wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

18
خ ی ار ی ت ک دھ ن س وادی و ہ ش می ہ دھ ن س ں۔ ی ہ ے ت% ا ارر ف و( ب ی ش نے س ب ہ( ب ں می س( ج ے ہ ی ن را6 پال ار س ز ہ ھ6 چ خ ی ار ی ت ک دھ” ن س“ A ں می زر س ی کرام ک اء ن فو صA ران مہِ ادی ں۔ ی ہ ے ت ر ک س ش و ک ی ک ے نS ن ا( و ج ک قY ئ ا ق ح دہ ش م گ ے ک ں اس وادی یY ئ% ے، ا ہ ا ا رہ ن( ن گ ن( جِ A دان ن م ے س رف ط ی کون و گ ن( ج ف ل ن خ م ے س”qک ھ ت لی و ی ن ز “ ت ش یy ئے س ی، اس ن( ن ر ک ز ما ی ک~ ار( ی ت ن ھی ک ہ وادی خ ی ی ش م ل( ن فر سال ا ز ہ خ ی ا6 ی، تY ن% ں ا می ود( ج و ے ہل ب خ ی ش م ل( ن فر سال ا ز ہ ھ6 چ س وادی د ات ی اور ھ ت ل ک ش ی ک”q وک ی ہ ن ی6 ن ک( ب ی د ہ ب ہ ت ف ا ی ت ق ر پ اد ر% ی ا ک ی ک ر پ و کہ( ج یY ن و ہ دا ن( ن ی ا ک دھ ن س ں می دور3700 ل( ن ف ار ز ہA ں ی ئ ی۔ ہ رq ک خ ئ ی ش م ل( ن ف وا۔ ہ مہ ت ا ا ج ے دور ک ک( ب ی د ہ بq ک ھ ت لی و ی ن ی اورY ن% ں ا می ود( ج ” و( ب ی د ہ ب زی م ی “ا ل ہ6 ب خ ی ش م2500 ے ک( ب ی د ہ ب~ ورٹ ک ی ن ا ے” ک ک خ ی ش م ل( ن ف ہ وی م تٰ ی عل ا ا ک( ب ی د ہ ب د دت( ں۔ ج ی ہ ہّ ص ح ا ک خ ی ار ی ت ک دھ ن س ی ھ( ت ی گ ود( ج و م ی ک راٹ د ن ھ ک2300 ں می ورٹ ص ی ک رو~ ود( جA ںY ئ و م( ب ی د ہ ب ی ک خ ی ش م ل( ن ف ں۔ ی ہ1500 د ع( ب ے ک س ا ا رہ ر ک ز م کا ا وت ئ ے د ک نْ دوو ن ہ وا ی س”A ون ی ہ س“ A ان نش ن و س خ ی ش م ل( ن ف810 ا ن ک لہ م ح ر6 پ دھ ن س ے ت اہ ادس( ے ت کز مص ں می خ ی ش م ل( ن ف ا۔ ن ل ا ن( ن ہّ ص ح ا ک ب ی لط س ی ن6 ن ے ا ک س اور ا566 - 490 A ران م ک جی س ار ان ف د ار ع( ب ا لط رہ ش ن ر پ ے ر ک ز ت ی ہ دھ “ ن سq ک خ ئ ی ش م ل( ن ف125 q ک ال ئ س ے۔ ہ م ر ک ے جا ک دھ ن س325 - 326 ار ن ت جر ا ف سا ی ک س6 ن ی وا ہے س ون ق لا ع ی جلا ے س ک دھ ن سا اور و ہ ور% لہ ا م ح ز ہ دھ ن س م ظ ع در ا ن ک س خ ی ش م ل( ن ف ا۔ ن ک313 ی۔ مل ی ق ر پ ب ہ( بو ک ب م دھ( ں ت می ے دور ک س وا ا ہS رY پ ا ر ف6 پ د ن ش م ی ک دھ ن س م کا ا ج ھ تی س ا( ا ت کA ان ن س دو ن ہ ی( ن وS ی( ج و کہ( ج وکا س ں ا می خ ی ش م ل( ن ف280 - 400 ے، ہ ے ت ر ک ب م و ک ج ر6 پ دھ ن س ارہ( دوتA ران م ک جی س ار فq ک وی ئ ی ش ع410 ے~ ن ئی ے ک ساس اور ا ر ہ س ےY ت ے را ک راٹ( ج گ ں می وی ی ش ع ی اور ل ا~ اد د ن ی( ئ ی ک ب م و ک ج ےY ت ے را ت ی س ا ے ساہY ت را550 ھا۔ ک ں ر می ے بض ف ے ن ن و ا ک دھ ن سq ک وی ئ ی ش ع

Transcript of wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

Page 1: wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

تاریخ کی سندھ وادی

ت س نش�یب وو زار س�ال پ��رانی جس میں ب ران صوفیاء کرام کی سرزمین “س�ندھ” کی ت�اریخ چھ ےادی م ہ ہے ہ ہ

، آئیں اس وادی ک گمش��د ا میش س مختلف جنگووں کی طرف س میدان جنگ بن��ا ر یں سندھ ہفراز آت ے ہے ہ ے ے ہ ہ ۔ ہ ےیں ۔حقائق کو جانن کی کوشش کرت ہ ے ے

زار سال قبل مسیح ی وادی کھیتی باڑی کا مرکز ل وجود میں آئی، پانچ زار سال قبل مسیح پ ہانڈس وادی چھ ہ ے ہ ہ ذیب ” کپیٹ��ل وئی جو ک ترکی کی آزاد ت��رقی ی��افت ت ہ���بنی، اس س پیشتر “نیولیتھک” دور میں سندھ کی ابتدا ہ ہ ہ ے

ذیب” وجود میں آئی اور3700ہیوک” کی شکل تھی اور لی “امری ت زار قبل مسیح پ ی تین ہ قبل مسیح تک ر ہ ہ ۔ ہ وا ذیب ک دور کا خاتم ۔نیولیتھک ت ہ ہ ے ذیب” ک کھنڈرات کی موج��ودگی بھی2500ہ ” کانی کورٹ ت ے قبل مسیح ک ہ ے

ذیب کا اعلی نمون یں جدید ت ہسندھ کی تاریخ کا حص ہ ۔ ہ ذیب م��وئن ج��وڈرو کی ص��ورت2300ہ ہ��� قبل مسیح کی ت یں ۔میں ہ

ا اسک بعد 1500 ندووں ک دیوتا کا مرکز ر یون” شیوا ے قبل مسیح سویستان “س ہ ے ہ قبل مسیح میں مص��ر810ہ۔ک بادشا ن سندھ پر حمل کیا اور اسک اپنی سلطنت کا حص بنا لیا ہ ے ہ ے ہ ی��نز”490-566ے ہ قبل مسیح تک س��ندھ “

ا بعد ازاں فارسی حکمران ہک زیر تسلط ر ہے۔ سال تک سندھ ک حاکم ر 125ے قب��ل مس��یح س��کندر326-325ےی واپسی کا سفر اختیار کیا وا اور سندھ ک ساحلی عالقوں س ر حمل آور ۔اعظم سندھ ہ ے ے ہ ہ قب��ل مس��یح313ہ

وا اس�ک دور میں ب��دھ مت ک��و ندوستان کا باسی تھا حاکم سندھ کی مسند پر ف��ائز ےمیں اشوکا جو ک جنوبی ہ ہ ہت ترقی ملی ۔ب ، 400-280ہ ہے عسیوی تک فارسی حکمران دوبار سندھ پ��ر حک��ومت ک��رت ے عس��یوی میں410ہ

اس��ی ن رائ حک��ومت کی بنی��اد ڈالی اور راس اور اسک بیٹ رائ سا ےگجرات ک رائ س ے ہ ے ے ے ہ ے عس��یوی ت��ک550ے۔سندھ کو اپن قبض میں رکھا ے ے

من خاندان کی بیناد ڈالی اور کچ رائ ک بیٹ راج داھ��ر ن اپ��ن چچ��ا چن��در550 ے عسیوی میں کچ رائ ن بر ے ہ ے ے ے ہ ے ے۔س جنگ کی جسک نتیج میں سندھ کا تاج راج داھر ک سر پر سج گیا ے ہ ے ے ہ عسیوی تک راج داح��ر س��ندھ711ے

اتھوں شکست کھا کر اپنی جان گنواء بیٹھ��ا مس��لمان خلیف حج��اج بن یوس��ف ک ا لیکن عربوں ک ےکا حاکم ر ہ ۔ ہ ے ہی ۔داماد محمد بن قاسم ن سندھ میں اسالمی مملکت کی بنیاد ڈالی جو تین سو سال تک قائم ر ہ ء میں1026ے

Page 2: wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

ے“سومرا” ن سندھ پر قبض کرلیا جس ہ ء میں سلطان محمود غزنوی اور عالوال��دین خلجی کی ج��ارحیت1054ے۔ن پسپائی پر مجبور کردیا ،1353ے وئ الئ سندھ پر قابض ے میں “ساما” خاندان جو بعد ازاں جام آف لسبیل ک ہ ے ہ ہ

۔ میں “ارغون خاندان” ک شا بیگ ن الٹا جوک چنگیز خان ک خاندان س تھا1521ہساما خاندان کا تخت ے ے ہ ے ہ ے

رست میں لکھوایا ج��و ای��ک1554 ہء میں جنرل عیسی بیگ ن “ترکھان” خاندان کا نام سندھ ک حاکموں کی ف ے ےوئی اور شا عب��دالکریم ہترکی نسل تھا اسک دور حکومت میں سندھی زبان کی ترویج ہ ے ےء ن1625ء ت��ا 1538۔

ےء کو مغ��ل بادش��ا اک��بر ن م��رزا عیس��ی بی��گ1591۔سندھی زبان میں موسیقی اور شاعری کا آغاز کیا بال آخر ہی، 1700ےس پورا سندھ چھین لیا اور ہء تک بال شرکت غیرئ مغلوں کی حکومت ر ہ سال دورحک��ومت میں110ے

وں ن ےمغل بادشا ، 40ہ وڑو ن س��ندھ1701ے گورنر تب��دیل ک��ئ ون پ��ر بل��وچ ح��اکم کل ے میں مغل��وں ک کم��زور ہ ے ہ ےوڑو دور کو سندھی زب��ان80ہپرقبض کر لیا اور ،کل وڑو حکمران سندھ کی تقدیر پر براجمان ر ہ سال تک بار کل ہے ہ ہ

وگا اس�ی دور میں ش��ا عب��دالطیف بھٹ��ائی اور س��چل سرمس��ت ر دور س تشبی دیں تو کوئی بعید ن ہک سن ہ ہ ہ ے ے ہ ےوں ن سندھی زبان کو حقیقی معنی میں ایک زبان کی شکل دی ۔جیس عظیم سندھی شاعر گزر جن ے ہ ے ے

نچ گی��ا ت��الپوروں ن1782 وڑو دور اپن انجام ک��و پ وا اور کل ےء میں بلوچ حاکم تالپور خاندان سندھ میں قابض ۔ ہ ے ہ ہ س��ندھ ک��و تین ریاس��توں میں تقس��یم کردی��ا تھ��ا جس میں ریاس��ت حی��درآباد، ریاس��ت خ��یرپور اور ریاس��ت

یں، تالپور سندھ اور بلوچستان پر حاکم تھ ےمیرپورخاص شامل ے میں انگریز جنرل سر چارلس نیپئر س1843ہ۔شکست کھا گئ اور سندھ انگریزوں ک قبض میں چال گیا ے ے ۔ء میں سندھ کو بمبئی کا حص�� بن��ا دی��ا گی��ا1847ے ہ

لی بار سندھی زبان کو سرکاری حثیت دی گئی 1851 ء میں سندھی رسم الخ��ط ک��و1853ہء میں سندھ میں پ۔سندھ اور بمبئی میں برطانوی حکومتی زبان ک رسم الخط میں شامل کیا گیا ے

وشینداس ن سندھ کو بمبئی س الگ ک��رن ک��ا مط��الب1908 ہء میں بریسٹر غالم محمد بھڑگڑی اور ھرچندرن ے ے ے ے ےء میں س��ندھ ک��و بمب��ئی س ال��گ1936ےکیا بعد ازاں آل انڈیا مسلم لیگ اور قائد اعظم کی کوششوں ک بع��د

۔کرک صوب کا درج دیا گیا ہ ے ہء میں پاکستان بنن ک بعد سندھ پاکستان کا حص�� بن��ا اور تقریب��ا” 1947ے ے الکھ11ےندوستان چل گئ ے۔ندو سندھی سندھ چھوڑ کر ے ہ ہ

ےپاکستان بنن ک بعد ایوب کھوڑو سندھ کا وزیر اعلی بنا لیکن ون یونٹ بن ک بعد س��ندھ کی ص��وبائی ح��ثیت ے ے ےوگئی وئی اور س��ندھ1971ہایک بار پھر ختم ون ک بعد صوبائی حثیت کی بحالی ہء میں پاکستان ک دولخت ے ے ہ ے

یں ۔میں سندھی حکمران ممتاز بھٹو وزیراعلی بن جوک تادم تحریر بقی حیات ہ ہ ہ لی1971ے ی کراچی ک��و پ ہء میں ہم سندھ کی پوری تاریخ کا جائز لیں تو ای��ک خ��اص ب��ات ہبار سندھ میں شامل کرک دارالحکومت بنایا گیا اگر ہ ۔ ے

زار سال تاریخ میں ہعلم میں آئ گی ک سندھ کی چھ ہ ہ ا 1971ے یں ر ل کبھی کوئی سندھی حاکم ن ہء س پ ہ ے ہ ۔ے

ہعمومی جائز

ذیب ے قبل مسیح ک درمیان نکھری میس��وپوٹامیا اور ق��دیم مص��ر ک س��اتھ1300ے س3300ہوادی سندھ کی ت ۔ ےذیبوں میں س ای��ک اوردنی��ا کی س��ب س لی ت ےساتھ ی بھی سب س پ ے ہ ہ ے ذیب ج��و ہ ہے۔ب��ڑی ق��دیم ت 1,260,000ہ

مالیا،افغانستان تک باقیات وئی تھی جنوب میں ممبئی،بھارت اور شمال میں ہمربع کلو میٹرک رقب پر پھیلی ۔ ہ ے ےذیب کی آب��ادی تقریب��ا وئی اپن عروج میں وادی سندھ کی ت ہکی دریافت ے ہے۔ ۔ الکھ لوگ��وں پ��ر مش��تمل تھی50ہ

ون تک پوشید ر ذیب ک آثار بیسویں صدی ک اوائل میں دریافت ہے۔اس ت ہ ے ہ ے ے ہ

Page 3: wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

تہذیب کی سندھ ی� واد

ی� سندھ کے میدان میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دری��اؤں کے1700 سے 3300سنہ قبل مسیح تک قائم رہنے والی انسان کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ واد

آاث�ار ملے ہیں۔ اس کناروں پ��ر ش�روع ہ��وئی۔ اس�ے ہ��ڑپہ کی تہ�ذیب بھی کہ�تے ہیں۔ ہ�ڑپہ اور م�وئن ج�و دڑو اس کے اہم مراک�ز تھے۔ دری�ائے س�واں کے کن�ارے بھی اس تہ�ذيب کے

تہذيب کے باسی پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے۔ ان کے پاس بیل گاڑياں تھیں، وہ چرخے اور کھڈ� سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے م�اہر تھے، کس�ان، ج��ولاہے،

ی� سندھ کی تہذیب کے معمار تھے۔ کمہار اور مستر� واد

سوتی کپڑا کہ جسے انگریز� میں کاٹن کہتے ہیں وہ انہی کی ایجاد تھی کہ لفظ ک�اٹن انہی کے لف�ظ کاتن�ا س�ے بن�ا ہے۔ ش�کر اور ش�طرنج دنی�ا کے ل�یے اس تہ�ذیب کے انم�ول

ی� سندھ کی تہذیب کی دولت نے ہزاروں سال سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔ تحفے ہیں۔ واد

آاریاؤں نے ق م میں ڈالی تھی ۔ اس سے پہلے یہاں کے باشندے جنگلی اور تہذیب و تمذن سے کوسوں دور تھے ۔ مگر1500خیال کیا جاتا تھا پاک و ہند میں تمذن کی بنیاد

آاث��ار اور س��ندھ کی ق��دیم بعد کی تحقیقات نے اس نظریے میں یک لخت تبدیلی پیدا کرد� اور اس ملک کی تاریخ کو ڈیرھ ہزار پیچھے کردیا ۔ ایک طرف موہنجودڑو اور ہڑپا کے

آانے سے بہت پہلے یہ ملک تہذیب و تمذن کا گہوارہ بن چکا تھا ۔ آاریوں کے تہذیب کے بارے میں جو معلومات ہوئیں ان سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ کی ہے کہ کہ

قبل از اسلام

آالہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہاں رائے حک��ومت تھی اور ۔۔ اسلام سے پہلے سندھ میں جو راجا حکومت کرتے تھے وہ رائے کہلاتے تھے، جناب سرور کائنات صلی اللھ علیہ و

حکومت ایک سو سینتیس سال تک رہی۔

شہر

آاب کا انتظام ، ای��ک اس تہذیب کے کھنڈرات انتہائی مہذب لوگوں کی داستان سناتے ہیں۔ وہ منظم شہر� زندگی گزارتےتھے ۔ جنگلہ نما انداز میں بنائی گئی گلیوں ، نکاسی

سے زائد منزلہ گھروں اور گوداموں کے ساتھ شہروں کی اچھی منصوبہ بند� کی گئی تھی۔اہم شہروں کے منصوبوں اور تعمیر میں مماثلت، جیسا کہ گلیوں کی یکس��اں ت��رتیب اور

اینٹوں کا معیار� سائز، ایک متحدہ سیاسی ڈھانچے کے امکان کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

دریافت

آار ڈ� ب�نرجی ک�و1921 آاث�ار مس�ٹر آاثار پائے۔ اس کے ایک س�ال کے بع�د اس�ی ط�رح کے ء کا واقعہ ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپہ کے مقام پر نے قدیم تہذیب کے چند

آاثار قدیمہ کو ملی۔ محکمہ کے ڈائرکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی ک��ا اظہ��ار ک��رتے ہ��وئے ان موہنجودڑو کی سر زمین میں دستیاب ہوئے۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ

ء1931دونوں مقامات کی طرف طوجہ د� ۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی ، ڈائرکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ اثریات کے دیگ��ر احک��ام کے تحت کھ�دائی ک�ا ک�ام ش�روع ہ�وا۔

میں فن��ڈ کی کمی کی وجہ س��ے ک�ام روک دی��ا گی�ا۔ اس اثن�ائ میں محکمہ نے دوس��رے مقام��ات پ��ر اث��ر� تلاش ش��روع کی ۔ اس میں ب��ڑ� کامی��ابی ہ��وئی اور پتہ چلا کہ یہ ق��دیم

آامر� اور صوبہ پنجاب میں روپر اور بلوچستان میں ن��ال تہذیب موہنجوداڑو اور ہڑپہ تک ہی محدود نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا سلسلہ صوبہ سندھ میں چنہودڑو ، جھوکر ، علی مراد اور

آاثار موجود ہیں ۔ اور کلی کے مقام پر بھی قدیم تہذیب کے

جغرافیائی پھیلاؤ

Page 4: wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

واد� سندھ سے صرف موجودہ سندھ مراد نہیں بلکہ موجودہ پاکستان، افغانستان کا مشرقی حصہ ، بھارت کا مغربی حصہ وادئ سندھ میں شمار ہوتا ہے۔ وادئ س�ندھ مغ�رب میں

پاکستانی صوبہ بلوچستان سے لے کر مشرق میں اتر پردیش تک پھیلا ہوا ہے،جبکہ شمال میں افغانس�تان کے ش�مال مش�رقی حص�ے س�ے لے ک�ر جن�وب مغ�رب میں بھ�ارتی ریاس�ت

مہراشٹرا تک پھیلی ہوئی تھی۔

اہمیت

آاثاروں پر پڑتی ہے کہ ہم ٹھٹھک کر رہ ج�اتے ہیں۔ ہم ابھی اجتم�اعی زن�دگی کی بنی�اد ابھی ہم متاخر حجر� عہد سے گزرتے ہی سندھ کی واد� میں ہمار� نظر تمذن کے ایسے

پڑنے، بستیاں بسنے، صنعت میں کس قدر مشق و صفائی پیدا کرنے کا ذکر کر رہے تھے ۔ اب ی�ک ب�ارگی ہمیں ع�الی ش�ان ش�ہر دیکھ�ائی دی�تے ہیں ۔ ان کے مکان�ات پختہ اور

مظبوط، دو دو تین تین منزلہ اونچے ہیں۔ ان میں سڑکیں ہیں، بازار ہیں ۔ ان کے باش�ندوں کی زن��دگی و رواج اور ع��ادات س��انچے میں ڈھلی ہ��وئی معل�وم ہ��وتی ہے۔ یہ عجیب ب��ات

آاثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دی��تے ہیں۔ یع�نی جب یہ�اں کے ش�ہر پہلے پہ�ل ب��نے تب یہ��اں کی تہ�ذیب اپ��نے ع�روج پ��ر واد� سندھ کے وہ

آاتا رہا ۔ واد� سندھ کی تہذیب کی بے نقابی اور تشریح شاید بیسویں صد� کا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے ۔ کیوں کہ اس تہ��ذیب کی پہنچ چکی تھی اور بعد میں اسے ذوال

ء میں موہنجودڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جاسکا ۔1922وسعت اور معنویت کو

واد� سندھ کی تہذیب ارض پاکستان کی قبل از تاریخ دور کی سب سے شاندار چیز ہے۔ اس تہذیب کی بہت سی خصوص�ایت ایس�ی ہیں ج�و ص�رف اس کے س�اتھ مخص�وص

ہیں ۔ ماضی میں اس تہذیب کے بارے میں ماہرین کی رائے تھی کہ یہ مغربی ایشیائ س��ے اس س�رزمین س��ے لائی گ�ئی تھی اور مغ�ربی ایش�ائی کے تہ�ذیبی ع��روج و ذوال ک�ا تمتہ

آائیں اور پرانے تصورات میں تبدیلی واق��ع ہ��وئی ۔ ک��وٹ ڈیجی میں ہ��ڑپہ1950تھی ۔ لیکن ء میں ڈاکٹر ایف اے خان نے کوٹ ڈیجی کی کھدائی کی۔ اس سے نئی چیزیں سامنے

آاب��اد� ہ�ڑپہ س�ے بھی آاباد� ملی۔ اس کی تہذیب کے زمانے کا تعین ری��ڈیو ک�اربن کے ذریعے کی�ا گی�ا ت�و پتہ چلا کہ یہ س�ال پ��رانی800کے پختہ دور سے بہت پہلے کی مدفون

آار ثقافت ہے ۔ ہڑپہ اور موہنجوداڑو واد�ء سندھ کی تہذیب کے دو بڑے نام مانے جاتے ہیں جن پر گزر ج�اتے وقت کے س��اتھ ماض�ی کی دھ��ول جم�تی ج��ا رہی ہے۔ کبھی ک�وئی

��ا آاج س��ے تقریب�� ااٹھتا ہے آائینے میں جگمگا س��ال5000کیا لوجسٹ یا تاریخ سے خاص شفف رکھنے والے لوگ ان پرسے گرد صاف کرتے ہیں تو اس تہذیب کا عکس ماضی کے

آاتی ہے۔ قبل یہ تہذیب دریائے سندھ اور اسکے معاون دریاوٴں کی قدیم گزرگا ہوں پر پھلتی نظر

آاج کھن��ڈرات کی ص��ورت میں ہم��ارے س��امنے موج��ود ہیں اور زمانہ کے لحاظ سے یہ تہذیب مصر� تہذیب کے ہم عصر دکھائی دیتی ہے اپنے وقت کی بہ��ترین تہ��ذیبیں اور ش��ہر

آاتی ہے۔ شاید کسی شاعر نے زندگی کے اسی مدد جزر کے بارے میں کہا ہے یہاں کی زندگی چیخ چیخ کر اپنے عروج وزوال کی داستان سناتی نظر

جنوب مغرب میں کھنڈرات کی صورت میں بکھرا پڑا ہے۔27kmاسی تہذیب کا دوسرابڑا شہر ہڑپہ ساہیوال سے

آاگاہی سب سے پہلے مسٹر چارلیس میسن )جو برٹش فوج کے کسی عہدے پر فائر تھے( نے وہاں کے دورا کرنے سے حاصل کی اس کے بع��د1826 میں ہڑپہ کے کھنڈرات کی

آارکیا لوجسٹ مسٹر الیگزینڈر نے میں دوبارہ وہاں کا دورہ کیا لیکن اس سلسلے میں کچھ خاص ترقی نہ ہو سکی اس کے ای��ک طوی��ل عرص��ہ کے بع��د1856 اور1853ایک مشہور

کے تحت ہڑپہ کی کھدائی کا سلسلہ شروع ہوا لیکن بد قسمتی سے کھدائی کے سلس��لہ س��ے پہلے ہی وہ��اں موج�ود لوگ��وں نے کھن�ڈارات س�ے1904 ایکٹ AMP میں 1920

اینٹیں نکال کر اپنے استعمال میں لانا شروع کر د� تھیں اور کچھ وہاں بچھنے والی ریلوے لائن سے اینٹوں کے تباہی پہنچی اور ان کھنڈرات کو کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔

یہاں کی اینٹوں اور پتھروں کا استعمال کر کے برطانو� عہد حکومت میں ایک پولیس اسٹیشن بھی یہاں تعمیر کیا گی��ا جس کی ش��اید اب باقی��ات بھی موج��ود نہیں ہ��وں گی۔اس

عمارت کے پاس ہڑپہ دور کا ایک کنواں بھی موجود تھا جسکو موضی قریب تک اس��تعمال کی�ا جات��ا رہ��ا۔ کھن�ڈرات کی اینٹ�وں اور پتھ�روٴں ک��و انہیں نقص��انات کے ب�ارے میں ایم

ایس واٹس جو کھدائی کے ماہرما نے جاتے تھے کہتے ہے کہ

Page 5: wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

”میں نے ہڑپہ کی بہت سار� کھدائی کی لیکن ریلوے کنٹریکڑز نے وہاں کی زمین بالکل ہموار کر د� گی تھی جس کے باعث میں وہاں کن��ڈرات ک��ا بہت تھ��وڑا حص��ہ محف��وظ

کر سکا“

ایم ،ایس، واٹس اسی خطہ ء زمین کو واد� سندھ کا پر اسرار حصہ بھی لکھتے ہیں۔

1937 ت�ک ”مس�ٹر م�ادھو س�اریپ“ نے ک�ام کی�ا، پھ��ر 1935-1926 تک ”دیا رام ساہنی“ کی زیرنگرانی ہوئی اسکے بعد 1925 سے 1921ہڑپہ کے کنڈرات کی کھدائی پہلی بار

آار، ا� ،ایم وہیل�ر“ نے یہ�اں ای��ک خن�دق بھی دری��افت ک�رلی 46-1944میں ” مسٹر کے ایم شاستر�“ کی زیرنگرانی کھدائی کاکام ہوا میں پاکس�تان بن�نے کے بع�د1947 ت�ک ”

میں اس سائیٹ کے بارے میں کچھ مفید معلومات بھی دیں۔1966ڈاکٹر محمد رفیق مغل نے

آارکیا لوجی اور موزیم، حکومت پاکستان کے تع�اون س�ے ڈاک�ٹر ج��ارج ڈیل�ز کے زی��ر نگ��رانی یہ�اں ریس�رچ ک�ا ک�ام ش�روع کی جس�کے1986 آارکیا لوجی مشن نے شعبہ میں امریکن

میں اس1947 میں اسی جگہ پر ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی بنایا گیا جہاں کھدائی سے نکلنے والی باقیات ک��و رکھ��ا گی��ا۔ 1926نتیجے میں ہڑپہ کا ایک بڑا حصہ عیاں ہوا

آاوی��زاں کی گ�ئی ہیں ہ��ڑپہ کے عجائب گھر کو موجودہ جگہ پر منتقل کر دیا گیا جہاں بہت خوبصورتی سے چیزوں کو ت��رتیب س�ے رکھ�ا گی�ا ہے اور باقاع��دہ ط�ور پ��ر معلوم��ات بھی

کھنڈرات سے نکلنے والے یہ قیمتی نواد رات نہ صرف ہڑپہ عجائب گھر کی زینت بنے بلکہ نیش�نل می�وزیم دہلی میں بھی ہ��ڑپہ کی تہ��ذیب و ثق�افت پرای��ک گیل�ر� موج�ود ہے جس

میں کانسی کا مجسمہ خوبصورت ترین ، زیوارت اور مہریں وغیرہ ہڑپہ کے ان لوگوں کی تہذیب و ثقافت کا خی�الات مس�تعار ل�ئے ہ��وئے ہے دوران کھ�دائی وہ�اں س�ے پتھ�ر کے ب�نے

ہوئے دستی کلہاڑے، بلیڈ اور چاقو انسان کے ابتدائی مراحل کو ظاہر کرتے ہیں۔

یہاں کے لوگ سنگ تراشی اور مجسمہ ساز� میں ماہر تھے اور یہاں موجود گھر اور باقی عمارت پکی اینٹوں سے بن�ائے گے تھے کانس�ی اور ت�ابنے کے ظ�روف س�از� ک�ا منہ بولت�ا

ثبوت ہیں یہاں سے ملنے والے پتھر کے باٹوں سے لیکر زیورات تک ان لوگوں کی کھلی سوچ کے عکاس ہیں۔

آای��ا ہے اس ک�و ٹیلہ ��ا ABان کھنڈارت کا بلند ترین ٹیلہ جو یہاں کی کھدائی کے بعد سامنے ا، یہ ٹیلہ تقریب ا گی ام دی می�ٹر233 می�ٹر ش�مال س�ے جن�وب کی ج��انب اور 450 کان

آاتی ہے۔ مشرق سے مغرب کی جانب پھیلا ہوا ہے مٹی کی اینٹوں سے بھی ہوئی ایک مضبوط دیوار اس ٹیلے کو محصور کرتی نظر

کے درمیان کیا تھا، اور یہاں سے نکلنے والے نوادارت زیادہ تر گھروں کی باقی��ات ، ن��الیوں ک��ا مکم��ل1934 سے 1926اس ٹیلہ کی کھدائی کا زیادہ کام مادھو سریپ واٹس سے

نظام وغیرہ ہی تھا۔

قب�ل میس�ح ت�ک پھیلا ہ�و اہے۔ یہ ل�وگ اپ�نے م�ردوں ک�و دفن ک�رتے تھے۔ اس1800 قب�ل مس�یح س�ے 2500یہاں پایا جانے والا قبرستان ایک ت�اریخی حی�ثیت رکھت�ا ہے جس�کا دور

آاریاں نسل کے لوگوں کی تدفین کے لئے مخصوص تھا یہ وہ لوگ تھے جو ہڑپہ کے اصل لوگوں کی تباہی کا سبب بنے یہ اپنے مردوں کو شہر سے دور وی��ران قبرستان کا ایک حصہ

جگہوں پر چھوڑ دیتے تھے جب جانور ان کا گوشت نوچ لیتے تو انکی باقی مانندہ ہڈیاں یہ پختہ بڑے مٹکے نم��ا برتن��وں میں ڈال ک دفن ک��ر دی��تے ای��ک اور روایت کے مط��ابق یہ

لوگ اپنے مردوں کو جب بڑے ظروف میں دفن کررہے ہوتے تو ان کا کچھ کھانا بھی ساتھ دفن کرتے تھے۔

فٹ ہے ج��و اوپ��ر45انہیں کھنڈرات سے ہڑپہ کے لوگوں کے منظم اور باشعور ہونے کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب اس شہر کے گردا گردینی ایک موٹی دیوار )جس کی موٹ��ائی

چڑھتے ہوئے پتلی ہوتی جاتی ہے( کی باقیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں سے ملنے والی باقیات میں یہاں کے لوگوں کارہن سہن ظاہر ہوتا ہے ان کے پکے گھر اور گھروں کا ط��رز

تعمیر ، خوبصورت اناج گھر، پکی نالیاں ان کی باقاعدہ اور باشعور طرز زندگی کا عکاس ہیں۔

آایا؟ اس کیوں؟ کاجواب شائد اب تک پور� طرح سے کوئی نہیں جان پایا لیکن مئورفین کہ�تے ہیں ش�ائد یہ�اں کے لوگ�وں ک�و ج�وڑراعت اور تج�ارت ہڑپہ کی تہذیب پر زوال کیوں

آاریان نے تباہ کر دیا شائد یہ لوگ کسی وبائی بیمار� سے مارے گئے، یا شائد دریا نے رخ بدل کر یہاں کے تجارت پیشہ لوگوں سے بے وفائی کر لی۔ سے منسلک تھے جنگجو

Page 6: wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

آاثار قدیمہ ک��و اپن��ا ماضی کا یہ خوبصورت شہر ہزار ہابرس زمین میں دفن رہا اور صدیوں ان پرکوئی کام نہ ہو سکا، لیکن ہڑپہ کے بلند دبالا ٹیلے محقیقین کو سیاحوں کو اور ماہرین

راز دان بنانے کو تیار ہیں بس انکی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد بے درپے کھدائیاں ہوئیں ۔ جس سے یہ بات پایہ ثب�وت ک�و پہنچ چکی ہے کہ اس تہ�ذیب کے سرچش��مے اس�ی س��ر زمین میں تھے ۔ یہ مق�امی س�ماج کے ارتق�اء ک�ا

ق م ہے ۔ لیکن در حقیت اس ک��ا تسلس��ل1700 ق م س��ے لے ک�ر 2500لازمی نتیجہ تھی اور بیرونی اثرات جو بھی تھے وہ ثانو� اور کم اہم تھے۔ اس تہذیب کا پختہ زم��انہ ت��و

تا ہے ۔ اس کا دائرہ اثر شمال میں شمالی افغانستان کے علاقہ بدخشاں سے لے کر جنوب میں ساحل سمندر تک ہے ۔ جہاں یہ بلوچستان کے س��احل س��ے3800 آا ق م تک نظر

لے کر کاٹھیاواڑ تک محیط ہے ۔ پرانی کھدائیوں میں اس تہذیب سے وابستہ شہر اور قبضے بیالیس کی تع�داد میں تھی ۔ اب اس کی تع�داد میں س�یکڑوں ک�ا اض�افہ ہوچک��ا ہے ۔

صرف چولستان میں ڈاکٹر رفیق مغل نے تین سو تریسٹھ مدفون بستیاں ڈھونڈ� ہیں جن کا تعلق اس تہذیب سے ہے۔ اس کے علاوہ سرائے کھ��ولا، جھن��گ، بٹھی��ال، واد� س��وات

میں غالاگئی، واد� گومل میں کے کئی مقامات، بلوچستان کے علاقہ کچھی کے علاقے میں مہر گڑھ میں اس تہذیب کے اثرات ملے ہیں ۔ بھارت میں دریائے گھگھ��ر )ہ��اکڑہ(

آاث��ار آاثار سے پر ہے ۔ اس میں راجپوتانہ، مشرقی پنجاب اور ہریانہ کے ص��وبے ش��امل ہیں ۔ یہ��اں جن مقام��ات س��ے اس تہ��ذیب کے اور اس کے معاون دریاؤں کے طاس کا علاقہ ان

ملے ہیں ان میں کالی بنگن ، سیسوال ، بانے والی منڈا اور دوس��رے بہت س��ی جگہیں ش�امل ہیں ۔ س�احل کے ق��ریب لوتھ��ل اور رن��گ پ��ور ب��ڑے ش��ہر تھے۔ ان کے علاوہ چھ��وٹی

بستیاں بہت زیادہ ہیں

آاباد� وسیع تھی ۔ شہروں میں تو تھی ہی، دیہات میں بھی بہت تھی ۔ جو وافر مقدار میں اجناس ۔۔۔ اپنی مقامی ضرورتوں بڑے شہروں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ

سے زائ�د ۔۔۔ پی�دا ک�ر رہی تھی کہ یہ اجن�اس ش�ہروں ک�و بھیجی جاس�کیں ۔ مل�ک کے ط��ول و ع�رض میں پختہ اینٹ�وں ک�ا ک�ثرت س�ے اس�تعمال اس ب��ات ک�ا ثب�وت ہے کہ وس��یع

جنگلات تھے ۔ برتن اور مہروں پر جانوروں کی شکلیں اور دفینوں پر ان کی ہڈیاں جانوروں کی کثرت سے موج�ودگی اور دوس�رے لفظ�وں میں جنگل�وں کی ک�ثرت ک�ا ثب�وت ہیں ۔

جانوروں میں گینڈے، شیر، دریائی بھینس اور ہاتھی کثیر تھے ۔ ان کے علاوہ گھڑیال کا ثبوت ملا ہے۔ ریچھ کی بعض نسلیں، بندر گلہر� اور طوطا بھی ملا ہے۔ بارہ سنگھا اور

ہرن بھی ملے ہیں۔

اس تہذہب کے نمایاں شہر موہنجوداڑو، ہڑپہ کے علاوہ چنھودڑو، ستکگن دڑو، بالاکوٹ، سوتکا کوہ ، ٹوچی، مزینہ دمب، سیاہ دمب، جھائی، علی مراد، گنویر� والا اور معت��دد

شہر شامل ہیں۔

مرکز� حکومت

آاپس میں مکم��ل یکس��انیت رکھت��ا ہے ۔ م��ٹی کے آاثار عظیم تر واد� س��ندھ کہ��تے ہیں ۔۔ ۔ ماد� ثقافت کی جملہ تفصیلات میں سارا وسیع و عریض علاقہ ۔۔۔ جسے اب ماہرین

برتن ہر جگہ ایک جیسے ہی ہیں ۔ جو تھوک پیداوار کا نتیجہ ہیں ، مکانات طے ش��دہ معی��ار� نقش��وں پ��ر ب��نے ہیں اور پختہ اینٹ�وں کے ہیں ۔ مہ�ریں ای��ک ط��رح کے کھ�دے ہ��وئے

مناظر سے مزین ہیں اور رسم الخط سب جگہ ایک ہی ہے ۔ اوزان اور پیمائش کا ایک ہی معیار� نظام ہر جگہ رائج ہے ۔

اا واد� سندھ کی تہذیب کے لیے سلطنت کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ لیکن شاید پگٹ اور ویلر نے سرسر� طور پر انڈس ایمپائر کا لفظ استعمال کیا ماہرین عموم

ہے ۔ جب کہ اکثر ماہرین کا رجحان یہ ہے اسے ایک سلطنت نہیں س�مجھا جاس��کتا ہے ۔ لیکن بعض بنی�اد� حق��ائق ایس��ے ہیں جن کی ک��وئی دوس��ر� تش�ریح ابھی ت��ک ممکن

نہیں ہوسکی ۔ واد� سندھ کی صنعتی پیداوار کی زبر دست یکسانیت اس خیال کی گنجائش ضرور پیدا کرتی ہے کہ ای��ک ط��اقت ور مرک��ز� حک��ومت موج�ود تھی ۔ ج��و س�ارے

علاقے کو کنٹرول کررہی تھی ۔ اس کے علاوہ پیداوار اور تقسیم کا ایک مربوط ایک مس�وط سلس�لہ تھ�ا جس ک��و وہ کن��ٹرول ک�رتی تھی ۔ اس ک��ا یقین��ا ای��ک محص��ول چ��ونگی اور

اا جڑواں دالحک��ومت تھے ۔ ان دون��وں ش��ہروں کے ان��در بلن��د و ب��الا قلعے تھے ۔ ج��و ب��اقی شاہرہوں کی حفاظت کامربوط نظام تھا ۔ ہڑپہ اور موہنجو دڑو ہم عصر شہر تھے ، جو یقن

آارئی کی گنجائش تھی کہ یہ مرکز� حکومت کے دالحکومت تھے۔ آاتے تھے۔ اس لئے قیاس آاباد� پر غالب نظر ماندہ

Page 7: wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

ملک کے طول و عرض میں مصنوعات اور دستکاریوں کی زبردست یکسانیت صرف مرکز� حکومت کے سخت قوانین کا نتیجہ نہ تھی ، بلکہ سماج کے تج�ارتی ق�وانین بھی ۔۔۔

جنہیں مذہبی رنگ حاصل تھا ۔۔۔ یقینا بہت سخت ہوں گے ۔ جن پر حروف بحروف عمل ہوتا تھا ۔ ہ��ر علاقے میں اوزان ک��ا یکس��اں تھے ۔ کانس��ی کی کلہ��اڑ� کی بن��اوٹ اور

بھالے کی شکل ایک سی تھی ۔ اینٹوں کا سائز ، مکانوں کا نقشہ ، بڑ� گلیوں کی ترتیب ، الغرض پورے شہر کی ٹاون پلانگ ایک سی تھی ۔ اس پر مستزاد یہ کہ صدیوں تک

پرانی عمارتوں پر نئی عمارتیں ہو بہو ویسی کی ویسی بنتی رہیں ۔ ایک گھر کی خارجی چار دی�وار� ک�ئی ص�دیوں ت�ک نہیں ب�دلی تھی ۔ اس ک�ا مطلب ہے حکم�ران اور محک�وم

آارہے تھے اور کچھ ایس��ا دونوں طبقات تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے ۔ کاریگر لوگ ذات پات کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے نسل درنسل ایک ہی کام کرتے چلے

ہی حال اونچے طبقات کا تھا ۔

واد� سندھ کی یکسانیت زمان اور مکان میں ایک جیسی شدت تھی ۔ ایک طرف یہ بلوچستان سے لے کر پنج��اب اور خی�بر پختوںخ��وا ت��ک یکس�اں ہے ۔ دوس�ر� ط��رف ت�یرہ س�و

آایا ۔ سال کے عرصے پر محیط جب تک یہ تہذیب زندہ رہی اس کی تفصیلات میں فرق نہیں

تہذیب کا جمود

موہنجوداڑو میں کل نو رہائشی پرتیں نکالی گئیں۔ ان میں کئی جگہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملت��ا ہے ۔ لیکن ان متف��رق ادوار کی م��اد� ثق��افت میں زرا ف��رق نہیں ملت��ا۔ نہ

زبان بدلی ہے نہ رسم و الخط۔ ایک ایسی زمین پر جس میں زب��ان نے متع�دد ش�کلیں اختی�ار کی ہیں اور رس��م الخ��ط ب��ار ب��ار یکس��ر تب�دیل ہ��وا ہے اس میں ای�ک ہی رس�م الخ��ط ک�ا

تسلسل اس کے ٹہراؤ کا بڑ ثبوت ہے ۔

ایک طرف تو ان کے عکاد اور سومیر سے تعلقات تھے ۔ دوسر� طرف تیرہ سو سال تک انہوں نے عکاد اور سومیر س�ے ب�دلتے ہ�وئے ص�نعتی طریق�وں س�ے کچھ نہیں س�یکھا۔ اس

مطلب ہے کہ ٹہراؤ کی وجوہات اندرونی اور بہت مضبوط تھیں اور بیرونی اثرات کمزور تھے ۔

آاباد� چھوٹے چھوٹے گاؤں پر آاباد تھے۔ باقی تمام کوسمبی مزید کہتا ہے کہ اس تہذیب میں پھیلاؤ کا فقدان تھا ۔ یعنی دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کنارے شہر

مشتمل تھی اور یہ تہذیب واد� گنگ و جمن اور خاکنائے دکن کی طرف نہیں گئی۔

معیشت

دریائےسندھ کے اردگرد کی زمین کی زرخیز� کی وجہ سے، کھیتی باڑ� اور ڑیوڑ چرانا معیشت کا بنیاد� سہارا تھے۔ موئن جودڑو اور ہڑپہ میں گوداموں کی موجودگی فصلوں کی

زائد پیداوار کو ظاہر کرتی ہے۔ دریائے سندھ کے لوگوں نے سب سے پہلے کپڑا بنانے کے لیے کپاس کاشت کی۔ تجارت بھی معیشت کاایک حصہ تھی۔ وہ میس�وپوٹامیا ، جن�وبی

بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارت کرتے تھے۔

تصویر� تحریر

مختلف علامات کے ساتھ سندھ کے مقامات سے دریافت کی گئی ہے۔یہ تحریریں زی��ادہ ت��ر مہ��روں پ��ر ظ��اہر600 سے 400چھ قدیم ترین تحریروں میں سے ایک، تصویر� تحریر،

( ، کی تراش��ی ہ��وئی تص��ویروں والی ہ��زاروں مہ��ریں کھ��دائیUnicornہوئی ہیں۔ بیل، ارنا بھینسے، گینڈے کے ساتھ ساتھ خیالی مخلوق ، جیسا کہ ایک سینگھ والا گھوڑا )

کر کے نکالی گئی ہیں۔ ابھی تک علماء ان عبارتوں کو مکمل طور پر نہیں پڑھ سکےکیونکہ اس امکان کے علاوہ کہ یہ ایک قدیم دراوڑ� زبان تھی۔

سندھ کا بہترین عرب دور حکومت

Page 8: wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

ھ( کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے دور حکومت کو بہترین دور حکومت کہا جاتا ہے۔205-184ھ( کے بعد اس کی )دائود بن یزید( )111-105 عرب دور کے گورنروں میں جنید )

آان کا پہلا سندھی ترجمہ :قر

ھ!( ایک ہن�دو نے جس ک�ا ن�ام مہ�روک تھ�ا، عب�داللھ بن عم�ر ہب�ار� س�ے درخواس�ت کی کہ س�ندھی زب�ان میں279 اسی کے زمانے میں ) عبداللھ بن عمر بن عبد العزیز ہبار� ۔

مذہب اسلام کی تعلیم لکھ کر بھیج دے، اس زمانے میں منصورہ میں عراق کا ایک ع��الم رہت�ا تھ��ا، جس کی پ��رورش منص��ورہ میں ہ��وئی تھی، وہ بہت ذہین، س��مجھدار اور ش��اعر

اان کی زبان میں ایک قصیدہ تیار کر کے راج��ا ک��و بھیج دی��ا، ااس نے تھا، اور یہاں کی مختلف زبانیں جانتا تھا، عبداللھ بن عمر ہبار� نے راجا کی خواہش کا ذکر اس سے کیا،

ااس قصیدے کو سنا تو بہت پسند کیا، اور عبداللھ سے درخواست کی کہ اس شاعر کو اس کے دربار میں بھیج دیا جائے، چناچہ عبداللھ نےاس کو بھجوا دی��ا، وہ راج��ا راجا نے

آان آان مجید کا ترجمہ س�ندھی زب��ان میں کی�ا، راج�ا روزانہ ت�رجمہ س�نتا تھ�ا اور اس س�ے بے ح�د مت�اثر ہوت�ا تھ�ا، ق�ر کے دربار میں تین برس رہا اور اس کی خواہش سے اس عالم نے قر

مجید کا یہ پہلا ترجمہ تھا جو سب سے پہلے سندھی زبان میں ہوا، اس عالم کا یہ بھی بیان ہے کہ راجا نے چھ سو من سونا اسے تین دفعہ دیا۔ھ کے لوگ کون س��ی زب��ان بول��تے

تھے۔

:سمون کا دور حکومت ۔ سات درویش

ء( علم و فضل اور معیار� سندھی زبان کے ارتقا اور سندھی شاعر� کی ابتدائی ترقی کے اعتبار سے ایک اہم دور ہے، ان ہی کے زم��انے1520-1350۔۔ سموں کی دور حکومت )

میں، سندھی زبان اور شاعر� میں قوت بیان کو ترقی ملی، انھیں کے زمانے میں لسانی سرمائے میں وسعت پی�دا ہ��وئی، انہیں کے زم��انے میں س��ب س��ے پہلے س��ات درویش��وں کے

سندھی کے وہ اشعار ملتے ہیں، جو انہوں نے جام تماچی کے دور میں بطور پیش گوئی کے جنہیں ماموئی یا ساموئی کے اشعار کہا جاتا ہے، کہے ماموئی دراصل لفظ معما کی

اا معمائی سے ماموئی بنایا گیا ہے، یہ پیشین گوئیاں ہر درویش نے اپنے اپنے ش�عر میں ج��ام تم�اچی س�ے ن�اراض ہ��وکر س�ندھ کے مس�تقبل کے متعل�ق اس بگڑ� ہوئی صورت ہے، غالب

اان کے ان اشعار کا ترجمہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔ وقت کی تھیں، جب جام تماچی نے انھیں قتل کرنے کا حکم دیا تھا،

پہلا درویش:

دریائے ھاکڑا بہت زور و شور سے بہے گا اور اروڑ کا بند ٹوٹ جائے گا اور "بہ" مچھلی اور "لوڑ" جیسی سوغاتیں سمہ خاندان سے چلی جائیں گی۔

:دوسرا درویش

آاخر ختم ہو جائیں گے، اور بلوچوں کا بچہ صرف پانچ درم میں بکنے لگے گا۔ ملک میں پیار و محبت کے بادل برس برس کر

:تیسرا درویش

آاخر شرم و حیا کا دیوالہ نکال کر سندھ پھر سے سر سبز ہوگا۔ آاٹھوں پہر جھگڑا فساد جار� رہے گا، "کارا" اور "کاہارا" کے علاقوں میں

:چوتھا درویش

اابھرے ہوئے۔ شرم و حیا کا دیوالہ نکل جائے گا، شرم و حیا کے متعلق کیا پوچھتے ہو، عورتوں کے دوپٹے نیچے لٹکے ہوئے ہوں گے، اور کالے بال اوپر کو

: پانچواں درویش

Page 9: wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

آاخر مشرق کی طرف سے نقصان پہنچے گا۔ "لاڑ" کے علاقے سے بغاوت کے شعلے اٹھیں گے اور اس کا اثر سرے )شمالی سندھ( پر پڑےگا، اے سندھ! تجھے

:چھٹا درویش

آائیں گی، اور اس کے بع�د تاج��انی ق��بیلے کی ن�وبت بج��نے لگے آائیں گے۔ لہنکا پہننے والی عورتیں راستے میں تقسیم ہ�وتی ہ��وتی نظ�ر نیلے اور دبلے گھوڑے شمال کی طرف سے

گی۔

:ساتواں درویش

آاباد ہونا کیونکہ )عنقریب( تمھار� بستیاں کھنڈرات بن جائیں گی اس لیے تم مکانات تعمیر نہ کرنا اے لوگو! اپنی منزل کے بھروسے پر

سندھ میں اسلام

خلافت بغداد کے ماتحت

ہجر� میں حضرت امیر معاویہ مکران و بلوچستان کے عامل عبداللہ بن سوار کو سندھیوں کی تادیب کے لیے بھیجا ۔ سندھیوں کے ساتھ اس معرکے میں عب�داللہ بن س�وار50سنہ

ہج��ر� میں س��لمان بن عب��دالملک92شہید ہوگئے ۔ ان کے بعد حلب بن ابی صغرہ نے سندھ پر یلغار کی اور سندھ کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا ۔ اس کےکچھ عرصے بعد س��نہ

کے دور خلافت میں حجاج بن یوسف نے اپنے نوجوان بھتیجے سپہ سالار محمد بن قاس�م کی س�ربراہی میں س�ندھ کے راجہ داہ��ر کی س�رکوبی کے ل�یے ف�وج روانہ کی ۔ یہ س�ندھ

آاج ت��ک ب�اب الاس��لام کہ�ا جات��ا ہے ۔ محم��د بن قاس�م س�ے پہلے تین حمل�وں میں اس�لامی ف��وج ک�و آامد تھی ۔ جس کی وجہ سے س�ندھ ک�و میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑي

آاخر محمد بن قاسم کی فتح کے بعد کشمیر تا واد� سندھ اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا ۔ سندھ اور ملت�ان ت��ک علاقے ک�و فتح ک�ر لی�نے کے بع�د کامیابی نہيں ملی ۔ مگر پھر بال

آانکہ ام��و� خلافت بھی محمد بن قاسم نے اپنے کردار سے اہل سندھ کے دلوں کو جیت لیا ۔ اس کے بعد امو� خلفاء کی زیادہ ت��ر ت��وجہ اس علاقے کی ط��رف کم ہی رہی ۔ ت��ا

گزر گئی اور عباسی خلافت بھی گزر گئی ۔ ان دونوں خلافتوں کے دور میں اسلامی حکومت کی طرف سے عامل یا گورنر مقرر کیے جاتے رہے تھے ۔ جو مقامی حکمران��وں کی

آانکہ سنہ آازاد ہو265عمل دار� میں خلافت اسلامیہ کی نمائندگی بھی کرتے تھے ۔ تا ہجر� میں خلافت عباسیہ کے بتدریج زوال پذیر � کے بعد صوبہ سندھ بھی بے تعلق اور

گیا ۔ یہاں دو خود مختار ریاستیں قائم ہوگئیں ۔ ایک کا دارالحکومت ملتان اور دوسر� کا دارالحکومت منصورہ تھا ۔ سلطنت منصورہ میں ملک سندھ کا جن��وبی حص��ہ ش��امل تھ��ا

اور ملتان کی حکومت شمالی حصہ پر قائم تھی ۔ علاوہ توران ، قصدار ، کیکانان ، مکران ، مشکی وغیرہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی عرب سرداروں نے قائم ک��ر لی تھیں ، ج��و

آازاد تھی مگر مس��لمانوں میں خطبہ اب بھی خلیفہ ان بڑ� ریاستوں کی ماتحتی اور خراج گزار� تسلیم کر چلی تھی ں۔ اس طرح سندھ کی ریاست خلیفہ بغداد کی حکومت سے

بغداد کا پڑھا جاتا تھا ۔

سومرو دور حکومت

خلفاء بنو امیہ نے اپنے دور میں یہاں عزیز الحبار� نام کے گورنر کو مقرر فرمایا جس کی وجہ سے یہ دور حبار� دور حکومت کہلاتا تھا ۔ ان کے دور میں س�ندھ ک�ا دارالحک��ومت

عیسو� میں سندھ میں بھی حبار� حکومت ک��و محم��ود1120منصورہ رہا تھا ۔ بنو امیہ کے زوال کے بعد جب عباسیوں نے نشانات امو� کو مٹا ڈالنے کی شروعات کی تھی تو

ررہ تھا اسی نسبت سے اس کے دور اقتدار کو سومرو دور حکومت کہا جاتا تھ�ا اس ک�و "س�ردار آابائی شہر سم غزنو� کے ذریعے ختم کروا کر نیا گورنر "الحفیف" کو بنایا جس کا

خفیف سومرو" بھی کہا جاتا تھا ۔ سقوط بغداد کے بعد سومرو حکمران "دودو ۔ اول" نے یہاں اپنی خود مختار ریاست بحیرہ عرب سے پنجاب ت��ک ق��ائم کی ۔ اس کے بع��د ہی

آان کا پہلا ترجمہ سندھی زبان میں ہوا ۔ سومرو خاندان مکمل طور پر سندھ کی مقامی علمی اور ثقافتی تہذيب میں ڈھل چکا تھا اسی کا نتیجہ تھا کہ دنیا میں قر

Page 10: wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

سمہ دور حکومت

عیسو� میں سندھی مسلم حکمران جامو نار نے تخت دہلی کی ماتحتی سے انکار کر کے اپنی حکومت"س��لطان س��ندھ" کی بنی�اد رکھی۔س��مہ حکم��ران ج��ام نظ��ام ال�دین1339

آاباد کیا ۔سمہ دور حکومت میں سندھ کی عوام اور ثقافت کے لیے تاریخ ساز کام کئے گئے ۔ دوئم المعروف جام نندو نے اپنا دارالحکومت دیبل کے بجائے ٹھٹھہ اور مکلی میں

مغلیہ دور حکومت

ء کی جن�گ کرن��ال میں ای�ران کے بادش�اہ ن��ادر1739ء تک یہاں مغل حکمرانوں کی حکومت ق��ائم رہی۔ ت�اہم 1739سندھ کے مشہور شہر ٹھٹھہ میں چودھویں صد� سے لے کر

ن تعم��یر کی ت�اریخی وراثت س��ے مالام�ال ہے، ج��وکہ س��ولہویں اورس��ترھویں شاہ نے اس پر قبضہ کرلیا اور اس کے بعد سے اس شہر ک�و بالک��ل نظ�ر ان��داز ک�ر دیاگی�ا۔ ٹھٹہ اس�لامی ف

صد� میں بنائے گئے۔

کلہوڑو دور حکومت

ت آاتا ہے، کیونکہ تاریخی طور پر جب کلہوڑا دور کا سورج طلوع ہو رہا تھا ت��و س��لطن ط امتیاز کی صورت میں نظر تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے یہ مسئلہ مغلیہ اور کلہوڑا دور کے خ

آافتاب غروب ہو رہا تھا ۔ مغلیہ کا

برطانو� دور اور سندھ

آانے والے دور کے1802 آابادیاں بنانے کے لیے جب سندھ کا انتخاب کیا تو ان کی تج��ارتی کوٹھی�اں ج��و کہ میں یہاں میر غلام علی تالپر کی حکمرانی تھی ۔ برطانویں نے اپنی نو

آارائی ہوئی جس میں ایک طرف س��ندھی1843لیے جنگی رسدگاہ تھیں ، اس کے لیے ٹھٹھہ کا انتخاب کیا ۔ میں انگریزوں اور سندھیوں کے درمیان " میانی " کے مقام پر معرکہ

آابادیات کے حامی انگریز فوج نیپئر کی قی�ادت میں ۔ ہ�زار س�ندھی فوج�وں50قبائل تھے جن کی قیادت تالپر قبیلے کے سردار میر ناصر خان تالپر کر رہے تھے اور دوسر� طرف نو

کے نقصان کے بعد اس جنگ کا نتیجہ انگریزوں کے حق میں نکلا ۔ مگر اس جنگ کے بع�د انگری��زوں ک�و ب��ر ص��غیر س��ے ب��اہر نک��النے کی ای��ک اور چھ�وٹی س��ی کوش��ش "ہ��وش

ربو" کے مقام پر آاغا خان ۔ اول" نے انگری��زوں5محمد شید�" نے بھی کی "د ہزار جنگجوؤں کے ساتھ، یہ کوشش بھی ناکامی سے دوچار ہوئی ۔ اس دوران اسماعیلی فرقے کے "

آاغا خانیوں کو سندھ میں مراعات و انعامات سے نوازا جو کہ قیام پاکستان تک جار� رہا ۔ کا ساتھ دیا ۔ اس تعاون کے بدلے میں انگریزوں نے

میں علیحدہ صوبہ بنا دی��ا گی��ا ۔ برط��انو� قبض��ے کے دوران مس��لمانان س��ندھ کی1935 میں سندھ کو بمبمئی کے ماتحت کیا گیا اور بعد میں 1853انگریزں کے قبضے کے بعد

آازاد�" رر تحری��ک آازاد� کی تحری��ک "ح�� آازاد� تحریک پاکستان کے ساتھ جار� رہی جس کے لیے سندھ میں مشہور نام پیر صبغت اللہ راشد� ک��ا ہے ج��و س��ندھ میں جدو جہد

آاغ�از ای��ک ایس�ے دور میں کی�ا جب ب�ر ص�غیر کے مس�لمان علمی اور ق�انونی لح�اظ س�ے انگری�زوں س�ے پنجہ کے پیشوا تھے ۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف مسلح جدو جہ�د ک�ا

رروں کی یہ جنگ ناکام ثابت ہوئی اور پھر ان کو گرفتار ک�ر کے آاب�اد میں پھانس�ی کی س�زا1943 م�ارج 20آازمائی کرنے کی پوزيشن میں تھے ۔ جس کے نتیجے میں ح ک�و حی�در

آاج تک ہے ۔ رروں کا ہی غلبہ رہا جو د� گئی ۔ ان کے بعد بھی سندھ پر مذہبی لحاظ سے ح

قیام پاکستان اور سندھ

میں لاہور میں قرار داد پاکستان میں سندھ کے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے سر حاجی عبداللہ ہ��ارون نے قی��ام پاکس��تان کی ق��رار داد پیش کی ۔ جس کے بع��د1940 مارچ 23

میں سندھ ایک قانون ساز عمل رائے دہی کے ذریعے پاکستان کا حصہ بنا ۔1947صحیح معنوں میں سندھ میں بھی قیام پاکستان کے لیے شعور اجاگر کرنے کا موقع ملا ۔

Page 11: wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ

زوال

قبل مسیح کے درمیان وادئ سندھ کی تہذیب زوال پذیر ہونا شروع ہو گئی۔ سندھ کی اس تہذیب کے زوال کی وجوہات مکم��ل ط��ورپر واض��ح نہیں ہیں۔ ت��اہم1700 سے 1800

آارین قبائل کی جانب سے ہونے والے حمل��وں جیس�ے عوام�ل کے انڈو آاب وہوا میں تبدیلی، لگاتار سیلاب اور شمال سے ارخ اور مؤرخین کا یہ ماننا ہے کہ یہ زوال،دریائے سندھ کے

مجموعے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔

Page 12: wadi sindh وادی سندھ کی تاریخ