راز فاش ہوگیا - Home - The Mystery Unlocked book- Mystery... · Web viewاس کی...

209
1 زاز اش ف ا ی گ و ہ دش ق م زوح وں چ ر چ ے س ی ت ہ ک ے ہ ہ ک و% چ ے ن* ن س ی ک ت ق طا ے ن ھ ک ز ں7 ی ہ ں ی ہ ن ا ےدو ن* ن س

Transcript of راز فاش ہوگیا - Home - The Mystery Unlocked book- Mystery... · Web viewاس کی...

راز فاش ہوگیا

2

راز فاش ہوگیا

مقدس روح چرچوں سے کہتی ہے کہ جو سننے کی طاقت رکھتے ہیں انہیں سننےدو

ان آخری دنوں میں

راز فاش ہوگیا

THE MYSTERY UNLOCKED

By Mark Alexande

Printed in Australia 2011

Copyright © 2011 by Mark Alexander.

Published by -Mark Alexander.

Translated by – Christian-translation.com

All rights reserved and no portion of this book can be used or

reproduced in any form (with exception of Bible Quotations) without the prior written permission of the Publisher.

All Scripture Quotations are from "New King James Version Bible" Copyright @ 1982 by Thomas Nelson, Inc. unless otherwise specified

(NASB), which is ‘New American Standard Bible’ Copyright @ 1999 byZondervan Corporation.

راز فاش ہوگیا

حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا:

"کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جس کا پتہ نہیں لگایا جا سکے، اور نہ کوءی ہی ایسی چیز ہے جسے پوشیدہ رکحا جا سکے، لیکن اس کا پتہ لگانا چاہئیے۔"

"اگر کوئی سننا چاہتا ہے تو اسے سننے دیا جائے۔"

مارک ۴: ۲۲-۲۳

پیغمبر دانیا ل نے کہا:

"وہ [خدا] پوشیدہ چیزوں کا انکشاف کرتا ہے، وہ جانتا ہے کہ جو چیز تاریکی اور روشنی میں ہے اور وہ ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔"

[دانیال۲۲:۲ ]

حواری پال نے لکھا ہے:

" خدا کے علم عقل بہت ہی وسیع ہیں!

اس کے فیصلے اور اس کی راہ تک کس طرح پہونچا جاسکتا ہے!"

"خدا کی سوچ تک کوئی نہیں پہونچ سکتا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کوئی اس کا مشیر بنے؟"

رومنس۱۱: ۳۳-۳۴[یسعیاہ۱۳:۴۰ ؛ ارمیا ۱۸:۲۳]

دانیال نے جواب دیا:

"خدا کے نام کی ہمیشہ ہمیش حمد و ثنا جس کے لئےعقل و روشنی سراپا نور ہے۔

اور خدا وقت و موسم کو تبدیل کرتا ہے؛

وہ بادشاہوں کو معزول کرتا ہے اور پھر انہیں وہی تخت نشیں کرتا ہے

وہ دانشوروں کو عقل سے نوازتا ہے اور علم اسے عطا کرتا ہے جو اس کی سمجھ رکھتے ہیں۔"

[دانیال ۲: ۲۰-۲۱]

جب ساری دنیا یہ سوچتی ہے کہ سبھی موسمی تبدیلیاں، آفتیں اور عروج و زوال کا ذمہ دار آدمی ہے، پیغمبر حضرت دانیال کے مقدس اقوال خدا کے کلام سے ماخوزہے کہ یہ خدا ہی ہے جو وقت اور موسم کو تبدیل کرتا ہے،ب'ادشاہوں کو معزول کرتا ہے اور پھر ان کو تخت نشیں کرتا ہے'- نہ کہ آدمی کرتا ہے!

بائبل کے یہ مقدس قوم ہم تک صحیح وقت پر نہیں پہونچ سکے، 'آب و ہوا کی تبدیلی' و 'حکومتوں اور سلطنتوں کو ختم کرتا ہے' اوران کی جگہ پرنئی نسل کو لاتا ہے۔

بہت ہی واضح تنبیہ، بالکل وہی "بیان کئے گئے قول" – 'وقت یا موسم' باب ۷:۱ میں حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو بتایا تھاجیسا کہ ایک "پوشیدہ راز" کے بارے میں اشارہ کیاتھا جب کہ حواریوں نے ان کے دوبارہ آنےاور سلطنت کے قائم کرنے کے بارے میں پوچھا تھا؟۔ ان آخری دنوں میں حضرت عیسی علیہ السلام پوشیدہ راز کے پردے کو ظاہر کریں گے، جیسا کہ ان کے جواب باب ۷:۱ سے معلوم ہوتا ہے ،'وقت یا موسم' – جب ہم دیکھتے ہیں کہ واقعات ہورہے ہیں 'ایسا لگتا ہے - کہ وہ سامنے ہورہے ہیں'۔

"لیکن جنت میں ایک خدا ہے جو پوشیدہ رازوں کا انکشاف کرتا ہے، اور اس نے بادشاہ نِبوشنیژار(Nebuchadnezzar) کو بتایا ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا"

[دانیال ۲۸:۲ ]

صرف خدا ہی ہم کو 'وقت اور موسم' کے بارے میں سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے،ان آخری دنوں میں جب کہ ہم اپنی نجات کو پاس دیکھیں گے۔

یہ کتاب 'عقیدہ تثلیث' کو معنون کی گئی ہے، جو اپنی مقدس روح کے توسط سے اپنی مقدس صحیفوں کے رازوں کا انکشاف کرتا ہے۔ تعریف اور بزرگی ہمیشہ ہمیش اسی کے لئے ہے۔

یہ حضرت عیسی علیہ السلام تھے جنھوں نے اپنے مقدس صحیفوں کا انکشاف کیا اور میں نے انھیں چیزوں کو آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ انھوں نے کہا، ایک دستہ ویز لو اور جو کچھ بھی میں اپنے لوگوں اور تمام مخلوقات کے بارے میں کہتا ہوں اسے لکھو، جس کو میں نے سب سے پہلے تم سے کہا یہاں تک کہ آج بھی کہہ رہا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے نام کو اس کتاب میں بیان کرنے سے گریز کیا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ خدا اس راز کے انکشاف کا موجد ہے، جو کہ بہت لمبے عرصے تک پوشیدہ رکھا گیا تھا۔ لیکن اب یہ بات پیغمبروں کی آسمانی کتابوں کی تشریح سے معلوم ہوچکی ہے، اور ابدی خدا کے حکم کے مطابق ان سبھی کو معلوم ہوچکی ہے جو اس پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔

اس لئے میں اس کتاب کو دو سال آٹھ مہینے اس کے در پر بیٹھنے کے بعد، جس کا اس نے انکشاف کیا، اس کو پیش کر رہا ہوں۔ یہ کتاب اس کے حکم کے مطابق تحریر و تکمیل و شائع ہوئی ہے جس کی تصدیق مندرجہ ذیل مقدس صحیفوں سے ہوتی ہے:

یسعیاہ کی کتاب ۸:۳۰،۱:۶۱ ۔۲

ارمیا کی کتاب ۳۶: ۸۔۱

ہباکوک ۲: ۱۔۳

ہم بے یقینی اور کشمکش کی زندگی گزار رہے ہیں، بہت زیادہ باطل نظریات ارتداد و انحراف اور من گڑھت پیشینگوئیوں کے راءج ہونے کی وجہ سے اس پیغمبرانہ انکشاف کے وقت اس سے زیادہ مشکل اوقات نہیں پیش آسکتے ہیں ، اس طرح کا مقدس انکشاف خدا کی طرف سے اس کے بندوں کو پہنچتا ہے، قاری جب مکمل طور پر یہ کتاب پڑھ لےگا/لے گی تو وہ خود فیصلہ کریگا کہ مقدس کتابیں صرف آسمانی کتابوں ہی تشریح کرتی ہیں۔

یاد رکھئے باطل اور جعلی چیزیں اصلی چیز کو آنے سے نہیں روکتی ہیں، صحیح بات تو یہ نقلی چیز کو پاس ہونے یا آنے کی تصدیق کرتی ہے، اس لئے میں اعتماد کرتا ہوں کہ ہماری زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی روحوں میں اللہ تعالی کی تصدیق و معرفت میں وقت لگائیں کیوں کہ اب پوشیدہ راز عیاں ہوگیا، اور تب ہم دحیان دیں اس پر کہ مقدس روح نے کس چیز کی تصدیق کی ہے۔ جیسے ہم 'دن' کو نکلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

فہرست

مقدمہ

باب اول:کیا یہ کوئی یا متعین شدہ وقت ہوگا؟

فصل اول:

فصل دوم:

باب دوم:راز فاش ہوگیا

فصل اول:

فصل دوم:

فصل سوم:

فصل چہارم:

باب سوم:پیشینگوئی کی تمہید

فصل اول:

فصل دوم:

فصل سوم:

فصل چہارم:

فصل پنجم:

باب چہارم:پیشینگوئی

فصل اول:

فصل دوم:

فصل سوم:

فصل چہارم

خاتمہ:دن قریب آرہا ہے

مقدمہ

یہ کتاب 'راز فاش ہوگیا' کے مقدمے کے شروع میں میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف تو ہم یہ مانتے ہیں کہ یسوع مسیح کسی بھی وقت آسکتے ہیں، [ہم کہتے ہیں " اگر ابھی نہیں تو اسی رات کسی بھی وقت آسکتے ہیں "] لیکن دوسری طرف جب کوئی تفصیل میں جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں یہ مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے سے پہلے سب کچھ مکمل ہوچکا ہوگا، کیا یہ مضحکہ خیز نہیں ہے؟

اولاً تو یہ کہ اس راز کو مکمل طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے ہم سے اکثرو بیشتر غلطی ہوجاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ مسیح علیہ السلام کے دوبارہ واپس آنے کے دوحصے ہیں۔ آپ کے آنے کا پہلا حصہ وہ ہے جب وہ بادلوں میں اپنی دلہن سے ملیں گے اس وقت اہل ایمان کو انتہائی مسرت ہوگی[۱ کورینتھ۱۵: ۵۱-۵۸؛ ۱ تھسالونینس ۴: ۱۵-۱۸]۔ ان کے آنے کا دوسرا حصہ وہ جب خدا زیتون کے پہاڑ پر اپنا قدم مبارک رکھےگا تو مسیح علیہ السلام کے دور حکومت کا آغاز ہوگا [زکریا ۱۴: ۱-۲۱، وحی ۲۰: ۱-۶]۔

دوسری بات یہ کہ خدا نے خود اس نظریہ سے متعلق آسمانی کتاب کا عنوان رموز معرفت رکھا ہے اس سے آگے بڑھتے ہوئے دو اور پہلو [نظریات] ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ واپس آنے کے حصے کے درمیان [ان کے دوبارہ آنے کا پہلا اور ان کے دوبارہ آنے کا دوسرا حصہ] بائبل میں مسلسل ایک دوسرے پر متجاوز ہوتے ہوئے دیکھا گیاہے ۔ یہ اور زیادہ مشکل پیدا کرسکتا ہے کہ دوبارہ آنے کے دو حصوں میں سے کسی حصے کو حوالہ کے طور پر بتایا گیا ہے۔ لیکن تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو اب اپنی روح کے ذریعہ ان آخری وقتوں میں اس راز کو عیاں کر رہا ہے تاکہ ہم مستقبل میں ان کے ظاہر ہونے کے دن کو دیکھ سکیں۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کی کوئی بھی چیز مخفی رہنے والی نہیں ہے۔

میں اس کتاب میں جو آپ کو بتانے جارہا ہوں جس کا صرف مجھے انکشاف ہوا ہے وہ ان کے دوبارہ آنے کے پہلے حصے سے متعلق ہے، "حضرت مسیح علیہ السلام کی دلہن کا" جنت میں داخل ہونا اس راز کو ۱ کورینتھین ۱۵: ۵۱-۵۸ میں بتایا گیا ہے"۔ پھر بھی دونوں حصوں میں سے کوئی بھی غلط نہ ہو ، اس کے لئے[پہلا حصہ حضرت مسیح علیہ السلام و دوسرا حصہ ان کے دوبارہ آنے کا] خدا نے دنیا کو بنانےسے پہلے ہی اس وقت کو متعین کردیا تھا۔

محبانِ مسیح کے متعلق میری آپ سبھی سے درخواست ہے کہ اپنے ذہن کو کھلا رکھیں اور کسی بھی پہلے سے رائج تفکرات کی بنا پہ اپنے ذہن کو نہ بند کریں جب تک اس کا منبع صحائف ِسماوی پر مبنی ہوگا آسمانی کتابوں میں سے کسی میں کوئی اختلاف نہیں ہوگا [اگر تعریف و توصیف نہیں ہوتی تو آسمانی کتاب اس کی تصدیق کرتی ہے] تو ہمیں معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ ان آخری دنوں میں خدا مسیح علیہ السلام کے کلیسا کے بارے میں کسی انکشاف سے ہمیں باخبر کرنا چاہتا ہے۔

میں بتانا چاہوں گا کہ سب سے اچھی مثال حواری پطرس کے روشن اور واضح تصورات اس سے متعلق ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ خیال و تصور دو موقع پر خداکے الفاظ سے مختلف نظر آتے ہیں۔ ایک یہ کسی غذا کو کھانااور دوسرا غیر مقتول لوگوں کو اللہ بزرگوار کی طرف دعوت دینا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے حواری لوگ اپنے خیالات میں صحیح تھے۔ اور یہ بات ہم جانتے ہیں کہ آسمانی صحف یعنی لاوی قبیلہ کی کتاب میں سبھی طرح کی غذا کا ذکر ہوا ہے، اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آسمانی کتاب عہد نامہ عتیق میں لکھا ہے کہ جو کوئی بھی عیسائی مذہب کو اختیار کرنا چاہے اسے اپنا ختنہ کروانا ضروری ہے، ہم مزید یہ بھی جانتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام نے اس سے متعلق اپنے حواریوں سے کہا کہ صرف اسرائیل کے کھوئے ہوئے بھیڑ کو معلوم کرنے کے لئے باہر جائیں، اور پیغمبر نے خود کنعانی عورت کے نام کا ذکر کیا ہے، کہ اس نے صرف اسرائیل کے کھوئے بھیڑ کا پتہ لگانے کے لئے بھیجا تھا۔

لیکن کیا یہاں خاموشی اختیار کی جائے، کیا پطرس کے روشن و واضح خیالات کو باطل قرار دیا جائے، خدا کی حمد و ثنا ہو، ایسا نہیں ہوا یا مجھے اس راز کو بیان نہیں کرنا چاہئے تھا، اور آپ بھی ہم دونوں کی تحریروں کو نہ پڑھیں، کہ غیر یہودی لوگ دین سے باہر ہوتے اور اللہ تعالی کی طرفداری بھی کرتے، پطرس کے خیالات صحیح تھے، نہ صرف پطرس نے اس کا دعوی کیا ہے کہ خدا نے اسے یہ راز بتایا ہے بلکہ یہ ایک حد تک صحائف کی رو سے برحق ہے، دوسری طرف آسمانی صحائف نے خود اس کا ذکر کیا تھا کہ ہمارے پیغمبر نے سبھی طرح کی غذاؤں کے بارے میں کہا ہے، ہمارے پیغمبر حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو یہ حکم دیا کہ سبھی ممالک میں جاؤ اور وہاں کے لوگوں کو تثلیث[باپ، بیٹا، اور مقدس روح] کے نام پہ عیسائی مذہب میں داخل کرو، یادرکھو یہ حکم "سبھی اقوام" کے بارے میں تھا نہ کہ فقط یہودیوں کے متعلق ۔

مسیحی بھائیو اور بہنو! یہ کتاب آج کے چرچ کے لئے بہت واضح پیشینگوئی ہے باب اول سے باب چہارم تک۔ بہت سارےرموز و معرفت و آسمانی کتابوں کی تعریفات و تصدیقات کو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے، بغیرکسی شک و شبہ کے یہ تصدیق کرتی ہے کہ یہ نہ صرف مسیح علیہ السلام سے رائج ہے بلکہ اس کا ذکر آسمانی صحائف و مقدس کتابوں میں ہوا ہے، جو کہ بائبل میں بیان کئے ہوئے حصوں سے ملتے جلتے ہیں،اس سے بڑھ کر یہ آپ کے لئے ایک گواہی ہوگی جب آپ اس کا مطالعہ کریں گے [لیکن مقدس روح کی مدد کے لئے جو خدا کی پوشیدہ چیزوں اور آسمانی کتابوں کا علم رکھتے ہیں] مجھ جیسے ان پڑھ کے لئے فخر کی بات ہوگئی کہ اتنی معمولی حیثیت کا آدمی آپ کو رموز معرفت کے بارے میں اطلاع دینےکے قابل ہوسکا۔

"آدمی کے لئے ایک راز خدا کے لئے کبھی نہ کوئی راز تھا اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوگا!"

یسوع مسیح نے مقدس روح کے متعلق بات کرتے ہو ئے جان ۱۵:۱۶ میں کہا ہے "میری سبھی چیزیں خدا کی عطا کردہ ہیں، اس لئے میں نے کہا کہ وہ مجھ سے واپس لے گا اور اسے تم پر عیاں کرے گا"۔

حواری پال نے اپنے خطوط میں سے ایک خط میں ۱ کورنتھینس ۲: ۱۱- ۱۲میں بیان کیا ہے کہ "کیوں کہ جو آدمی دوسرے آدمی کی چیزوں کو جانتا ہے تو اس کے اندر روح کی جو تیزی ہوتی ہے اس کو قبول کرتا ہے؟ البتہ خدا کی چیزوں کو کوئی نہیں جانتا پھر بھی اس کی قوت کو تسلیم کرتا ہے"، "اب ہم کو وہ روح جس کی نسبت خدا سے ہے حاصل ہوچکی ہے نہ کہ دنیاوی روح، تو ہم کو ان چیزوں کے بارے میں جاننا چاہئے جسے خدا نے ہم کو عطیہ کے طور پر بخشا ہے"۔

باب اول

فصل اول

کیایہ کسی بھی وقت ہوسکتا ہے یا خدا کے ذریعہ متعین شدہ اوقات میں؟

کیا یسوع مسیح کسی بھی وقت ظاہر ہوسکتے ہیں جیسا کہ بتایا گیا ہے؟یا یہ 'متعین شدہ' وقت میں ہوگا؟

مقدس صحائف کیا کہتے ہیں؟

وقت کے متعلق یسوع مسیح کے کیا نظریات تھے؟

جان ۴:۲ "مسیح نے اس سے کہا ، "اے عورت تو میرے ساتھ کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ ابھی میرا وقت نہیں آیا ہے"۔

جان ۸:۷ "تم اس دعوت میں جا ؤ ۔ میں ابھی اس دعوت میں نہیں جارہا ہوں، کیوں کہ ابھی میرا وقت مکمل طور پر نہیں آیا ہے"۔

اوپر بیان کی گئی دونوں عبارتوں پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یسوع مسیح کچھ کرنے کے لئے ان کے لئے متعین شدہ وقت سے پہلے زور دیا جارہا ہے، وہ اپنے "متعین اوقات" کے بارے میں باخبر تھے۔

"ہرچیز کے لئے ایک مناسب وقت ہے، ہرمقصد کے لئے ایک وقت ہے"۔

[اِکلسیسٹس ۱:۳ ]

دو مقدس صحیفوں کے حصوں میں لکھا گیا ہے کہ پیغمبر کا پہلی بار آنا اور ان کا عدم تحفظ ایک مقرر کردہ وقت پر ہوا تھا۔

گلیشین ۴:۴-۵ "لیکن جب وقت مکمل ہو چکا تو خدا نے اپنے بیٹے کو آئندہ زمانے میں بھیجا: جو ایک عورت سے پیدا ہوا، دنیا کے قانون کے مطابق اس کی پیدائش ہوئی، تاکہ ہمیں بیٹوں کی طرح گود لینے کا شرف حاصل ہوسکے"۔

تموتھی ۶:۲ "جو خود بخود سب کے لئے ایک فدیہ عطا کرتا ہے تو تعیین شدہ وقت میں اس کی گواہی دی جائے گی"۔

مقدس صحیفوں میں درج ذیل بات کہی گئی ہے کہ پیغمبر کا دوبارہ آنا اور ان کےعدم تحفظ کی تکمیل بھی طے شدہ وقت پر ہوگی۔

ٹموتھی ۶:۱۴ -۱۵ "جب تک یسوع مسیح کا ظہور نہ ہوجائے تب تک تم اس حکم کو بغیر کسی چوں و چرا کے قبول کرو، جو کہ وہ اپنے عہد میں نمایاں کرے گا، وہی ہے جس پر خدا کا فضل و کرم ہے، اور وہ اکیلا بادشاہ ہے اور راجاوں کا راجا اور مالکوں کا مالک بھی ہے"۔

دانیال ۸: ۱۷-۱۹ وہ وہیں پر آئے جہاں میں کھڑا تھا، جب وہ آئے تو میں ڈر گیا اور اپنے چہرے کے بل گرپڑا؛ لیکن انھوں نے مجھ سے کہا، "اے آدم کی اولاد سمجھوکہ روشن اور واضح تصور وقت کے خاتمہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں"۔ اب جب کہ وہ مجھ سے بات کر رہے تھے تو اس وقت میں اپنے چہرے کو زمین پر رکھ کر گہر ی نیند سورہا تھا، لیکن انھوں نےمجھ کو چھوا اور مجھے سیدھا کھڑا کردیا، اور انھوں نے کہا، " دیکھو میں تمہیں باخبر کرنا چاہتا ہوں بے راہ روی کے آخری وقت میں کیا ہوگا، طے شدہ وقت میں سب کچھ فنا ہو جائے گی۔

دانیال ۸: ۱۷-۱۹ ان دنوں راجاوں کے دل برائی کی طرف مائل ہو جائیں گے اور وہ ایک ہی تخت پر بیٹھ کر جھوٹ بولیں گے، لیکن یہ کامیابی نہیں ہوگی، پھر بھی قیامت اپنے مقرر کردہ وقت پر ہی آئے گی۔ ان میں سے کچھ کی سمجھ میں آئے گا اور ان کا تزکیہ کریں گے اور انھیں درست کریں گے جب تک کہ وقت کی تکمیل نہ ہوجائے کیوں کہ یہ اپنے طے شدہ وقت پر ہی آئے تھے۔

دانیال ۱۲: ۴، ۹-۱۰ دانیال نے اپنی بات کو ختم کیا اور آخری وقت کے لئے کتاب پر مہرلگادی لیکن تم میں سے بہت سارے لوگ ادھر ادھر بھاگیں گے اور علم بڑھے گا، "حالانکہ میں نےسنا لیکن میں سمجھ نہیں سکا، تب میں نے کہا، "اے میرے مالک ان چیزوں کےآخر میں کیا ہوگا؟" اور انھوں نے کہا دانیال تم اپنے راستے پر چلو کیوں کہ قول ختم ہوچکا ہے اور آخری وقت تک کے لئے اس پر مہر لگادی گئی ہے۔

بہت سارے لوگوں کا تزکیہ کیا جائے گا، اور پاک کیا جئے گا لیکن بدکار لوگ برائی سے باز نہیں آئیں گے اور بدکاروں میںسے کوئی نہیں سمجھے گا لیکن عقلمندلوگ سمجھیں گے۔

یسوع مسیح نے اپنے حواریوں کو کیا جواب دیا جو ان کے دو بارہ آنے کے وقت کے بارے میں جاننا چاہتے تھے؟

مہربانی کر کے صحیح طریقے سے دیکھئے کہ پیغمبر نے کیا کہا

باب ۷:۱ اور انھوں نے ان سے کہا "تمہارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اوقات یا موسم کے بارے میں دریافت کروجو پدر بزرگوار[خدا] نے اپنے خود کےاقتدار کی بنا پر متعین کیا ہے"(NASB)

پیغمبر نے میری آنکھیں کھول دیں کہ ان کے دوبارہ آنے کا ایک ہی طے شدہ وقت ہے۔

سب سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوںاور باب ۷:۱ کے پہلے حصے پر زور دیتا ہوں، "یہ آپ کے جاننے کے لئے نہیں ہے جسے سب سے زیادہ غلط تشریح کی ہوئی اور غلط فہمی والا صحیفہ مانا گیا ہے جس کو عام طور پہ یہ خیال کیا جاتاہے کہ خدا کبھی نہیں چاہتا کہ یسوع مسیح کے دوبارہ آنے کا راز منکشف ہو۔

اس طرح کی سمجھ بالکل غلط ہے کہ تم جلد ہی دیکھو گے کہ ہر صحیفے سے یہ بات واضح ہے۔

یسوع مسیح نے جو کہا تھا وہ صحیح اور حق پر مبنی تھا اور باب ۷:۱ میں حواریوں کے سوال کے مطابق بالکل درست ہے۔

کیوں کہ یہ کسی کے لئے زیبا نہیں حتیٰ کہ حواریوں کے لئے بھی کہ خدا کے رموز معرفت کے بارےمیں جانیں۔

کیوں کہ یہ خدا کے اختیار میں ہے جو کہ وہ طے شدہ وقت پر جب کہ وہ سب کچھ درست پاتا ہے تو اپنے رموز معرفت کے انکشاف کا فیصلہ کرتا ہے۔

کیوں کہ یہ خدا کا معاملہ تھا کہ اس نے دانیال کو وقت پر اس راز سے واقف کرایا ،جب دانیال نے خدا سے بالکل ویسا ہی سوال پوچھا لیکن اسے بتا یا گیا کہ اس کا انکشاف آخری وقت پر کیا جائے گا۔ دانیال ۱۲: ۴، ۸-۹ ۔

ہم کو دانیال ۹:۱۲ میں مذکور جواب سے یہ اشارہ ملتا ہے "دانیال تم اپنے راستے پر چلو، کیوں کہ کلمات بند ہوچکے ہیں اور آخری وقت تک کے لئے مہر لگا دی گئی ہے"۔

خدا کےسچے قول کے مطابق یہ راز طےشدہ وقت پر[آخر میں] منکشف ہوگا۔ یہ سوچنا کہ راز ہمیشہ کے لئے مخفی کردیا گیا ہے اور اس پر مہر لگادی گئی ہے یہ سرا سر غلط ہے، اس طرح کی فہم محبینِ مسیح کے نزدیک سچ مچ خدا کے قول سے منحرف ہونا ہے۔

سام ۷۵: ۲-۳

"جب میں تعین شدہ وقت کا انتخاب کرتا ہوں تو میں ہی عدل کے ساتھ فیصلہ کرتا ہوں"۔

"زمین اور اس میں بسنے والی تمام چیزوں کو فنا ہونا ہے، اور یہ میں ہی اس کے ستونوں کو مضبوطی سےجمانے والا ہوں"۔

(NASB)

پیغمبر نے اپنے قول کے ذریعہ ہم کو واضح طور پر یہ بتایا ہے کہ حقیقتا ایک طے شدہ وقت ہے [نہ کہ کوئی بھی وقت] جب وہ دنیا کے ساتھ عدل و انصاف کرے گا جو کہ دو بارہ باب نمبر ۱۷: ۳۱ میں بیان کی گئی ہے۔

ڈیوٹرونامی ۲۹:۲۹ خدا کے سبھی انکشافات کی کنجی ہے، جس کو جب بلا یا جائے گا تو وہ کہے گا کہ خدا کی مخفی چیزیں ہیں جس کا طےشدہ وقت پر انکشاف ہوگا تاکہ اس کے ابدی مقاصد کو حاصل کرسکے اور اس کا اہم ترین مقصد اس کے بندے کو راہ راست پر لانا ہے۔

ایک راز ،راز ہی رہے گا جب تک کہ اس کا انکشاف نہ ہو!

فصل دوم

عہد نامہ عتیق پیغمبر یسعیا، پیغمبر ارمیا، پیغمبر اِزکیل کی پیشینگوئیاں:

ان آخری ایام میںاخدا کے بہت سارے بندے خدا کے قول کے مقابلے میں انسان کے تفکر کے بارے میں بات کرنا شروع کریں گے، اور ان کے اس انحراف سے آخری دنوں میں چرچ متاثر ہوگا۔ انحراف کا مطلب ہے سچ سے گریز کرنا۔

یسعیاہ کی کتاب ۲۹: ۱۰-۱۳ کیوں کہ تم پر پیغمبر نے گہری نیند کی روح کو غالب کردیااور تمہاری آنکھیں بند کردیں یعنی پیغمبروں کے مانند اس نے تمہارے سروں کو چھپادیا رسولوں کی طرح، تمام روشن اور واضح خیال تمہارے نزدیک اس طرح سے ہوگئے ہیں جیسے ایک کتاب کے الفاظ جس پر کہ مہر لگ چکی ہے، جسے لوگ کسی ایسے شخص کو سناتے ہیں جو پڑھا لکھا ہے یہ کہتے ہوئے سناتے ہیں "مہربانی کرکے اسے پڑھو" اور وہ کہتا ہے کہ "میں نہیں پڑھ سکتا ہوں کیوں کہ اس پر مہر لگ گئی ہے"۔ تب وہ کتاب کسی ایسے کو بتائی جاتی ہے جو کہ ان پڑھ ہے، یہ کہتے ہوئے مہربانی کر کے اسے پڑھو اور وہ کہتا ہے " میں پڑھا لکھا نہیں ہوں"۔ اس لئے پیغمبر نے کہا "جہاں تک ان لوگوں کا سوال ہے وہ اپنی زبان سےمیری تعظیم و تعریف کرتے ہیں لیکن انکے دل مجھ سے بہت دور ہیں اور میری طرف ان کا خوف انسانوں کے حکم کے ذریعے بتلایا گیا ہے۔

خدا کا غصہ جلد از جلد عیسائیوں پر ہونے والا ہے،جو خود کی احمقانہ رائے میں گھرے ہوئے ہیں اور احمقوں کے مانند ان پر اندھے پن کو غالب کرنے والا ہے، یسعیاہ باب مذکور میں ہے، حتی کہ خدا ان آخری ایام میں اپنے خفیہ مشوروں کے بارے میں جن پر ایک بار مہر لگ چکی تھی انکشاف کرتا ہے تو اس کے بندے مسلسل یہ مانتے ہیںکہ یہ ایک مہر لگی ہوئی کتاب ہے، "کوئی نہیں جانتا" "کوئی نہیں جانتا"کہ یہ متعین شدہ ہے، تعجب کی بات ہے کہ اس کے متعلق یسعیاہ باب ۲۹: ۱۰-۱۳ میں پیشینگوئی کی گئی تھی۔

پیغمبر یسعیاہ کے مقدس قول کو ان کے پیرو کار بھی مانتے ہیں:

'آدمی کے حکم سے لکھا گیا'

"اور میرے مدمقابل ان کا خوف آدمی کے حکم کے ذریعے بتلایا گیا ہے"۔

یسوع مسیح نے ہمارے زمانے کے لئے پیغمبر یسعیاہ کے ان مقدس اقوال کی کئی مرتبہ تصدیق و توثیق کی ہے ۱۳:۲۹ ۔

مارک ۷: ۶-۹ انھوں نے ان کو جواب دیا "کیا تم لوگوں کی مکاری و ریاکاری یسعیاہ کی پیشینگوئی ہے، جیسا کہ یہ لکھا گیا ہے"۔

'یہ لوگ اپنے قول سے میری تعظیم کرتے ہیں لیکن ان کے دل مجھ سےکوسوں دور ہیں'

اور یہ سب بیکار ہے جو وہ میری اطاعت کرتے ہیں اور لوگوں کی تعلیم کا حکم دیتے ہیں'

کیوں کہ ایک طرف تو خدا کے فرمان کو بغیر سمجھے ہوئے نظر انداز کرتے ہو، اور دوسری طرف تم انسانوںکی رائج کردہ چیزوں کی پیروی کرتے ہو۔ صراحیوں اور پیالوں کا دھونا اور اس طرح کی بہت ساری دوسری چیزیں تم کرتے ہو، " انھوں نے ان سے کہا، "اچھا تم خدا کے فرمان کا انکار کرتے ہو تاکہ تم اپنی روایت کو جاری و ساری رکھ سکو"۔

پیغمبر یسعیاہ اور یسوع مسیح کے وہ پیغمبرانہ کلمات یسعیاہ کے باب ۲۹: ۱۳اور مارک ۷: ۶ میں ہے "یہ لوگ اپنی زبان سے میری تعظیم کرتے ہیں" ہماری نسل کے سامنے آج دوبارہ ظاہر ہوا ہےجس پر زمانے کا اختتام ہونا ہے جیسا کہ ہم اپنی توصیف و عباد ت کے محاسن اور خوبیوں کو دیکھتے ہیں جو کہ اپنے عروج پر پہونچ چکی ہے ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک اتوار کی خدمات ہی بن گئی ہے۔ خدا اور اس کے قول کی فرمانبرداری کو درکنار کردیا گیا ہے۔ آج کے پیرو کار تعلیمات ، اصولوں، رسموں سے جڑے ہوئے لگتے ہیں اور ان چیزوں کو تسلیم کرتے ہوئے، بیان کرتے ہوئے اور حفاظت سے رکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیںجو ان کے لئے آدمیوں کے ذر یعہ سکھایا گیا ہے اسے آخری قول مانتے ہیں اس کے مقابلے میں جو مقدس روحوں کے ذریعہ رہنمائی کی گئی ہو، اور وہ جذباتی ہوجاتے ہیں جب ان آخری دنوں میں خدا کا انکشاف اپنے مقدس قول کے ذریعے نمایاں ہورہا ہوتا ہے۔

اس سے سچ مچ خدا ناراض ہوتا ہے مزید یہ کہ ہم عام فقروں کو نقل کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں ہم مختلف طریقوں کی نقالی کرتے ہیں جسیے کہ کوئی معروف عیسائی مقرر کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ آواز میں آواز ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔، لیکن افسوس کی بات ہے کہ روح القدس کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہم گھنٹوں عیسائی نشریات، عیسائی فلمیں دیکھنے اور عیسائی کتابیں پڑھنے میں صرف کرتے ہیں، عیسائی مجالس میں حاضری دیتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے بہت ہی اہم چیز کو نظر انداز کردیتے ہیں یعنی خدا کے اقوال و فرمان جب ہم کو بتاتے ہیں تو ہم جذباتی ہو جاتے ہیں۔

حواری جان کے کلمات ہمارے لئے نبوی کلمات تھے جیسا کہ اس نے ہمیں ۱ جان ۲: ۲۴-۲۸ کے باب میں تنبیہ کی ہے: "اس لئے تم اس کی پیروی کرو جو کہ تم نے شروع سے سن رکھا ہے، اگر تم اس کی پیروی کرتے ہو جو تم نے شروع سے سن رکھا ہے تو تم عقیدہ تثلیث کی پیروی کرو گے، اور یہ ایک ایسا وعدہ ہے جس کو اس نے ہم سے کیا ہے یعنی ہمیشہ ہمیش کی زندگی۔ ان چیزوں کو میں نے آپ کے لئے لکھا ہے تا کہ کو ئیآپ کو دھوکا دینے کی کوشش نہ کرے ، لیکن بپتسمہ کے وقت عیسائی بنانا جو کہ تم نے اس سے حاصل کیا ہے اور اس کی تقلید کرتے ہوئے تمہیں کسی سے کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جیسے تمہیں بپتسمہ کے وقت بھی چیزوں کے بارے میں سکھایا جاتا ہے، اور وہ راست ہے، جھوٹ نہیں ہے، اور تم اس کے پڑھنے کے بعد اس کے تابع ہوگے، اور چھوٹے بچے اس کی پیروی میں ہوں گےجب ان کا ظہور ہوگا، ہمیں ان کے دوبارہ ظہور پر پورا اعتماد ہونا چاہئے نہ کہ شرمندگی۔

آج ان آخری دنوں میں پیغمبر دانیال کے متعلق خدا کا قول باب دانیال ۱۲: ۸-۹ میں بالکل سہی ہے کہ خدانے آخری اوقات میں اپنے رموز معرفت کا انکشاف کرنا شروع کیا ہے، وہرموز معرفت جس پر کہ مہر لگ چکی تھی لیکن اب عیاں ہوگیا ،پھر بھی اس کے بندے محتاط نہیں ہیں۔

ارمیا ۸: ۷-۹ "حتیٰ کہ جنت کے پرندے بھی اس کے مقررہ وقت کو جانتے ہیں"۔ اور قمری، فاختہ، سمامہ اور ابابیل اپنے آنے کے اوقات کا مشاہدہ کرتی ہیں، لیکن میرے لوگ خدا کے فیصلہ کے دن کے متعلق نہیں جانتے ہیں۔ " تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ ہم عقلمند ہیں، اور اللہ کا قانون ہمارے ساتھ ہے" سنو جھوٹی تشریح کرنے والا قلم یقینی طور پر غلط ہی بیان کرتا ہے۔ عقلمند لوگ شرمسار ہو ئے ہیں، وہ ہراساں و پریشان کئے گئے ہیں، انھوں نے خدا کے قول کا انکار کیا ہے تو کیا وہ عقلمند ہیں؟

ازکیل ۱۲: ۲۲-۲۸ "آدم کی اولاد یہ کیا بات ہے کہ تم لوگ اسرائیل کی سرزمین سے وابستہ ہو جو کہ کہتے ہیں" ایام طویل کردئیے گئے ہیں اور اور روشن و واضح خیال ناکام ہوگئے ہیں" اس لئے ان سے کہو کہ خدا یہ فرماتا ہے: "میں اس کو تم لوگوں سے دور کروں گا اور وہ لوگ اسرائیل میں اس قول کا استعمال نہیں کریں گے"۔ لیکن ان سے کہتے ہیں، " ایام اور ہر روشن و واضح خیال کی تکمیل ان کے ہاتھ میں ہے"۔ کیوں کہ کوئی بھی باطل خیال یا عمدہ قیاس آرائی اسرائیل کے گھروں کے اندر اب زیادہ نہیں رہے گی۔

"کیوں کہ میں خدا ہوں، میں جو کہتا ہوں وہ ہوکے رہے گا، کیوں کہ یہ تمہارے ایام کے لئے اب اور نہیں ٹلے گا؛ ارے منحرف لوگو، میں جو بھی کہوں گا تو اس کو پورا کرتا ہو "خدا فرماتا ہے"۔

دوبارہ مسیح علیہ السلام کے الفاظ مجھ تک پہونچے، یہ کہتے ہوئے، "آدم کی اولا دیکھو، اسرائیل والے کہہ رہے ہیں، 'روشن و واضح خیال جو وہ دیکھتے ہیں، اب سے بہت دور ہے اور وہ اوقات سے متعلق پیشینگوئیاں کرتے ہیں کہ وہ بھی بہت دور ہے"۔ اس لئے ان سے کہو، اس طرح خدا کہتا ہے: " میرے اقوال میں سے کوئی بھی زیادہ وقت تک ملتوی نہیں ہوگا، لیکن قول جو میں کہتا ہوں ، ضرور ہوکے رہے گا، "خدا کہتا ہے"۔

ہباکک ۲: ۱-۴ " میں اپنی جگہ رہوں گا اور خود کے تحفظ کا انتظام کروں گا اور دیکھتا رہوں گا کہ وہ مجھ سے کیا کہے گا، اور میں اس کا کیا جواب دوں گا جب کہ میں راہ راست پر ہوں۔ تب پیغمبر مسیح نے مجھے جواب دیا اور کہا، "روشن و واضح خیال کو لکھو اور اسے سادہ کاغذ پر لکھو تاکہ ان لوگوں تک پہونچ سکے جو اسکو پڑھنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ روشن و واضح خیال ابھی بھی ایک طے شدہ وقت پر ہے؛ لیکن یہ آخر میں آشکار ہوگا اور یہ جھوٹ نہیں ہوگا۔ حالانکہ یہ توقف ہے، اس کے لئے انتظار کیجئے کیوں کہ حقیقتا یہ ہوکے رہے گا، اس میں دیر نہیں ہوگی۔ اے مغرور دیکھ، اس کی روح ان کے اندر درست نہیں ہےلیکن وہ صرف اس کی قسمت کی وجہ سے اس میں رہے گی"۔

ہیبروز ۱۰: ۳۷-۳۸ "کیوں کہ ابھی بھی تھوڑا وقت ہے اور وہ جو آرہا ہے وہ آئے گا اور اس میں دیر نہیں ہوگی۔ ابھی اس کی روح اس کے اندر فقط اس کی قسمت کی وجہ سے ہوگی، لیکن کوئی اندر جھانک کردیکھے تو میری روح اس کے اندر خوش نہیں ہے"۔ [اس قول کی طرف اشارہ کرنا کافی دلچسپ ہے جو ہباکک اور عبرانی سے ملتا ہے، اس میں دیر نہیں ہوگی، یہ فقط اپنی قسمت کی وجہ سے اس میں زندہ ہوگی، وہ جو آرہا ہے اس کے ساتھ ایک طے شدہ وقت تک کے لئے رہے گی']۔

خدا نے تورات کے باب اول ۴:۱۵ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بشارت دی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلامکے وہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ تورات کے باب اول ۶:۱۵ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس قول پر اعتماد کیا اور خدا نے ان کے لئے اسے بالکل سہی کر کے دکھایا۔ لیکن تورات کے باب اول ۱۶ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی سارہ کے اعتبار کو مکمل ہونے میں دس سال کا وقفہ گذر گیا تورات کے باب اول ۱۸ میں خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دوبارہ کہتا ہے، "کیا کوئی بھی چیز خدا کے لئے مشکل ہے؟ میں مقررہ وقت میں تمہارے پاس دوبارہ آوں گا، طےشدہ وقت کے مطابق سارہ کو ایک بیٹا ہوگا"، [تورات باب اول ۱۴:۱۸]۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بائبل میں بتایا گیا ہے، جب ان کے بچے کی پیدائش کا وقت گذر گیا تو ان کو شک ہوا، لیکن خدا اپنے وعدے کو نہیں بھولا کہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ کو خود ان کے بطن سے ایک بیٹا عطاکرنا ہے۔

آج بہت سارے عیسائی یسوع مسیح کے دوبارہ آنے کے بارے میں سوال کر رہے ہیں اور کچھ مسیح علیہ السلام کے بھیجے جانے کے بارے میں ہم سے سوال کر رہے ہیں۔ حواری پطرس کے پیغمبرانہ کلمات ہمارے لئے ایک یادگار نشانی ہیں کہ خدا مسیح علیہ السلام کو طے شدہ وقت پر مبعوث کرے گا۔

۲ پطرس ۳: ۳-۴ "یہ جانتے ہوئے کہ مطعون لوگ آخری دنوں میں ظاہر ہوں گے اور وہ اپنی خود کی خواہشوں کے مطابق چلیں گے اور کہیں گے،ان کے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟ کیوں کہ تبھی سے پدر بزرگوار سوئے ہوئے ہیں، اور سبھی چیزیں اسی طرح ہیں جس طرح کائنات کی تخلیق کی شروعات میں تھیں۔

باب ۱۷: ۳۰-۳۱

حقیقتا جہالت کے ان اوقات کو اللہ نے نظر انداز کردیا، لیکن اب لوگ اپنے کئے ہوئے کرتوتوں پر نادم ہیں کیوں کہ اس نے ایک دن متعین کیا ہے جس دن دنیا کا فیصلہ کرے گا تو وہ شخص کامیاب ہوگا جس نے اس کے حکموں کے مطابق اپنی زندگی گذاری۔

ہم کہتے ہیں کہ ہم اس ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں جو عالم الغیب ہے۔

عالم الغیب کا کیا مطلب ہے؟ خدا ازل سے لےکر ابد تک سب کچھ جانتا ہے۔

کیوں کہ وقت اس کے تابع ہے۔

ہمیشہ خدا کے نزدیک ایک مقرر کردہ وقت ہے کسی بھی وقت اللہ کے ساتھ یہ کبھی نہیں ہوگا یا ہمیشہ ہوگا حتیٰ کہ مسیح کے ظہور کے وقت بھی۔

ہمیشہ ہماری دعا یہ ہونی چاہئے

"اے خدا، روح القدس کے ذریعہ تصدیق کیجئے جو لکھا جاچکا ہے

نہ لوگوں کی تعلیم سے"

کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں تعجب ہو!

[جان ۴۵:۶؛ جان ۸: ۳۱-۳۲؛ ۱جان ۲: ۲۴-۲۸- بہت اہم ہیں]

باب دوم

راز فاش ہوگیا

فصل اول

بائبل کے مطابق رموز معرفت کیا ہے؟

رموز معرفت کے معنی ایک ایسی حقیقت ہے جو کہ پہلے مخفی تھی لیکن اب اس کا انکشاف ہوچکا ہے۔

مثال کے طور پر "مسیح سے متعلق راز"، روح القدس کے راز جو کہ ایک پیروکار کے اندر ہوتے ہیں، 'بائبل کے راز'، 'خدا کے لئے یہودیوں اور غیر یہودیوں کے متحد ہونے کا راز' بشمول ' چرچمیں حضرت مسیح کے دوبارہ آنے پر اہل ایمان کا جنت میں پہنچانے کا راز"۔

رموز معرفت اسی راز کی بات ہے جسے سبھی لوگوں سے مخفی رکھا گیا ہے، لیکن وقت کے گذرنے پر یہ مختلف وقفہ پر ان کی پوری سیادت کے مطابق انکشاف ہوا ہے۔

یسوع مسیح کا راز ایک حقیقت ہے جو کہ بہت ہی گہرے علم و بصیرت پر مبنی ہے جسے انسان سمجھنے سے قاصر ہے، اور یہ خدا کی طرف سے منکشف ہوگا، اور جب ایک بار سچائی کا انکشاف ہوگیا تو رموز معرفت سمجھ میں آجائے گا۔

رموز معرفت کے بارے میں اکثر متضاد زبان کا استعمال کیا جا تا ہے۔

ان متضاد خیالات میں دو سچائیاں ہیں لیکن جب ایک کے بعد ایک پیش کی جاتی ہیں تو جھوٹی معلوم ہوتی ہیں پھر بھی ان کا اور زیادہ انعکاس یعنی انکشاف کی سمجھ، وہ تصدیق کرتے ہیں، نہ کہ ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں اور اس طرح پوری ایک نئی حقیقت کا پتہ چلتا ہے، ایک دوسرے کی تردید نہیں کرتے ہیں، اس کے علاوہ وہ ایک دوسرے کی توصیف کرتی ہیں، جس سے ایک صحیح ماحول بن جاتا ہےجو ہم کو "تمام سچائیوں" کو ماننے کی اجازت دیتے ہیں۔

عیسائیوں کے اعتماد میں وہ سبھی روموز معرفت شامل ہیں، ایسے رموز و معرفت جو متناقص زبان کے درمیان سب سے اچھی بات کہتے ہیں۔

مثال کے طور:

۱۔ ہم تثلیث کے منفی نظریہ کو مانتے ہیں"خدا ایک ہے اور تین بھی"۔

۲۔ تجسیم کا تضاد "مسیح مکمل طور پر خدا سے منسوب انسان تھے" [مثال کے طور پر، جب وہ زمین پر گامزن ہوئے]۔

۳۔ صلیب کا تضاد، "کیوں کہ صلیب کا پیغام ایک پاگلپن ہے جو ان کو ہلاک و برباد کرتا ہے، لیکن وہ پیغام جو ہم تک محفوظ پہنچا ہے یہ خدا کی مہر بانی ہے، جو اس زمانے کے کسی بھی حکمراں کے عقل میں یہ بات آجاتی، کیوں کہ اگر ایسا ہوجاتا تو وہ لوگ حضرت مسیح کو سولی پر نہ چڑھاتے" [۱ کوریتھینس ۱: ۱۸ اور ۲: ۸]۔

۴۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک طرف ہم خدا کی رحمت سے انکار کر رہے ہیں اور دوسری طرف خدا کی رحمت کے ذریعہ نجات حاصل کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اپنی خود کی عافیت کے لئے خوف زدہ ہوکر کام کریں۔

۵۔ ہماری زندگی کے ختم ہونے اور اس کے دوبارہ ملنے کے بارے میں اختلاف۔ اس کے متعلق مسیح علیہ السلام نے کہا، 'وہ لوگ جو دنیا میں آئیں ہیں وہ فنا ہوں گے اور وہ لوگ جو اپنی زندگیاں مجھ پر قربان کریں گے اسے دوبارہ پائیں گے'۔

۶۔ خدا سے نئے تعلقات قائم کرنے کے بارے میں تضاد، "ہم گنہ گار ہیں لیکن پھر بھی خدا کے سامنے پاک دامنی کا اظہار کرتے ہیں"۔

۷۔ خوف زدہ نہ ہونے کے بارے میں تضاد ،اور عقلمند لوگ شروع ہی سے خدا کا خوف رکھتے ہیں۔

اس لئے آپ دیکھیں گے کہ عیسائیوں کا ایمان زیادہ تر"تضاد"پر مبنی ہے۔

ایک عیسائی کے لئے یہ چنوتی ہے کہ وہ ان رموز و متضاد چیزوں کو سمجھنے اور معلوم کرنے کے لئے روح القدس کے ذریعے انکشاف کی ہوئی چیزوں کو سچ پائیں نہ کہ انسانی تخیلات کو، جب خدا انہیں وقت کے مختلف وقفوں میں ہم پر عیاں کرتا ہے، تب انکشاف اور علم کے ذریعے سے ان عیاں رموز کا پردہ فاش ہوتا ہے۔

میتھو ۳۶:۲۴ اور مارک ۳۲:۱۳، میں ایک ایسے راز کا ذکر کیا گیا ہے جو میں مانتا ہوں، متضاد زبان کے ذریعے سے انکشاف کیا گیا اورسمجھایا گیا۔ جب میں متضاد چیزوں کی دو حقیقتوں کو یکےبعد دیگرے بیان کرتا ہوں تو وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں جو حقیقت کے ہر ایک پہلو کو بتاتے ہیں۔

دونوں حقیقتوں کے سمجھنے اور یسوع مسیح کے قول کے پیچھے ایک پوشیدہ راز ہے جو کہ بائبل کے حصے میتھو میں ملتا ہے۔

"کوئی نہیں جانتا ہے" [میتھو ۳۶:۲۴ ]۔

"کوئی ایسی پوشیدہ چیز نہیں ہے جسے معلوم نہ کیا جاسکے" [میتھو ۲۶:۱۰]۔

مندرجہ بالا عبارتیں ان اختلافات[تضاد] کی حقیقت پر دال ہیں جن کا علم ہمیں طے شدہ وقت پر ہوگا۔

عام طور پر کیا ہوتا جب ایک بالکل نئی وحی اور پوشیدہ راز روح القدس کے ذریعے سے منکشف ہوگیاہو؟۔

اولاً: جس شخص کو یہ ھاصل ہوتا ہے، اسے کسی آدمی کے ذریعہ تعلیم نہیں دی گئی ہوتی ہے اور نہ ہی تصدیق کے لئے کسی آدمی سے رابطہ کرتے ہیں [گلاشینس ۱: ۱۱-۱۲ ، ۱۵-۱۷؛ پطرس ۱: ۲۰-۲۱؛ ۱جان ۲: ۲۷]۔

ثانیاً: جس شخص کو یہ ملتا ہے اس میں یک بارگی بہادری کی علامت نمایاں ہوجاتی ہے، اس کا اعلان کرنے کے لئے یہ بالکل نیا راز ہے جو پوشیدہ تھا اور اب منکشف ہوگیا ہے۔ [اموس ۸:۳؛ میتھو ۱۰: ۲۶-۲۸]۔

ثالثاً: وہ شخص جو اس کا اعلان کرنےکے لئے آگے بڑھتا ہے تو اسے لوگوں کے بیچ سے ہی بہت زیادہ مخالفت اور ناراضگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ [میتھو ۵: ۱۰-۱۲؛ میتھو ۱۰: ۲۴-۲۵؛ لوقا۶: ۲۲-۲۳ اور ازکیل ۳۳: ۱-۱۱]۔

خدا کے بندوں کےنام کی کچھ ایسی مثالیں جنھوں نے خدا سے ایک نئی وحی حاصل کیا ہے اور وہ اس کا بہادری کے ساتھ اعلان کرنے کی جرات کی ہے تو انھیں روح القدس کے ذریعہ ہٹادیا گیا، اور وہ اس سے نہیں باز آتے، حالانکہ ابتدا میں انھیں خفیہ طور پر سزا ملنےکا ڈر ہوتا ہے:

· پیغمبر حضرت یسعیاہ: یسعیاہ ۶: ۷-۱۰۔

· پیغمبر حضرت ارمیا: ارمیا ۱: ۱۷-۱۹۔

· حواری پطرس: جنھوں نے شروعاتی دور میں اپنے خود کے یہودی پیروکار کی مخالفت کا سامنا کیا، تب اس نے کہا کہ خدا کی رحمت نازل ہوگئی ہے کہ غیر یہودی لوگوںکو مختون کیا گیا۔ حواری پال اس وحی کو ذکر کرتے ہیں جو ایک راز کی حیثیت سے اِپھیسِیانس ۳: ۲-۷ میں درج ہے، جس کے بارے میں دوسرے زمانےمیں نہیں بتایا گیا تھا لیکن اب یہ مقدس روح کے ذریعہ عیاں ہوچکا ہے۔

· ولیم ٹیندال: جس کو پھانسی دی گئی تھی [تختے پر جلا دیا گیا] بائبل کو انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

· مارٹن لوتھر: جس نے عیسائیوں کی آنکھوں کو کھول دیا اور یہ کام کسی قانون کے تحت نہیں ہوا بلکہ خدا کی رحمت سے ہوا۔

· اساق واٹس: جس کو روحانی نظم لکھنے کے لئے کلیسا میں عبادت کرنے سے محروم کردیا گیا، [جب میں معجزاتی صلیب کا مشاہدہ کرتا ہوں تو ان میں سے ایک چیز ہوتی ہے کیوں کہ اس کی تعلیم دی گئی تھی کہ صرف کتاب الادعیۃ ہی خدا کی حمد و ثنا میں پڑھی جانی چاہئے۔

ایک بار جب راز کاانکشاف کیا جاتا ہے:

تو اس کو بیان کرنےکے لئے اس پوشیدہ راز کا انکشاف خدا کے بندوں کے ذریعہ ہوتا ہے۔

خدا کے راز کے انکشاف کے لئے حواری پطرس کی مہربانی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اب نجات پانےکا راستہ سب کے لئے کھل گیا ہےجیسا کہ غیر یہودیوں کے لئے۔

میں مارٹن لوتھر کی مہربانی اور بہادری کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ خدا کا بھی مشکور ہوں کہ عیسائیوں نے بت پرستی چھوڑ دی ہے۔

میں جان وکلف اور ولیم ٹنڈیل کی بہادری و فرمانبرداری کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہم بائبل کو اپنی مادری زبان میں پڑھ سکتے ہیں۔

اپھیسین ۳: ۲-۵ اگر تم سچ مچ خدا کی رحمت کے بارے میں سن چکے ہو جو کہ تمہارے لئے مجھے عطا کی گئی تھی، کہ کس طرح اس نے اس رموز معرفت کا انکشاف کیا ہے [جیسا کہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں جسے جب تم پڑھو گے تو تم مسیح علیہ السلام کے پوشیدہ راز کے بارے میں میری تعلیم کو سمجھ سکوگے]۔

بائبلمیں رموز معرفت وقت پر مثالی حکایات کی شکل میں کہے گئے ہیں۔

ہم میں سے بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ مثالی حکایتیں صرف آسان لفظوں میں تشریح کرنے کے لئے ہیں لیکن وہ صحیح نہیں ہیں۔ ہم یہ سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں کہ بائبل اس کی حمایت نہیں کرتا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مثالی حکایتیں دوسرے پوشیدہ رازوں کے مانند مخفی چیزوں سے باخبر کرتی ہیں، لیکن جب تک ان کا انکشاف نہیں کیاجائے گا تب تک اس کو مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔

دیکھو مسیح علیہ السلام نے مارک ۱۱:۴ میں مثالی حکایتوں کے متعلق کیا کہا تھا، "تمہیں خدا کی سلطنت کے راز کے بارے میں باخبر کردیا گیا ہے لیکن وہ لوگ جو خارجی ہیں وہ مثالی حکایت کے اندر سب کچھ پاتے ہیں" ہم اس کو میتھو ۱۳: ۳۴-۳۵ میں بھی پاتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بائبل میں پوشیدہ راز کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان نظموں اور اقوال کو پیشینگوئی کی طرح بیان کیا گیا ہےاس کا انکشاف کیا جانا چاہئے {فقط روح القدس کے توسسط سے} جب وقت پورا ہوجائے گا تو خدا پوشیدہ رازوں کا انکشاف کرنے کا فیصلہ کرےگا۔

ڈیٹرونامی ۲۹:۲۹ میں کہتا ہے " مخفی چیزیں ہم سب کے خدا سے وابستہ ہیں، لیکن جن چیزوں کا انکشاف ہوا ہے ہم سے اور ہمارے بیٹے سے ہمیشہ منسلک رہتی ہیں جسے ہم اس سے متعلق سبھی اقوال میں مشاہدہ کرتے ہیں۔

اموس ۷:۳ میں لکھتا ہے جب تک خدا اپنےراز کو اپنے پیغمبروں تک نہیں پہنچاتا تب تک وہ کچھ بھی نہیں کرتا ہے۔

میتھو ۲۶:۱۰ میں ہے، "اس لئے ان سے مت ڈرو۔ کیوں کہ ایسا کچھ بھی مخفی نہیں جن کا انکشاف نہ ہوسکے یا اس کے بارے میں نہ جانا جاسکے"۔

بائبل میں بہت سارے دوسرے دلچسپ پوشیدہ راز موجود ہیں:

· یہ راز کہ خدا کے خیالات کو کون جانتا ہے [رومن ۱۱: ۳۳-۳۴]۔ لیکن دوسری طرف خدا کے اقوال بتاتے ہیں کہ ، "ہمارے پاس مسیح کے مانند دماغ ہے"،[۱ کورینتھین ۱۶:۲ ] جو کہ اپنی جگہ بہت مضبوطی سے قائم ہے۔ڈیٹرونامی ۲۹:۲۹ جو بتاتا ہے کہ اس کے مخفی راز اس کے وقت کے مطابق ظاہر ہوں گے۔

· حضرت مسیح کے ظہور کے مخفی راز کے بارے میں، ۱کورینتھنس ۲: ۷-۸ میں لکھا ہے"اگر حکمراں جانتے تو وہ انھیں صلیب پر نہ چڑھاتے"۔

· مسیح علیہ السلام کے پہلی بار اور ان کے دوسری بار آنے کے وقت کا پوشیدہ راز جو کہ فرشتوں کے لئے مخفی تھا پیغمبروں کے ذریعہ پیشینگوئی کی گئی تھی، لیکن ہم کو اس متعین وقت کے بارے میں ان پیشینگوئیوں کی تشریح کرنے کے بعد پتہ چلا جسے پیغمبر نہیں سمجھ سکے تھے [اپطرس ۱: ۹-۱۳ ]

· ان غیر یہودیوں کے پوشیدہ راز [مقتول لوگ] جو کہ اب یہودیوں کے علاوہ پیروکار اور وراثت میں حصے دار ہیں، پطرس کو اپنے پیرو کاروں سے بہت ہی سخت مخالف کاسامنا کرنا پڑا جب اس نے پہلی دفعہ ان چیزوں کے بارے میں بتایا۔اپھِیسینس ۲: ۱۱-۱۳؛ ۳: ۴-۷ ۔

· [قدرتی شاخوں] کے پوشیدہ راز یہودیوں کی اکثریت حضرت مسیح موعود کے یسوع مسیح ہونے کے بارے میں بالکل اندھی ہوچکی ہے لیکن خدا کا فرمان ہوکر ہی رہے گا،رومن ۱۱: ۱۷-۳۴ ۔

· وہ پوشیدہ راز کہ 'کوئی باپ یا بیٹے کو نہیں جانتا' لوقا ۲۲:۱۰ میں یسوع مسیح کہتے ہیں"باپ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے کہ بیٹا کون ہے، اور بیٹے کےعلاوہ کوئی نہیں جانتا کہ باپ کون ہے، اور کوئی بھی شخص بیٹےکی چاہت کا انکشاف کرسکتا ہے"۔

آج وحی نمبر ۲۲: ۷ کے مقدس الفاظ عنقریب ہونے والے ہیں:

"دیکھو، میں جلد ہی آرہا ہوں، جو اس کتاب کو پیشینگوئی کو جا نتا ہے اس کے لئے خدا کا فضل و کرم ہے"۔

لیکن اآج ٹھیک کچھ سال پہلے معروف و مشہور مصلح جیسے مارٹن لوتھر اور جان کیلون نے بھی پوشیدہ راز کے سمجھنے کی کمی کی وجہ سے جو کہ بائبل میں ہے بدقسمتی سے اس کتابکے بارے میں بہت ہی توہین آمیز بات کہی تھی،یہ بتایا گیا ہے کہ مارٹن لوتھر نے تنقید کی تھی کہ "بائبل کا وہ حصہ جس میں مسیح کے دوبارہ ظاہر ہونے کا ذکر ہے ایک بے بنیاد خیالی پلاؤ ہے " حقیقتا جان کالون نے اپنی جدید تورات کی توضیح سے اسے مکمل طور پر مٹا دیا۔

واقعتا میں یہ دعویٰ نہیں کرتا ہوں کہ وہ لوگ اس وقت اس کتاب کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر رہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو اس سے مشکلیں بڑھ جاتیں کیوں کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ مسیح کا دوبارہ آنا ایک مخفی راز ہے۔

لیکن آج یہ مکمل طور پر ایک مختلف کہانی بن گئی ہے اور بہت سارے بزرگوں نے بائبل کا وہ حصہ جس پہ مسیح کے دوبارہ آنے کا ذکر ہے ایک شاہکار مانتے ہیں۔نئے انکشافات اور حقیقتیں ان آخری دنوں میں ظاہر ہورہے ہیں جو کہ اس سے پہلے کبھی ہوا نہیں تھا۔ آج دنیا بھر میں خدا کے بندے اور بندیاں اس کتاب کا مطالعہ کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں جیسا کہ روح القدس ان چیزوں کا ان کے اندر انکشاف کرتے ہیں جو کبھی پوشیدہ راز تھیں۔

اس لئے ا س پوشیدہ راز کے پیچھے جو مقصد تھا عیاں ہورہا ہے:

خدا چاہتا ہے کہ اس کےتمام بندے ندامت کے ساتھ حاضرہوں، کچھ لوگ جو گناہ میں مبتلا ہیں انہیں ان کا پہلا پیار واپس کیا جائے دوسرے وہ لوگ جنھوں نے خدا کی وحدانیت کو نہیں مانا ہے وہ ندامت کےساتھ توبہ کریں گے اور وہ نجات حاصل کریں گے۔

۱ ٹمودی ۲: ۳-۴ کہتا ہے، "ہمارے پیغمبر مسیح کی نظروں میں قابل قبول اور ٹھیک ہے جو یہ امید کرتے ہیںکہ سبھی انسانوںکو نجات دی جائے گی اور اس کے علمی حقائق سے واقف ہوں گے"۔

پطرس ۹:۳ "مسیح کا قول برحق ہے، جیسا کہ کچھ لوگ اسے کمزور سمجھتے ہیں لیکن اس سے ہماری طرف مشکلیں بڑھ جائیں گی، لیکن ایسی خواہش نہیں کرنی چاہئے کہ کوئی ہلاکت میں پڑ جائے لیکن سبھی کو اس کے دربار میں ندامت کے ساتھ حاضر ہوناہے"۔

فصل دوم

میتھو ۹:۳۰ " اور ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ اور مسیح نے سختی کے ساتھ انہیں یہ کہتے ہوئے باخبر کیا، "دیکھو کوئی یہ نہیں جانتا!"۔

تو مسیح علیہ السلام نے ایسا کیوں کہا، اسے دیکھو کہ اسے "کوئی نہیں جانتا ہے"۔

کیا یہ اس لئے تھا کہ مسیح علیہ السلام یہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اس کے بارے میں کبھی جانے؟ کیوں کہ اگر ایسا معاملہ تھا تو ہمیں آج بھی اس کے بارے میں نہیں جاننا چاہئے جو کہ مسیح علیہ السلام نے معجزہ کیا تھا۔ اس کی حقیقت یسوع مسیح ہی جانتے تھے، کہ اگر انھوں نے ان کا انکشاف کردیا ہوتا تو ان کے ابدی مقاصد میں خلل پڑجاتا۔ ہاں، ان کے اس ابدی مقاصد میں رکاوٹیں پیدا ہو جاتیں کہ جس کے لئے وہ آئے تھے یعنی یہ کہنا ہے کہ اپنی زندگی کا قربان کردینا کچھ بہت سے گناہوں کے لئے فدیہ کے طور پر ۔ اور اس لئے مسیح سے متعلق سبھی خدا کے اس ارادے کے ساتھ پوشیدہ ہیں اور یہ اس کے مقرر کردہ وقت پر ظاہر کیا جائے گا۔

ہم جان ۷:۲۷ میں دیکھتے ہیں کہ یروشلم کے لوگ نہیں جانتے تھے کہ مسیح کس جگہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے بارے میں بہت کم ہی جانتے تھے کہ وہی مسیح تھے۔ "پھر بھی ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن جب کبھی بھی مسیح مبعوث ہوں گے، تو اسے کوئی نہیں پہچانے گاکہ وہ کہاں سے آئے ہیں"۔

ہمیں اسے سمجھنےکی ضرورت ہے کہ جب یسوع مسیح نے یہ کہا، "کوئی نہیں جانتا ہے" یا "دیکھو کوئی نہیں جانتا ہے" اس کے پیچھے بہت ساری وجوہات ہوں گی۔ہم اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ مسیح کے وہ الفاظ زمانہ حال کے جواب میں تھے اور "زمانہ مستقبل استمراری" کے جواب میں نہیں تھا۔

یسوع مسیح نے بالکل وہی الفاظ "کوئی نہیں جانتا ہے" کو میتھو ۲۴:۳۶ و مارک ۱۳:۳۲ ، میں بالکل اسی طرح استعمال کیا ، اس بنا پر حضرت مسیح کے اس کے دوبارہ آنے کے اس نظریہ کو قبولکرنا چاہئے کہ وہ "کسی بھی وقت" آسکتے ہیں، نہ کہ یہ کہنا چاہئے کہ ۲۰۰۰ سال مکمل ہونے کے بعد ایسا ہوگا۔

اس راز کا وہی مقصد ہے یعنی رموز معرفت کا پوشیدہ کیا جانا تاکہ یہ بات اس کے بعد والوں تک پہونچائی جا سکے اور وہ ہمیشہ مسیح کے استقبال کے لئے تیار رہیں جو کہ اب ان آخری دنوں میں بالکل عیاں ہے اور اس میں اب کوئی اختلافات نہیں ہیں۔

وہ رموز معرفت جس میں ان کے ظہور ہونے کی تیاری کے بارےمیں بتایا گیا ہے ، یعنی پیشینگوئی میں ان دس مثالی نشانیوں کے متعلق اشارہ کیا گیا تھا اور جو کہ بہت سے اس کے بندے کے دلوں میں گھر کر گئی تھی کہ میرا مالک بہت دور ہے جس کے نتیجہ میں لوگ آسودگی کی طرف مائل ہوگئے۔

بالکل وہی مقدس الفاظ لوقا ۳: ۴-۷ میں آئے ہیں جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان آخری دنوں میں خدا کی حقیقی سلطنت عنقریب ہوجائے گی۔

لوقا ۳: ۴-۷ "جیسا کہ پیغمبر حضرت یسعیاہ کےقول کو اس کتاب میں لکھا گیا ہے کہ صحراء میں کسی کے چلانے کی آواز خدا کے سیدھے راستے کو بتاتی ہے۔ ہر وادی اس کی اطاعت سے بھری ہوگی اور ہر ایک پہاڑ و چوٹی اس کی اطاعت میں اپنے سر کو خم کریں گے؛ ٹیڑھے ٹیڑھے راستے صحیح کئے جائیں گے تاکہ اس پر آسانی سے چلا جاسکے؛ اور سبھی لوگ خدا کی رحمت کو دیکھیں گے، تب اس نے مجمع کے لوگوں سے کہا کہ اس کے عیسائی مذہب کو قبول کرنے کے لئے آئے تھے، "جانور کے بچے!نازل ہونے والے غضب سے بھاگنے کے لئے تم کو کس نے خبر دی"۔

ہاں بہت ہی جلد سبھی جاندار [سبھی عقلمند لوگ] جنھوں نے سیدھا راستہ اختیار کیا ہوا ہےوہ لوگ خدا کی رحمت کا مشاہدہ کریں گے، [لوقا ۳:۶ ]۔ بقیہ لوگوں[بے وقوف لوگ] کو جان کے مقدس الفاظ کے مطابق سزاوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لوقا ۳: ۷-۸ میں لکھا ہے، "جانور کے بچے! خدا کے نازل ہونے والے غضب سے بھاگنے کے لئے تم کو کس نے خبر دار کیا؟"۔

جان بپستہ کے وہ قول ہماری نسل کے لئے مقدس تھے، "جب سبھی چیزیں فنا ہوجائیں گی، کہ کوئی جاندار خدا کی برکت کو دیکھے گا اور نہ ہی خدا کے غضب کو پہونچے گا۔

کیوں کہ دونوں چیزیں آخری وقت میں مکمل کی جائیں گی۔

۱ کورینتھنس ۲: ۱۱-۱۲ کہتا ہے، "کیا آدمی روح کے علاوہ جو ا سکے اندر ہے اور اس کی دوسری چیزوں کے بارے میں بھی جانتا ہے؟ حالانکہ خدا کی چیزوں کو روح القدس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے،اب ہم کو اس روح کی جانکاری حاصل ہوئی جس کی نسبت خدا کی طرف سے ہے تاکہ ہم ان چیزوں کو جان سکیں جو خدا ہم کو آسانی سے عطا کیا ہے"۔

کوئی بھی راز تب تک پوشیدہ رہتا ہے جب تک اس کا انکشاف نہ کیا جائے تا کہ اس کے ابدی مقاصد حاصل کیا جاسکے۔

ا پطرس ۱: ۱۰-۱۲ میں لکھا ہے، "جیسا کہ خدا کی رحمت کے بارے میں پیشینگوئی کی ہے کہ وہ تم کو مل کے رہے گی، احتیاط کے ساتھ تحقیق و تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔ مسیح کی روح کا دوسرے شخص کے اندر منتقل ہوجانا یہ بتاتا ہے کہ شخص کو پیغمبر کی جگہ اپنے آپ کو صلیب پر نہیں چڑھا رہے تھے، بلکہ آپ کو ان سبھی چیزوں میں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ آپ لوگوں کو جو بائبل کی تعلیم دے رہے تھے، اس کو خدا نے فرشتوں کے ذریعہ آپ تک پہونچایا تھا"۔ (NASB)

حواری پطرس کہتا تھا کہ جب پیغمبر مسیح اپنے مقرر کردہ وقت پر مبعوث ہوں گے، تب ان پوشیدہ رازوں کا انکشاف کریں گے [حتیٰ کہ فرشتوں کو جاننے میں بہت وقت لگا اور انھوں نے اس کی احتیاط سے تحقیق کی کہ]:

1. خدا کی رحمت کا وقت آنے والا ہے۔

2. مسیح کی آزمائش کا وقت [حضرت مسیح کے پہلی بار آنے کے وقت کی طرف اشارہ ہے]۔

3. سچائی کی اتباع کرنے کا وقت [مسیح کے دوبارہ آنے کی طرف اشارہ کرتا ہے]۔

اس کے بارے میں سوچو، یہ بات بالکل صاف ہے کہ ایک ایسے راز کو راز نہیں کہا جاسکتا ہے جس کے بارے میں "سب جانتے ہیں" کیا یہ صحیح نہیں ہے؟ لیکن یہ دوسری بات ہے، جب ہم کہتے ہیں "کوئی کبھی نہیں جانے گا" ڈیٹرونامی ۲۹:۲۹؛ میتھو ۱۰:۲۶ اور اموس ۳:۷ کے مطابق خدا کے قول کو محدود کرتے ہیں۔

"اس نے اپنی فہم و بصیرت کے ذریعہ ہم کو اپنی مشیت کے مطابق ا س پوشیدہ راز سے آگاہ فرمایا۔ اور پھر وقت کی تکمیل کے اپنی مرضی کے مطابق ایک حکومت کے نظام کو تشکیل دیا اور سبھی چیزوں کو یعنی جو کچھ آسمان و زمین میں ہے مسیح کو عطا کردیا"

[اپھسینس ۱: ۸-۱۰](NASB)

"وہ اپنی مرضی کے مطابق رموز معرفت سے ہم کو آگاہ کرتا ہے تاکہ ہم کو سبھی حقائق کا پتہ چل سکے

فصل سوم

محبانِ مسیح، بائبل میں ایک جگہ تاکید کی گئی ہے کہ خدا کی محبت اس کے بندوں کے لئے ہے۔ اور اس محبت کی وجہ سے چیزوں کو ایک وقت تک کے لئے پوشیدہ رکھا گیا ہے اور اس کی محبت کے صدقے میں ایک بار پھر چیزیں جو پوشیدہ کردی گئی تھیں اس کے مقاصد کی تکمیل کرنے کے لئے منکشف کی جائیں گی۔

اس لئے ایک پوشیدہ راز کے خاص مقاصد جو پہلے چھپے ہوئے تھے بعد میں منکشف ہوئے کو تین بنیادی موقعوں پر بیان کیا گیا ہے:

1. تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو اس کے نزدیک لایا جائے اور یہ اس کے قانون کا بغور مشاہدہ کریں [ڈیٹرونامی ۲۹:۲۹]۔

2. خدا کی منشا ہے کہ اس کے ذریعہ کسی کو کوئی نقصان نہ ہو، سبھی لوگ اس کے دربار ندامت کے ساتھ حاضر ہوں [۱تمودی ۲: ۵؛ ۲ پطرس ۳: ۹]۔

3. اس کے پاس نیکی کو لے کر آنا۔

جب حضرت مسیح نے آخر کے واقعات کو اپنے دوبارہ آنے کےبارے میں جیسا کہ مارک ۱۳: ۳۲ میں اور میتھو ۲۴: ۳۶ میں ہے کو بتایا، جیسا کہ بائبل کے انگریزی ترجمہ میں لکھا ہے کہ "کوئی نہیں جانتا ہے" جب اسے دانیال ۱۲: ۴اور ۹ کے ساتھ ملا کر مطالعہ کیا جائے تو ہم "کوئی نہیں جانتا ہے" کا معنی یہ نکالتے ہیں کہ یہ آخری وقت تک کے لئے پوشیدہ ہے۔ ان دونوں فقروں کو ایک ساتھ ملا کر پڑھنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے حقیقتا اس کی توثیق کی تھی جو کہ دانیال ۴: ۱۲ میں یہ کہتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ اس پر اب مہر لگادی گئی ہے اور "اب کوئی بھی اس کا مشاہدہ نہیں کرسکتا" اور وہ آخری وقت کب واقع ہوگا اور "مسیح دوبارہ" کب آئیں گے کے متعلق کہہ رہے تھے، مارک ۱۳: ۳۲ کے یونانی زبان سے ترجمہ ان سب کے بارے میں بتاتے ہیں کہ تم جلد ہی اسے مندرجہ ذیل عبارتوں میں دیکھو گے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سارے عیسائی یہ اعتماد کرتے ہیں کہ حضرت عیسی بھی اپنے دوبارہ آنے والے وقت کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔

حضرت مسیح نے ایک مقدس قول کے بارے میں بتایا ہے جیسا کہ اس کتاب کے آخرباب میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ ایک دن مسیح ۸۷ سال کے ایک بڈھے پاسٹر جو کہ ابھی زندہ ہے، اس کا سامنا کرنے کےلئے میری رہنمائی کریں گے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ جب پاسٹر ان کے چرچ میں آیا تھا، انھوں نے اس سے سنا۔ انھوں نے کہا کہ مہمان پاسٹر کہہ رہا تحا کہ میتھو ۲۴: ۳۶ اور مارک ۱۳: ۳۲ اصل یونانی زبان سے کیا گیا انگریزی میں ترجمہ مکمل نہیں کیا گیا کیوں کہ یونانی کے برعکس انگریزی زبان کے مطلب میں جو ایک ہی وقت پر دو معنیٰ بتاتے ہیں تو وہ وسیع معنی ہے اور اس کو سمجھنے میں سننے والے کی مدد کرتے ہیں سب سے زیادہ وہ الفاظ جو کسی راز کے ساتھ پوشیدہ ہوتے تھے اس کو سمجھنے میں آسانی ہے۔

مارک ۱۳: ۳۲ کہتا ہے "لیکن اس دن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا نہ جنت کے فرشتے اور نہ ہی مسیح علیہ السلام، لیکن خدا اس کو جانتا ہے"۔

انھوں نے مہمان پاسٹر سے کہا کہ "انگریزی ترجمہ" یونانی زبان کے اصل معنی کو مکمل طور پہ پیش نہیں کیا ہے۔

لیکن مارک ۱۳: ۳۲ میں بیان کئے گئے الفاظ جو کہ اصل یونانی زبان کے لفظ "ei me " جو کہ حقیقتا دو لفظ ہیں اور اس کا ترجمہ یا تو "لیکن یا پھر "اگر نہیں" کیا جاسکتا تھا۔ لیکن جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یونانی زبان میں اس کے زیادہ معنی ملتے ہیں:

Ei حالات کی ایک بنیادی شئے؛ ifکہاں ، وہ وغیرہ۔:جہاں تک ہوسکے، اگر کہ حالانکہ- اکثر اس کا استعمال کسی دوجملوں یا حصوں کو جوڑنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ Meایک بنیادی ضمیر کا حصہ [جہاں ۳۷۵۶تشریحوں کا پورے طور پر انکا [ضمیر] Not [حرف عطف] مبادا؛ [ایک منفی لفظ جہاں ۳۷۵۶ کو مچبت مانا جاتا ہے] کیا:۔ کوئی But[وہ]Xماقبل، + خدا معاف کرے، +کمی، Left، ناتو، کبھی نہیں، نہیں [Xخرد]، کوئی نہیں، ناتو، نہیں ہوسکتا، کچھ بھی نہیں، ویسا نہیں، ب، کے بنا، اکثر ان کا استعمال مرکب جملوں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئےہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم اوپر مذکور کئے ہوئے "Ei Me"کو اصل زبان میں دیکھتے ہیں تو اس کی تشریح و ترجمہ "لیکن" یا اگرنہیں ہونا چاہئے تھا خدا کے قول کا ، حضرت مسیح کے قول کا ترجمہ حضرت مسیح کی بتائی ہوئی تعلیمات کے تحت ہونا چاہئے تھا جیسا کہ یسعیاہ ۹: ۶ اور مسیح سے متعلق دوسرے صحیفے میں ہوا ہے اور حضرت مسیح نے خود جان ۱۰ :۳۰میں کہا ہے، "میں اور خدا ایک ہے" اگر انگریزی کے مترجموں نے یونانی الفاظ "Ei Me" کے دوسرے معنی نکالے ہوتے تو وہ ہوتا "نہ مسیح، اور نہ ہی خدا"۔ دوسرے لفظوں میں اس کا معنی ہے "حالانکہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے نہیں تھے"۔ وہ خود بھی اپنے دوبارہ آنے کے وقت کے بارے میں نہیں جانتے ہوں گے۔ ہم جانتے ہیں اور بھروسہ بھی کرتے ہیں کہ خدا اور حضرت مسیح ایک ہیں جو کہ مقدس تثلیث کا حصہ ہے "اِلوہِم"۔ یہ سچ مچ خدا کے الگ ہونے کی گواہی کے عقیدہ پر بھروسہ کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ خدا اور حضرت مسیح باپ اور بیٹے ہیں اور ہمیں مسیح کی الوہیت کے بارے میں مشکوک نہیں ہونا چاہئے جنھوں نے جان ۱۰ :۳۰ میں، یہ دعویٰ کیا ہے، 'میں اور پدر بزرگوار ایک ہیں"۔

جب میں اپنے خو دکے اصلی یونانی مآخذ کی بات کرتاہوں تو مجھے اس کے انگریزی معنی سے تعجب ہوتا ہے کہ خدا نے میری آنکھیں اور زیادہ سچائی کو جاننے کے لئے کھولدیں، اور یہ پوری آیتیں مارک ۱۳-۳۲ میں پائی جاتی ہیں، برگزیدہ انگریزی ترجمہ اصلی یونانی زبان سے میل نہیں کھاتاہے۔

ملاحظہ فرمائیے کہ میں آپ کے لئے اصلی یونانی زبان کی پوری عبارت جو کہ مارک ۱۳:۳۲ میں لفظ بہ لفظ ترجمہ پیش کر رہا ہوں ہر یونانی الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کا معنی بھی نیچے لکھا گیا ہے۔

اب انہیں یونانی الفاظ کے دو الگ الگ معنی دئیے ہیں جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے OYAEIC کے معنی- [کوئی نہیں/ کوئی بھی نہیں]۔ کوئی بھی یہ تصور کرسکتا ہے کہ تم ان الفاظ کا چناو کرو گے جس کی بائبل کےساتھ مماثلت ہو- یہ سمجھتے ہوئے دوسرے مقدس صحائف جو ہم تک پہونچے ہیں، تم دیکھو گے ان میں 'کوئی ابھی تک نہیں' کا انتخاب کیا جائے گا۔

یونانی الفاظ OYAEIC خدا کے قول کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے ابھی تک نہیں پڑھا جائے گا اور یہ میتھو ۱۰: ۲۵ میں یسوع مسیح کے بارے میں بیان کئے گئے الفاظ سے ملتا ہے "کیوں کہ کوئی بھی ایسا پوشیدہ راز نہیںہے جس کا انکشاف نہ کیا جا سکے"۔

جیسا کہ یسوع مسیح پہلے بتا چکے ہیں کبھی بھی ان کے قول میں اختلاف نہیں ہوگا اور ابھی تک نہ ہی مشاہدہ کیا جائے گا جو صحیح بھی ہے[اس وقت پوشیدہ چیز تھی]۔

اصلی یونانی زبان پر مبنی ترجمہ اس سے متعلق مقدس صحیفے سے موازنہ کرنے پر مارک ۱۳:۳۲ یہ اصلی یونانی زبان کی عبارت کو اس طرح سے پڑھا جائے گا:

"طے شدہ وقت کے بارے میں ابھی تک کسی کو مشاہدہ نہیں ہے، نہ تو فرشتوں کو اور نہ مسیح کو اگر چہ مسیح خدا نہیں تھے"۔

ہمیں اس پوشیدہ راز کے جاننے کی ضرورت ہے۔

بیٹے-یسوع مسیح-ازلی پدر بزرگوار ہیں۔

[یسعیاہ ۹: ۶؛ جان ۱: ۱-۳؛ جان ۸: ۲۴؛ یسعیاہ ۴۳: ۱۰-۱۳؛ جان ۱۰:۳۰؛ وحی ۱: ۷-۸]

فصل چہارم

محبانِ مسیح،خلاصہ کلام یہ ہے کہ یسوع مسیح اپنی واپسی کے وقت کو جانتے ہیں۔

ہم یہ بھی مانتے یں کہ خدا کی پوشیدہ چیزوں کا انکشاف اسی کے مقرر کردہ وقت پر ہوتا ہے۔ خدا کی خودمختاری میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے مسیح کے آئندہ سال دوبارہ آنے کے راز کو مخفی رکھاہے تاکہ ہم غافل نہ ہوجائیں کیوں کہ خدا ہمارے حرکات و سکنات سے واقف ہے [یاد رکھو کہ موسی علیہ السلام کو دوبارہ آنے میں لیٹ ہوسکتی ہے یہاں تک کہ اسرائیل کے لوگ سونے کا گئوشالہ بنانا شروع کردیں گے]۔

خدا چاہتا ہے کہ بندوں کے اندر ان کے دوبارہ آنے کا ڈر ہمیشہ برقرار رہے اور یہی اس کی مرضی ہے ان کے دوبارہ آنے کے وقت کے نظریے کو خدا نے ہمیں بتایا ہے اس سے سبھی کے دل مطمئن ہیں، جیسا کہ حواری پطرس نے ۲پطرس ۳: ۳-۴ میں پیشینگوئی کی ہے " سب سے پہلے یہ جانتے ہوئے کہ معطون ان آخری دنوں میں آئیں گے، اور اپنی خواہشوں کے پیچھے بھاگیں گے"۔ اور یہ کہیں گے کہ ان کے دوبارہ آنے کا وعدہ کہاں ہے ، کیا خدا سو گیا ہے؟ کیوں کہ سبھی چیزیں اسی طرح قائم و دائم ہیں جیسے وہ کائنات کی تخلیق میں تھیں۔ مسیح نے ازکیل ۱۲: ۲۲-۲۸ میں یہ انکشاف کیا ہے جیسا کہ پیشینگوئی کی گئی تھی کہ پھانسی کے ذریعے انکا خاتمہ ہوگا "جس سے" کوئی نہ جانتا ہے کہ الفاظ سے ان کی روح کو تکلیف ہوتی ہے، اس لئے کہ ان کے دوبارہ آنے کا وقت کافی دور ہے۔

مسیح نےمیری رہنمائی میتھو ۲: ۱-۶ کے ذریعہ کی، اس کا مطالعہ کرنے کے بعد میں حیران ہوگیا کہ ۲۰۰۰ سال پہلے بھی یہودیوں کے نظریات مسیح کے پہلی بار آنے کے بارے میں ویسے ہی تھے۔

تم دیکھو گے کہ ماگی نے ہیراڈ کو یہودیوں کا بادشاہ کہا تھا، جو کہ مسیح کی پہلی پیدائش تھی، ان واقعات کے جاننے کے بعد بائبل کے مطابق یسوع مسیح کے آنے کے منتظر لوگ خوشی منانے کے بجائے پریشانی میں پڑگئے، تعجب ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے ساتھ تاریخ خود کس طرح دہراتی ہے، مثال کے طور پر مسیح کے دوبارہ آنے کا واقعہ۔ آج کل یہ محاورہ "کوئی نہیں جانتا"، "کوئی کبھی بھی نہیں جانے گا" لوگوں کے درمیان رائج ہے، اس نطریہ کے ساتھ "جب کبھی بھی " اور "جیسے بھی" تا کہ لوگوں کو مسیح کے واپس آنے کے بارے میں اطمینان ہوجائے عیسائی اپنی ذاتی زندگی میں بہت لمبے لمبے منصوبے بناتے ہیں۔

خدا اپنے فضل و کرم سے بہت ہی کم وقت میں راز کا انکشاف کرتا ہے، تاکہہم میں سے جو لوگ مطمئن ہوگئے ہیں یا کسی گناہ میں ملوث ہوگئے ہیں تو وہ ندامت کے ساتھ خدا کے دربار میں توبہ کریں۔

"حکومت خدا کے قبضہ قدرت میں ہے" ہم اپنے آپ کو ان پانچ دانشورانہ سوالوں کو تیا رکرلیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا ہم سے کہے کہ "میں تم کو نہیں جانتا" میں آپ سے یہ بھی درخوست کرنا چاہتا ہوں کہ آپ تھوڑا وقت نکالیں اور مندرجہ ذیل صحیفوں کے مآخذ کا یکے بعد دیگرے مطالعہ کریں، ۲ تمودی ۴: ۸؛ میتھو ۲۴:۴۸-۵۰؛ وحی ۳:۳؛ ۱تھسالونِینس ۵: ۲،۴،۵؛ ۱پطرس ۱: ۹-۱۳؛ ۲پطرس۳: ۳، ۴، ۹، ۱۶، ۱۷۔

میتھو ۲۴: ۳۶ اور مارک ۱۱۳: ۳۲ میں اس فقرہ کے راز کا خلاصہ "کوئی نہیں جانتا ہے" میں ہے جس کا اصلی یونانی زبان سے انگریزی زبان میں ادبی ترجمہ "کسی کو ابھی تک اس کا مشاہدہ نہیں ہوا ہے" ہونا چاہئے۔ اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ "کوئی کبھی بھی نہیں جانے گا"۔

یسوع مسیح کے قول میں کیوں کر اختلاف ہوسکتا ہے

کوئی پوشیدہ چیز ایسی نہیں ہے جسے جانانہ جاسکے

مسیح نے اسے بعد میں میتھو ۲۴:۳۳ میں بھی کہا ہے، " تو تم خود بھی یہ سبھی چیزیں دیکھو گے، اس کو معلوم کرو کیوں کہ یہ بہت قریب ہے" (NKJV) اورNKJV) کا ترجمہ( میتھو ۲۴: ۳۳ کہتا ہے "اس لئے تم بھی جب ان سبھی چیزوں کو دیکھو گے، پہچان جاؤ گے کہوہ نزدیک ہے، بہت ہی نزدیک، ہم مقدس صحائف میں دیکھتے ہیں کہ مسیح دوبارہ کہہ رہے ہیں ، " اس لئے کہ اگر تم مشاہدہ نہیں کرو گے"۔

ہم ان تینوں فقروں میں دیکھتے ہیں کہ اس سے اختلاف پیدا ہوتا ہے جہاں ایک طرف خدا کہتا ہے "کوئی نہیں جانتا ہے لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کے آنے کا دن نزدیک آرہا ہے اور وہی خدا کی مرضی بھی ہے جسے ہم "جانتے ہیں" "پہچانتے ہیں" اور "مشاہدہ کرتے ہیں"۔

جو اپنے کئے پر نادم ہوگا خدا اسے اطمینان عطا کرے گا اور آج ہم میں سے بہت سے عیسائی ایسا نظریہ رکھتے ہیں جسے ان کی روز آنہ کی زندگی میں دیکھا جاسکتا ہے۔

یسوع مسیح کے قول "مشاہدہ کرو" نہ ہی کوئی اختیار تھا اور نہ ہی کوئی مشورہ، بلکہ یہ ہمارے خود کے لئے ایک فرمان تھا۔

باب سوم

پیشینگوئی کی ابتدا

فصل اول

محبانِ مسیح، اب میں اس کتاب کے چوتھے اور آخری حصے میں جو ذکر کرنے جارہا ہوں، وہ بہت ہی مقدس ہے، یہ وہ مقدس بات ہے جس کو خدا نے مجھ پر ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ کو منکشف کیا، اور تب سے یعنی دو سال آٹھ مہینے سے اوپر ہوئے ویسے ہی انکشافات ہورہے ہیں۔

آپ کو اس کی تعلیم نہیں دی جارہی ہے کہ آپ اسے سمجھیں [اگر ایسا ہوگا تو آپ یا تو اسے صحیح سمجھیں گے یا غلط سمجھیں گے]، اور نہ ہی یہ کوئی دینی تبلیغ ہے جسے آپ کو قبول کرنا ہے [ اگر ایسا ہے تو آپ اس کو قبول کریں گے یا رد کردیں گے]، لیکن یہ ایک انکشاف ہے جسے آ�