کے ساتھ جو �نھوں نے مختلف ڈر�موں کے لیے تحریر کی تھیں۔ �ہم بات یہ ہے کہ بیشتر

ر�گ �ور طبلے پر سنگت کی وضاحت کر دی گئی ہے۔

ممتاز مہدی بے �س مجموعے کو مرتب �ور شائع کر کے �یک کارنامہ �نجام دیا ہے۔ �ولاد کا

فریضہ ہے کہ وہ �پنے بزرگوں کے پردۂ خفا میں پڑے علمی کارناموں کو محفوظ کرے۔ �س کے لیے

میں ممتاز مہدی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میری دعا ہے کہ �ن کی یہ کاوش مقبول عام ہو۔

***

Page 136: Bain Us Sutoor بین السطور

چاند شیخ شاگرد عزیز انکے اور عبدا#حق مو#وی

آ�باد پایہ تخت کی منتقلی کا فیصلہ کیا تھا تو شاید �سے یہ محمد تغلق نے دہلی سے دولت

آ�بیاری کے لئے موزوں �ند�زہ ہو گیا تھا کہ یہ خطۂ زمین مردم خیز بھی ہے �ور علم و �دب کی

آ�باد �ردو کا گہو�رہ رہا ہے �ور یہاں کی خاک سے آ�ج تک �ور رنگ بھی .... �س عہد سے لے کر

�یسی �یسی نامی گر�می ہستیاں �ٹھیں جن پر �ردو زبان کو ناز ہے۔ �یسی ہی �یک شخصیت مولوی شیخ

آ�باد کے قریب �یک قصبہ ہے جس کا نام پٹن۔ یہیں کے �یک کاشتکار گھر�نے چاند کی ہے۔ �ورنگ

ء کو پید� ہوئے۔ چونکہ پٹن میں صرف مڈل تک تعلیم کا �نتظام تھا۔ �س۱۹۰۵�پریل ۱۵میں شیخ چاند

آ� گئے �ور آ�باد ء میں �نہوں نے میٹرک۱۹۲۳لئے مڈل کے بعد شیخ چاند مزید تعلیم کے لئے �ورنگ

آ�باد میں بھی صرف میٹرک تک ہی سہولت تھی۔ چنانچہ حصول علم کی خو�ہش کامیاب کیا۔ �ورنگ

آ�ئی جہاں �نہوں نے �نٹرمیڈیٹ میں د�خلہ لیا۔ آ�باد لے �نہیں کشاں کشاں حیدر

آ�صفیہ تعلیم کو عام کرنے کے لئے نئے نئے کالج قائم کر رہی یہ وہ زمانہ ہے جب حکومت

آ�باد میں �سی سال �نٹرمیڈیٹ کا کالج قائم کیا گیا تھا۔ شیخ چاند کو �س کا علم ہو� تو وہ تھی۔ �ورنگ

آ�باد منتقل ہو گئے �ور آ�باد سے پھر �ورنگ ء میں �یف �ے )�نٹرمیڈیٹ ( کامیاب کیا۔ لیکن۱۹۲۵حیدر

آ�باد میں تھی۔ آ�گے تعلیم کی سہولت صرف حیدر آ�نا ہی تھا کیوں کہ �س کے آ�باد بہرحال �نہیں حیدر

ء میں �ردو سے �یم۱۹۳۰ء میں شیخ چاند نے عثمانیہ یونیورسٹی سے بی �ے کرنے کے بعد ۱۹۲۸

�ے کیا۔ دیہی معاشرے میں سب سے �ہم تعلیم وکالت کی مانی جاتی تھی �ور وکیل کو بڑی عزت

ء۱۹۳۲کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ شیخ چاند نے سوچا کہ وہ �یل �یل بی کا �متحان پاس کر لیں۔

Page 137: Bain Us Sutoor بین السطور

میں �نہوں نے پریویس کامیاب کیا �ور پھر مجلس تحقیقات علمیہ سے و�بستہ ہوئے جہاں مولوی

عبد�لحق �ردو تحقیق کے نئے باب و� کرنے میں ہمہ تن مصروف تھے۔

آ�باد میں مولوی عبد�لحق سے شیخ چاند کی ملاقات بہت پہلے ہو چکی تھی۔ �ورنگ

آ�ئے تو مولوی صاحب آ�باد آ� چکے تھے۔ حیدر �نٹرمیڈیٹ کرنے کے دور�ن وہ مولوی صاحب سے قریب

سے �ور بھی قربت بڑھی۔ چنانچہ رسالہ �ردو میں شیخ چاند کے مضامین �ور تبصرے شائع ہونے لگے۔

�ن تبصروں نے ساری �ردو دنیا کو �پنی طرف متوجہ کر لیا۔ �گر چہ �ن کا �ند�ز قدرے جارحانہ تھا لیکن

پر �س �ند�ز تحریر کو پسندکرتے تھے �ور �س بات کا �مکان ہے کہ یہ خود مولوی صاحب ذ�تی طور

�ند�ز تحریر مولوی صاحب کی �یماء پر ہی �پنایا گیا تھا۔ مگر سخت تنقیدی طرز نگارش کے باوجود شیخ

چاند کی نکتہ سنجیاور تحقیقی بصیرت کی وجہ سے �ن کی تحریروں میں علمی وقار موجود تھا �ور

شیخ چاند کی عمیق نگاہی کی وجہ سے ہی مولوی صاحب �نہیں بے حد عزیز رکھتے تھے۔

مجلس تحقیقات علمیہ‘‘ عثمانیہ یونیورسٹی کا ہی �یک �د�رہ تھاجس کا مقصد یہ تھا کہ موزوں’’

�ور لائق طلباء سے تحقیقی کام کرو�یا جائے ، طلباء کو �یم �ے کے بعد یہاں تحقیقی کام پر معمور

کیا جاتا تھا �ور �نہیں وظائف دیئے جاتے تھے۔ �س زمانے میں عثمانیہ یونیورسٹی میں �ردو میں پی

�یچ ڈی کی ڈگری نہیں دی جاتی تھی..... لیکن مجلس علمیہ کے تحت تحقیقی کام کرنے کا

طریقہ کار وہی تھا جو پی �یچ ڈی کا ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ کام کے محاسبہ کے لئے پی �یچ ڈی

کی طرح ممتحن سے ر�ئے طلب کی جاتی تھی۔ مولوی صاحب شیخ چاند کی صلاحیتوں سے و�قف

تھے �سی لئے �نہیں وہاں وظیفہ دے کر تحقیقی کام پر مامور کیا۔ یہیں شیخ چاند نے �پنا �ہم مقالہ

آ�باد سے شائع ہو�۔۱۹۳۷’’سود�‘‘ لکھا جو �ن کی موت کے بعد ء میں �نجمن ترقی �ردو �ور نگ

آار� تحقیقی مقالہ ہے جس کی وجہ سے �ن کی شہرت میں’’ سود�‘‘ شیخ چاند کا وہ معرکۃ �ل

�ضافہ ہو�۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مقالہ �یم �ے کے لئے لکھا گیا تھا جو درست نہیں۔

Page 138: Bain Us Sutoor بین السطور

حقیقت یہ ہے کہ �یم �ے کے بعد شیخ چاند نے یہ مقالہ مجلس علمیہ کے تحت مولوی عبد�لحق

کی نگر�نی میں تحریر کیا تھا۔ خود مولوی صاحب کو بھی �س مقالے پر ناز تھا �ور �س مقالے کی وجہ

سے شیخ چاند پر بھی �نہیں ناز تھا۔ لیکن بہت کم لوگ �س بات سے و�قف ہیں کہ جب یہ مقالہ

لکھا جا رہا تھا �س وقت شیخ چاند سخت بیمار تھے �ور جگر کے عارضے میں مبتلا ہونے کی وجہ

سے فریش تھے۔ مقالے کے لئے �گر چہ سار� مو�د �کٹھا کیا جا چکا تھا لیکن شیخ چاند �پنی صحت

کی وجہ سے ترتیب دے کر تحریری صورت دینے سے قاصر تھے۔ مولوی صاحب کی پریشانی یہ تھی

کہ حکومت نے وظیفہ دے کر شیخ چاند کو تحقیقی کام کے لئے مقرر کیا تھا۔ دوسال کی مدت

گزری تھی �ور �گر کام مکمل نہ ہوتا تو �س میں مولوی صاحب کی سبکی تھی۔ �سی لئے وہ شیخ چاند

ا� شیخ چاند کو �پنے �یک دوست غلام پر سختی کرتے رہے کہ مقالہ جلد �ز جلد مکمل ہو جائے۔ مجبور

محمد طیب سے مدد لینی پڑی۔ �ور �پنی شدید علالت کے باوجود شیخ چاند بستر پر لیٹے لیٹے غلام

مہینے میں �س مقالے کی صورت گری محمد طیب کو مقالہ تحریر کرو�تے رہے �ور �س طرح دو

ممکن ہو سکی۔ �س مقالے کیلئے مولوی صاحب نے شیخ چاند کا نام �سی وقت سوچ لیا تھا جب وہ

�یم �ے کے طالب علم تھے۔ شیخ چاند نے مولوی صاحب کی سفارشی رپورٹ سے چند سطریں

’’سود�‘‘ کے دیباچے میں درج کی ہیں۔

شیخ چاند صاحب کو میں نے )منتخب کر کے ( �ن کے مقالے کے لئے سود� کا کلام تجویز کیا’’

ہے۔ �یم �ے میں جتنے طالب علم ہیں �ن سب میں شیخ چاند صاحب �س کام کے لئے نہایت

تنقید کے �عتبار سے کتاب تحقیق و موزوں ہیں۔ سود� کے کلام کے متعلق �ب تک کوئی مقالہ یا

نہیں لکھی گئی۔ یہ کام �گر دوسال میں پور� ہو گیا تو بہت قابل قدر ہو گا۔ شیخ چاند صاحب یہ کام

میری نگر�نی میں کریں گے۔ �ور مجھے یقین ہے کہ وہ بہت جلد �ور سلیقے سے �نجام دیں گے۔

‘‘کیونکہ �دب سے �ن کو خاص ذوق ہے �ور تنقید کی �ور تحقیق کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

Page 139: Bain Us Sutoor بین السطور

مولوی صاحب کی �میدوں کو شیخ چاند نے بھرپور �ند�ز میں پور� کیا۔ �پنی شدید علالت کے

باوجود �نہوں نے �س مقالے میں د�د تحقیق دی۔ �س کے بارے میں �س مقالے کے ممتحن مولوی

حبیب �لرحمن شیرو�نی کی ر�ئے درج ذیل ہے۔

نے پورے مقالے کے مطالعے کے بعد میری یہ پختہ ر�ئے ہے کہ شیخ چاند صاحب مقالہ نگار’’

فر�ہمی مو�د، مطالعہ، بحث ترتیب �ور بیان مطالب میں پوری کاوش �ور محنت کی ہے۔ �س طرح پوری

آ�ز�دی دونوں سے کام لیا ہے۔ �ن کی ر�ئے تیاری کے بعد مقالہ لکھا ہے۔ �ظہار ر�ئے میں تحقیق و

عادل ہے کہ مقالہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ �ن کا ذوق �دبی عمیق �ور سلیم ہے۔ فہرست مطالب شاہد و

نے �پنے مضمون کے تمام پہلو بحث کے وقت پیش نظر رکھے ہیں۔ مقالے کے مطالعے نے نگار

فہرست مطالب دیکھنے سے وسعت بحث کی بابت قائم ہو�یبر�بر �س خیال کی تائید کی جو �بتد�ئ

تھا۔ یہ مقالہ �س قابل ہے کہ جامعہ عثمانیہ کو مبارکباد دی جائے کہ �س کی معارف پروری �ور تربیت

ا�ت سے �یسا تحقیق پسند مقالہ نگار پید� ہو� ہے۔ میں �پنی محدود و�قفیت کے بنا پر یہ کہنے کی جر

کر سکتا ہوں کہ پی �یچ ڈی کی ڈگری پانے و�لوں میں بھی کمتر �یسا مقالہ لکھنے پر قادر ہو سکے

‘‘ہوں گے۔

مولوی حبیب �لرحمن شیرو�نی کی �س ر�ئے سے شاید ہی کو ئی �ختلاف کر سکے۔ لیکن یہ

بھی �یک حقیقت ہے کہ �س کا شہر� مولوی عبد�لحق کے سر جاتا ہے جنہوں نے �یسے مقالے نگار

کی تربیت کی �ور �س سے کام لیا۔

شیخ چاند کو یہ �عز�ز بھی حاصل ہے کہ وہ پہلے طالب علم ہیں جنھوں نے مولوی عبد�لحق

کی نگر�نی میں تحقیقی مقالہ لکھا۔ �ور ساتھ ہی ساتھ یہ �عز�ز بھی حاصل ہے کہ وہ جامعہ عثمانیہ کے

پہلے �ردو ریسرچ �سکالر تھے۔ مقالے کی تکمیل کے چند ماہ بعد ہی مولوی سید سجاد کی جگہ

عارضی طور پر پڑھانے کی ذمہ د�ری سونپی گئی۔ جس کے بارے میں خود مولوی صاحب کا �رشاد ہے

Page 140: Bain Us Sutoor بین السطور

کہ یہ �پنے لکچر بڑی محنت �ور تحقیق سے تیار کرتے تھے۔ مولوی صاحب کو یہ �ند�زہ تھا کہ معاشی

فر�غت تحقیقی کام کے لئے کتنی ضروری ہے۔ �سی لئے وہ شیخ چاند کی ملازمت کے لئے متفکر

رہا کرتے تھے۔ نو�ب ذو�لقدر جنگ کے نام �یک خط میں وہ شیخ چاند کی سفارش کرتے ہوئے تحریر

فرماتے ہیں۔

�مور عامہ سرکارعالی میں تعلیمات و و کوتو�لی عالی جناب نو�ب ذو�لقدر جنگ بہادر معتمد عد�لت و’’

تعلیم یافتہ نوجو�ن شیخ چاند جناب کی توجہ �پنے لائق شاگرد �ور جامعہ عثمانیہ کے نہایت قابل و

صاحب �یم �ے �یل �یل بی سابق ریسرچ �سکالر عثمانیہ کی طرف مبذول کرو�نا چاہتا ہوں۔

آ�باد( کے قدیم باشندے شیخ چاند صاحب �صلی �ور ٹھیٹ ملکی �ور قصبہ پٹن )ضلع �ورنگ

آ�باد میں تعلیم پائی۔ بی �ے ، �یم �ے �ور �یل �یل بھی کے ہیں، �نہوں نے �نٹرمیڈیٹ تک �ورنگ

�متحانات میں جامعہ عثمانیہ سے کامیابی حاصل کی۔ چونکہ �یم �ے میں خاص �متیاز کے ساتھ

کام کیا۔ �س دوسال میں �نھیں کامیاب ہوئے تھے �س لئے �ن کا �نتخاب ریسرچ میں �دبی تحقیق کا

روپیہ ماہانہ سرکاری وظیفہ ملتا رہا۔ �ن کا تحقیقی مقالہ ’’سود�‘‘ کی حیات �ور کلام پر تھا۔ یہ مقالہ۴۵

�ظہار ر�ئے کے لئے ریسرچ بورڈ کی جانب سے نو�ب صدر یار جنگ مولانا حبیب �لرحمن شیرو�نی کی

لی درجہ کی ر�ئے ظاہر کی �ور در خدمت میں بھیجا گیا �نہوں نے مطالعہ کے بعد �س کے متعلق �عل

ت یہ مقالہ �دبی تحقیق کے لحاظ سے خاص حیثیت رکھتا ہے۔ �س میں مؤلف نے سود� کیقحقی

زندگی �ور �ن کے کام کے متعلق بعض جدید تحقیقات کی ہیں �ور بعض �یسی غلط فہمیوں کا �ز�لہ

آ� رہی تھیں۔ کیا ہے جو �ب تک �ردو �دب کی تاریخ میں ہوتی چلی

وثوق کہہ سکتا ہوں کہ جامعہ عثمانیہ کے جن طلباء �ور پروفیسروں نے �لسنہ مشرقیہ میں با

میں یوروپ سے پی �یچ ڈی کی ڈگری حاصل کیں �گر �ن کے مقالوں کا �س سے مقابلہ کیا جائے

تو �س مقابلے میں یہ کسی طرح کم نہ پایا جائے گا۔ بلکہ �کثر سے �فضل نکلے گا۔ یہ مقالہ

Page 141: Bain Us Sutoor بین السطور

یونیورسٹی کی طرف سے زیر طبع ہے۔ �س کے علاوہ �نھوں نے دو �ور کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔

�صلاحات وغیرہ کے مالی �نتظامات و �یک ملک عنبر پر جس میں �س کی حیات �ور �س کے ملکی و

حالات بڑی محنت �ور تحقیق سے لکھے ہیں۔ �س پر بعض �ہل �لر�ئے نے بڑی �چھی ر�ئیں ظاہر کی

ہیں۔ دوسری کتاب مرہٹی کے بہت مشہور شاعر �یک ناتھ پر ہے جو �ردو میں بالکل نئی چیز ہے �ور یہ

متو�تر پانچ سال سے میرے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ �ور �نگریزی �ردو لغات جو زیر طبع ہے �ور �ردو زبان

کی لغات جو زیر تر ریب ہے �ن دونوں کی ترتیب میں �نہوں نے بڑے شوق �ور محنت سے کام کیا

ہے۔ نیز �نجمن ترقی �ردو کی تالیفات میں مجھے �ن سے بہت مدد ملی ہے۔ �ن کا تجربہ کسی طرح

�یک تجربہ کار پروفیسرسے کم نہیں۔ رسالہ �ردو میں �ن کے بعض محققانہ مضامین شائع ہوئے ہیں جو

آ�ل �نڈیا �ورینٹل کانفرنس میں جس کا �نعقاد بڑودہ میں۱۹۳۰پر بہت پسند کئے گئے۔ عام طور ء کی

ہو� �نہوں نے �یک تحقیقی مقالہ پڑھا جو کانفرنس کی رپورٹ میں شائع کیا گیا۔ طالب علمی کے

زمانے سے �ن میں �دبی ذوق پایا جاتا ہے۔ چنانچہ جب وہ �یم �ے کے طالب علم تھے تو مجلہ

پر سید سجاد صاحب کی عثمانیہ کی �یڈیٹری پر �ن کا �نتخاب کیا گیا۔ �س زمانے میں وہ منصرمانہ طور

جگہ کام کر رہے ہیں۔ �ور مجھے یہ معلوم کر کے بہت ہی خوشی ہوئی کہ وہ �پنے لکچر بڑی محنت

�ور تحقیق سے تیار کرتے ہیں۔

تجربہ کار تعلیم یافتہ کی نہیں بلکہ �ن حالات سے ظاہر ہے کہ شیخ چاند کی حیثیت �یک نا

وہ مسلسل چھ سال سے قابل قدر �دبی �ور علمی کام کر رہے ہیں۔ میں �نہیں �پنے سے کبھی جد�

نہ کرتا لیکن کچھ ماہ بعد �ن کی عمر تیس سال ہو جائے گی �ور پھر �ن کا سرکاری ملازمت میں د�خل

یہ عریضہ...... ر�ہ قدرد�نی { میر� ہونا دشو�ر ہو جائیگا۔ �س لئے میری �لتماس ہے کہ عالی جانب �ز

} جناب ناظم صاحب تعلیمات میں )جس کے لئے یہ خاص طور پر موزوں ہیں ( یاکسی �یسی خدمت

Page 142: Bain Us Sutoor بین السطور

پر کریں جس کا مشاہرہ کم سے کم دو سو روپیہ ہو۔ �گرچہ میری ر�ئے میں بلحاظ �پنی قابلیت �س

سے زیادہ کے مستحق ہیں۔

()عبد�لحق

�س طویل خط سے یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ مولوی عبد�لحق �پنے لائق شاگرد کے

بڑے مد�ح �ور �ن کی ملازمت کے لئے متفکر تھے۔ ظاہر ہے �س کے پیچھے �یک ہی جذبہ تھا �ور

وہ تھا �ردو �دب کی خدمت۔ �س لئے وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ شیخ چاند �ن سے جد� ہوں لیکن

�س کے لئے وہ شیخ چاند کے مستقبل کو برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ کیونکہ عمر کی وجہ

سے �ن کو سرکاری ملازمت ملنے کے �مکانات موہوم ہو سکتے تھے۔ �سی لئے وہ چاہتے تھے کہ

تالیفی مشاغل جاری رکھ سکیں۔ شیخ چاند پہلے معاشی فر�غت پالیں تاکہ تن من سے �پنے تصنیفی و

مولوی صاحب کا مندرجہ بالا خط خاصا طویل ہے لیکن جس تفصیل سے �نھوں نے شیخ چاند �ور �ن

کے علمی �کتسابات کے بارے میں تحریر کیا ہے �س سے مولوی صاحب کے تعلق خاطر کا �ند�زہ

آ�خری جملہ کہ ’’مشاہرہ کم سے کم دوسوروپیہ ہو �گر چہ میری ر�ئے میں کیا جا سکتا ہے۔ پھر �ن کا

وہ بلحاظ �پنی قابلیت کے �س سے زیادہ کے مستحق ہیں۔ �س بات پر دلالت کرتا ہے کہ علمی �عتبار

سے مولوی صاحب شیخ چاند کے بے حد قائل تھے۔ �نھیں �ند�زہ تھا کہ �س خاکستر میں کیسی

�گر شیخ چاند کو معاشی فر�غت نصیب ہو جائے تو وہ �ور بھی بہت کچھ کر سکتے چنگاریاں ہیں �ور

ہیں۔ در�صل شیخ چاند کا مز�ج تحقیقی تھا �ور مولوی صاحب �ن میں کچھ �پنی ہی سی صفات پاتے

تھے۔ �س لئے وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ شیخ چاند کو �یسی جگی ملازمت مل جائے جس کی وجہ

سے وہ مولوی صاحب کے قریب رہ سکیں۔ محکمہ تعلیمات کے ناظم کو سفارشی کلمات لکھنے

کے لئے �نہوں نے نو�ب ذو�لقدر جنگ سے درخو�ست کی تھی جو تعلیمات کے علاوہ کئی �ور

محکموں کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے۔ جس سے �ن کے �ثرو رسوخ کا �ند�زہ ہو سکتا ہے۔ پھر

Page 143: Bain Us Sutoor بین السطور

بھی مولوی صاحب کی تشفی نہیں ہوئی۔ چند روز کے وقفہ سے �نھوں نے پھر �یک خط ناظم

تعلیمات خان فضل محمد کے نام لکھا۔ وہ تحریر فرماتے ہیں۔

جناب مخدوم بندہ تسلیم۔

آ�پ کے سر رشتہ میں بہت کچھ رد بدل ہو گا۔ �س میں شیخ چاند و تیر کے مہینے میں

آ�باد میں آ�باد یا �ورنگ آ�ئے کہ �ن کا تقرر بلدیہ حیدر کا ضرور خیال رکھئے گا۔ �گر کوئی صورت نکل

ہو سکے تو میں نہایت ممنون ہوں گا۔ کیونکہ �یسی حالت میں وہ میر� بھی تھوڑ� بہت کام کرتے رہیں

گے �ور مجھے �پنے کام میں سہولت ہو جائے گی۔

نیاز مند

عبد�لحق

ء۳۶�پریل ۳۰

آ�باد کے �نٹرمیڈیٹ کالج میں مستقل طور پر ملازم ہو گئے۔ تیر �ور �س طرح شیخ چاند �ورنگ

یعنی مئی کے مہینے میں گرمی کی چھٹیاں ہو� کرتی تھیں۔ جون میں جب کالج کھلا تو شیخ چاند

۳۲ء کو ۳۷وہاں رجوع ہو گئے۔ لیکن قدرت کا کچھ �ور ہی منظور تھا صرف چھ ماہ بعد چار جنوری

برس کی عمر میں جالنہ کے �یک مشن ہسپتال میں �ن کا �نتقال ہو گیا �س طرح دنیا �یک بالغ نظر

محقق سے محروم ہو گئی۔

مولوی صاحب سے شیخ چاند کی قربت کی وجہ �ن ک شوق مطالعہ �ور �نہماک تھا۔ �ن کے

قریبی دوست صدیق �حمد مرحوم لکھتے ہیں کہ کم عمری کے باوجود شیخ چاند نے محض �پنے

شوق مطالعہ کی وجہ سے مولوی صاحب سے قربت حاصل کی تھی۔ جوہرشناسی مولوی صاحب کا

Page 144: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ب د�ر تلاش کر لیا تھا۔ جو خال خال ہی پایا خاص وصف تھا �ور �نہوں نے شیخ چاند میں وہ گوہر

جاتا ہے صدیق �حمد صاحب نے �یک دفعہ کا ذکر کیا ہے جب مولوی عبد�لحق �ور شیخ چاند گہرے

کے عالم کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے وہ لکھتے ہیں :۔ک�نہما

آ�مدے میں پہنچا تو �یک مسہری پر مولوی عبد�لحق قبلہ لیٹے ہوئے خانہ باغ سے گزر’’ کر میں بر

تھے۔ سامنے �یک پر�نی کتاب کھلی پڑی تھی۔ �یک ہاتھ میں پنسل کا ٹکڑ� تھا �ور دوسرے ہاتھ میں

حقہ کی نالی تھی۔ �یک کونے پر شیخ چاند مرحوم بیٹھے ہوئے تھے سامنے میز پر چند کتابیں کھلی

آ�� پڑی ہوئی تھیں۔ میں کوئی پندرہ منٹ کھڑ رہا مگر کسی نے بھی میری طرف نہ دیکھا۔ میں بھی باہر

آ�ئے مگر کامیابی گیا۔ بڑی دیر تک �نتظار کرتا رہا کہ شاید �ن میں سے کوئی �پنی ضرورت سے باہر

مرحوم نے مجھے دیکھا، قریب بلایا �ور ہم دونوں نہیں ہوئی۔ پھر ہمت کر کے �ندر گیا شیخ چاند

.........‘‘کے کمرے میں چلے گئے بازو

پر�نی کتاب سے صدیق �حمد مرحوم کی مر�د قدیم مخطوطہ ہے۔ �ور تحقیق کے بحر ذخار میں

تو محقق کے غو�صی کرنے و�لے �س بات سے بخوبی و�قف ہیں کہ جب کوئی مخطوطہ سامنے ہو

�نہماک کا کیا عالم ہوتا ہے۔ شیخ چاند کا �یک �ور �ہم کارنامہ مولوی صاحب کے تحریر کردہ شخصی

آ�تی �گر خاکوں کو جمع کرنا ہے۔ مولوی صاحب کی مشہور کتاب ’’چند ہم عصر‘‘ ہرگز وجود میں نہ

شیخ چاند نے �ن سارے مضامین کو �کٹھا کر کے کتابی صورت نہ دی ہوتی۔ �نہوں نے �ن کو ترتیب

دے کر فہرست بھی تیار کر دی تھی۔ �ور مولوی عبد�لحق سے فرمائش کی تھی کہ کچھ �ور مشاہیر پر

مضامین لکھیں تاکہ �س کتاب میں شامل کیا جا سکے۔ لیکن مولوی صاحب کی مصروفیت نے �نہیں

فرصت نہ دی کہ مزید مضامین لکھے جا سکیں۔ یہاں تک کہ شیخ چاند چل بسے۔ مگر مولوی

صاحب نے �ن مضامین کو شائع کیا �ور �پنے مرحوم شاگرد کی ترتیب کو بھی جوں کا توں رکھا۔ ذیل

Page 145: Bain Us Sutoor بین السطور

میں وہ دیباچہ درج ہے جس کا عنو�ن ’’�لتماس‘‘ ہے �ور جس کے �سلوب سے �ند�زہ ہوتا ہے کہ یہ

مولوی صاحب کی تحریر ہے حالانکہ نام منیجر کا دیا گیا ہے۔

�لتماس

یہ مضامین مرحوم شیخ چاند �یم �ے �یل �یل بی ریسرچ �سکالر جامعہ عثمانیہ نے مختلف رسالوں’’

کتابوں �ور تحریروں سے بڑی محنت �ور تلاش کے بعد جمع کئے تھے۔ �ن میں کچھ تحریریں تو

�یسی ہیں جو بعض بزرگوں کی وفات پر لکھی گئی تھیں �ور کچھ کتابوں کے تبصرے کے ضمن

آ� گئی تھیں۔ یہ سب مرحوم نے �یک جگہ جمع کر لی تھیں۔ مرحوم کی �یک �ور فرمائش مولوی میں

عبد�لحق صاحب سے یہ تھی کہ سر سید �حمد خاں نو�ب عماد�لملک �ور مولانا حالی پر بھی �س قسم

کی تحریریں لکھ دیں۔ کیونکہ مولوی صاحب کے �ن بزرگوں سے خاص تعلقات تھے۔ مولانا حالی پر

آ�ئی تو �یک مضمون لکھ دیا۔ لیکن باقی دو مضمون لکھنے کی فرصت نہ ملی۔ �گر طبع ثانی کی نوبت

تحریر کے ساتھ فوٹو بھی تو �مید ہے کہ �س کی تکمیل ہو جائے گی۔ �یک خیال یہ بھی تھا کہ ہر

آ�ئندہ کے لئے �ٹھا رکھا ہے۔ �ن مضامین لگائے جائیں لیکن �س کا بھی موقع نہ مل سکا۔ �سے بھی

کی ترتیب بھی وہی رکھی گئی ہے جو مرحوم شیخ چاند نے رکھی تھی۔ �فسوس وہ �سے �پنی زندگی

میں طبع نہ کر�سکے �ور �س سے پہلے ہی چل بسے۔ �ب جو�ں مرگ کی یاد میں یہ کتاب طبع کی

جاتی ہے۔

منیجر

حیرت ناک بات یہ ہے کہ ’’چند ہم عصر‘‘ کے جو �یڈیشن بعد میں چھپے �ن میں شیخ

چاند کا تذکرہ تک نہیں ہے۔ �ور نہ ہی مندرجہ بالا نوٹ ملتا ہے۔ جب کہ پہلے �یڈیشن کے سرورق پر

شیخ چاند کا نام بحیثیت مرتب درج ہے۔ �س ضمن میں شیخ چاند کے �یک ہونہار شاگرد، �ن کے

Page 146: Bain Us Sutoor بین السطور

�لدین صدیقی نے ر�قم �لحروف سے �یک مرتبہ بات چیت کے دور�ن مد�ح �ور نامور محقق جناب �کبر

بتایا کہ �نجمن کے کارکنان میں کچھ �یسے بھی تھے جو شیخ چاند �ور مولوی صاحب کی قربت

سے حسد کرتے تھے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ �ن ہی لوگوں کی سازش کہ وجہ سے دیباچے کے �س

صفحے کو �ور سرورق سے شیخ چاند کے نام کو نکال دیا گیا ہو۔

اا یہ طے ہے کہ �گر شیخ چاند نے شخصی دلچسپی لے کر �ن جو کچھ بھی ہو �یک بات یقین

ہم عصر‘‘ کی صورت گری میں شیخ چاند کا خون جگر بھی مضامین کو �کٹھا نہ کیا ہوتا �ور ’’چند

شامل نہ ہوتا تو فن خاکہ نگاری کے �یک سنگ میل سے �ردو دنیا و�قف نہ ہوئی ہوتی۔

کتابیات:۔

(۔ شیخ چاند حیات �ور کارنامے۔ خسروجہاں )غیر مطبوعہ مقالہ بر�ئے �یم فل۱

آ�بادی۲ ۔ پنج سالہ تاریخ �نجمن ترقی �ردو۔ سید ہاشمی فرید

۔ سود�۔ شیخ چاند۳

۔ رسالہ �ردو کے مختلف نمبر۴

۴۔ شمارہ 1۔ مجلہ عثمانیہ۔ جلد ۵

-------------------------٭٭-------------------------

Page 147: Bain Us Sutoor بین السطور

حا#ی اور شاعری و شعر مقدمہ

ء میں حالی نے �پنا دیو�ن شائع کیا تو �س پر �یک جامع مقدمہ بھی تحریر کیا۔ جس میں۱۸۹۳

لی سطحوں کی �نہوں نے �ردو شاعری کے معیار کو بلند کرنے کی طرف توجہ دلائی �ور شعر کی �عل

�خلاقی عناصر کی نشاندہی کی۔ �نھوں نے �س دور کی �ردو شاعری پر کڑی تنقید کرتے ہوئے �ن غیر

شدت سے مذمت کی۔ جن سے قدماء کی شاعری بھری پڑی تھی۔ �نھوں نے �ردو شاعری کو قومی

دینے کی کوشش کی �ور �س طرف دوسروں کو بھی ر�غب کیا کہ شعر �صلاح کے لئے �یک ذریعہ قر�ر

تو وہ معاشرے کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ �گرسچائی �ور �خلاقی �قد�ر سے محروم ہو

نی نوعیت کیپشاعری ‘‘ کے نام سے مشہور ہو� �ردو �دب میں � و مقدمہ جو بعد میں ’’مقدمہ شعر

آ�و�ز تھی �ور ساتھ ہی ساتھ �ردو �دب میں با ضابطہ تنقید کا پہلا لائحہ عمل۔ حالی مغربی تنقید پہلی

سے پوری طرح و�قف تو نہ تھے �ور �نھوں نے مغربی تنقید کا ر�ست مطالعہ بھی نہیں کیا تھا۔ لیکن

مختلف ذر�ئع سے �ن تک جو �فکار پہنچے۔ �ن پر حالی نے �ردو شاعری کے پش منظر میں غور کیا

�ور �یسی ر�ہیں متعین کیں جو �ردو کے لئے بالکل نئی تھیں۔

طبع ضروری ہے جوشاعری میں حالی نے کہا ہے کہ شاعری کے لئے موزونی و مقدمہ شعر

تاریکی �یک خد�د�د بات ہے۔ شاعری زو�ل پذیر معاشرے کی دین ہوتی ہے �ور شعر جس قدر جہل و

دیا کہ شعرسے کے زمانے میں ظہور کرتا ہے �سی قدر زیادہ رونق پاتا ہے۔ �نہوں نے �س بات زور

بہت سارے �سیسے کام لئے جا سکتے ہیں جو عام لوگوں کے بس کے نہیں ہوتے۔ غیرت �نگیز

دیتے ہیں۔ حالی کہتے ہیں �شعار قوموں کے مز�ج کو بدل دیتے ہیں �ور �نھیں مفتوح سے فاتح بنا

Page 148: Bain Us Sutoor بین السطور

کہ شاعری سماج کے تابع ہوتی ہے �ور جیسے جیسے خیالات سماجی عادتیں �ور مذ�ق بدلتا ہے

ویسے ویسے شاعری بھی بدلتی جاتی ہے ..... کبھی ہجو گوئی تو کبھی مدح �ور کبھی مبالغہ، یہ

چند چیزیں �ردو شاعری میں بہت زیادہ مقبول رہی ہیں لیکن یہ ساری چیزیں سماج کو نقصان پہنچانے

کا باعث بھی بنتی ہیں �س لئے کہ عو�م جھوٹ مبالغہ �ور بے سروپا باتوں سے مانوس ہو جاتے ہیں

جس کے نتیجے میں سوسائٹی کے مذ�ق میں زہر گھلتا جاتا ہے �ور حقائق سے دور ہونے کی وجہ

سے قومی �خلاق کو گھن لگ جاتا ہے۔

شاعری کے لئے قوت متخیلہ کو �ہمیت دیتے ہوئے حالی نے بتایا کہ یہ وہ طاقت ہے جو

آ�ز�د کر دیتی ہے �ور �س قوت کی بدولت وہ �یک لفظ سے مفہوم شاعر کو زمانے �ور وقت کی قید سے

ز�نہ پید� کر دیتا ہے۔ دوسری بات جو حالی نے شاعروں کے لئے ضروری قر�ر دی، وہخکا �یک بڑ�

آ�ئیں �ن پر مہارت سے �یسی فکر میں مشق و و غور کائنات کا مطالعہ ہے۔ جو باتیں مشاہدے میں

طاقت پید� کرنا ضروری ہے جن سے صلاحیتوں میں �ضافہ ہو۔ تیسری شرط �نھوں نے تفحص �لفاظ

موقع �ور محل کے �عتبار سے �پنا صحیح کی رکھی۔ یعنی �یسے �لفاظ �ستعمال کئے جائیں جو

کی خوبیوں میں حالی نے سادگی، �صلیت �ور مفہوم �د� کریں �ور سمجھنے میں دشو�ری نہ ہو۔ شعر

دیا سادگی سے �ن کی مر�د یہ تھی کہ خیال بلند ہونے کے باوجود �ظہار پیچیدہ جوش کو ضروری قر�ر

نہ ہو۔ �ور جو �لفاظ �ستعمال کئے جائیں وہ روزمرہ کی بول چال سے قریب ہوں۔ �صلیت سے �ن کا

مباہات سے کریز کیا جائے۔ جوش کا مطلب �ن مفہوم یہ تھا کہ شعر میں ر�ستی کی جھلک ہو، مبالغہ و

ملائم �ور دھیمے �لفاظ �ور بے ساختہ پیر�یہ �ختیار کیا جائے۔ حالی نے شعر کے نزدیک یہ تھا کہ نرم و

�فادیت کو و�ضح کرتے ہوئے کہا کہ شدت تاثر شاعر کے لئے ضروری ہے۔ میں جذبہ کی �ہمیت و

صد�قت کو صحیح �ند�ز سے شاعری کا جزو نہ �ور وہ �س وقت ممکن نہیں جب تک حسن خیر �ور

بنایا جائے۔ �نہوں نے غزل کے عشقیہ مضامین سے �نحر�ف تو نہیں کیا لیکن �ن کا خیال ہے کہ �ن

Page 149: Bain Us Sutoor بین السطور

مضامین کو �س طرح پیش کیا جائے کہ �ن سے محبت، دوستی، �خلاص �ور روحانی �قد�ر کی توسیع ہو

سکے۔

حصے ہیں۔ مقدمہ شعر و شاعری کے پہلے حصے میں حالی مقدمہ شعر و شاعری کے دو

نے تنقیدی �صول پیش کئے �ور دوسرحصے میں �نھوں نے �ن ہی �صولوں کی روشنی میں مثنوی،

قصیدہ، مرثیہ �ور دوسری �صناف کا جائزہ لیا۔ غزل کے بارے میں حالی کا خیال ہے کہ غزل صرف

آ�میز جذبات کے لئے نہیں ہے۔ غیرمانوس �لفاظ �ور ثقیل تر�کیب بھی خیالات کو عشق �ور ہوس

عمدگی سے �د� کرنے میں مانع ہوتی ہیں۔ قصیدے کے لئے وہ کہتے ہیں کہ �س کی بنیادی تقلید

ی مضامین کی بجائے سچے جوش �ور ولولے پر ہونی چاہئے۔ مدح میں بھی یہ ضروری ہوتا ہے کہ

آ�نے و�لی نسلوں کے لئے �یک مثال ثابت ہو ممدوح کی خوبیوں کو �س طرح پیش کیا جائے وہ

سکے۔ مرثیہ کے بارے میں حالی کا کہنا یہ تھا کہ �سے بھی �خلاقی نقطۂ نظرسے دیکھنے کی

ضرورت ہے ..... مرثیہ کا مقصد صرف رونے رلانے کی بجائے صبر، �ستقلال، شجاعت، ہمدردی،

وفاد�ری، غیرت، حمیت وغیرہ کا �ظہار ہونا چاہئے۔ مثنوی کے لئے وہ کہتے ہیں کہ مطلب صفائی سے

�د� ہو۔ ہر بیت دوسری بیت سے �ور ہر معرکہ دوسرے معرکے سے پیوست ہو ...... �س کی بنیاد

فوق �لعادت باتوں پر نہ ہو۔ مبالغہ سے گریز کیا جائے ، کلام کو مقتضائے حال کے مطابق ناممکن �ور

رکھتی ہوں۔ �س بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ �یک بیان کی دوسرے بیان سے تکذیب نہ ہو۔

�س کے علاوہ جن �ہم �ور ضروری باتوں پر قصے کی بنیاد رکھی گئی ہو �ن کا وضاحت کے ساتھ بیان

کرنا ضروری ہے۔ جبکہ ضمنی باتوں کو رمزو کنایہ میں کہا جا سکتا ہے۔ حالی نے مقدمہ شعر و

شاعری میں �ردو شاعری پر عملی تنقید کرتے ہوئے پہلی مرتبہ �یک مکمل �ور منظم نظریۂ تنقید پیش کیا۔

تنقید ملتی ہے �س کا �نحصار �س سے قبل �ردو کی تنقید کی ر�ہیں متعین نہ تھیں۔ تذکروں میں جو

Page 150: Bain Us Sutoor بین السطور

بیان کی نز�کتوں پر زور دیتے تھے۔ حالی نے تنقیدی و زبان شخصی پسند وناپسند پر ہے۔ تذکرہ نگار

آ�ہنگ کرنے پر زور دیا۔ نظریات پیش کرتے ہوئے شاعری کو �نسانی زندگی کی بلند �قد�ر سے �ہم

حالی نے جب �ن خیالات کو پیش کیا تو �س کے پیچھے ملک �ور قوم کے لئے دل سوزی

قابل تعریف ہے۔ حالی کے �فکار نے �ردو شاعروں پر بڑ� �ثر ڈ�لا...... �ور لوگ یہا کا جذبہ تھا جو یقینا

چاہئے۔ شاعری ہونا مقصد سمجھنے لگے کہ شعر کو مخرب �خلاق نہیں ہونا چاہئے �ور شاعری کو با

کے ذریعے قومی زندگی کی تعمیر ہونی چاہئے �ور �خلاقی تربیت میں بھی �س کو �ہم کرد�ر کرنا

چاہئے۔ لیکن �س کا نتیجہ یہ بھی ہو� کہ قدیم شعری کارناموں کے �یک بڑے حصے کو صرف فنی

کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ �یک گروہ �یسا پید� ہو� جس نے شاعری کمالات کا مظہر سمجھ کر �نہیں رد

اا غزل کو نیم وحشی صنف سخن کا دیا گیا کہ قدیم �دب میں بھی نام دیا۔ یہ بھی بھلا �ور خصوص

شعور کی بالیدگی �ور فکر کی نمو کیلئے کافی سامان موجود ہیں �ور نئے �دبی تجربوں کی طرف قدم

�ٹھانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہماری شعری رو�یات �ور �ن کی صد�قتوں پر غور کیا جائے۔

---------------------٭٭---------------------

Page 151: Bain Us Sutoor بین السطور

فن کا ناظم یوسف

�نسانی زندگی سے �گرہنسی چھین لی جائے تو یہ دنیا شاید جہنم بن جائے۔ ویسے ہنسی کئی

قسم کی ہو سکتی ہے ...... کھسیانی ہنسی، �ستہز�ئی ہنسی، طنزیہ ہنسی، مصنوعی ہنسی، دوسروں

کو ذلیل کرنے و�لی ہنسی وغیرہ .....وغیرہ...... ! لیکن سب سے زیادہ منزہ ہنسی وہ ہے جس سے

حظ کے �ظہار کے طور پر دل کی کسی دوسرے کے دل پر چوٹ نہ لگے ، جو بے پناہ مسرت و

پر گہر�ئیوں سے نکلنے �ور �س ہنسی میں دوسرے لوگ بھی بلا کسی �ستکر�ہ کے یکساں طور

شریک ہو سکیں۔ یہ ہنسی �نسان کے لئے �یک �نتہائی �ہم �ور ضروری چیز ہے کیونکہ یہ خوش دلی کی

نکہت سے معمور گلستانوں علامت ہے۔ یہ ہنسی زندگی ہے دشو�ر گز�ر �ور خارد�ر صحر�ء کو رنگ و

میں تبدیل کر دیتی ہے۔ �ور مز�ج �سی بے پناہ مسرت کا سرچشمہ ہے جو �نسان کی زندہ رہنے کا

آ�تی ہے جس طرح حوصلہ عطا کرتا ہے۔ مز�ج کے ساتھ ساتھ �یک �ور چیز �سی طرح پہلو بہ پہلو نظر

لی ترین قسم وہ ہے جس پھول کے ساتھ کانٹا موجود ہوتا ہے یہ چیز ہے طنز �ور طنز...... طنز کی �عل

آ�غا طنز سماج کے رستے ہوئے زخموں کی طرف میں خوش دلی کی کیفیت موجود ہو۔ بقول وزیر

زنی کے لئے بے حد متوجہ کرتا ہے۔ لیکن رستے ہوئے زخموں کی طرف متوجہ کرنے �ور �ن پر نشتر

مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوسف ناظم کے ہاں مز�ج �ور طنز کے دونوں رخ بے حد متو�زن �ند�ز

میں موجود ہیں۔ وہ �پنے �پنے طنز کے نشتروں کو کسی کے دل میں تر�زو نہیں کرتے �ور نہ ہی

پن کی کیفیت پید� ہوتی ہے۔ وہ سماج کے رستے ہوئے ناسوروں پر مز�ج سے �ن کے ہاں پھکڑ

نہایت مہارت سے نشتر رکھتے ہیں �ور �ن پر مز�ج کا مرہم لگا کر لطیف جذبات کو مہمیز کرتے ہیں۔

Page 152: Bain Us Sutoor بین السطور

�نھوں نے �پنی تحریروں میں ذ�تیات کو کبھی نشانہ نہیں بنایا۔ وہ خود �پنی ذ�ت کو ہدف ملامت

�چھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ �سی لئے بناتے ہیں �ور نہ ہی �پنے ہم عصروں کی ذ�ت پر کیچڑ

آ�فاق حسین صدیقی نے لکھا تھا �ور بالکل درست لکھا تھا کہ۔

�ن کا )یوسف ناظم کا( طنز �ن کی خود کی ذ�ت کی �لجھنوں �ور ذ�تی معاملات کی تلخیوں کا’’

نجی زندگی کی ناہمو�ریوں کو نتیجہ نہیں ہے �ور نہ ہی �نہوں نے �پنی تحریروں میں ذ�تی معاملات یا

مقاصد پر ہے۔ بلکہ �پنی مز�ح کی �ساس ذ�تی �غر�ض و طنز کا نشانہ بنایا ہے �ور نہ ہی �ن کے طنز و

تحریروں میں �نہوں نے �پنے عہد کے مختلف �لنوع معاملات �ور گوناگوں ناہمو�ریوں �ور عام زندگی

مز�ح کا موضوع ہے مز�ح کا نشانہ بنایا ہے۔ �ن کا معاشرہ �ن کے طنز و و کے بے ڈھنگے پن کو طنز

‘‘مز�ح کا مو�د حاصل کیا ہے۔ �ور �سی عہد �ور معاشرے سے ہی �نھوں نے طنز و

(ء۸۰ ماہنامہ شاعر جنوری، فروری ۲۲مز�ح �ور یوسف ناظم مضمون ’’طنز و)

یوسف ناظم جس معاشرے کے فرد ہیں �س کی ناہمو�ریاں �ن کے حساس دل کو مجبور کر

دیتی ہیں کہ وہ �س پر لکھیں۔ بمبئی میں جگہ کی قلت سے کون و�قف نہیں ...... یہاں جگہ کی

مصنف نے رویا ہے۔ یوسف ناظم بھی روتے ہیں بلکہ سسکیاں لے لے کر روتے قلت کا رونا تو ہر

آ�سانی سے سنائی دینے و�لی نہیں ہیں وہ خود بھی روتے ہیں ..... یہ �ور بات ہے کہ یہ سسکیاں

غریب ہے۔ بنیان کی ضرورت بیان کرتے ہوئے ہیں �ور ہم سب کو رلاتے ہیں۔ لیکن �ند�ز عجیب و

لکھتے ہیں۔

آ�دمی �س میں �پنا فونٹن پن لگاتا ہے بلکہ وہ بنیان پہنتا ہی �س لئے ہے کہ �گر نہ پہنے تو’’ بمبئی کا

فونٹن پن کہاں رکھے ہم نے بہتوں کو تو کتابیں �ور فائیلیں تک بنیان میں رکھے

.......‘‘دیکھا ......بمبئی میں جگہ کی بڑی قلت ہے

Page 153: Bain Us Sutoor بین السطور

(۱۰پردیسی کا سفرنامہ ہندوستان۔ مشمولہ �لبتہ )

آ�گے پلیٹ فارم کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں �ور

ہر ریلوے پلیٹ فارم پر نیرے کا �یک �سٹال ضرور ہوتا ہے۔ جس پر بعد میں وہ جگ سوسکتے ہیں’’

جنھیں بنچوں پر سونے کے لئے جگہ نہ ملی ہو۔ ریلوے پلیٹ فارم پر جتنے بھی بنچ ہوتے ہیں

برسوں سے چند خاص لوگوں کی رہائش کے لئے ریزرو ہو چکے ہیں۔ خود پلیٹ فارم �ور بالائی پلوں

طعام کی �جازت ہے۔ جو لوگ یہاں مستقل طور پر رہنا نہ چاہیں وہ چار چھ گھنٹے کے پر بھی قیام و

.......‘‘لئے �پنی دوکان لگا سکتے ہیں۔ بظاہر �س کا کوئی کر�یہ نہیں ہے

آ�دھ لفظ کے �س ’’بظاہر ‘‘ کا لطف لیجئے �ورسر دھنئے۔ یہ یوسف ناظم کا فن ہے کہ �یک

آ�دھ فقرے کے ذریعے طنز و مز�ح کا �یک طوفان برپا کر دیتے ہیں۔ وہ کبھی �ستعمال سے یا �یک

آ�ج کل آ�دھ لفظ کے مفہوم کو مزید وسیع کر دیتے ہیں �ور �س سے �یک کیفیت پید� کرتے ہیں۔ �یک

�یک پر روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ �سکول جاتے ہوئے ننھے �سکولوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ہر

آ�تے ہیں جس پر �س کی بساط سے کئی گناہ زیادہ بوجھ ڈ�ل دیا گیا ننھے بچے �یک �یسا گدھا نظر

ہو۔ یوسف ناظم کے مشاہدے کا کیمرہ �س تصویر کو بھی �پنے �ندر جذب کرتا ہے۔

دیکھئے وہ �یک بچے کی تصویر کھینچ رہے ہیں جو �سکول جا رہا ہے۔ لکھتے ہیں

دیکھو وہ لڑکا �سکو جا رہا ہے )کتنا غمگین ہے ( �س کی پیٹھ پر خاکی رنگ کا �یک بستہ ہے۔ �س’’

بستے میں بیس عدد �یکسرسائز بک ہیں۔ �ن بیاگوں کو �ٹھائے �ٹھائے پھرنے سے �چھی خاصی

‘‘ورزش ہو جاتی ہے۔ جب ہی تو �نہیں �یکسرسائز بک کہا جاتا ہے۔

�ردو کی پہلی کتاب جدید کے چند سبق )دوسر�سبق( مشمولہ ’’فی �لحال ‘‘ �یکسرسائز بک کا

یہ نیا مفہوم یوسف ناظم کے ذہن رسا کا کمال ہے ... �ور و�قعی جب �ن نوٹ بکس کو �یکسرسائز بک

Page 154: Bain Us Sutoor بین السطور

کہا گیا ہو گا تو یہ ہرگز نہ سوچا ہو گا کہ �یکسرسائز بک کا یہ مصرف بھی ہو سکتا ہے۔ سبک خر�می

آ�پ �ن کی تحریر دریاؤں میں رو�نی کو محسوس کرنا یوسف ناظم کی تحریر کا �یک �ہم وصف ہے۔ �گر

آ�پ کو مایوسی ہو۔ کیونکہ یوسف آ�تی ہے تو شاید چاہیں جیسے مشتاق �حمد یوسفی کے ہاں نظر

ناظم رک رک کر لکھنے کے عادی ہیں۔ تھم تھم کر بہنے کے قائل ہیں۔ پچھلے پچاس برسوں میں

�نھوں نے صرف لفظوں کے پل نہیں باندھے �ور نہ پہاڑی ندی کی طرح �چھل کود کی ہے۔ وہ

زندگی کو برتتے ہیں �س کے مختلف پہلوؤں کا بڑی گہر�ئی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں �ور بے حد

محتاط �ند�ز میں �پنے قلم کو حرکت میں لاتے ہیں۔ �سی لئے پروفیسر سلیمان �طہر جاوید نے یوسف

ناظم کے فن پر لکھا ہے کہ۔

�ن کا فن �پنے پڑھنے و�لوں سے �یک خاص معیار کا مطالبہ کرتا ہے �یک �ونچے نکھرے ستھرے’’

آ�گہی کا .... یوسف ناظم، لگتا ہے جتنا وقت علمی و �دبی ذوق کا ...�ردو �دب کی رو�یات سے

غور کرنے لکھنے میں صرف کرتے ہیں �س سے زیادہ وقت ’’کیا لکھیں �ور کیسے لکھیں ‘‘ پر

.......‘‘�حتیاط کا د�من ہاتھ سے نہیں چھوڑتے میں صرف کرتے ہیں وہ ضبط و

(ء۸۰فروری مشمولہ ماہنامہ شاعر جنوری و مضمون’’یوسف ناظم �یک مطالعہ‘‘)

�بھی میں نے عرض کیا تھا کہ یوسف ناظم روتے بھی ہیں �ور رلاتے بھی ہیں۔ بلکہ مجھے

یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ وہ رلانے کا فن بہت �چھی طرح جانتے ہیں شاید �سی لئے وہ

آ�نسو کے ذ�ئقے سے نہ صرف و�قف ہیں بلکہ �س ذ�ئقے سے دوسروں رونے کے بائی پروڈکٹ یعنی

آ�نسو �گر �صلی ہوں گے تو کو و�قف کرو�نا بھی �پنا فرض �ولین سمجھتے ہیں۔ �ن کا خیال ہے کہ

ہوں گے .... وہ لکھتے ہیں۔ نمکین ضرور

Page 155: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�نسو �صلی ہوں .....مگر مچھ کے’’ آ�نسو ذ�ئقے میں نمکین ہوتے ہیں شرط یہ ہے کہ یہ آ�دمی کے

آ�دمی جب بھی �پنے منھ کا مزہ بدلنا آ�نسوؤں کے نمکین ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ آ�نسو نہ ہوں ......

آ�دمی کتنا خود مکتفی ہے آ�نسو پی لیتا ہے ) (چاہتا ہے ، �پنے

(۱۵مضمون ’’حق نمک کا‘‘ مشمولہ فی �لحال.... ص )

آ�خری جملہ قوسین میں ہے۔ دیکھئے وہ �س جملے سے کیسی زبردست چوٹ کر گئے ہیں۔ ® ®

پارہ کے �ختتام پر �ہم نثر �س طرح کے قوسینی جملے یوسف ناظم کی �ہم خصوصیت ہیں۔ وہ �پنے ہر

�یک چھوٹاساجملہ قوسین میں د�غ دیتے ہیں �ن کا کوئی مجموعہ �ٹھا کر دیکھ لیجئے۔ �یسے قوسینی

آ�ئیں گے۔ �ستاذی پروفیسر مجاور حسین رضوی نے �یسے جملے کو نثر میں جملے جگہ جگہ نظر

مستز�د کہا تھا۔ میں �سے قوسینی جملے �س لئے کہہ رہا ہوں کہ قوسین کی عدم موجودگی میں

�یسے جملے کی قلب ماہیت ہو جانے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ یوسف ناظم میں قوسینی جملے لکھنے

خیال ہے کہ وہ بنیا �دیب، شاعر، نقاد، قاری بلکہ میر� کی بڑی پر�نی عادت ہے جس سے �ردو کا ہر

تک و�قف ہے جو کبھی کبھی یوسف ناظم کے چھپے ہوئے مضامین میں نمک مرچ �ور دھنیا باندھ

د�نگ عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ دیا کرتا ہے۔ �ن کے قوسینی �دب کے چرچے چار

آ�باد کے �یک مز�ح نگار مسیح �نجم نے �نہیں ’’یوسف قوسین‘‘ کا خطاب دے رکھا ہے بلکہ حیدر

�س عنو�ن کے تحت �ن پر �یک خاکہ بھی لکھ مار� ہے۔ �س کے باوجود وہ قوسینی �دب سے سبک

دوش نہیں ہوئے بلکہ �ب تو قوسین کی تعد�د میں �ضافہ �ور قوسینی جملوں کے درمیانی فاصلے میں

رہی ہے۔ در�صل یوسف ناظم کو یہ �ند�زہ ہو گیا ہے کہ لوگ �ب �ن کے قوسینی جملوں پر زیادہ کمی ہو

د�د دیتے ہیں �س لئے وہ قوسین کی تعد�د بڑھاتے جا رہے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ یوسف ناظم کے

......!!!جملہ قوسین میں نہ ہو آ�ئندہ مضامین کا ہر

Page 156: Bain Us Sutoor بین السطور

یوسف ناظم �پنے �طر�ف سے بے خبر نہیں رہتے وہ خو�بوں کی دنیا کے �دیب

مز�ح نہیں .....وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کے درمیان جیتے ہیں �ور �نہیں تلخ حقیقتوں کو طنز و

جی ڈیسائی وزیر خز�نہ تھے کا روپ دے کر ہمارے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ عرصہ گزر� جب مر�ر

آ�رڈر نافذ کیا تھا �ور سونے کے �ستعمال پر کچھ تو �نہوں نے گولڈ �بندیاں عائد کر دیپکنٹرول

نکالتا ہے تھیں۔ �یک حساس فن کار �س قانون کے بطن سے �پنے مطلب کی باتیں کیسے ڈھونڈ

آ�ئے گا۔ یہ بھی �ند�ز ہ کیا جا سکتا ہے کہ و آ�پ کو یوسف ناظم کی �س تحریر میں نظر ہ�س کا نمونہ

تین موضوعات کو �یک چھوٹے سے نثر کے ٹکڑے میں پیش کرنے پر کتنی قدرت رکھتے دو

آ�فاق ہاکی ٹیم کا سورج رو ہیں ....�یک طرف گولڈ آ�رڈر تھا تو دوسری طرف بھارت کی شہرۂ بہ کنٹرول

آ�نے زو�ل تھا۔ وہ ٹیم جو �ولمپک میں ہمیشہ گولڈ میڈل حاصل کرتی تھی �ب چوتھے پانچویں نمبر پر

لگی تھی۔ یوسف ناظم کہتے ہیں۔

آ�رڈر نافذ ہو� ہے ہماری ہاکی ٹیم نے �ولمپک میں گولڈ میڈل ہندوستان میں جب سے گولڈ’’ کنٹرول

آ�پ کو مصیبت میں ڈ�لے۔ �ب طالب علم حاصل کرنا ترک کر دیا ہے۔ کون قانون شکنی کرے �ور �پنے

......‘‘بھی �س قانون کی پابندی کرنے لگے ہیں

(۴۶ء ص ۷۷�دبی نوشاہ مشمولہ شگوفہ �پریل )

آ�خری جملے میں یوسف ناظم نے طالب علموں کو بھی گھسیٹ لیا جن کا تعلیمی معیار روز

آ�مد کا غلغلہ �یک عرصے سے ہے۔ ہرکس وناکس �کیسویں بروز گھٹتا جا رہا ہے۔ �کیسویں صدی کی

�یک کا �ند�ز مختلف ہے۔ سربر�ہان مملکت نے �کیسویں صدی کی صدی کا �نتظار کر رہا ہے �ور ہر

کہتا ہے کہ �کیسویں صدی میں کوئیئی لیا ہے۔ کو بناTarget آ�مد کو �پنے لئے �یک نشانہ

جاہل نہ رہنے پائے۔ کسی ملک کا سربر�ہ چاہتا ہے کہ کوئی زندہ ہی نہ رہنے پائے .... کوئی سائنسی

ترقیوں کی باتیں کرتا ہے کوئی قحط �ور بھوک کے خاتمے پر زور دے رہا ہے ....غرض جتنے منھ

Page 157: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�نے و�لی صدی کے �تنی باتیں بلکہ جتنے ذہن �تنے ہی ہتھکنڈے ......! لیکن �یک درد مند فنکار

آ�نے و�لی صدی کے خدوخال کیسے نظر بارے میں کیا ر�ئے رکھتا ہے ؟ آ�تے ہیں .......؟ �سے

.........یوسف ناظم کی یہ تحریر �س بات کا جو�ب ہے وہ لکھتے ہیں

صورت �ور ہیئت کے �عتبار سے ویسی ہی صدی ہو گی جیسی کہ �ب آ�نے و�لی صدی بھی شکل و’’

آ�ئی ہیں۔ لیکن صدی بہرحال صدی ہوتی ہے۔ �س لئے سوچا جا رہا ہے کہ �س کا �ستقبال تک ہوتی

کس طرح کیا جائے۔ ہینڈ بجا کر یا بغلیں بجا کر.....فضا میں فاختائیں �ڑ�ئی جائیں یا زمین پر �یک

جائے۔ ویسے چھوٹے موٹے پیمانے پر کیمیکل �شیاء بنانے و�لے کارخانوں آ�دھ خوبصورت بم چھوڑ�

سے گیس کا �خر�ج بھی عمل میں لایا جاتا ہے کیوں کہ �س گیس کو بھی مفاد عامہ کے لئے

جان سے فد� ہو رہے �ستعمال کئے جانے کا رو�ج مقبول ہو رہا ہے �ور لوگ ہنسی خوشی �س پر دل و

(پر بھی بھروسہ کیا جائے تو تعد�د �چھی خاصی معلوم ہوتی ہے ہیں۔ )سرکاری �عد�د

آ� رہی ہے ‘‘ مشمولہ شگوفہ جنوری )م (ء۸۶ضمون ’’وہ

�کیسویں صدی پر بات کرتے کرتے یوسف ناظم کے ذہن پر بھوپال گیس �ور�س کے بعد

مختلف سانحات چھا جاتے ہیں �ور �ن کے مز�ج میں کرب جھلکنے لگتا ہے۔ �سی لئے تومیں نے

کہا تھا کہ یوسف ناظم رونے �ور رلانے کے فن سے �چھی طرح و�قف ہیں ......خد� کرے کہ �ن

کے فن میں �ن کے �سلوم میں �ن کے �ند�ز تحریر میں �سی طرح سورج �گتے رہیں ........روشنی

..........!!!�ور تمازت سے بھرپور سورج

-------------------------٭٭-------------------------

Page 158: Bain Us Sutoor بین السطور

اصلاحیں کی اساتذہ اور مشاعرے

تخلیق کار کی خو�ہش ہوتی ہے کہ �س کی تخلیق کو دوسرے لوگ بھی دیکھیں ، �س جذبہ ہر

رہا ہے۔ �س �حساس پر غور پے میں لہو بن کر دوڑ کو محسوس کریں جو � س کی تخلیق کے رگ و

کیا ہے۔ سنگ تر�ش ہو یا مصور، معمار ہویا مغنی یا موسیقار کریں جس نے �س تخلیق کو پیکر عطا

سبھی یہ چاہتے ہیں کہ �ن کا فن عو�م تک پہنچے �ور �سے پسند کیا جائے۔ شاعر �ور �دیب بھی �س

نہیں ہیں۔ وہ بھی یہی خو�ہش رکھتے ہیں کہ �ن کی تخلیق کو لوگ سنیں �ور فن� خو�ہش سے مبر

کار کی صلاحیتوں کی د�د دیں۔ جب �نسان نے شعر کہا ہو گا �ور �س کو �حساس ہو� ہو گا کہ یہ �یک

پڑ� ہو گا۔ �ور جب �س کی د�د ملی ہو گی �چھوتا خیال ہے ، تو�س کو دوسروں کو سنانے کے لئے دوڑ

تو نہ صرف خوش ہو� ہو گا بلکہ �س د�د سے �س کا حوصلہ بھی بڑھا ہو گا یوں �س کے دل میں خوب

سے خوب تر شعر کہنے کی خو�ہش نے جنم لیا ہو گا۔ �بتد�ئی زمانے میں نشرو�شاعت کی سہولتیں

نہیں تھیں۔ لوگ �یک جگہ جمع ہوتے تھے �ور �پنی �پنی شعری تخلیقات سنایا کرتے تھے �ور سامعین

�ن تخلیقات کو سن کر کبھی د�د دیتے تھے �ور کبھی �ن پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔

آ�ج وہ مجلس جہاں شعر�ء �پنا کلام سناتے ہیں مشاعرہ کہلاتی ہے۔ مشاعرے کا یہ سلسلہ

�شاعت کی تمام تر سہولتوں کے فروغ کے باوجود مشاعرے کی �ہمیت �سی و بھی جاری ہے۔ نشر

طرح برقر�ر ہے۔ کیونکہ �س میں شاعر �ور سامع کے درمیان ر�ست ربط ہوتا ہے .......کاغذ پر چھپے

�ور ٹی وی پر سنایا جانے و�لا کلام ......�ن میں شاعر سامع کے خیالات ریڈیو ہوئے �شعار ہوں یا

قبح کی کو �پنے شعر کے حسن و شاعر عمل سے محروم رہتا ہے جبکہ مشاعرے میں سامع کا رد

Page 159: Bain Us Sutoor بین السطور

کرتا ہے �ور جب شاعر کو �س کے کلام پر د�د ملتی ہے تو �سے �یسا طرف توجہ دینے پر مجبور

محسوس ہوتا ہے جیسے ہفت �قلیم کی دولت مل گئی ہو۔ عرب میں عکاظ کے مقام پر ہرسال �یک

اا تمام قبائل شریک ہو� کرتے تھے �ور ہر فن کے ماہر میلہ لگا کرتا تھا۔ �س میلے میں عرب کے تقریب

�پنی ہنر مندی کا مظاہرہ کرتے تھے .... دوسری تفریحات کے علاوہ یہ مقام شاعروں کے لئے �پنے

فن کے �ظہار کا �یک �ہم �د�رہ تھا جہاں عرب کے کونے کونے سے سخن گو �ور سخن علم و

قصیدہ پیش کرتا تھا �ور جس قصیدہ کو سب سے بہتر شناس جمع ہوتے تھے۔ �س میلے میں شاعر �پنا

دیا جاتا �سے سونے کے پانی سے تحریر کر کے کعبہ کی دیو�ر پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ �س سلسلے قر�ر

میں کئی قصیدہ نگاروں کے نام لئے جاتے ہیں۔ جن کو یہ مرتبہ حاصل ہو� تھا۔ �ن قصیدوں کو

کی ’’سبعہ معلقہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ �گر غور کریں تو �ند�زہ ہوتا ہے کہ مشاعرہ تنقید

�بتد�ئی منزل ہے۔ یہیں �س بات کا �ند�زہ ہوتا ہے کہ کلام کیسا ہے �ور سامعین کو کس حد تک متاثر

کر سکتا ہے۔ شاعر �پنا کلام پیش کرتا ہے �ور سامع �س سے �ثر قبول کرتا ہے تو بے ساختہ �س کی

زبان سے وہ نکل پڑتی ہے .....’’و�ہ۔ و�ہ‘‘ �ور ’’سبحان �للہ‘‘ یا �سی طرح کے فقرے �س بات کی

یہ بے ساختہ �ظہار د�د کہلاتا ہے۔ دلیل ہیں کہ سامع نے �س شعر کو پسند کیا۔ تحسین کا

آ�تا .....�یسی صورت میں بھی ردعمل ہوتا کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ شعر پسند نہیں

ہے۔ کبھی سامعین سکو �ختیار کرتے ہیں �ور کبھی شور برپا ہوتا ہے جس سے �ند�زہ کرنا مشکل نہیں

آ�ج تک د�د ہی وہ ہوتا کہ سامعین کے نقطہ نظر سے یہ شعر �ہمیت نہیں رکھتا۔ چنانچہ زمانۂ قدیم سے

پیمانہ ہے جس کے ذریعے سے یہ �ند�زہ کیا جاتا ہے کہ عو�م نے �س شعر سے کیا تاثر قبول کیا ہے

�ور شاعر کو یہ �ند�زہ ہوتا ہے کہ �س کے کلام میں کیا خوبی یا خامی ہے۔ مشاعروں کی �پنی �یک

مخصوص تہذیب �ور �س کی �پنی رو�یات ہوئی ہیں۔ پر�نے زمانے میں جب مشاعرہ منعقد ہوتا تو�س کے

لئے خصوصی �ہتمام کیا جاتا تھا....میر مشاعرہ یا صدر مشاعرہ �یسے شخص کو بنایا جاتا تھا جو عمل

Page 160: Bain Us Sutoor بین السطور

فضل میں سب سے سو� ہوتا �ور فن شعر پر مکمل دسترس رکھتا .....جو شاعر کلام سناتا �س کے و

آ�گے شمع رکھ دی جاتی تھی .... �ور جب وہ سنا چکا تو میر مشاعرہ کی ہد�یت پر یہ شمع دوسرے

آ�تی شاعر کے سامنے رکھی جاتی تھی....شمع �س طرح گردش کرتی ہوئی میر مشاعرہ کے سامنے

آ�تا تھا......�یک �ور خاص بات یہ تھی کہ یہاں حفظ تھی جس کے بعد مشاعرہ کا �ختتام عمل میں

کو مشاعرے میں پہلے پڑھنے کے لئے کہا جاتا تھا مر�تب کا خیال رکھا جاتا تھا۔ مبتدی شعر� و

اا تجربہ کا ر شاعر �پنا کلام سناتے تھے۔ جب کوئی شاعر �پنا کلام سناتا �ور �ساتذہ فن �س کے بعد نسبت

�س کی تعریف کرتے تو یہ تعریف �س شاعر کے لئے سند بن جاتی تھی۔ چنانچہ میر وسود� کے عہد

لڑکے نے غزل پڑھی جس کا مطلع تھا۔ عمر میں �یک مشاعرہ ہو� جہاں �یک نو

دل کے پھپھولے جل �ٹھے سینے کے د�غ سے

آ�گ لگ گئی گھر کے چر�غ سے �س گھر کو

کو سن کر سود� بے ساختہ چونک پڑے �ور بہت تعریف کی تھی۔ �سی طرح �قبال نے �س شعر

عمری میں کسی مشاعرے میں غزل سنائی تھی جس کے �یک شعر پر �نھیں بڑی د�د ملی �ور �پنی نو

مرز� �رشد گورگانی نے �نھیں بہت سر�ہا تھا شعر یہ تھا۔

موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیا

قطرے جو تھے مرے عرق �نفعال کے

�ور �س کے بعد �قبال کی شعری صلاحیتوں کا �ند�زہ ہو� �ور لوگ �ن کے کلام کی طرف متوجہ

ہوئے۔ مشاعروں میں مز�ح، نکتہ چینی �ور طنز بھی ہو� کرتا تھا ....لیکن �س پر لوگ نار�ض نہیں ہوتے

معاون ثابت ہوتا تھا۔ �نشا نے نوجو�نی کے زمانے میں و تھے بلکہ یہ �ن کی �صلاح کے لئے ممد

یہ تھا۔ �یک غزل سنائی تھی �س مشاعرے میں سود� بھی شریک تھے۔ شعر

Page 161: Bain Us Sutoor بین السطور

تم مانتے ہو نازنیں کہے سے بر� گر

میری طرف تو دیکھئے میں نازنیں سہی

آ�خری حصے کی وجہ سے کہا سود� نے مسکر� کر کہا ’’دریں چہ شک‘‘ یہ فقرہ شعر کے

آ�ئے تھے ....�س لطیفے کے پس منظر میں �ہم گیا تھا جہاں ’’میں نازنیں سہی‘‘ کے �لفاظ

کی شعری رو�یات میں بڑی �ہمیت کےوتھے۔ مشاعرے میں �رد بات یہ تھی کہ �نشا بہت خوبرو

حامل ہیں۔ �ردو کے علاوہ ہندوستان کی کسی دوسری زبان میں مشاعرہ کا تصور موجود نہیں �لبتہ ہندی

شاعری میں کوی سمیلن کی رو�یت نے جنم لیا ہے جو �ردو کا بر�ہ ر�ست �ثر ہے۔

مشاعرے �یک خاص سماجی نظام کی پید� و�ر ہیں۔ بادشاہوں ، �مر�ء، نو�بوں �ور رئیسوں نے

جب مشاعروں کی سرپرستی کی تو �س کے پیچھے یہ خو�ہش بھی چھپی ہوئی تھی کہ علم دوست �ور

گوئی کو مزید فروغ ہو� �ور کی سرپرستی کی تو شعر �دب نو�ز سمجھاجائے۔ �س طبقے نے جب فن شعر

لیا گیا۔ �س کے علاوہ قدیم زمانے میں شاعری کو عزت �ور شہرت حاصل کرنے کا �یک وسیلہ بنا

نہ ریڈیو نہ ٹی وی، عو�م �لناس کے لئے تفریح کا ذریعہ پتنگ بازی، �ور سنیما تھا نہ �سٹیج، نہ تھیٹر

بجانا �ور �سی قبیل کی دوسری چیزیں تھیں ..... لیکن �یک طبقہ �یسا بھی تھا بٹیربازی، مرغ بازی، گانا

جو شعری تخلیق کو �پنے جذبات کی تسکین کا ذریعہ سمجھتا تھا۔ مشاعرے �سی لئے �ہمیت حاصل

کر گئے کہ یہ ذہنی مسرت حاصل کرنے کا �یک �ہم وسیلہ تھے ....یہاں نہ صرف �دب �ور نز�کت شعر

لی �دبی ذوق کی تربیت بھی ممکن تھی۔ مشاعروں کے بارے میں معلومات ہو سکتی تھیں بلکہ �عل

میں بہت �ہم کرد�ر �د� کیا ہے۔ مشاعروں کی بدولت ہی شعر�ء کو یہ نما و نے خود شعر�ء کی ذہنی نشو

محسوس ہو� کہ مبہم �ور غیر و�ضح خیالات سے عو�م کے ذہنوں تک رسائی ممکن نہیں .......�ور

پھر یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی �چھوتی بات �یسی �نوکھے �ند�ز میں کہی جائے جس سے عو�م کا

کی شعری عظمت کا �ظہار بھی ہو سکے۔ �سی لئے مشاعرے میں دل جیتا جا سکے �ور خود شاعر

Page 162: Bain Us Sutoor بین السطور

شاعر �پنی بہترین تخلیق پیش کرتا تھا۔ �ور �س بات کی کوشش کرتا تھا کہ �س کی کاوش سامعین پر �ثر

بیان کے �عتبار سے شعر میں کوئی ہو۔ ساتھ ہی وہ �س بات کا بھی لحاظ رکھتا تھا کہ زبان و �ند�ز

کی خامی نہ رہنے پائے۔ مشاعرے میں لفظ کے غلط �ستعمال پر بھی گرفت ہو سکتی تھی �ور شاعر

بات �سی وقت تسلیم کی جاتی تھی جب وہ �ساتذہ فن کے کسی شعر سے سند دے سکے۔ �س طرح

سے سند دینے کے لئے ضروری تھا کہ وہ �ساتذہ کے کلام سے بھی بخوبی و�قف ہو۔

پر د�د دیتے ہیں تو� س کا مطلب یہ ہے کہ �ن کے پاس شعر کا کوئی پیمانہ سامعین جب شعر

موجود ہے۔ یہ پیمانہ یا معیار �صل میں سامعین کے ذوق �ور وجد�ن سے و�بستہ ہوتا ہے۔ وہ تنقیدی شعور

پر سامع کسی شعر پر د�د دیتا ہے ، یونہی نہیں پید� ہوتا۔ یہ �سی وقت ممکن ہے جب جس کی بنا

میں یہ کر سکے۔ �ور �گر شاعر باطنی خصوصیات پر سنتے ہیں غور سامع بھی شعر کی ظاہری و

جائے تو وہ کامیاب ہو صلاحیت ہو �ور وہ �پنا خیال �سطرح سے پیش کرے کہ سنتے ہی �ثر کر

آ�ہنگی ہو گی �ور ترسیل کی گا....... جس کے نتیجے میں شاعر �ور سامع کے درمیان �یک ذہنی ہم

ر�ہ کھل جائے گی۔ لیکن �گر شاعر شعر سنائے �ور �س پر خاموشی �ختیار کی جائے تو لامحالہ یہ

تربیت یافتہ نہیں تو شاعر نے مہمل بات کہی ہے یا پھر سامعین کا ذوق �تنا مفہوم نکالا جائے گا کہ یا

ہے کہ شاعر کی ذہنی سطح تک پہنچ سکے۔ دونوں صورتوں میں شعر ناکام ہو گا۔ �ردو کی ترقی و

�دب کی طرف متوجہ کرنے �ور فن کی ترویج میں بھی مشاعروں کی بڑی �ہمیت ہے۔ عو�م کو زبان و

معاون ثابت ہوتے ہیں۔ و باریکیوں کے ذریعہ �ن کے ذہن کو متاثر کرنے میں مشاعرے بہت ممد

مشاعرے خیال کی مختلف جہتوں کو بھی سامنے لانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ طرحی

مشاعروں میں �یک مصرع طرح دیا جاتا ہے۔ �ور شریک ہونے و�لے تمام شعر�ء �سی ’’طرح‘‘ پر غزل

آ�سانی ہوتی ہے کہ کون قادر�لکلام ہے �ور کس نے سناتے ہیں۔ یہاں �س بات کا �ند�زہ کرنے میں

کی لفظ کو �س کی تمام معنوی نز�کتوں کے ساتھ �ستعمال کیا ہے۔ �س طرح یہ طرحی مشاعرے شاعر

Page 163: Bain Us Sutoor بین السطور

طرحی مشاعرے وہ ہوتے ہیں جن میں کسی شعری صلاحیتوں کا �متحان بھی بن جاتے ہیں۔ غیر

خاص طرح پر لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی..... کسی بھی طرح میں غزل کہی �ور سنائی جا سکتی

آ�تا ہے ....�ور خود ہے۔ �ن مشاعروں میں خیال و فکر کی گہر�ئی �ور �ظہار کا منفرد �ند�ز سامنے

شاعر کے ذہنی میلان کا بھی بخوبی �ند�زہ ہو سکتا ہے۔

مشاعروں میں جہاں مبتدی شعر�ء موجود ہوتے ہیں وہاں �ساتذہ فن بھی ہوتے ہیں �ور مبتدی

شعر�ء کو جہاں تعریف کے پھول ملتے ہیں وہیں �عتر�ض کے خار ز�ر میں بھی گھسیٹا جاتا

ہے .... یہی وجہ ہے کہ مبتدی شاعر جب تک کسی �ساد سے �صلاح نہیں لیتا مشاعروں میں شعر

سنانے کی ہمت نہ کرتا ......�ور �گر شاگرد کے کسی شعر پر �عتر�ض کیا جاتا تو پھر �ستاد �س کی

�عتر�ض کیا جاتا تو پھر �ستاد �س کی وضاحت کرتا پر وضاحت کرتا ..... �ور �گر شاگرد کے کسی شعر

پر ہی �عتر�ض نہیں ہوتا تھا بلکہ �ساتذہ فن کو �ور �عتر�ض کا جو�ب دیتا تھا۔ لیکن صرف مبتدی شعر�

آ�تش �پنے زمانے کے مسلم �لثبوت �ستاد تھے بھی �عتر�ض کا سامنا کرنا پڑتا تھا..... خو�جہ حیدر علی

آ�تش نے �یک بار کسی مشاعرے میں غزل سنائی جس میں یہ شعر بھی �ور �ن کے کئی شاگرد تھے۔

تھا۔

مری مونس ہے مری ہم دم ہے دختر رز

ہوں وہ نورجہاں بیگم ہے میں جہاں گیر

بعض لوگوں کے قریب ’’دم‘‘ کا قافیہ بیگم درست نہیں کیونکہ بیگم ترکی لفظ ہے �ور

کی د�ل پر فتحہ ہے لیکن �ردو و�لے بیگم کی ’’گ‘‘ کو بالفتح ضمہ ہے جب کہ ’’دم‘‘ پر ’’گ‘‘

آ�تش نے جو�ب دیا کہ �گر آ�ئے ہیں۔ �س لئے پگم کہیں گےئے کہا جا ترکی میں شعر ہی کہتے تو بی

بگم ر�ئج ہے۔ عو�م میں جو ر�ئج ہو گا وہی فصیح ہو .....میں نے تو �ردو میں کہا �ور �ردو میں بی

Page 164: Bain Us Sutoor بین السطور

گا.....�س لئے �س میں کوئی غلطی نہیں ہے .....لیکن یہ تو �ساتذہ فن کی بات ہے۔ یہ لوگ تھے

آ�بیاری کی۔ مبتدی شعر�ء کے لئے �سی جنھوں نے زبان کو نکھار� �ور �پنے خون جگر سے �ردو کی

وجہ سے یہ ضروری تھا کہ وہ پہلے �صلاح لیں �ور �پنے کلام کو کسی �ستاد کے پاس پیش کر کے

�پنی غلطیاں درست کر�ئیں۔

�صلاح کا مفہوم ہے درست کرنا .... فن شعر میں �س لفظ سے مر�د یہ ہے کہ مبتدی شاعر

�پنے کلام پر کسی �ستاد فن کی ر�ئے لے �ور غلطیوں کو دور کرے۔ یہ غلطیاں عروض کی بھی ہو

جائے وزن سے گر بیان کی بھی ....عروضی غلطیوں کا مطلب یہ ہے کہ شعر سکتی ہیں �ور زبان و

بدل جائے، �ستاد�س قسم کی غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے �ور �سی غلطیوں کو یا مصرعے کی بحر

بیان کی غلطیاں بھی مبتدی شعر�ء کے پاس ہو سکتی کو موزوں بناتا ہے۔ زبان و ٹھیک کر کے شعر

و�ضح �ند�ز وغیرہ۔ مونث کا �ستعمال علامت فاعل یعنی ’’نے ‘‘ کی غلطی �ور غیر ہیں جیسے مذکر و

�ساتذہ چوں کہ فن کے ماہر ہوتے ہیں �س لئے �ن سے �یسی تمام غلطیوں پر �صلاح لی جاتی ہے

�عتر�ضات نہ کئے جائیں۔ یہ �صلاحیں جہاں جائے تو �س پر تاکہ جب شعر مشاعرے میں پیش کیا

کو سڈول بناتی ہیں �ن سے �یک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مبتدی شاعر �یسی غلطی دوبارہ نہیں شعر

کرتا �ور شعر کہنے کے بعد خود ہی �س پر نظر ڈ�ل کر �پنی خامی تلاش کر سکتا ہے۔

--------------------٭٭------------------

Page 165: Bain Us Sutoor بین السطور

سفر #سانی ہمہ ایک ہند‘‘ قند’’

آ�ل �حمد سرور نے �ردو �دب کو تہی مایہ کہا تھا۔ عرصہ ہو� پٹنہ کالج میں تقریر کرتے ہوئے

آ�ز�دی سے قبل تہی مایہ آ�تش جو�ن بلکہ نوجو�ن تھا۔ �ردو �دب نہ لیکن یہ �س وقت کی بات تھی جب

تھا �ور نہ �س کے بعد تہی مایہ رہا۔ بلکہ پچھلی نصف صدی میں تو �ردو کے سرمایہ میں کافی گر�ں

قدر �ضافے ہوئے ہیں۔ لہجے بدلے ہیں۔ �ظہار کے �سالیب بدلے ہیں �ور صنف کے �عتبار سے

آ�ج تک �ردو �دب پر حاوی ہے وہ بھی کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں مگر �یک چیز جو �بتد�ئی دور سے

ہے غزل، جس کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے۔ غزل کی �ہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ �پنے عصر کی

ترجمان ہوتی ہے۔ �س صنف میں �پنے عہد سے �نسلاک کی بے پناہ صلاحیت ہے �سی لئے

چندربھان برہمن سے لے کر �س عہد تک غزل یکساں طور پر مقبول رہی ہے۔ زمانے نے �ند�ز بدل

ڈ�لے ، لہجوں میں تیکھا پن پید� کیا �ور کہیں کھردر� پن �س حد تک د�خل ہو گیا کہ غزل کی لطافت

آ�میزش ہوئی بظاہر متاثر ہوئی۔ لیکن �س کے کھردرے پن میں بھی �گر خون جگر �ور جذب دروں کی

تو وہاں �یک کیفیت �بھری۔

رو�یت پسندی سے ترقی پسندی تک �ور ترقی پسندی سے جدیدیت، وجودیت وغیرہ وغیرہ تک

�ردو شاعری نے جو سفر طے کیا ہے �س کا جائزہ لیا جائے تو یہ �ند�زہ کرنا مشکل نہیں کہ رو�یت �ور

آ�ئیں �ن کا بانکپن کچھ �ور ہی رہا۔ فکری مسلک چاہے جدت کے �متز�ج سے جو تخلیقات وجود میں

آ�تا ہے۔ �یسے شعر�ء جنھوں نے رو�یتوتو �حساسات کا سمندر م کچھ ہو جذبہ کی شدت ہو جزن نظر

Page 166: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�تا ہے آ�گہی کا کرب بھی کروٹیں لیتا نظر پسندی کے باوجود جدت کو شعار بنایا، �ن کے ہاں عصری

نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ فیض �لحسن خیال کوئی چالیس �یسے ہی شعر�ء میں فیض �لحسن خیال کا

برس سے شعر کہہ رہے ہیں۔ �ن کے �ب تک تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’’موج

ء میں �ور تیسر� مجموعہ ’’کانچ کا شہر‘‘۱۹۷۲ء میں ، دوسر� مجموعہ ’’صبح کا سورج‘‘ ۱۹۶۵صبا‘‘

نظر مجموعہ فیض �لحسن خیال کا چوتھا مجموعہ ہے لیکن �س کی حیثیت ء میں شائع ہو�۔ زیر۱۹۷۹

بالکل مختلف ہے کیونکہ �س میں فیض �لحسن خیال کی �ردو شاعری ساتھ ساتھ �س کا �نگریزی، تلگو

�ور ہندی میں ترجمہ بھی شامل ہے �ور �س طرح فیض �لحسن خیال نے �یک نئی رو�یت کی بنا ڈ�لی

ہے۔ ویسے تو �کثر شعر�ء کے کلام کے تر�جم دوسری زبانوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن بیک

وقت تین زبانوں میں ترجمہ �صل کلام کے ساتھ شائع کرنے کی یہ بالکل پہلی مثال ہے �ور �گر کوئی

ہے تو میری نظر سے نہیں گزری۔

فیض �لحسن خیال نے چالیس سال قبل سے شعر کہنے شروع کئے تھے ، تب سے �ب تک

کئی نقادوں نے �ن کے کلام پر �ظہار ر�ئے کیا ہے۔ �ور سب نے �یک بات ضرور کہی ہے کہ خیال

آ�نچ میں جلنے کے بعد پید� ہوتی ہے۔ خیال نے کے ہاں �خلاص کی �یسی گرمی ہے جو تجربہ کی

زندگی کے تجربات سے جو کچھ حاصل کیا �ور محسوس کیا �س کو شعر کے سانچے میں ڈھال

�نہیں �نسان کی دیا۔ فیض �لحسن خیال نے �نسان کی بے بضاعتی کو بھی محسوس کیا ہے �ور

خلاقانہ صلاحیتوں کا بھی درک ہے۔ زندگی کی �خلاقی قدریں �ن کی شاعری کا محور ہیں۔ سماج میں

جب کبھی �ن قدروں سے صرف نظر کیا گیا تو �یسے گھاؤ پید� ہوئے جن سے زندگی کا مو�د رسنے

آ�ر�ئی کی ہے لیکن �ن کے کلام کا غالب عنصر غزل ہے۔ لگا۔ خیال نے مختلف �صناف میں سخن

�نھوں نے جذبات �ور کیفیات کو غزل کے سانچے میں ڈھال کر شاعری کو فکر �ور �حساس سے

مربوط کر دیا ہے۔ غزل کے علاوہ خیال نے حمد، نعت �ور منقبت بھی لکھی ہے ..... ’’قند ہند‘‘ میں

Page 167: Bain Us Sutoor بین السطور

یہ سبھی چیزیں موجود ہیں۔ لیکن بنیادی حیثیت غزل کو حاصل ہے۔ خیال کے مترجمین نے ترجمہ

کرتے ہوئے �س بات کا بھی پیش نظر رکھا ہے کہ �س �نتخاب سے خیال کی شخصیت �ور �دبی مقام

تک ہی سہی تعین ہو سکے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ صرف چند منتخب تخلیقات کو سامنے کا کچھ حد

رکھ کر پوری �دبی شخصیت کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ �س کے لئے خیال کے مکمل شعری سرمائے

کو سامنے رکھنا ضروری ہے تاکہ خیال کے کلام، �سلوب �ور شعری سفرکاجائزہ لیا جا سکے لیکن

جائے۔ �سی لئے �س چونکہ مقصد صرف یہ ہے کہ زبانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کیا

جنھیں مترجمین مجموعہ میں �یسی تخلیقات کا �نتخاب کیا گیا ہے جن کا یا تو ترجمہ ہو چکا تھا یا

نے ترجمہ کرنے کے قابل سمجھا۔

فیض �لحسن خیال نے جب شاعری شروع کی تھی تو ترقی پسندی �ور رو�یت پسندی کے

درمیان �یک کشمکش سی ہو رہی تھی۔ رو�یت کے چاہنے و�لے �دب کے ترقی پسند�نہ رجحانات سے

ناخوش تھے۔ جبکہ ترقی پسندوں نے رو�یتی علائم �ور �ظہار کے سانچوں پر ضرب لگانی چاہی تھی۔

آ�باد کے شعری رو�یتوں میں یہ بات بہت �ہم تھی کہ فن سے صرف نظر نہ کیا جائے۔ �ور �سی حیدر

لئے فیض �لحسن خیال نے پہلے حضرت قدر عریضی سے �ور پھر حضرت �وج یعقوبی سے مشورہ

ہیں .......�ن کے ہاں �پنے عہد کے تجربے بھی ہیں �ور �ظہار شعور شاعر سخن کیا۔ خیال �یک با

آ�گہی کا عنصر بھی موجود ہے۔ �کثر بیشتر �نہوں نے سادہ زبان �ستعمال کی �ور پیچیدہ و میں عصری

لہجہ �ختیار کیا...... خیال کی شاعری کا ذ�ئقہ تر�کیب �ور علائم سے گریز کرتے ہوئے عام فہم لب و

آ�شیاں ، گلستاں، چمن، کچھ میٹھا، کچھ تیکھا �ور کچھ چبھتا ہو� سا ہے۔ �ن کے ہاں گل و بلبل،

آ�نگن، پتھر،پرندے �ور سمند آ�گ، کشکول، بہار، صیاد وغیرہ جیسی رو�یتی علامتوں کے ساتھ ساتھ

د�ر علامتیں بھی ہیں۔ �سی لئے �ن کی شاعری میں رس بھی ہے �ور زہر کا کڑو� پن بھی۔ جیسی پہلو

�ور یہ دونوں چیزیں تو�زن کے ساتھ موجود ہیں۔ جذباتی، ذہنی �ور تہذیبی کشمکش کی وجہ سے �ردو

Page 168: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�تا ہے۔ لیکن رو�یت کی پاسد�ری �ور �دب میں جو تموج �ٹھا، �س کا عکس بھی خیال کے ہاں نظر

�س کے ساتھ ساتھ سچے تجربے کی �ساس نے خیال کی شاعری پر کوئی مخصوص چھاپ نہیں

لگنے دی۔ �نہوں نے جس چیز کو محسوس کیا �سے �پنی شاعری میں سمودیا۔ سیاسی �عتبار سے

آ�تی رہیں۔ حکومتیں بدلتی رہی ہیں رہنما آ�تے �ور جاتے رہے ہیں۔ لیکن سیاسی ملک میں تبدیلیاں

آ�دمی کا �حساس یہی آ�دمی کو کبھی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ �یک عام حالات بدلنے کے باوجود عام

آ� سکی ہے۔ �ور �سی لئے فریاد کا دم گھٹ تھا کہ �ستبد�د پر مبنی نظام میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں

کر رہ جاتا ہے �یسے ہی عام �نسان کی نمائندگی کرتے ہوئے خیال کہتے ہیں۔

چارہ گر بھی وہی قاتل وہی حاکم بھی وہی

کیسے فریاد مری نوک زباں تک پہنچے

�ن کے ساتھ ساتھ حکومت آ�ج کے سیاسی نظام میں رہنماؤں نے نقابیں پہن رکھی ہیں۔ �ور

کی مشنری کے کل پرزے بھی نقاب پوش ہو گئے ہیں۔ بظاہر �من کے رکھو�لے پس پردہ غارت گری

کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ خیال �سی بات کو یوں کہتے ہیں۔

�ماں کی تحریریں ہیں جس کے چہرے پر �من و

�سی کا دست ہنر قاتلوں کے سر پر ہے

آ�یا �سے خیال نے بھی محسوس کیا۔ �س پٹرو ڈ�لر کے نتیجے میں ہندوستان میں جو �نقلاب

آ�ئے ہوئے نوجو�نوں نے جب �نقلاب کے روشن پہلو پر �ن کی نظر پڑتی ہے۔ بیروز گاری سے تنگ

لی �تر نے لگا۔ خیال �ن تبدیلیوں کو یوں پیشپریت ھانکی تو سونے کی بارش ہونے لگی من وسلو

کرتے ہیں۔

Page 169: Bain Us Sutoor بین السطور

پر ہیں ، روشنی �ن کی �ڑ�ن رزق �ن کے بال و

کتنی پیاری ہے پرندوں کی کہانی دیکھئے

یہ چند مثالیں �س لئے پیش کی گئیں کہ خیال کے لہجے کا �ند�زہ ممکن ہو سکے۔ مثالیں

�ور بھی دی جا سکتی تھیں لیکن طو�لت مانع ہے۔ خیال کی شاعری کا تجزیہ کیا جائے تو یہ محسوس

پن نہیں بلکہ �یک کیف، لطافت �ور شیرینی�ہوتا ہے کہ �ن کے لہجے میں سپاٹ پن نہیں ، کھردر

کے �متز�ج کے ساتھ ساتھ خلوص کی شدت �ور دردمندی بھی ہے �سی لئے �ن کی شاعری میں �یک

دلنو�زی پید� ہو گئی ہے۔ یہی دلنو�زی جسکی وجہ سے خیال مشاعروں میں بہت مقبول رہے ہیں۔

ہند ‘‘ کی �یک �ہم خصوصیت یہ ہے کہ �سے چار زبانوں میں پیش کیا گیا ہے۔ سخت قند’’

ہند‘‘ کا �نگریزی سے کیا تعلق، �س سلسلے میں یہ جو�ز دیا قسم کا ناقد شاید یہ کہہ بیٹھے کہ ’’قند

آ�کسفورڈ �ور کیمبرج کی زبان سے متاثر توہے جا سکتا ہے کہ یہ �نگریزی، ہندوستانی �نگریزی ہے جو

لیکن �پنی �لگ �یک شناخت بھی رکھتی ہے۔ �س کا �پنا لہجہ �ور �پنا �ند�ز ہے۔ �نگریزی کا ترجمہ شری

پی وی شاستری نے کیا ہے۔ ترجمہ کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کسی زبان میں تخلیق کئے گئے فن

پارے میں کچھ �یسی خصوصیات ہوتی ہیں جن سے �سی زبان میں لطف �ندوز ہونا ممکن

اا �یسی زبان میں بہتر ترجمہ نہیں کیا جا ہے .......�ن خصوصیات کا ترجمہ ممکن نہیں ہوتا۔ خصوص

تک سکتا جس کا تہذیبی ماحول بالکل مختلف ہو۔ �لبتہ تہذیبی ماحول میں یکسانیت ہو تو کچھ حد

�نصاف ممکن ہے۔ �ور �س بات کا �مکان پید� ہو سکتا ہے کہ فن پارے میں پیش کی گئی نز�کتوں

سے لطف �ندوز ہو� جا سکے۔ شری پی وی شاستری کے ترجمے میں مشکل درپیش ہو سکتی تھی۔

لیکن چونکہ شاستری جی ہندوستانی ہیں �ور �ردو بھی �یک ہندوستانی زبان ہے �س لئے �س زبان کے

تہذیبی عو�مل شاستری جی کے لئے نئے نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ �ن کے ترجمے میں �جنبیت

اا کا �حساس نہیں ہوتا۔ �لبتہ ترجمے میں ’’بائبل پن‘‘ کی ضرور جھلک نظر آ�تی ہے جس کی وجہ غالب

Page 170: Bain Us Sutoor بین السطور

یہ ہے کہ شاستری جی نے بائبل کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ �س کے باوجود شاستری جی نے چونکہ

پایا۔ یہ �ور بات مقصود حاصل کیا ہے �س لئے ترجمہ مسخ نہیں ہو �صل متن کی روح تک پہنچ کر در

ہے کہ �س ترجمے میں تخلیق کی سی شان پید� ہو گئی ہے �یک مثال پیش ہے۔ خیال کہتے ہیں۔

آ�ؤں گا آ�ئینہ بن کے ترے شہر میں جب

نئے ذہن کا تری طرح چمکاؤں گا ہر

�ب ترجمہ ملاحظہ کیجئے

I emerge as the blazing mirror of the scene

I shall bestow on every heart the radiance of new lights

�س ترجمے میں ندرت ہے۔ بندش کی چستی �ور نز�کت شعری کو پوری طرح ملحوظ رکھا گیا

ہے۔ لفظی ترجمے میں یہ عیب ہوتا ہے کہ کبھی کبھی دل ’’گارڈن گارڈن‘‘ بھی ہو جاتا ہے۔ شاستری

جی کے ترجمے میں یہ بات نہیں۔ �نھوں نے تخلیق کی روح کو �پنے �ندر جذب کیا ہے۔ ہو سکتا

آ�ئے کیونکہ ترجمے کے ضمن میں جو مختلف ہے کہ ترجمے کے ماہرین کو یہ بات پسند نہ

نظریات کام کرتے ہیں �ن میں �یک یہ بھی ہے کہ مترجم کو مصنف کے ذہن تک پہنچنے کی

کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ جو سامنے ہے �سی پر �کتفا کرنا چاہئے۔ �ن کے خیال میں �یسی

کوشش �یک نئی تخلیق کا سبب بنتی ہے۔ �یماند�ر�نہ ترجمہ ممکن نہیں ہو سکتا .......لیکن کچھ

اا شعری سرپھر )مجھ جیسے ( مترجمین سمجھتے ہیں کہ �گر ترجمہ پھیکا �ور سیٹھا قسم کا ہو خصوص

تخلیقات کا ترجمہ تو �یسے ترجمے سے بہتر ہے کہ ترجمہ کیا ہی نہ جائے۔ شری شاستری قابل

مبارکباد ہیں کہ �نھوں نے ڈوب کر ترجمہ کیا ہے۔ �ور �س طرح خیال کی شاعری کا �نگریزی د�ں

�صحاب تل پہنچانے میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔ �س کتاب میں شامل تلگو ترجمہ ڈ�کٹر خو�جہ معین

Page 171: Bain Us Sutoor بین السطور

�لدین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ �نھوں نے ترجمہ کرتے ہوئے �س بات کو ملحوظ رکھا کہ خیال جو

کچھ کہہ رہے ہیں وہ جوں کا توں تلگو کے قالب میں پیش کر دیا جائے۔ �ور چونکہ یہ ترجمہ �یک

ہندوستانی زبان سے دوسری زبان میں کیا گیا ہے �س لئے قاری کو �جنبیت کا �حساس نہیں رہتا۔ یہ

شعر دیکھئے۔

آ�ئینے لیکن قدم قدم پہ ہیں سورج کے

ترس رہا ہے زمانہ کرن کرن کے لئے

تلگو ترجمہ یوں ہے۔

جذبہ کا فن کار �چھے ترجمے کی �یک �ہم خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ �س میں شاعر یا

آ�میزش کے بغیر پیش کیا جاتا ہے۔ �ور ڈ�کٹر خو�جہ معین �لدین کے ترجمے میں یہ خصوصیت کسی

کلام پیش کیا گیا ہے۔ �سے ترجمہ کہنا بدرجہ �تم موجود ہے۔ ہندی میں فیض �لحسن خیال کا جو

مناسب نہیں کیونکہ �س میں صرف رسم �لخط بدل دیا گیا۔ �ور جو �لفاظ قدرے مشکل محسوس ہوئے

�ن کے ہندی میں معنی لکھ دیئے گئے ہیں تاکہ تفہیم میں دشو�ری نہ ہو۔ �گر معنی نہ دیئے گئے

ہوتے تو شاید ہو سارے مسائل درپیش ہوتے ہیں جن کا ذکر رسم �لخط کی تبدیلی کے ضمن میں

کیا جاتا رہا ہے۔ �ردو کا حسن �سکے رسم �لخط کے ساتھ ہے۔ لیکن �یسے لوگ جو �ردو رسم �لخط

ہے۔ پھر بھی �س بات کا �مکان ہے کہ �گر �س سے و�قف نہیں ہیں �ن کے لئے یہ طریقہ زیادہ مؤثر

مز�ج �ور �ردو تلفظ سے ناو�قف فن کاروں کتاب میں شامل ہندی رسم �لخط میں خیال کا کلام �ردو

نے گایا تو بو�لعجبیاں سرزد ہو سکتی ہیں۔

Page 172: Bain Us Sutoor بین السطور

خیال کے �س تازہ مجموعہ میں جوکلام ہے �س کی مقد�ر کم سہی لیکن کمیت کے �عتبار

اا جب �س کلام کو دیگر تین زبانوں میں سے �سے کسی طرح کم تر نہیں کہا جا سکتا۔ خصوص

بھی پیش کیا گیا ہو تو �س مجموعہ کی �ہمیت �ور فزوں ہو جاتی ہے۔ کیونکہ �س و�سطے سے خیال نے

دوسری زبانوں کے �ہل علم �حباب �ور �ردو �دب کے شائقین تک �پنی بات پہنچائی ہے۔ �ردو شاعری

تو �ردو د�ں حلقوں میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ �س زبان کی ساری شاعری یا کے بارے میں غیر

پھر شر�ب کی توصیف میں۔ غزلیں گانے کے لئے گلوکار جب �ردو معشوق کی تعریف میں ہے یا

عناصر غزلوں کا �نتخاب کرتے ہیں تو وہ خاص طور پر �یسی غزلوں کو ڈھونڈتے ہیں جن میں یہ دو

غالب طور پر موجود ہوں۔ �ور پھر �ن غزلوں کو سننے و�لے ’’�نٹلکچوئیلز‘‘ سرہلاہلا کر د�د دیتے ہیں۔

آ�پ کو مہذب ثابت کرنے کے لئے غزل کو ’’گجل‘‘ کہہ کر ’’کیامت‘‘ مچانے و�لے صرف �پنے

پر د�د کے ڈونگرے برساتے ہوئے �تنے بے قابو ہو جاتے ہیں کہ �ردو غزل سنتے ہیں۔ �ور گلو گار

آ�د�ب بجا خود لاتے ہیں ...... کیونکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ شاعر کے کلام پر د�د دی جائے تو ہی

آ�د�ب بجا وہ �ز لاتا ہے۔ �س لاعلمی کی وجہ سے وہ جب د�د دیتے ہوئے ہاتھ �ٹھا �ٹھا کر ر�ہ �نکسار

آ�تے ہیں۔ خیال کی شاعری چاہے وہ �نگریزی میں ترجمہ کی آ�د�ب بجا لاتے ہیں تو مجسم �حمق نظر

اا پھر دیوناگری تلگو میں یا جائے یا رسم �لخط میں لکھی جائے ، �پنے پڑھنے و�لوں پر یہ تو یقین

روشن کر دیتی ہے کہ �ردو شاعری صرف شر�ب �ور محبوب کی توصیف نہیں بلکہ �س میں مسائل

حیات بھی ہیں۔ �نسانی �قد�ر بھی ہیں زمانے کی چاپ بھی ہے �ور لطیف پیر�ئے میں نشتر بھی ہیں۔

-------------------------٭٭-------------------------

Page 173: Bain Us Sutoor بین السطور

دہلی اور روزگار تضحیک سودا،

آ�نا شروع ہو� �ور یہ عظیم سلطنت �ورنگ زیب عالمگیر کے �نتقال کے بعد مغل سلطنت کو زو�ل

جو شمال سے جنوب تک پھیلی ہوئی تھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ شاہ علم، بہادر شاہ �ور جہاں د�ر

شاہ کے بعد فرخ سیربادشاہ ہو�۔ �س کے زمانے میں سید عبد�للہ �ور سید حسین علی نے �پنی سازشوں

ء(۔ �س کے بعد رفیع �لدرجات، رفیع �لدولہ �ور۱۷۱۹کے جال پھیلائے یہاں تک کہ �سے قتل کر دیا)

پھر محمد شاہ بادشاہ ہو�۔ �س زمانے میں سیاسی حالات �نتہائی پستی کو پہنچ چکے تھے۔ سازشوں

ٹدورہ تھا۔ نچلے طبقے کے لوگ بادشاہ کے مز�ج میں دخیل ہوتے جا رہے تھے۔ لو کا دور

کھسوٹ �ور رشوت کا باز�ر گرم تھا۔ �سی زمانے میں مرہٹہ سرد�روں نے سر�ٹھایا �ور شاہی زمانے میں

تار�ج کر دیا۔ محمد دیں۔ دلی کو لوٹ کر تباہ و شاہ نے دلی پر حملہ کیا �ور خون کی ندیاں بہا نادر

حال تھا۔ دہلی گویا لوٹ مار کرنے شاہ کے بعد �حمد شاہ تخت پر بیٹھا۔ �س زمانے میں دہلی کا بر�

کرنے و�لوں کے لئے �یک نشانہ بن گئی تھی۔ ہرکس وناکس کی نظر دلی پر تھی۔ سلطنت بیحد کمزور

کرنے کے لئے جاٹوں �ور مرہٹوں کو بلایا گیا تو �سد �ور سمٹ کر رہ گئی تھی۔ روہیلوں کا ہنگامہ فر

ء میں �حمد شاہ �بد�لی نے حملہ کیا ....... �ور �یک۱۷۴۹پڑ�۔ سے شاہی خز�نہ پر زبردست بار

لاکھ سالانہ ( بطور خر�ج �د� کرنی پڑی۔ �حمد شاہ کے وزیر �عظم صفدر جنگ نے۱۴گر�نقدر رقم )

ء میں پر�نی دلی ہر جاٹوں نے یلغارکی �ور �س۱۷۵۳ء میں بغاوت کر دی۔ �سی سال یعنی مئی ۱۷۵۳

ء میں �حمد شاہ کو معزول کر کے �ندھا کر دیا گیا۔ �س بادشاہ میں۱۷۵۴کو تہس نہس کر دیا۔

The Fall of Mogal "ناتھ سرکار �پنی کتاب �نتظامی صلاحیت مطلق نہ تھی۔ جادو

Page 174: Bain Us Sutoor بین السطور

Empire "...... د محل شاہی میں دخیل تھے�فر�میں لکھتے ہیں کہ نچلے طبقے کے

لی عہدے دیئے گئے تھے۔ بادشاہ کو طو�ئفوں کو ملکہ بنایا گیا تھا �ور �ن کے �فر�د خاند�ن کو �عل

آ� کاروبار مملکت سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ خو�جہ سر�وں �ور معمولی نوکروں کے ہاتھ کاروبار شاہی

عیاشی سے دل گئے تھے۔ �ور بادشاہ �ن کے ہاتھ کٹھ پتلی بن گیا تھا۔ یا تو وہ عورتوں میں گھر�

بہلاتا یا کھیل تماشے میں وقت صرف کرتا...... شاہی ملازمین، فوج کے سپاہیوں �ور �فسروں کو

طرف �فر�تفری �ور لوٹ مار مچی ہوئی تھی۔ �حمد شاہ کے بعد تنخو�ہیں وقت پر نہیں ملتی تھیں۔ ہر

عالمگیر ثانی بادشاہ ہو� جس کے زمانے میں �حمد شاہ �بد�لی نے پھر دلی کا رخ کیا �ور لوٹ مار

مچائی۔ �س کے جانے کے بعد عماد�لملک عالمگیر ثانی کا دشمن ہو گیا �ور دہلی پر حملہ کر کے

دیا �ور شاہ جہاں دی..... عالمگیر ثانی کو عماد�لملک نے قتل کرو� دہلی کی �ینٹ سے �ینٹ بجا

ء میں �حمد شاہ �بد�لی نے پھر حملہ کیا �ور دہلی میں قتل عام۱۷۶۰ء میں تخت پر بیٹھا۔ ۱۷۵۹ثانی

آ�ئے۔ عمارتیں ڈھا کر دی گئیں �ور دہلی کو ڈ�لا۔ �س کے جاتے ہی مرہٹے �ور جاٹ دہلی میں گھس

تار�ج کر دیا گیا۔ تباہ و

�س طویل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ �ٹھارویں صدی کی چھٹی دھائی کے حالات کا �یک

جائے تاکہ سود� کے قصیدہ تضحیک روزگار کا مطالعہ کیا جا سکے۔ کیونکہ یہی وہ مختصر جائزہ لیا

حالات تھے جن کا �ثر دلی کی عام زندگی پر بھی پڑ� �ور یہی وہ دور تھا جب سود� مملکت شعر پر

حکمر�ن تھے �ورع دور دور تک �ن کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ �ن کا ہجو یہ قصیدہ تضحیک روزگار

�سی زمانے کی دہلی کے حالات پیش کرتا ہے جس میں سود� نے سماج میں پھیلی ہوئی �فر�تفری،

کیا ہے۔ تضحیک روزگار �یک معاشرے کے �نحطاط، مصائب �ور محرومیوں کا بڑی خوبی سے ذکر

دوست کے گھوڑے کی ہجو ہے لیکن �س کے پس پردہ سار�سماج �ور فوجی نظام ہے جو �بتری کا

شکار ہے۔ چنانچہ �س قصیدہ کا نام خود �س بات کا غماز ہے کہ سود� �پنے ماحول کو پیش کر رہے

Page 175: Bain Us Sutoor بین السطور

تھے۔ �نہوں نے �س قصیدے میں بے شمار علامتیں �ستعمال کی ہیں۔ مکھیوں کا بھنبھنانا، خرس

آ�نا، لڑکوں کا ستانا، دھوبی �ور کمہار کا �س گھوڑے پر �پنا حق جتانا...... یہ سب �پنے کا خیال

�ندر گہری معنویت رکھتے ہیں۔

ہے چر�غ جب سے �بلق �یام پر سو�ر

یہ کہہ کر سود� نے قاری کے ذہن کو �پنے زمانے کی طرف منتقل کیا ہے جہاں ہر طرف �یک

�فر�تفری کا عالم ہے �ور پھر وہ �مر� �ور فوجی عہدہ د�روں کی کسمپرسی کا حال یوں بیان کرتے ہیں۔

ع

جن کے طویلے بیچ کوئی دن کی بات ہے

عربی کا نہ تھا شمار ہرگز عر�قی و

�ب دیکھتا ہوں میں کہ زمانے کے ہاتھ سے

موچی سے کفش پاکو گٹھاتے ہی وہ �دھار

�س کے بعد وہ کنجوسی کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دہر یعنی زمانہ کی �فتاد کی

عار �ٹھایا ہے۔ یہاں وجہ سے نہ صرف عالم خر�ب ہے بلکہ �کثر نے کنجوسی کی وجہ سے ننگ و

�س بات کا �ظہار ضروری ہے کہ عتیق �حمد صدیقی نے قصائد سود� مرتب کرنے کے لئے �نجمن

ترقی �ردو علی گڑھ کے نسخے سے �ستفادہ کیا۔ لیکن �نہوں نے دوسرے نسخوں کا حو�لہ دیتے

پٹنہ کی لائبریریوں میں جونسخہ ہے �س میں �ور ہوئے حاشیہ میں �س بات کا �ظہار کیا ہے کہ ر�م پور

یوں ہے۔ شعر

ولے نہ دہرسے عالم خر�ب ہے تنہا

Page 176: Bain Us Sutoor بین السطور

عار خست نے �کثروں نے �ٹھایا ہے ننگ و

لیکن �نجمن ترقی �ردو علی گڑھ کے نسخہ میں یوں ہے �ور یہی عتیق �حمد صدیقی نے بھی

درج کیا ہے۔

ولے نہ دہر سے عالم خر�ب ہے تنہا

حست سے �کثروں نے �ٹھایا ہے ننگ وعار

�ور یہی شعر موضوع �ور عبارت کے �عتبارسے درست معلوم ہوتا ہے ....... کیونکہ خست کا

عار �ٹھانا بے معنی سی بات ہے ...... �س کے علاوہ �گلا شعر یوں ہے۔ ننگ و

ہیں گے چنانچے �یک ہمارے بھی مہرباں

پاوے سز� جو �ن کا کوئی نام لے نہار

آ�گے بڑھایا ہے کہ یہ جو’’ چنانچہ‘‘ کہہ کر سود� نے �پنے پچھلے شعر کے مفہوم کو

مہربان دوست ہیں وہ �تنے کنجوس �ور منحوس ہیں کہ کوئی �ن کا نام صبح میں لے تو �سے �س دن

آ�مدنی کچھ کم نہیں بتلائی ہے۔ سز� ضرور ملے گی......دلچسپ بات یہ ہے کہ �ن کی

نوکر ہیں سوروپے کے دنانت کی ر�ہ سے

خو�ر گھوڑ� رکھے ہیں �یک سو �تنا خر�ب و

�ب یہاں �یک بات قابل غور ہے کہ سوروپے وہ �ٹھارویں صدی میں �ور �گر سالانہ ہو تب بھی

کوئی معمولی رقم نہ تھی لیکن ’’دنانت کی ر�ہ سے ‘‘ کہہ کر سود� نے �س بات کا �ظہار کر دیا ہے

کہ �گر چہ بادی �لنظر میں سوروپے کے نوکر ہیں مگر یہ سوروپے تنخو�ہ ملتی ہی کب تھی۔ وجہ ظاہر

Page 177: Bain Us Sutoor بین السطور

ہے .......نظام فوج پور� �بتر تھا ......تنخو�ہیں کہاں سے دی جاتیں جب کہ خز�نہ ہی خالی تھا۔

آ�وروں ، مرہٹوں �ور باغیوں نے دہلی کو لوٹ لوٹ کر سار�خز�نہ خالی کر دیا تھا۔ چنانچہ �ن بیرونی حملہ

صاحب کے پاس جو گھوڑ� تھا، نہ �سے د�نہ ہی میسر تھا نہ گھاس، نہ �س کی کوئی دیکھ بھال ہوتی

تھی �ور نہ ہی �س کے لئے کوئی سائیس تھا۔ �یسا لگتا تھا جیسے کسی دودھ پیتے بچے کے پاس

مٹی کا گھوڑ� ہو.......دودھ پیتا بچہ ظاہر ہے کہ کسی بڑے �ور بالغ �نسان کی طرح �پنی چیز کی

دیکھ بھال نہیں کر سکتا۔ گرنے �ور ٹوٹنے پھوٹنے کی وجہ سے مٹی کے گھوڑے کا جو حال ہو

سکتا ہے ، کچھ �یسا ہی حال سود� نے �پنے ’’ ممدوح ‘‘گھوڑے کو بتایا ہے۔

طاقتی کا ذکر کرتے ہوئے گھوڑے کی کمزوری کی وجہ مسلسل فاقے �گلے شعر میں نا

بتائے ہیں۔ جس کا مطلب یوں نکلتا ہے کہ جب گھوڑ� فاقوں میں زندگی گذ�ر ہا ہو تو �س کا یہ حال

کیوں نہ ہو...... �ور گھوڑے کا فاقہ کرنے کی وجہ یہ محسوس ہوتی ہے کہ مالک کے پاس د�نہ

طاقتی �ور بھوک کھلانے کو کچھ نہ تھا۔ �س کے بعد �گلے �شعار میں سود� نے �س گھوڑے کی نا

سے بے چینی کی کیفیات کو پیش کیا ہے۔ �ور یہیں �ند�زہ ہوتا ہے کہ گھوڑ� در�صل �یک علامت

ہے ....... �س سماج کی علامت جو �فر�تفری کا شکار تھا.... �س نظم ونسق کی علامت جہاں

آ�مدنی کا کوئی فوجیوں کا یہ حال تھا کہ وہ گھوڑ� رکھنے پر تو مجبور تھے لیکن تنخو�ہیں نہ ملنے �ور

دوسر� ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے �س کی دیکھ بھال نہ کر سکتے تھے۔ یہ وہ سماج ہے جس کے

ینے کی چیز کو للچاتی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ گھوڑے کو دیکھپ�فر�د بھوکے ہیں �ور ہر کھانے

آ�س میں ہیں کہ جلد ہی گوشت �ور چمڑہ مل جائے گا۔ قصاب �س فکر میں کر قصاب �ور چمار �س

ہے کہ �س کو ذبح کر کے گوشت حاصل کرے۔ چمار کو یہ �مید ہے کہ گھوڑے کے مرتے ہی

چمڑہ �سے مل جائے گا۔ یہ قصاب �ور چمار �ور کوئی نہیں ، وہ لٹیرے ، غد�ر �ور سلطنت کے دشمن

Page 178: Bain Us Sutoor بین السطور

طرف لوٹ مار مچائے ہوئے تھے ......�ور یہ چاہتے تھے کہ �پنے شکار کی کھال تک ہیں جو ہر

کھینچ لیں۔ ع

ہر زخم پر زبس کہ بھنکتی ہیں مکھیاں

کہتے ہیں �س کے رنگ کو مگسی �س �عتبار

مکھیوں کا بھنکنا �س معاشرے کے زخمی بدن �ور �س زخمی بدن سے چمٹے ہوئے حملہ زخم پر

آ�خری قطرۂ خون بھی حاصل کر لینا آ�وروں کی طرف �شارہ کرتا ہے جو �س معاشرے کے بدن سے

چاہتے تھے۔

�س حصہ کے بعد سود� نے گھوڑے کے مالک کے پاس خود کے جانے �ور �س گھوڑے

کو مانگنے کی رود�د کے بارے میں لکھا ہے ......سود� کے دوست جو جو�ب دیتے ہیں وہ

آ�گا ہے �ور �ن کوہ دلچسپی سے خالی نہیں ......گھوڑے کا مالک �پنے گھوڑے کی بر�ئیوں سے

متنبہ کرتا ہے کہ یہ گھوڑ� تو گدھے سے بدتر ہے۔ سلطنت دہلی کی �س زمانے کی حالت کی �س سے

دی جا سکتی ہے۔ گھوڑے کا مالک �س گھوڑے کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے بہتر تشبیہ �ور کیا

�یک �ور �ہم بات کہتا ہے ...... ع

آ�ن پہنچا تھا جس دن کہ مرہٹہ دلی تک

آ� کر ہے وقت کار مجھ سے کہا نقیب نے

آ�ئے ہیں �ور �س وقت فوجیوں سے یہ کہا جا رہا عجیب بات یہ ہے کہ مرہٹے شہر میں در

آ� ہے کہ �ب ’’وقت کار‘‘ ہے۔ یعنی �س وقت تک سب خو�ب غفلت میں پڑے تھے �ور جب جان پر

اا منادی آ�ئی �ور پھر نقیب سے یہ �ند�زہ ہوتا ہے کہ غالب بنی تو �دھر �دھر بکھرے ہوئے فوجیوں کی یاد

Page 179: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ئیں �ور دلی کو بچائیں۔ باقاعدہ فوج کا تصور نہیں ملتا۔ کی گئی ہو گی کہ جتنے فوجی ہیں وہ تمام

حالانکہ �س سے پہلے باقاعدہ فوج بھی تھی �ور بے قاعدہ فوج میں چھوٹے چھوٹے کماند�ر ہوتے

تھے جن کے تحت کچھ فوجی �ور �ن کا سازوسامان ہوتا تھا۔ یہ فوجی �ہم ضرورت کے وقت طلب

کئے جاتے تھے ورنہ وہ �پنے کاروبار میں مشغول رہتے۔ کسی �ہم مہم کے وقت جب یہ محسوس کیا

جاتا کہ باقاعدہ فوج کم ہے تو �س صورت میں بے قاعدہ فوج کے کمان د�روں کو طلب کر کے �ن

آ�دمیوں کو بھی حاصل کر لیا جاتا تھا۔ �س دور کی دلی میں باقاعدہ فوج کی بجائے کے تحت کے

آ� آ�تی ہے جس کو �س وقت طلب کیا جا رہا ہے جب دشمن سرپر پہنچے صرف بے قاعدہ فوج نظر

ذمہ د�ر�نہ رویہ و�ضح طور پر ہیں ..... �س بات سے حکمر�ن کی لاپرو�ہی �ور �مر�ئے سلطنت کا غیر

معلوم ہوتا ہے۔ �یک �ور بات �س شعر کی روشنی میں یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جن فوجیوں کو طلب

ر وطن کو بچانے کے لئے جذبہ تھا �ور نہ ہی ہمت، جفا کشی �ور کیا جا رہا ہے �ن میں نہ تو ماد

بہادری کے جوہر ..... گھوڑ� ناقص ہونے کی وجہ سے وہ مید�ن جنگ تک پہنچ نہیں سکتے تھے۔

لعب میں �س قدر گرفتار عشرت کاہلی �ور لہو و درحقیقت ناکارہ سازوسامان کا تو بہانہ تھا لوگ عیش و

تھے کہ �نہیں جوہر مرد�نہ دکھانے کا حوصلہ ہی نہ تھا ..... جب سارے کا سار� معاشرہ ہی �یسا ہو

تو دلی پر جو کچھ بھی ستم ڈھائے جائیں وہ کم ہیں۔

سود� کی خوبی یہ ہے کہ �ن کے کلام کے مطالعہ سے �س دور کے معاشی �ور معاشرتی

حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے ..... چنانچہ تضحیک روزگار کے علاوہ سود� کے کہے گئے شہر

آ�شوب �س کی عمدہ مثال ہیں ...... �ور یہ کہا جا سکتا ہے کہ سود� �یک دردمند دل رکھتے تھے �ور

�یک حساس ذہن کا مالک جب کسی چیز کو �پنے �ندرون میں محسوس کرتا ہے تو بے ساختہ �س کا

�ظہار بھی کر دیتا ہے۔ یہ �ور بات ہے کہ �ظہار �س کی �پنی فکر، مشاہدے �ور تجربے کے د�ئرے

میں ہی ہو گا۔ �ور �ظہار کا مخصوص �سلوب �س کا طرۂ �متیاز بن جائے گا۔ سود� نے قصیدوں کو

Page 180: Bain Us Sutoor بین السطور

�پنے دل کے درد کے �ظہار کے لئے نہایت خوبی سے �ستعمال کیا �ور وہ �پنے �ظہار میں کامیاب

.........!!!بھی رہے

------------------------٭٭------------------------

Page 181: Bain Us Sutoor بین السطور

مرحوم خطیب سلیمان بانکا، کا دکن

آ�ئے گا، سلیمان خطیب کا اا مز�حیہ دکنی شاعری کا جب بھی ذکر دکن شاعری �ور خصوص

تذکرہ ضرور ہو گا۔ �ور نہ صرف تذکرہ ہو گا بلکہ یہ بھی ضرور کہا جائے گا کہ سلیمان خطیب کا لب

لہجہ تو خیر منفرد ہے ہی، �ن کا �ند�ز بھی نر�لا ہے۔ دکنی شاعری کو ہندوستان بھر میں بلکہ دنیا بھر و

آ�ج کل صرف مز�ح کی چیز سمجھ لیا گیا ہے۔ وہ لو گ جو �س زبان کے لوچ سے و�قف نہیں ، میں

آ�گاہ نہیں جب دکنی سنتے ہیں تو فصیح �ور غیر فصیح، متروک �ور غیر متروک �س کی نز�کتوں سے

کے چکر میں پڑکر شاعری کی روح تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔

سلیمان خطیب کو کمال یہ ہے کہ �نہوں نے �لفاظ �ور محاورے �یسے �ستعمال کئے جو

بالکل مقامی رنگ لئے ہوئے ہوتے تھے۔ لیکن موضوعات �تنے گمبھیر ہوتے تھے کہ وہ لوگ جو دکنی

آ�فرینی سے بے پناہ متاثر ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے مز�ج نہیں رکھتے وہ بھی �ن کی تخلیقات کی سحر

کلام پہنچا لوگوں نے کہ ہندوستان کے شمال سے لے کر جنوب تک جہاں جہاں سلیمان خطیب کا

آ�ہ بھی کی۔ دکنی زبان میں مٹھاس ہونے کی سب سے و�ہ بھی کی �ور �ن کی نشتریت سے متاثر ہو کر

بڑی وجہ یہ ہے کہ �س میں تصنع نام کی کوئی چیز نہیں جو دہلی �ور لکھنؤ کی زبان کا طرۂ �متیاز ہے۔

ہے۔Adopted دہلی �ور لکھنؤ کی زبان میں بلاشبہ شستگی ہے۔ لیکن یہ شستگی �ختیار کردہ

آ�ج ہم جس زبان میں لکھتے �ور جب کہ دکنی سیدھے سادے لوگوں کی سیدھی سادی زبان ہے۔

پڑھتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جس �ردو دنیا بھر میں لکھا �ور پڑھا جاتا ہے وہ صرف علمی زبان

Page 182: Bain Us Sutoor بین السطور

ہے۔ یا پھر دہلی �ور لکھنؤ کے صرف چند گھر�نوں میں بولی جاتی ہے۔ چند گھر�نے �س لئے کہنا پڑتا

پوربی کا �ثر ہے۔ �سی طرح ہندوستان بھر میں ہے کہ وہاں کے عام لوگوں کی زبان میں کھری بولی �ور

لیحدہ ہے۔ دکنی کا صحیح لطف �س کے لہجے میں �ور �س کی لٹک ہر علاقے کی زبان یا بولی عل

میں ہے۔ وہ لوگ جو دکنی سے �س کے مز�ج �ور �س کی نز�کتوں سے و�قف نہیں ہوتے �ن کے نامۂ

�عمال میں بڑی بڑی �ور موٹی موٹی کتابیں صرف �س لئے درج ہو جاتی ہیں کہ کسی �ور نے یہ کام

نہیں کیا۔ تدوین متن �یک بہت �ہم �ور عرق ریزی کا کام ہے۔ لیکن ’’دکنی کے ماہرین‘‘ دوسروں کی

پر �پنے سرمایہ تحقیق میں �ضافے کرتے �ور صرف مقدمے کی بنیاد کر پ ڑ ہ محنت کو خرید کر یا

چلے جاتے ہیں۔ �یسے ’’ماہرین دکنیات‘‘ کی بجائے دکنی مز�ج رکھنے و�لا محقق ہو تو کام کا

معیار �ور �س کی نوعیت دوسری ہوتی۔

آ�سان ترین �د�ئیگی کو ملحوظ دکنی کی �یک خصوصیت یہ بھی ہے کہ �س میں لفظوں کی

آ�سان کر لیتے ہیں گویا لفظ دکنیا لیا رکھا جاتا ہے۔ �گر کوئی مشکل ہو تو دکن و�لے �س تلفظ بدل کر

جاتا ہے۔ دکنی کے تلفظ میں پھسل کر �د� ہوتے ہیں۔ �ور �یک نامحسوس طریقے سے �یک مصوتے

سے دوسرے مصوتے تک �د�ئیگی منتقل ہوتی ہے۔ جیسے ’’بولا‘‘ کے لئے دکنی میں ’’بولیا‘‘ کہا

جائے تو یہ دکنی کا قتل ہے۔ �کثر ’’ماہرین دکنی ‘‘ کے ساتھ یہی کہا جاتا ہے۔ لیکن �گر ’’بولیا ‘‘

مسئلہ ہے کہ وہ لفظ صحیح دکنی تلفظ کے ساتھ �د� نہیں کر سکتے۔ یہ مسئلہ صرف �ن محققین کے

ساتھ ہی نہیں جو غیر دکنی ہیں بلکہ �ن کے ساتھ بھی ہے جو دکن میں رہتے ہیں مگر دکن کا

آ�ہنگ نہیں آ�پ کو ’’مہذب‘‘ ظاہر کرنے کے لئے یہ لو گ �س مز�ج سے ہم مز�ج نہیں رکھتے۔ �پنے

پاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ �ن میں شستگی ہوتی ہے �ور نہ ہی دکن کا لہجہ پوری طرح دکھائی دیتا ہو

ہے۔ �ور جب یہ لوگ دکنی �لفاظ کا غلط تلفظ �د� کرتے ہیں تو شمالی ہند کے عالم �ور محققین جو

آ�گاہ نہیں ہوتے �یسے لوگوں کے علمی رعب سے متاثر ہو کر �سی تلفظ کو درست حقیقت سے

Page 183: Bain Us Sutoor بین السطور

مانتے ہیں �ور نہ صرف درست مانتے ہیں بلکہ �گر کوئی شخص �ن کے سامنے دکنی لفظ کہے تو

�س کی بزعم خود تصحیح بھی فرماتے ہیں۔

یہ کچھ باتیں برسبیل تذکرہ �س لئے لکھ دی گئیں کہ دکنی کے بارے میں غلط فہمیوں

کا �ز�لہ ہو سکے سچ بات تو یہ ہے کہ دکنی میں مر�ٹھی کی لچک، تلگو کی چھنک �ور کنٹری کی

لٹک موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دکنی ہندوستان کی تمام زبان �ور بولیوں سے مختلف ہے۔ سلیمان

خطیب کا خمیر دکنی ہے ، �ن کا مز�ج دکنی ہے �ن کا لہجہ �ور �ن کا �سلوب دکنی کی نز�کتوں سے

سجا ہو� ہے۔

بن‘‘ کے پیش لفظ عابد علی خان مرحوم نے خطیب کے مجموعہ کلام ’’کیوڑے کا ڈ�کٹر

میں لکھا تھا کہ

خطیب کی مقبولیت کی بڑی �ور بنیادی وجہ دکھنی زبان کا �ستعمال �ور �س میں عو�می مسائل کا’’

�ظہار ہے۔ وہ عو�م کے مسائل کے ترجمان شاعر ہیں �ور روزمرہ زبان میں عو�م سے مخاطبت عو�م پر

..........‘ گہر� �ثر چھوڑتی ہے

مندرجہ بالا �قتباس سے یہ بات و�ضح ہو جاتی ہے کہ سلیمان خطیب کا رشتہ ر�ست عو�م سے

....نے کہا تھا کہ تھا۔ �ن کی شاعری عو�م کے لئے تھی۔ میر

مرے شعر ہیں خو�ص پسند گو

پر مجھے گفتگو عو�م سے ہے

لیکن سلیمان خطیب عو�م ہی کے لئے ہیں۔ �نھیں خو�ص سے کوئی مطلب نہیں۔ یہ �ور بات ہے کہ

خو�ص بھی �س عو�می شاعری کے رس سے �سی طرح لطف �ندوز ہوتے ہیں جس طرح عو�م......

Page 184: Bain Us Sutoor بین السطور

سلیمان خطیب کی شاعری کا بنیادی وصف لوک گیتوں کا �ند�ز ہے۔ دیہات کی عورتیں جس بولی میں

گفتگو کرتی ہیں ، �ور دیہات کے بھولے بھالے ، سیدھے سادے کسان جس بولی میں بات کرتے

ہیں وہی بولی، وہی تلفظ �ور وہی �ند�ز سلیمان خطیب کا ہے۔ �نھوں نے کھیت کی مینڈوں کا دیکھا

میں لت پت پیر لئے گاؤں کی سخت �ور کنکریلی زمین پر �نہوں نے ہے۔ کیچڑ ہے۔ �نھیں �لانگا

�پنی زندگی کا سفر جاری رکھا۔ یہاں تک کہ سلیما خطیب ہر �ردو و�لے کا عمومی طور پر �ور دکن

آار� ہے۔ �ن کی ہر و�لوں کا خصوصی طور پر محبوب شاعر بن گیا۔ سلیمان خطیب کی ہر نظم معرکۃ �ل

تخلیق میں یہ وصف ہے کہ �س پر گھنٹوں بحث کی جا سکتی ہے۔ ہر ملازم کے لئے پہلی تاریخ بڑی

آ�نے و�لے مہینے �ہم ہوتی ہے۔ �س دن پچھلے مہینے کی ساری کمائی یکمشت ملتی ہے۔ �ور �سی پر

کا د�رومد�ر ہوتا ہے۔ �یک کم معاش ملازم کے لئے تو �ور بھی مشکل ہوتی ہے کہ �س نے مہینہ بھر

�رے تھے۔ �ور ہر �یک سے پہلی کا وعدہ کیا تھا۔ �یک �یسے ہی ملازم کیزقرض لے لے کر دن گ

خوشیاں دیکھئے جو �پنی بیوی سے مخاطب ہو کر کہتا ہے

آ�یوں �تا خوشی سے تجھے معلوم ہے ،کی

آ�تے سو گانے گایوں آ�تے سوبی، نیں منجے

آ�دی بریانی بی ہوٹل میں دبا کو کھایوں

دیکھ جیبق میں ترے و�سطے کیا کیا لایوں

آ�ج ہے چاندی سونا آ�ج تنخو�ہ ہے مری،

بول گلے میں ترے و�سطے کیا کیا ہونا

مگر بیوی کے ذہن میں سیٹھ کا خیال مسلط ہے۔ کہتی ہے

Page 185: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ریئے کی شرم نئیں سو کتئیں، بات کو تنخو�ہ

آ�نے کی دیر بی نئیں سیٹھ کے گھر یو جاریئے

آ�ئینہ دکھاتی ہے شوہر شوہر بار بار خوشی کا �ظہار کرتا ہے۔ �ور بیوی �س کو ہر بار سچائی کا

آ� جاتا ہے۔ کو غصہ

آ�کو مصیفت ماروں آ�تیچ لگی گھر کو

دیچ رونے کی پلانے کی ہے عادت ماروں

تجے کتابی کرو سب ہے �کارت ماروں

�چھی لپٹی یہ مجے کاں کی نحوست ماروں

.........بیوی سہم کر کہتی ہے

لونگی کو تمے سونچو تو ذر� کیا میں کما

کیابھکاریاں کے سری کامیں گھرے گھر جونگی

شوہر کا پارہ چڑھا ہو� ہے۔ بار بار �پنی مصیبتوں کا ذکر کرتا ہے �ور بیوی جھگڑ� کرتا ہے �دھر

آ�مدنی بیوی بھی �پنی پریشانیوں کا �ظہار کرتی ہے۔ دونوں کا درد �یک ہے۔ دونوں جانتے ہیں کہ کم

سے کیا مسائل پید� ہوتے ہیں۔ شوہر جب یہ جملے کہتا ہے تو کون ہے جس کے سینے پر نشتر

......نہیں چلتے

کو لاتوں کچھ بی کما �ری ناد�ں میں جو

جان کھپا کو لاتوں کھپ کو میں جیو کتا مر

Page 186: Bain Us Sutoor بین السطور

بولوں �یک عزت کی یہ روٹی کے لئے کیا

کتے جوتے میں کمینوں کے �ٹھا کو لاتوں

�ور یہی سلیماخطیب کا کمال ہے کہ وہ �یسی چٹکی لیتے ہیں کہ �س سے �یک د�ئمی

پور� ز�ویہ سے �ظہار خیال کرنے کے لئے تو کسک پید� ہو جاتی ہے۔ سلیمان خطیب کی شاعری پر ہر

دفتر چاہئے۔ صرف �تنا ضرور عرض کرنا ہے کہ سلیمان خطیب نے نہ صرف دکنی شاعری کو �یک نئی

جر�ح �یک عمدہ قسم کا سرجن یا کر وہی کام �نجام دیا جو روح دی بلکہ مز�ح کو طنز کی طرف موڑ

کرتا ہے۔ �نہوں نے ماحول میں بکھرے ہوئے تمام زہر کو بوند بوند میں بند کیا لیکن �س زہر پر مز�ح

آ�ہستہ شکر گھل جاتی ہے �ور زہر کی تلخی روح کے �ندر �یک کرب پید� کر آ�ہستہ کی شکر لپیٹ دی۔

آ�ہنگ ہے جو دلوں میں �نبساط دیتی ہے۔ سلیمان خطیب کے ہاں مز�ح میں پھکڑپن نہیں۔ �یک نرم

دیتا ہے۔ �ور پھر طنز کی تلخیاں �س �نبساط کو درد میں بدل دیتی ہیں۔ سلیمان خطیب کی شاعری بھر

کا یہ وصف �نہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ جب تک دکنی کی مخصوص لچک �ور لٹک باقی رہے گی۔

...........نور بکھیرتی رہے گی سلیمان خطیب کی شاعری رنگ و

-------------------------٭٭-------------------------

Page 187: Bain Us Sutoor بین السطور

منصب کا تنقید

آ�ج تک دنیا کے مختلف مفکرین نے مختلف �لنوع تنقید کے بارے میں �رسطو سے لے کر

خیالات کا �ظہار کیا ہے۔ �ور �ردو تنقید کا �لمیہ یہ ہے کہ یا تو �سے قابل �عتنا ہی نہیں سمجھا گیا �ور

�قلید س کا نقطۂ خیالی جیسے خطاب سے سرفر�ز کر کے �پنی �نا کی معشوق کی موہوم کمریا

دیا گیا۔ مختلف تسکین کے سامان فر�ہم کئے گئے یا مغربی نظریات تنقید کو �ردو تنقید کے سرپر لاد

آ�تی ہے کہ بہرحال تنقید کسی فن پارے کے تنقیدی �فکار پر سرسری جائزہ ڈ�لنے سے یہ بات سامنے

نام ہے۔ �ب کسی نے فن کو تاریخی سماجی �ور معاشرتی تناظر میں دیکھنے پر روز �حتسابی جائزہ کا

دیا تو کسی نقاد نے نفسیاتی تحلیل کے طریقۂ کار کو �ہمیت دی۔ کسی نے جمالیاتی نقطۂ نظر کو

�ہم قر�ر دیا تو کسی نے وجودی فلسفہ کو �پنے تنقیدی �فکار کا محور بنایا۔

�دب �حساس، مشاہدہ �ور فکر کو �ظہار کا پیکر عطا کرنے کا نام ہے �ور �ظہار کا سلیقہ عطیۂ

خد�وندی ہے۔ �ظہار کے تفہیم �ور فن کے �ندر چھپی ہوئی بصیرت کی تلاش وہ �ہم کام ہے جو تنقید

آ�نے و�لے �نجام دیتی ہے۔ �س طرح نقاد قاری �ور فن کار کے درمیان �یک ر�بطہ کا کام بھی کرتا ہے �ور

�دب کے لئے ر�ہیں متعین کرنے کا �ہم فریضہ بھی �نجام دیتا ہے لیکن حیرت ناک بات یہ ہے کہ

یوروپی مفکرین کے عطا کردہ نسخہ ہائے کیمیاء یعنی تنقیدی نظریات نے کسی عظیم �دب پارے کی

لی آ� سکا جس کے ذریعہ �عل تخلیق میں کوئی معاونت نہیں کی.... �ور �یسا �دب وجود میں نہیں

�نسانی �ور �خلاقی �قد�ر کو فروغ مل سکے۔ �س طرح تنقید صرف نکتہ چینی �ور تنقیص کا ذریعہ بنی �ور

Page 188: Bain Us Sutoor بین السطور

تنقید کے �س �ہم پہلو کو نظر�ند�ز کر دیا گیا کہ نقاد کو تعمیری رخ �ختیار کرتے ہوئے �دب کے لئے

�یسی ر�ہیں متعین کرنی چاہئیں جن سے �نسانی سماج، سماجی �ور معاشرتی �عتبار سے بہتری کی

آ�تی ہے جب فن کا ظہور ہو چکا ہوتا ہے لیکن طرف قدم بڑھا سکے۔ بظاہر �س وقت معرض وجود میں

حقیقت یہ ہے کہ تنقید مستقبل کی تخلیق کے لئے مشعل ر�ہ ثابت ہوتی ہے۔ تنقید �دب کی ر� ہوں کو

لی �دب کو تخلیق کرنے میں فن کار کی ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ فنکار متعین کرتی ہے �ور �یک �عل

تنقید ہی سے روشنی حاصل کر کے �پنے فن کو سنو�ر تا �ور نکھارتا ہے �ور �س طرح یہ توقع پید� ہوتی

آ�ئے گا..... در�صل ہر فن کار میں �یک تنقیدی شعور کا ہونا ہے کہ �یک مہتم بالشان �دب وجود میں

لازمی �مر ہے۔ �گر کوئی فنکار تنقیدی شعور سے عاری ہو تو پھر �س کا فن بھی کج مج بیانی �ور خامیوں

سے بھرپور ہو گا۔ لیکن �گر فن کا ر خود �یک تنقیدی ذہن کا حامل ہو تو تخلیق سرزد ہونے سے قبل یا

لے تخلیق کے دور�ن غیر محسوس طریقہ پر تخلیق کی خوبیوں �ور خامیوں کا محاسبہ وہ خود ہی کر

لی �نسانی �قد�ر کو �ہمیت دینے کی صلاحیت رکھتا ہے تو پھر �س کا فن بھی گا۔ �ب �گر فن کا ر �عل

�ن ہی �وصاف سے متصف ہو گا۔ �س طرح �دب �ور زندگی کا رشتہ مضبوط تر ہوتا جائیگا۔ کیونکہ �دب،

ماضی، حال �ور مستقبل کے درمیان �یک �یسی کڑی ہے جو �نسانی فکر کو صحیح ر�ہ پر گامزن ہونے

میں مدد دیتی ہے۔

آ�گے بڑھنے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن نتیجہ یہ دنیائے تنقید مختلف نظریات کو �پنا کر

دیا ہے۔ �ور بار �ختیار کے طولانی عمل نے �دب کی ر� ہوں کلو گنجلک بنا و ہو� کہ نظریات کے رد

بار یہ �حساس ہوتا ہے کہ ہر وقت �یک قسم کا نظریاتی خلا موجود ہے۔ �یسے ہی لمحوں کے دور�ن

آ�پ کا جائزہ لینے کی کوشش کرتا ہے تو وہ محسوس وسیع کائنات کے تناظر میں �نسان جب �پنے

ریخت کے درمیان کرتا ہے کہ �س کی روح پیاسی ہے۔ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ تصور�ت کی شکست و

لے تو عرفان کی منزل تک جا �س کا �پنا مقصد وجود کیا ہے۔ �ب �گر یہ فکر صحیح ر�ستہ �ختیار کر

Page 189: Bain Us Sutoor بین السطور

غاعون کہلاتی ہے۔ کر پہنچتی ہے �ور گمر�ہی کا شکار ہو جائے تو لایعنیت کے بھیانک غار میں گر

حالی نے جب �دب کو �خلاق کا نائب منائب بتایا تو �س کا مفہوم یہ سمجھا گیا کہ �دب کو ثانوی

بہبود کے لئے حیثیت دے دی گئی ہے۔ لیکن حالی کا مقصد یہ تھا کہ �دب کو �نسانیت کی فلاح و

ہونا چاہئے �ور �یسی تحریر جو جذبات میں ہیجان برپا کرے �ور ر�ہ روی کو فروغ دے۔ وہ �دب نہیں

دینے و�لے قصیدوں کو جنھیں سبعہ کہلائی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں دھوم مچا

معلقہ کے نام سے یاد کیا جا تا ہے۔ �سلام کی روشنی نے ماند کر دیا �ور �پنے وقت کے یہ عظیم

قصائد پس منظر میں چلے گئے۔ �س لئے کہ �سلام نے جذبات کی تہذیب کا سبق دیا۔ ہمدردی،

خلوص �ور �خلاقی �قد�ر کو �ہمیت دی ....... �ور بے ر�ہ روی �ور ہیجان �نگیزی کو یکسرمسترد کر دیا۔

�ب سو�ل یہ پید� ہوتا ہے کہ صحیح ر�ستہ کیا ہے .......؟ �صل میں �دب ہنگامی ضرورتوں

کے تحت پید� نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں ہنگامی ضرورتوں کے تحت تخلیق کیا جانے و�لا فن

�دب کے معیار�ت پر پور� نہیں �ترتا۔ کیونکہ ہنگامی ضرورتیں �ور وقتی مصلحتیں کسی نہ کسی عمومی

لی �دب تو وہی ہے جس میں بنیادی �نسانی �قد�ر موجود ہوں۔ �ور یہ �سی مقصد کے تحت ہوتی ہیں۔ �عل

وقت ممکن ہے جب �دیب �پنا رشتہ فکری �ور روحانی طور پر �خوت، محبت �ور خلوص سے �ستو�ر

کرے۔ کیونکہ یہی وہ �قد�ر ہیں جو ر�ہ نجات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں �ور �س طرح تنقید کا

منصب یہ بھی ہو جاتا ہے کہ �دیب کے لئے وہ کھرے �ور کھوٹے کی پہچان کے سلسلے میں

آ�گے بڑھتا ہے �ور �سی کسوٹی پیش کرے۔ قاری کی کمزوری ہے کہ وہ صرف تخلیق کے سہارے

سے تاثر قبول کرتا ہے۔ جبکہ نقاد تخلیق کا ر کی �نفر�دیت تک پہنچ کر �س کے محسوسات کی

نشاندہی کرتا ہے �ور �ن عو�مل کی وضاحت کرتا ہے جہاں قاری کا ناپختہ ذہن نہیں پہنچ سکتا۔ یوں

نقاد پر �یک بڑی بھاری ذمہ د�ری عائد ہوتی ہے کہ وہ حق �ور باطل میں تفریق کے مسئلے کو قاری

آ�سان کر دے۔ قاری ہر خوبصورت نظر آ�نے و�لی شئے کے پیچھے بھاگنے کی جبلت کا کے لئے

Page 190: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�نے و�لی شئے کی �صلیت کو قاری پر و�ضح شکار ہوتا ہے۔ نقاد کا فرض یہ ہے کہ وہ خوبصورت نظر

آ�تی ہے کہ فنی �ظہار میں لفظوں کی پیکر تر�شی کر دے۔ �س وضاحت کی ضرورت �س لئے پیش

لے �ور پھر فن کار�نہ �ظہار سے �یسی سحر کار�نہ کیفیت پید� کی جا سکتی ہے جو ذہن کو مسحور کر

میں جو تباہ کن مقصد چھپا ہو� ہے �س چشم سے پوشی کر لی جائے �ور وہ تباہ کن مقصد غیر

محسوس طریقہ پر قارئین کی �یک جماعت کو متاثر کرے۔ مثال کے طور پر ناگن خوبصورت دکھائی

آ�ستین میں رکھ دیتی ہے۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم خوبصورتی کی ستائش کرتے ہوئے ناگن کو

آ�نے و�لی ناگن کا �یک عیب یہ بھی ہے کہ وہ ڈس لیا کرتی ہے۔ نقاد لیں۔ ظاہر ہے کہ خوبصورت نظر

کا کام یہ ہے کہ خوبصورتی میں پوشیدہ زہر کو عیاں کرے تاکہ کمزور ذہن متاثر نہ ہونے پائے۔ بظاہر

میں پھیلنے و�لی بے ر�ہ روی کے مضر �ثر�ت سے آ�نے و�لے ہیجان �نگیز �ظہار �ور دنیا چمکد�ر نظر

ا�ت سے کام لیں �ور �دب کو �یسی ر�ہ بچانے کے لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ نقاد بے باکی �ور جر

آ�گے بڑھیں جو فلاح کی ر�ہ ہے۔ پر گامزن کرنے کے لئے

****

Page 191: Bain Us Sutoor بین السطور

رجحانات نئے میں شاعری تلگو

آ�ہنگ ہوت ہر ہے۔ �س میںیزندہ زبان کی �یک �ہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ �پنے عہد سے ہم

کی �دبی، سیاسی �ور سماجی ضرورتوں کی تکمیل کر سکے ، عصر نے پیہ صلاحیت ہوتی ہے کہ �

زبان کی �پنی کچھ رو�یات بھی ہوتی ہیں �ور جیسے �بلاغ میں �ہم کرد�ر �د� کر سکے۔ ہر �ور ترسیل و

جیسے زمانہ گزرتا جاتا ہے �ن رو�یتوں کی جڑیں نہ صرف مضبوط ہوتی ہیں بلکہ نئی رو�یتیں بھی جنم

آ�ہستہ دم توڑ آ�ہستہ آ�ہنگ نہ ہو سکیں ، دیتی ہیں۔ لیتی ہیں ، �ور �یسی رو�یتیں جو �پنے عصر کے ساتھ ہم

یہی صورت حال موضوعات کے ساتھ بھی ہے۔ جیسے جیسے زمانہ سفرکرتا ہے نت نئے موضوعات

فن کار کا د�من تھام کر �پنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ �ور جب فن کار �ن پر �پنی توجہ مرکوز کرتا ہے تو

�یسے �دب پارے جنم لیتے ہیں جن میں عصری روح ہوتی ہے۔

عہد میں دنیا کے مختلف حصوں میں فکر کے جو�لا مکھی پھٹتے رہے ہیں۔ �ور �ن کا ہر

�ثر دور دور تک پھیلتا رہا ہے۔ فکری �عتبار سے جب کوئی نیا رجحان پید� ہوتا ہے تو ہر زندہ زبان �س کا

آ�ج ترسیل بہت زیادہ تیزی سے ممکن ہو گئی آ�ج کے دور میں کیونکہ اا �ثر قبول کرتی ہے۔ �ور خصوص

آ�ج ہے ، نئے رجحانات کا سفر تیز ہو گیا ہے �ور ترجمے نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے

دنیا کے کسی حصے میں کوئی نئی بات ہوتا وہ منٹوں میں کرہ �رض کو محیط کر لیتی ہے �وعر �س

ڑتا ہے۔ مختلف زبانوں کے �دب کا مطالعہ کرتے ہوئےپلازمی طور پر تخلیقی سوتوں پر بھی کا �ثر

آ�تا ہے .... دو مختلف مقامات پر رہنے و�لے �دیب جن میں �یک بہت �ہم �ور دلچسپ پہلو سامنے

Page 192: Bain Us Sutoor بین السطور

کوئی ربط نہیں ہوتا، کبھی کبھی بالکل یکساں طور پر سوچتے ہیں۔ �ن �دیبوں کی زبانیںںآ�پس می

�لگ ہو سکتی ہیں ، �ن کا تہذیبی سرمایہ مختلف ہو سکتا ہے لیکن کبھی کبھی �ن کے خیالات حیرت

کے نام سے تعبیرUnder current ناک حد تک یکسانیت رکھتے ہیں۔ �س کو زیریں لہر یا

کیا جاتا ہے۔ جو کچھ بھی ہو ......�یک بات یقینی ہے کہ حساس �نسان چاہے وہ کرۂ �رض کے

کسی حصے میں ہوں �ن کا درد مشترک ہو گا .....�ور جب یہ زیریں لہر حساس ذہنوں کو متحرک

کرتی ہے تو فکر کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں ...... زندہ زبان کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ وہ فکری

سطح پر �رتعاش پید� کرتی ہے �ور �گر �ن تمام پیمانوں پر دیکھا جائے تو تلگو زبان بھی بلاشبہ �یک زندہ

......!ونکہ �س میں ساری خصوصیات موجود ہیں جن کا �بھی ذکر کیا گیایزبان ہے ک

تلگو زبان کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ بنیادی طور پر یہ در�ویڈی زبان ہے لیکن �س پر سنسکرت کا

و �کتساب کی بے پناہ صلاحیت تلگو زبان میں �خذ کہ غلبہ زیادہ رہا۔ �س کی وجہ شاید یہ رہی ہو

آ�ہنگ کر سکتی ہے۔ علم زبان آ�پ کوبڑی تیزی سے ہم موجود ہے �ور �سی لئے یہ نئے �فکارسے �پنے

�ٹالین قر�ر پر ہوتاVowel دیا ہے کیونکہ �س میں لفظ کا �ختتام کے ماہرین نے تلگو کو مشرق کی

ہے۔ �ور شاید �سی وجہ سے �س میں شیرینی �ور موسیقیت کا عنصر غالب ہے۔ تلگو کے قدیم شعری

آ�تا ہے جسے کوی تر�ئم کہا جاتا ہے یہ مثلث سرمایہ پر نظر ڈ�لی جائے تو �یک مثلیت نظر

Tikkanna, Nannaya ور� Erranna ن تینوں نے مل کر تلگو زبان�پر مشتمل تھا۔

میں سنسکرت کا عظیم رزمیہ مہابھارتم تحریر کیا۔ �س مہابھارتم کے ڈھائی �بو�ب گیارھویں صدی میں

Nannayyaب تیرھویں صدی میں�بو�نے تحریر کئے، پندرہ Tikkannaور�نے لکھے

نے لکھا۔ سب سے Erranna دیا تھا چودھویں صدی میں نے چھوڑ آ�دھا باب جو پچھلے شعر�

ت ج بھی کوئی جو�ب نہیں ہے۔ �ہم بات تو یہ ہے کہ �بتد�ئی عہد کے �س کارنامے کا

Nannayaعد بھی لکھی تھی۔�ہی نے تلگو کی سب سے پہلی قو

Page 193: Bain Us Sutoor بین السطور

ر�ئے کا زمانہ �یک سنہری دور ہے۔ �ظہار کے مختلف پیر�یوں �ور تلگو کے لئے کرشن دیو

�سالیب کو �س دور میں بڑی �ہمیت حاصل رہی یہ پر بندھ کویتوم کا دور ہے جس میں �یک لفظ �ور �س

کے �جز�ء سے نکلنے و�لے مختلف مفاہیم کے �مکانات کو روشن کیا گیا۔ �ور� س دور کے شعر� ء

آ�دم آ�ج بھی عش عش کرتی ہے۔ پربندھ کویتوم کا باو� نے �یسے �یسے کارنامے تخلیق کئے جن پردنیا

سری ناتھ کو مانا جاتا ہے۔ پربندھ کویتوم کے ساتھ �یک �ور رجحان بھی �پنی جڑیں مضبوط کرتا رہا تھا۔

ویر�سیو�کویتوم میں عو�می لفظیات �ور ....... Veera Shaiva Kavitwam یہ تھا

,Palakori دھنوں کے ذریعے عقیدت مند�نہ شاعری کو پیش کیا گیا۔ �س رجحان کے �ہم شاعر

Nannachora Pandita Raksha, Krishnanatha ,ہیں۔

کویتر�ئم نے جو شاعری کی �س کا غالب عنصر کلاسیکیت ہے �ور ویر�شیو� شاعری میں عو�می

Andhra نے جوBammera Potanna �ند�ز تھا...... جبکہ

Mahabhagwathamس�س میں یہ دونوں عنصر موجود تھے۔ پوتنا کے �تحریر کیا تھا،

یا عقیدت مند�نہ شاعری کی عمدہ مثال کہا جا سکتا ہے۔ عصرجدیدdevotional کارنامے کو

شاعری ہوتی رہی �سے تک پہنچتے پہنچتے �س زبان نے کئی مر�حل طے کئے۔ �ور �س زبان میں جو

عو�می شاعری کہنا زیادہ مناسب ہو گتا کیونکہ ویر�شیو� کویتوم کا �ثر بہت دور تک رہا۔

دنیا کے مختلف حصوں میں پیش کئے جانے و�لے �فکار، تحریکات �ور رجحانات سے

اا �نیسویں صدی �ور بیسویں صدی میں نئے رجحانات نے تلگو بھی تلگو متاثر ہوتی رہی۔ �ور خصوص

Kandakuri لیا۔ تلگو نثر میں �نقلاب برپا کرنے و�لی شخصیت تھی جما پر �پنا �ثر

Veereshalingam.....ؤں کی شادی�نہ رجحان کو فروغ دیا، بیو�صلاح پسند�جنہوں نے

کی تائید کی �ورذ�ت پات کے خلاف جدوجہد شروع کی ......تلگو �دب کو ناول سے روشناس کرنا

نے �صلاحی شاعریGurujada Appa Rao بھی �ن کا کارنامہ ہے۔ �سی زمانے میں

Page 194: Bain Us Sutoor بین السطور

Reformist Poetryس شاعری کو ہاتھوں ہاتھ کیا گیا کیونکہ گیت کی مقبول�پیش کی۔

دونوں میں تھی۔ �س کے علاوہ چار مصرعوں پرصعام ہیئت کی وجہ سے �س کی پہنچ عو�م �ور خو�

�پنے �ختصار کی وجہ سے �ور ساتھ ہی ساتھ فکر �نگیز �ور سبق Mutyala Sarralu مشتمل

نے کلاسیکل چھندGurujada Appa Rao آ�موز ہونے کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے۔

آ�سان �ور قابل فہم بنا چھند سے ماتر� دیا۔ جبکہ �س سے قبل کی طرف رجوع کیا �ور تلگو شاعری کو

صرف مخصوص کلاسیکی ہیئت ہی �ستعمال کی جا سکتی تھی۔ �صلاح پسند�نہ رجحان یا

Reformist Poetryہم رجحان کی حیثیت سے�یک �کے ساتھ ساتھ رومانیت پسندی بھی

تلگو پر �ثر �ند�ز ہوئی۔ مغرب میں ورڈزورتھ، بائرن �ور شیلی نے جس طرز کو فروغ دیا تھا �س سے تلگو

رومانیت قدرے مختلف ہے ..... یہ رومانیت ٹیگور سے ملتی جلتی ہے جسے تلگو میں

Raiprolu Subba Raoہمیت�نسانی موڈ یا جذبات کو �ور شاعری میں �نے پیش کیا۔

آ�شکار کیا �ور چھایا و�د کی طرح تلگو میں بھی دی ....بھاوکویتوم نے تلگو شاعری کو رومانیت سے

�یک �یسی رومانیت کو فروغ ملا جس کے ڈ�نڈے �نسانی جذبات و�حساسات کے لطیف �ظہار سے

عمل، تصادم، مسرت وغم، جذباتی ہیجان �ور سکون کی تلاش کو �ہمیت دی لتے ہیں ....... رد جام

کے لئے ر�ستہ صاف ہو گیا جہاںVeyoga Shrungaram گئی ......�ور �س طرح

آ�ز�دی �پنے شباب پر محبت ہی سب کچھ تھی .......یہ وہ زمانہ ہے جب شمالی ہند میں جدوجہد

آ�نے لگے �ور سرفروشانہ آ�ز�دی کی تحریک کے �ثر�ت نظر تھی چنانچہ تلگو میں بھی ہندوستان کی

چرتر� �ور �سی طرح کی تاریخی نظمیں لکھی گئیں۔ جی جذبات کو �بھارنے کے لئے شیو�

نے تلگو نوVishwanatha Satyanarayana �س کے ساتھ ہی

کلاسیکیت کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ �نہوں نے پیکر تر�شی کو �ہمیت دی �ور لفظ کے ذریعے

Devalapalli Krishana شعری �ظہار کو طاقتور بنانے کی ر�ہ کو �ختیار کیا۔

Page 195: Bain Us Sutoor بین السطور

Shastry پنی شاعری میں کلاسیکیت کے ساتھ ساتھ فکر�ور �می گیت بھی لکھے �نے عو

�نگیزی کو بھی پیش کیا۔ �ور جب فلمی گیتوں نے مقبولیت حاصل کی تو �نہوں نے فلمی سچویشن

آ�میزش سے فکری سطح پر ذہنوں کو مہمیز کیا۔ بیسویں صدی کی کے پروردہ رومان میں مسائل کی

ضابطہ طور پر روشناس ہوئے۔ �دب ترقی پسندی سے با و تیسری �ور چوتھی دہائی میں ہندوستانی شعر

تلگو میں سری سری نے �پنی �نقلابی شاعری کے ذریعے �منگ �ور جہدمسلسل کا پیغام دیا۔ سری

سری کے گیتوں میں خو�ب بھی تھے �ور �ن خو�بوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کی

طرف توجہ بھی دلائی گئی تھی۔ رومانیت سے �نقلاب کی طرف سری سری کا یہ شعری سفر �یک بسیط

مطالعے کا طالب ہے۔ سری سری کی �نقلابی شاعری �صل میں بنگالی کے مشہور شاعر ’’نذرل

�سلام‘‘ )نذر�لاسلام( سے متاثر تھی۔ �ور یوں سری سری کے ہاں �دبی قدروں سے زیادہ موضوعاتی

قدروں کو �ہمیت حاصل ہوئی �ور جب ر�ئٹرس فورم کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بنا تو موضوعات ہی سب

کچھ قر�ر پائے �ور شعری �ظہار بے معنی ہو کر رہ گیا۔

آ�س پاس �یک �ور نام �ہمیت کا حامل ہے، یہ ہے بال گنگا آ�ز�دی کے دھر تلک۔ ہندوستان کی

آ�ز�دی کے گیت گنگنا ہندوستان کے قومی رہنما بال گنگا دھر تلک کا ہم نام یہ شاعر تلگو میں تحریک

نے سماج کو بدل ڈ�لنے �ثر جن شعر� رہا تھا جو وقت کی ضرورت تھے۔ ترقی پسند تحریک کے زیر

Kaloji چاہا، �ن میں د�سرتھی �ور کی جدوجہد کو �پنی شاعری سے مضبوط ومستحکم کرنا

Narayana Raoہم ہیں۔ کالو�ور بھی �پنی مہم کو جاری رکھا �ؤ نے تلنگانہ میں �ئن ر�جی نار

آ�ندھر� علاقے میں سرگرم رہے۔ د�سرتھی کا �یک �ہم کارنامہ تلگو میں رباعی کو پیش کرنا بھی د�سرتھی

شاعری میں �یک �ور رجحان �ہمیت کا حامل ہے۔ یہ ہے �نسانیت پسندی یا ہے۔ تلگو

Humanist Poetryنسانیت پسندی یوروپ کے�کا رجحان ...... یہ

Humanismروں میں�س فکر و فلسفہ کے علمبرد�سے مختلف ہے .....

Page 196: Bain Us Sutoor بین السطور

C.Narayan Reddy ہم ہیں۔�ور ششدر شرما کے نام کافی �ؤ �مادلار نگار C.

Narayan Reddy ج کو مد�می مز�ور عو�ری بھی کی �ر کی پاسد�قد�دبی �نظر رکھتے نے

ہوئے �پنا شعری رویہ متعین کیا۔ �نہوں نے تلگو زبان کو �ردو کی �یک �ہم صنف شاعری یعنی غزل سے

روشناس کر�یا۔

�نسانیت پسند شاعری کے شانہ بہ شانہ باغیانہ �نقلابی شاعری کا رجحان بھی پرورش پاتا رہا۔

جس میں جارحیت �ور تشدد کا عنصر غالب تھا �ور مسائل کو حل کرنے کے لئے ہتھیار �۔ ٹھانے کی

گیتوں کے �سلوب کو �پنایا گیا۔ چنانچہ �سFolk ترغیب بھی تھی۔ �س کے لئے عو�می دھنوں �ور

آ�ز�د نظم کی ہیئت �ختیار کی �ورلہے۔ شیو� ساگر نے نظم معریGadar سلسلے کا �ہم شاعر غدر �ور

Vangapathi Prasada Rao �ورVangapandu متوسط طبقہ کو متاثر کیا۔

نے عام فہم عو�می زبان �ور عو�می دھنوں کا ستعمال کر کے ذہنوں کو متحرک کیا۔ ساتویں دہائی کے

ریخت کا آ�خر میں �یک �ور رجحان نے زور پکڑ� تھا۔ لیکن چند ہی برسوں میں یہ رجحان شکست و

سے متاثر تھا �ورExistancialism شکار ہو گیا ...... یہ وہ گروہ تھا جو فلسفۂ وجودیت یا

آ�گے بڑھ کر کی طرف مر�جعت کرنا چاہتا تھا۔ یہ �پنے �کتائےGay Society پھر �س سے بھی

ہوئے ذہنی رویہ کی وجہ سے شعری �ظہار کو عریانیت کے بغیر نامکمل تصور کرتا تھا �ور فحش لفظیات

شاعری کہلائی۔ �س شعری رجحان کے زیر�ثر لکھنے کو بے محابہ �ستعمال کرتا تھا۔ یہ شاعری ڈگمبر

رکھا تھا۔ تلگو کے �یک و�لوں نے تمام پر�نی قدروں کو توڑنا بلکہ �نہیں پامال کرنا �پنا نصب �لعین بنا

جو�لا مکھی �ور نکھلیشور کےTelugu Angry Men �ہم نقاد جی وی سبر�منیم نے �نہیں

ء سے کچھ پہلے بالکل �یسی ہی صورت۶۶ ء تک کا ہے۔ ۶۹ سے ۶۶نام �ہم ہیں ....... یہ دور

آ�گے بڑھ کر شدید مایوسی نے حال �ردو میں بھی پید� ہوئی تھی �ور فرد کی تنہائی کے �حساس سے

آ�پ فحش علامتوں کو شعری پیر�ہن عطا آ�ہستہ �ردو میں یہ رجحان �پنی موت آ�ہستہ کیا تھا... ..لیکن

Page 197: Bain Us Sutoor بین السطور

کار رفتہ قسم کی چیز ہو گئی کیونکہ �سے عو�می مرگیا۔ �ور پھر تلگو میں بھی ڈگمبرکویتوم بھی �ز

مقبولیت کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔

تلگو کا �یک �ور رجحان بہت �ہم ہے یہ ہے ناوبستگی کا رجحان، جہاں یہ سوچا جانے لگا

فن سے �س کا کوئی تعلق ہے ....... تھا کہ شاعری کیا ہے .......؟ کیا یہ صرف نعرہ بازی ہے یا

ء۷۰چنانچہ شعریت کو �ہمیت دی جانے لگی �ور سیاست سے صرف نظر کیا گیا۔ ششدر شرما نے

کے بعد جو شاعری کی �س میں ناو�بستگی کا عنصر خاصا قوی ہے۔ �س رجحان کے تحت کی جانے

و�لی شاعری نے �دبی خوشبو سے مشام جاں کو معطر کرنے کا �یک �ہم فریضہ �نجام دیا جو �س عہد

میں خال خال تھا۔ کسی پارٹی، کسی تحریک یا کسی خاص فکر سے ناو�بستگی کا �ظہار �س رجحان

کا �یک لازمی عنصر تھا۔ �س کے باوجود یہاں بھی ہتھیاروں پر یقین �ور تشدد کا عنصر محسوس کیا

آ�ج کا دور آ�ج شاعری نئے نئےAnubhuiti Kavitwam جا سکتا تھا۔ کا دور ہے۔

آ�ہنگ کر رہی ہے ....... �پنی جڑوں کی تلاش �ور �یک بین �لاقو�می آ�پ کو ہم تجربات سے �پنے

معاشرے میں فرد کی شناخت کو �ہمیت دی جانے لگی ہے۔ قدیم علامتوں کو نئے تجربات کی

روشنی میں نئے مفاہیم دئے جانے لگے ہیں۔ �ظہار میں �دبی قدروں کو پھر سے �ہمیت حاصل ہونے

لیحدہ وجود بھی لگی ہے ... �ور یہ �دبی قدریں جدید طرز آ�ہنگ بھی ہیں �ور �پنا �یک عل فکر سے ہم

رکھتی ہیں۔ مغرب سے مستعار فکر کو مقامی رنگ دے کر �سے �س طرح �پنایا جا رہا ہے کہ

ہندوستانی خوشبو ختم نہ ہو �ور ذ�ت کے تجربات بھی باقی رہیں۔ �یک وسیع تر معاشرے میں �یک بین

آ�ج کی تلگو شاعری کا �یک �ہم رجحان �لاقو�می سماج میں تلگو تہذیب کے عنصر کو برقر�ر رکھنا

.......!ہے

رجحانات �ور �فکار کے �س سیل بے پایاں کی شناوری کرتے ہوئے یہ �حساس پید� ہوتا ہے کہ

آ�ج ہرچیز کو عالمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش تلگو ہی میں نہیں بلکہ ہر ہندوستانی زبان میں

Page 198: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ج موضوع بھی �ہم ہے �ور پیش کش بھی ....... لفظ �ور �س کا یکساں طور پر پرورش پا رہیک ہے۔

آ�لۂ کار آ�ج زندگی سمجھاجا رہا ہے ، صرف �ستعمال �دب میں دوبارہ �ہمیت حاصل کر رہا ہے۔ �ور

.........!!!نہیں

------------------------٭٭-------------------------

Page 199: Bain Us Sutoor بین السطور

ساجد یوسف اور افسانہ اردو

آ�باد کے شعبہ �ردو میں۱۹۸۲یہ سن آ�ف حیدر ء کی بات کے ، جب میں نے سنٹرل یونیورسٹی

�یم �ے کے بعد �یم فل میں د�خلہ لیا تھا..... کچھ عجیب سا لگا تھا کہ نوجو�ن لڑکے لڑکیوں کے

ئے �دب طے کر رہا ہے۔ لیکن جب میں نےون�درمیان �یک ڈھلتی عمر کا شخص درس گاہ میں ز

�پنے ساتھیوں کا جائزہ لیا تو �یک میں ہی نہیں ، وہاں �ور بھی کچھ لوگ �یسے تھے جن کے

ے ہی ساتھیوں میں یوسف ساجدسکے تفاوت کا �حساس نہ رہتا....... �ی درمیان مجھے عمر

بھی شامل تھے۔ ہمیشہ چہرے پر مسکر�ہٹ لئے ، موٹے شیشوں کی عینک چڑھائے یہ موصوف مجھے

�چھے لگے۔ �ن کی سب سے �ہم خوبی یہ تھی کہ وہ کسی کی بر�ئی نہیں کرتے تھے۔ بس �پنے کام

آ�ئے .....کلاس �ٹنڈ کی ....پھر �ستاذی مجاور حسین رضوی کے ’’تکئے سے کام.......یونیورسٹی

آ�ئے .....وہیں ہماری پھر جمتی تھی۔ خوب ہاہا ہو ہو مچتی...... یوسف ساجد کسی ‘‘ پر چلے

کونے میں پیٹھے مسکر�یا کرتے تھے۔ کبھی کبھی قہقہوں سے چھت �ڑنے لگتی تو وہ بھی �ن

قہقہوں میں حسب مقدور �پنا حصہ لگاتے ...... �یم فل میں یوسف ساجد نے شفیق �لرحمن پر

مقالہ تحریر کیا تھا۔ �ور پھر عثمانیہ یونیورسٹی سے �نھوں نے �سی موضوع کو لے کر پی �یچ ڈی بھی

ملاقاتیں ہو� کرتی تھیں۔ جب بھی جگتیال سے کیا۔ مقالہ تحریر کئے جانے کے دور�ن �ن سے �کثر

آ�باد تشریف لاتے �پنے ساتھ کتابوں �ور رسالوں کا �نبار لئے غریب خانے پر ضرور طلوع ہوتے حیدر

وہ میرے پسندیدہ مز�ح نگار تھے۔ لیکن سچ تھے۔ شفیق �لرحمن کو یوں تومیں نے بہت پڑھا تھا �ور

Page 200: Bain Us Sutoor بین السطور

بات یہ ہے کہ شفیق �لرحمن کو تفصیل سے ناقد�نہ �ند�ز سے پڑھنے کا موقع مجھے صرف یوسف

ساجد کی وجہ سے مل پایا۔

یا تہنیت نامہ کے مقالے کی تکمیل کے بعد �ن سے صرف عید �ور نئے سال کے موقع پر تار

ذریعہ ملاقات ہوتی رہی.....پھر �خبار�ت سے پتہ چلا کہ �ن کے �فسانوں کا مجموعہ شائع ہونے جا رہا

ہے .....خوشی ہوئی .....ویسے توقع تو یہ تھی کہ یوسف ساجد کے �یم فل یا پی �یچ ڈی کے

آ�ئے گی....... پھر �چانک �یک محفل میں �ن سے ملاقات ہوئی تو پتہ مقالے کی طباعت عمل میں

چلا کہ ’’ساتو�ں پھیر�‘‘ ہو چکا ہے ...... یعنی چھپ چکا ہے .....�ور �س کی رسم �جر�ء میں

مجھے بھی شریک ہونا ہے ....مزید خوشی ہوئی کہ �نھوں نے �ب تک مجھے یاد رکھا۔ �فسانہ چاہے

رو�یتی ہو یا علامتی �ند�ز میں تحریر کیا گیا ہو ..... �س کی سب سے �ہم خصوصیت �سکا �یجاز و

�ختصار ہے۔ �فسانہ طو�لت کا متحمل نہیں ہو سکتا...... �س کے علاوہ �فسانے میں وجد تاثرکا ہونا

بے حد ضروری ہے �گر وحدت تاثر نہ ہو تو کہانی پن ختم ہو جائے گا۔ �فسانے میں �یک �ور چیز

ہے .... �ور وہ ہے قاری کی توجہ کو �پنی طرف مرکوز کرنے کا فن۔ مرکزی �ور ثانوی کرد�ر، منظر نگاری

و�قعات کے بہاؤ �ور گٹھے ہوئے پلاٹ کی مدد سے �یک کامیاب �فسانہ نگاری قاری کی توجہ کو

بٹنے نہیں دیتا۔ �چھے �فسانے کی پہچان یہ بھی ہے کہ �گر �سے شروع کیا جائے تو ختم ہونے

تک توجہ �دھر �دھر ہٹنے نہ پائے۔

آ�خری دہائیوں میں عالمی �دب میں �فسانہ �نیسویں صدی میں د�خل ہو�۔ �ور �سی صدی کی

�ردو میں �فسانے کی چاپ محسوس کی جانے لگی۔ لیکن صحیح معنوں میں مختصر�ردو�فسانے کا

بانی سجاد حیدر یلدرم کو کہا جا سکتا ہے۔ یلدرم کے یہاں زندگی کے رومانی پہلوؤں کو �ہمیت دی

گئی تھی۔ نیاز فتحپوری نے تخیل کے شاد�ب مرغز�روں میں �پنے قلم کی جولانیاں دکھائیں۔ مجنوں

آ�میزش سے سماجی بندھنوں گورکھپوری نے �نگریزی مختصر �فسانے کے زیر �ثر قنوطیت �ور فلسفہ کی

Page 201: Bain Us Sutoor بین السطور

جوش، ر�شد �لخیری، سدرشن، حامد �للہ �فسر �ور محبت کے ٹکر�ؤ کو موضوع بنایا.....سلطان حیدر

مانیت کے ساتھ ساتھ مسائل کی طرف توجہ کی �ور مقصد کو �پنیووغیرہ نے �ردو �فسانے میں ر

کیا۔ تحریروں میں د�خل کر کے �فسانے کو �یک نیا رخ دیا۔ پریم چند نے �ردو �فسانے کو وقار عطا

رومانی �ور تخیلی فضا پر مبنی �فسانے لکھتے ہوئے جب پریم چند نے حقیقت نگاری کی طرف قدم

�ردو �فسانہ �پنے عروج کی طرف بڑھائے �ور سماج کے ناسوروں پر نشتر لگانے کا �ہم کام �نجام دیا تو

گامزن ہو�۔ �ور پھر ترقی پسند تحریک نے �سے �تنی ترقی دی کہ �ردو �فسانے کو ترقی پسند تحریک کی

دین مان لیا گیا...... کرشن چندر، عصمت، بیدی، منٹو، سجادظہیر �ور دوسروں نے �فسانے کو چار

دیئے۔ سن ساٹھ کے بعد �فسانے نے �یک نئی کروٹ لی �ور علامت کے توسط سے چاند لگا

تجریدی دور میں د�خل ہو�۔ یہ تجربات �یک طرف ہاتھوں ہاتھ لئے گئے تو دوسری طرف �فسانے کے

رو�یتی �سلوب کو برقر�ر رکھنے کی شعوری کوشش کی جانے لگی..... یوسف ساجد �سی شعور ی

کوشش کے غیر شعوری مقلد کہے جا سکتے ہیں۔

یوسف ساجد نے ہائی �سکول ہی سے �فسانہ لکھنے کی کوششیں شروع کر دی تھی۔ �ن کا

ء میں �یک �سکول میگزین میں شائع ہو� تھا۔ یہ �فسانہ۵۶ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ پہلا �فسانہ ’’نہ خد�

�ن کے مجموعے کا بھی پہلا �فسانہ ہے۔ �ور �گر یہ �فسانہ جوں کا توں رکھا گیا ہے تو یہ �ند�زہ کرنا

عمری میں ہی یوسف ساجد کی تخلیقی صلاحیتوں نے رنگ دکھانا شروع کر دیا مشکل نہیں کہ نو

تھا۔ �س �فسانے کا پلاٹ �یک �یسے شخص کے گرد گھومتا ہے جس کی لڑکی بیمار ہے لیکن �س

کے پاس چونکہ ڈ�کٹر کو دینے کے لئے فیس کے پیسے نہیں ہیں �س لئے �سے دھتکار دیا جاتا

آ�تا ہے تو لڑکی مر ہے۔ پھر وہ �پنی بچی کو بچانے کے لئے چوری کر بیٹھتا ہے لیکن جب ڈ�کٹر

بچانے کے لئے �پنی شر�فت کو تیاگ دیا تھا .....پھر بھی چکی ہوتی ہے۔ �س شخص نے لڑکی کو

مل جاتا ہے۔Justification وہ �س کی جان نہیں بچا سکا �ور �س طرح �فسانے کے عنو�ن کو

Page 202: Bain Us Sutoor بین السطور

�س �فسانے میں کچھ جھول بھی ہیں جیسے کہانی کا مرکزی کرد�ر ڈ�کٹر کے یہاں سے نکل کر

چوری کرنے کے لئے �یک عالیشان عمارت کے کمپاؤنڈ میں د�خل ہو جاتا ہے ......�ور تھوڑی دیر

بعد جب باہر نکلتا ہے تو �س کے ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈی ہوتی ہے .....گویا �س مکان میں

آ�ئے �ور �س گڈی کو �ٹھا �س شخص کے لئے نوٹوں کی گڈی �س طرح تیار رکھ دی گئی تھی کہ وہ

ء میں میٹرک کیا تھا۔ �س �عتبارسے جب۱۹۵۹لے جائے۔ ریکارڈ کے حساب سے یوسف ساجد نے

آ�ٹھویں میں پڑھ رہے ہوں گے۔ �س لئے �س طرح کا �نھوں نے یہ �فسانہ لکھا ہو گا تو وہ ساتویں یا

جھول کوئی �یسی بات نہیں کہ �ن سے بازپرس کی جا سکے بلکہ �س بات کا �عتر�ف ضروری ہو جاتا

عمری کے باوجود �ن کی �س تخلیق میں موجودہ سماج سے بغاوت کی وہ لہریں نظر ہے کہ �س نو

آ�تی ہیں جو ترقی پسند �فسانے کی �یک �ہم �ور نمایاں خصوصیت تھی۔

�س کہانی کے مرکزی کرد�ر کے �ندرون میں جو کشمکش ہے �س کو یوسف ساجد نے

مکالموں کی شکل دے دی ہے۔ کرد�ر کے کانوں میں ڈ�کٹر کے �لفاظ گونجتے ہیں ’’چوری کرو

ڈ�کہ ڈ�لو......‘‘ �ور �س کا ضمیر کہتا ہے ’’نہیں نہیں یہ پاپ ہے ‘‘ پھر �س کے �ندر سے �یک

آ�و�ز سو�ل کرتی ہے ’’یہ پاپ ہے ؟قوم کے بڑے بڑے سرمایہ د�ر جو غریبوں کا خون چوستے دوسری

ہیں کیا وہ سب پاپی کہلائیں گے ..... ؟ نہیں ......وہ پاپی نہیں کہلاتے ، �نہیں تو لوگ خد�

سمجھتے ہیں .....�نہیں �وتار کا درجہ دیتے ہیں سماج میں �ن کی بڑی عزت ہے ......�ونچا مقام

‘‘ گے۔ ؟ ہے ..... پھر تم کیوں پاپی کہلاؤ

�ن مکالموں میں سرمایہ د�ری کے خلاف جو گھن گرج ہے وہ کم عمر یوسف ساجد کے

اا �چھی لگی ہو گی �ور �سی وقت یوسف ساجد کو سننے �ور پڑھنے و�لوں نے محسوس قلم سے یقین

آ�نے لگے ہیں۔ یوسف ساجد کر لیا ہو گا کہ �یک ہونہار �فسانہ نگار کے پاؤں پالنے میں سے نظر

۱۹ برس کے �دبی سفر میں ۳۸ کہانیاں ہیں .... ۱۹کے پہلے مجموعہ ’’ساتو�ں پھیر�‘‘ میں

Page 203: Bain Us Sutoor بین السطور

اا دوبرس میں یوسف ساجد نے �یک کہانی لکھی ہے ...... �س کہانیوں کا مطلب یہ ہے کہ �وسط

طرح تھم تھم کے لکھنے کی �یک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ غم روزگار نے �نہیں �پنے ترکش سے تیر

پھر یہ کہ وہ غالب کے �س مصرعے کے قائل ہوں کہ۔ نکالنے کا موقع نہ دیا ہو ......یا

رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رو�ں �ور

�یسی صورت میں نالوں کے چڑھ جانے کی توقع ضرور کی جا سکتی تھی۔ یوسف ساجد

کے فن کے بارے میں ڈ�کٹر یوسف سرمست لکھتے ہیں کہ ’’�ن کی کہانی کے موضوعات عام

زندگی ہے تجربات ہیں ‘‘�ور یہ بات بڑی حد تک درست ہے ....... جہاں محض تخیل کار فرما ہے

�ن مقامات سے درگزر کیا جائے تو یوسف ساجد کے �فسانوں میں سرمایہ د�ری کے خلاف

جدوجہد، محبت، نفرت، پیار، قربانی �ور �یثار کے جذبات کے ساتھ فساد�ت، رویت ہلال جیسے

موضوعات موجود ہیں۔ �ن سب میں �ہم کہانی ’’ساتو�ں پھیر�‘‘ ہے جس میں �یک �نوکھی کیفیت

�نگریزی کے مشہور �ستاد �ور شاعر پروفیسر شیو کے کمار کی �یک نظم میں موجود بھی ہے ..... �س

بات سے قطع نظر کہ یوسف ساجد کے �فسانے کا �ختتام کیسے ہوتا ہے۔ ہر پھیرے کے دور�ن کئے

جانے و�لے عہد کے ساتھ ساتھ ماضی کے �ور�ق �لٹنے سے �فسانے میں �یک ندرت پید� ہو گئی

عمل �یک جھٹکا یا شاک ساپید� کرتے ہیں ...... �سی ہے۔ دولہن کی نفسیاتی کیفیت �ور �س کا رد

آ�تی ہے طرح کا �یک �ور �فسانہ ’’نیا تماشہ‘‘ ہے .... جس میں لڑکی �پنی ماں سے بغاوت کرنے پر �تر

...... �س لڑکی کی منگنی پہلے �یک کم تعلیم یافتہ نوجو�ن کے ساتھ کی گئی تھی......لیکن

آ�یا تو سابق منگنی کو توڑ کر نئی منگنی کی تیاریاں جب زیادہ تعلیم یافتہ یعنی گریجویٹ نوجو�ن کا رشتہ

ہونے لگیں تھیں �یسی صورت حال میں لڑکی مقابلہ کی ٹھان لیتی ہے �ور کھل کر �نکار کر دیتی ہے۔

آ�ز�دی نسو�ں یا پھر یوں کہئے کہ خو�تین کے ساتھ بھیڑ، بکریوں کی طرح �س طرح یوسف ساجد نے

آ�و�ز �ٹھائی ہے۔ سلوک کرنے کے خلاف

Page 204: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�گے ‘‘ کے عنو�ن سے �س مجموعہ میں �یک �ور �چھا �فسانہ ’’ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے

ملتا ہے ......جس میں فساد�ت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ �س کہانی کا مرکزی کرد�ر فساد�ت کی

خبریں پڑھ پڑھ کر �نسانیت کا ماتم کر رہا ہے۔ دریں �ثنا ریڈیو سے خون کے عطیہ کی �پیل نشر کی

جاتی ہے ..... �ور یہ کرد�ر جب خون کا عطیہ دینے کے لئے ہسپتال کی طرف جانے لگتا ہے تو

ر�ستے ہی میں فسادیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ یوسف ساجد نے �فسانہ �س لئے نہیں لکھا کہ �ردو

کے بڑے �فسانہ نگاروں کی صف میں شامل ہونا تھا ......�نھوں نے �فسانہ �س لئے لکھا کہ �نھیں

�پنے �حساسات کو �پنے تجربات کو �ظہار کا روپ دینے کے لئے �فسانے سے بہتر وسیلہ نہ مل

سکا۔ یوسف ساجد کی �فسانہ نگاری کی خصوصیت یہ ہے کہ �نھوں نے مقصدیت کو سامنے رکھتے

ہوئے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو موضوع بنایا ہے ....... �ن کے پلاٹ کہیں گٹھے ہوئے ہیں �ور

کہیں بکھرے بکھرے .....لیکن �س سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ �فسانہ نگار کیا

آ�فاقیت ہے ...... �س �عتبار کہنا چاہتا ہے ..... �ور �س کے پیش نظر جو مقصد ہے �س میں کتنی

سے �گر یہ کہا جائے کہ یوسف ساجد �یک کامیاب �فسانہ نگار ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔

-------------------------٭٭-------------------------

Page 205: Bain Us Sutoor بین السطور

ومسائل ترجمہ...... اصول اردو

قوموں کی تہذیبی تاریخ میں ترجمے کو �ہم مقام حاصل ہے۔ کیونکہ ترجمہ دونوں زبانوں کے

آ�پسی لین دین کے ذریعے ہی �نسان نے ترقی کی درمیان ر�بطہ کا �یک ذریعہ ہے۔ باہمی میل جول �ور

اا علمی ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ دیگر زبانوں میں موجود منزلیں طے کی ہیں۔ خصوص

آ�گہی حاصل کی جائے جس کے لئے دوسری زبانوں سے کماحقہ‘ و�قفیت ضروری علوم و فنون سے

�یک کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ �پنی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان سے بھی ہے۔ لیکن ہر

و�قف ہو۔ �یسے ہی موقعہ سے ترجمہ مدد دیتا ہے �ور دوسری زبانوں سے ناو�قف قاری کو �سی زبان میں

آ�شنا کرتا ہے۔ ترجمہ زندہ قوم کا عمل ہے۔ تصنیف �ور تخلیقی کاموں کے ساتھ موجود علوم و فنون سے

نظر رکھا جائے تاکہ وہ غلطیاں سرزد نہ ساتھ یہ ضروری ہے کہ دوسری �قو�م کی کوششوں کو بھی مد

ہوں جو دوسروں سے ہو چکی ہیں �ور �ن تمام باتوں کی کھوج میں وقت ضائع نہ کیا جائے جنہیں

بہت پہلے ہی معلوم کیا جا چکا ہے یا �ن کا حل پہلے ہی تلاش کیا جا چکا ہے۔ ترجمے کے

آ�گہی ممکن ہے ......�ور �س طرح نئی ر� ہوں کی ذریعے ساری دنیا میں ہونے و�لی تحقیق سے

آ�گے بڑھ سکتا ہے �ور یوں ترجمہ �نسانی تہذیب کے لئے �یک جست کا کام کرتا تلاش کا عمل

نے با ہے ......! عربوں نے �س نکتے کو بہت پہلے جان لیا تھا �ور یہی وجہ تھی کہ عباسی خلفا

فنون عربی میں ضابطہ طور پر �یک �یسا محکمہ قائم کر دیا تھا جہاں دنیا کی �ہم زبانوں سے علوم و

فنون سے مالا منتقل کئے جاتے تھے۔ �س کا لازمی نتیجہ یہ ہو� کہ عربی کا د�من دنیا کے تمام علوم و

........!مال ہو گیا

Page 206: Bain Us Sutoor بین السطور

�ردو کے �بتد�ئی تر�جم کو دیکھنے سے یہ بات و�ضح ہوتی ہے کہ یہاں ترجموں کی رو�یت

آ�غاز مذہبی تر�جم سے ہو�.......�سکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عو�م عربی �ورفارسی سے ناو�قف تھے ، کا

�ور �س دور میں یعنی سترہویں صدی تک مذہبی نوعیت کی تحریریں فارسی یا عربی میں تھیں جبکہ

قدیم �ردو تھی۔ چنانچہ �س دور کے عالموں �ور بالخصوص صوفیائے کر�م عو�م �لناس کی زبان ہندوی یا

نے یہ محسوس کیا کہ ترجمہ �یک �ہم ضرورت ہے تاکہ عو�م کو مذہب کے �ہم نکات سے و�قف کر�یا

جائے۔ �ور �سی لئے �نہوں نے ترجموں کا سلسلہ شروع کیا۔ ترجمے کے لئے کوئی بندھے ٹکے

�صول نہیں ہیں بالکل �سی طرح جس طرح تخلیقی عمل کے لئے کوئی ضابطہ نہیں بنایا جا

سکتا .......کیونکہ تخلیقی عمل کی طرح ترجمے کا تعلق �نسانی ذہن �ور �س کے �ندر پوشیدہ

صلاحیتوں سے ہے۔ جس میں جتنی زیادہ صلاحیت ہو گی �تنا ہی بہتر ترجمہ ہو گا۔ ترجمے کا �صل

مقصد یہ ہے کہ جس متن کا ترجمہ کیا جا رہا ہے �س کے صحیح مفہوم تک قاری کی رسائی ہو

سکے۔ �ور �گر یہی چیز موجود نہ ہو تو �یسا ترجمہ کار لاحاصل کے سو� کچھ نہیں۔

ترجمہ کرنے و�لوں کے لئے چند صلاحیتوں کا حامل ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے ......

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس زبان سے ترجمہ کیا جا رہا ہے �ن دونوں زبانوں پر مترجم کو

یکساں قدرت ہونی چاہئے تاکہ �صل مفہوم کو �س طرح منتقل کرے کہ زبان کے مز�ج کے خلاف

آ� سکے۔ مترجم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ �س موضوع آ�سا نی سے سمجھ میں بھی نہ ہو �ور

سے و�قف ہو جس کا ترجمہ مقصود ہے۔ موضوع سے و�قف ہونے کی صورت میں مترجم �س موضوع

بہتر ہو سکے گا۔دہ سے متعلق روزمرہ �ستعمال کئے جانے و�لے �لفاظ سے و�قف ہو گا، �ور ترجمہ زیا

�گر متر�دف �لفاظ موجود نہ ہوں مترجم کو �صطلاح سازی کرنی پڑتی ہے ......یہاں بھی مترجم کو یہ

آ�سانی سے قابل قبول نہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ نئی �صطلاح �تنی ثقیل نہ ہو کہ عو�م کے لئے

عام ہو جاتا ہے کہ نئی �صطلاح مقبول ہو ..... کبھی کبھی �صل لفظ ہی �س طرح زبان زد خاص و

Page 207: Bain Us Sutoor بین السطور

پاتی ...... ٹیلی فون، ٹی وی جیسے �لفاظ �ب زبان کا �یک حصہ بن چکے ہیں،�ن کے لئے نہیں ہو

آ�لۂ گفتگو �ور عکس بین جیسی �صطلاحیں تر�شی جا سکتی ہیں لیکن �نگریزی �لفاظ �تنے عام ہو گئے

ہیں کہ �ب �ن کے لئے نئی �صطلاحیں تر�شنا بے سود معلوم ہوتا ہے۔ لیکن �گر نئی �صطلاحوں کا

بار بار �ستعمال کیا جائے تو عو�م بھی �ن سے مانوس ہوں گے �ور �س بات کا �مکان ہے کہ �یسی

�صطلاحیں ہماری زبان میں د�خل ہو جائیں۔

دوسری زبانوں سے ترجمہ کرتے ہوئے �س بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ �صل مفہوم

کے ساتھ لطف بیان بھی باقی رہے �ور �یسا �سلوب �ختیار کیا جائے جو �جنبی نہ محسوس

............ہو

آ�ز�د ترجمہ....... لفظی ترجمے کی تین قسمیں ہیں۔ لفظی ترجمہ، با محاورہ ترجمہ �ور

ترجمے میں ہر لفظ کا ترجمہ �س طرح کیا جاتا ہے کہ وہ ترجمہ شدہ زبان میں �جنبی نہ محسوس ہو

محاورہ ترجمہ میں �س بات کا خیال رکھا جاتا ہے �ور مفہوم میں پیچیدگی بھی نہ پید� ہونے پائے۔ با

کہ �پنی زبان میں موجود مناسب �ور متر�دف محاروں کے ذریعے �صل متن کے مفہوم کو و�ضح کیا

رے �ستعمال کئے جائیں جن سےوجائے �ور زبان کے روز مرہ کا خیال رکھتے ہوئے �یسے محا

آ�ز�د ترجمے میں صرف مفہوم سے غرض ہوتی ہے۔ یہاں مرکزی خیال کو پیش نظر لطف پید� ہو جائے۔

رکھتے ہوئے �پنی زبان کے مز�ج کے مطابق موضوع کو ڈھال لیا جاتا ہے �یسے ترجموں میں کبھی

رو�ج کو بھی �س طرح بدل دیا جاتا ہے کہ �جنبیت کا �حساس مٹ کبھی �شخاص، مقامات �ور رسوم و

جائے۔

سچ بات یہ ہے کہ ترجمے کی مندرجہ بالا تین �قسام میں خط فاصل کھینچنا ممکن نہیں

ہے۔ لفظی ترجمے �گرچہ دیانت د�ری کا تقاضہ ہے لیکن صحیح متر�دف لفظ ملنا بسا �وقات مشکل ہو

جاتا ہے پھر بھی �گر مترجم زبان پر قدرت رکھتا ہو تو �س کے لئے یہ کو مشکل بات نہیں۔ �س کے

Page 208: Bain Us Sutoor بین السطور

بیشتر لفظی ترجمہ کرنے کی بجائے وہ �س پر مجبور ہو جاتا ہے کہ �یسا متر�دف تلاش و باوجود �کثر

کا ترجمہill fitted dress کرے جو مفہوم کو بہتر �ند�ز میں پیش کر سکتا ہو ......�گر

کہ �س جب کے لئے بیمار کا لفظ �ستعمال ہو تو �یسا ترجمہ مضحکہ خیز ہو جائے گاill کرتے ہوئے

کا بہتر ترجمہ بھد� لباس ہو سکتا ہے۔ یہاں لفظی ترجمہ کرنے کی بجائے �یسامتر�دف لفظ رکھا گیا ہے

میں پوشیدہ مفہوم کو و�ضح کرتا ہے۔ill fitted جو

محاورہ ترجمہ کرنے کے لئے مترجم کو �ور زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ورنہ سر سید با

کی طرح �گر عامیانہ قسم کے محاورے �ستعمال کئے جائیں �ور محل وقوع کا خیال نہ رکھا جائے یا

آ�د�ب کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو کئی مسائل پید� ہو سکتے ہیں۔ سر سید کی شخصیت سے متعلق

نیک نیتی پر شبہ نہیں کیا جا سکتا �نہیں لفظوں کے �نتخاب نے رسو� کر دیا۔

�نگریزی کا یہ جملہ دیکھئے۔

All were blowing hot but his smile tuned

the table.

�س کا مناسب ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ ’’تمام لوگ سخت برہم تھے مگر �س کی مسکر�ہٹ

تو مضحکہ خیز ہو �نگریزی جملے کا لفظی ترجمہ کیا جاتا نے نقشہ بدل دیا.......‘‘ �گر

اا کا محاورہ .......لیکن ’’نقشہ بدل دیا‘‘ میں Turned the table جاتا .....خصوص

وہی کیفیت ہے جو �نگریزی محاورے میں ہے۔

بیان کے معاملے میں آ�ز�د ترجمہ �س �عتبار سے منفرد ہوتا ہے کہ �س میں مترجم کو زبان و

آ�ز�دی ہوتی ہے۔ �صل متن کے مرکزی خیال یا بنیادی نکتہ کو سامنے رکھتے ہوئے مترجم �پنے پوری

آ�سان بھی ہے �ور وقت بھی بہت کم لگتا ہے۔ �سی لئے �لفاظ میں مفہوم کو پیش کرتا ہے۔ �یسا ترجمہ

Page 209: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�تی ہے تو لفظی ترجمہ یا با �خبار، ریڈیو �ور ٹیلی ویژن کے لئے خبروں کے ترجمہ کی ضرورت پیش

آ�ز�د ترجمہ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں قاری یا سامع کو �صل متن کے محاورہ ترجمہ کرنے کی بجائے

�سلوب �ور �ظہار کے پیر�یہ سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ تو صرف �صل بات جاننے کا خو�ہش مند ہوتا

آ�ز�د ترجمہ میں با محاورہ زبان بھی �ستعمال کی جا سکتی ہے لیکن صرف �س حد تک کہ صحیح ہے۔

ترسیل ممکن ہو سکے۔ ترجمے سے نئی �صطلاحیں فروغ پاسکتی ہیں �ور زبان کی وسعت میں �ضافہ

زبان کا حصہ بن چکی کے لئے ’’قومیانا‘‘ کی �صطلاح �ب �ردوNationalize ہوتا ہے جیسے

لیا جاتا ہے �سی طرح �سم سے بھی �سم بناVerb ہے۔ �نگریزی کی خوبی یہ ہے کہ �س میں فعل

�ردو میں بھی �س طرح کیBeautify سےBeauty سے بھی فعل بنانا ممکن ہے جیسے

کوششیں ہوئیں کچھ کامیاب ہوئیں �ور کچھ ناکام، لیکن بہرحال یہ سلسلہ جاری ہے �ور �سے جاری

رہنا چاہئے۔

آ�ز�دی ہے کہ وہ زبان آ�ز�د ترجمے کے ضمن میں �یک بات یہ بھی �ہم ہے کہ جہاں مترجم یہ

میں تصرف سے کام لے وہیں یہ پابندی بھی ضروری ہے کہ ترجمہ زبان کے مز�ج کے خلاف

بھی برقر�ر رہے۔ ہو........�ور تاثر

آ�ہ پیاری‘‘ کیا تھاOh Dear منشی تیرتھ ر�م فیروزپوری نے آ�ہ پیارے ‘‘ �ور ’’ کا ترجمہ ’’

لیکن یہ ترجمہ طبع نازک پر کس قدر گر�ں گزرتا ہے �سے �ہل ذوق �چھی طرح سمجھ سکتے

.......!ہیں

اا جہاں محاوروں کا ترجمہ کیا جائے تو مترجم کو بہت ترجمے کے عمل کے دور�ن خصوص

زیادہ چوکنا رہنا ضروری ہے۔ کیونکہ محاوروں �یک �پنا تہذیبی وسماجی پس منظر ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں

کہ ہر محاورہ کا متبادل مل جائے۔ �یسے موقعوں پر یا تو قریبی مفہوم کے محاورے سے کام چلایا

جائے گا یا مفہوم کو �س طرح بیان کیا جائیگا کہ �صل محاورہ کی لطافت موجود رہے۔ کبھی یہ ہوتا ہے

Page 210: Bain Us Sutoor بین السطور

کہ �یک �صطلاح کے لئے دو یا دو سے زیادہ متبادل �صطلاحات بن جاتی ہیں۔ جیسے �بتد�ء میں

Acidہستہ ترشہ�آ آ�ہستہ کے لئے ترشہ �ور تیز�ب دونوں �ستعمال ہوئے۔ بعد میں تیز�ب مقبول ہوتا گیا �ور

فر�موش کر دیا گیا۔ �س کا صاف مطلب یہ ہے کہ �صطلاح کو درجۂ قبولیت عطا کرنے و�لے عو�م ہیں۔

ہی چل نکلا �ور X Ray یں کیا گیا لیکن مقبول نہ ہو سکا �ورعشعا کا ترجمہ لاX Ray چنانچہ

زبان کا حصہ بن چکا ہے۔ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ لفظ کو �پنی زبان کے مز�ج کےX Ray �ب

مطابق تبدیل کر لیا جاتا ہے جیسے �سٹیشن، گلاس، ماچس وغیرہ۔ بعض لفظوں کے لئے جہاں دو

School of �لفاظ ہیں وہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ �ن کا محل �ستعمال بھی دیکھنا ہو گا۔

thoughtیا مدرسۂ خیال کہنا کے لئے مکتبۂ خیال یا مکتب فکر کہا جائے گا، مدرسۂ فکر

درست نہ ہو گا۔

تبر�لصوت کی �صطلاح آ�لہ مک ثقیل ترجمے سے گریز ہی بہتر ہوتا ہے۔ لاؤڈ �سپیکر کے لئے

آ�دھ تر�شی گئی تو عو�م نے �سے رد کر دیا �ور لاؤڈ �سپیکر ہی �ستعمال کیا جانے لگا۔ �صل میں �یک

زبان پر �کتفاء کرنے کی بجائے مترجم کو چاہئے کہ وہ �ن تمام زبانوں کے ذخیرۂ �لفاظ پر نظر رکھیں

آ�سان ہو جن سے ترجمہ ہونے و�لی زبان کا قریبی تعلق ہو �ور �یسے لفظ کو چنا جائے جس کی �د�ئیگی

�لفاظLatin �ور مفہوم بھی پوری طرح �د� ہو سکے۔ چنانچہ �نگریزی ترجمہ کرتے ہوئے جہاں لاطینی

کے لئے متبادل لفظ کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں جرمن یا فر�نسیسی �لفاظ سے بھی �ستفادہ کیا

گیا �ور کبھی لاطینی لفظ کو ہی �نگریزی کے مز�ج کے مطابق ڈھال لیا گیا۔ یہی صورت حال �ردو پر

آ�تی ہے۔ طرز تحریر یا �سلوب کا ترجمہ کرنا �یک بہت ہی مشکل �مر ہے۔ لیکن یہ مترجم کی بھی صادق

صلاحیت پر موقوف ہے۔ �گر مترجم دونوں زبانوں سے پوری طرح و�قف ہو �ور �ظہار پر بھی قدرت رکھنے

آ�گہی رکھتا ہو تو �س کے لئے مناسب �سلوب �ختیار کرنا مشکل کے علاوہ مختلف �سالیب بیان سے

نہ ہو گا۔

Page 211: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�گے بڑھ چکا ہے �نسان کی ضرورتوں میں �ضافہ ہو آ�ج کے �س دور میں جب کہ زمانہ بہت

فنون کے مید�ن میں تشنگی کے �حساس نے �نسان کو یہ سوچنے ہر مجبور کر دیا گیا ہے �ور علوم و

ہے کہ دوسری زبانوں سے �ستفادہ کرے �ور بلا تاخیر نئی معلومات سے بہرہ ور ہو۔ �ب تو سائنس �ور

ٹکنالوجی �س حد تک ترقی کر چکی ہے کہ کمپیوٹر کے ذریعے ترجمے کئے جا رہے ہیں �ور بیک

وقت کئی زبانوں میں ترجمہ ممکن ہے لیکن �س کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ مشینی ترجمہ

بہرحال مشینی ہوتا ہے۔ کیونکہ لفظ کی جگہ لفظ تو رکھ سکتی ہے �س میں وہ �حساس �ور جذبہ نہیں

آ� جانے کے باوجود پید� کر سکتی جو �صل میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ �سی لئے مشینی ترجمے کا دور

آ�ج بھی �تنا ہی �ہم ہے جتنا پہلے تھا۔ �ور �نسانی ذہن کی �ہمیت بہرحال �پنی جگہ قائم ہے �ور مترجم

کوئی بھی قوم چاہے کتنی ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو، مترجم کی �ہمیت کو تسلیم کرتی ہے۔ تاکہ دوسری

�قو�م سے مسابقت میں پیچھے نہ رہ جائے کیونکہ ترجمہ بہرحال �یک زندہ قوم کا عمل ہے �ور �ردو

�یک زندہ قوم کی زندہ زبان ہے۔

***

Page 212: Bain Us Sutoor بین السطور

منظر پس تمدنی کا زبان اردو

زبان کسی قوم کی شناخت ہے �ور �س قوم کی تمدنی �ور تہذیبی تاریخ کو سمجھنے کے لئے

�یک �ہم وسیلہ بھی ......�ردو �س �عتبار سے منفرد زبان ہے �س کا د�ئرہ کسی خاص گروہ تک محدود

نہیں بلکہ یہ زبان ہندوستان کی سرزمین پر پنپنے و�لی �یک عظیم مشترکہ تہذیب کی میر�ث ہے۔ وہ عظیم

جمن کے شاد�ب مید�نوں میں �ور مشترکہ تہذیب جو پنجاب کے لہلہاتے کھیتوں میں ، گنگ و

رو�ن چڑھتی رہی، جس نے عظیم ہندوستان کے طول وپدکن کے زرخیز علاقوں میں گجر�ت و

.......عرض میں محبت، رو�د�ری �ور یگانگت کے جذبے کو بید�ر کیا

رو�ج �پنانے کی �س محبت �ور یگانگت کے جذبے نے جہاں �یک دوسرے کے رسوم و

آ�ئی جو وقت کی طرف متوجہ کیا، وہیں لسانی بنیادوں ہر بھی لین دین ہو� �ور �یک �یسی زبان وجود میں

عرض میں �ستعمال کئے جانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ضرورت تھی �ور ہندوستان کے طول و

لہجے ضرور مختلف رہے ، �ند�ز بھی مختلف رہا، علاقائی �ثر�ت کی وجہ سے �یک مقام کی بولی �ور

آ�یا.......لیکن زبان کی تشکیل و فروغ میں نہ علاقہ حائل دوسرے مقام کی بولی میں نمایاں فرق نظر

ہو� �ور نہ قو�عد کے سخت گیر �صول ......�ردو �پنے طور پر بڑھی، �پنے طور پر �س نے دوسری زبانوں

آ�ہستہ �س قابل ہوئی کہ �س میں �دبی کارنامے ظہور پذیر ہو سکیں۔ آ�ہستہ سے �ثر�ت قبول کئے �ور

آ�غاز کے نظریوں پر غور کرنا شروع کیا تو �ن کے لئے ماہرین لسانیات نے جب �ردو کے

آ�غاز کے مختلف ہندوستان کے مخصوص تمدنی �ور تہذیبی پس منظر کا مطالعہ بھی ضروری بن گیا۔

Page 213: Bain Us Sutoor بین السطور

ضابطہ طور پر لسانیات کے طالب علم نظریوں کو پیش کرنے و�لے کچھ لوگ �یسے بھی تھے جو با

آ�ز� نہیں رہے۔ میر تمن �ور محمد حسین کو ماہرین لسانیات میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن �سد�

آ�غاز کے سلسلے میں کوئی شک نہیں کہ باہمی میل جول کو دونوں نے �ہمیت دی �ور �ردو زبان کے

آ�س پاس کے علاقوں میں میں �ن کا پیش کیا ہو� نظریہ کہ یہ زبان برج بھاشا سے نکلی ہے �ور �سکے

رو�ن چڑھی ....بہت دنوں تک جوں کا توں مانا گیا۔پ

بار کے ساحلوں پر کیا تو �نہیں ملا پر غور نصیر�لدین ہاشمی نے �ردو کے تمدنی پس منظر

آ�یا۔ چنانچہ �نہوں نے دکن کو �س زبان کا مولد عربوں �ور ہندوستانیوں کا باہمی میل جول بہت �ہم نظر

آ�غاز کو محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے قر�ر یی نے سندھ کو بنیاد مانا �ور �ردو کے دیا۔ سلیمان ندو

کر ملی جلی تہذیب کے نقطۂ �ولین کو متعین کرنے کی کوشش کی۔ حافظ محمود شیرو�نی سے جوڑ

آ�غاز کا سہر� باندھا...... گریرسن نے بھی �ردو کو ملی جلی تہذیب نے پنجاب کے سر �س زبان کے

پر� کرت سے متاثر ثابت کرنے دیا تھا ....... �س نے �ردو کو کسی خاص علاقے ، بولی یا کا پرتو قر�ر

آ�بہ �ور آ�غاز کو دو کی بجائے کئی بولیوں �ور زبانوں سے متاثر بتایا۔ لیکن بعد میں �س نے �ردو کے

باہمی میل جول کے روہیل کھنڈ کے علاقے تک محدود کر دیا.....شوکت سبزو�ری نے �ختلاط یا

نظریے کو سرے سے رد کر دیا �ن کا خیال تھا کہ زبان پہلے سے موجود ہوتی ہے �ور دوسری زبانوں

کے �ثر سے وہ طاقتور �ور بہتر �ظہار کی حامل بن سکتی ہے ..... لیکن دوسری زبانوں کے �ثر سے

آ�نا ممکن نہیں ہے۔ شوکت سبزو�ری �ور سہیل بخاری نے �ردو کو کھڑی �یک نئی زبان کا وجود میں

آ�غاز دیا۔ �ورپروفیسر گیان چند نے بھی �سی نظریہ کو �ہم قر�ر بولی کا بدلا ہو� روپ قر�ر دیا۔ �ور �ردو کے

آ�باد کے علاقوں تک محدود کر کے کھڑی بولی سے �س زبان کا ناطہ جوڑ دیا۔ کو دلی، بجنور �ور مر�د

تی کہنے یا جبکہ عبد�لحق نے کھڑی بولی کا مفہوم گنو�روں کی بولی لیا......کھڑی میں روٹی کو رٹ

درمیان کے حروف علت کو دبانے رو�ج عام ہے۔ شاید�س وجہ سے �نہوں نے �سے گنو�روں کی یا

Page 214: Bain Us Sutoor بین السطور

دیا ......جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کھڑی بولی کا بھی �پنا �یک پس منظر ہے ..... جاہلوں کی زبان قر�ر

نگر وغیرہ کھڑی بولی کے علاقے ہیں۔ �ور مسعود حسین کان کے مشرقی �نبالہ، سہارنپور، میرٹھ، مظفر

مطابق �ن علاقوں میں بولی جانے و�لی زبان کے علاوہ ہریانی میں بھی لفظ کے درمیانی حروف علت

گر�نے �ور مشدد �لفاظ �ستعمال کرنے کا رو�ج تھا �ور ہے ......گویا یہ خاص �ند�ز جغر�فیائی �ثر�ت کا

آ�ہستہ دلی کے باز�روں �ور محلوں میں �ردو زبان نے نز�کت آ�ہستہ تابع بھی ہو سکتا ہے .....لیکن

�پنائی۔ کرخت لہجہ �ور مکروہ �ند�ز خارج کر دیا گیا۔ لکھنؤ نے �س کی نز�کت میں �ور �ضافہ کیا �ور

�یک مخصوص لوچ سے �ردو کو سنو�ر� جو صرف �سی زبان کا حصہ تھا �ور �س زبان کے لکھنوی

دبستان سے تعلق رکھتا تھا۔

قبل �زیں گو�لیار �یک عرصے تک بلاغت �ور فصاحت کے معاملے میں �ہم مانا جاتا رہا۔

بیان کے �ند�ز ’’سب رس‘‘میں وجہی نے ’’گولیار کے چاتر�ں ‘‘ کا ذکر کر کے �ور �ن کے زباں و

آ�پس میں ملا کو سر�ہتے ہوئے خود �پنے طرز �نشا کی بھی ستائش کی ہے کہ �س طرح نظم ونثر کو

آ�رزو سے بھی ثابت ہوتی ہے �ور وہ کر کسی نے نہیں لکھا۔ گولیار کے فصحاء کی �فضلیت خان

بھی گو�لیاری کو مستند جانتے ہیں۔ لیکن محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں دہلی کے قلعہ معلی کی

آ� چکا تھا۔ �س زبان زبان �ور �مر� �ور شرفاء کی زبان مستند قر�ر دی گئی کیونکہ �ب �س زبان میں نکھار

کے محاورے �ور روز مرہ میں جھٹکے د�ر گنو�ر �ند�ز کے بجائے لوچ �ور مٹھاس کو �ہمیت دی جانے

آ� گیا۔ لگی....... �ور پھر لکھنؤ نے �س زبان کی تزئین کا کام �پنے سر لیا تو �ور بھی نکھار

�ن تمام باتوں کے باوجود �س �یک حقیقت سے �نکار ممکن نہیں کہ �ردو زبان کی بنیاد

آ�پسی محبت پر قائم ہے۔ کئی فرقوں �ور لسانی گروہوں میں بٹا ہو� ہونے کے باوجود یگانگت �ور

پروردہ ہے۔ یہاں رشتوں کا �عتبار بھی ہے �ور پڑوسی، ضابطہ سماج کا ہندوستان کا تمدنی مز�ج �یک با

ہم محلہ، ہم وطن �ور �سی طرح کے دوسرے سماجی رشتوں کی بھی �ہمیت ہے۔ �یک دوسرے کے

Page 215: Bain Us Sutoor بین السطور

دکھ سکھ میں شریک ہونا �پنے ذ�تی مفاد سے زیادہ �ہم مانا جاتا ہے۔ �س طرح کے سماجی رشتوں

�بلاغ کی �ہم خدمت �نجام دینے کے لئے جس زبان کی ضرورت ہو کو مضبوط کرنے �ور ترسیل و

سکتی ہے �س میں یہ قوت بھی ہونی چاہئے کہ بنیادی طور پر �س میں تنگ نظری نہ ہو..... دوسری

تہذیبوں سے ، دوسرے علاقوں �ور سماجوں کے تمدنی �ثر�ت سے ، دوسری زبانوں کے لسانی تنوع

آ�ئیں آ�سانی کے ساتھ گھل مل سکے۔ �ور یہ خصوصیات �گر کسی زبان میں بدرجہ �تم موجود نظر سے

آ�سانی سے مقبول ہوتی گئی۔ �س کی بنیاد تو وہ صرف �ردو تھی �ور �ردو ہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ زبان

اا ختم کر دی کھڑی بولی ہے یا برج، سندھی ہے یا پنجابی، یہ بحث تو لسانیات کے علماء نے تقریب

دیا ..... لیکن �ہم بات یہ ہے کہ کھڑی بولی �ور حتمی طور ہر کھڑی بولی کو �ردو کا �بتد�ئی روپ قر�ر

پر بھی دوسرے علاقوں کی بولیوں کے �ثر پڑے ، عربی وفارسی نے بھی �ثر جمایا، باہمی تعلقات نے

آ�گے بڑھا کر سماجی ضرورت بنا شکل بنتی گئی۔ ملاںدیا �ور �ردو می زبان کو تجارتی ضرورت سے

دل وجہی نے دکن میں سب رس لکھی تو �س کی وجہ یہ تھی کہ بادشاہ نے �س سے قصۂ حسن و

کو عام فہم زبان میں بیان کرنے کی خو�ہش کی تھی۔ �دھر شمال میں فضلی نے کربل کتھا لکھی تو

�س کے پیچھے یہ جذبہ کارفرما تھا کہ �ن عورتوں کے لئے و�قعات کربلا موثر �ند�ز میں لکھے جائیں

چال کی زبان سب رس �ور کربل کتھا کیل جو فارسی سے و�قف نہ ہوں .....گویا عو�م کی گھریلو بو

زبان تھی۔ یعنی �ردو کا جو �بتد�ئی روپ ہے وہ کم پڑھے لکھے عو�م کی بول چال بلکہ گھریلو خو�تین

کی گفتگو سے مستعار ہے �ور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ �س زبان میں شاعری کرنا گویا �یک طرح سے

پوچ بات تھی۔ وہ تو ولی نے شمالی ہند کو بتایا کہ �س زبان میں بھی وہی �تنی صلاحیت ہے کہ فارسی

شاعری کے کندھے سے کندھا ملاسکے .......�پنی زبان کے ساتھ تحقیر کا یہ رویہ �س وقت ختم

آ�یا جب یہ محسوس آ�ج پھر سے لوٹ ہو گیا جب �س زبان کو سرکاری سرپرستی مل گئی۔ لیکن وہی رویہ

ہو� کہ معاشی طور پر یہ زبان �تنی معاون ثابت نہیں ہو سکتی جتنی کہ علاقائی زبان یا بین �لاقو�می

.......!زبان

Page 216: Bain Us Sutoor بین السطور

کبھی وہ دور بھی تھا کہ �نگریزوں کو �پنی حکومت برقر�ر رکھنے کے لئے �ردو زبان کا سیکھنا

ضروری تھا۔ فورٹ ولیم کالج کی �دبی خدمات کو کون نظر�ند�ز کر سکتا ہے ..... �ور �ردو �دب کو جو

آ�فرینی کو کیسے فر�موش کیا جا سکتا ہے ......! لیکن سلیس پیر�یۂ �ظہار ملا �س کی �فادیت �ور �ثر

آ�ئے جو �نگریزی کا غلبہ رفتہ رفتہ �تنا بڑھ گیا کہ ہماری روزمرہ کی گفتگو میں سینکڑوں �یسے �لفاظ در

�نگریزی کے تھے �ور ہم نے �ن کا �ردو متبادل ڈھونڈ نے کی بجائے بہتریہی سمجھا کہ �ن �لفاظ کو

آ�ج کے جوں کا توں قبول کر لیا جائے۔ �ردو کے تمدنی پس منظر کی بازیافت کرتے ہوئے جب ہم

دور تک پہنچتے ہیں تو یہ محسو ہوتا ہے کہ �س سکڑتی ہوئی دنیا میں خالص زبان کی کوئی �ہمیت

نہیں رہی ہے۔ �س بات کی بھی کوئی �ہمیت نہیں ہے کہ کس زبان کا لفظ �ستعمال کیا گیا ہے۔

�بلاغ کے ذر�ئع �ستعمال کرتے ہوئے کسی زبان کو زبردستی سرپر �ہمیت �س بات کی ہے کہ ترسیل و

تھوپنے کی کوشش کی گئی، وہاں �س عمل کے خلاف بیز�ری کا جذبہ بھی نشو ونما پاتا رہا ہے۔

صرف �دبی تخلیقات پیش کرنا نہیں ہے۔ زبان کا مقصد یہ بھی نہیں کہ بھاری کیونکہ زبان کا مقصد

بھرکم غیرمانوس قسم کے �لفاظ �ستعمال کر کے �پنی علمیت کا �حساس پید� کیا جائے۔ زبان تو ہمارے

کجا �ن کو باقی رکھنا بھی سماج کی �یک �ہم ضرورت ہے جس کے بغیر تعلقات کو فروغ دینا تو

آ�ج کل �یسی ہی کشمکش سے دوچار ہے۔ ممکن نہیں �ور �ردو زبان

***

Page 217: Bain Us Sutoor بین السطور

نگاری قصیدہ کی ذوق

قصیدہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے �صطلاحی معنی ہیں سات یا دس �شعار کے ز�ئد

نظم۔ �ردو میں قصیدہ �س نظم کو کہتے ہیں جو کسی کی مدح یام ذم کے لئے لکھی جائے، یا

تعریف بہار یا شکایت روزگار وغیرہ کے مضامین باندھے جائیں۔ جب موعظت یا و نصیحت، پند وعظ و

تک شاہی دور رہا شعر�ء کی قدرو منزلت رہی �نھیں خطابوں سے نو�ز� گیا....جس شاعر نے قصیدہ

آ�ج بھی ہے لیکن قصیدہ گوئی میں کمال حاصل کیا �سے �ستاد تسلیم کیا گیا۔ ویسے یہ صورت حال

کی نوعیت میں تھوڑی سی تبدیلی ہو گئی ہے۔ ہیئت کو بدل کر ملکی، سماجی �ور سیاسی حالات کی

آ�ج بھی قصید نگاری کا سلسلہ جاری ہے �ور خطابوں کا رو�ج بھی چل پڑ�ہعکاسی کرتے ہوئے

........!ہے

یی لکھتے ہیں۔ مولانا شبل

ہمارے خیال میں عربی قصیدہ صلہ �ور �نعام کی توقع پر مبنی نہ تھا جیسا کہ مشہور شعر�ئے جاہلیت’’

کے قصائد سے پتہ چلتا ہے �ن کے قصائد حصول تفوق و ناموری �ور سیادت وسرد�ری کے �متیاز کے

فخریہ رجزیہ ہوتے تھے یا کسی و�قعہ کا بیان۔ �ن چیزوں سے صلہ لئے ہوتے تھے۔ عربی قصائد زیادہ تر

‘‘�ور �نعام کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔

قصیدہ کا رو�ج عربی سے فارسی �ور پھر فارسی سے �ردو میں منتقل ہو�۔ �ردو میں قصیدہ گوئی

پھر کسی کی ہجو کے لئے کی جاتی رہی۔ لیکن �ردو بادشاہوں �مر�ء وغیرہ کی مدح کے لئے یا

قصیدہ گوئی فارسی قصیدہ گوئی سے پیچھے نہیں رہی ......علمی �صطلاحات، فنی �ور مذہبی

Page 218: Bain Us Sutoor بین السطور

معنی، تلازمہ، صنعتیں �ن تمام سے قصائد کا د�من مالامال تلمیحات، پیچیدہ مسائل، فلسفہ، �دب و

آ�ورد کو دخل ہوتا ہے لیکن ماہر فن آ�مد کی جگہ �کثر ہے۔ قصیدہ کا �یک عیب یہ ہے کہ �س میں

آ�مد کی کیفیت پید� کر لیتے ہیں۔ شیخ �بر�ہیم ذوق �س کی عمدہ مثال ہیں۔ آ�ورد میں بھی قصیدہ گو

آ�ب حیات میں لکھا ہے۔ ذوق قصائد میں سود�کے پیرو آ�ز�د نے ہیں۔ محمد حسین

جاننے و�لے جانتے ہیں کہ �صلی میلان �ن کی طبیعت کا سود� کے �ند�ز پر زیادہ تھا۔ نظم �ردو کی’’

نقاشی میں مرز� ئے موصوف نے قصیدہ پر دستکاری کا حق �د� کر دیا ہے۔ �ن کے بعد شیخ مرحوم

کے سو�کسی نے �س پر قلم نہیں �ٹھایا۔ �ور �نھوں نے مرقع کو �یسی �ونچی محر�ب پر سجایا کہ جہاں

‘‘کسی کے )کا ( ہاتھ نہیں پہنچا۔

ثانی نے �ن کے �یک قصیدہ پر خوش ہو کر ذوق �نیس برس ہی کے تھے کہ �نھیں �کبر

کیا۔ �س قصیدہ میں نہ صرف �نو�ع و �قسام کے صنائع بد�ئع صرف کئے خاقانی ہند کا خطاب عطا

گئے تھے بلکہ کئی زبانوں میں �شعار لکھ کر شامل کئے گئے تھے۔ �س قصیدہ کا مطلع یہ تھا۔

ہر� مسکنھٹ کا جبکہ سرطان و�سد مہر

�یلولہ ہوئے نشونمائے گلشن آ�ب و

ذوق کی خوش قسمتی یہ تھی کہ �ن کے زمانے تک �ردو زبان کافی نکھر چکی تھی۔ �ور �س

آ�میز لہجہ مٹ چکا تھا �ور پھر �ن سے پہلے سود� جیسا مسلم �لثبوت �ستاد گزر چکا تھا جس کا بھاشا

بیان کے دیئے تھے۔ �س لئے ذوق کے قصیدوں میں زبان و چاند لگا نے �ردو قصیدہ گوئی کو چار

آ�میزش، نگینے عمدہ نمونے نظر آ�تے ہیں۔ �س کے ساتھ ساتھ ذوق کے قصائد میں رو�نی، فارسی کی

معنوی، علمیت غرض ہر وہ خوبی جو شعر کی طرح جڑے ہوئے �لفاظ، شوکت لفظی، صنائع لفظی و

کے بارے میں سوچی جا سکتی ہے ذوق کے قصائد میں موجود ہے۔ �س کی وجہ یہ محسوس ہوتی

Page 219: Bain Us Sutoor بین السطور

ہے کہ �نھوں نے متقدمین سے کافی �ستفادہ کیا۔ شاہ نصیر، مصحفی، �نشا �ن سب کا رنگ ذوق کے

پاس موجود ہے۔ �ور سود� کا �ند�ز تو گویا ذوق کی شاعری �ور بالخصوص قصائد میں رچ بس گیا ہے۔ شاہ

سلیمان ذوق کے قصائد پر یوں تبصرہ کرتے ہیں۔

ذوق کے پائے کا قصیدہ کہنے و�لا �ردو زبان میں �ب تک کوئی شاعر نہیں گزر�۔ مرز� رفیع سود�پر’’

‘‘بھی ترجیح دینا بے جا نہیں۔

لیکن ذوق کی طبیعت قصائد میں مشکل پسند ہے۔ جس کی وجہ سے شاعری متاثر ہو جاتی

ہے۔ ذوق نے �پنی شاعری کی قدرت کے �ظہار کے لئے �یسی زمینیں بحور �ور ردیفیں تلاش کر کے

�پنا کمال دکھایا جن تک شعر�ء کی رسائی نہیں تھی مقصد محض یہ تھا کہ وہ �پنے حریفوں پر چھا

جائیں۔ ذوق چونکہ بہادر شاہ ظفر کے �ستاد تھے �س لئے �ن کے حریفوں کی تعد�د بھی کم نہ تھی۔

�نھیں حریفوں کو نیچا دکھانے کے لئے ذوق نے قصیدہ �ور �ن میں �یسی �یسی صنعتیں �ستعمال

کیں جن کا �ستعمال ہرکس وناکس کے بس کا روگ نہ تھا۔ �ن کا قصیدہ نکال لیجئے �ور �س میں

سے کسی بھی شعر کا �نتخاب کر لیجئے کوئی نہ کوئی صنعت �س میں ضرور ملے گی۔ ذوق کے

اا کم �ور پھر ذوق نے �پنے قصائد میں مدح کرتے ہوئے �س ہاں رو�نی بے حد ہے لیکن معنویت نسبت

قدر غلوسے کام لیا کہ مذہبی �عتبار سے قابل �عتر�ض حدوں تک د�خل ہو گئے۔ �یک قصیدہ کا حسن

مطلع یہ ہے۔

پر ہے تری جلوہ نمائی یوں کرسی زر

جس طرح سے مصحف ہو سر رحل طلائی

Page 220: Bain Us Sutoor بین السطور

ذوق کے قصائد میں جہاں �ن کی زبان د�نی کا ثبوت ملتا ہے وہیں �ن کی مختلف علوم سے

و�قفیت بھی معلوم ہوتی ہے۔ ذوق کے قصیدہ ’’زہے نشاط �گر کیجئے �سے تحریر‘‘ میں �یک جگہ

حمل �ور حوت کا تذکرہ ملتا ہے۔ جس سے �ند�زہ ہوتا ہے کہ �نہیں علم نجوم سے بھی لگاؤ تھا۔

ملی ہیں تصویریں حمل سے حوت تلک جا

آ�تا جہاں وہ طب، فلسفہ و مضامین حکمت و منطق، موسیقی غرض کوئی مید�ن �یسانظر نہیں

بندر ہے ہوں۔ �ور لطف یہ ہے کہ ذوق �ن علوم کی �صطلاحات کے برجستہ �ستعمال سے شعر کو چار

ہیں لیکن رو�ں �ور شگفتہ بحور �ستعمال کی گئی دیتے ہیں۔ ذوق کی زمینیں سنگلاخ ضرور چاند لگا

ہیں۔ �ور ترنم وموسیقیت نے شعر کو نیا لباس دیا ہے۔ ذوق �لفاظ کے �نتخاب میں بڑی �حتیاط سے کام

لیتے ہیں۔ �ور �چھوتی ترکیبوں کو �ستعمال کرنے میں �نھیں ملکہ حاصل ہے۔ �نھوں نے غیر مادی

کو مشخص کر کے بھی �یک عجیب سامنظر پید� کیا ہے۔ �سی قصیدہ میں �یک جگہ کہتے ہیں �شیا

کہ ہے ہجوم نشاط وسرورجم غفیر

�یک �ور قصیدہ میں لکھتے ہیں کہ

‘‘نور سحر رنگ شفق ہوں دیکھ غرق حیا’’

موسیقی سے �ن کو لگاؤ تھا �ور وہ موسیقی کی �صطلاحات سے بھی بخوبی و�قف تھے۔ �ن

بجا کیا ہے۔ �صطلاحات کا �ستعمال بھی �نھوں نے �پنے قصائد میں جا

آ�و�ز خوشتر’’ ‘‘�ز بم وزیر نفس کے تارسے

�یک �ور قصیدہ میں لکھتے ہیں۔

Page 221: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�و�ز بلند �س قدر ساز طرب ساز کی

پید� دھیوت کھرج کا تو ہو تار چھیڑیں گر

طرب، کھرج �ور دھیوت موسیقی کی خاص �صطلاحیں ہیں۔ �سی قصیدہ میں �یک شعر یہ ہے۔

لے کے �نگڑ�ئی کہیں ہنسنے لگی ر�م کلی

آ�نکھوں کو کہیں �پنی للت �ٹھی ملتی ہوئی

ر�م کلی �ور للت یہ دونوں ر�گنیوں کے نام ہیں۔

اا �شعار۵۰�یک قصیدہ میں ذوق نے مختلف مید�نوں میں �پنی دسترس کے بارے میں تقریب

میں �ظہار کیا ہے۔ �س قصیدہ کا مطلع یہ ہے۔

شب کو میں �پنے سربستر خو�ب ر�حت

نشۂ علم میں سرمست غرور نخوت

آ�خر میں یوں لکھتے ہیں۔ �ور �پنی معلومات کا �ظہار کرتے ہوئے

�ک علم کی جانی تعریف جو ہر فائدہ کیا

�یک فن کی کھلی ماہیت ہر فائدہ کیا جو

اا ہر قصیدہ میں یہی رویہ رکھا ہے۔ وہ مشاقانہ �ند�ز میں �صطلاحات کا �نبار ذوق نے تقریب

لگاتے چلے جاتے ہیں �ور یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ �س فن میں کامل ہیں۔

آ�ز�د لکھتے ہیں محمد حسین

Page 222: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ئے تو �یسا معلوم ہوتا تھا گویا’’ آ�ئے تو وہ �ک صاحب نظر مؤرخ تھے۔ تفسیر کا ذکر تاریخ کا ذکر

اا تصوف میں �یک خاص شغف تھا۔ جب تقریر کرتے ، یہ معلوم تفسیرکبیر دیکھ کر �ٹھے ہیں۔ خصوص

آ�ئے تو وہ نجومی یزید بسطامی بول رہے ہیں ...... رمل و ہوتا تھا کہ شیخ شبلی یا با نجوم کا ذکر

......تھے

قصائد لکھے ہیں �ن میں صحت یابی کی رعایت سے موسم کی ذوق نے صحت یابی پر جو

معتدل کیفیات کا ذکر بھی کیا ہے۔ لیکن �ن کے بہاریہ مضامین میں مبالغہ بہت زیادہ ہے۔ �ور تخیل کا

رنگ �س حد تک غالب ہے کہ کبھی کبھی طبع نازک کو ناگو�ر گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ

عیشک تر ہے کہ کبھی وہ صوفی بن کر تصوف کا درس دیتے ہیں تو کبھی درویش بن کر ترک دنیا و

نشاط پر �کساتے کی تلقین کرتے ہیں ....�ور کہیں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کر کے عشق و

ممکنہ �ند�ز سے ممدوح کی مدح ہیں .......! �ن کے قصائد کا مطمح نظر محض یہ ہوتا تھا کہ ہر

کی جائے۔ �ور �س کے ساتھ ساتھ �پنی علمیت کی دھاک بیٹھائی جائے۔ �س میں وہ �کثر بے

پردہ شکوہ �لفاظ �ور تر�کیب کے طلسم نے �ن خامیوں پر �عتد�لیوں کا شکار بھی ہوئے ہیں۔ لیکن پر

ڈ�ل دیا ہے۔

قصیدہ میں سب سے زیادہ نازک مقام گریز ہے۔ ذوق نے گریز کے موقعوں پر �پنی مہارت کا

بے پناہ ثبوت بہم پہنچایا۔ وہ �س خوبی سے بہاریہ سے مدح کی طرف پلٹتے ہیں کہ بے ساختگی

محسوس ہوتی ہے۔ ’’زہے نشاط........‘‘ میں وہ �س طرح گریز کرتے ہیں۔

آ�گیں شمیم عیش سے ہے یہ زمانہ عطر

عبیر ہے زمیں تو گرد �گر کہ قرض عنبر

آ�تے ہیں ہجوم نشاط �ور عیش و �ور پھر عشرت کا تذکرہ کرتے ہوئے غسل صحت پر

Page 223: Bain Us Sutoor بین السطور

‘‘دیا ہے رنج کو دھو تیرے غسل صحت نے’’

آ�فرینی کو خاص �ہمیت دیتے ہیں حسن تعلیل، تلمیحات، ذوق �پنے قصائد میں مضمون

تشبیہوں �ور �ستعار�ت کے ذریعے مضمون کو بلند کرنے کا کوئی دقیقہ نہیں �ٹھا رکھتے۔ �ن کے

مضامین تنوع بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن �س کا د�ئرہ سود� کی طرح ہمہ گیر �ور وسیع نہیں۔ ذوق کے

معاشرتی حالات کا قصیدوں کی �یک �ور کمزوری یہ ہے کہ سود� کی طرح �ن کے قصائد میں ملکی و

عشرت کا باز�ر گرم ہے �ور ممدوح سے زیادہ پتہ نہیں چلتا۔ بس �یسا محسوس ہوتا ہے کہ عیش و

بہادر، حسین، علم، سخی �ور کوئی نہیں ..... جس کی وجہ سے تصنع کا رنگ پید� ہو جاتا ہے ....

لیتی �د� کی تازگی �ن عیوب کو چھپا آ�ہنگی، ذہنی �پج، طباعی، تخیل کی ندرت، طرز لیکن �ن کی بلند

ہے۔

محمد سحر لکھتے ہیں۔ �بو ڈ�کٹر

‘‘ذوق کا فن تقلیدی ہونے کے باوجود صناعی �ور فنکاری کا �یک کامیاب نمونہ ہے۔’’

بیان پر قدرت کا �ظہار ہیں۔ سود� کی پیروی کرنے زبان و گوئی �ور ذوق کے قصائد �ن کی پر

کے باوجود �ن میں سود� کی خصوصیات نہیں ہیں۔ �لبتہ �نہیں سود� کے بعد کے درجہ کا قصیدہ

........!!!نگار کہا جا سکتا ہے

---------------------٭٭---------------------

***

�ن پیج سے تبدیلی، تدوین �ور �ی بک کی تشکیل: �عجاز عبید

Page 224: Bain Us Sutoor بین السطور

آ�ئی فاسٹ نیٹ ڈ�ٹ کام �ور کتب ڈ�ٹ آ�رگ، کتابیں ڈ�ٹ فری ڈ�ٹ کام کی250�ردو لائبریری ڈ�ٹ

مشترکہ پیشکش

A presentation of http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, and http://kutub.250free.com