Ghalib the Great Poet

193
ِ دﯾﻮانؔ ﻏﺎﻟﺐؔ ﻣﺮزا اﺳﺪﷲ ﺧﺎن ﻏﺎﻟﺐ ﺗﺼﺤﯿﺢ ﺷﺪه و اﺿﺎﻓہ ﺷﺪه ﻧﺴﺨہ

description

ghalib ke sshairi

Transcript of Ghalib the Great Poet

Page 1: Ghalib the Great Poet

غالبدیوان مرزا اسدهللا خان غالب

تصحیح شده و اضافہ شده نسخہ

Page 2: Ghalib the Great Poet

1

Page 3: Ghalib the Great Poet

2

عنواناتفہرست

2..................................................................................................نسخےکے اسبارے

5.........................................................................................................................الف33.........................................................................................................................ب34.........................................................................................................................ت36.........................................................................................................................ج37.........................................................................................................................چ38..........................................................................................................................د40.........................................................................................................................ر45.........................................................................................................................ز

48........................................................................................................................س49........................................................................................................................ش50.........................................................................................................................ع51........................................................................................................................ف51........................................................................................................................ک54........................................................................................................................گ54.........................................................................................................................ل55..........................................................................................................................م57.........................................................................................................................ن75..........................................................................................................................و81..........................................................................................................................ه

83.........................................................................................................................ی135..................................................................................................................قصائد

157..................................................................................................................یمثنو160..................................................................................................................خمسہ

162...................................................................................................................ہیمرث162....................................................................................................................سالم

165.................................................................................................................سہرے168.................................................................................................................قطعات

175...............................................................................................................اتیرباع178...............................................................................................................متفرقات

179...........................................................................................................اولۂمیضم187...........................................................................................................دومۂمیضم192................................................................................................................اتیکتاب

نسخےکے بارے اس

)اعجاز عبید(

ء میں چھپا تھا اور جس کی 1862سے اس کی بنیاد نسخۂ نظامی ہے جو نظامی پریس کانپور

Page 4: Ghalib the Great Poet

3

تصحیح خود غالب کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ کچھ اشعار جو دوسرے مروجہ دیوانوں میں مختلف پاۓ جاتے ہیں، اس کی صحت اس نسخے کی مدد سے ٹھیک کی گئی ہے۔ اس کے عالوه

سے وہاں مدد لی گئی ہے جو اشعار) حمیدیہ، غالم رسول مہر، عرشی (دوسرے نسخوں نظامی میں نہیں تھے۔

گل رعنا سے وہاں بھی مدد لی گئی ہے جہاں غزل کے کچھ ہی / شیرانی/ حمیدیہ/نسخۂ بھوپالاشعار مزید مل سکے تھے، جیسے کسی غزل میں متداول دیوان میں پانچ سات اشعار ہیں

مروجہ اور نسخۂ بھوپال میں مزید دو تین اشعار مل گئے تو شامل کر دۓ گئے ہیں لیکن اگردواوین میں محض دو تین اشعار ہیں اور بھوپال کے نسخوں میں سات آٹھ مزید اشعار تو ان

کو چھوڑ دیا گیا ہے۔غرض کوشش یہ نہیں کی گئی ہے کہ تمام اشعار شامل کر دۓ جائیں۔ یہ کام تو مشہور ماہر

میں انجام ’ رتیب سےدیوان غالب کامل۔ تاریخی ت‘اقبالیات محترمی کالی داس گپتا رضا اپنی اشعار شامل کیے ہیں جب کہ متداول دویوان ۴٢٠٩دے چکے ہیں۔ اس نسخے میں انھوں نے

اشعار تھے۔ نسخۂ حمیدیہ سے کچھ مکمل غزلیں بطور ضمیمہ دوم شامل کر ١٨٠٢میں کل دی گئی ہیں۔

ے۔ چناں اس نسخے کی ایک مزید خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جدید امال کا خیال رکھاگیا ہ

: چہ کچھ الفاظ کی امال جو یہاں ہے، ان کی فہرست ذیل میں ہےکیونکر ۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کر

ہاے ۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ ہاۓ جانیہاے ۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ سخت جانی ہاۓ سخت

صحراے کی جگہ صحراۓپانو ۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ پاؤں

۔۔۔۔۔۔۔ بے کسئ بے کسی۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ بیکسی کی جگہ بے کسی

اچھی ‘حوالہ شمس الرحمن فاروقی، (درست آتا ہے، وہاں بھی آئینہ ’ آئنہ‘جہاں بحر میں )ء٢٠٠٧جنوری ’ اردو دنیا‘، کالم ’اردو، روز مره، محاوره، صرف

ئی تو کسی قاری کو کوئی غلطی نظر آۓ تو ہمیں اطالع دیں، اگر قابل قبول ہواگر پھر بھیہم بسرو چشم اسے قبول کریں گے اور تصحیح کے بعد یہ ای بک دوباره آپ کی خدمت میں

پیش کی جا سکے گی۔ شعیب ، نبیل نقوی ، سیده شگفتہ ، ) اعجاز عبید(اعجاز اختر ۔۔۔اردو ویب ڈاٹ آرگ ٹیم:ٹائپنگ شمشاد، رضوان محب علوی، ،)فریب(افتخار

ویریہ ریاض مسعوداعجاز عبید، ج: ترتیب و تحقیق

، اعجاز عبیدجویریہ ریاض مسعود : تصحیح و اضافہ

)جویریہ مسعود(2006جون 20:نظر اول

)جویریہ مسعود(2007مارچ 12: اضافۂ ضمیمۂ دوم

Page 5: Ghalib the Great Poet

4

)جویریہ مسعود(2007اکتوبر 05: اضافۂ حواشی حامد علی خان

نسخۂ بھوپال کی باز از انتخاب (۔ 2007اکتوبر27 :اضافہ و مزید تحقیق از اعجاز عبیدتاریخی ترتیب سے۔ ) کامل(دیوان غالب ء٢٠٠٧فروری یافت۔ سید تصنیف حیدر، ماہنامہ آج کل،

)کالی داس گپتا رضا

اشعار متداول و اشعار کرده سے منتخب اگل رعن/ شیرانی/ حمیدیہ/نسخۂ بھوپال:نوٹنسخے میں سرخ رنگ پر ان اشعار کو اسی بنااسمشہور دیوان کا حصہ نہیں ہیں۔

)جویریہ مسعود(۔میں رکھا گیا ہے

Page 6: Ghalib the Great Poet

5

الف

۔1 نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا

تصویر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر شوخئ نیرنگ، صید وحشت طاؤس ہے

دام، سبزے میں ہے پرواز چمن تسخیر کا لذت ایجاد ناز، افسون عرض ذوق قتل

نعل آتش میں ہے، تیغ یار سے نخچیر کا سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ 1کاو ؤکا

صبح کرنا شام کا، النا ہے جوئے شیر کا شوق دیکھا چاہیے بے اختیار ۂجذب

شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا ۂسین شنیدن جس قدر چاہے بچھائے آگہی دام

تقریر کا مدعا عنقا ہے اپنے عالم پشت دست عجز و قالب آغوش وداعخشت

پر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا وحشت خواب عدم شور تماشا ہے اسد

جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا2هزجو م ر پا ، اسیری میں بھی آتش زی غالب بس کہ ہوں

موئے آتش دیده ہے حلقہ مری زنجیر کا

۔2 آیاجنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند

دود سپند آیا3سےسویدا تا بلب زنجیر مہ اختر فشاں کی بہر استقبال آنکھوں سے

تماشا کشور آئینہ میں آئینہ بند آیا تغافل، بد گمانی، بلکہ میری سخت جانی ہے

نگاه بے حجاب ناز کو بیم گزند آیا

بھی لکھا ہے " کاؤکاؤ"درج ہے اور لوگ بے خیالی میں اسی طرح پڑھتے ہیں۔ بعض حضرات نے "کاوکاو "اکثر مروجہ نسخوں میں 1

علی حامد (پڑھنا چاہیے۔ " کاؤکاو "بہ تکرار مستعمل ہے۔ اس مصرع میں " کاؤکاؤ"جس کا یہاں کوئی محل نہیں۔ کاؤ۔ کاوش ۔ علی العموم ۔ )خاں

)جویریہ مسعود(۔ ہم نے حمیدیہ کے متن کو ترجیح دی ہے " مژه"نسخۂ عرشی میں " مزه"نسخۂ حمیدیہ میں 2 )جویریہ مسعود(کو سہو مرتب لکھا ہے " زنجیر سے"عرشی نے " زنجیری"عرشی میں 3

Page 7: Ghalib the Great Poet

6

فضاۓ خندۀ گل تنگ و ذوق عیش بے پروا سند آیافراغت گاه آغوش وداع دل پ

عدم ہے خیر خواه جلوه کو زندان بے تابی خرام ناز برق خرمن سعئ پسند آیا

جگر ہدیہجراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغ ، غمخوار جان دردمند آیااسد مبارک باد

۔3

عالم جہاں بعرض بساط وجود تھا جوں صبح، چاک جیب مجھے تار و پود تھا

یا بروئے کارجز قیس اور کوئی نہ آ تھا4سودح چشم ئصحرا، مگر، بہ تنگ

بازی خور فریب ہے اہل نظر کا ذوق ہنگامہ گرم حیرت بود و نمود تھا

عالم طلسم شہر خموشاں ہے سر بسر5 یا میں غریب کشور گفت و شنود تھا

سویدا کیا درستآشفتگی نے نقش ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

میں خیال کو تجھ سے معاملہتھا خواب جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا

دل میں سبق ہنوزغم لیتا ہوں مکتب لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی

وجود تھامیں، ورنہ ہر لباس میں ننگ اسد تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن

ود تھارسوم و قیخمار ۂسرگشت ۔4

کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا پایامدعادل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

بے دماغ خجلت ہوں رشک امتحاں تا کے ایک بے کسی تجھ کو عالم آشنا پایا

سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا

)حامد علی خاں(بہت حسد کرنے واال۔ بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ حسود جمع حاسد۔ حسود ۔" حسود"کی جگہ " حسود"یہاں 4 )جویریہ مسعود(یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے 5

Page 8: Ghalib the Great Poet

7

خاکبازئ امید، کارخانۂ طفلی اس کو دو عالم سے لب بخنده وا پایای

کیوں نہ وحشت غالب باج خواه تسکیں ہو کشتۂ تغافل کو خصم خوں بہا پایا

۔5 ت نے زیست کا مزا پایاعشق سے طبیع

درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا ، آج ہم نے اپنا دلنچہ پھر لگا کھلنےغ

خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا ناصح نے زخم پر نمک چھڑکاپند شور

آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا حلقہ ہوں ز سر تا پا، فکر نالہ میں گویا

عضو عضو جوں زنجیر، یک دل صدا پایا حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی

ا، تم نے بارہا پایاہم نے بار ہا ڈھونڈھ اس کا6شب نظاره پرور تھا خواب میں خرام

بوریا پایا7صبح موجۂ گل کو نقش ہے8کوچہ دادن گل،جس قدر جگر خوں ہو

زخم تیغ قاتل کو طرفہ دل کشا پایا ہے نگیں کی پا داری نام صاحب خانہ ہم سے تیرے کوچے نے نقش مدعا پایا

دل معلومماد اعت! دوست دار دشمن ہے آه بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا

جنوں مائل9نے اسد جفا سائل، نے ستم تجھ کو جس قدر ڈھونڈھا الفت آزما پایا

۔6

جل گیاانہاں سے بے محابرا سوز یدل م گویا جل گیا،آتش خاموش کی مانند

یار تک باقی نہیںوصل و یاد دل میں ذوق ی کہ جو تھا جل گیالگی ایسمیںآگ اس گھر

بارہا! میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل میری آه آتشیں سے بال عنقا جل گیا

)جویریہ مسعود" (خرام"بجاۓ " خیال"نسخۂ حمیدیہ میں 6 )جویریہ مسعود" (نقش"بجاۓ " وقف"نسخۂ حمیدیہ میں 7 )جویریہ مسعود" (گل"بجاۓ " دل"نسخۂ حمیدیہ میں 8

)جویریہ مسعود" (ستم جنوں"بجاۓ " جنوں سم "نسخۂ حمیدیہ میں 9

Page 9: Ghalib the Great Poet

8

ے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں؟ئعرض کیج کہ صحرا جل گیا،کچھ خیال آیا تھا وحشت کا

داغوں کی بہار،دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ اس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا

ود میرا سنبلستاں سے کرے ہے ہمسرید بس کہ ذوق آتش گل سے سراپا جل گیا

شمع رویوں کی سر انگشت حنائی دیکھ کر غنچۂ گل پر فشاں، پروانہ آسا، جل گیا

آتش باز ہےکان خانمان عاشقاں د 10شعلہ رو جب ہو گئے گرم تماشا، جل گیا

تا کجا افسوس گرمی ہاۓ صحبت، اے خیال 11آتش داغ تمنا جل گیادل بسوز

کہ دل! غالب میں ہوں اور افسردگی کی آرزو، اہل دنیا جل گیاتپاک دیکھ کر طرز

۔7

رقیب سروساماں نکالشوق، ہر رنگ قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکال

زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یارب افشاں نکالرپ بسمل سےنۂتیر بھی سی

دل، دود چراغ محفلۂنالبوئے گل، سو پریشاں نکال،جو تری بزم سے نکال

لذت دردۀدل حسرت زده تھا مائد کام یاروں کا بہ قدر لب و دنداں نکال

!دشوار پسنداے نو آموز فنا ہمت 12 سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکال شوخئ رنگ حنا خون وفا سے کب تک

13پشیماں نکالتو بھی ! آخر اے عہد شکن غالب دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا

و طوفاں نکالآه جو قطره نہ نکال تھا س

۔8 رد تھابندھمکی میں مر گیا، جو نہ باب 14

)جویریہ مسعود" (شعلہ رویاں جب ہوےگرم تماشا جل گیا: "نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے10دل ز آتش خیزئ داغ تمنا جل گیا: نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے11ی چھپا ہے۔ حسرت موہانی اور طباطبائی کے نسخوں، نیز بھ" تھی"اور بعض میں اس کی جگہ " ہے"کی جگہ " اے"بعض نسخوں میں 12

)حامد علی خاں(ہی چھپا ہے۔ " اے"بعض دوسے نسخوں میں

)اعجاز عبید(نسخۂ حمیدیہ میں مزید شعر13

Page 10: Ghalib the Great Poet

9

د تھارمطلبگار "نبرد پیشہعشق " تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا

مرا رنگ زرد تھا،اڑنے سے پیشتر بھی کر رہا تھا میںنسخہ ہائے وفاتالیف

خیال ابھی فرد فرد تھاۂمجموع دریائے خوں ہے ابدل تاجگر، کہ ساحل

گل، آگے گرد تھاۀاس ره گزر میں جلو !عشق کی جاتی ہے کوئی کشمکش اندوه

ہی دل کا درد تھادل بھی اگر گیا، تو و چاره سازئ وحشت نہ کر سکےاحباب

ں نورد تھابازنداں میں بھی خیال، بیا کی ہےںخستہ جااسد بے کفن یہ الش

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

۔9 پسند آیا"مشکلبت مرغوب "شمار سبحہ،

صد دل، پسند آیاردن تماشائے بہ یک کف ب جاوید آساں ہےئبہ فیض بے دلی، نومید مشکل پسند آیاۀکشائش کو ہمارا عقد

قاتلئبے مہرۂسیرگل، آئین15ہوائے بسمل پسند آیا16بخوں غلطیدن انداز کہ

ہوئی جس کو بہار فرصت ہستی سے آگاہی برنگ اللہ، جام باده بر محمل پسند آیا سواد چشم بسمل انتخاب نقطہ آرائی خرام ناز بے پروائ قاتل پسند آیا

روانی ہاۓ موج خون بسمل سے ٹپکتا ہے17 کہ لطف بے تحاشا رفتن قاتل پسند آیا

الی ہےڈاسد ہر جا سخن نے طرح باغ تازه مجھے رنگ بہار ایجادئ بیدل پسند آیا

۔10

تسلی نہ ہواوفا وجہ دہر میں نقش

وں ۔ حامد علی خان کے نسخے میں یہ مصرع ی) حامد علی خان(کے بعد ہے۔ "گیا"کے بجاے " جو"شارحین کالم کے نزدیک وقفہ 14

: ہے)جویریہ مسعود(رد تھابننہ باب ،دھمکی میں مر گیا جو

)جویریہ مسعود" (حجاب سیر گل"نسخۂ حمیدیہ میں 15 )اعجاز عبید(ہے جو سہو کتابت ہے’ غلتیدن‘اصل نسخۂ نظامی میں 16

)جویریہ مسعود(نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے۔ "یہ شعر 17

Page 11: Ghalib the Great Poet

10

معنی نہ ہواۀ ہے یہ وه لفظ کہ شرمند نہ ہوئی ہم سے رقم حیرت خط رخ یار

18صفحۂ آئینہ جوالں گہ طوطی نہ ہوا سرکش نہ دباکاکل خط سے تراۀسبز

افعی نہ ہوادم یہ زمرد بھی حریف وفا سے چھوٹوںکہ اندوه تھا میں نے چاہا

بھی راضی نہ ہواہوه ستمگر مرے مرنے پ مے و ساغر ہی سہیدل گزر گاه خیال

نہ ہواتقویسرمنزل ۀ س جادگر نف ہوں ترے وعده نہ کرنے پر بھی راضی کہ کبھی

ی نہ ہواتسل گلبانگمنت کش گوش قسمت کی شکایت کیجیےئسے محرومکس

مر جائیں، سو وه بھی نہ ہواتھا کہ ہم نے چاہا 19وسعت رحمت حق دیکھ کہ بخشا جاۓ

مجھ سا کافرکہ جو ممنون معاصی نہ ہوا غالب لب سے یک جنبش ۂمر گیا صدم20

نہ ہواعیسی ناتوانی سے حریف دم ۔11

ں کارضواگر ہے زاہد ، اس قدر جس باغ ستایش وه اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاق نسیاں کا

ہائے مژگاں کابیاں کیا کیجئے بیدادکاوش کہ ہر یک قطرهء خوں دانہ ہے تسبیح مرجاں کا نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع ، میرے نالوں کو

ستاں کای لیا دانتوں میں جو تنکا ، ہوا ریشہ ن نےگا تماشہ ، دی اگر فرصت زمانےدکھاؤں

دل ، اک تخم ہے سرو چراغاں کامرا ہر داغ کیا آئینہ خانے کا وه نقشہ تیرے جلوے نے

رشید عالم شبنمستاں کاوکرے جو پرتو خ مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

ہیولی برق خرمن کا ، ہے خون گرم دہقاں کا اگا ہے گھر میں ہر سو سبزه ، ویرانی تماشہ کر

میرے درباں کا،ار اب کھودنے پر گھاس کے ہےمد

)جویریہ مسعود" (صفحہ آئینہ ہوا، آئنہ طوطی نہ ہوا : "درج ہے نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں 18 )اعجاز عبید(نسخۂ حمیدیہ میں مزید19 :نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرعہ یوں ہے20

)اعجاز عبید( کے غالب’ قم‘مرگیا صدمۂ آواز سے

Page 12: Ghalib the Great Poet

11

الکھوں آرزوئیں ہیں21خموشی میں نہاں ، خوں گشتہ چراغ مرده ہوں ، میں بے زباں ، گور غریباں کا

باقی ہے"یارخیال پرتو نقش "اک ہنوز حجره ہے یوسف کے زنداں کا،دل افسرده ، گویا

، ورنہبغل میں غیر کی، آج آپ سوتے ہیں کہیں سبب کیا خواب میں آکر تبسم ہائے پنہاں کا نہیں معلوم ، کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا

قیامت ہے سرشک آلوده ہونا تیری مژگاں کا غالب راه فنا ۀ نظر میں ہے ہماری جاد

م کے اجزائے پریشاں کاکہ یہ شیرازه ہے عال ۔12

سے ذوق کم میرا"یک بیاباں ماندگی"نہ ہوگا اب موجۂ رفتار ہے نقش قدم میراحب

دماغی ہےے محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ ب بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میراکہ موج

۔13

سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا

خمار تشنہ کامی بھی! بقدر ظرف ہے ساقی میں خمیازه ہوں ساحل کاتو ،دریائے مے ہےتو جو

۔14

محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا یاں ورنہ جو حجاب ہے، پرده ہے ساز کا

شکستہ صبح بہار نظاره ہےرنگ یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا

نظرہائے تیز تیزتو اور سوئے غیر میں اور دکھ تری مژه ہائے دراز کا

وگرنہ میںصرفہ ہے ضبط آه میں میرا، س جاں گداز کاہوں ایک ہی نف 22عمہط

ہیں بسکہ جوش باده سے شیشے اچھل رہے ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا

کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز

)اعجاز عبید(’سرگشتہ‘نسخۂ حسرت موہانی میں 21

)حامد علی خان(مہ ۔ طعمہ، خوراک۔ طعمہ، لق"22

Page 13: Ghalib the Great Poet

12

ناخن پہ قرض اس گره نیم باز کا !اسد تاراج کاوش غم ہجراں ہوا،

سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا

۔15 شاہنشاه میں اشعار کا دفتر کھالبزم

رکھیو یارب یہ در گنجینۂ گوہر کھال شب ہوئی، پھر انجم رخشنده کا منظر کھال

ف سے کہ گویا بتکدے کا در کھالاس تکل گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب

آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھال گونہ پاؤں اس کا بھیدگو نہ سمجھوں اس کی باتیں،

کہ مجھ سے وه پری پیکر کھال؟پر یہ کیا کم ہے ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال

خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھال وه عالم کہ دیکھا ہی نہیںہےمنہ نہ کھلنے پر

زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھال کیسا پھر گیااور کہہ کے،در پہ رہنے کو کہا

جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھال کیوں اندھیری ہے شب غم، ہے بالؤں کا نزول

آج ادھر ہی کو رہے گا دیدۀ اختر کھال کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال

نامہ التا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھال بندت میں ہوں میں، میرے رہیں کیوں کاماس کی ام

گنبد بے در کھال!غالب واسطے جس شہ کے ۔16

شب کہ ذوق گفتگو سے تیری دل بیتاب تھا شوخئ وحشت سے افسانہ فسون خواب تھا شب کہ برق سوز دل سے زہرۀ ابر آب تھا

حلقۂ گرداب تھا23کشعلۂ جوالہ ہر ا واں کرم کو عذر بارش تھا عناں گیر خرام

اسیالب تھکف گریے سے یاں پنبۂ بالش لے زمیں سے آسماں تک فرش تھیں بے تابیاں

شوخئ بارش سے مہ فوارۀ سیماب تھا واں ہجوم نغمہ ہاۓ ساز عشرت تھا اسد 24

)حامد علی خاں(درج ہے " یک"کی جگہ " اک"قدیم نسخوں میں 23

مقطع کی وجہ سے لگتا ہے کہ یہ اور اگلی غزل در اصل دو الگ الگ غزلیں تھیں جن کو بعد میں خود غالب نے ایک کر کے پیش کیا 24

Page 14: Ghalib the Great Poet

13

ناخن، غم یاں سر تار نفس مضراب تھا

واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال یاں ہجوم اشک میں تار نگہ نایاب تھا

جوآبتھا واں چراغاں جلوۀ گل نے کیا یاں رواں مژگان چشم تر سے خون ناب تھا

وجخوابی سے تھا دیوار ے یاں سر پرشور ب تھا25واں وه فرق ناز محو بالش کمخواب

خودیےس کرتا تھا روشن، شمع بزم بیاں نف جلوۀ گل واں بساط صحبت احباب تھا

فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موج رنگ کا ں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھایا

نابہ ٹپکانے لگاں ناگہاں اس رنگ سے خو دل کہ ذوق کاوش ناخن سے لذت یاب تھا

۔17 نالۂ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا

تھا سپندبزم وصل غیر ، گو بیتاب تھا دیکھتے تھے ہم بچشم خود وه طوفان بال

ب تھاآسمان سفلہ جس میں یک کف سیال پیراہن دریا میں خارموج سے پیدا ہوۓ

گریہ وحشت بے قرار جلوۀ مہتاب تھا نگاه26جوش تکلیف تماشا محشرستان

فتنۂ خوابیده کو آئینہ مشت آب تھا بے دلی ہاۓ اسد افسردگی آہنگ تر یاد ایامے کہ ذوق صحبت احباب تھا

!مقدم سیالب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے عاشق مگر ساز صدائے آب تھاۂخان

ام خاکستر نشینی ، کیا کہوںنازش ای پہلوئے اندیشہ ، وقف بستر سنجاب تھا

کچھ نہ کی اپنے جنون نارسا نے ، ورنہ یاں ه روکش خرشید عالم تاب تھاه ذر ذر

ق

آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے ؟

)اعجاز عبید(تھا۔

)حامد علی خان(ابل ترجیح ہے، خصوصا اس شعر میں کمخواب کا امال کمخاب بھی ہے مگر کمخواب ق25)جویریہ مسعود" (نگاهمحشر آباد " نسخۂ حمیدیہ میں 26

Page 15: Ghalib the Great Poet

14

ب تھاکل تلک تیرا بھی دل مہرووفا کا با وه دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کایاد کر

انتظار صید میں اک دیدۀ بیخواب تھا کو ، وگرنہ دیکھتےغالب میں نے روکا رات

اس کے سیل گریہ میں ، گردوں کف سیالب تھا ۔18

کس کا جنون دید تمنا شکار تھا؟ آئینہ خانہ وادئ جوہر غبار تھا

ر تھاکس کا خیال آئینۂ انتظا ہر برگ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب

ودیعت مژگان یار تھاخون جگر اور ماتم یک شہر آرزواب میں ہوں

تمثال دار تھانہ، یتوڑا جو تو نے آئ گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں

جاں دادۀ ہوائے سر رہگزار تھا ج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حالمو

ہر ذره، مثل جوہر تیغ، آب دار تھا کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو، پر اب

دیکھا تو کم ہوئے پہ غم روزگار تھا ۔19

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی سے ٹپکے ہے بیاباں ہونادر و دیوار

دیوانگئ شوق کہ ہر دم مجھ کوۓوا ہونا27آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیراں

از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہےلوهج جوہر آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

عشرت قتل گہ اہل تمنا، مت پوچھ اره ہے شمشیر کا عریاں ہوناعید نظ

نشاطلے گئے خاک میں ہم داغ تمنائے گلستاں ہوناتو ہو اور آپ بہ صد رنگ

)جویریہ مسعود("پریشاں" نسخۂ طاہر میں 27

Page 16: Ghalib the Great Poet

15

عشرت پارۀ دل، زخم تمنا کھانا لذت ریش جگر، غرق نمکداں ہونا

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

!غالب 28حیف اس چار گره کپڑے کی قسمت جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

۔20

خمار شوق ساقی رستخیز اندازه تھاشب تا محیط باده صورت خانۂ خمیازه تھا

یک قدم وحشت سے درس دفتر امکاں کھال جاده، اجزائے دو عالم دشت کا شیرازه تھا

ہائے لیلے کون ہے؟مانع وحشت خرامی خانۂ مجنون صحرا گرد بے دروازه تھا پوچھ مت رسوائی انداز استغنائے حسن

مرہون حنا، رخسار رہن غازه تھادست نالۂ دل نے دیئے اوراق لخت دل بہ باد

اک دیوان بے شیرازه تھایادگار نالہ ہوں چراغان ہوس جوں کاغذ آتش زده

داغ گرم کوشش ایجاد داغ تازه تھا بے نوائی تر صداۓ نغمۂ شہرت اسد

تھا29بوریا یک نیستاں عالم بلند دروازه

۔21 گے کیا30ت غمخواری میں میری سعی فرمائیںدوس

زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا بے نیازی حد سے گزری بنده پرور، کب تلک

؟'کیا'ہم کہیں گے حال دل، اور آپ فرمائیں گے حضرت ناصح گر آئیں، دیده و دل فرش راه

کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟ تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میںآج واں

عذر میرے قتل کرنے میں وه اب الئیں گے کیا گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی

یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا

)حامد علی خان(ہی ہے " قسمت"لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں لیکن یہاں " قیمت"کی جگہ " قسمت"بعض حضرات 28

)جویریہ مسعود" (دروازه"بجاۓ " آوازه"نسخۂ حمیدیہ میں29وغیره قافیے درج ہیں، مثال شونرائن " فرمائیں، جائیں"وغیره چھپے ہیں۔ بعد کے نسخوں میں " فرماویں، جاویں"قدیم نسخوں میں قافیے 30

)حامد علی خاں(اور طباطبائی۔

Page 17: Ghalib the Great Poet

16

خانہ زاد زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں ہیں گرفتار وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا

اسد میں قحط غم الفت ہے اب اس معمورے ، کھائیں گے کیا؟31ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں

۔22

ار ہوتاایقسمت کہ وصال ہ نہ تھی ہماریی انتظار ہوتاہییتے رہتے ، یج اوراگر

اجانہ جان جھوٹ یترے وعدے پر جئے ہم تو سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتاکہ خوشی

ھا تھا عہد بوداسے جانا کہ بندنازکییتر ہوتااستواراگرتو نہ توڑ سکتا کبھی

م کش کوینتیر رے دل سے پوچھے ترے یمکوئی ، جو جگر کے پار ہوتاہ خلش کہاں سے ہوتیی ں دوست نا صحیہے کہ بنے ہدوستیہ کہاں کیی

غم گسار ہوتاکوئی چاره ساز ہوتا، کوئی سنگ سے ٹپکتا وه لہو کہ پھر نہ تھمتارگ

ہ اگر شرار ہوتایجسے غم سمجھ رہے ہو، ں کہ دل ہےیکہاں بچہپغم اگر چہ جاں گسل ہے

ہوتاعشق گر نہ ہوتا، غم روزگارغم بال ہے؟شب غم بریا ہےیں کہ کیکہوں کس سے م

ک بار ہوتایا برا تھا مرنا، اگر ایمجھے ک ؟ایوں نہ غرق دریہوئے ک،ہوئے مر کے ہم جو رسوا

ں مزار ہوتایه اٹھتا نہ کہجنازنہ کبھی کتایگانہ ہے وه یکہ ھ سکتا، کیاسے کون د

ں دو چار ہوتایتو کہجو دوئی کی بو بھی ہوتی غالب ان یہ ترا بیہ مسائل تصوف ی

،جو نہ باده خوار ہوتاےتسمجھلیتجھے ہم و ۔23

ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

شگی سے مدعا کیاتجاہل پی

" رہیں"یک پرانے نسخے کا اندراج ہے مگر اکثر نسخوں میں بھی ہے۔ اس کا سبب ا" رہے"کے بجاۓ : رہیں"بعض لوگوں کی زبان پر 31

)حامد علی خاں(درج ہے۔

Page 18: Ghalib the Great Poet

17

کیا کیا؟نازکہاں تک اے سراپا ہائے بے جا دیکھتا ہوںنوازش

ہائے رنگیں کا گال کیاشکایت نگاه بے محابا چاہتا ہوں

ہائے تمکیں آزما کیاتغافل س ہےفروغ شعلۂ خس یک نف

ہوس کو پاس ناموس وفا کیا نفس موج محیط بیخودی ہے

اہائے ساقی کا گال کیتغافل دماغ عطر پیراہن نہیں ہے

ہائے صبا کیاغم آوارگی ’انا البحر‘دل ہر قطره ہے ساز

ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا محابا کیا ہے، میں ضامن، ادھر دیکھ

بہا کیاں شہیدان نگہ کا خو وفا، سنگر جنس سن اے غارت

کی صدا کیا32شکست قیمت دل ی؟کیا کس نے جگرداری کا دعو شکیب خاطر عاشق بھال کیا

یہ قاتل وعدۀ صبر آزما کیوں؟ یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟

اس کی ہر باتغالب بالئے جاں ہے !عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا

۔24

درخور قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

و خودبیں ہیں، کہ ہمبندگی میں بھی وه آزاده در کعبہ اگر وا نہ ہواالٹے پھر آئے،

سب کو مقبول ہے دعوی تری یکتائی کا نہ سیما نہ ہوایروبرو کوئی بت آئ م خوباںئ چشکم نہیں نازش ہمنام گر اچھا نہ ہوا؟تیرا بیمار، برا کیا ہے

سینے کا داغ ہے وه نالہ کہ لب تک نہ گیا

)حامد علی خاں(لکھا ہے۔ " شیشۂ دل"کی جگہ " قیمت دل"ک نسخے میں ای32

Page 19: Ghalib the Great Poet

18

ه کہ دریا نہ ہواخاک کا رزق ہے وه قطر نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ مال

33کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا ہر بن مو سے دم ذکر نہ ٹپکے خونناب حمزه کا قصہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۀ بینا نہ ہوا

کے اڑیں گے پرزےغالب ر گرم کہ تھی خب پہ تماشا نہ ہوا،دیکھنے ہم بھی گئے تھے

۔25

ہم وه جنوں جوالں گدائے بے سر و پا ہیںاسد کہ ہے سر پنجۂ مژگان آہو پشت خار اپنا

۔26

کا'شرم نا رسائی'پۓ نذر کرم تحفہ ہے دعوی پارسائی کا،یدۀ صد رنگطبہ خوں غل

رسوا بے وفائی کا'شا دوستحسن تما'نہ ہو34 بہ مہر صد نظر ثابت ہے دعوی پارسائی کا جہاں مٹ جاۓ سعی دیدخضر آباد آسایش بجیب ہر نھہ پنہاں ہے حاصل رہنمائی کا بہ عجز آباد وہم مدعا تسلیم شوخی ہے

نہ کر مغرور تمکیں آزمائی کا35تغافل یوں زکات حسن دے، اے جلوۀ بینش، کہ مہر آسا

چراغ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا تیری گردن پر36!نہ مارا جان کر بے جرم، غافل

)جویریہ مسعود()ۂ حسرت، نسخۂ مہرنسخ(کام کا ہے مرے وه فتنہ کہ برپا نہ ہوا 33

: ہ شعر یوں ملتا ہےنسخۂ مہر اور حسرت موہانی میں ی: مزید کسی کو نہ مالجودکھ همیرے وہے نام کا

افتنہ کہ برپا نہ ہوهے ورم ہے کاکام اس ترتیب الفاظ کے ظاہری حسن کے باوجود دوسرے قدیم و جدید نسخے سے یہ ثبوت نہیں مال کہ غالب نے خود یہ شعر یوں بدل دیا تھا۔

سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے قدیم و جدید نسخوں کے عالوه عرشی، " کام کا"طلوب ہی نہ تھا جو غالب کو شاید دوسرے مصرع کا وه مفہوم مطباطبائی، مالک رام اور بیخود دہلوی کے نسخوں میں بھی یہ شعر یوں ہی مال ہے جیسا کہ متن میں درج ہوا ہے اور نسخۂ نظامی مطبوعۂ

)اںحاشیہ از حامد علی خ(میں بھی اسی طرح چھپا ہے۔ 1862

:ہےمطلع ہے جس کا ایک اور شعر یہ یہ شعر نسخۂ بھوپال بخظ غالب میں ایک علیحده غزل کا 34 تمنائے زباں محو سپاس بے زبانی ہے

مٹا جس سے تقاضا شکوۀ بے دست و پائی کا )اعجاز عبید( درمیان میں تین مزید اشعار اور آخر میں مطلع بھی ہے

)اعجاز عبید(اچھوٹ گیا ہے۔غالب’ یوں‘اصل نسخے میں 35 )جویریہ مسعود" (تغافل یوں نہ کر" بجاۓ " تغافل کو نہ کر" نسخۂ حمیدیہ میں : مزید

)جویریہ مسعود(ہے’ قاتل‘نسخۂ حمیدیہ، نظامی، حسرت اور مہر کے نسخوں میں لفظ 36

Page 20: Ghalib the Great Poet

19

رہا مانند خون بے گنہ حق آشنائی کا تمنائے زباں محو سپاس بے زبانی ہے

مٹا جس سے تقاضا شکوۀ بے دست و پائی کا گل ہےس واں نکہت وہی اک بات ہے جو یاں نف

ں نوائی کاچمن کا جلوه باعث ہے مری رنگی ، زنجیر رسوائی"بت پیغاره جو"دہان ہر

عدم تک بے وفا چرچا ہے تیری بے وفائی کا ، مختصر لکھ دےغالب نہ دے نامے کو اتنا طول

ہائے جدائی کاکہ حسرت سنج ہوں عرض ستم ۔27

بیاں ہو جائے گا‘اندوه شب فرقت ‘گر نہ گامہر دہاں ہوجائےبے تکلف، داغ مہ

زہره گر ایسا ہی شام ہجر میں ہوتا ہے آب پر تو مہتاب سیل خانماں ہوجائے گا

مگر،کا بوسہںکے پاؤلے تو لوں سوتے میں اس ایسی باتوں سے وه کافر بدگماں ہوجائے گا

دل کو ہم صرف وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا یعنی یہ پہلے ہی نذر امتحاں ہوجائے گا

ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہواسب کے دل میں اک زمانہ مہرباں ہوجائے گا،مجھ پہ گویا

گر نگاه گرم فرماتی رہی تعلیم ضبط رگ میں، نہاں ہوجائے گاخس میں، جیسے خوں شعلہ

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر ہوجائے گا"چشم خوں فشاں"ایک ہر گل تر

حشر میں نہ ہوانصاف متراگر میرا ۓوا اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہوجائے گا

گر وه مست ناز دیوے گا صالۓ عرض حال37 خار گل، بہر دہان گل زباں ہو جائے گا

اسد سوچ، آخر تو بھی دانا ہے ؟کیافائده اجی کا زیاں ہوجائے گ،دوستی ناداں کی ہے

ہی چھپا ہے۔ یہی لفظ نسخۂ طباطبائی اور " غافل"اں لفظ نسخۂ نظامی، نسخۂ حمیدیہ، نیز دیگر تمام پیش نظر قدین نسخوں میں یہ: مزید

ملتا " قاتل"نسخۂ عرشی میں ہے اور یہ منوی لحاظ سے درست بھی معلوم ہوتا ہے مگر نسخۂ حسرت اور نسخۂ مہر دونوں میں یہاں لفظ )حاشیہ از حامد علی خاں(ہے۔ شاید اس تبدیلی کا ذمہ دار نسخۂ حسرت کا کاتب ہو۔

)جویریہ مسعود" (گر وه مست ناز تمکیں دے صالۓ عرض حال: " حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہےنسخۂ 37

Page 21: Ghalib the Great Poet

20

۔28

درد منت کش دوا نہ ہوا برا نہ ہوا، میں نہ اچھا ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو اک تماشا ہوا، گال نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

کہ رقیب"،کتنے شیریں ہیں تیرے لب "گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا ہے خبر گرم ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا ؟کیا وه نمرود کی خدائی تھی بندگی میں مرا بھال نہ ہوا

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی ہے کہ حق ادا نہ ہوا38یوںحق تو

زخم گر دب گیا، لہو نہ تھما روا نہ ہوا، کام گر رک گیا ہے؟ستانیدلرہزنی ہے کہ

روانہ ہوا"دلستاں"لے کے دل، کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں

!ہوانہ غزل سرا غالب آج

۔29 گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا

اضطراب دریا کاگہر میں محو ہوا !مکتوبپاسخ اوریہ جانتا ہوں کہ تو

زده ہوں ذوق خامہ فرسا کامگر ستم حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی

دوام کلفت خاطر ہے عیش دنیا کا 39ملی نہ وسعت جوالن یک جنوں ہم کو

دل میں غبار صحرا کام کو لے گئے عد مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے

میں مدعا ہوں تپش نامۂ تمنا کا غم فراق میں تکلیف سیر باغ نہ دو

)جویریہ مسعود( ایا ہے" یہ"کے بجا ئے ' یوں'ۂ عالمہ اسی میں نسخۂ مہر، نسخ 38

)حاشیہ از حامد علی خان(درج ہے " یہ"نسخۂ حسرت موہانی میں یوں کی جگہ : مزید )اعجاز عبید(ہے۔’ نہ پائی وسعت ‘میں نسخۂ مبارک علی 39

Page 22: Ghalib the Great Poet

21

بے جا کا40مجھے دماغ نہیں خنده ہائے ہنوز محرمئ حسن کو ترستا ہوں

کرے ہے ہر بن مو کام چشم بینا کا دے بیٹھےدل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے،

ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدار حسرت دل ہے

دریا کاچمری نگاه میں ہے جمع و خر اسد فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اس کو یاد

کی ہے انداز کارفرما کا41سجفا میں ا ۔30

پرور ہواس نف قطرۀ مے بس کہ حیرت سے ر ہوارشتۂ گوہخط جام مے سراسر

اعتبار عشق کی خانہ خرابی دیکھنا غیر نے کی آه لیکن وه خفا مجھ پر ہوا

گرمئ دولت ہوئی آتش زن نام نکو ہوا42خانۂ ماتم میں یاقوت نگیں اخگر

نشے میں گم کرده ره آیا وه مست فتنہ خو آج رنگ رفتہ دور گردش ساغر ہوا

اہاں نے شکستیدرد سے در پرده دی مژگاں س ریزه ریزه استخواں کا پوست میں نشتر ہوا

جوش جنوں43اے بہ ضبط حال خو نا کردگاں نشۂ مے ہے اگر یک پرده نازک تر ہوا زہد گر دیدن ہے گردخانہ ہاۓ منعماں دانۂ تسبیح سے میں مہره در ششدر ہوا

اس چمن میں ریشہ واری جس نے سر کھینچا اسد ر ہواتر زبان شکر لطف ساقئ کوث

۔31

جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا ے پہ اک دل باندھاتپش شوق نے ہر ذر

اہل بینش نے بہ حیرت کدۀ شوخئ ناز

)اعجاز عبید(’خند ہاۓ‘نسخۂ نظامی کی امال ہے 40

" کارفرما"کا اشاره فلک کی طرف ہے " اس"درج ہے ۔ " اس"کے بجاۓ " اس"نسخۂ نظامی نیز دوسرے قدیم و جدید نسخوں یہاں 41)حامد علی خان(محبوب ہے۔

)جویریہ مسعود" (اختر"نی و عرشی میں ، شیرا"اخگر"نسخۂ حمیدیہ میں 42)جویریہ مسعود" (خو ناکردگاں"، شیرانی و عرشی میں "نا افسردگاں"نسخۂ حمیدیہ میں 43

Page 23: Ghalib the Great Poet

22

جوہر آئینہ کو طوطئ بسمل باندھا بده میداں مانگاک عر ایاس و امید نے

سم دل سائل باندھال عجز ہمت نے ط ب غالکے مضموں، 44شنگئ ذوقنہ بندھے ت

گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا ۔32

میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں ؟گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا

دے پڑے ہیںہے ایک تیر جس میں دونوں چھ وه دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا

کچھ بن پڑے تو جانوںغالب درماندگی میں اتھا، ناخن گره کشا تھگره ے جب رشتہ ب

۔33

گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

یہ وه کافر دل ہے؟تنگئ دل کا گلہ کیا کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا بعد یک عمر ورع بار تو دیتا بارے

یار کا درباں ہوتاکاش رضواں ہی در ۔34

کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتانہ تھا بویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتاڈ

وا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کاہ نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

مرگیا، پر یاد آتا ہےغالب ہوئی مدت کہ ا ہوتاوه ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کی

۔35

یک ذرۀ زمیں نہیں بے کار باغ کا

" شوق"درج ہے مگر غالب ہی کے کالم سے ثبوت ملتا ہے کہ بعض مقامات پر جہاں آج کل ہم " شوق"بعض جدید نسخوں میں یہاں 44

)حامد علی خان(لکھا ۔ " ذوق"نے استعمال کرتے ہیں، وہاں غالب

Page 24: Ghalib the Great Poet

23

یاں جاده بھی فتیلہ ہے اللے کے داغ کا بے مے کسے ہے طاقت آشوب آگہی

کھینچا ہے عجز حوصلہ نے خط ایاغ کا بلبل کے کاروبار پہ ہیں خنده ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا تازه نہیں ہے نشۂ فکر سخن مجھے

قدیم ہوں دود چراغ کاکئ تریا سو بار بند عشق سے آزاد ہم ہوئے

پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا بے خون دل ہے چشم میں موج نگہ غبار یہ مے کده خراب ہے مے کے سراغ کا

باغ شگفتہ تیرا بساط نشاط دل !ابر بہار خمکده کس کے دماغ کا جوش بہار کلفت نظاره ہے اسد

ابر پنبہ روزن دیوار باغ کاہے

۔36 وه میری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا

عنواں سمجھائ راز مکتوب بہ بے ربط یک الف بیش نہیں صقیل آئینہ ہنوز

چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا ہم نے وحشت کدۀ بزم جہاں میں جوں شمع

و ساماں سمجھاشعلۂ عشق کو اپنا سر خاطر مت پوچھئ سباب گرفتارشرح ا

اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا خرامبدگمانی نے نہ چاہا اسے سرگرم

رخ پہ ہر قطره عرق دیدۀ حیراں سمجھا عجزسے اپنے یہ جانا کہ وه بد خو ہوگا نبض خس سے تپش شعلۂ سوزاں سمجھا

سفر عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی اپنے شبستان سمجھاہر قدم سائے کو میں

تھا گریزاں مژۀ یار سے دل تا دم مرگ دفع پیکان قضا اس قدر آساں سمجھا اسد دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار،

غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا

۔37 تر یاد آیاۀپھر مجھے دید

Page 25: Ghalib the Great Poet

24

فریاد آیاۂدل، جگر تشن دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز

سفر یاد آیاپھر ترا وقت ہائے تمنا، یعنیسادگی

اد آیای45پھر وه نیرنگ نظر !واماندگی، اے حسرت دلعذر

نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی

یاد آیاگزرترا راه کیوں کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی

گھر ترا خلد میں گر یاد آیا فریاد کہاںآه وه جرأت آکے جگر یاد آیادل سے تنگ

پھر تیرے کوچے کو جاتا ہے خیال دل گم گشتہ، مگر، یاد آیا

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا اسد میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

۔38

ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا بھی تھاآپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر

تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ اس میں کچھ شائبۂ خوبی تقدیر بھی تھا تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتال دوں؟

کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد

کچھ اک رنج گرانباری زنجیر بھی تھا!ہاں !آنکھوں کے آگے تو کیابجلی اک کوند گئی

کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا،بات کرتے یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے، خیر ہوئی

تو میں الئق تعزیر بھی تھابیٹھےگر بگڑ دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا نالہ کرتا تھا، ولے طالب تاثیر بھی تھا

:مالحظہ ہو ان کا حاشیہ) جویریہ مسعود(حامد علی خاں کے نسخے میں نیرنگ نظر کے گاف پر اضافت نہیں 45

)حامد علی خان(نیرنگ نظر چھپا ہے جو صحیح نہیں۔ " کی جگہ " نیرنگ نظر "بہت سے نسخوں میں

Page 26: Ghalib the Great Poet

25

نامپیشے میں عیب نہیں، رکھیے نہ فرہاد کو میر بھی تھاں ہم ہی آشفتہ سروں میں وه جوا

ہم تھے مرنے کو کھڑے، پاس نہ آیا، نہ سہی بھی تھاآخر اس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا؟

غالب ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو یں کوئی میر بھی تھاکہتے ہیں اگلے زمانے م

۔39

مردگاں کا،خشک در تشنگیلب کده ہوں دل آزردگاں کازیارت

ب جوئیتقری46شگفتن کمیں گاه تصور ہوں بے موجب آزردگاں کا

باز کشتن47دیدۀغریب ستم سخن ہوں سخن بر لب آوردگاں کا

سراپا یک آئینہ دار شکستن ارداه ہوں یک عالم افسردگاں کا

ا امیدی، ہمہ بد گمانیہمہ ن میں دل ہوں فریب وفا خوردگاں کا

بصورت تکلف، بمعنی تاسف اسد میں تبسم ہوں پژمردگاں کا

۔40

نہ ہوا تھا! تو دوست کسی کا بھی، ستمگر اوروں پہ ہے وه ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا

نخشب کی طرح دست قضا نےہ چھوڑا م وا تھاخورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہ

ہمت ہے ازل سےۀتوفیق بہ انداز آنکھوں میں ہے وه قطره کہ گوہر نہ ہوا تھا

جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم میں معتقد فتنۂ محشر نہ ہوا تھا

)مسعودجویریہ" (کمیں دار "نسخۂ حمیدیہ میں 46 )جویریہ مسعود" (دیدۀغریب ستم"بجاۓ " جستۂغریب بدر"نسخۂ حمیدیہ میں 47

Page 27: Ghalib the Great Poet

26

میں ساده دل، آزردگی یار سے خوش ہوں یعنی سبق شوق مکرر نہ ہوا تھا

تنک آبی سے ہوا خشکی دریائے معاص دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھامیرا سر

تحصیل48ریداغ جگر سے م !اسد جاری تھی نہ ہوا تھاندرم س تشکده جاگیر آ

۔41

شب کہ وه مجلس فروز خلوت ناموس تھا سوت فانوس تھاہر شمع خار ک ۂرشت

بت پرستی ہے بہار نقش بندی ہاۓ دہر ہر صریر خامہ میں اک نالۂ ناقوس تھا

عاشق سے کوسوں تک جو اگتی ہے حنامشہد ہالک حسرت پابوس تھا!کس قدر یا رب

حاصل الفت نہ دیکھا جز شکست آرزو دل بہ دل پیوستہ، گویا، یک لب افسوس تھا

غم کی فراغت کا بیاںئ کیا کروں بیمار جو کہ کھایا خون دل، بے منت کیموس تھا

میںغم خانہ 49کل اسد کو ہم نے دیکھا گوشۂ دست بر سر، سر بزانوۓ دل مایوس تھا

۔42

منہ لے کے ره گئے اپنا سا ،نہ دیکھیآئ صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا

۔43

ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا ضرور تھااک گھر میں مختصر سا بیاباں

۔44 فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں

مگر سوال یہ ہے کہ " میرے داغ جگر سے تحصیل جاری تھی" چھپا ہے۔ مطلب یہ کہ " مرے"مروجہ نسخوں کی اکثریت میں یہاں 48

نہ پڑھا " مری"کی بجاۓ " مرے"ی جواب نہیں ہے۔ جب تک یہاں سمندر کے مقابلے میں یہاں کون تحصیل آتش کر رہا تھا؟ اس کا کوئجاۓ یعنی داغ جگر سے میری تحصیل تب و تاب اس وقت بھی جاری تھی جب کہ سمندر تک کو آتش کده عطا نہ ہوا تھا ۔ نسخۂ نظامی میں

ہذا صرف معنوی دلیل ہی متن کے اندراج کے حق ہی لکھا جاتا تھا۔ ل" مری"کو بھی " مرے"مری ہی چھپا ہے مگر قدیم نسخوں میں تو "میں دی جاسکتی ہے۔ حسرت موہانی اور عرشی کا بھی غالبا اسی دلیل پر اتفاق ہوگا۔ ان دونوں کے سوا شاید اور کسی فاضل مرتب دیوان

)حامد علی خاں(نہیں لکھا۔ " مری"غالب نے یہاں )از عبیداعج(ہے۔ ’ مے خانہ‘نسخۂ مبارک علی میں لفظ 49

Page 28: Ghalib the Great Poet

27

پابند مطلب ہانہیں رفتار عمر تیز رو ۔45

عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا جس دل پہ ناز تھا مجھے وه دل نہیں رہا

جاتا ہوں داغ حسرت ہستی لیے ہوئے ہوں شمع کشتہ درخور محفل نہیں رہا

ہی تدبیر کر کہ میں مرنے کی اے دل اور شایان دست و خنجر قاتل نہیں رہا

بر روۓ شش جہت در آئینہ باز ہے یاں امتیاز ناقص و کامل نہیں رہا

وا کر دیے ہیں شوق نے بند نقاب حسن غیر از نگاه اب کوئی حائل نہیں رہا

ہاے روزگار گو میں رہا رہین ستم لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

کشت وفا مٹ گئی کہ واں ئےدل سے ہوا حاصل سواے حسرت حاصل نہیں رہا

جاں دادگاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے50 یاں عرصۂ تپیدن بسمل نہیں رہا

51ہوں قطره زن بمرحلۂ یاس روز و شب جز تار اشک جادۀ منزل نہیں رہا

اے آه میری خاطر وابستہ کے سوا یں رہادنیا میں کوئی عقدۀ مشکل نہ

52اسد بیداد عشق سے نہیں ڈرتا مگر جس دل پہ ناز تھا مجھے وه دل نہیں رہا

۔46

خود پرستی سے رہے باہم دگر نا آشنا بے کسی میری شریک آئینہ تیرا آشنا آتش موۓ دماغ شوق ہے تیرا تپاک

ورنہ ہم کس کے ہیں اے داغ تمنا، آشنا ںجوہر آئینہ جز رمز سر مژگاں نہی

ہم دگر سمجھے ہے ایما آشنا53آشنائی

)اعجاز عبید(ہے’ فرصت گزار‘یہ تین اشعار نسخہ بھوپال میں ہیں، اس مصرعے میں نسخۂ عرشی میں لفظ 50

)اعجاز عبید(’ہوں قطره زن بوادئ حسرت شبانہ روز‘میں ہے )اور نسخۂ حمیدیہ(نسخۂ مبارک علی51

)جویریہ مسعود(۔ کو پر اسدانداز نالہ یاد ہیں سب مجھ: نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے52)جویریہ مسعود" (آشنائی"بجاۓ " آشنا کی" نسخۂ حمیدیہ میں 53

Page 29: Ghalib the Great Poet

28

ربط یک شیرازۀ وحشت ہیں اجزاۓ بہار سبزه بیگانہ، صبا آواره، گل نا آشنا

!رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخالص حیف عقل کہتی ہے کہ وه بے مہر کس کا آشنا

نیرنگ ہے ۂذره ذره ساغر مے خان ہاے لیلی آشنا گردش مجنوں بہ چشمک

"اماں طراز نازش ارباب عجزس"ہے شوق ذره صحرا دست گاه و قطره دریا آشنا

کہ ہے "،میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وه دل وحشی "عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا

شکوه سنج رشک ہم دیگر نہ رہنا چاہیے میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا

اسد تھا "نقاش یک تمثال شیریں"کوہکن سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا

۔47

ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپناتھا جو رازداں اپنا۔بن گیا رقیب آخر

مے وه کیوں بہت پیتے بز م غیر میں یا ربآج ہی ہوا منظور ان کو امتحاں اپنامنظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے

ے مکاں اپناہوتا، کاشک54عرش سے ادھردے وه جس قد ر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے

بارے آشنا نکال، ان کا پاسباں، اپنادر د دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھالدوں

انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپناگھستے گھستے مٹ جاتا، آپ نے عبث بدال

ننگ سجده سے میرے، سنگ آستاں اپنا رلیا ہے دشمن کوتا کرے نہ غمازی، ک

دوست کی شکایت میں ہم نے ہمزباں اپناہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے

دشمن آسماں اپناغالب بے سبب ہوا ۔48

طاؤس در رکاب ہے ہر ذره آه کا

سے ادا " پرے"یا " ادھر"چھپا ہے۔ شعر کا صحیح مفہوم " پرے"چھپا ہے ۔ نسخۂ حمیدیہ میں " ادھر"کی جگہ " ادھر"اکثر نسخوں میں 54 )حامد علی خاں") (ادھر: "نسخۂ نظامی )رحیں لکھی ہیں وه تسلی بخش نہیں ہیں۔ لکھنے والوں نے اس شعر کی جو ش" ادھر"ہوتا ہے۔

Page 30: Ghalib the Great Poet

29

یا رب نفس غبار ہے کس جلوه گاه کا؟ بزم ہیں واماندگان دید55عزت گزین

کامیناۓ مے ہے آبلہ پاۓ نگاه ہر گام آبلے سے ہے دل در تہ قدم کیا بیم اہل درد کو سختئ راه کا

جیب نیاز عشق نشاں دار ناز ہے آئینہ ہوں شکستن طرف کاله کا

یہ ہے56سرمۂ مفت نظر ہوں مری قیمت کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرا

نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالمرخصت م پنہاں میراغ57تیرے چہرے سے ہو ظاہر

۔49

غافل بہ وہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں ره گیاه کابے شانۂ صبا نہیں ط

بزم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ، کہ رنگ کاگاهدامجستہ ہے اس دام زصید

رحمت اگر قبول کرے، کیا بعید ہے شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناه کا

، کہ ہےں میں ہوتا نشاط سے جاکو کسمقتل رگل خیال زخم سے دامن نگاه کاپ

اسد ہے "یک نگہ گرمۓہوا"جاں در پروانہ ہے وکیل ترے داد خواه کا

۔50

جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھالئیں کیا رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا ے ہو رہ س کو ہم سمجھیں لگاؤ الگ ہو تو ا

جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

ہی کیوں نہ جائے موج خوں سر سے گزر آستان یار سے اٹھ جائیں کیا

)جویریہ مسعود" (عزت گزین "بجاۓ " عزلت گزین "نسخۂ حمیدیہ میں 55 )اعجاز عبید(’مری قسمت‘میںء1863نسخۂ آگره، منشی شیو نارائن، 56)حامد علی خان(ھپا ہے۔ چ" عیاں ہو"کی جگہ " ہو ظاہر"نسخۂ حسرت موہانی میں 57

Page 31: Ghalib the Great Poet

30

عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راه مر گیے پر دیکھیے دکھالئیں کیا

کون ہے غالب وچھتے ہیں وه کہ پ کوئی بتالؤ کہ ہم بتالئیں کیا

۔51

ہے ساماں اشک باری کا58بہار رنگ خون دل جنون برق نشتر ہے رگ ابر بہاری کا

مشکل ہوں ز پا افتادۀ حسرتبراۓ حل بندھا ہے عقدۀ خاطر سے پیماں خاکساری کا

بوقت سرنگونی ہے تصور انتظارستاں کا سے شغل ہے اختر شماری کا59لوںساکو نگہ

لطافت بےکثافت جلوه پیدا کر نہیں سکتی چمن زنگار ہے آئینۂ باد بہاری کا

حریف جوشش دریا نہیں خوددارئ ساحل جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعوی ہوشیاری کا

تسلیم ہو گردش سے گردوں کیساغر کش اسد ی کاکہ ننگ فہم مستاں ہے گلہ بد روزگار

۔52

عشرت قطره ہے دریا میں فنا ہو جانا درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

تجھ سے، قسمت میں مری، صورت قفل ابجد تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا دل ہوا کشمکش چارۀ زحمت میں تمام

ہو جانامٹ گیا گھسنے میں اس عقدے کا وا هللا هللاب جفا سے بھی ہیں محروم ہم

ہو جانادشمن ارباب وفااس قدر ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا

باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا دل سے مٹنا تری انگشت حنائی کا خیال ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا ہے مجھے ابر بہاری کا برس کر کھلنا اروتے روتے غم فرقت میں فنا ہو جان

گر نہیں نکہت گل کو ترے کوچے کی ہوس

)جویریہ مسعود" (خون دل"بجاۓ " خون گل"نسخۂ حمیدیہ میں 58)جویریہ مسعود(ہوسکتا ہے نسخۂ حمیدیہ میں سہو کتابت ہو " سالوں سے"بجاۓ " آبلوں سے" نسخۂ حمیدیہ میں 59

Page 32: Ghalib the Great Poet

31

کیوں ہے گرد ره جوالن صبا ہو جانا تاکہ تجھ پر کھلے اعجاز ہواۓ صیقل

اہو جانکاآئنےبرسات میں سبز دیکھ غالب بخشے ہے جلوۀ گل، ذوق تماشا

چشم کو چاہۓ ہر رنگ میں وا ہو جانا ۔53

شکوۀ یاراں غبار دل میں پنہاں کر دیا یہی ویرانہ تھایاںعایسے گنج کو غالب

۔54

پھر وه سوۓ چمن آتا ہے خدا خیر کرے رنگ اڑتا ہے گلستاں کے ہواداروں کا

۔55

ہےمتوابے سامانئ فرعون ویہ عجز ! اسد جسے تو بندگی کہتا ہے دعوی ہے خدائی کا

۔56

بس کہ فعال ما یرید ہے آج ہر سلحشور انگلستاں کا

ھر سے بازار میں نکلتے ہوۓگ ہے آب انساں کاہوتازہره

چوک جس کو کہیں وه مقتل ہے زنداں کاگھر بنا ہے نمونہ

دہلی کا ذره ذره خاکشہر تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا

کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک آدمی واں نہ جا سکے یاں کا

میں نے مانا کہ مل گۓ پھر کیا جاں کاو دل تن وروناوہی

شکوهۓیکگاه جل کر کیا سوزش داغ ہاۓ پنہاں کا

باہمۓیکگاه رو کر کہا ماجرا دیده ہاۓ گریاں کا

اس طرح کے وصال سے یا رب کیا مٹے داغ دل سے ہجراں کا

۔57

Page 33: Ghalib the Great Poet

32

بہ رہن شرم ہے با وصف شوخی اہتمام اس کا نگیں میں جوں شرار سنگ نا پیدا ہے نام اس کا

ود ہے مہرنوازش نامہ ظاہر ہےمسی آل کہ داغ آرزوۓ بوسہ دیتا ہے پیام اس کا بامید نگاه خاص ہوں محمل کش حسرت مبادا ہو عناں گیر تغافل لطف عام اس کا

۔58 اسد ہے ہنرمندی ،عیب کا دریافت کرنا

کامل ہوا،نقص پر اپنے ہوا جو مطلع ۔59

تاب تھادل بے ،شب کہ ذوق گفتگو سے تیرے شوخئ وحشت سے افسانہ فسون خواب تھا

اسد واں ہجوم نغمہ ہاۓ ساز عشرت تھا یاں سر تار نفس مضراب تھاناخن غم

۔60

دود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی60 وه دل سوزاں کہ کل تک شمع، ماتم خانہ تھا

یاراں غبار دل میں پنہاں کر دیاشکوۀ ج کو شایاں یہی ویرانہ تھاایسے کنغالب

)از عبیداعج(ہے۔’ دود‘ہے لیکن نسخۂ عرشی میں پہال لفظ ’ درد‘نسخۂ مبارک علی میں 60

Page 34: Ghalib the Great Poet

33

ب ۔61

پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب موج شرابناشست ددے بط مے کو دل و

پوچھ مت وجہ سیہ مستئ ارباب چمن وا موج شرابسایۂ تاک میں ہوتی ہے ہ

جو ہوا غرقۂ مے بخت رسا رکھتا ہے سر پہ گزرے پہ بھی ہے بال ہما موج شراب

ہ برسات وه موسم کہ عجب کیا ہے اگرہے ی موج ہستی کو کرے فیض ہوا موج شراب

طوفان طرب سے ہر سواٹھتی ہے 61چار موج موج گل، موج شفق، موج صبا، موج شراب

ہے جگر تشنۂ نازاتیبنجس قدر روح دے ہے تسکیں بدم آب بقا موج شراب

کہ دوڑے ہے رگ تاک میں خوں ہوہوکربس پر رنگ سے ہے بال کشا موج شرابشہ

موجۂ گل سے چراغاں ہے گزرگاه خیال بس جلوه نما موج شرابہے تصور میں ز

کے پردے میں ہے محو تماشاۓ دماغنشے موج شراببس کہ رکھتی ہے سر نشو و نما

ایک عالم پہ ہیں طوفانئ کیفیت فصل موجۂ سبزۀ نوخیز سے تا موج شراب

موسم گل!مۂ مستی ہے، زہےشرح ہنگا رہبر قطره بہ دریا ہے، خوشا موج شراب

اسد جلوۀ گل دیکھ، ،ہوش اڑتے ہیں مرے پھر ہوا وقت، کہ ہو بال کشا موج شراب

گرداب61

Page 35: Ghalib the Great Poet

34

ت ۔62

کا کیا رزق فلک نے62افسوس کہ دنداں جن لوگوں کی تھی درخور عقد گہر انگشت

اچھلے کا نہ دین63،ریکافی ہے نشانی ت خالی مجھے دکھال کے بوقت سفر انگشت

سوزش دل سے سخن گرماسد لکھتا ہوں تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت

۔63

رہا گر کوئی تا قیامت سالمت پھر اک روز مرنا ہے حضرت سالمت جگر کو مرے عشق خوں نابہ مشرب

’خداوند نعمت سالمت‘لکھے ہے فا ہوںعلی اللرغم دشمن، شہید و

مبارک مبارک سالمت سالمت معنینہیں گر سر و برگ ادراک

تماشاۓ نیرنگ صورت سالمت ۔64

آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست دود شمع کشتہ تھا شاید خط رخسار دوست

ضبط شوق کر! اے دل ناعاقبت اندیش

)اعجاز عبید(مناسب ہے، دیداں سہو کتابت ممکن ہے۔ ’ دنداں‘ہے لیکن معانی کے لحاظ سے ’ دیداں‘نسخۂ نظامی میں اگرچہ 62

دیداں دوده کا جمع ہے اس سے مراد کیڑے ہیں۔ تب اس کا مطلب بنتا ہے کہ انگلیوں کو قبر کی کیڑوں کا خوراک بنا دیا۔ نسخۂ مہر اور جویریہ (میں لفظ دندان ایا ہے ) 1983شایع کرده مجلس ترقی ادب الہور (نسخہ عالمہ اسی میں لفظ دیداں ہی ایا ہے ہاں البتہ نسخہ حمیدیہ

)مسعود

دوده عربی میں کیڑے کو کہتے ہیں ، اس کی " چھپا ہے۔ " دیداں"کے بجاۓ " دندان"نسخۂ نظامی اور بعض دوسرے نسخوں میں : مزید۔ یہ بات خالف قیاس معلوم ہوتی ہے کہ غالب نے دیداں لکھا ہو۔ اس میں معنوی سقم یہ ہے کہ قبر " دیدان"ہے اور جمع الجمع " دود"جمع

میں پورا جسم ہی کیڑوں کی نذر ہوجاتا ہے، انگلیوں کی کوئی تخصیص نہیں نہ خاص طور پر انگلی کے گوشت سے کیڑوں کی زیاده لتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ کسی مرے ہوۓ محبوب کا ماتم بھی نہیں ہے بلکہ زمانے کی ناقدری کا ماتم ہے کہ جو رغبت کا کوئی ثبوت م

انگلی عقد گہر کی قابل تھی وه حسرت و افسوس کے عالم میں دانتوں میں دبی ہے۔ خوبصورت دانتوں کو موتیوں کی لڑی سے تشبیہ دی ملحوظ لکھی گئی ہے۔ کیڑوں کو موتیوں سے تشبیہ دینا مذاق سلیم کو مکروه معلوم ہوتا ہے۔ جاتی ہے اس لیے موتی کے زیور کی رعایت

) حامد علی خاں(

کو ترجیح دی گئی ہے۔ اس صورت میں عالمت وقف " تری"چھپا ہے۔ متن میں " ترا"اور بعض میں " تری"بعض نسخوں میں یہاں 63کافی ہے نشانی، ترا چھلے کا نہ دینا۔۔۔ متن کے : کے بعد ہونی چاہیے یعنی " نشانی"قف کے بعد ہے۔ دوسری صورت میں عالمت و" تری"

اندراج کا مفہوم یہ ہے کہ تیری یہی نشانی میرے لیے کافی ہے کہ رخصت کے وقت جب میں نے تجھ سے نشانی کا چھال مانگا تو تو نے ) حامد علی خاں(چھپا ہے۔ " تری"ی اس متن کے مطابق مجھے ایک اداۓ خاص سے ٹھینگا دکھادیا۔ نسخۂ نظامی میں بھ

Page 36: Ghalib the Great Poet

35

کون ال سکتا ہے تاب جلوۀ دیدار دوست تماشا کیجیۓ!تخانہ ویراں سازئ حیر رفتار دوست64فتۂصورت نقش قدم ہوں ر

عشق میں بیداد رشک غیر نے مارا مجھے کشتۂ دشمن ہوں آخر، گرچہ تھا بیمار دوست چشم ما روشن، کہ اس بے درد کا دل شاد ہے

دیدۀ پر خوں ہمارا ساغر سرشار دوست ق

غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں ف دوست ہو جیسے کوئی غم خوار دوستبے تکل

تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک مجھ کو دیتا ہے پیام وعدۀ دیدار دوست

جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۀ ضعف دماغ سر کرے ہے وه حدیث زلف عنبر بار دوست

چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر گفتار دوستہنس کے کرتا ہے بیان شوخئ

مہربانی ہاۓ دشمن کی شکایت کیجیۓ سپاس لذت آزار دوستجےکییا بیاں

یہ غزل اپنی، مجھے جی سے پسند اتی ہےاپ ز بس تکرار دوست! غالب ہے ردیف شعر میں

۔65

غالب آنکھیں کھولتے ہی کھولتےگئیں مندیار الۓ مری بالیں پہ اسے، پر کس وقت

)حامد علی خاں(۔ ہے۔ " رفتہ"پڑھتے ہیں۔ یقین ہے کہ غالب کا لفظ یہاں " رفتہ"شاید بعض حضرات اس کو 64

Page 37: Ghalib the Great Poet

36

ج ۔66

دگر ہے آجرنگہ بمیں بند وبست گلشن قمری کا طوق حلقۂ بیرون در ہے آج

معزولئ تپش ہوئی افراط انتظار چشم کشاده حلقۂ بیرون در ہے آج

حیرت فروش صد نگرانی ہے اضطرار 65ہر رشتہ تار جیب کا تار نظر ہے آج

چل! کناره کر، اے انتظام! اے عافیت و در ہے آجسیالب گریہ در پے دیوار

آتا ہے ایک پارۀ دل ہر فغاں کے ساتھ تار نفس کمند شکار اثر ہے آج

ہوں داغ نیم رنگئ شام وصال یار ر چراغ بزم سے جوش سحر ہے آجنو

کرتی ہے عاجزی سفر سوختن تمام ہے آجپیراہن خسک میں غبار شرر

تا صبح ہے بہ منزل مقصد رسیدنی ہے آجہ غبار سفردود چراغ خان

دور اوفتادۀ چمن فکر ہے اسد ہے آجمرغ خیال بلبل بے بال و پر

۔67 ارظافراز انتیمعزولئ تپش ہوئ

چشم کشوده حلقۂ بیرون در ہے آج ۔68

ہیں66لو ہم مریض عشق کے بیماردار !!اچھا اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا عالج

)جویریہ مسعود(سر رشتہ چاک جیب کا تار نظر ہے آج : نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے65ہی ملتا ہے " بیماردار"چھپا ہے مگر قدیم نسخوں میں یہاں لفظ " دارتیمار"کی جگہ عموما " داربیمار" ں یہاں نئے مروجہ نسخوں می66

) حامد علی خاں(جو کم از کم غالب کے عہد میں اس مفہوم کے لیے زیاده موزوں تھا۔

Page 38: Ghalib the Great Poet

37

چ ۔69

باہر کھینچس نہ انجمن آرزو سےنف ار ساغر کھینچاگر شراب نہیں انتظ

نہ پوچھ"تالش دید67ی سعکمال گرمئ " خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچرنگہ ب

!تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل کیا ہے کس نے اشاره کہ ناز بسترکھینچ

نظارۀ نرگسحسرتہ بتری طرف ہے دل و چشم رقیب ساغر کھینچکورئہ ب

یم غمزه ادا کر حق ودیعت نازبہ ن نیام پردۀ زخم جگر سے خنجر کھینچ

پنہاںآتش مرے قدح میں ہے صہباۓ کباب دل سمندر کھینچ68فرهس بروۓ

نہ کہہ کہ طاقت رسوائ وصال نہیں اگر یہی عرق فتنہ ہے، مکرر کھینچ

جنون آئینہ مشتاق یک تماشا ہے مسطر کھینچہمارے صفحے پہ بال پری سے

خمار منت ساقی اگر یہی ہے اسد دل گداختہ کے مے کدے میں ساغر کھینچ

کی " الف"مال نہیں کیا گیا کیوں کہ اضافت سے یہاں جیسے الفاظ میں اضافت کے لیے زیر کے بجاۓ ہمزه کا استع’ نفی‘اور ’ سعی’67

) حامد علی خاں(کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ " ی" نہیں

یعنی (سے ہے مگر بعض لوگ اس تلفظ میں ذم کا پہلو دیکھتے ہیں اور سفره بہ سین مفتوح ) یعنی س پر پیش(صحیح تلفظ سین مضموم 68)حامد علی خاں(بولتے ہیں۔ ۔ ) س پر زبر

Page 39: Ghalib the Great Poet

38

د ۔70

کی کشاکش سے چھٹا میرے بعدسن غمزےح بارے آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد منصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا

ادا میرے بعدوہوئی معزولئ انداز واں اٹھتا ہےشمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھ

شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد یعنی،خوں ہے دل خاک میں احوال بتاں پر

ان کے ناخن ہوۓ محتاج حنا میرے بعد درخور عرض نہیں جوہر بیداد کو جا

نگہ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد ہے جنوں اہل جنوں کے لۓ آغوش وداع چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد

ن ہوتا ہے حریف مۓ مرد افگن عشقکو صال میرے بعد69ہے مکرر لب ساقی میں

غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی کہ کرے تعزیت مہر و وفا میرے بعد

ابتھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نق70 بے خطر جیتے ہیں ارباب ریا میرے بعد تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاه

ا میرے بعدقق ہوۓ میرے رف متفر غالب آۓ ہے بے کسئ عشق پہ رونا

کس کے گھر جاۓ گا سیالب بال میرے بعد ۔71

ہالک بے خبری نغمۂ وجود و عدم جہان و اہل جہاں سے جہاں جہاں آباد

۔72

)اعجاز عبید(۔ اکثر نسخوں میں بعد میں یہی امال ہے۔’لب ساقی پہ‘نسخۂ حمیدیہ میں ہے 69

)جویریہ مسعود(ہے۔' پہ'نسخۂ مہر، اسی اور باقی نسخوں میں لفظ : مزیددرج " پہ"میں یہنسخۂ حمیدہی چھپا ہے۔" میں"نسخۂ نظامی، نسخۂ عرشی، نسخۂ حسرت موہانی اور بعض دیگر نسخوں میں یہاں : مزید

ہی کہا تھا تو اس کی مراد یہ ہوگی کہ غلبۂ غم کے باعث صال لبوں " میں"کتابت معلوم ہوتاہے لیکن اگر غالب نے سہو " میں"ہے ۔ ظاہرا )حامد علی خاں(پر نہ آسکی لبوں میں ہی ره گئی۔

)جویریہ مسعود(یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے۔ 70

Page 40: Ghalib the Great Poet

39

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

Page 41: Ghalib the Great Poet

40

ر ۔73

و دیوارنظر درپیش یہجو ہیںبال سے و دیوارپر درشوق کو ہیں بال و نگاه رنگکیا یہکا 71ےنے کاشاناشکوفور

و دیوارو در درکہ ہو گۓ مرے دیوار قدم یارنہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید م

و دیوارگۓ ہیں چند قدم پیشتر در ارزانئ مۓ جلوهقدر ہوئی ہے کس

و دیوارمیں ہر درکہ مست ہے ترے کوچے جو ہے تجھے سر سوداۓ انتظار، تو آ

و دیوارکہ ہیں دکان متاع نظر در ہجوم گریہ کا سامان کب کیا میں نے

و دیوارکہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در وه آ رہا مرے ہم سایہ میں، تو ساۓ سے

و دیواردرپرو دیوار ہوۓ فدا در ھر کی آبادینظر میں کھٹکے ہے بن تیرے گ

و دیوارہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در قدم سیالبنہ پوچھ بے خودئ عیش م

و دیوارکہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در نہیں زمانے میںغالب نہ کہہ کسی سے کہ

و دیوارحریف راز محبت مگر در ۔74

گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر ہے بغیر؟جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر ک

کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقت سخن ’جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر‘

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر

جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم72 سر جاۓ یا رہے، نہ رہیں پر کہے بغیر

)جویریہ مسعود("کاشانے"بجاۓ " کاشانہ"اری آسی لکھنوی کے نسخے میں موالنا عبد الب71 )حامد علی خاں(جی ہی میں۔ : نسخۂ حسرت72

Page 42: Ghalib the Great Poet

41

پوجنا73فر کاچھوڑوں گا میں نہ اس بت کا کہے بغیررکاف خلق گو مجھے ہنچھوڑے

ولے گفتگو میں کاممقصد ہے ناز و غمزه چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر

ہر چند ہو مشاہدۀ حق کی گفتگو و ساغر کہے بغیربنتی نہیں ہے باده

دونا ہوں التفات،تو چاہیۓ۔بہرا ہوں میں بغیرسنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے

نہ کر حضور میں تو بار بار عرضغالب ن پر کہے بغیرظاہر ہے تیرا حال سب ا

۔75

تاب رخ یار دیکھ کر،کیوں جل گیا نہ جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر

آتش پرست کہتے ہیں اہل جہاں مجھے سرگرم نالہ ہاۓ شرربار دیکھ کر

عشق، جہاں عام ہو جفاروۓآبکیا وں تم کو بے سبب آزار دیکھ کررکتا ہ

جوش رشک سےر پ آتا ہے میرے قتل کو مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

ثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلق لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

ہم کو حریص لذت آزار دیکھ کر متاع سخن کے ساتھ،آپک جاتے ہیں ہم ب

لیکن عیار طبع خریدار دیکھ کر زنار باندھ، سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال

رہرو چلے ہے راه کو ہموار دیکھ کر ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں جی خوش ہوا ہے راه کو پر خار دیکھ کر

کہ آئینے میں مرے،کیا بد گماں ہے مجھ سے زنگار دیکھ کرطوطی کا عکس سمجھے ہے نہ طو ر پر،گرنی تھی ہم پہ برق تجلی

دیکھ کر'ظرف قدح خوار'دیتے ہیں باده کا'ده حالشوریغالب '!سر پھوڑنا وه

)حامد علی خاں(کافر کو پوجنا۔ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ : نسخۂ حمیدیہ73

Page 43: Ghalib the Great Poet

42

دیکھ کریاد آگیا مجھے تری دیوار

۔76 لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر میں ہوں وه قطرۀ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر

یوسف نے یاں بھی خانہ آرائینہ چھوڑی حضرت سفیدی دیدۀ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر

ہوں اس زمانے سے"تعلیم درس بے خودی"فنا دبستاں پرکہ مجنوں الم الف لکھتا تھا دیوار

فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے بہم گر صلح کرتے پاره ہاۓ دل نمک داں پر

ومار ناز ایسانہیں اقلیم الفت میں کوئی ط عنواں پرمہرپشت چشم سے جس کی نہ ہووے کہ

یاد آیاهآلودمجھے اب دیکھ کر ابر شفق تھی گلستاں پررستیبکہ فرقت میں تری آتش

ستغنیمدل خونیں جگر بے صبر و فیض عشق خاور آ ٹوٹے بدخشاں ہریک قیامت ! الہی

بجز پرواز شوق ناز کیا باقی رہا ہوگا قیامت اک ہواۓ تند ہے خاک شہیداں پر

، کیا ہوا گر اس نے شدت کیغالب نہ لڑ ناصح سے، ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر

۔77 کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اورہے بس

حبت تو گزرتا ہے گماں اورکرتے ہیں م ھیں گے مری باتجیارب وه نہ سمجھے ہیں نہ سم

مجھ کو زباں اوردےجو نہ، کوان دے اور دل ابرو سے ہے کیا اس نگہ ناز کو پیوند

ہے تیر مقرر مگر اس کی ہے کماں اور تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

ہر چند سبک دست ہوۓ بت شکنی میں اورتو ابھی راه میں ہیں سنگ گراں ،ہم ہیں

ہے خوں جگر جوش میں دل کھول کے روتا اورشاںفہوتے جو کئی دیدۀ خو نبانہ

سر اڑ جاۓمرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند ’ہاں اور‘جالد کو لیکن وه کہے جائیں کہ

لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور

Page 44: Ghalib the Great Poet

43

کوئی دم چین،نہ اگر دل تمھیں دیتا۔لیتا کوئی دن آه و فغاں اور،جو نہ مرتا۔کرتا

پاتے نہیں جب راه تو چڑھ جاتے ہیں نالے تو ہوتی ہے رواں اور۔رکتی ہے مری طبع

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے کا ہے انداز بیاں اورغالب کہتے ہیں کہ

۔78

صفاۓ حیرت آئینہ ہے سامان زنگ آخر کا پاتا ہے رنگ آخر"رجا ماندهآب ب"تغیر

وحشت کیو جاه نے تدبیر نہ کی سامان عیش د بھی مجھے داغ پلنگ آخرمر ہوا جام ز

۔79

فسون یک دلی ہے لذت بیداد دشمن پر برق جوں پروانہ بال افشاں ہے خرمن پرکہ وجد

تکلف خار خار التماس بے قراری ہے انگشت سوزن پرکہ رشتہ باندھتا ہے پیرہن

اے دیوانے، پس از مرگ واویال! یہ کیا وحشت ہے رکھی بے جا بناۓ خانۂ زنجیر شیون پر

سے ہو گر ہو نہ عریانیجنوں کی دست گیری کس گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر

کاغذ آتش زده نیرنگ بے تابیرنگہ ب ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال یک تپیدن پر

فتہ کا کیا کیا تقاضا ہےک سے ہم کو عیش ر فل متاع برده کو سمجھے ہوۓ ہیں قرض رہزن پر

کہ رکھتا ہے"رنج آشنا دشمن"ہم اور وه بے سبب کی چشم روزن پرشعاع مہر سے تہمت نگہ

فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا فروغ طالع خاشاک ہے موقوف گلخن پر

انداز کا، قاتل سے کہتا ہےبسمل ہے کس اسد ’تو مشق ناز کر، خون دو عالم میری گردن پر‘

۔80

ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں رــب آخـا رقیـھ سـجـگا تےـئل جاـم!رفـر طـف بـ تکل

Page 45: Ghalib the Great Poet

44

۔81

الزم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور اب رہو تنہا کوئی دن اور؟تنہا گئے کیوں

ترا پتھر نہ گھسے گا،گر،گا سر جائےمٹ ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

’؟ںؤجا‘و کل اور آج ہی کہتے ہو کہ آئے ہ مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

’قیامت کو ملیں گے‘جاتے ہوئے کہتے ہو گویا کوئی دن اورہےقیامت کا !کیا خوب

ی عارفجواں تھا ابھ!پیرہاں اے فلک تا جو نہ مرتا کوئی دن اوررا بگڑیکیا ت

چار دہم تھے مرے گھر کےتم ماه شب کوئی دن اوراپھر کیوں نہ رہا گھر کا وه نقش

کھرے داد و ستد کےتم کون سے ایسے تھے کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور

نیر سے لڑائی،مجھ سے تمہیں نفرت سہی ا کوئی دن اوربچوں کا بھی دیکھا نہ تماش

گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور

’غالب کیوں جیتے ہیں ‘ناداں ہو جو کہتے ہو کہ قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

Page 46: Ghalib the Great Poet

45

ز ۔82

حریف مطلب مشکل نہیں فسون نیاز دعا قبول ہو یا رب کہ عمر خضر دراز

وجودوہم ، بیاباں نورد ہرزهہبنہ ہو نشیب و فرازہےہنوز تیرے تصور میں

!وصال جلوه تماشا ہے پر دماغ کہاں پروازآئینۂ انتظار کو ئےکہ دیج

ذرۀ عاشق ہے آفتاب پرست74ہر ایک گئی نہ خاک ہوۓ پر ہواۓ جلوۀ ناز

فریب صنعت ایجاد کا تماشا دیکھ نگاه عکس فروش و خیال آئینہ ساز

، ننگ رسوائی75وز اے اثر دیدہن نگاه فتنہ خرام و در دو عالم باز

ز بس کہ جلوۀ صیاد حیرت آرا ہے76 اڑی ہے صفحۂ خاطر سے صورت پرواز

ہجوم فکر سے دل مثل موج لرزاں ہے77 کہ شیشہ نازک و صہبا ہے آبگینہ گداز اسد سے ترک وفا کا گماں وه معنی ہے

صورت پروازکہ کھینچیے پر طائر سے غالب نہ پوچھ وسعت مے خانۂ جنوں

اندازکخاجہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک

۔83 بے گانۂ وفا ہےہواۓ چمن ہنوز

وه سبزه سنگ پر نہ اگا، کوہکن ہنوز فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح و مہر

ہے داغ عشق، زینت جیب کفن ہنوز پر"رفتہا ز دستر ز"ہے ناز مفلساں

ہنوز"گل فروش شوخئ داغ کہن"ہوں مے خانۂ جگر میں یہاں خاک بھی نہیں

) حامد علی خاں(چھپا ہے " یک"کی جگہ قدیم نسخوں میں "ایک"74)جویریہ مسعود" (دید"جاۓ ب" دیده: "عرشی75 )جویریہ مسعود(یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے 76 )جویریہ مسعود(یہ شعر بھی نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے 7777

Page 47: Ghalib the Great Poet

46

ہنوزفنبیداد خمیازه کھینچے ہے بت !!یا رب، یہ درد مند ہے کس کی نگاه کا ہے ربط مشک و داغ سواد ختن ہنوز

جوں جاده، سر بہ کوۓ تمناۓ بے دلی زنجیر پا ہے رشتۂ حب الوطن ہنوز

قرب بساط نگاه تھامیں دور گرد ہنوزبیرون دل نہ تھی تپش انجمن

تھا مجھ کو خار خار جنون وفا اسد سوزن میں تھا نہفتہ گل پیرہن ہنوز

۔84

!کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز !کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز

دل سے نکال۔ پہ نہ نکال دل سے ہے ترے تیر کا پیکان عزیز

غالب ے گی تاب التے ہی بن سخت ہے اور جان عزیزہواقع

۔85

وسعت سعی کرم دیکھ کہ سر تا سر خاک گزرے ہے آبلہ پا ابر گہربار ہنوز

شتیک قلم کاغذ آتش زده ہے صفحۂ د گرمئ رفتار ہنوز78نقش پا میں ہے تپ

۔86

گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی سرخوش خواب ہے وه نرگس مخمور ہنوز

۔87

گل نغمہ ہوں نہ پردۀ ساز79نہ میں ہوں اپنی شکست کی آواز

تو اور آرائش خم کاکل 80میں اور اندیشہ ہاۓ دور دراز

)حامد علی خاں(کا ہم معنی ہے۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ " تب"بھی چھپا ہے جو " تپ"بعض نسخوں میں 78

)جویریہ مسعود(ہی درج ہے۔ " تپ"کو ترجیح دی ہے کیوں کہ اکثر نسخوں میں " تپ"نے اس نسخے میں ہم : مزید

)حامد علی خاں(چھپا ہے۔ " نہ"بھی چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں " نے"کی جگہ " نہ"بعض نسخوں میں 79

چھپا ہےلیکن نسخۂ نظامی ، " دور و دراز"سخوں میں نسخۂ حمیدیہ، طباطبائی، حسرت موہانی، نیز مہر، بیخود اور نشتر جالندھری کے ن80

Page 48: Ghalib the Great Poet

47

الف تمکیں، فریب ساده دلی ہم ہیں، اور راز ہاۓ سینہ گداز

ہوں گرفتار الفت صیاد ورنہ باقی ہے طاقت پرواز

وه بھی دن ہو، کہ اس ستم گر سے وں، بجاۓ حسرت نازناز کھینچ

نہیں دل میں مرے وه قطرۀ خون جس سے مذگاں ہوئی نہ ہو گلباز

اے ترا غمزه یک قلم انگیز اے ترا ظلم سر بسر انداز !تو ہوا جلوه گر، مبارک ہو ریزش سجدۀ جبین نیاز

مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا میں غریب اور تو غریب نواز

هللا خاں تمام ہوااسد دریغا وه رند شاہد بازاے

صحیح فارسی ترکیب ہے جس کی ) بال عطف(ہی ملتا ہے۔ دور دراز " دور دراز"عرشی اور مالک رام نیز متعدد قدیم نسخوں میں یہاں

) حامد علی خاں(شہادت فرہنگ آنند راج اور شٹائن گاس کی فارسی انگریزی لغت سے بھی ملتی ہے۔

Page 49: Ghalib the Great Poet

48

س ۔88

کب فقیروں کو رسائی بت مے خوار کے پاس81 تونبے بو دیجیے مے خانے کی دیوار کے پاس

کہ نظر آتا ہے! مژده ، اے ذوق اسیری دام خالی ، قفس مرغ گرفتار کے پاس

جگر تشنۂ آزار ، تسلی نہ ہوا پاسجوئے خوں ہم نے بہائی بن ہر خار کے

!ہے ہےمند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں خوب وقت آئے تم اس عاشق بیمار کے پاس

میں بھی رک رک کے نہ مرتا ، جو زباں کے بدلے دشنہ اک تیز سا ہوتا مرے غمخوار کے پاس

ن شیر میں جا بیٹھیے ، لیکن اے دلہ د وجیے خوبان دل آزار کے پاسنہ کھڑے ہ جھ کو ، چمن بسکہ نمو کرتا ہےدیکھ کر ت

دستار کے پاسۂخود بخود پہنچے ہے گل گوش !وحشی ، ہے ہے غالب مر گیا پھوڑ کے سر

بیٹھنا اس کا وه ، آ کر ، تری دیوار کے پاس ۔89

ہم خود اسیر رنگ و بوۓ باغ ہیںاسد اے ظاہرا صیاد ناداں ہے گرفتار ہوس

)جویریہ مسعود(شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے یہ81

Page 50: Ghalib the Great Poet

49

ش ۔90

خط سےۀجوہر طراوت سبزنہ لیوے گر خس آتشخانۂ آئینہ میں روئے نگار 82دےلگا

ہے حل مشکل عاشق83فروغ حسن سے ہوتی نہ نکلے شمع کے پاسے ، نکالے گرنہ خار آتش

)حامد علی خاں(چھپا ہے۔ " لگاوے"کی جگہ " لگا دے"بیشتر نسخوں میں 82

)حامد علی خاں(سہو مرتبین ہو۔ " ہوتی ہے"کہا ہو اور " ہےہوتا"ممکن ہے غالب نے یہاں 83

Page 51: Ghalib the Great Poet

50

ع ۔91

جادۀ ره خور کو وقت شام ہے تار شعاع چرخ وا کرتا ہے ماه نو سے آغوش وداع

۔92

شمعجاودانی رخ نگار سے ہے سوز شمعزندگانی ہوئی ہے آتش گل آب

خاموشیاہل زباں میں ہے مرگزبان شمعیہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانی

کرے ہے صرف بہ ایمائے شعلہ قصہ تمام شمعبہ طرز اہل فنا ہے فسانہ خوانی

84نہ کا ہے اے شعلہغم اس کو حسرت پروا شمعنی ترے لرزنے سے ظاہر ہے ناتوا

کرتی ہےاززــاہتترے خیال سے روح شمعبہ پرفشانی وبادئزـریبہ جلوه

نشاط داغ غم عشق کی بہار نہ پوچھ شمعشگفتگی ہے شہید گل خزانی

جلے ہے ، دیکھ کے بالین یار پر مجھ کو شمعنہ کیوں ہو دل پہ مرے داغ بدگمانی

)جویریہ مسعود(ح ہے، نسخہ اسی میں شعلے۔ شعلہ زیاده صحی" شعلہ" نسخۂ مہر میں 84

Page 52: Ghalib the Great Poet

51

ف ۔93

وداع ہوشبیم رقیب سے نہیں کرتے !یاں تلک ہوئے اے اختیار ، حیف مجبور

جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اک بار جل گئے !اے ناتمامی نفس شعلہ بار حیف

ک ۔94

85زخم پر چھڑکیں کہاں طفالن بے پروا نمک کیا مزا ہوتا ، اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک

گرد راه یار ہے سامان ناز زخم دل وتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمکورنہ ہ

مجھ کو ارزانی رہے ، تجھ کو مبارک ہو جیو نالۂ بلبل کا درد اور خندۀ گل کا نمک

شور جوالں تھا کنار بحر پر کس کا کہ آج گرد ساحل ہے بہ زخم موجۂ دریا نمک 86!داد دیتا ہے مرے زخم جگر کی ، واه واه

وه جس جا نمکیاد کرتا ہے مجھے ، دیکھے ہے چھوڑ کر جانا تن مجروح عاشق حیف ہے

دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمک درد87غیر کی منت نہ کھینچوں گا پے توفیر

زخم ، مثل خندۀ قاتل ہے سر تا پا نمک اس عمل میں عیش کی لذت نہیں ملتی اسد

زور نسبت مے سے رکھتا ہے نصارا کا نمک تجھے وه دن کہ وجد ذوق میں! لب غایاد ہیں

زخم سے گرتا ، تو میں پلکوں سے چنتا تھا نمک

)جویریہ مسعود(زخم پر باندھے ہیں کب طفالن بے پروا نمک: نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے85 )حامد علی خاں(درج ہے۔ " واه واه"بہ تخفیف بھی دیکھا گیا ہے لیکن اکثر قدیم و جدید نسخوں میں " واه وا"ایک نسخے میں 86

)حامد علی خاں(درج ہے۔ "توفیر"۔ نسخۂ نظامی میں ےچھپا ہ" توقیر"جگہ کی" توفیر"بعض نسخوں میں 87

Page 53: Ghalib the Great Poet

52

۔95 88آه کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک نہنگصد کام ہر موج میں ہے حلقۂ دام

رے ہے قطرے پہ گہر ہونے تکزدیکھیں کیا گ بیتاباعاشقی صبر طلب ، اور تمن

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونےتک ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے ، لیکن

تم کو خبر ہونے تک،خاک ہوجائیں گے ہم پرتو خور سے ، ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

میں بھی ہوں ، ایک عنایت کی نظر ہونے تک !یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل

ہونے تکبزم ہے اک رقص شرر ئ گرم تا قیامت شب فرقت میں گزر جاۓ گی عمر 89سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہونے تک

کس سے ہو جز مرگ ، عالج! اسد غم ہستی کا ، شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

۔96

دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار ایک ر ایکوضع میں گو ہوئی دو سر، تیغ ہے ذوالفقا

ہم سخن اور ہم زباں، حضرت قاسسم و طباں کا جانشین، درد کی یادگار ایک90ایک تپش

نقد سخن کے واسطے ایک عیار آگہی شعر کے فن کے واسطے، مایۂ اعتبار ایک

ایک وفا و مہر میں تازگئ بساط دہر باب میں زینت روزگار ایککے ف و کرملط

ہی دی ’ ہونے تک‘قرأت ردیف ہے۔ نسخۂ نظامی میں بھی لیکن کیوں کہ نسخۂ حمیدیہ میں مروج ’ ہوتے تک‘اکثر قدیم نسخوں میں 88

گئی ہے اس لۓ اسی کو قابل ترجیح قرار دیا گیا ہے۔ہے۔ راقم " ہوتے تک"میں ردیف نے لکھا ہے کہ غالب کی زندگی میں دیوان کے جتنے ایڈیشن شائع ہوۓ، امالک رام صاحب ن: مزید

کے مشاہدے کی حد تک بھی مالک رام صاحب کی اس قول کی تائید ہوتی ہے مگر موالنا غالم رسول مہر نے ) حامد علی خاں(الحروف پیش کی ہے حاالنکہ سہو کتابت کہیں بھی خارج از امکان نہیں۔ البتہ مالککی ردیف کی حق میں ایک نیم مشروط سی دلیل" ہونے تک"

حامد علی (راقم الحروف درج ہے ۔ " ہونے تک"میں بھوپال کے نسخۂ حمیدیہ کا ذکر نہیں کیا جس میں ردیف ںرام صاحب نے قدیم نسخوصوتی لحاظ سے پسندیده سمجھتے ہیںکو " ہونے تک"اہل ذوق کی راۓ میں یہ بھی سہو کتابت ہے یا تحریف کیوں کہ آج کل بیشتر ) خاں

عرشی صاحب نے اب بھی ردیف : "ب نے تحریر فرمایا ہےحمگر اپنی پسند غالب کے کالم کو عمدا بدل ڈالنے کا حق نہیں دیتی۔ مہر صاہدے کے بر عکس اس غزل کی عرشی کا جو نسخہ راقم کی نظر سے گزرا ہے ، اس میں موالنا کے مشا" ہی رکھی ہے " ہونے تک"

)حامد علی خاں(ہی ملتی ہے۔ بہر حال ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ " ہوتے تک"ردیف

)اعجاز عبید(’ہم پہ یہ بھاری ہیں‘نسخۂ مبارک علی میں الفاظ ہیں 89

)اعجاز عبید(ہے لیکن صحیح تپش ہی درست ہونا چاہۓ' طپش'نسخے میں اگرچہ 90

Page 54: Ghalib the Great Poet

53

ہے بوگلکدۀ تالش کو، ایک ہے رنگ، اک ریختہ کے قماش کو، پود ہے ایک، تار ایک

مملکت کمال میں ایک امیر نامور عرصۂ قیل و قال میں، خسرو نامدار ایک

گلشن اتفاق میں ایک بہار بے خزاں مے کدۀ وفاق میں بادۀ بے خمار ایک زندۀ شوق شعر کو ایک چراغ انجمن

کشتۂ ذوق شعر کو شمع سر مزار ایک پر فدا) ص(کے دل حق آشنا، دونوں رسول دونوں

ایک محب چار یار، عاشق ہشت و چار ایک جان وفا پرست کو ایک شمیم نو بہار

فرق ستیزه مست کو، ابر تگرگ بار ایک ریا سے دورائبۂشالیا ہے کہہ کے یہ غزل، خاکسار ایکغالب کر کے دل و زبان کو

Page 55: Ghalib the Great Poet

54

گ ۔97

اجابت ، دعا نہ مانگگر تجھ کو ہے یقین بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ،یعنی

آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد نہ مانگ!مجھ سے مرے گنہ کا حساب ، اے خدا

ل ۔98

ہے کس قدر ہالک فریب وفائے گل بلبل کے کاروبارپہ ہیں خنده ہائے گل

رفـر طـمبارک کہ ہیمـنسئآزاد لقۂ دام ہوائے گلٹوٹے پڑے ہیں ح

جو تھا ، سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا !اے وائے ، نالۂ لب خونیں نوائے گل

کہ جو،خوش حال اس حریف سیہ مست کا رکھتا ہو مثل سایۂ گل ، سر بہ پائے گل ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل

مجھے باد بہار سےشرمنده رکھتے ہیں بے شراب و دل بے ہوائے گلۓمینا

سطوت سے تیرے جلوۀ حسن غیور کی خوں ہے مری نگاه میں رنگ ادائے گل

تیرے ہی جلوے کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل

مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو! غالب ے گلجس کا خیال ہے گل جیب قبائ

Page 56: Ghalib the Great Poet

55

م

۔99

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس شمع ماتم خانہ ہم،برق سے کرتے ہیں روشن خیالباز گنجفہمحفلیں برہم کرے ہے

نیرنگ یک بت خانہ ہمئــنگرداہیں ورق باوجود یک جہاں ہنگامہ پیرا ہی نہیں

ہم"پروانہچراغان شبستان دل "ہیں اعت سے یہ ترک جستجوضعف سے ہے، نے قن

ہم"وبال تکیہ گاه ہمت مردانہ"ہیں اسد دائم الحبس اس میں ہیں الکھوں تمنائیں

جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم ۔100

رـم کــی فراہـہ نالہ دل بستگـب معلوم،متاع خانۂ زنجیر جز صدا

۔101

وطن سے دور،مجھ کو دیار غیر میں مارا کسی کی شرمبےکھ لی مرے خدا نے مریر

کمیں میں ہیں اے خدازلف،وه حلقۂ ہاۓ رکھ لیجو میرے دعوۀ وارستگی کی شرم

۔102

از آنجا کہ حسرت کش یار ہیں ہم رقیب تمناۓ دیدار ہیں ہم

گی ہےدرسیدن گل باغ وامان عبث محفل آراۓ رفتار ہیں ہم

معزول شعلہ درودننفس ہو نہ تپش سے شررکار ہیں ہمکہ ضبط

تغافل کمیں گاه وحشت شناسی نگہبان دل ہاۓ اغیار ہیں ہم تماشاۓ گلشن تماشاۓ چیدن

گنہ گار ہیں ہم! بہار آفرینا

Page 57: Ghalib the Great Poet

56

نہ پرواۓ داماں،وق گریباںنہ ذ نگاه آشناۓ گل و خار ہیں ہم

شکوه کفر دعا ناسپاسیاسد ہجوم تمنا سے الچار ہیں ہم

Page 58: Ghalib the Great Poet

57

ن ۔103

بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولےام وں لو یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروںغالب

۔104

وه وصال کہاں وه فراق اور و سال کہاںماه و روزو وه شب

فرصت کاروبار شوق کسے جمال کہاںۀذوق نظار

دل تو دل وه دماغ بھی نہ رہا کہاں91شور سودائے خط و خال

ور سےے تص تھی وه اک شخص ک خیال کہاںئی اب وه رعنا

ایسا آساں نہیں لہو رونا طاقت، جگر میں حال کہاںدل میں

"عشقۂقمار خان"ہم سے چھوٹا واں جو جاویں، گره میں مال کہاں

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں میں کہاں اور یہ وبال کہاں

غالب مضمحل ہو گئے قوی وه عناصر میں اعتدال کہاں

۔105 کو جفا کہتے ہیں92سا کی وفا ہم سے تو غیر

ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں ان سےخاطر ئ پنی پریشاناآج ہم

پر دیکھئے کیا کہتے ہیں،کہنے جاتے تو ہیں انہیں کچھ نہ کہو،اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ

جو مے و نغمہ کو اندوه ربا کہتے ہیں ے جو فرصت غش سےہوتی ہ،دل میں آ جائے ہے سے نالے کو رسا کہتے ہیںاور پھر کون

)حامد علی خاں(ممکن ہے غالب نے خد و خال کہا ہو۔ 91

)حامد علی خاں(ہی چھپا ہے۔ " اس"نہیں پڑھنا چاہیے۔ نسخۂ نظامی میں " اس"بجاۓ یک" اس"یہاں 92

Page 59: Ghalib the Great Poet

58

ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں

پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے کہتے ہیں93خار ره کو ترے ہم مہرگیا

اک شرر دل میں ہے اس سے کوئی گھبرائے گا کیا کہتے ہیںواہ جو،آگ مطلوب ہے ہم کو

دیکھیے التی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ کہتے ہیں’نام خدا‘اس کی ہر بات پہ ہم

وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید کہتے ہیں،آشفتہ نواغالب مر گیا

۔106 کہ گلشن میں نہیں۔آبرو کیا خاک اس گل کی

ہے گریبان ننگ پیراہن جو دامن میں نہیں گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیںضعف سے اے

رنگ ہو کر اڑ گیا، جو خوں کہ دامن میں نہیں ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاه آفتاب

ے اس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیںذر زندان غم اندھیر ہےئ کیا کہوں تاریک

نہیںپنبہ نور صبح سے کم جس کے روزن میں اں ساز سےرونق ہستی ہے عشق خانہ ویر

انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں زخم سلوانے سے مجھ پر چاره جوئی کا ہے طعن

ت زخم سوزن میں نہیںذ غیر سمجھا ہے کہ ل اک بہار ناز کے مارے ہوے94کہ ہیں ہمبس

گل کے سوا گرد اپنے مدفن میں نہیںۀجلو قطره قطره اک ہیولی ہے نئے ناسور کا

فارغ مرے تن میں نہیں،وق درد سےں بھی ذوخ لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری

مینا کی گردن میں نہیں،موج مے کی آج رگ ہو فشار ضعف میں کیا نا توانی کی نمود؟

قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں

خشک گھاس "گیا"دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ بعض لغت نویسوں کی راۓ ہے کہ لفظ " گیا"اور " گیاه"فارسی میں گھاس کے لیے 93

کے لیے مخصوص ہے مگر یہ خیال درست نہیں۔ مہر گیا کو مردم گیا بھی کہتے ہیں ۔ اس کے بارے میں بھی لغت نویس کسی ایک خیال پر متفق نہیں ہوتے ۔ اس کے مفاہیم میں محبوب، رخ نگار، سبزۀ خط، سورج مکھی، نیز مردم گیا کی دو شاخہ جڑ جو انسان نما سمجھی

شامل ہے۔ عوام کا خیال تھا کہ جو شخص اس گھاس کی جڑ اپنے پاس رکھتا ہے محبوب اس پر مہربان اور ہر شخص اس کا جاتی ہے ،)حامد علی خاں(گرویده ہوجاتا ہے۔

)جویریہ مسعود(درج ہے۔" ہم ہیں" نسخۂ مہر اور اسی میں 94

Page 60: Ghalib the Great Poet

59

کہ ہو غربت میں قدرغالب تھی وطن میں شان کیا خس کہ گلخن میں نہیںہوں وه مشت ،فبے تکل

۔107

ناز کے باہر نہ آ سکاعہدے سے مدح گراک ادا ہو تو اسے اپنی قضا کہوں

حلقے ہیں چشم ہائے کشاده بسوئے دل ہر تار زلف کو نگہ سرمہ سا کہوں

میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش تو، اور ایک وه نہ شنیدن کہ کیا کہوں

نہ چاهظالم مرے گماں سے مجھے منفعل ہے ہے خدا نہ کرده، تجھے بے وفا کہوں

۔108

چاہو جس وقت،مہرباں ہو کے باللو مجھے کہ پھر آ بھی نہ سکوںمیں گیا وقت نہیں ہوں

اغیار کا شکوه کیا ہےۂضعف میں طعن ر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوںبات کچھ س

زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر، ورنہ ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوںکیا قسم ہے

۔109

بوقت مے پرستی ایک دنؤہم سے کھل جا ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن

ہونائے عالم امکاں نہ اوج ب ۀ غر اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں ہ مستی ایک دنگی ہماری فاق95رنگ الئے

نغمہ ہائے غم کو ہی اے دل غنیمت جانیے بے صدا ہو جائے گا یہ ساز زندگی ایک دن

دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوه نہیں پیش دستی ایک دنغالب ہم ہی کر بیٹھے تھے

۔110

ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں گرنہ مراد امتحاں نہیںواک چھیڑ ہے

)جویریہ مسعود(درج ہے۔ " الوے"کی جگہ " الۓ"حامد علی خان کے مرتب کرده نسخے میں یہاں 95

Page 61: Ghalib the Great Poet

60

شکر کیجئے اس لطف خاص کاکس منہ سے پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں

ستم گر کو ہم عزیز،ہم کو ستم عزیز نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں بوسہ نہیں، نہ دیجیے دشنام ہی سہی

اں نہیںہتو رکھتے ہو تم، گر دںآخر زبا قہروعتاب ہےہر چند جاں گدازئ

ہیںتاب و تواں نئ ہر چند پشت گرم جاں مطرب ترانہ ھل من مزید ہے

ماں نہیںاال ۂ سنج زمزمهپر دلب خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم

گر خونچکاں نہیںدل میں چھری چبھو مژه آتش کده نہ ہورہے ننگ سینہ دل اگ

ہے عاردل نفس اگر آذر فشاں نہیں نقصاں نہیں جنوں میں بال سے ہو گھر خراب

ز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیںسو گ ”کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں” کہتے ہو بت کا نشاں نہیںۀپہ سجدجبیںگویا

کیکالمپاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے س اگرچہ مرا ہم زباں نہیںد روح الق

جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی نہیںکو جانتا ہے کہ وه نیم جاںغالب

۔111 نع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیںما

ں میں زنجیر نہیںؤایک چکر ہے مرے پا جہاںکہ،شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو

تصویر نہیںۀ جاده غیر از نگہ دید رہی جاتی ہےلذت آزارحسرت

دم شمشیر نہیںراه وفا جز ۀجاد رنج نو میدی جاوید گوارا رہیو

ش تاثیر نہیںخوش ہوں گر نالہ زبونی ک سر اچھا ہو جائےخم زاتا ہے جہاں جسر کھ

تقریر نہیںۀ لذت سنگ بہ انداز میں چھپاتا ہے عبث96آئینہ دام کو سبزے

کہ پری زاد نظر قابل تسخیر نہیں مثل گل زخم ہے میرا بھی سناں سے توام

)جویریہ مسعود" (سبزے"بجاۓ " پردے" نسخۂ حمیدیہ میں 96

Page 62: Ghalib the Great Poet

61

تیرا ترکش ہی کچھ آبستن تیر نہیں دےجب کرم رخصت بیباکی و گستاخی

کوئی تقصیر بجز خجلت تقصیر نہیں غالب کے شعر کا احوال کہوں کیا میر

جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں 97اپنا یہ عقیده ہے بقول ناسخغالب

’آپ بے بہره ہے جو معتقد میر نہیں‘ ۔112

مت مردمک دیده میں سمجھو یہ نگاہیں دل چشم میں آہیںاۓ دسویہیں جمع

۔113

دیکھا چاہۓ98برشکال گریۂ عاشق ہے کھل گئی ماند گل سو جا سے دیوار چمن الفت گل سے غلط ہے دعوئ وارستگی

ر چمنہے باوصف آزادی گرفتا سرو ہے نزاکت بس کہ فصل گل میں معمار چمن

قالب گل میں ڈھلی ہے خشت دیوار چمن ۔114

عشق تاثیر سے نومید نہیں جر بید نہیںجاں سپاری ش ست آئی ہےد سلطنت دست ب

جام مے خاتم جمشید نہیں ہے تجلی تری سامان وجود ذره بے پر تو خورشید نہیں

راز معشوق نہ رسوا ہو جائے ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں گردش رنگ طرب سے ڈر ہے

غم محرومئ جاوید نہیں کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ

ینے کی بھی امید نہیںہم کو ج ۔115

)جویریہ مسعود(ناسخبقول ہے،یظہوروهکاختےیر: نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے97

)اعجاز عبید(ہے۔درج ’ بھی‘طباطبائ میں ہے کی جگہ ‘98

Page 63: Ghalib the Great Poet

62

جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں رم دیکھتے ہیںخیاباں خیاباں ا

دل آشفتگاں خال کنج دہن کے سویدا میں سیر عدم دیکھتے ہیں ترے سرو قامت سے اک قد آدم

قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں اے محو آئینہ داری99کہ!تماشا

یکھتے ہیںتجھے کس تمنا سے ہم د سراغ تف نالہ لے داغ دل سے

کہ شب رو کا نقش قدم دیکھتے ہیں غالب بنا کر فقیروں کا ہم بھیس

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں ۔116

اب میںہملتی ہے خوئے یار سے نار الت کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عزاب میں کب سے ہوں۔ کیا بتاؤں جہان خراب میں

ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میںشب ہائے تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں جواب میںےگمیں جانتا ہوں جو وه لکھیں

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام ساقی نے کچھ مال نہ دیا ہو شراب میں

کر وفا ہو فریب اس پہ کیا چلےجو من کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں میں مضطرب ہوں وصل میں خوف رقیب سے

ڈاال ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں حظ وصل خدا ساز بات ہےرمیں او

جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے

وئی طرف نقاب میںہے اک شکن پڑی ہ الکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاه کا

ڑنا عتاب میںگالکھوں بناؤ ایک ب وه نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے

جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں

)حامد علی خاں" (کہ: "چھپا ہے ۔ نسخۂ نظامی" کر"کی جگہ " کہ"بعض نسخوں میں 99

Page 64: Ghalib the Great Poet

63

وه سحر مدعا طلبی میں کام نہ آئے سے سفینہ رواں ہو سراب میںحر س جس چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھیغالب و شب ماہتاب میںہوں روز ابر پیتا

۔117 کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں یہ سوء ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم سماع

ه صدا سمائی ہے چنگ و رباب میںو گر 100رخش عمر، کہاں دیکھیے تھمےہے رو میں

ہے نہ پا ہے رکاب میںپر نے ہاتھ باگ اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بعد ہے جتنا کہ وہم غیر سے ہوں پیچ و تاب میں

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے حیراں ہوں پھر مشاہده ہے کس حساب میں

ہے مشتمل نمود صور پر وجود بحر ہے قطره و موج و حباب میںیاں کیا دھرا

شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یوں حجاب میں

جمال سے فارغ نہیں ہنوزآرائش نہ دائم نقاب میںیپیش نظر ہے آئ

ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میںہیں

ے آتی ہے بوئے دوستندیم دوست سغالب مشغول حق ہوں، بندگئ بو تراب میں

۔118

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں ”جاؤں کدھر کو میں” ہر اک سے پو چھتا ہوں کہ

زار بارہا رقیب کے در پر ڑجانا پ اے کاش جانتا نہ تری ره گزر کو میں

)حامد علی خاں(غلطی معلوم ہوتی ہے۔ کی چھپا ہے۔ کتابت " تھکے"کی جگہ " تھمے"میں 1862نسخۂ نظامی مطبوعہ 100

Page 65: Ghalib the Great Poet

64

کے باندھیے میری بال ڈرے٭سکہے کیا، جو کیا جانتا نہیں ہوں تمھاری کمر کو میں

’یہ بے ننگ و نام ہے‘لو، وه بھی کہتے ہیں کہ یہ جانتا اگر، تو لٹاتا نہ گھر کو میں

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ ابھی راہبر کو میںپہچانتا نہیں ہوں

خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں

پھر بے خودی میں بھول گیا راه کوئے یار جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو میں

ر کاہاپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہل د سمجھا ہوں دل پذیر متاع ہنر کو میں

ہ سوار سمندر نازخدا کرے کغالب دیکھوں علی بہادر عالی گہر کو میں

۔119

اسے منظور نہیں،ذکر میرا بہ بدی بھی غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دور نہیں

خوشا طالع شوق،سیر گلستاں ہےۀ وعد قتل مقدر ہے جو مذکور نہیںۀمژد مہستئ مطلق کی کمر ہے عال د شاہ

منظور نہیںپر ہمیں’ہے‘لوگ کہتے ہیں کہ قطره اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن

ہم کو تقلید تنک ظرفئ منصور نہیں اے ذوق خرابی، کہ وه طاقت نہ رہی! حسرت

کی گوں تن رنجور نہیںده عرب عشق پر اگر لطف دریغ آتا ہو! ظلم کر ظلم

کسی رنگ سے معذور نہیںتو تغافل میں ہم لیں گے قیامت میں تمھیںمیں جو کہتا ہوں کہ

”ہم حور نہیں” کس رعونت سے وه کہتے ہیں کہ پیٹھ محراب کی قبلے کی طرف رہتی ہے101

محو نسبت ہیں، تکلف ہمیں منظور نہیں جم ہیں ہم لوگۂصاف دردی کش پیمان

انگور نہیںۀوه باده کہ افشرد! وائے غالب ہوں ظہوری کے مقابل میں خفائی

کہ مشہور نہیںہےپہ یہ حجت میرے دعوے

)جویریہ مسعود(یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے 101

Page 66: Ghalib the Great Poet

65

۔120

نالہ جز حسن طلب، اے ستم ایجاد نہیں بیداد نہیںۀہے تقاضائے جفا، شکو

!عشق و مزدوری عشرت گہ خسرو، کیا خوب ہم کو تسلیم نکو نامئ فرہاد نہیں

کم نہیں وه بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم دشت میں ہے مجھے وه عیش کہ گھر یاد نہیں

بینش کو ہے طوفان حوادث مکتباہل استاد نہیںئ موج کم از سیلۂلطم

!وبداحال وفا! وائے مظلومئ تسلیم جانتا ہے کہ ہمیں طاقت فریاد نہیں ؟ےہرنگ تمکین گل و اللہ پریشاں کیوں

نہیںدباگر چراغان سر راه گزر !د گل کے تلے بند کرے ہے گلچیںب س لزار میں صیاد نہیںکہ گ! ده اے مرغژم

گویا103طراوش102نفی سے کرتی ہے اثبات ”نہیں” دی ہی جائے دہن اس کو دم ایجاد

کم نہیں جلوه گری میں ترے کوچے سے بہشت یہی نقشہ ہے ولے، اس قدر آباد نہیں غالب کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت تم کو بے مہرئ یاران وطن یاد نہیں؟

۔121 خوش رہاہیے کے وه سمجھے دونوں جہان د

یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار ره گئے

تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں؟ کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواه اہل بزم؟

ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں؟

۔122 ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر

کا اس کو گماں ہم بے زبانوں پر نہیںعشق

لفظ کو مذکر استعمال کیا ہے۔ تاہم غالب کا یہ شعر اس لفظ کی تانیث کا غالبا باالتفاق مذکر ہے۔ غالب نے خود دوسری جگہ اس " اثبات"102

)حامد علی خاں(دیتا ہے۔ بھی جواز پیدا کر

) جویریہ مسعود(’شتراو ‘میں اور نسخۂ حامد علی خاننسخۂ مہر 103

Page 67: Ghalib the Great Poet

66

۔123 قیامت ہے کہ سن لیلی کا دشت قیس میں آنا

’یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں؟‘تعجب سے وه بوال غالب رحم آتا ہے مجھے کےدل نازک پہ اس

نہ کر سرگرم اس کافر کو الفت آزمانے میں

۔124 دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا

یاں،رے اپنی بے کسی کی ہم نے پائی دادبا ہیں زوال آماده اجزا آفرینش کے تمام

یاں،مہر گردوں ہے چراغ رہگزار باد ۔125

یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے104وه آئیں ے گھر کو دیکھتے ہیںکبھی ہم ان کو کبھی اپن

نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں

لہ کو کیا دیکھیںترے جواہر طرف ک ہم اوج طالع لعل و گہر کو دیکھتے ہیں

۔126

نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں شب فراق سے روز جزا زیاد نہیں

’ہ میں کیا برائی ہےب م ش‘کوئی کہے کہ بال سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں

جو آؤں سامنے ان کے تو مرحبا نہ کہیں جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں

تو کہتے ہیں،کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں ’و فساد نہیںۂآج بزم میں کچھ فتن‘کہ

عالوه عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب مے خانہ نامراد نہیںۂئے کوچگدا

؟ہمیں کیا کام ،جہاں میں ہو غم و شادی بہم دیا ہے ہم کو خدا نے وه دل کہ شاد نہیں غالب تم ان کے وعدے کا ذکر ان سے کیوں کرو

”یاد نہیں”یہ کیا؟ کہ تم کہو، اور وه کہیں کہ

)اعجاز عبید(’آۓ‘نسخۂ نظامی میں 104

Page 68: Ghalib the Great Poet

67

۔127

رے توسن کو صبا باندھتے ہیںیت دھتے ہیںہم بھی مضموں کی ہوا بان

آه کا کس نے اثر دیکھا ہے ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں

!ری فرصت کے مقابل اے عمریت برق کو پابہ حنا باندھتے ہیں

!قید ہستی سے رہائی معلوم اشک کو بے سروپا باندھتے ہیں

لد گواش رنگ سے ہے ۂنش مست کب بند قبا باندھتے ہیں

غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ نالے کو رسا باندھتے ہیںلوگ

اہل تدبیر کی واماندگیاں آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں

غالب ساده پرکار ہیں خوباں ہم سے پیمان وفا باندھتے ہیں

۔128

اسد زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جان وگرنہ ہم تو توقع زیاده رکھتے ہیں

۔129 دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں

اک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میںخ کیوں گردش مدام سے گبھرا نہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟ لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے

ر نہیں ہوں میںآخر گناہگار ہوں کاف کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟ لعل و زمرد و زر و گوھر نہیں ہوں میں

رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟ رتبے میں مہر و ماه سے کمتر نہیں ہوں میں؟

کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لیے؟

Page 69: Ghalib the Great Poet

68

105کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں؟ دعاوظیفہ خوار ہو دو شاه کوغالب

کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں106وه دن گئے کہ

۔130 سب کہاں؟ کچھ اللہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

!صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیںکیامیں کخا یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں

نہاںگردوں دن کو پردے میں 107ش عتھیں بنات الن شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر یں روزن دیوار زنداں ہو گئیںھلیکن آنک

سب رقیبوں سے ہوں ناخوش، پر زنان مصر سے کنعاں ہو گئیںه ہے زلیخا خوش کہ محو ما

جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیںمیں یہ

ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں

نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں 108تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا

ن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیںبلبلیں س وه نگاہیں کیوں ہوئی جاتی ہیں یارب دل کے پار؟

تاہئ قسمت سے مژگاں ہو گئیںوجو مری ک ےے بہ پ بس کہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پ

میری آہیں بخیئہ چاک گریباں ہو گئیں واب؟جواں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا

ی دعائیں صرف درباں ہو گئیںیاد تھیں جتن جاں فزا ہے باده جس کے ہاتھ میں جام آ گیا

رگ جاں ہو گئیں،سب لکیریں ہاتھ کی گویا

)جویریہ مسعود(’ں شعر کو نعتیہ اشعار میں شمار کیا ہے۔پانچویں۔ چھٹے اور ساتویاس غزل کے مہر نے‘ 105

)اعجاز عبید(‘کہ’: ۔ نسخۂ نظامی ’جو‘کچھ نسخوں میں 106

نے صیغۂ تانیث بکی جمع کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔ غال" ابن "جنازے کے آگے چلنے والی ماتم وار لڑکیاں ؟ یہاں یہ لفظ غالبا 107 )مد علی خاںاستعمال کیا ہے۔ حا

)جویریہ مسعود(ئیںجس کے بازو پر تری زلفیں پریشاں ہو گ: ہےدرج کیا یادگار غالب میں یوں نےحالی108

Page 70: Ghalib the Great Poet

69

ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج اں ہو گئیںمشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آس

تو اے اہل جہاںغالب یوں ہی گر روتا رہا دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گہیں

۔131

دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں میں اک تار بھی نہیں109یب ج ےیعنی ہمار

دل کو نیاز حسرت دیدار کر چکے دیکھا تو ہم میں طاقت دیدار بھی نہیں

ں تو سہل ہےملنا ترا اگر نہیں آسا دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

110بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں طاقت بہ قدرلذت آزار بھی نہیں

وبال دوشہے شوریدگی کے ہاتھ سے سر یںنہرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی صح

یار اک طرفغگنجائش عداوت ا یاں دل میں ضعف سے ہوس یار بھی نہیں

الہ ہائے زار سے میرے، خدا کو مانڈر ن آخر نوائے مرغ گرفتار بھی نہیں

گاں سے روکشیژدل میں ہے یار کی صف م حاالنکہ طاقت خلش خار بھی نہیں

!اس سادگی پہ کوں نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

کو خلوت و جلوت میں بارہااسد دیکھا ہے تو ہشیار بھی نہیںدیوانہ گر نہیں

۔132 زوں کی دوستوں نے حرص قاتل ذوق کشتن میںف

جوہر تیغ دشمن میں،ہوۓ ہیں بخیہ ہاۓ زخم

استعمال میں ) Pocket(کیسہ ئکے ساتھ، بمعن) زیر(مذکر ہے، بمعنی گریبان۔ اردو میں جیب، جیم پر کسره ) زبر(جیب، جیم پر فتح 109

کی جگہ بھی )بڑی ے(ہے۔ قدیم امال میں یاۓ معروف ہی یاۓ مجہول ’ ہماری‘ث ہےاس باعث اکثر نسخوں میں زیاده ہے، یہ لفظ مؤن )اعجاز عبید(استعمال کی جاتی تھی اس لۓ یہ غلط فہمی مزید بڑھ گئی

)حامد علی خان(درج ہے۔ " اور یہاں"چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں " اور یاں"بعض نسخوں میں 110 ) جویریہ مسعود(کو ترجیح دی ہے۔ " اوریاں"اس نسخے میںہم نے: مزید

Page 71: Ghalib the Great Poet

70

تماشا کردنی ہے لطف زخم انتظار اے دل مردمک ہے چشم سوزن میں111سواد زخم مرہم

ائیردل و دین و خرد تاراج ناز جلوه پی خرمن میںہوا ہے جوہر آئینہ خیل مور

رخم کوئی بخیے کے درخور مرے تن میںےنہیں ہ رشتہ چشم سوزن میں،یاسہوا ہے تار اشک

خانہ ویرانی،ہوئی ہے مانع ذوق تماشا سیالب باقی ہے برنگ پنبہ روزن میںکف

ودیعت خانۂ بے داد کاوش ہائے مژگاں ہوں ہر قطره خوں تن میں112ارنام شاہد ہے م ن نگی

یاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کیب شب مہ ہو جو رکھ دیں پنبہ دیواروں کے روزن میں

نکو ہش مانع بے ربطئ شور جنوں آئی یب و دامن میںہوا ہے خنده احباب بخیہ ج

تمثال کے آگےۀکے جلوشو مہرہوئے اس میں مثل ذره روزن میںےآئینرافشاں جوہرپ

وں یا بد ہوں، پر صحبت مخالف ہےنہ جانوں نیک ہ جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں

ہزاروں دل دیئے جوش جنون عشق نے مجھ کو سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطره خوں تن میں

زندانئ تاثیر الفت ہائے خوباں ہوںاسد خم دست نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں

۔133

کے اپنی نظر میں خاک نہیںنزے جہام سوائے خون جگر، سو جگر میں خاک نہیں

ہوا اڑا لے جائےمگر غبار ہوے پر وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟ جلوۀ گل ره گزر میں خاک نہیںکہ غیر

بھال اسے نہ سہی، کچھ مجھی کو رحم آتا رے نفس بے اثر میں خاک نہیںاثر م

گل سے خراب ہیں میکشۀخیال جلو

)جویریہ مسعود" (سواد زخم مرہم"بجاۓ " سویدا داغ مرہم"نسخۂ حمیدیہ میں 111چھپا ہے اور شارحین نے بال چون و چرا اسی طرح اس کی تشریح کردی ہے۔ قدیم نسخوں " مرے"کی جگہ " مرا"اکثر قدیم نسخوں میں 112

چھپا ہے اور یہ درست معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے غالب نے بھی یہی لکھا ہو کیونکہ اس سے شعر بہت " مرا"سخۂ حمیدیہ میں میں صرف ن )حامد علی خان(صاف ہوجاتا ہے۔ ورنہ یہ تعقید بہ درجۂ عیب معلوم ہوتی ہے۔ ۔

Page 72: Ghalib the Great Poet

71

کے دیوار و در میں خاک نہیںےخانشراب ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمنده

گھر میں خاک نہیں۔سوائے حسرت تعمیر اسد ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے

ہنر میں خاک نہیںض کھال، کہ فائده عر

۔134 و ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟دل ہی ت

کوئی ہمیں ستائے کیوں؟۔روئیں گے ہم ہزار بار دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں

ہمیں اٹھائے کیوں؟113غیرھے ہیں ره گزر پہ ہم، ٹبی جب وه جمال دل فروز، صورت مہر نیم روز

کیوں؟ےچھپائپردے میں منہ ۔آپ ہی ہو نظاره سوز جاں ستاں، ناوک ناز بے پناهدشنۂ غمزه

یوں؟کآئے تیرا ہی عکس رخ سہی، سامنے تیرے قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟ حسن اور اس پہ حسن ظن، ره گئی بوالہوس کی شرم

اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں؟ ه غرور عز و ناز، یاں یہ حجاب پاس وضعواں و

راه میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وه بالئے کیوں؟ وه بے وفا سہیہاں وه نہیں خدا پرست، جاؤ

جس کو ہوں دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟ تہ کے بغیر کون سے کام بند ہیںسخغالب

روئیے زار زار کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟ ۔135

ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یوںۂغنچ بتا کہ یوںمجھےبوسے کو پوچھتا ہوں میں، منہ سے کہ بن کہے؟پرسش طرز دلبری کیجئے کیا

ے ہے یہ ادا کہ یوںلاس کے ہر اک اشارے سے نک رات کے وقت مے پیے ساتھ رقیب کو لیے

آئے وه یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یوں یہ جو کہا تو دیکھیے’غیر سے رات کیا بنی‘

)جویریہ مسعود(درج ہے۔ " کوئی"کی جگہ " غیر"میں نسخۂ مہر 113

ہے۔ عرشی، حسرت اور مالک رام نے بھی متن میں " غیر"ہی چھپا ہے۔ قدیم نسخۂ نظامی میں بھی " غیر "نسخوں میں یہاں قدیم : مزیدکا ٹکڑا بہ تکرار آجاتا " کوئی ہمیں"کو ترجیح دی ہے مگر اس طرح پہلے دونوں شعروں میں " کوئی"ہی رکھا ہے۔ مہر صاحب نے " غیر"

) حامد علی خان(پسندیده معلوم ہوتا ہے۔ " کوئی"تو البتہ ہے۔ اگر صرف یہی شعر مد نظر ہو

Page 73: Ghalib the Great Poet

72

سامنے آن بیٹھنا، اور یہ دیکھنا کہ یوں بزم میں اس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے

شی میں بھی ہے یہی مدعا کہ یوںاس کی تو خام ”بزم ناز چاہیے غیر سے تہی” میں نے کہا کہ

؟سن کر ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں ’جاتے ہیں ہوش کس طرح‘جھ سے کہا جو یار نے م

چلنے لگی ہوا کہ یوں،دیکھ کے میری بیخودی کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی

آئینہ دار بن گئی حیرت نقش پا کہ یوں گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال

موج محیط آب میں مارے ہے دست و پا کہ یوں ہو رشک فارسی114رککہے کہ ریختہ کیوں جو یہ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوںغالب ۂگفت

۔136

ہم بے خودئ عشق میں کر لیتے ہیں سجدے یہ ہم سے نہ پوچھو کہ کہاں ناصیہ سا ہیں

۔137

اپنا احوال دل زار کہوں یا نہ کہوں کہوں یا نہ کہوں۔ہے حیا مانع اظہار

تقریر ادب سے باہرنہیں کرنے کا میں کہوں یا نہ کہوں۔میں بھی ہوں واقف اسرار

شکوه سمجھو اسے یا کوئی شکایت سمجھو کہوں یا نہ کہوں۔اپنی ہستی سے ہوں بیزار

اپنے دل ہی سے میں احوال گرفتارئ دل جب نہ پاؤں کوئی غم خوار کہوں یا نہ کہوں دل کے ہاتھوں سے، کہ ہے دشمن جانی اپنا

کہوں یا نہ کہوں۔ک آفت میں گرفتار ہوں ا ایک جہاں ہے غمازروامیں تو دیوانہ ہوں

گوش ہیں در پس دیوار کہوں یا نہ کہوں اسد آپ سے وه مرا احوال نہ پوچھے تو

حسب حال اپنے پھر اشعار کہوں یا نہ کہوں

)جویریہ مسعود('کہ'نسخۂ مہر میں 114

Page 74: Ghalib the Great Poet

73

۔138 ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیده ہوں

دیده ہوںمیں آہوۓ صیاد م غمیں دشت ہوں دردمند، جبر ہو یا اختیار ہو

گہ نالۂ کشیده، گہ اشک چکیده ہوں 115طہرابنے سبحہ سے عالقہ نہ ساغر سے

میں معرض مثال میں دست بریده ہوں ہوں خاکسار پر نہ کسی سے ہو مجھ کو الگ

نے دانۂ فتاده ہوں ،نے دام چیده ہوں نہیں وه مری قدر و منزلت،جو چاہۓ

ه ہوںوسف بہ قیمت اول خریدمیں ی ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ

ہوں میں کالم نغز، ولے ناشنیده ہوں کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیلعور اہل

میں میں برگزیده ہوں116زمرےپر عاصیوں کے ہوں گرمئ نشاط تصور سے نغمہ سنج

117میں عندلیب گلشن نا آفریده ہوں آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہنجاں لب پہ

118از بسکہ تلخئ غم ہجراں چشیده ہوں ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں

119خار الم سے پشت بہ دنداں گزیده ہوں اسد انی سے سگ گزیده ڈرے جس طرح پ

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیده ہوں ۔139

جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتار بال ہیں انکوں سے سوا ہیںٹوئیں بخۓ کے کپڑوں میں ج

۔140

مے کشی کو نہ سمجھ بےحاصل

)جویریہ مسعود(۔"واسطہ" کی جگہ" رابطہ"میں نسخۂ مہر115ی اس میں درج ہیں۔۔شعر ہ)82دیکھیں فٹ نوٹ نمبر (نسخۂ بھوپال میں اس زمین کی دو غزلیں شامل ہیں لیکن ایک یہ شعر اور ایک: مزید

)اعجاز عبید(

)جویریہ مسعود("زمرے"بجاۓ 'فرقے'کچھ نسخوں میں 116

)جویریہ مسعود(مگر نسخۂ مہر میں درج نہیںہے مشہور شعر 117

)جویریہ مسعود(یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں118

78نوٹ نمبر دیکھیں فٹ )جویریہ مسعود(یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں119

Page 75: Ghalib the Great Poet

74

عرق بید نہیںغالب باده ۔141

دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں

دی سادگی سے جان پڑوں کوہکن کے پاؤں ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گیے پیر زن کے پاؤں

اسی کی سزا ہے یہ،سو۔ے ہم بہتبھاگے تھ ہو کر اسیر دابتے ہیں راه زن کے پاؤں

مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دور دور گار ہیں اس خستہ تن کے پاؤںتن سے سوا ف

هللا رے ذوق دشت نوردی کہ بعد مرگ پاؤں،اندر کفن کے،ہلتے ہیں خود بہ خود مرے

رفہے جوش گل بہار میں یاں تک کہ ہر ط اڑتے ہوئے الجھتے ہیں مرغ چمن کے پاؤں شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں دکھتے ہیں آج اس بت نازک بدن کے پاؤں

مرے کالم میں کیوں کر مزه نہ ہوغالب پیتا ہوں دھو کے خسرو شیریں سخن کے پاؤں

Page 76: Ghalib the Great Poet

75

و ۔142

گرم تماشا ہو،حسد سے دل اگر افسرده ہے ید کثرت نظاره سے وا ہوکہ چشم تنگ شا

بہ قدر حسرت دل چاہیے ذوق معاصی بھی دامن گر آب ہفت دریا ہوۂبھروں یک گوش

اگر وه سرو قد گرم خرام ناز آ جاوے نالہ فرسا ہو،شکل قمری،کف ہر خاک گلشن

۔143

کیا کہیں،تو نہ دو طعنہ،کعبے میں جا رہا شت کون بھوال ہوں حق صحبت اہل ک

طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی الگ دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو ہوں منحرف نہ کیوں ره و رسم ثواب سے

ٹیڑھا لگا ہے قط قلم سرنوشت کو نہیں مجھے٭نالہکچھ اپنی سعی سے غالب

لخ کھائے کشت کوخرمن جلے اگر نہ م ۔144

ں نہ ہووارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیو عداوت ہی کیوں نہ ہو،کیجے ہمارے ساتھ

چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختالط کا نقش محبت ہی کیوں نہ ہو،ہے دل پہ بار

غیر کا گلہۀہے مجھ کو تجھ سے تذکر ہر چند بر سبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو

ہر درد کی دوا،کہتے ہیں،پیدا ہوئی ہے کیوں نہ ہوغم الفت ہیۀیوں ہو تو چار

ڈاال نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو

خود اک محشر خیالۓہے آدمی بجا ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

انفعال،ہمت ہےئ زبونۂہنگام عبرت ہی کیوں نہ ہو،حاصل نہ کیجے دہر سے

بیگانگی نہیںۂوارستگی بہان

Page 77: Ghalib the Great Poet

76

وحشت ہی کیوں نہ ہو،نہ غیر سے،ے کراپنے س ؟مٹتا ہے فوت فرصت ہستی کا غم کوئی

عبادت ہی کیوں نہ ہورف ص عمر عزیز اسد اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں

اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو ۔145

ابر روتا ہے کہ بزم طرب آماده کرو دے ہم کوبرق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم

۔146

ملی نہ وسعت جوالن یک جنون ہم کو عدم کو لے گۓ دل میں غبار صحرا کو

۔147

قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجان گلشن کو

یہ رشک کیا کم ہے، نہ ہو،نہیں گر ہمدمی آساں دشمن کو،نہ دی ہوتی خدا یا آرزوۓ دوست

نہ نکال آنکھ سے تیری اک آنسو اس جراحت پر کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگان سوزن کو خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں کبھی میرے گریباں کو کبھی جاناں کے دامن کو

ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں نہیں دیکھا شناور جوۓ خوں میں تیرے توسن کو

ے کاننکی زنجیر بؤںا چرچا جو میرے پاہو کیا بیتاب کاں میں جنبش جوہر نے آہن کو

اگر سو بار ابر آوے،کھیت پر میرے،خوشی کیا ہے ابھی سے برق خرمن کوےڈھونڈسمجھتا ہوں کہ

وفاداری بہ شرط استواری اصل ایماں ہے رے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کوم

ی قسمت میں جو دی تھی یہ خو مجھ کوشہادت تھی مر جھکا دیتا تھا گردن کو،جہاں تلوار کو دیکھا

خبر سوتاے نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں ب رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

نہیں سکتے کہ جویا ہوں جواہر کےہسخن کیا کہ جگر کیا ہم نہیں رکھتے کہ کھودیں جا کے معدن کو

غالب اه سلیماں جاه سے نسبت نہیں مرے ش

Page 78: Ghalib the Great Poet

77

و داراب و بہمن کوفریدون و جم و کیخسرو

۔148 واں اس کو ہول دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار

یعنی یہ میری آه کی تاثیر سے نہ ہو اپنے کو دیکھتا نہیں ذوق ستم کو دیکھ

نخچیر سے نہ ہوۀآئینہ تاکہ دید ۔149

ہم ہے ہم کوواں پہنچ کر جو غش آتا پئے صد ره آہنگ زمیں بوس قدم ہے ہم کو

دل کو میں اور مجھے دل محو وفا رکھتا ہے کس قدر ذوق گرفتاری ہم ہے ہم کو

ہے طوق گردن،ے مورئضعف سے نقش پ ترے کوچے سے کہاں طاقت رم ہے ہم کو جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امید بھی ہو

ہم کوم ہے غلط انداز تو س نگاه یہ رشک ہم طرحی و درد اثر بانگ حزیں

مرغ سحر تیغ دو دم ہے ہم کوۂنال سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا

’!ترے سر کی قسم ہے ہم کو‘ہنس کے بولے کہ ولیکن ناچار؟دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ

پاس بے رونقی دیده اہم ہے ہم کو ہوتم وه نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے

ہم وه عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو ق

لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی سو وه کم ہے ہم کو،ہوس سیر و تماشا

شوق نہیں ہے یہ شہرسلسلۂمقطع عزم سیر نجف و طوف حرم ہے ہم کو

غالب لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع ره کشش کاف کرم ہے ہم کوۀجاد

بزم طرب آمادی کروابر روتا ہے کہ برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو

طاقت رنج سفر بھی نہیں پاتے اتنی ہجر یاران وطن کا بھی الم ہے ہم کو الئی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید

Page 79: Ghalib the Great Poet

78

120جادۀ ره کشش کاف کرم ہے ہم کو

۔150 تم کو غیر سے جو رسم و راه ہو،تم جانو

رہو تو کیا گناه ہومجھ کو بھی پوچھتے روز حشر سےۀبچتے نہیں مواخذ

قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواه ہو ہیں121کیا وه بھی بے گنہ کش و حق نا شناس

مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماه ہو ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے ایک تار مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاه ہو

جگہ کی قیدجب مے کده چھٹا تو پھر اب کیا کوئی خانقاه ہو،مدرسہ ہو،مسجد ہو

سب درست،سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف جلوه گاه ہو122راـلیکن خدا کرے وه ت

بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیںغالب دنیا ہو یا رب اور مرا بادشاه ہو

۔151 گئی وه بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو

تو کیوں کر ہوپھر کہو،کہے سے کچھ نہ ہوا ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال

ہو تو کیوں کر ہو؟کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں تو کیا کیجے،ادب ہے اور یہی کشمکش

حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو پرستوں کانمصتمہیں کہو کہ گزارا

بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیوں کر ہو کھتے ہو آئینہالجھتے ہو تم اگر دی

جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو جسے نصیب ہو روز سیاه میرا سا

وه شخص دن نہ کہے رات کو تو کیوں کر ہو اور انہیں ہماری قدر،ہمیں پھر ان سے امید

ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیوں کر ہو

یہ تینوں اشعار نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہیں۔ اس وجہ یہ ہے کہ اشعار دوران سفر کلکتہ لکھے گیے تھے اور نسخۂ حمیدیہ میں شامل تمام 120 )جویریہ مسعود(اشعار سفر کلکتہ سے پہلے کے ہیں

)اعجاز عبید(کتابت کی غلطی بھی ممکن ہے۔’ اسناسپ‘اور عرشی میں۔ ، حق نا شناس۔ حسرت، مہرحق ناسپاس نسخۂ نظامی میں ہے121چھپا ہے۔ ایک آدھ اور قدیم نسخے میں بھی یونہی مال ہے مگر بعض دوسرے قدیم نسخوں " پاساسحق ن"نسخۂ نظامی طبع اول میں : مزید، عرشی اور مہر وغیر ہم نے اور طباطبائی، حسرت موہانی" ناسپاس"بھی چھپا ہے۔ جدید نسخوں میں مالک رام نے متن میں " ناشناس"میں

) حامد علی خان(درج کیا ہے۔ یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ " ناشناس"ہی درج " ترا"نسخۂ نظامی طبع اول میں اور دیگر نسخوں میں بشمول نسخۂ حسرت موہانی، نسخۂ طباطبائی و نسخۂ عرشی ، یہاں 122

)حامد علی خان(ے۔ چھپا ہ" تری"ہے۔ نسخۂ حمیدیہ طبع اول اور نسخۂ مہر میں

Page 80: Ghalib the Great Poet

79

غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلی کا تو کیوں کر ہو،دار جودیۀنہ مانے دید

بتاؤ اس مژه کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار رو تو کیوں کر ہویہ نیش ہو رگ جاں میں ف

123ولے بہ قول حضورغالب مجھے جنوں نہیں ’فراق یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو‘

۔152

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنج فغاں کیوں ہو ھر منہ میں زباں کیوں ہونہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پ

124چھوڑیںوضع کیوں گے ہم اپنی ں وه اپنی خو نہ چھوڑی سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو

لگے آگ اس محبت کو،نے رسواخوارغم یاک وه میرا راز داں کیوں ہو،نہ الوے تاب جو غم کی

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہوتو پھر

قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم گری ہے جس پہ کل بجلی وه میرا آشیاں کیوں ہو

پر یہ بتالؤ"ہم دل میں نہیں ہیں"سکتے ہو ہیہ کہ کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو

کا ہےغلط ہے جذب دل کا شکوه دیکھو جرم کس کشاکش درمیاں کیوں ہو،وکنہ کھینچو گر تم اپنے

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو،ہوئے تم دوست جس کے

یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو

رسوائیکہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو،سچ کہتے ہو،بجا کہتے ہو

غالب و نکاال چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے ت ترے بے مہر کہنے سے وه تجھ پر مہرباں کیوں ہو

۔153

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

اعجاز (بہادر شاه ظفر، اگال مصرعہ ظفر کا ہی ہے جس کی طرح میں غالب نے درباری مشاعرے کے لۓ یہ غزل کہی تھی۔: حضور123 )عبید

)جویریہ مسعود(ہے۔’ وضع کیوں بدلیں‘کچھ نسخوں میں 124 )حامد علی خان(کہا تھا " وضع کیوں بدلیں"اس بات کا کوئی ثبوت نہیں مال کہ خود غالب نے : مزید

Page 81: Ghalib the Great Poet

80

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو یا چاہیےبے در و دیوار سا اک گھر بنا

کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو 125پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو بیمار دار

اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

۔154126 بھولے سے کاش وه ادھر آئیں تو شام ہو کیا لطف ہو جو ابلق دوراں بھی رام ہو

تا گردش فلک سے یوں ہی صبح و شام ہو شم مست ہو اور دور جام ہوساقی کی چ

آنکھوں سے دیکھ لیں127کنبے تاب ہوں بال سے، کاش قضا کا پیام ہو! اے خوش نصیب

رازدارکیا شرم ہے، حریم ہے، محرم ہے میں سر بکف ہوں، تیغ ادا بے نیام ہو

میں چھیڑنے کو کاش اسے گھور لوں کہیں پھر شوخ دیده بر سر صد انتقام ہو

لب شناسہو حرف تمنا کہاں کہ دنوه ناکام، بد نصیب، کبھی شاد کام ہو

کے چشم شوق قدم بوس ہی سہیپلگھس میں128اژدہامہوںوه بزم غیر ہی میں

اتنی پیوں کہ حشر میں سرشار ہی اٹھوں مجھ پر جو چشم ساقئ بیت الحرام ہو

میکش کرے گا کیاغالب پیرانہ سال ہوبھوپال میں مزید جو دو دن قیام

)اعجاز عبید(جدید نسخوں میں اس لفظ کو تیماردار لکھا گیا۔استعمال کیا جانے لگا تو’ دارتیمار‘ہی تھا بعد میں لفظ ’ داربیمار‘قدیم لفظ 125

اور اس کے قریبی عہد کے 1862چھپا ہے۔ مگر نسخۂ نظامی مبطوعہ " دارتیمار"کی جگہ " داربیمار"بعد نسخوں میں بعض ما: مزید

ہی درج "بیماردار "دار چھپا ہے۔ مالک رام اور عرشی کے نسبتا جدید نسخوں میں بھی بیمار"جو آٹھ نسخے نظر سے گزرے، ان سب میں ر میں بھی کا اندراج شاید سہو کتابت ہے۔ نسخۂ مہ" تیماردار"ہے۔ بظاہر یہی غالب کا لفظ ثابت ہوتا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ طبع اول میں

غالبا اس لیے لکھا ہے کہ آج کل یہ لفظ " تیماردار"ممکن ہے، یہی سے لیا گیا ہو۔ بعض اور اصحاب نے بھی اپنے نسخوں میں " تیماردار"اس مفہوم میں قابل ترجیح ہے کیوں کہ اس کا ایک یہی مقرر مفہوم ہے جو تیمار اور " بیماردار"اردو میں عام طور سے مستعمل ہے مگر

ے۔ تیماردار کا نہیں۔ چنانچہ فارسی میں ان الفاظ کے دوسرے مفاہیم بھی ہیں۔ عالوه ازین غالب کا کوئی لفظ عمدا بدلنے سے احتراز واجب ہ ) حامد علی خان(

)جویریہ مسعود(غالم رسول مہر کو شک ہے کہ یہ غزل غالب کی نہیں: نوٹ126

کن127

)جویریہ مسعود(بھی ہےایک امال ازدحام اس لفظ کا128

Page 82: Ghalib the Great Poet

81

ه

۔155 تکیہنب شب وصال میں مونس گیا ہے

ہوا ہے موجب آرام جان و تن تکیہ خراج بادشہ چیں سے کیوں نہ مانگوں آج؟

پرشکن تکیہ129جعد کہ بن گیا ہے خم بنا ہے تختۂ گل ہاۓ یاسمیں بستر ہوا ہے دستۂ نسرین و نسترن تکیہ

فروغ حسن سے روشن ہے خوابگاه تمام خواب ہے پرویں، تو ہے پرن تکیہجو رخت

مزا ملے کہو کیا خاک ساتھ سونے کا رکھے جو بیچ میں وه شوخ سیم تن تکیہ

اگرچہ تھا یہ اراده مگر خدا کا شکر اٹھا سکا نہ نزاکت سے گلبدن تکیہ

ہوا ہے کاٹ کے چادر کو ناگہاں غائب اگر چہ زانوۓ نل پر رکھے دمن تکیہ

الک ہوابضرب تیشہ وه اس واسطے ہ کہ ضرب تیشہ پہ رکھتا تھا کوہکن تکیہ

یہ رات بھر کا ہے ہنگامہ صبح ہونے تک رکھو نہ شمع پر اے اہل انجمن تکیہ

اگرچہ پھینک دیا تم نے دور سے لیکن اٹھاۓ کیوں کہ یہ رنجور خستہ تن تکیہ غش آ گیا جو پس از قتل میرے قاتل کو

ہوئی ہے اس کو مری نعش بے کفن تکیہ میں یہ حال ہے اذیت کافراقشب ہے اور سانپ کا ہے من تکیہشرفکہ سانپ

روارکھونہ رکھو، تھاجو لفظ تکیہ کالم "سخن تکیہ"اب اس کو کہتے ہیں اہل سخن

ہم اور تم فلک پیر جس کو کہتے ہیں مسکیں کا ہے کہن تکیہغالب فقیر

۔156

نہیاز مہر تا بہ ذره دل و دل ہے آئ

)جویریہ مسعود(نسخۂ مہر میں دال پر جزم ہے۔129

Page 83: Ghalib the Great Poet

82

نہیآئسے مقابل ہے "ش جہتش"کوطوطی ۔157

ہے سبزه زار ہر در و دیوار غم کده جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ

ناچار بیکسی کی بھی حسرت اٹھائیے ره و ستم ہمرہاں نہ پوچھئ دشوار

۔158 اس عتاب کے ساتھ،نہ پوچھ حال اس انداز

لبوں پہ جان بھی آجاۓ گی جواب کے ساتھ ۔159

ہندوستان سایۂ گل پاۓ تخت تھا جاه و جالل عہد وصال بتاں نہ پوچھ ہر داغ تازه یک دل داغ انتظار ہے

عرض فضاۓ سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ

Page 84: Ghalib the Great Poet

83

ی

۔160 صد جلوه رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے

طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے ہے سنگ پر برات معاش جنون عشق

ہنوز منت طفالں اٹھائیےیعنی دیوار بار منت مزدور سے ہے خم اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے

یا میرے زخم رشک کو رسوا نہ کیجیے تبسم پنہاں اٹھائیےۀیا پرد

161 -

وه بات چاہتے ہو کہ جو بات چاہیے صاحب کے ہم نشیں کو کرامات چاہیے

مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے حاجات چاہیےۂپاس آنکھ قبلوںبھ

عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے

130کیدل حسرت پرست !دے داد اے فلک ہاں کچھ نہ کچھ تالفی مافات چاہیے

سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری تقریب کچھ تو بہر مالقات چاہیے ه کومے سے غرض نشاط ہے کس رو سیا

اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے ہے رنگ اللہ و گل و نسریں جدا جدا

ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے ق

خم پہ چاہیے ہنگام بے خودیۓسر پا رو سوۓ قبلہ وقت مناجات چاہیے

صفاتۂیعنی بہ حسب گردش پیمان عارف ہمیشہ مست مئے ذات چاہیے

فروع کوغالب نشو و نما ہے اصل سے

)جویریہ مسعود("کو"نسخۂ مہر میں 130ناکرده گناہوں کی : معنوی لحاظ سے غلط ہے کیوں کہ شاعر خود داد طلب ہے، جسے اس مصرع میں " کو"کے بجاۓ " کی"یہاں : مزید

بھی حسرت کی ملے داد۔ ) حامد علی خان(سہوا چھپا ہے۔ " کو"یں بعض اچھے نسخوں م

Page 85: Ghalib the Great Poet

84

خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے ۔162

بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطره خوں وه بھی سو رہتا ہے بہ انداز چکیدن سر نگوں وه بھی رہے اس شوخ سے آزرده ہم چندے تکلف سے

تھا ایک انداز جنوں وه بھی،تکلف بر طرف خیال مرگ کب تسکیں دل آزرده کو بخشے

تمنا میں ہے اک صید زبوں وه بھیمرے دام نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم

کہ ہوگا باعث افزائش درد دروں وه بھی رش تیغ جفا پر ناز فرماؤنہ اتنا ب

بیتابی میں ہے اک موج خوں وه بھیۓمرے دریا مئے عشرت کی خواہش ساقی گردوں سے کیا کیجے

جام واژگوں وه بھی131و چارلیے بیٹھا ہے اک د مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے

!کہیں ہو جاۓ جلد اے گردش گردون دوں، وه بھی نظر راحت پہ میری کر نہ وعده شب کو آنے کا کہ میری خواب بندی کے لیے ہوگا فسوں وه بھی

ہجراںۀشوق وصل و شکوغالب مرے دل میں ہے وه بھی،اس سے میں یہ بھی کہوںخدا وه دن کرے جو

)حامد علی خان(طباطبائی نے لکھا ہے کہ ان اعداد کی مجموعے سے سات آسمان پورے ہو جاتے ہیں 131

Page 86: Ghalib the Great Poet

85

۔163 ہے بزم بتاں میں سخن آزرده لبوں سے

تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے ہے دور قدح وجہ پریشانی صہبا

یک بار لگا دو خم مے میرے لبوں سے رندان در مے کده گستاخ ہیں زاہد

زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے جاتی رہی آخربیداد وفا دیکھ کہ

ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے

۔164 ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جاتا

سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے ترا احوال سنا دینگے ہم ان کوغالب

وه سن کے بال لیں یہ اجارا نہیں کرتے

۔165 گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا

سو ہے،ے ہم اک حسرت تعمیروه جو رکھتے تھ

۔166 غم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی

فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی کھلےگا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب

کے جالنے کیذقسم کھائی ہے اس کافر نے کاغ آتش کا آساں ہےۂلپٹنا پرنیاں میں شعل

غم چھپانے کیولے مشکل ہے حکمت دل میں سوز دیکھ آنا تھا132انہیں منظور اپنے زخمیوں کا

دیکھنا شوخی بہانے کی،اٹھے تھے سیر گل کو ہماری سادگی تھی التفات ناز پر مرنا ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی

لکد کوب حوادث کا تحمل کر نہیں سکتی مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کے ناز اٹھانے کی

غالب کیا خوبی اوضاع ابنائے زماں کہوں بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی

)جویریہ مسعود(سہو کتابت معلوم ہوتا ہے۔ "کو"درج ہے۔ " کو"کے بجاۓ " کا"نسخۂ مہر میں یہاں 132

Page 87: Ghalib the Great Poet

86

۔167 حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی دل جوش گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی

اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھائے ں میں ہوں داغ نا تمامیومیں بھی جلے ہؤ

۔168

کا جہان ہےکیا تنگ ہم ستم زدگاں مور آسمان ہےۂجس میں کہ ایک بیض

کت تیرے ذوق سےر ہے کائنات کو ح پرتو سے آفتاب کے ذرے میں جان ہے

حاالنکہ ہے یہ سیلی خارا سے اللہ رنگ غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے

اہل ہوس میں جانۂکی اس نے گرم سی آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے

تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا!کیا خوب بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے

دیوار یار میںۂبیٹھا ہے جو کہ سای کشور ہندوستان ہےۓاروفرماں

ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا کس سے کہوں کہ داغ جگر کا نشان ہے

ہے بارے اعتماد وفاداری اس قدر مہربان ہےہم اس میں خوش ہیں کہ نا غالب

دلی کے رہنے والو اسد کو ستاؤ مت 133بے چاره چند روز کا یاں میہمان ہے

۔169 درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے

کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے تیرے دل میں گر نہ تھا آشوب غم کا حوصلہ

تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے ی غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیالکیوں مر

دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے عمر بھر کا تو نے پیمان وفا باندھا تو کیا

عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے زندگیۓزہر لگتی ہے مجھے آب و ہوا

)داعجاز عبی(نسخۂ شیرانی کا اضافہ133

Page 88: Ghalib the Great Poet

87

یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے کیا ہو گیاناز جلوه کوۓہاگل فشانی

خاک پر ہوتی ہے تیری اللہ کاری ہائے ہائے شرم رسوائی سے جا چھپنا نقاب خاک میں

ختم ہے الفت کی تجھ پر پرده داری ہائے ہائے خاک میں ناموس پیمان محبت مل گئی

اٹھ گئی دنیا سے راه و رسم یاری ہائے ہائے ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا

نے نہ پایا زخم کاری ہائے ہائےدل پہ اک لگ برشکالتار ۓہاکس طرح کاٹے کوئی شب

اختر شماری ہائے ہائےۀہے نظر خو کرد گوش مہجور پیام و چشم محروم جمال

پر یہ نا امیدواری ہائے ہائےس ت ایک دل ابھی وحشت کا رنگغالب عشق نے پکڑا نہ تھا

ائے ہائےره گیا تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری ہ گر مصیبت تھی تو غربت میں اٹھا لیتا اسد

134میری دلی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ہاۓ ہاۓ ۔170

سر گشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے کہ مرنے کی آس ہے135تسکیں کو دے نوید

لیتا نہیں مرے دل آواره کی خبر اب تک وه جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے

غم کہاں تلککیجے بیاں سرور تب ہر مو مرے بدن پہ زبان سپاس ہے

وفاۂہے وه غرور حسن سے بیگان ہرچند اس کے پاس دل حق شناس ہے

پی جس قدر ملے شب مہتاب میں شراب اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے

اسد ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے

)اعجاز عبید(نسخۂ شیرانی کا اضافہ 134

)اعجاز عبید(نظامی اور دوسرے نسخوں میں اسی طرح ہے۔نسخۂ ۔ اصل ’تسکین کو نوید‘: نسخۂ عرشی میں یوں ہے135

تسکین کو نوید کہ مرنے کی آس ہے۔: عرشی صاحب کے نسخے میں یوں درج ہے : مزیدں دیکھا تو کہیں بھی یہ مصرع اس طرح درج نہ تھا۔ لہذا مندرجہ باال صورت قائم رکھی گئی۔ ستره اٹھاره دوسرے قدیم و جدید نسخوں می

)حامد علی خان(چھپا ہوا مل جاتا ہے ۔" دے"سہوا حذف تو ہو گیا تھا مگر وہاں بھی ذرا اوپر " دے"ایک قدیم نسخے میں

Page 89: Ghalib the Great Poet

88

۔171 حال ہےۓفائده اخفاگر خامشی سے

خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے کس کو سناؤں حسرت اظہار کا گلہ

الل ہےۓہاں دل فرد جمع و خرچ زبا نہ پرداز اے خدایکس پردے میں ہے آئ

رحمت کہ عذر خواه لب بے سوال ہے ہے ہے خدا نہ خواستہ وه اور دشمنی

یہ تجھے کیا خیال ہے!اے شوق منفعل شکیں لباس کعبہ علی کے قدم سے جانم

ہے نہ کہ ناف غزال ہے136ناف زمین آفاق تنگ تھاۂوحشت پہ میری عرص

دریا زمین کو عرق انفعال ہے اسد ہستی کے مت فریب میں آ جائیو

دام خیال ہےۂعالم تمام حلق

۔172 پوچھو137کےتم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود

کہ اس میں آگ دبی ہےحذر کرو مرے دل سے دال یہ درد و الم بھی تو مغتنم ہے کہ آخر

سحری ہے نہ آه نیم شبی ہےۂنہ گری

۔173 بسکہ حیرت سے ز پا افتادۀ زنہار ہے

ناخن انگشت تبخال لب بیمار ہے زلف سے شب درمیاں دادن نہیں ممکن دریغ ورنہ صد محشر بہ رہن صافئ رخسار ہے

ۓ سر مژگان دوستدر خیال آباد سودا صد رگ جاں جاده آسا وقف نشتر زار ہے

بھی مٹ گیا138سو،ایک جا حرف وفا لکھا تھا ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے

جی جلے ذوق فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں

کا اضافہ کیا ہے۔ " یہ"سے پہلے " نہ"ت نے اس مصرع میں میں اعالن نون کا عیب رفع کرنے کے لیے بعض حضرا" ناف زمین"136

)حامد علی خان(غالب کی نظر میں عیب نہ تھا۔

)جویریہ مسعود(کر ۔ نسخۂ مہر137 )جویریہ مسعود(وه۔ نسخۂ مہر138

Page 90: Ghalib the Great Poet

89

ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا

اندگی میں نالے سے ناچار ہےہر کوئی در م ہے وہی بد مستی ہر ذره کا خود عذر خواه

جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرت دیدار ہے

جی جلے ذوق فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں ر ہےہم نہیں جلتے، نفس ہر چند آتش با

ہے وہی بد مستی ہر ذره کا خود عذر خواه جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی

139بھی مرا جی ان دنوں بے زار ہے زندگی سے بس کہ ویرانی سے کفر و دیں ہوۓ زیر و زبر

گرد صحراۓ حرم تا کوچۂ زنار ہے شق و پاس آبرواے سر شوریده ناز ع

یک طرف سودا و یک سو منت دستار ہے وصل میں دل انتظار طرفہ رکھتا ہے مگر

فتنہ تاراجی تمنا کے لیے درکار ہے خانماں ہا پائمال شوخئ دعوی اسد

سایۂ دیوار سے سیالب در و دیوار ہے

۔174 پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وه میرے

نے نہیں دیتےکندھا بھی کہاروں کو بدل ۔175

یہ بزم مے پرستی، حسرت تکلیف بے جا ہے کہ جام باده کف بر لب بتقریب تقاضا ہے

حیرت آباد تمنا ہےۓمری ہستی فضا جسے کہتے ہیں نالہ وه اسی عالم کا عنقا ہے

کوئی موسم ہو؟خزاں کیا فصل گل کہتے ہیں کس کو کا ہےبال و پراور ماتم،قفس ہے،وہی ہم ہیں

دلبراں ہے اتفاقی ورنہ اے ہمدمۓوفا ہاے حزیں کا کس نے دیکھا ہےاثر فریاد دل

تاب رنج نومیدیشوخئ اندیشہ 140نہ الئی

)ز پروفیسر حمید احمد خانحاشیہ ا( یہ تینوں شعر اصل قلمی نسخے میں حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں لکھے ہوۓ ہیں 139

Page 91: Ghalib the Great Poet

90

کف افسوس ملنا عہد تجدید تمنا ہے ۔176

رحم کر ظالم کہ کیا بود چراغ کشتہ ہے نبض بیمار وفا دود چراغ کشتہ ہے

ین رکھتی ہے ہمیںدل لگی کی آرزو بے چ ورنہ یاں بے رونقی سود چراغ کشتہ ہے

۔177

چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے سرمہ تو کہوے کہ دود شعلہ آواز ہے

پیکر عشاق ساز طالع نا ساز ہے نالہ گویا گردش سیاره کی آواز ہے

خوں بار مجنوں دیکھناۀدیدگاه دست پا انداز ہےگل فرش ۀیک بیاباں جلو

۔178 عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

وحشت تری شہرت ہی سہی141میری قطع کیجے نہ تعلق ہم سے

کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی اے وه مجلس نہیں خلوت ہی سہی

ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی

ہو جو کچھ ہواپنی ہستی ہی سے آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی

عمر ہر چند کہ ہے برق خرام دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی

ہم کوئی ترک وفا کرتے ہیں نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی کچھ تو دے اے فلک نا انصاف آه و فریاد کی رخصت ہی سہی

)جویریہ مسعود) (نسخۂ مہر(نہ الئے140

اور " میری"چھپا ہے۔ یہ مقامات " مرے"کی جگہ " میرے"ے شعر میں راور تیس" مری"کی جگہ " میری" بعض نسخوں میں 141)حامد علی خان(کے متقاضی ہیں اور یہی غالب کے الفاظ ہیں۔ " میرے"

Page 92: Ghalib the Great Poet

91

گےں ہم بھی تسلیم کی خو ڈالی بے نیازی تری عادت ہی سہی

اسد چھیڑ چلی جائے یار سے گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی

۔179

ے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھےہ دنداں نما مجھےۀصبح وطن ہے خند

ڈھونڈے ہے اس مغنی آتش نفس کو جی برق فنا مجھےۀجس کی صدا ہو جلو

وادی خیالمستانہ طے کروں ہوں ره تا باز گشت سے نہ رہے مدعا مجھے

سکہ باغ میں تو بے حجابیاںکرتا ہے ب آنے لگی ہے نکہت گل سے حیا مجھے کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے ۔180

اور تو رکھنے کو ہم دہر میں کیا رکھتے تھے142 مگر ایک شعر میں انداز رسا رکھتے تھے

اس کا یہ حال کہ کوئی نہ ادا سنج مال ھے ہم اور آپ اٹھا رکھتے تھےآپ لکھتے ت

غالب 143زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری گے کہ خدا رکھتے تھےہم بھی کیا یاد کریں

۔181 اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے

بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے دل ہی تو ہے سیاست درباں سے ڈر گیا

ن صدا کیےمیں اور جاؤں در سے ترے ب ہوں خرقہ و سجاده رہن مےرکھتا پھروں

مدت ہوئی ہے دعوت آب و ہوا کیے ہو گرچہ عمر خضر،بے صرفہ ہی گزرتی ہے

موالنا امتیاز علی بحوالہ " نسخۂ نظامی"وں دریافت احید الدین نظامی فرزند موالنا نظام الدین حسین نظامی شایع کنندۀ اضافہ از نسخۂ بدای142

)جویریہ مسعود) (دیوان غالب ۔ ایک اہم مخطوطہ ۔ نسخۂ بدایوں"عرشی کا مضمون بھی پڑھا جاسکتا ہے مگر غالب نے کیا کہا؟ کچھ کہہ نہیں "گزرے"قدیم نسخوں میں یاے معروف و مجہول کا کوئی امتیاز نہیں۔ یہاں 143

)حامد علی خان(سکتے۔

Page 93: Ghalib the Great Poet

92

گے کہ ہم کیا کیا کیےں حضرت بھی کل کہی لئیم144اےمقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ

گرانمایہ کیا کیےۓہاتو نے وه گنج ؟کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو

؟نہ آرے چال کیے کس دن ہمارے سر پہ صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو

دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں

وعدے وفا کیے145بھولے سے اس نے سینکڑوں گا جواب کیاے تمہیں کہو کہ ملغالب

وه سنا کیےمانا کہ تم کہا کیے اور

۔182 اب ہےرفتار عمر قطع ره اضطر

اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے 146مے ہے سرو نشاط بہار سےۓمینا

موج شراب ہےۀجلو147ر وتد بال ثبات کاۓزخمی ہوا ہے پاشنہ پا

نہ اقامت کی تاب ہے،نے بھاگنے کی گوں جاداد باده نوشی رنداں ہے شش جہت

غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے برق حسن کانظاره کیا حریف ہو اس

جوش بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے میں نامراد دل کی تسلی کو کیا کروں مانا کہ تیری رخ سے نگہ کامیاب ہے

مسرت پیغام یار سےاسد گزرا قاصد پہ مجھ کو رشک سوال و جواب ہے

۔183

)حامد علی خان(چھپا ہے ، اور کہیں نظر سے نہیں گزرا۔ " او"کی جگہ "اے"نسخۂ حمیدیہ طبع اول میں 144

)جویریہ مسعود(۔ چھپا ہے" او"نسخۂ مہر میں بھی: مزیدچھپا " سینکڑوں"ملتا ہے مگر نسخۂ نظامی میں اور بعض دوسرے قدیم نسخوں میں " سیکڑوں"جگہ کی " سینکڑوں"بعض نسخوں میں 145

)حامد (۔ہے۔ : اٹھاره سے زاید قدیم و جدید نسخوں کے باہمدگر مقابلے سے معلوم ہوا کہ کہ بیشتر نسخوں میں یہ شعر اسی طرح چھپا ہے146

در و جلوۀ موج شراب ہےبال ت ےممیناۓ مے ہے سرو نشاط بہار درج ہے جو صریحا غلط ہے۔ ایک آدھ قدیم نسخے میں نیز عرشی، مہر مالک رام کے نسخوں " سرو نشاط سے "لیکن نسخۂ حمیدیہ میں

موج شراب ہےبال تدر و جلوۀ مے ہے سرو نشاط بہار سےسےمینا میں یہ شعر ایک اور شکل میں ملتا ہے، یعنییہ شعر اس طرح بھی بامعنی ہے اور اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ نشاط بہار نے سرو کو بھی شراب سے لبالب بھرا ہوا مینا بنادیا ہے۔

ی اس حالت میں آسمان پر بال تدرو یعنی ابر باران آور بھی جلوۀ موج شراب معلوم ہوتا ہے۔ جس سے شراب کے خوب کھل کر برسنے ک)حامد(امید ہوسکتی ہے۔

) نسخۂ مہرجویریہ مسعود بحوالۂ (تذرو اور تدرو دونوں طرح لکھا جاتاہے۔ 147

Page 94: Ghalib the Great Poet

93

دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے دیکھا جائے ہےبھال کب مجھ سے ،میں اسے دیکھوں

ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے صہبا سے پگھال جائے ہےئ آبگینہ تند

غیر کو یا رب وه کیوں کر منع گستاخی کرے گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے

دل کی وه حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے چشم بد تری بزم طرب سے واه واهدور

نغمہ ہو جاتا ہے واں گر نالہ میرا جائے ہے راز عشقگرچہ ہے طرز تغافل پرده دار

پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وه پا جائے ہے یاں،اس کی بزم آرائیاں سن کر دل رنجور

غیر بیٹھا جائے ہےۓمثل نقش مدعا زک بن گیاہو کے عاشق وه پری رخ اور نا

جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہےکھلتارنگ نقش کو اس کے مصور پر بھی کیا کیا ناز ہیں کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے

اسد سایہ میرا مجھ سے مثل دود بھاگے ہے پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے

۔184

گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے اماں ہجر میں دی برد لیالی نے مجھےتب

نسیہ و نقد دو عالم کی حقیقت معلوم لے لیا مجھ سے مری ہمت عالی نے مجھے

وہمئپرستارکثرت آرائی وحدت ہے کر دیا کافر ان اصنام خیالی نے مجھے

ہوس گل کے تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے

۔185

ر گاه ہستی میں اللہ داغ ساماں ہےکا خون گرم دہقاں ہے،برق خرمن راحت

ہا برگ عافیت معلومغنچہ تا شگفتن باوجود دل جمعی خواب گل پریشاں ہے ہم سے رنج بیتابی کس طرح اٹھایا جائے

Page 95: Ghalib the Great Poet

94

شعلہ خس بہ دنداں ہے،داغ پشت دست عجز ۔186

غالب اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزه م بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہےہ

۔187

مر جانے کی حسرت دل میں ہے،سادگی پر اس کی بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کف قاتل میں ہے

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ را مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہےذکر می

گیے بس ہجوم نا امیدی خاک میں مل جائ بے حاصل میں ہےئ یہ جو اک لذت ہماری سع

148واماندگی کو عشق ہے؟رنج ره کیوں کھینچیے منزل میں ہے،اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم

جلوه زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی ل میں ہےگ آب و 149شور قیامت کس کیۂفتن

طلسم پیچ و تابغالب ۀہے دل شورید رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے

۔188

دل سے تری نگاه جگر تک اتر گئی دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

خوشا لذت فراغ،شق ہو گیا ہے سینہ تکلیف پرده داری زخم جگر گئی

شبانہ کی سر مستیاں کہاںۀوه باد ھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئیاٹ

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوۓ یار میں ہوس بال و پر گئی!بارے اب اے ہوا

انداز نقش پائـفریبیکھو تو دل د موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی

یہ کلمہ بہ تغیر تلفظ اہل پنجاب کی زبانوں پر بھی ہے ۔ اس شعر کو سمجھنے کے لیے دوسرے مصرع میں ! آفرین! مرحبا!: عشق ہے148

حامد علی (لکھ دیا ہے جو مقصود غالب نہیں ۔ " واماندگی سے عشق ہے"ت نے غلط فہمی سے کے بعد وقفہ ہونا چاہیے۔ بعض حضرا" قدم")خان )حامد علی خان" (کی" بجاۓ " کے"۔ " کس کے آب و گل: " نسخۂ طباطبائی149

Page 96: Ghalib the Great Poet

95

لہوس نے حسن پرستی شعار کیاہر بو اب آبروۓ شیوه اہل نظر گئی

قاب کایا واں ننظارے نے بھی کام ک مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

یک بار مٹ گیاقہتفر فردا و دی کا کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی

خاں تمہیںهللاسد مارا زمانے نے وه ولولے کہاں وه جوانی کدھر گئی

۔189 تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے حوران خلد میں تری صورت مگر ملے

لی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتلاپنی گ میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

ورنہ ہم،ساقی گری کی شرم کرو آج ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے تجھ سے تو کچھ کالم نہیں لیکن اے ندیم

میرا سالم کہیو اگر نامہ بر ملے یاک تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا

کش غم پنہاں سے گر ملےفرصت کشا الزم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں

کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے150جانا دل دار دیکھناۂکوچاے ساکنان

آشفتہ سر ملےغالب تم کو کہیں جو

۔190 کوئی دن گر زندگانی اور ہے

اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں

نہانی اور ہےہاۓسوز غم دیکھی ہیں ان کی رنجشیںرہااب

سر گرانی اور ہے151پر کچھ اب کے دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر

)جویریہ مسعود(ہے۔" مانا"میں ) فرہنگ کے ساتھ( ٭ دیوان غالب 150اب کے چھپا ہے جو اس موقع پر درست "کا امتیاز نہ تھا اس لیے بعض قدیم نسخوں میں یہاں قدیم نسخوں میں یاۓ مجہول و معروف 151

)حامد علی خان(اب کی بار : کے بعد۔ یہاں مراد ہے " بارہا"معلوم نہیں ہوتا۔ بالخصوص

Page 97: Ghalib the Great Poet

96

کچھ تو پیغام زبانی اور ہے قاطع اعمار ہیں اکثر نجوم

آسمانی اور ہےبالۓوه بالئیں سب تمامغالب ہو چکیں

ایک مرگ ناگہانی اور ہے ۔191

تیآں ید بر نہیام یکوئ آتیں یصورت نظر نہیکوئ

ن ھےیک دن معیموت کا ا ؟یں آتیوں رات بھر نہیند کین

یہنسحال دل پہ یتھیآتآگے یں آتیبات پر نہیاب کس

طاعت و زہدثواب جانتا ہوں یں آتیت ادھر نہیپر طبع

بات جو چپ ہوںیہیسیہے کچھ ا یں آتیا بات کر نہیورنہ ک

ںیہاد کرتے یخوں کہ یوں نہ چیک یں آتیآواز گر نہیریم

ں آتایدل گر نظر نہداغ یں آتیاے چاره گر نہیبو بھ

یں جہاں سے ہم کو بھیہم وہاں ہ یں آتیخبر نہیکچھ ہمار

یں مرنے کیں آرزو میمرتے ہ یں آتیہے پر نہیموت آت

غالب کعبے کس منہ سے جاؤ گے یں آتیشرم تم کو مگر نہ

۔192

؟یا ہےدل ناداں تجھے ہوا ک ؟اس درد کی دوا کیا ہےآخر

زارےبہم ہیں مشتاق اور وه ؟یا الہی یہ ماجرا کیا ہے

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

ق جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

؟پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

Page 98: Ghalib the Great Poet

97

؟یہ پری چہره لوگ کیسے ہیں ؟غمزه و عشوه و ادا کیا ہے

152یں کیوں ہےعنبرن زلف شک ؟چشم سرمہ سا کیا ہےنگہ

؟سبزه و گل کہاں سے آئے ہیں ؟ہوا کیا ہے؟ابر کیا چیز ہے

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید ؟جو نہیں جانتے وفا کیا ہے ہاں بھال کر ترا بھال ہوگا

؟درویش کی صدا کیا ہےورا جان تم پر نثار کرتا ہوں

؟ا ہےمیں نہیں جانتا دعا کی غالب میں نے مانا کہ کچھ نہیں

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

۔193 کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے

"کہ وو آئے"یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی ہوں کشمکش نزع میں ہاں جذب محبت

پر وه مرے پوچھنے کو آئے،کچھ کہہ نہ سکوں ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم

گو آئے،ہی سمجھ میں مری آتا نہیںآنا ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین

ئےآہاں منہ سے مگر بادۀ دوشینہ کی بو جالد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے

ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے کون سنے طعنۂ نا یافت! ہاں اہل طلب

ھو آئےدیکھا کہ وه ملتا نہیں اپنے ہی کو ک اپنا نہیں وه شیوه کہ آرام سے بیٹھیں

اس در پہ نہیں بار تو کعبے ہی کو ہو آئے کی ہم نفسوں نے اثر گریہ میں تقریر

اچھے رہے آپ اس سے مگر مجھ کو ڈبو آئے غالب اس انجمن ناز کی کیا بات ہے

ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے ۔194

)جویریہ مسعود(ہیں۔ نسخۂ مہر152

Page 99: Ghalib the Great Poet

98

ری ہےپھر کچھ اک دل کو بیقرا سینہ جویاۓ زخم کاری ہے پھر جگر کھودنے لگا ناخن

آمد فصل اللہ کاری ہے قبلۂ مقصد نگاه نیاز

پھر وہی پردۀ عماری ہے ل جنس رسوائیچشم دال

دل خریدار ذوق خواری ہے صد رنگ نالہ فرسائی153ہیهو صد گونہ اشک باری ہےہیهو

دل ہواۓ خرام ناز سے پھر ن بیقراری ہےمحشرستا

جلوه پھر عرض ناز کرتا ہے جاں سپاری ہے154روز بازار

پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں پھر وہی زندگی ہماری ہے

ق پھر کھال ہے در عدالت ناز

گرم بازار فوجداری ہے ہو رہا ہے جہان میں اندھیر

زلف کی پھر سرشتہ داری ہے پھر دیا پارۀ جگر نے سوال

ه و زاری ہےایک فریاد و آ عشق طلبگواه پھر ہوئے ہیں

اشک باری کا حکم جاری ہے دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا آج پھر اس کی روبکاری ہے

غالب بے خودی بے سبب نہیں کچھ تو ہے جس کی پرده داری ہے

۔195 جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی

نمک پاش خراش دل ہے لذت زندگانی کی ہاۓ ہستی سے کرے کیا سعی آزادیشکشاک آب کو فرصت روانی کی155موج زنجیر، ہوئی

)جویریہ مسعود("وہی" نسخۂ مہر و آسی میں 153

)حامد علی خان(چہل پہل اور رونق کے دن کو بھی کہتے ہیں : ار روز باز154

Page 100: Ghalib the Great Poet

99

بھی دیوانہ زیارت گاه طفالں ہے156پس از مردن شرار سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی نہ کھینچ اے دست سعی نارسا زلف تمنا کو

پریشاں تر ہے موۓ خامہ سے تدبیر مانی کی ھتے ہیں، انصاف بہتر ہےکماں ہم بھی رگ و پے رک

نہ کھینچے طاقت خمیازه تہمت ناتوانی کی

۔196 نکوہش ہے سزا فریادئ بیداد دلبر کی مبادا خندۀ دنداں نما ہو صبح محشر کی

لیلی کو خاک دشت مجنوں ریشگی بخشےرگ اگر بو دے بجاۓ دانہ دہقاں نوک نشتر کی

مے تھائکشتپر پروانہ شاید بادبان ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دور ساغر کی

کروں بیداد ذوق پر فشانی عرض کیا قدرت کہ طاقت اڑ گئی، اڑنے سے پہلے، میرے شہپر کی

!کہاں تک روؤں اس کے خیمے کے پیچھے، قیامت ہے مری قسمت میں یا رب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی؟

۔197 ےک سب میں ہم ہوئبے اعتدالیوں سے سب

جتنے زیاده ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے آشیان کے157سخت قریبام دپنہاں تھا

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے

ہوئےسمق یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی سختی کشان عشق کی پوچھے ہے کیا خبر

وه لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے کہ دہر میں؟تالفیتیری وفا سے کیا ہو

تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے خو جس کے بیم سےئتندتیری 158هللا ری

)جویریہ مسعود("زنجیر موج آب" نسخۂ طاہر میں 155

)حامد علی خان(ہے " پس از مردن"چھپا ہے باقی نسخوں میں " پس مردن"نسخۂ مہر میں غالبا سہو کاتب سے 156

)اعجاز عبید("بدام سخت قری" نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں 157درج " نہایت قریب"بہ معنئ " سخت قریب"چھپا ہے ۔ دوسرے سب نسخوں میں "دام سخت قریب" نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں : مزید)حامد(ہے امتیاز قابل میں یہ " هللا ری"اور " هللا رے"چھپا ہے " ری"کی جگہ " رے"مالک رام اور نسخۂ صد سالہ یادگار غالب کمیٹی دہلی میں 158

حامد علی (ہے جو محبوبہ بھی نہیں۔ " تند خو محبوب"نہیں بلکہ " تندی خو"تعریف ہے مگر اس بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ مخاطب

Page 101: Ghalib the Great Poet

100

اجزاۓ نالہ دل میں مرے رزق ہم ہوئے اہل ہوس کی فتح ہے ترک نبرد عشق

ہوئےوہی ان کے علمگئےجو پاؤں اٹھ نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے

سکے سو وه یاں آ کے دم ہوئے159جو واں نہ کھنچ نہ ہم نے گدائی میں دل لگیاسد چھوڑی

سائل ہوئے تو عاشق اہل کرم ہوئے ۔198

جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی تو فسردگی نہاں ہے بہ کمین بے زبانی

زمانۂ جوانیمجھے اس سے کیا توقع بہ کبھی کودکی میں جس نے نہ سنی مری کہانی یوں ہی دکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا کہ مرے عدو کو یا رب ملے میری زندگانی

۔199

ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے

نے مژدۀ وصال نہ نظارۀ جمال ہےچشم و گوشمدت ہوئی کہ آشتئ

مے نے کیا ہے حسن خود آرا کو بے حجاب اجازت تسلیم ہوش ہے160اے شوق یاں

گوہر کو عقد گردن خوباں میں دیکھنا کیا اوج پر ستارۀ گوہر فروش ہے

نگاه مست،حوصلہ ساقی،دیدار باده بزم خیال مے کدۀ بے خروش ہے

ق اے تازه واردان بساط ہواۓ دل

و نوش ہےاۓنزنہار اگر تمہیں ہوس جو دیدۀ عبرت نگاه ہو!دیکھو مجھے

جو گوش نصیحت نیوش ہے!میری سنو ساقی بہ جلوه دشمن ایمان و آگہی

)خان)جویریہ مسعود(درج ہے۔ " کھچ"حامد علی خان کے نسخے میں ) حامد علی خان(چھپا ہے ۔ " کھنچ"بعض نسخوں میں 159

سے شعر کے جو تیور بنتے ہیں " ہاں"چھپا ہے۔ یہ غالبا کسی سہو کتابت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ " ہاں"کی جگہ " یاں"بعض نسخوں میں160)حامد علی خان(غالب کے معلوم نہیں ہوتے۔

Page 102: Ghalib the Great Poet

101

مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط

دامان باغبان و کف گل فروش ہے لطف خرام ساقی و ذوق صداۓ چنگ

فردوس گوش ہےوهیہ جنت نگاه یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں

نہ جوش و خروش ہے161نے وه سرور و سوز ہوئییجلداغ فراق صحبت شب کی

اک شمع ره گئی ہے سو وه بھی خموش ہے آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

صریر خامہ نواۓ سروش ہےغالب

۔200 کہ مری جان کو قرار نہیں ہے،آ

طاقت بیداد انتظار نہیں ہے دیتے ہیں جنت حیات دہر کے بدلے

نشہ بہ اندازۀ خمار نہیں ہے بزم سے مجھ کو162نکالے ہے تیریریہگ

ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے ہم سے عبث ہے گمان رنجش خاطر خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے

ہاۓ معانیدل سے اٹھا لطف جلوه ینۂ بہار نہیں ہےغیر گل آئ

قتل کا میرے کیا ہے عہد تو بارے وائے اگر عہد استوار نہیں ہے غالب تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے

تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے

۔201 میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں

چل نکلتے جو مے پیے ہوتے قہر ہو یا بال ہو جو کچھ ہو کاشکے تم مرے لیے ہوتے

)اعجاز عبید، جویریہ مسعود(’سور‘میں اور نسخۂ مہرء 1863نسخۂ آگره 161

چھپ گیا۔ اب بعض " سور"ہی چھپا ہے۔ ایک نسخے میں شاید سہو کتابت سے " سوز"ں نسخۂ نظامی اور اکثر دوسرے نسخوں می: مزید ) حامد علی خان(ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ " سور"حضرات

صرف نسخۂ حسرت موہانی ، نسخۂ بیخود ۔چھپا ہے جو صحیح معلوم نہیں ہوتا" تری"نسخۂ نظامی اور اکثر دوسرے نسخوں میں 162حامد (ء میں صحیح صورت نظر آتی ہے ۔ بہ صورت دیگر یہ مصرع بحر سے خارج ہوجاتا ہے۔ ۔ 1919مطبع مجیدی دہلوی اور نسخۂ

)علی خان

Page 103: Ghalib the Great Poet

102

ری قسمت میں غم گر اتنا تھامی دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے

غالب آ ہی جاتا وه راه پر کوئی دن اور بھی جیے ہوتے

۔202 ہجوم غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے

کہ تار دامن و تار نظر میں فرق مشکل ہے ناز خود بینیہوا ہے مانع عاشق نوازی ایل ہےیز حتکلف بر طرف، آئینۂ تم

بہ سیل اشک لخت دل ہے دامن گیر مژگاں کا غریق بحر جویاۓ خس و خاشاک ساحل ہے بہا ہے یاں تک اشکوں میں غبار کلفت خاطر

کہ چشم تر میں ہر یک پارۀ دل پاۓ در گل ہے نکلتی ہے تپش میں بسملوں کی برق کی شوخی

غرض اب تک خیال گرمئ رفتار قاتل ہے طلب ہے لذت زخم سوزن کیرفوۓ زخم سے م

سمجھیو مت کہ پاس درد سے دیوانہ غافل ہے غالب وه گل جس گلستاں میں جلوه فرمائی کرے

کا صداۓ خندۀ دل ہے163چٹکنا غنچۂ گل

۔203 پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد

خار پا ہیں جوہر آئینۂ زانو مجھے 164وقتآغوشی کے دیکھنا حالت مرے دل کی ہم

ہے نگاه آشنا تیرا سر ہر مو مجھے ہوں سراپا ساز آہنگ شکایت کچھ نہ پوچھ

ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے

۔204 جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے

جاں کالبد صورت دیوار میں آوے صنوبرو سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو میں آوےتو اس قد دلکش سے جو گلزار

اشک بجا ہےمایگئتب ناز گراں

بھی چھپا ہے۔ اسے سہو کتابت کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ " غنچۂ دل"اور " غنچہ و گل"قر نسخوں میں ؤکی جگہ بعض م" غنچۂ گل "163

)حامد علی خان(کا بھی چٹکنے لگنا محل نظر ہے۔ " گل"ساتھ گالب کی کلی ۔ غنچے کے: غنچۂ گل )جویریہ مسعود("ہم آغوشی کے بعد" نسخۂ مہرمیں 164

Page 104: Ghalib the Great Poet

103

جب لخت جگر دیدۀ خوں بار میں آوے دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر کچھ تجھ کو مزه بھی مرے آزار میں آوے

اس چشم فسوں گر کا اگر پائے اشاره طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے

کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب وادی پر خار میں آوےاک آبلہ پا

مر جاؤں نہ کیوں رشک سے جب وه تن نازک آغوش خم حلقۂ زنار میں آوے

غارت گر ناموس نہ ہو گر ہوس زر کیوں شاہد گل باغ سے بازار میں آوے

165تب چاک گریباں کا مزا ہے دل ناالں جب اک نفس الجھا ہوا ہر تار میں آوے

سےآتش کده ہے سینہ مرا راز نہاں اے وائے اگر معرض اظہار میں آوے گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے

مرے اشعار میں آوےغالب جو لفظ کہ ۔۔205

حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے اس سے میرا مہ خورشید جمال اچھا ہے

بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاه ل اچھا ہےجی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو ما

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے

س میں سوا ملتا ہےبے طلب دیں تو مزه ا وه گدا جس کو نہ ہو خوۓ سوال اچھا ہے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق وه سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

وں سے کیا فیضدیکھیے پاتے ہیں عشاق بت اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا

کسی میں ہو کمال اچھا ہے166طرح کا کہجس

)اعجاز عبید(ہی غالب کے انداز بیان کے مطابق زیاده درست معلوم ہوتا ہے۔’ ناالں‘لیکن ’ دل ناداں‘مالک رام اور عرشی میں ہے 165چھپا ہے۔ عرشی اور مالک رام کے " دل ناالں"بائی ، نسخۂ حسرت موہانی اور متعدد دیگر نسخوں میں نسخۂ نظامی، نسخۂ طباط: مزید

)حامد علی خاں(ہی سے خطاب کا متقاضی معلوم ہوتا ہے۔ " دل ناالں"ملتا ہے ۔ مضمون شعر یہاں " دل ناداں"نسخوں

)جویریہ مسعود("جس طرح کا بھی"نسخۂ مہر میں 166

Page 105: Ghalib the Great Poet

104

قطره دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے جس کا کہ مآل اچھا ہے،کام اچھا ہے وه

خضر سلطاں کو رکھے خالق اکبر سر سبز یں یہ تازه نہال اچھا ہےشاه کے باغ م

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن یہ خیال اچھا ہےغالب دل کے خوش رکھنے کو ۔206

نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی

خار خار الم حسرت دیدار تو ہے شوق گلچین گلستان تسلی نہ سہی

خم مے منہ سے لگائے ہی بنےمے پرستاں ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی نفس قیس کہ ہے چشم و چراغ صحرا گر نہیں شمع سیہ خانۂ لیلی نہ سہی

موقوف ہے گھر کی رونق167پہایک ہنگامے نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا

نہ سہی؟ں معنیگر نہیں ہیں مرے اشعار می عشرت صحبت خوباں ہی غنیمت سمجھو

اگر عمر طبیعی نہ سہیغالب نہ ہوئی ۔207

عجب نشاط سے جالد کے چلے ہیں ہم آگے کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے

قضا نے تھا مجھے چاہا خراب بادۀ الفت فقط خراب لکھا، بس نہ چل سکا قلم آگے

ڑی نشاط عشق کی مستیغم زمانہ نے جھا وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذت الم آگے

کے واسطے داد اس جنون شوق کی دیناداخ کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے

یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے ہاۓ خم بہ خم آگےتمہارے آئیو اے طره

وں ہےدل و جگر میں پر افشاں جو ایک موجۂ خ ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے

)جویریہ مسعود("پر"ر میں نسخۂ مہ167

Page 106: Ghalib the Great Poet

105

غالب قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے

۔208

شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے تو گال ہوتا ہےےکہیکہ جو ہکہیہ بھی مت

راگ سے جیسے باجا،ہوں میں شکوے سے یوںرپ ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہےاک

گو سمجھتا نہیں پر حسن تالفی دیکھو شکوۀ جور سے سر گرم جفا ہوتا ہے

عشق کی راه میں ہے چرخ مکوکب کی وه چال سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیداد کہ ہم آپ اٹھا التے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے

ہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواهخوب تھا پ کہ بھال چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے

نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے

ق خامہ میرا کہ وه ہے باربد بزم سخن

شاه کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے اے شہنشاه کواکب سپہ و مہر علم

ا حق کس سے ادا ہوتا ہےتیرے اکرام ک سات اقلیم کا حاصل جو فراہم کیجے تو وه لشکر کا ترے نعل بہا ہوتا ہے

ہر مہینے میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہالل آستاں پر ترے مہ ناصیہ سا ہوتا ہے

میں جو گستاخ ہوں آئین غزل خوانی میں یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے

نوائی میں معافمجھے اس تلخغالب رکھیو آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

۔209

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا کوئی بتاؤ کہ وه شوخ تند خو کیا ہے

Page 107: Ghalib the Great Poet

106

یہ رشک ہے کہ وه ہوتا ہے ہم سخن تم سے موزی عدو کیا ہےوگرنہ خوف بد آ

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن کو اب حاجت رفو کیا ہے168ہمارے جیب

دل بھی جل گیا ہوگا،جال ہے جسم جہاں اب راکھ جستجو کیا ہےکریدتے ہو جو

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے169جب آنکھ سے ہی

ہو بہشت عزیزوه چیز جس کے لیے ہم کو کیا ہے170بادۀ گلفام مشک بوسواۓ

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار یہ شیشہ و قدح و کوزه و سبو کیا ہے رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی

تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

کی آبرو کیا ہےغالب وگرنہ شہر میں

۔210 غیر لیں محفل میں بوسے جام کے

ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے خستگی کا تم سے کیا شکوه کہ یہ ہتھکنڈے ہیں چرخ نیلی فام کے

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم دھوئے دھبے جامۂ احرام کے

ایا کیا مگردل کو آنکھوں نے پھنس یہ بھی حلقے ہیں تمہارے دام کے

ہے غسل صحت کی خبرکیشاه دیکھیے کب دن پھریں حمام کے

نکما کر دیاغالب عشق نے

چھپا ہے وه اس غلط فہمی کی بنا پر ہے کہ قدیم " ہماری جیب"مذکر ہے۔ بیشتر مروجہ نسخوں میں جو " گریبان"بہ معنئ " جیب"168

)حامد علی خاں(نسخوں میں یاۓ معروف و مجہول کا امتیاز نہ تھا۔

رکھا گیا ہے جس سے مطلب زیاده واضح ہو ’ جب آنکھ ہی سے‘خوں میں ہے لیکن بعض جدید نس’ جب آنکھ سے ہی‘اصل نسخے میں 169 )اعجاز عبید(جاتا ہے لیکن نظامی میں یوں ہی ہے۔

بنادیا ہے غالب کا اصرار بہ ظاہر " ہی سے" کو قابل اعتراض سمجھ کر اپنے نسخوں میں اسے " سے ہی"بعض فاضل مرتبین نے : مزید)حامد علی خاں(ر ہے چنانچہ متن میں قدیم نسخوں کا اندراج برقرار رکھا گیا۔ پ" نکھ سے ٹپکنےآ"پر نہیں " آنکھ"

)جویریہ مسعود(۔ نسخۂ مہر"باده و گلفام مشک بو"170

Page 108: Ghalib the Great Poet

107

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

۔211 پھر اس انداز سے بہار آئی کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی

دیکھو اے ساکنان خطۂ خاک ئیاس کو کہتے ہیں عالم آرا

کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر رو کش سطح چرخ مینائی

سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی بن گیا روۓ آب پر کائی

سبزه و گل کے دیکھنے کے لیے چشم نرگس کو دی ہے بینائی ہے ہوا میں شراب کی تاثیر

باده نوشی ہے باد پیمائی غالب کیوں نہ دنیا کو ہو خوشی

پائینے شفا 171شاه دیں دار ۔212

تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے

رہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے مے خانہ خالی ہے،بھرے ہیں جس قدر جام و سبو

۔213

کب وه سنتا ہے کہانی میری اور پھر وه بھی زبانی میری خلش غمزۀ خوں ریز نہ پوچھ

کھ خوں نابہ فشانی میریدی کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار

مگر آشفتہ بیانی میری ہوں ز خود رفتۂ بیداۓ خیال بھول جانا ہے نشانی میری

متقابل ہے مقابل میرا رک گیا دیکھ روانی میری قدر سنگ سر ره رکھتا ہوں

لکھا گیا ہے’ دیں دار‘ہے اس لۓ تلفظ کی وضاحت کے لۓ یہاں غنہ آتاجب کہ تقطیع میں نون’ دیندار‘اصل نسخے میں امال ہے 171

)اعجاز عبید(

Page 109: Ghalib the Great Poet

108

سخت ارزاں ہے گرانی میری گرد باد ره بیتابی ہوں

ے بانی میریصرصر شوق ہ دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا کھل گئی ہیچ مدانی میری

غالب کر دیا ضعف نے عاجز ننگ پیری ہے جوانی میری

۔214

نقش ناز بت طناز بہ آغوش رقیب پاۓ طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے تو وه بد خو کہ تحیر کو تماشا جانے غم وه افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے

عشق تمنا ہے کہ پھر صورت شمع172تب وه شعلہ تا نبض جگر ریشہ دوانی مانگے

۔215

آئی ہےخوشگلشن کو تری صحبت از بسکہ ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے

واں کنگر استغنا ہر دم ہے بلندی پر الٹا دعواۓ رسائی ہےورا یاں نالے کو

از بسکہ سکھاتا ہے غم ضبط کے اندازے ر آیا اک چشم نمائی ہےجو داغ نظ

آئینہ نفس سے بھی ہوتا ہے کدورت کش عاشق کو غبار دل اک وجہ صفائی ہے

ہنگام تصور ہوں دریوزه گر بوسہ یہ کاسۂ زانو بھی اک جام گدائی ہے

وه دیکھ کے حسن اپنا مغرور ہوا غالب صد جلوۀ آئینہ یک صبح جدائی ہے

۔216

ر رفو کیجس زخم کی ہو سکتی ہو تدبی لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی

اچھا ہے سر انگشت حنائی کا تصور

)جویریہ مسعود(تپ۔ نسخۂ مہر172

Page 110: Ghalib the Great Poet

109

دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی کیوں ڈرتے ہو عشاق کی بے حوصلگی سے

یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی میرے لب زخم جگر پر! اے بے خبراں173

بخیہ جسے کہتے ہو شکایت ہے رفو کی زندگئ زاہد بے چاره عبث ہےگو

اتنا تو ہے، رہتی تو ہے تدبیر وضو کی دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی

غالب صد حیف وه نا کام کہ اک عمر سے حسرت میں رہے ایک بت عربده جو کی

۔217

یوں بعد ضبط اشک پھروں گرد یار کے سو پہ کوئی جیسے وار کےپانی پیے ک

سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دل بے قرار کے

ہیں174بہ خوں در طپیدهیاربعد از وداع نقش قدم ہیں ہم کف پاۓ نگار کے

ظاہر ہے ہم سے کلفت بخت سیاه روز گویا کہ تختۂ مشق ہے خط غبار کے

نگ گلحسرت سے دیکھ رہتے ہیں ہم آب و ر مانند شبنم اشک ہے مژگان خار کے

آغوش گل کشوده براۓ وداع ہے کہ چلے دن بہار کے!اے عندلیب چل

ہم مشق فکر وصل و غم ہجر سے اسد الئق نہیں رہے ہیں غم روزگار کے

۔218

ہے وصل ہجر عالم تمکین و ضبط میں چاہۓدیوانہمعشوق شوخ و عاشق

!گا بوسہ کبھی تو، ہاںلب سے مل ہی جاۓسا ت رندانہ چاہۓأشوق فضول و جر ۔219

)جویریہ مسعود(یہ دونوں شعر نسخۂ حمیدیہ میں درج نہیں 173 )اعجاز عبید(اس لفظ کی جدید امال تپیده ہے۔174

Page 111: Ghalib the Great Poet

110

چاہیے اچھوں کو ، جتنا چاہیے یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے

صحبت رنداں سے واجب ہے حذر مے ، اپنے کو کھینچا چاہیےۓجا

چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل ؟ !سمجھا چاہیے بارے اب اس سے بھی ، بے ایام گلچاک مت کر جیب

کچھ ادھر کا بھی اشاره چاہیے دوستی کا پرده ہے بیگانگی

منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے دشمنی نے میری ، کھویا غیر کو کس قدر دشمن ہے ، دیکھا چاہیے

رسوائی میں کیا چلتی ہے سعی،اپنی یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید ی اس کی دیکھا چاہیےناامید

غافل ، ان مہ طلعتوں کے واسطے چاہنے واال بھی اچھا چاہیے

اسد چاہتے ہیں خوبرویوں کو آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

۔220

ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سےرفتار سے بھاگے ہے ، بیاباں مجھ سے175میری

درس عنوان تماشا ، بہ تغافل خوشترہ رشتۂ شیرازۀ مژگاں مجھ سےہے نگ

وحشت آتش دل سے ، شب تنہائی میںصورت دود ، رہا سایہ گریزاں مجھ سے

غم عشاق نہ ہو ، سادگی آموز بتاںکس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے

جنوںۓصحرااثر آبلہ سے ، جادۀ صورت رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے

176!اغت ہو جوبیخودی بستر تمہید فر

" میری"نسخوں میں ر ثزیاده مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اور اک" میری"چھپا ہے مگر یہاں " مری"کی جگہ یہاں " میری "بعض نسخوں میں 175

ھپا ہےہی چ)علی خاںحامد(

)حامد علی خاں(بہ واو معروف بوال جاتا ہے " ہو"نہیں ہے۔ جیسا بعض اصحاب پڑھتے ہیں۔ " ہو جو"ہوجو۔ ہوجیو۔ یہ 176

Page 112: Ghalib the Great Poet

111

پر ہے سایے کی طرح ، میرا شبستاں مجھ سےشوق دیدار میں ، گر تو مجھے گردن مارےہو نگہ ، مثل گل شمع ، پریشاں مجھ سے

! شب ہجر کی وحشت ، ہے ہےۓبیکسی ہاقیامت میں ہے پنہاں مجھ سےرشید وخ سایہ

گردش ساغر صد جلوۀ رنگیں ، تجھ سےدیدۀ حیراں ، مجھ سےیک دارئآئینہ

!اسد نگہ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے ، ہے چراغاں ، خس و خاشاک گلستاں مجھ سے

۔221

نکتہ چیں ہے ، غم دل اس کو سنائے نہ بنےکیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے

میں بالتا تو ہوں اس کو ، مگر اے جذبۂ دلے نہ بنےاس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئ

کھیل سمجھا ہے ، کہیں چھوڑ نہ دے ، بھول نہ جائےیوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے! کاش

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ ، اگرکوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے ، تو چھپائے نہ بنے

اس نزاکت کا برا ہو ، وه بھلے ہیں ، تو کیاگائے نہ بنے، تو انھیں ہاتھ لویںآہاتھ

کہہ سکے کون کہ یہ جلوه گری کس کی ہےپرده چھوڑا ہے وه اس نے کہ اٹھائے نہ بنےموت کی راه نہ دیکھوں ؟ کہ بن آئے نہ رہے

تم کو چاہوں ؟ کہ نہ آؤ ، تو بالئے نہ بنےبوجھ وه سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے

کام وه آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے!غالب ر نہیں ، ہے یہ وه آتش عشق پر زو

کہ لگائے نہ لگے ، اور بجھائے نہ بنے

۔222چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عریانی کرے

صبح کے مانند ، زخم دل گریبانی کرےجلوے کا تیرے وه عالم ہے کہ ، گر کیجے خیال

دیدۀ دل کو زیارت گاه حیرانی کرےب تلکک! ہے شکستن سے بھی دل نومید ، یارب

آبگینہ کوه پر عرض گرانجانی کرے

Page 113: Ghalib the Great Poet

112

میکده گر چشم مست ناز سے پاوے شکستموۓ شیشہ دیدۀ ساغر کی مژگانی کرے

خط عارض سے ، لکھا ہے زلف کو الفت نے عہدیک قلم منظور ہے ، جو کچھ پریشانی کرے

ہاتھ پر گر ہاتھ مارے یار وقت قہقہہ کرےہ پر افشانی کرمک شب تاب آسا م

وقت اس افتاده کا خوش، جو قناعت سے اسد نقش پاۓ مور کو نقش سلیمانی کرے

۔223

وه آ کے ، خواب میں ، تسکین اضطراب تو دےولے مجھے تپش دل ، مجال خواب تو دےکرے ہے قتل ، لگاوٹ میں تیرا رو دیناتری طرح کوئی تیغ نگہ کو آب تو دے

کر ہم کودکھا کے جنبش لب ہی ، تمامنہ دے جو بوسہ ، تو منہ سے کہیں جواب تو دےپال دے اوک سے ساقی ، جو ہم سے نفرت ہے

پیالہ گر نہیں دیتا ، نہ دے شراب تو دے یہ کون کہوے ہے آباد کر ہمیں، لیکن کبھی زمانہ مراد دل خراب تو دے

پھول گئےؤںخوشی سے مرے ہاتھ پا! اسد ”داب تو دےپاؤں رےذرا می“کہا جو اس نے ،

۔224تپش سے میری ، وقف کش مکش ، ہر تار بستر ہے

مرا سر رنج بالیں ہے ، مرا تن بار بستر ہے عیادت بسکہ تجھ سے گرمی بازار بستر ہے

فروغ شمع بالیں طالع بیدار بستر ہے بستر ہےذوق شوخئ اعضاء تکلف بار ہ ب

بستر ہےتار معاف پیچ تاب کشمکش ہر معماۓ تکلف سر بمہر چشم پوشیدن

بستر ہےش طومار چگداز شمع محفل پی ه فرش ره و دل ناتوان و آرزو مضطرژم بستر ہےپاۓ خفتہ سیر وادئ پر خار ہ ب

سرشک سر بہ صحرا داده ، نورالعین دامن ہےدل بے دست و پا افتاده بر خوردار بستر ہے

عیادت کو تم آئے ہو! رنجوری خوشا اقبال فروغ شمع بالیں ، طالع بیدار بستر ہے

Page 114: Ghalib the Great Poet

113

بہ طوفاں گاه جوش اضطراب شام تنہائیشعاع آفتاب صبح محشر تار بستر ہے

ابھی آتی ہے بو ، بالش سے ، اس کی زلف مشکیں کیہماری دید کو ، خواب زلیخا ، عار بستر ہے

!غالب لت ہے ہجر یار میں ، کہوں کیا ، دل کی کیا حا کہ بے تابی سے ہر یک تار بستر ، خار بستر ہے

۔225177خطر ہے رشتۂ الفت رگ گردن نہ ہو جائے

غرور دوستی آفت ہے ، تو دشمن نہ ہو جائے بہ پاس شوخئ مژگاں سر ہر خار سوزن ہے

تبسم برگ گل کو بخیۂ دامن نہ ہو جاۓ ہوں178جاۓ رحم ترساںجراحت دوزئ عاشق ہے

کہ رشتہ تار اشک دیدۀ سوزن نہ ہو جاۓ غضب شرم آفریں ہے رنگ ریزی ہاۓ خود بینی

نے کی پنبۂ روزن نہ ہو جاۓسپیدی آئ!غالب نشوونما ، کوتاہئسمجھ اس فصل میں

اگر گل سرو کے قامت پہ ، پیراہن نہ ہو جائے ۔226

فریاد کی کوئی لے نہیں ہےند نے نہیں ہےنالہ پاب

کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے؟گر باغ گدائے مے نہیں ہے

ہر چند ہر ایک شے میں تو ہےکوئی شے نہیں ہے179پر تجھ سی

!ہاں ، کھائیو مت فریب ہستی، نہیں ہے"ہے"ہر چند کہیں کہ

180شادی سے گذر کہ ، غم نہ ہووے

اردی جو نہ ہو ، تو دے نہیں ہے!دح کرے ہے زاہد کیوں رد ق

)اعجاز عبید(ہے’ جاوے‘نسخۂ بھوپال میں اس غزل کی ردیف 177

)جویریہ مسعود(درج ہے۔ " ڈرتا ہوں"نسخۂ حمیدیہ میں 178۔ ایک خستہ حال پرانے نسخے کوئی شے نہیں ہےپر تجھ سی: سخۂ عرشی اور نسخۂ مالک رام میں یہ مصرع یوں ہےنسخہ نظامی، ن179

کوئی شے نہیں ہےتو پر تجھ سی: نسخۂ حامد میں یہ مصرع یوں ہے(نہیں ہے " تو"میں بھی جو شاید مطبع احمدی دہلی چھپا تھا لفظ بھی چھپا ہے۔ " سے"کی جگہ " سی"موجود ہے۔ دو قدیم نسخوں میں " میں، جو نظر سے گزرے، توباقی تمام قدیم و جدید نسخوں) ج۔م۔

) حامد علی خان(

)حامد علی خاں" (رہوے: "نسخۂ عرشی180

Page 115: Ghalib the Great Poet

114

مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے ، شمار غم نہ پوچھوانجا181

یہ مصرف تا بکے نہیں ہے سما جاۓ’ تا بکے‘جس دل میں کہ

ت تخت کے نہیں ہےواں عز !غالب ہستی ہے ، نہ کچھ عدم ہے ،

”اے نہیں ہے؟“کیا ہے ، وت آخر ۔227

کانہ پوچھ نسخۂ مرہم جراحت دل کہ اس میں ریزۀ الماس جزو اعظم ہےبہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کیوه اک نگہ کہ ، بظاہر نگاه سے کم ہے

228.

ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتےمرتے ہیں ، ولے ، ان کی تمنا نہیں کرتے

در پرده انھیں غیر سے ہے ربط نہانیکرتےظاہر کا یہ پرده ہے کہ پرده نہیں

یہ باعث نومیدی ارباب ہوس ہےکو برا کہتے ہو ، اچھا نہیں کرتےغالب

۔229

شفق بدعوئ عاشق گواه رنگیں ہے کہ ماه دزد حناۓ کف نگاریں ہے

کرے ہے باده ، ترے لب سے ، کسب رنگ فروغخط پیالہ ، سراسر نگاه گلچیں ہے

!شوریده کی بھی داد ملے182کبھی تو اس سر کہ ایک عمر سے حسرت پرست بالیں ہےبجا ہے ، گر نہ سنے ، نالہ ہائے بلبل زارکہ گوش گل ، نم شبنم سے پنبہ آگیں ہے

شیدعیاں ہے پاۓ حنائی برنگ پرتو خور رکاب روزن دیوار خانۂ زیں ہے جبین صبح، امید فسانہ گویاں پر

)جویریہ مسعود(یہ دونوں شعر نسخۂ حمیدیہ میں درج نہیں 181 )جویریہ مسعود(مالحظہ ہو ان کا حاشیہ ۔درج ہے" دل شوریده"کی جگہ " سر شوریده"نسخۂ حامد علی خان میں 182

دل "درج کیا گیا ہے مگر دوسرے قدیم و جدید نسخوں میں جو نظر سے گزرے، " سر شوریده"نسخۂ عرشی میں غالبا بالیں کی رعایت سے ہی لکھا ہوگا۔ پھر " ریدهسر شو"درج کرکے احتمال ظاہر کیا ہے کہ غالب نے " دل شوریده"ہی چھپا ہے۔ طباطبائی نے متن میں " شوریده

)حامد علی خاں(لکھتے ہیں کہ معنئ شعر دونوں طرح ظاہر ہیں۔

Page 116: Ghalib the Great Poet

115

بتاں خط چیں ہےرگ خواب درازئ ہوا نشان سواد دیار حسن عیاں

کہ خط غبار زمیں خیز زلف مشکیں ہے!برائے خدا! ہے نزع میں ، چل بیوفا اسد

وداع تمکیں ہےمقام ترک حجاب و 183نہ پوچھ کچھ سر و سامان و کاروبار اسد جنوں معاملہ، بے دل، فقیر مسکیں ہے

۔230

بتاں محو تغافل ، کیوں نہ ہو؟کیوں نہ ہو چشم یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے

مرتے مرتے ، دیکھنے کی آرزو ره جائے گیکہ اس کافر کا خنجر تیز ہے! وائے ناکامی

!اسد عارض گل دیکھ ، روئے یار یاد آیا ، جوشش فصل بہاری اشتیاق انگیز ہے

۔231ہے ، کیا کہیےدیا ہے دل اگر اس کو ، بشر

ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیےیہ ضد کہ آج نہ آوے ، اور آئے بن نہ رہے!قضا سے شکوه ہمیں کس قدر ہے ، کیا کہیےابرہے ہے یوں گہ و بے گہ ، کہ کوئے دوست کو !اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے ، کیا کہیے

و فریبزہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کانہیں سب خبر ہے، کیا کہیے184کہ بن کہے ہی

سمجھ کے کرتے ہیں ، بازار میں وه پرسش حالکہ یہ کہے کہ ، سر رہگزر ہے ، کیا کہیے؟

تمہیں نہیں ہے سر رشتۂ وفا کا خیال!کہیے؟کیامگر ہےہمارے ہاتھ میں کچھ ہے ،

انہیں سوال پہ زعم جنوں ہے ، کیوں لڑیئےاب سے قطع نظر ہے ، کیا کہیے؟ہمیں جو

حسد ، سزائے کمال سخن ہے ، کیا کیجے!ستم ، بہائے متاع ہنر ہے ، کیا کہیے

برا نہیں ، لیکنغالب کہا ہے کس نے کہ

)جویریہ مسعود(نسخۂ حمیدیہ میں مقطع نہیں ہے 183ہی چھپا " ہی"ائی، حسرت موہانی، بیخود دہلوی، مہر وغیرہم کے نسخوں میں بطنیز طبا: متعدد دوسرے قدیم نسخوںاور نظامی، حمیدیہ184

منشی شیو نارائن کے نسخے کی تقلید میں ہے۔ بہر حال اس سے کوئی خاص معنوی درج ہے جو غالبا " بھی"ر نسخۂ عرشی میں ہے۔ مگ)حامد(رق پیدا نہیں ہوتا۔ ف

Page 117: Ghalib the Great Poet

116

سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے ، کیا کہیے

۔232یکھ کر در پرده گرم دامن افشانی مجھےد

ی مجھےکر گئی وابستۂ تن میری عریانبن گیا تیغ نگاه یار کا سنگ فساں

کیا مبارک ہے گراں جانی مجھے! مرحبا میںکیوں نہ ہو بے التفاتی ، اس کی خاطر جمع ہے

جانتا ہے محو پرسش ہائے پنہانی مجھےمیرے غمخانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی

لکھ دیا منجملۂ اسباب ویرانی ، مجھے!فر ، نہ ہوتا ، کاشکےبدگماں ہوتا ہے وه کا

اس قدر ذوق نوائے مرغ بستانی مجھےمحشر نے نہ دم لینے دیاشور واں بھی ! وائے

لے گیا تھا گور میں ذوق تن آسانی مجھےوعده آنے کا وفا کیجے ، یہ کیا انداز ہے ؟

تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے؟!واه واه ہاں نشاط آمد فصل بہاری ،

پھر ہوا ہے تازه سودائے غزل خوانی مجھےدی مرے بھائی کو حق نے از سر نو زندگی

مجھےثانییوسف ! غالب میرزا یوسف ہے ، ۔233

، مجھے"یارب"یاد ہے شادی میں بھی ، ہنگامۂ سبحۂ زاہد ہوا ہے ، خنده زیر لب مجھےہے کشاد خاطر وابستہ در ، رہن سخن

طلسم قفل ابجد ، خانۂ مکتب مجھےتھا!اس آشفتگی کی داد کس سے چاہیے! یارب

رشک ، آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے!طبع ہے مشتاق لذت ہائے حسرت کیا کروں

آرزو سے ، ہے شکست آرزو مطلب مجھےمجھی سے ہوگئےغالب دل لگا کر آپ بھی

جھےعشق سے آتے تھے مانع ، میرزا صاحب م

۔234ہےآزمائشحضور شاه میں اہل سخن کی

ہےآزمائشچمن میں خوش نوایان چمن کی ہےآزمائشقد و گیسو میں ، قیس و کوہکن کی ہےآزمائشجہاں ہم ہیں ، وہاں دار و رسن کی

Page 118: Ghalib the Great Poet

117

گے کوہکن کے حوصلے کا امتحاں آخرکریں ہےآزمائشتن کی ۓنیرواس خستہ کے 185ہنوز

!کیا پیر کنعاں کی ہوا خواہینسیم مصر کو ہےآزمائشاسے یوسف کی بوئے پیرہن کی

”غافل تھے“وه آیا بزم میں ، دیکھو ، نہ کہیو پھر کہ ہےآزمائششکیب و صبر اہل انجمن کی

، اچھا ، جگر کے پار ہو ، بہتر186رہے دل ہی میں تیرہےآزمائشغرض شست بت ناوک فگن کی

زنار کے پھندے میں گیرائینہیں کچھ سبحۂ وہےآزمائشوفاداری میں شیخ و برہمن کی

بیتابی سے کیا حاصل؟! پڑا ره ، اے دل وابستہ ہےآزمائشمگر پھر تاب زلف پرشکن کی

!رگ و پے میں جب اترے زہر غم ، تب دیکھیے کیا ہوہےآزمائشکام و دہن کی ئتلخابھی تو

!غالب وعده کیسا ، دیکھنا ، وه آویں گے مرے گھر ، ہے187آزمائشنئے فتنوں میں اب چرخ کہن کی

۔235

کبھی نیکی بھی اس کے جی میں ، گر آجائے ہے ، مجھ سےجفائیں کر کے اپنی یاد ، شرما جائے ہے ، مجھ سے

!جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے ! خدایا ہے مجھ سےجائے188کہ جتنا کھینچتا ہوں ، اور کھنچتا

وه بد خو ، اور میری داستان عشق طوالنیعبارت مختصر ، قاصد بھی گھبرا جائے ہے ، مجھ سے

ادھر وه بدگمانی ہے ، ادھر یہ ناتوانی ہےنہ پوچھا جائے ہے اس سے ، نہ بوال جائے ہے مجھ سے

!کیا قیامت ہے ! سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی یار ، چھوٹا جائے ہے مجھ سےکہ دامان خیال

تکلف بر طرف ، نظارگی میں بھی سہی ، لیکنوه دیکھا جائے ، کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے ، مجھ سے

چھپا ہے۔ جو قدیم و جدید نسخے نظر سے گزرے، ان سے اس کی کوئی سند نہیں ملی۔ یہ " ابھی"کی جگہ " ہنوز"نسخۂ عرشی میں 185

)حامد علی خاں(سہو کتابت ہے۔ غالبا نظامی، عرشی، حمیدیہ اور متعدد دیگر نسخۂ ہاۓ قدیم و جدید میں یہ : مزید)جویریہ مسعود("رہے گر دل میں تیر"میں نسخۂ مہر186

تا ہے۔ بعض قدیم مل" رہے گر دل میں تیر اچھا"سہو کتابت سے مصرع اسی طرح درج ہے جس طرح متن میں درج کیا مگر نسخۂ مہر غالبا حامد (کہیں نہ مال۔ نہ یہ قابل ترجیح معلوم ہوتا ہے۔ " رہے گر دل میں تیر "بت ہے۔ مگر چھپا ہے جو سہو کتا" یں ہی دل م" نسخوں میں

)علی خاں)اعجاز عبید(اصل نسخوں میں آزمایش ہے لیکن ہم نے موجوده امال کو ترجیح دے کر آزمائش لکھا ہے۔187 :مالحظہ ان کا حاشیہ) جویریہ مسعود" (کھچتا"علی خاں میں نسخۂ حامد 188

چھپا ہے۔ " کھنچتا" ۓ خود درست ہے مگر اکثر جدید نسخوں میں ہی درج ہے جو بجا" کھچتا"ون میں نظامی اور بعض دیگر قدیم نسخ )حامد علی خاں(

Page 119: Ghalib the Great Poet

118

ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبرد عشق میں زخمینہ بھاگا جائے ہے مجھ سے ، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے

! غالب قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہمسفر کافر ، جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سےوه

۔236زبسکہ مشق تماشا جنوں عالمت ہے

مژه ، سیلئ ندامت ہےت کشاد و بسنہ جانوں ، کیونکہ مٹے داغ طعن بد عہدی

آئینہ بھی ورطۂ مالمت ہے189تجھے کہلک عافیت مت توڑبہ پیچ و تاب ہوس ، س

ےنگاه عجز سر رشتۂ سالمت ہوفا مقابل و دعواۓ عشق بے بنیاد!جنون ساختہ و فصل گل ، قیامت ہے

بہار تماشاۓ گلستان حیات! اسد وصال اللہ عذاران سرو قامت ہے

۔237الغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھےمیرا ذمہ، دیکھ کر گر کوئی بتال دے مجھے

رحماس کو دیکھ کر آجائے 190کیا تعجب ہے کہوا ں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے

پر بہ انداز عتاب،نہ دکھال،نہ دکھالوے191منہکھول کر پرده ذرا آنکھیں ہی دکھال دے مجھے

یاں تلک میری گرفتاری سے وه خو ش ہے کہ میں زلف گر بن جاؤں تو شانے میں الجھا دے مجھے

۔238بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ے شب و روز تماشا مرے آگےہوتا ہاک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک

اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگےجز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور

وہم نہیں ہستئ اشیا مرے آگےجز

)علی خاںحامد (ہونا چاہیے تھا ۔ " تو"کی بجاۓ " کہ"طباطبائی کی راۓ میں یہاں 189)حامد علی خاں(درج ہے۔ " کہ"چھپا ہے۔ نظامی میں " جو"کی جگہ " کہ"نسخۂ عرشی میں 190اس شعر کا پہال مصرع یوں ہی ہے۔ دوسرے کے متعلق طباطبائی نے لکھا ہے کہ غالب نے آنکھیں دکھانا بہ صیغۂ جمع باندھا ہے 191

ر فصیح اساتذه نے آنکھیں دکھانا بھی کہا ہے ۔ ثسمجھ میں نہیں آئی کیونکہ اردو کے اک۔ یہ بات " آنکھ دکھانا کہیں" کہ ہے مگر فصیح وہی )حامد علی خاں(ان میں میر، مصحفی، امیر، انس، ذوق، مومن، ظفر، جرأت، نسیم دہلوی وغیرہم شامل ہیں۔

Page 120: Ghalib the Great Poet

119

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتےہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگےھستاگ

ے پیچھےمت پوچھ کہ کیا حال ہے میر ا ترتو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے

سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں، نہ کیو ں ہوں سیما مرے آگےآئنہبیٹھا ہے بت

پھر دیکھیے انداز گل افشانئ گفتاررکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے

نفرت کا گماں گزرے ہے، میں رشک سے گزرارے آگےکیونکر کہوں، لو نام نہ ان کا م

ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفرکعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگےعاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کاممجنوں کو برا کہتی ہے لیلے مرے آگے

خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتےآئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے

ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہوا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگےآت

!گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہےرہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگےہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا

کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگےغالب

۔239"مدعا کہیے "کہوں جو حال تو کہتے ہو

یے؟تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہ"ہم ستمگر ہیں "نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ

کہیے"بجا"مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو وه نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے

نگاه ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیےنہیں ذریعۂ راحت جراحت پیکاں

وه زخم تیغ ہے جس کو کہ دلکشا کہیےجو مدعی بنے اس کے نہ مدعی بنیے

زا کہے اس کو نہ نا سزا کہیےجو نا سکہیں حقیقت جانکاہئ مرض لکھیےکہیں مصیبت نا سازئ دوا کہیے

کبھی شکایت رنج گراں نشیں کیجے

Page 121: Ghalib the Great Poet

120

حکایت صبر گریز پا کہیے192کبھیرہے نہ جان تو قاتل کو خونبہا دیجےکٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے!نہیں نگار کو الفت، نہ ہو، نگار تو ہے

وانئ روش و مستئ ادا کہیےر!نہیں بہار کو فرصت، نہ ہو بہار تو ہے

طروات چمن و خوبئ ہوا کہیےغالب سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا

!خدا سے کیا ستم و جور ناخدا کہیے ۔240

میں بےباک ہو گۓشقعرونے سے اور دھوۓ گۓہم ایسے کہ بس پاک ہو گۓ صرف بہاۓ مے ہوۓ آالت میکشی

پاک ہو گۓیوںسو،تھے یہ ہی دو حساب 193رسواۓ دہر گو ہوۓ آوارگی سے تم

بارے طبیعتوں کے تو چاالک ہو گۓ کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر

پردے میں گل کے الکھ جگر چاک ہو گۓ پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا

کے خس و خاشاک ہو گۓآگآپ اپنی ل کا ہم گلہکرنے گۓ تھے اس سے تغاف

کی ایک ہی نگاه کہ بس خاک ہو گۓ 194پوچھے ہے کیا معاش جگر تفتگان عشق جوں شمع آپ اپنی وه خوراک ہو گئے

195کی نعشاسد اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گۓ

۔241 نشہ ہا شاداب رنگ و ساز ہا مست طرب

نغمہ ہےشیشۂ مے سرو سبز جوئبار ہم نشیں مت کہہ کہ برہم کرنہ بزم عیش دوست

ید نسخوں میں یہ دونوں شعر ے۔ دیگر قدیم و جدپر سہو کتابت ہدرج ہے جو مبرہن طور " کہیں"کی جگہ " کبھی"نسخۂ نظامی میں یہاں 192

صحیح یا غلط، دونوں ہی صورتوں میں ملتے ہیں۔ صحیح صورت سے مراد وه صورت ہے جو متن میں درج کی گئی۔ دوسری صورت میں )حامد علی خاں(کے ساتھ غلط ہے۔ " کہیں"

)حامد علی خاں(بھی درج ہے۔ " ہم" ایک آدھ نسخے میں 193 )جویریہ مسعود(ہ میں یہ شعر درج نہیں۔ نسخۂ حمیدی194 اٹھائی اس نے اسد کی نعشکل اس رنگ سے : نسخۂ مہر میں یہ مصرع یوں درج ہے195بلے سے معلوم ہوا کہ دوسرے کسی زیر نظر قدیم و جدید نسخے میں یہ مصرع یوں درج نہیں۔ لہذا اسے سہو کتابت سمجھنا چاہیے۔ ایک امق

)حامد علی خاں(بھی چھپا ہے۔ " الش"جگہ کی" نعش"آدھ نسخے میں

Page 122: Ghalib the Great Poet

121

واں تو میرے نالے کو بھی اعتبار نغمہ ہے

۔242 عرض ناز شوخئ دنداں براۓ خنده ہے

دعوئ جمعیت احباب جاۓ خنده ہے خود فروشی ہاۓ ہستی بس کہ جاۓ خنده ہے

196خنده ہےہر شکست قیمت دل میں صداۓ نقد عشرت در بساطاہنظربرت درنقش ع

خنده ہےدو جہاں وسعت بقدر یک فضاۓ ہے عدم میں غنچہ محو عبرت انجام گل

جہاں زانو تامل در قفاۓ خنده ہےیک کلفت افسردگی کو عیش بے تابی حرام

ورنہ دنداں در دل افشردن بناۓ خنده ہے باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں197سوزش

ب آشناۓ خنده ہےو لگریہدل محیط ہے عشرت کوشئ ہستی اسد ء جاۓ استہزا

خنده ہےصبح و شبنم فرصت نشو و نماۓ

۔243 حسن بے پروا خریدار متاع جلوه ہے

آئنہ زانوۓ فکر اختراع جلوه ہے تا کجا اے آگہی رنگ تماشا باختن؟

چشم وا گر دیده آغوش وداع جلوه ہے چشمہ از رفتن ہا بناز و نہ عجز دیدن ہا ب

جلوه ہےجادۀصحراۓ آگاہی شعاع ۔244

جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی مشکل کہ تجھ سے راه سخن وا کرے کوئی

عالم غبار وحشت مجنوں ہے سر بسر کب تک خیال طرۀ لیلی کرے کوئی افسردگی نہیں طرب انشاۓ التفات

ئیہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کو رونے سے اے ندیم مالمت نہ کر مجھے

آخر کبھی تو عقدۀ دل وا کرے کوئی

)جویریہ مسعود(۔ ہا صداۓ خنده ہےشکست قیمت دلتا: نسخۂ حمیدیہ196ہی کہا ہوگا " سوزش باطن"چھپا ہے۔ شاعر نے یقینا " شورش"جگہ کی" سوزش"قر نسخوں میں یہاں ؤعرشی اور دوسرے مۂنسخ197

سے ہوسکتا " سوزش باطن"کر اس کے غم پنہاں کا انکار کرتے ہیں۔ خنده آشنا لب کا تقابل نداں کو دیکھ خکیونکہ احباب اس کے لب ہاۓ )حامد علی خاں(ہی درج ہے۔ " سوزش باطن"ہے۔ شورش باطن کا ذکر یہاں غیر متعلق سا ہے۔ نسخہ نظامی میں

Page 123: Ghalib the Great Poet

122

چاک جگر سے جب ره پرسش نہ وا ہوئی کیا فائده کہ جیب کو رسوا کرے کوئی

لخت جگر سے ہے رگ ہر خار شاخ گل تا چند باغبانئ صحرا کرے کوئی ناکامئ نگاه ہے برق نظاره سوز

ماشا کرے کوئیتو وه نہیں کہ تجھ کو ت ہر سنگ و خشت ہے صدف گوہر شکست

نقصاں نہیں جنوں سے جو سودا کرے کوئی سر بر ہوئی نہ وعدۀ صبر آزما سے عمر فرصت کہاں کہ تیری تمنا کرے کوئی

یاس خیزایجادہے وحشت طبیعت 198یہ درد وه نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی

بیکارئ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئیجب

اسد حسن فروغ شمع سخن دور ہے پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی

۔245ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئیشرع و آئین پر مدار سہی

ایسے قاتل کا کیا کرے کوئیکا تیر199چال جیسے کڑی کمان

دل میں ایسے کے جا کرے کوئیواں زبان کٹتی ہےات پرب

وه کہیں اور سنا کرے کوئیبک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

نہ سنو اگر برا کہے کوئی نہ کہو گر برا کرے کوئی

روک لو گر غلط چلے کوئی بخش دو گر خطا کرے کوئی

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند کرے کوئیکس کی حاجت روا

)جویریہ مسعود(یہ مصرعہ مختلف نسخوں میں مختلف ہے۔: نوٹ198

یہ درد وه نہیں ہے جو پیدا کرے کوئی: نسخۂ طاہر وه نہیں ہےکہ پیدا کرے کوئی۔یہ درد: نسخۂ مہر یہ درد وه نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی: نسخۂ حمیدیہ یہ درد وه نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی: نسخۂ آسی

)حامد علی خاں(چھپا ہے۔ " کمان کا تیر"چھپا ہے۔ باقی تمام زیر نظر نسخوں میں " کاں کا تیر"ایک اچھے نسخے میں بال اعالن نون199

Page 124: Ghalib the Great Poet

123

کیا خضر نے سکندر سےکیا اب کسے رہنما کرے کوئی

غالب جب توقع ہی اٹھ گئی کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

۔246 ؟بہت سہی غم گیتی، شراب کم کیا ہے

کو غم کیا ہےھغالم ساقئ کوثر ہوں، مج کیا ہے،تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم

رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے ں کاٹے تو سانپ کہالوےکٹے تو شب کہی

کوئی بتاؤ کہ وه زلف خم بہ خم کیا ہے لکھا کرے کوئی احکام طالع مولود

کسے خبر ہے کہ واں جنبش قلم کیا ہے؟ کاملتنہ حشرونشر کا قائل نہ کیش و

خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے؟ ودید گراں مایہ شرط ہے ہمدموه داد

جام جم کیا ہےوگرنہ مہر سلیمان و کی آتش افشانیغالب ۂخامسخن میں

اس میں دم کیا ہےابلیکن،یقین ہے ہم کو بھی

۔247 باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے چاہوں گر سیر چمن، آنکھ دکھاتا ہے مجھے

ا ہے مجھےڈراتیہباغ پا کر خفقانی سایۂ شاخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے

200کہ فلک عجز سکھاتا ہے مجھےماه نو ہوں، ہے مجھےعمر بھر ایک ہی پہلو پہ سالتا

جوہر تیغ بہ سر چشمۂ دیگر معلوم ب اگاتا ہے مجھےآہوں میں وه سبزه کہ زہر

مدعا محوتماشائے شکست دل ہے خانے میں کوئی لۓ جاتا ہے مجھےآئنہ

نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کف خاک ر آتا ہے مجھےآسمان بیضۂ قمری نظ

زندگی میں تو وه محفل سے اٹھا دیتے تھے

)جویریہ مسعود(نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر درج نہیں ہے۔ 200

Page 125: Ghalib the Great Poet

124

دیکھوں اب مر گئے پر کون اٹھاتا ہے مجھے !شور تمثال ہے کس رشک چمن کا یا رب

آئینہ بیضۂ بلبل نظر آتا ہے مجھے انجام جنوں ہوں جوں شمعحیرت آئینہ

کس قدر داغ جگر شعلہ دکھاتا ہے مجھے مگر ذوق خیالمیں ہوں اور حیرت جاوید،

ہے مجھےفسون نگہ ناز ستاتاہ ب اسد حیرت فکر سخن ساز سالمت ہے

ہے مجھےدل پس زانوۓ آئینہ بٹھاتا ۔248

روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی اترائے کیوں نہ خاک سر رہگزار کی 201جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاه

ینمود نہ ہو اللہ زار کلوگوں میں کیوں بھوکے نہیں ہیں سیر گلستان کے ہم ولے

کہ ہوا ہے بہار کیےیکھائکیوں کر نہ ۔249

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

کیا رہے گا اس کی گر د ن پر؟ڈرے کیوں میرا قاتل کلے؟وه خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم ن

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے بھر م کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طرۀ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے202مگر

اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلےہوئی صبح س دور میں منسوب مجھ سے باده آشامیہوئی ا

)حامد علی خاں(درج ہے۔ " پادشاه"اور کم میں " بادشاه"زیاده نسخوں میں 201

دیہ کی امال قبول کی ہے۔ ، صرف طباطبائی نے حمی"مگر"ہے، دوسرے تمام نسخوں میں " اگر"میں یہاں لفظ ) اور مہر(نسخۂ حمیدیہ 202 )اعجاز عبید(ممکن ہے کہ حمیدیہ میں یہ لفظ کتابت کی غلطی ہو۔

چھپا ہے لیکن نسخۂ حمیدیہ ، نسخۂ عرشی، نسخۂ مالک رام، نسخۂ نظامی ، نسخۂ حسرت " اگر"کی جگہ " مگر"میں یہاں مہرۂنسخ: مزیدہی چھپا ہے اور اس میں احتمال معنوی نے ایک مزید لطف " مگر"د نسخوں میں موہانی نسخۂ بیخود اور دیگر تمام پیش نظر قدیم و جدی

میں نسخۂ مہر ہی ) 1961لکھنو (ہی غالب کا لفظ معلوم ہوتا ہے البتہ نسخۂ طباطبائی " مگر"بھی پیدا کردیا ہے۔ تمام مہیا شہادتوں سے یہاں غلط کاتب ہے۔ عالوه ازیں نسخۂ " اگر"ہے۔ غالبا ان دونوں نسخوں میں چھپا ہے۔ اس نسخے میں اغالط کتابت کی کثرت " اگر"کی طرح

مہر میں کاتب نے اس غزل کے اشعار کی ترتیب بے محابا بدل ڈالی)حامد علی خاں(ہے۔

Page 126: Ghalib the Great Poet

125

پھر آیا وه زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی

وه ہم سے بھی زیاده خستۂ تیغ ستم نکلے محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے ر پر ستم نکلےذرا کر زور سینے پر کہ تی

جو وه نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے خدا کے واسطے پرده نہ کعبہ سے اٹھا ظالم کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے

اور کہاں واعظ! غالب کہاں میخانے کا دروازه پر اتنا جانتے ہیں، کل وه جاتا تھا کہ ہم نکلے

۔250 ر صدا ہو جائیےکوه کے ہوں بار خاطر گ

کیا ہوجائیے! بے تکلف اے شرار جستہ بیضہ آسا ننگ بال و پر ہے یہ کنج قفس از سر نو زندگی ہو، گر رہا ہو جائیے

۔251 مستی، بہ ذوق غفلت ساقی ہالک ہے موج شراب یک مژۀ خوابناک ہے

جز زخم تیغ ناز، نہیں دل میں آرزو چاک ہےجیب خیال بھی ترے ہاتھوں سے

203اسد جوش جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں، صحرا ہماری آنکھ میں یک مشت خاک ہے

۔252 لب عیسی کی جنبش کرتی ہے گہواره جنبانی

قیامت کشتۂ لعل بتاں کا خواب سنگیں ہے ۔253

آمد سیالب طوفان صدائے آب ہے نقش پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جاده سے

ه ہے کس کی چشم مست کابزم مے وحشت کد شیشے میں نبض پری پنہاں ہے موج باده سے

مع چھپا ہے مگر یہ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے کیونکہ دوسرے مصرع میں متکلم نے صیغۂ ج" مجھے"کی جگہ " اسد"نسخۂ مہر میں 203

)حامد علی خاں(استعمال کیا ہے۔

Page 127: Ghalib the Great Poet

126

۔254 ہوں میں بھی تماشائی نیرنگ تمنا 204آوےمطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر

۔255

سیاہی جیسے گر جاوے دم تحریر کاغذ پر مر ی قسمت میں یو ں تصویر ہے شب ہائے ہجرا ں کی

۔256

جز عر ض یک افغاں ہےہجوم نالہ، حیرت عا خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بدنداں ہے تکلف بر طرف، ہے جانستاں تر لطف بد خویاں

نگاه بے حجاب ناز تیغ تیز عریاں ہے ہوئی یہ کثرت غم سے تلف کیفیت شادی

کہ صبح عید مجھ کو بدتر از چاک گریباں ہے ہےدل و دیں نقد ال، ساقی سے گر سودا کیا چا

کہ اس بازار میں ساغر متاع دست گرداں ہے غم آغوش بال میں پرورش دیتا ہے عاشق کو چراغ روشن اپنا قلزم صرصر کا مرجاں ہے

۔257 خموشی میں تماشا ادا نکلتی ہے

سا نکلتی ہےہسرم205نگاه دل سے تری فشار تنگئ خلوت سے بنتی ہے شبنم

ےجا نکلتی ہصبا جو غنچے کے پردے میں نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آب تیغ نگاه

روزن در سے ہوا نکلتی ہےخم زکہ ۔258

جس جا نسیم شانہ کش زلف یار ہے نافہ دماغ آہوئے دشت تتار ہے

کس کا سرا غ جلوه ہے حیرت کو اے خدا ئنہ فرش شش جہت انتظار ہےیآ

ہے ذره ذره تنگئ جا سے غبار شوق

)جویریہ مسعود(آئے۔ نسخۂ مہر204کی تمیز مشکل تھی۔ شعر کا مفہوم دونوں صورتوں میں " تری"اور " ترے"چھپا ہے۔ قدیم نسخوں میں " ترے"نسخۂ حسرت موہانی میں 205

)حامد علی خاں(تقریبا ایک ہی رہتا ہے۔

Page 128: Ghalib the Great Poet

127

حرا شکار ہےگردام یہ ہے و سعت ص دل مدعی و دیده بنا مدعا علیہ

مہ پھر روبکار ہےنظارے کا مقد نۂ برگ گل پر آبیچھڑکے ہے شبنم آئ

اے عندلیب وقت ود اع بہار ہے پچ آپڑی ہے وعدۀ دلدار کی مجھے وه آئے یا نہ آئے پہ یاں انتظار ہے

بے پرده سوئے وادئ مجنوں گزر نہ کر دل بے قرار ہےنقاب میں206ہر ذرے کے

آشیاںاے عندلیب یک کف خس بہر طوفان آمد آمد فصل بہار ہے

دل مت گنوا، خبر نہ سہی سیر ہی سہی نہ تمثال دار ہےیاے بے دماغ آئ

ضامن نشاطاسد غفلت کفیل عمر و اے مر گ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے

۔259 نہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسےیآ ئ ا کہاں سے الؤں کہ تجھ سا کہیں جسےایس

ہے انتظار سے شرر آباد رست خیز مژگان کوہکن رگ خارا کہیں جسے

حسرت نے ال رکھا تری بزم خیال میں سویدا کہیں جسےنگاهگلدستۂ

کس فرصت وصال پہ ہے گل کو عندلیب زخم فراق خندۀ بے جا کہیں جسے

یویارب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائ یہ محشر خیال کہ دنیا کہیں جسے

پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا افسون انتظار، تمنا کہیں جسے

سر پر ہجوم درد غریبی سے ڈالیے وه ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے ہے چشم تر میں حسرت دیدار سے نہاں

، دریا کہیں جسےگسیختہشوق عناں یش کودرکار ہے شگفتن گلہائے ع

و تانیث کے بارے ا ہے۔ قدیم نسخوں میں یوں بھی یاۓ حطی ہی چھپی ہے۔ مگر نقاب کی تذکیرچھپ" کی نقاب" میںنسخۂ طباطبائی206

)حامد علی خاں(زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے رخ پر کھال۔ : میں تو دہلی و لکھنو کا جدا جدا شیوه بھی تھا۔ غالب نے لکھا ہے

Page 129: Ghalib the Great Poet

128

صبح بہار پنبۂ مینا کہیں جسے برا نہ مان جو واعظ برا کہےغالب

ہے کہ سب اچھا کہیں جسے؟207ایسا بھی کو ئی ۔260

شبنم بہ گل اللہ نہ خالی ز ادا ہے داغ دل بے درد، نظر گاه حیا ہے

دل خوں شدۀ کشمکش حسرت دیدار نہ بہ دست بت بدمست حنا ہےیآئ

وتی، ہوس شعلہ نے جو کیشعلے سے نہ ہ جی کس قدر افسردگئ دل پہ جال ہے

تمثال میں تیری ہے وه شوخی کہ بصد ذوق نہ بہ اند از گل آغوش کشا ہےیآئ

قمری کف خا کستر و بلبل قفس رنگ نشان جگر سو ختہ کیا ہے؟! اے نالہ

خو نے تری افسرده کیا وحشت دل کو معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بال ہے

الفتئگرفتارۓمجبوری و دعوا سنگ آمده پیمان وفا ہےتہ دست

گزشتہمعلوم ہوا حال شہیدان نۂ تصویر نما ہےیتیغ ستم آئ

اے پرتو خورشید جہاں تاب ادھر بھی سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے

سر رشتۂ بے تابئ دل در گره عجز پرواز بخوں خفتہ و فریاد رسا ہے

گناہوں کی بھی حسرت کی ملے دادناکرده یا رب اگر ان کرده گناہوں کی سزا ہے

غالب بیگانگئ خلق سے بیدل نہ ہو کوئی نہیں تیرا، تو مری جان، خدا ہے

۔261

کی208منظورتھی یہ شکل تجلی کو نور قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی اک خونچکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں

میں یہ شعر اس طرح درج نہیں۔ وںے۔ کسی دوسرے پیش نظر قدیم و جدید نسخچھپا ہ" ہے کوئی"کی جگہ " کوئی ہے"نسخۂ مہر میں 207

)حامد علی خاں( )حامد علی خاں(چھپا ہے۔ یہ سہو طباعت ہے۔ " طور"کی جگہ " نور"نسخۂ عرشی میں 208

Page 130: Ghalib the Great Poet

129

تیرے شہیدوں پہ حور کیپڑتی ہے آنکھ نہ تم پیو نہ کسی کو پالسکو! واعظ

!کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل، کہ کیوں اٹھا؟

گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

ے ہوئے تو ہیںگو واں نہیں، پہ واں کے نکال کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے د ور کی کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

ہم بھی سیر کریں کوه طور کی209آؤ نہ گرمی سہی کالم میں، لیکن نہ اس قدر

کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیںغالب

ضور کیحج کا ثواب نذر کروں گا ح ۔262

غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے یہ رنج کہ کم ہے مۓ گلفام، بہت ہے

کہتے ہوئے ساقی سے، حیا آتی ہے ورنہ ہے یوں کہ مجھے درد تہ جام بہت ہے

نے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمیں میں گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے

ائیکیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ری پاداش عمل کی طمع خام بہت ہے

ہیں اہل خرد کس روش خاص پہ نازاں؟ پابستگئ رسم و ره عام بہت ہے

زمزم ہی پہ چھوڑو، مجھے کیا طوف حر م سے؟ آلوده بہ مے جامۂ احرام بہت ہے

ہے قہر گر اب بھی نہ بنے بات کہ ان کو انکار نہیں اور مجھے ابرام بہت ہے

آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگخوں ہو کے جگر رہنے دے مجھے یاں، کہ ابھی کام بہت ہے

کو نہ جانے؟غالب ہوگا کوئی ایسا بھی کہ شاعر تو وه اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے

)حامد علی خاں" (آؤ نا" "نسخۂ مہر 209

Page 131: Ghalib the Great Poet

130

۔263

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے کئے ہوئے210جوش قدح سے بزم چراغاں

کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو دعوت مژگاں کئے ہوئےعرصہ ہوا ہے

پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے

سپھر گرم نالہ ہائے شرر بار ہے نف مدت ہوئی ہے سیر چراغاں کئے ہوئے پھر پرسش جراحت دل کو چال ہے عشق

داں کئے ہوئےسامان صد ہزار نمک ون دلخامۂ مژگاں بہ خ211ہوںپھر بھر رہا

داماں کئے ہوئےئساز چمن طراز باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیده پھر رقیب

نظاره و خیال کا ساماں کئے ہوئے دل پھر طواف کوئے مالمت کو جائے ہے

پندار کا صنم کده ویراں کئے ہوئے پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب

عرض متاع عقل و دل و جاں کئے ہوئے ک گل و اللہ پر خیالدوڑے ہے پھر ہر ای

صد گلستاں نگاه کا ساماں کئے ہوئے پھر چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا

جاں نذر دلفریبئ عنواں کئے ہوئے مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس

زلف سیاه رخ پہ پریشاں کئے ہوئے چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کئے ہوئے

بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاهاک نو چہره فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے

پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں سر زیر بار منت درباں کئے ہوئے

رات دن212کہجی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت،

کوئی اردو محاوره نہیں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ جوش قدح " زم کرناب"لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ " بزم چراغاں"بعض حضرات بہ اضافت 210

)حامد علی خاں(سے بزم کو چراغاں کیے ہوۓ مدت گزر چکی ہے۔ )جویریہ مسعود("ہے" نسخۂ مہر میں 211

Page 132: Ghalib the Great Poet

131

بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے ہمیں نہ چھیڑ، کہ پھر جوش اشک سےغالب

تہیۂ طوفاں کئے ہوئےبیٹھے ہیں ہم ۔264

نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لئے رہی نہ طرز ستم کوئی آسماں کے لئے

گر مژۀ یار تشنۂ خوں ہے!بال سے رکھوں کچھ اپنی ہی مژگان خوں فشاں کے لئے وه زنده ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لئے بھی، میں مبتالئے آفت رشکرہا بال میں

بالئے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لئے فلک نہ دور رکھ اس سے مجھے، کہ میں ہی نہیں

دستئ قاتل کے امتحاں کے لئےدراز مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے

جو شامت آئے213گدا سمجھ کے وه چپ تھا، مری ور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئےاٹھا ا

ق بہ قدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے دیا ہے خلق کو بھی، تا اسے نظر نہ لگےل حسین خاں کے لئے بنا ہے عیش تجم

یہ کس کا نام آیا! زباں پہ بار خدایا کہ میرے نطق نے بوسے مر ی زباں کے لئے

دولت و دیں اور معین ملت و ملکنصیر بنا ہے چرخ بریں جس کے آستاں کے لئے

زمانہ عہد میں اس کے ہے محو آرائش بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لئے

ہوا ہے نکتہ سراغالب ادائے خاص سے نکتہ داں کے لئےصالئے عام ہے یاران

)جویریہ مسعود" (ےک" نسخۂ مہر میں 212دیم نسخوں میں یہ مصرع ایک ہی طور پر مہمل چھپا ہے، یہ عجیب بات ہے کہ نسخۂ نظامی اور نسخۂ مہر میں نیز متعدد دوسرے ق213

: یعنی)حامد علی خاں(خوشامد سے۔ گدا سمجھ کے وه چپ تھا، مری

Page 133: Ghalib the Great Poet

132

۔265

ر کہا ہے تو سہی آپ نے مسنی الض گال ہے تو سہی! حضرت ایوباےیہ بھی

کیوں سرپیٹوں رنج طاقت سے سوا ہو تو نہ ذہن میں خوبئ تسلیم و رضا ہے تو سہی

گزر جاۓ گی عمرامیدہ بہے غنیمت کہ نہ ملے داد، مگر روز جزا ہے تو سہی

ی نہیں ہے، جو کرے چاره گریکوئہیدوست تمناۓ دوا ہے تو سہییکلنہ سہی،

اس نےیہنباغیر سے دیکھیے کیا خوب نہ سہی ہم سے، پر اس بت میں وفا ہے تو سہی

نقل کرتا ہوں اسے نامۂ اعمال میں میں کچھ نہ کچھ روز ازل تم نے لکھا ہے تو سہی

غالب کبھی آ جاۓ گی کیوں کرتے ہو جلدی رۀ تیزئ شمشیر قضا ہے تو سہیشہ

۔266 لطف نظارۀ قاتل دم بسمل آۓ

جان جاۓ تو بال سے، پہ کہیں دل آۓ ان کو کیا علم کہ کشتی پہ مری کیا گزری

دوست جو ساتھ مرے تا لب ساحل آۓ !وه نہیں ہم، کہ چلے جائیں حرم کو، اے شیخ

ساتھ حجاج کے اکثر کئی منزل آۓ میں وه، لوگ پکار اٹھتے ہیںآئیں جس بزم

"لو وه برہم زن ہنگامۂ محفل آۓ" دیده خوں بار ہے مدت سے، ولے آج ندیم

شامل آۓکےدل کے ٹکڑے بھی کئی خون کیا ہے، نہ کریںہنسامنا حور و پری نے

عکس تیرا ہی مگر، تیرے مقابل آۓ !غالب اب ہے دلی کی طرف کوچ ہمارا

بھی مل آۓسےنوابآج ہم حضرت

۔267 میں ہوں مشتاق جفا، مجھ پہ جفا اور سہی

تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی !غیر کی مرگ کا غم کس لۓ، اے غیرت ماه

ہیں ہوس پیشہ بہت، وه نہ ہوا، اور سہی

Page 134: Ghalib the Great Poet

133

تم ہو بت، پھر تمھیں پندار خدائی کیوں ہے؟ تم خداوند ہی کہالؤ، خدا اور سہی

ور سے بڑھ کر نہیں ہونے کی کبھیحسن میں ح آپ کا شیوه و انداز و ادا اور سہی

تیرے کوچے کا ہے مائل دل مضطر میرا کعبہ اک اور سہی، قبلہ نما اور سہی

!کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے، واعظ خلد بھی باغ ہے، خیر آب و ہوا اور سہی

کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو مال لیں، یا رب واسطے تھوڑی سی فضا اور سہیسیر کے

کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں۔مجھ کو وه دو زہر کچھ اور سہی، آب بقا اور سہی

یہ عالئی نے غزل لکھوائیغالب مجھ سے رنج فزا اور سہیر ایک بیداد گ

۔268 عجز و نیاز سے تو وه آیا نہ راه پر214

دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیۓ

۔269 م آه کی تو ہزاروں کے گھر جلےاک گر

رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے اسد پروانہ خانہ غم ہو تو پھر کس لۓ

رات شمع شام سے لے تا سحر جلےہر ۔270

زندان تحمل ہیں مہمان تغافل ہیں بے فائده یاروں کو فرق غم و شادی ہے

۔271

مستعد قتل یک عالم ہے جالد فلک موج شفق میں تیغ خوں آشام ہےکہکشاں

۔272

نہ حیرت چشم ساقی کی، نہ صحبت دور ساغر کی

جویریہ مسعودغزلیات و اشعار نسخۂ مہر میں نہیں۔ 273- 268: نوٹ214

Page 135: Ghalib the Great Poet

134

گردش افالک باقی ہےغالب مری محفل میں ۔273

صبا لگا وه طمانچہ طرف سے بلبل کے کہ روۓ غنچہ سوۓ آشیاں پھر جاۓ

Page 136: Ghalib the Great Poet

135

قصائد ۔1

منقبت حیدری

ساز یک ذره نہیں فیض چمن سے بیکار اللۂ بےداغ سویداۓ بہارسایۂ

مستئ باد صبا سے ہے بہ عرض سبزه ریزۀ شیشۂ مے جوہر تیغ کہسار

ہے جام زمرد کی طرح داغ پلنگزبس روۓ شرارتفصتازه ہے ریشۂ نارنج

مستئ ابر سے گلچین طرب ہے حسرت کہ اس آغوش میں ممکن ہے دو عالم کا فشار

لبلمعمورئ شوق بہمہکوه و صحرا راه خوابیده ہوئی خندۀ گل سے بیدار

سونپے ہے فیض ہوا صورت مژگان یتیم سر نوشت دو جہاں ابر بہ یک سطر غبار

کاٹ کر پھینکۓ ناخن جو بانداز ہالل اس کو بھی نہ چھوڑے بیکارہیقوت نام

کف ہر خاک بہ گردون شده قمری پرواز دام ہر کاغذ آتش زده طاؤس شکار

میں ہو اگر آرزوۓ گل چینیمےکدے قدح باده بہ طاق گلزارکیبھول جا

موج گل ڈھونڈھ بہ خلوت کدۀ غنچۂ باغ گم کرے گوشۂ مےخانہ میں گر تو دستار کھینچے گر مانئ اندیشہ چمن کی تصویر

سبزه مثل خط نو خیز ہو خط پرکار لعل سے کی ہے پۓ زمزمۂ مدحت شاه

ا منقارطوطئ سبزۀکہسار نے پید پۓ تعمیر سرا215وه شہنشاه کہ جس کی

چشم جبریل ہوئی قالب خشت دیوار فلک العرش ہجوم خم دوش مزدور رشتۂ فیض ازل ساز طناب معمار

)حامد علی خاں(کی چھپا ہے۔ " کی جگہ " کے"مروجہ نسخوں میں 215

)جویریہ مسعود(پۓ تعمیر سراےوه شہنشاه کہ جس ک: ے نسخے میں یہ مصرع یوں ہےحامد علی خان ک: مزید

Page 137: Ghalib the Great Poet

136

سبز نہ چمن و یک خط پشت لب بام رفعت ہمت صد عارف و یک اوج حصار

کاهخاشاک سے حاصل ہو جسے یک پر 216واں کی وحۂ بال پری سےبیزاروه رہے مر

صحراۓ نجف جوہر سیر عرفاخاک قدم آئینۂ بخت بیدارچشم نقش

ازنذره اس گرد کاخورشید کو آئینہ گرد اس دشت کی امید کو احرام بہار

آفرینش کو ہے واں سے طلب مستئ ناز عرض خمیازۀ ایجاد ہے ہرموج غبار

مطلع ثانی

شبستان بہارفیض سے تیرے ہے اے شمع

چراغاں، پر بلبل گلنارنہادل پرو شکل طاؤس کرے آئینہ خانہ پرواز

ذوق میں جلوے کے تیرے بہ ہواۓ دیدار تیری اوالد کے غم سے ہے بروۓ گردوں

سلک اختر میں مہ نو مژۀ گوہر بار ہم عبادت کو، ترا نقش قدم مہر نماز

ہم ریاضت کو، ترے حوصلے سے استظہار دح میں تیری نہاں زمزمۂ نعت نبیم

عیاں بادۀ جوش اسرارےرتیجام سے جوہر دست دعا آئینہ یعنی تاثیر

217یک طرف نازش مژگان و دگر سو غم خار

مردمک سے ہو عزا خانۂ اقبال نگاه جو چشم نہ ہوآئینہ دارےترخاک در کی

دشمن آل نبی کو بہ طرب خانۂ دہر ہوطاق دیوارعرض خمیازۀ سیالب

آئینۂ یک پرتو شوقاسد دیده تا دل فیض معنی سے خط ساغر راقم سرشار

چھپا ہے۔ لفظ خاشاک بہ صیغۂ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ دیکھیے فرہنگ آصفیہ۔ اس قسم کے اغالط " کی خاشاک"اکثر مروجہ نسخوں میں 216

)حامد علی خاں(کی وجہ پہلے حواشی میں جگہ جگہ بیان ہو چکی ہے۔ )جویریہ مسعود(کاهخاشاک سے حاصل ہو جسے یک پر ےواں ک: نسخۂ حامد علی خاں میں : مزید

)جویریہ مسعود("غمخوار"نسخۂ مہر میں 217

Page 138: Ghalib the Great Poet

137

۔2 )کے لۓحضرت علی(منقبت

دہر جز جلوۀ یکتائ معشوق نہیں

ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں بے دلی ہاۓ تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بے کسی ہاۓ تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں ہرزه ہے نغمۂ زیروبم ہستی و عدم لغو ہے آئینۂ فرق جنون و تمکیں

نقش معنی ہمہ خمیازۀ عرض صورت سخن حق ہمہ پیمانۂ ذوق تحسیں

!الف دانش غلط و نفع عبارت معلوم درد یک ساغر غفلت ہے۔ چہ دنیا و چہ دیں

بدست تسلیمبادمثل مضمون وفا ق تمکیںصورت نقش قدم خاک بہ فر

عشق بے ربطئ شیرازۀ اجزاۓ حواس وصل، زنگار رخ آئینۂ حسن یقیں

کوہکن، گرسنہ مزدورطرب گاه رقیب بے ستوں، آئینۂ خواب گران شیریں

نفس اہل وفا آتش خیزھاکدیکس نے !کس نے پایا اثر نالۂ دل ہاۓ حزیں سامع زمزمۂ اہل جہاں ہوں، لیکن

نہ دماغ نفریںنہ سرو برگ ستائش، کس قدر ہرزه سرا ہوں کہ عیاذا با

قلم خارج آداب وقار و تمکیںکی نقش الحول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر

یا علی عرض کر اے فطرت وسواس قریں خدا، جان و دل ختم رسل218مظہر فیض

، کعبۂ ایجاد یقیں)ص(قبلۂ آل نبی امہو وه سرمایۂ ایجاد جہاں گرم خر

ہر کف خاک ہے واں گردۀ تصویر زمیں جلوه پرداز ہو نقش قدم اس کا جس جا

وه کف خاک ہے ناموس دو عالم کی امیں نسبت نام سے اس کی ہے یہ رتبہ کہ رہے

ابدا پشت فلک خم شدۀ ناز زمیں

)حامد علی خان(کے الفاظ درج ہیں۔ یہ الفاظ دوسرے کسی زیر نظر نسخے میں نہیں ملے۔ " مظہر ذات خدا"نسخۂ مہر میں یہاں 218

Page 139: Ghalib the Great Poet

138

219فیض خلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا گیںبوۓ گل سے نفس باد صبا عطرآ

برش تیغ کا اس کی ہے جہاں میں چرچا قطع ہو جاۓ نہ سر رشتۂ ایجاد کہیں

کفر سوز اس کا وه جلوه ہے کہ جس سے ٹوٹے رنگ عاشق کی طرح رونق بت خانۂ چیں

!شاہا! دل و جاں فیض رسانا! جاں پناہا وصئ ختم رسل تو ہے بہ فتواۓ یقیں جسم اطہر کو ترے دوش پیمبر منبر

م نامی کو ترے ناصیۂ عرش نگیںنا ہے تری مدح بغیر از واجبکنممکس سے

شعلۂ شمع مگر شمع پہ باندھے آئیں آستاں پر ہے ترے جوہر آئینۂ سنگ

رقم بندگئ حضرت جبریل امیں اسباب نثار آماده220تیرے در کے لۓ

جان و دل و دیںۓیدخاکیوں کو جو خدا نے زباںجاں کام وتیری مدحت کے لۓ ہیں دل و

تیری تسلیم کو ہیں لوح و قلم دست و جبیں ممدوح خدامداحئکس سے ہو سکتی ہے

!کس سے ہو سکتی ہے آرائش فردوس بریں ق

اسد هللا اسد جنس بازار معاصی کہ سوا تیرے کوئی اس کاخریدار نہیں

شوخئ عرض مطالب میں ہے گستاخ طلب کہ یقیںہے ترے حوصلۂ فضل پہ از بس

دے دعا کو مری وه مرتبۂ حسن قبول کہ اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں غم شبیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز

کہ رہیں خون جگر سے مری آنکھیں رنگیں طبع کو الفت دلدل میں یہ سرگرمئ شوق

کہ جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں ادل الفت نسب و سینۂ توحید فض

نگہ جلوه پرست و نفس صدق گزیں دوزخ221دود ۂشعلصرف اعدا اثر

)حامد علی خان(چھپا ہے مگر اس کی تصدیق کسی دوسرے نسخے سے نہیں ہوسکی۔ " اسد"کی جگہ " سدا"میں یہاں نسخۂ مہر219

)حامد علی خان" (کیے: "نسخۂ عرشی220 )حامد علی خان(بے محل بات ہے۔" شعلۂ دود"چھپا ہے۔ "شعلۂ دود دوزخ"بعض اچھے نسخوں میں 221

Page 140: Ghalib the Great Poet

139

222فردوس بریںسنبل وقف احباب گل و ۔3

مدح شاه

ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام ہا ہے سالمرجس کو تو جھک کے کر

دو دن آیا ہے تو نظر دم صبح یہی انداز اور یہی اندام

بارے دو دن کہاں رہا غائب؟ امنده عاجز ہے، گردش ای ب"

اڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا "آسماں نے بچھا رکھا تھا دام

مرحبا اے سرور خاص خواص عوامحبذا اے نشاط عام

عذر میں تین دن نہ آنے کے لے کے آیا ہے عید کا پیغام اس کو بھوال نہ چاہیئے کہنا

223صبح جو جاۓ اور آۓ شام یاایک میں کیا؟ سب نے جان ل

تیرا آغاز اور ترا انجام چھپاتا ہےکیوںراز دل مجھ سے

نمام؟کہیںمجھ کو سمجھا ہے کیا جانتا ہوں کہ آج دنیا میں

یدگاه انامایک ہی ہے ام میں نے مانا کہ تو ہے حلقہ بگوش

غالم؟ہےاس کا مگر نہیںغالب جانتا ہوں کہ جانتا ہے تو

تب کہا ہے بہ طرز استفہام !اباں کو ہو تو ہو، اے ماهمہر ت

)جویریہ مسعود" (شعلہ و دود دوزخ: "نسخۂ حامد علی خان میں : مزید

گل و "کا مقابلہ " شعلہ و دود دوزخ"کی عجیب و غریب ترکیب چھپی ہے۔ غالب نے " فردوس بریںو سنبلگل و "بعض نسخوں میں 222 )حامد علی خان(۔سے کیا ہے۔ " فردوس بریںسنبل

)حامد علی خان(جاوے، آوے۔ ۔: جاۓ، آۓ۔۔ نسخۂ شو نرائن : نسخۂ نظامی 223

Page 141: Ghalib the Great Poet

140

بر سبیل دوام224قرب ہر روزه ق روشناسی کاتجھ کو کیا پایہ

امجز بہ تقریب عید ماه صی جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو

پھر بنا چاہتا ہے ماه تمام ماه بن، ماہتاب بن، میں کون؟

مجھ کو کیا بانٹ دےگا تو انعام میرا اپنا جدا معاملہ ہے

لین دین سے کیا کاماور کے ہے مجھے آرزوۓ بخشش خاص

گر تجھے ہے امید رحمت عام فر فروغتجھ کوجو کہ بخشےگا

کیا نہ دےگا مجھے مۓ گلفام؟ جبکہ چوده منازل فلکی

قطع تیری تیزئ گام225ےکرچک پذیرتیرے پرتو سے ہوں فروغ

کوۓ و مشکوۓ و صحن و منظر و بام ریزدیکھنا میرے ہاتھ میں لب

اپنی صورت کا اک بلوریں جام پھر غزل کی روش پہ چل نکال

لگام226توسن طبع چاہتا تھا

غزل زہر غم کرچکا تھا میرا کام

تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام؟ مے ہی پھر کیوں نہ میں پیۓ جاؤں؟

حرام227غم سے جب ہو گئی ہے زیست یہی غنیمت ہےا؟ سبوسہ کی

امنشکہ نہ سمجھیں وه لذت د

)حامد علی خان(چھپا ہے جو سہو کتابت ہے۔ ۔" ہر روز"کی جگی " ہر روزه" بعض نسخوں میں 224

)حامد علی خان(چھپا ہے۔ ۔" چکی"کی جگہ " چکے" بعض نسخوں میں غلط فہمی کی بنا پر 225

)حامد علی خان(چھپا ہے۔ جو غط ہے۔ " چاہتا ہے لگام"خوں میں سبعض مروجہ ن226

)حامد علی خان(یہ غالبا سہو کتابت ہے۔ ۔" ست ہوگئی ہو حرامغم سے زی" نسخۂ مہر میں 227

Page 142: Ghalib the Great Poet

141

کعبے میں جابجائیں گے ناقوس اب تو باندھا ہے دیر میں احرام اس قدح کا ہے دور مجھ کو نقد

چرخ نے لی ہے جس سے گردش ایام چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آۓ

اپنا نامغالب کیوں رکھوں ورنہ

اب تو کہ،کہ چکا میں تو سب کچھ اے پری چہره پیک تیز خرام

ہ ناصیہ ساکون ہے جس کے در پ مہر و زہره و بہراممہ وہیں

تو نہیں جانتا تو مجھ سے سن بلند مقامہ نام شاہنش

بہادر شاهچشم و دل ۂقبل مظہر ذوالجالل واالکرام

انصافۂشہسوار طریق اسالمۂحدیقنوبہار

جس کا ہر فعل صورت اعجاز جس کا ہر قول معنئ الہام

بزم میں میزبان قیصر و جم میں اوستاد رستم و سامرزم

اے ترا لطف زندگی افزا اے ترا عہد فرخی فرجام

خسروانہ شکوه! چشم بد دور عارفانہ کالم! لوحش هللا

جاں نثاروں میں تیرے قیصر روم جرعہ خواروں میں تیرے مرشد جام

وارث ملک جانتے ہیں تجھے ایرج و تور و خسرو و بہرام

جھےزور بازو میں مانتے ہیں ت امہ ر گیو و گودرز و بیزن و

مرحبا مو شگافئ ناوک آفریں آب دارئ صمصام

تیر کو تیرے تیر غیر ہدف تیغ کو تیری تیغ خصم نیام

ق رعد کا کر رہی ہے کیا دم بند

Page 143: Ghalib the Great Poet

142

برق کو دے رہا ہے کیا الزام تیرے فیل گراں جسد کی صدا

سبک عناں کا خرامتیرے رخش ق

ا گرزفن صورت گری میں تیر تمامگر نہ رکھتا ہو دستگاه

کے مضروب کے سر و تن سےسا کیوں نمایاں ہو صورت ادغام؟

یر ہوۓجب ازل میں رقم پذ صفحہ ہاۓ لیالی و ایام

اور ان اوراق میں بہ کلک قضا مجمال مندرج ہوۓ احکام

لکھ دیا شاہدوں کو عاشق کش لکھ دیا عاشقوں کو دشمن کام

یا کہ کہیںآسماں کو کہا گ نیلی فامگنبد تیز گرد

حکم ناطق لکھا گیا کہ لکھیں خال کو دانہ اور زلف کو دام

آتش و آب و باد و خاک نے لی وضع سوز و نم و رم و آرام

مہر رخشاں کا نام خسرو روز شامۂتاباں کا اسم شحنماه

تیری توقیع سلطنت کو بھی دی بدستور صورت ارقام

ے بموجب حکمکاتب حکم ن رقم کو دیا طراز دوام228اس

آغاز229ئــسے روانہے ازل انجامیہو ابد تک رسائ

" اس رقم"چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں یہ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے کیوں کہ " اس" نسخۂ نظامی کی تقلید میں مستند نسخوں میں بھی یہاں228

)حامد علی خان(ر کی طرف ہے۔ نظر بہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔ بعد یعنی آخری شعمیں اشاره قریبی تحریر ما

)اعجاز عبید(کر دیا گیا ہے جو غلط ہے۔’ روانی‘اکثر جگہ ۔ہے" روائی "چند نسخوں میں 229حامد (ئی۔ لکھا تھا۔ دیکھیے طباطبا" روائی"کے مقابلے میں " رسائی"چھپا ہے، غالب نے " روانئی"جگہ " روائی"بعض نسخوں میں : مزید

)علی خان )جویریہ مسعود(کو ترجیح دی ہے۔ " روانئی"ہم نے متن میں اکثر مستند نسخوں کی تقلید میں : مزید

Page 144: Ghalib the Great Poet

143

۔4

مدح شاه

صبح دم دروازۀ خاور کھال مہر عالمتاب کا منظر کھال

خسرو انجم کے آیا صرف میں شب کو تھا گنجینۂ گوہر کھال

کی سی نمودیمیاسوه بھی تھی اک کھالصبح کو راز مہ و اختر

کچھ نظر آتے ہیں کچھ،ہیں کواکب دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھال سطح گردوں پر پڑا تھا رات کو موتیوں کا ہر طرف زیور کھال

صبح آیا جانب مشرق نظر اک نگار آتشیں رخ، سر کھال

تھی نظر بندی، کیا جب رد سحر رنگ کا ساغر کھالبادۀ گل

ۓال کے ساقی نے صبوحی کے ل زر کھالم جارکھ دیا ہے ایک

بزم سلطانی ہوئی آراستہ کعبۂ امن و اماں کا در کھال

تاج زریں مہر تاباں سے سوا کھالرپخسرو آفاق کے منہ

ہےہکشاه روشن دل، بہادر شہ، راز ہستی اس پہ سر تا سر کھال

وه کہ جس کی صورت تکوین میں مقصد نہ چرخ و ہفت اختر کھال

سےیلوتاکہ جس کے ناخن وه عقدۀ احکام پیغمبر کھال

پہلے دارا کا نکل آیا ہے نام ان کے سرہنگوں کا جب دفتر کھال روشناسوں کی جہاں فہرست ہے واں لکھا ہے چہرۀ قیصر کھال

ق

توسن شہ میں ہے وه خوبی کہ جب

Page 145: Ghalib the Great Poet

144

تھان سے وه غیرت صرصر کھال نقش پا کی صورتیں وه دل فریب

کہے بت خانۂ آزر کھالتو فیض تربیت سے شاه کےپہمجھ

منصب مہر و مہ و محور کھال الکھ عقدے دل میں تھے ، لیکن ہر ایک

میری حد وسع سے باہر کھال تھا دل وابستہ قفل بے کلید

؟کس نے کھوال، کب کھال، کیوں کر کھال گا بہار230باغ معنی کی دکھاؤں

ستر کھالسے گر شاه سخن گمجھ ہو جہاں گرم غزل خوانی نفس

لوگ جانیں طبلۂ عنبر کھال

غزل کنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھال

کاشکے ہوتا قفس کا در کھال ہم پکاریں، اور کھلے، یوں کون جاۓ

گر کھالپاویںیار کا دروازه ہم کو ہے اس راز داری پر گھمنڈ دوست کا ہے راز دشمن پر کھال

داغتھار بھال لگتا واقعی دل پ زخم لیکن داغ سے بہتر کھال

ہاتھ سے رکھ دی کب ابرو نے کماں کب کمر سے غمزے کی خنجر کھال

ہق ربدمفت کا کس کو برا ہے رہروی میں پردۀ رہبر کھال

باران اشکےکرسوز دل کا کیا آگ بھڑکی، مینہ اگر دم بھر کھال نامے کے ساتھ آ گیا پیغام مرگ

خط میری چھاتی پر کھالره گیا سے گر الجھا کوئیغالب دیکھیو

ہے ولی پوشیده اور کافر کھال

پھر ہوا مدحت طرازی کا خیال پھر مہ و خورشید کا دفتر کھال

ہی " میں دکھاؤں گا" یم نسخوںہے مگر نسخۂ نظامی میں، نیز دیگر قد" دکھا دوں گا"تند نسخوں میں نسخۂ عرشی اور بعض دیگر مس230

)خحامد (ہے ۔

Page 146: Ghalib the Great Poet

145

پائی طبیعت سے مدد231خامے نے بادباں بھی، اٹھتے ہی لنگر، کھال

وهشک مدح سے، ممدوح کی دیکھی یاں عرض سے رتبۂ جوہر کھال

ہر کانپا، چرخ چکر کھا گیام بادشہ کا رائت لشکر کھال بادشہ کا نام لیتا ہے خطیب

اب علو پایۂ منبر کھال سکۂ شہ کا ہوا ہے رو شناس

اب عیار آبروۓ زر کھال شاه کے آگے دھرا ہے آئنہ اب مآل سعی اسکندر کھال

ملک کے وارث کو دیکھا خلق نے ھالاب فریب طغرل و سنجر ک

ہو سکے کیا مدح، ہاں، اک نام ہے مدح جہاں داور کھالفتر د

فکر اچھی پر ستائش نا تمام گر کھالشئستاعجز اعجاز

جانتا ہوں، ہے خط لوح ازل کھال!آورتم پہ اے خاقان نام

تم کرو صاحبقرانی، جب تلک !ہے طلسم روز و شب کا در کھال

۔5

ایلین براؤن شہر و سپاهلشکر، پناه کشور و مالذ

جناب عالی ایلن برون واال جاه بلند رتبہ وه حاکم وه سرفراز امیر

کہ باج تاج سے لیتا ہے جس کا طرف کاله وه محض رحمت و رافت کہ بہر اہل جہاں

دم عیسی کرے ہے جس کی نگاهنیابت وه عین عدل کہ دہشت سے جس کی پرسش کی

کاهۀپر آتش انیس ۂبنے ہیں شعل گوہر اٹھے بجاۓ غبارۀزمیں سے سود

)جویریہ مسعود("پائیں" میں نسخۂ مہر 231

دونوں طرح شعر تقریبا ہم معنی ہی رہتا ہے۔ متن نسخۂ خامے سے پائی طبیعت نے مدد۔: نسخۂ عرشی میں یہ مصرع یوں چھپا ہے: مزید بادباں کے اٹھتے ہی لنگر کھال: نظامی کے مطابق ہے۔ نسخۂ مہر میں دوسرا مصرع یوں چھپا ہے

)حامد علی خان(۔ لنگر اٹھتا، بادبان کھلتا ہے۔ یہ صریحا سہو کتابت ہے

Page 147: Ghalib the Great Poet

146

ے جوالں گاهجہاں ہو توسن حشمت کا اس ک "الہی شکر" وه مہرباں ہو تو انجم کہیں

"خدا کی پناه" وه خشمگیں ہو تو گردوں کہے یہ اس کے عدل سے اضداد کو ہے آمیزش

کہ دشت و کوه کے اطراف میں بہ ہر سر راه کام شانے کاہزبر پنجے سے لیتا ہے

کبھی جو ہوتی ہے الجھی ہوئی دم رو باه نہ آفتاب، ولے آفتاب کا ہم چشم

نہ بادشاه، ولے مرتبے ہیں ہمسر شاه خدا نے اس کو دیا ایک خوبرو فرزند ستاره جیسے چمکتا ہوا بہ پہلوۓ ماه

روشن کہ جو اسے دیکھےۀزہے ستار شعاع مہر درخشاں ہو اس کا تار نگاه

سے ہے یہ توقع کہ عہد طفلی میںخدا بنے گا شرق سے تا غرب اس کا بازی گاه

ہوکے کرے گا یہ وه جہان بانیجوان کہ تابع اس کے ہوں روز و شب سپید و سیاه

ر شکوهہپکہے گی خلق اسے داور س لکھیں گے لوگ اسے خسرو ستاره سپاه

عطا کرے گا خداوند کارساز اسے دل آگاهروان روشن و خوۓ خوش و

ملے گی اس کو وه عقل نہفتہ داں کہ اسے گواهپڑے نہ قطع خصومت میں احتیاج

یہ ترکتاز سے برہم کرے گا کشور روس تخت و کاله،یہ لے گا بادشہ چیں سے چھین

سنین عیسوی اٹھاره سو اور اٹھاون یہ چاہتے ہیں جہاں آفریں سے شام و پگاه

و جاویںیہ جتنے سیکڑے ہیں سب ہزار ہ دراز اس کی ہو عمر اس قدر، سخن کوتاه

"رائنشیو ن"ت اامید وار عنای

کہ آپ کا ہے نمک خوار اور دولت خواه یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں عز و جاه کے ساتھ تمہیں اور اس کو سالمت رکھے سدا هللا۔

۔6

Page 148: Ghalib the Great Poet

147

سالگره پریالور کوالئ

گئی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گره ی حساب میں باقی ہیں سو ہزار گرهابھ

گره کی ہے یہی گنتی کہ تا بہ روز شمار پیش کار گره،ہوا کرے گی ہر اک سال

برس گانٹھ کا جو ہے تاگا! یقین جان یہ کہکشاں ہے کہ ہیں اس میں بے شمار گره

گره سے اور گره کی امید کیوں نہ پڑے کہ ہر گره کی گره میں ہیں تین چار گره

تشی سے پوچھا تھاے رشتہ کسی جودکھاک یہ تار گرهکہ دیکھو کتنی اٹھاالۓ گا

یںو گرھکہا کہ چرخ پہ ہم نے گنی ہیں ن یاں گنیں گے تو پاویں گے نو ہزار گرهجو

خود آسماں ہے مہا راجا راؤ پر صدقے اس تار پر نثار گره،کرےگا سیکڑوں

وه راؤ راجا بہادر کہ حکم سے جن کے ہ فی الفور دانہ وار گرهرواں ہو تار پ

سال بہ سالہے انہیں کی سالگره کے لئے کہ الۓ غیب سے غنچوں کی نو بہار گره

انہیں کی سالگره کے لئے بناتا ہے ر تگرگ بار گرهہوا میں بوند کو اب

انہیں کی سالگره کی یہ شادمانی ہے کہ ہو گئے ہیں گہرہاۓ شاہوار گره

توقیرانہیں کی سالگره کے لئے ہے یہ کہ بن گئے ہیں ثمرہاۓ شاخسار گره

برس گانٹھ کے یہ تاگے نے!اے ندیم،سن تجھے بتاؤں کہ کیوں کی ہے یہ اختیار گره

پئے دعاۓ بقاۓ جناب فیض مآب لگےگی اس میں ثوابت کی استوار گره

ہزار دانہ کی تسبیح چاہتا ہے یہی بالمبالغہ درکار ہے ہزار گره

جاذبہ اس کوعطا کیا ہے خدا نے یہ کہ چھوڑتا ہی نہیں رشتہ زینہار گره

کشاده رخ نہ پھرے کیوں جب اس زمانے میں بچے نہ از پے بند نقاب یار گره متاع عیش کا ہے قافلہ چال آتا

Page 149: Ghalib the Great Poet

148

کہ جاده رشتہ ہے اور ہے شتر قطار گره کو، دستگاه سخنغالب خدا نے دی ہے وه

کروڑ ڈھونڈ کے التا ہے خاکسار گره ں مجال سخن؟ سانس لے نہیں سکتاکہا

پڑی ہے دل میں مرے، غم کی پیچ دار گره گره کا نام لیا پر نہ کرسکا کچھ بات

ور استوار گرهہوئی ا ،کےزباں تک آ کھلے یہ گانٹھ تو البتہ دم نکل جاوے

بری طرح سے ہوئی ہے گلے کا ہار گره ادھر نہ ہوگی توجہ حضور کی جب تک

لےگی نہ زینہار گرهکبھی کسے سے کھ دعا ہے یہ کہ مخالف کے دل میں از ره بغض

پڑی ہے یہ جو بہت سخت نابکار گره دل اس کا پھوڑ کے نکلے بہ شکل پھوڑے کی

بھار گرهخدا کرے کہ کرے اس طرح ا

Page 150: Ghalib the Great Poet

149

۔7 میکلوڈ صاحب کی خدمت میں

کرتا ہے چرخ روز بصد گونہ احترام فرماں رواۓ کشور پنجاب کو سالم

گو و حق پرست و حق اندیش و حق شناسحق مستطاب، امیر شہ احتشامنواب

جم رتبہ میکلوڈ بہادر کہ وقت رزم امسرک فلک کے ہاتھ سے وه چھین لیں ح ت

جس بزم میں کہ ہو انہیں آئین میکشی آفتاب جام،واں آسمان شیشہ بنے

چاہا تھا میں نے تم کو مہ چار ده کہوں بھی ہے تیرا خیال خامنے کہا کہ یہدل

دو رات میں تمام ہے ہنگامہ ماه کا حضرت کا عز و جاه رہے گا علی الدوام

جس کے فروغ سے،تم آفتاب ہوسچ ہے دریاۓ نور ہے فلک آبگینہ فام

میری سنو، کہ آج تم اس سرزمیں پر حق کے تفضالت سے ہو مرجع انام اخبار لدھیانہ میں، میری نظر پڑی

ر ایک، جس سے ہوا بنده تلخ کامتحری ٹکڑے ہوا ہے دیکھ کے تحریر کو جگر

کاتب کی آستیں ہے مگر تیغ بے نیام لکھاوه فرد جس میں نام ہے میرا غلط

کلیجا لیا ہے تھام،آگئی ہےیاد جب سب صورتیں بدل گئیں ناگاه یک قلم لمبر رہا نہ نذر، نہ خلعت کا انتظام

ں گدازاہ داغ جستر برس کی عمر میں ی جس نے جال کے راکھ مجھے کردیا تمام

کی تاریخ تیرھویںمہینےتھی جنوری استاده ہو گئے لب دریا پہ جب خیام

ر فروغ میں اس تیره بخت کواس بزم پ لمبر مال نشیب میں از روۓ اہتمام

گراب، ہوا پاش پاش دلسمجھا اسے بار میں جو مجھ پہ چلی چشمک عوامدر

اہل نام کی ہستی کی ہے بناءعزت پہ عزت جہاں گئی تو نہ ہستی رہے نہ نام

تھا ایک گونہ ناز جو اپنے کمال پر

Page 151: Ghalib the Great Poet

150

اس ناز کا فلک نے لیا مجھ سے انتقام آیا تھا وقت ریل کے کھلنے کا بھی قریب

اژدہامتھا بارگاه خاص میں خلقت کا اس کشمکش میں آپ کا مداح دردمند

ھ کرسکا کالمآقاۓ نامور سے نہ کچ جو واں نہ کہ سکا تھا وه لکھا حضور کو

دیں آپ میری داد کہ ہوں فائز المرام کچھ ضرر نہیں،ملک و سپہ نہ ہو تو نہ ہو

غالممیں کے در کا ہوں ر و بحر سلطان ب وکٹوریہ کا دہر میں جو مداح خوان ہو

واممصر چاہیئے لیں عزت اس سے شاہان رنمنٹ کو ضرورخود ہے تدارک اس کا گو

ہے جس کا نامغالب بے وجہ کیوں ذلیل ہو امر جدید کا تو نہیں ہے مجھے سوال

بارے قدیم قاعدے کا چاہیئے قیام عزت کی آرزوۀبنده کو اعادہے

چاہیں اگر حضور تو مشکل نہیں یہ کام دستور فن شعر یہی ہے قدیم سے

ہیں اختتامےیعنی دعا پہ مدح کا کرت ا کہ زیر نگیں آپ کے رہےہے یہ دع

اقلیم ہند و سند سے تا ملک روم و شام

Page 152: Ghalib the Great Poet

151

۔8 یوسف علی خاںنواب

مرحبا سال فرخی آئیں

عید شوال و ماه فروردیں شب و روز افتخار لیل و نہار

نیںس مہ و سال اشرف شہور و گرچہ ہے بعد عید کے نوروز لیک، بیش از سہ ہفتہ بعد نہیں

یس دن میں ہولی کیاس اک سو جابجا مجلسیں ہوئیں رنگیں

شہر میں کو بکو عبیر و گالل باغ میں سو بہ سو گل و نسریں

گلزارۂشہر گویا نمون چیںۂباغ گویا نگارخان

تین تہوار اور ایسے خوب جمع ہرگز ہوۓ نہ ہوں گے کہیں

مہینے میںسیہے اپھر ہوئی منعقد محفل نشاط قریں

نوابت محفل غسل صح رونق افزاۓ مسند تمکیں

بزم گہ میں، امیر شاه نشاں رزم گہ میں حریف شیر کمیں جن کے مسند کا آسماں گوشہ جن کی خاتم کا آفتاب نگیں

جن کے دیوار قصر کے نیچے آسماں ہے گداۓ سایہ نشیں

دہر میں اس طرح کی بزم سرور نہ ہوئی ہو کبھی بہ روۓ زمیں

آگیں فرشانجمیں چرخ، گوہر ساغر سیمیں،نور، مے، ماه

ر کا جو اکھاڑا ہےند راجا ا

ہے وه باالۓ سطح چرخ بریں وه نظرگاه اہل وہم و خیال

یہ ضیاء بخش چشم اہل یقیں ؟واں کہاں یہ عطاء و بذل و کرم

Page 153: Ghalib the Great Poet

152

کہ جہاں گریہ گر کا نام نہیں ہاں زمیں پر نظر جہاں تک جاۓ

میںژالہ آسا بچھے ہیں در ث مطربان زہره نواۂنغم

لولیان ماه جبیںۀجلو اس اکھاڑے میں جو کہ ہے مظنون

یںیاں وه دیکھا بہ چشم صورت ب سرور مہر فر ہوا جو سوار

بہ کمال تجمل و تزئیں نے جانا کہ ہے پری توسنسب

اور بال پری ہے دامن زیں نقش سم سمند سے، یکسر بن گیا دشت دامن گلچیں

کی گرد راه مشک فشاںفوج رہروؤں کے مشام عطر آگیں

عزتبس کہ بخشی ہے فوج کو فوج کا ہر پیاده ہے فرزیں

موکب خاص یوں زمیں پر تھا پر پرویںسپہرجس طرح ہے

چھوڑدیتا تھا گور کو بہرام تازه دے کے وہیںداغران پر

اور داغ آپ کی غالمی کا خاص بہرام کا ہے زیب سریں

ر ثنا طرازی سےبنده پرو مدعا عرض فن شعر نہیں آپ کی مدح اور میرا منہ

گر کہوں بھی تو آۓ کس کو یقیں اور پھر اب کہ ضعف پیری سے ہو گیا ہوں نزار و زار و حزیں

پیری و نیستی خدا کی پناه دست خالی و خاطر غمگیں صرف اظہار ہے ارادت کا

ہے قلم کی جو سجده ریز جبیں ہیں دعاگو ہےمدح گستر ن

عاجز نیاز آگیںغالب ہے دعا بھی یہی کہ دنیا میں

تم رہو زنده جاوداں، آمیں

Page 154: Ghalib the Great Poet

153

۔9

مدح نصرت الملک بہادر

نصرت الملک بہادر مجھے بتال کہ مجھے تجھ سے جو اتنی ارادت ہے تو کس بات سے ہے؟

گرچہ تو وه ہے کہ ہنگامہ اگر گرم کرے ے ہےرونق بزم مہ و مہر تری ذات س

اور میں وه ہوں کہ ، گر جی میں کبھی غور کروں غیر کیا ، خود مجھے نفرت میری اوقات سے ہے خستگی کا ہو بھال ، جس کے سبب سے سر دست نسبت اک گونہ مرے دل کو ترے ہات سے ہے

ہاتھ میں تیرے رہے توسن دولت کی عناں یہ دعا شام و سحر قاضئ حاجات سے ہے

فخر ہے ملنا تیرامرا ،ہےتو سکندر گو شرف خضر کی بھی مجھ کو مالقات سے ہے

اس پہ گزرے نہ گماں ریو و ریا کا زنہار خاک نشیں اہل خرابات سے ہےغالب

۔10

در مدح شاه

جہاں داربخش اے شاه جہاں گیر جہاں ہے غیب سے ہر دم تجھے صد گونہ بشارت

وا ہواجو عقدۀ دشوار کہ کوشش سے نہ اشارتتو وا کرے اس عقدے کو ، سو بھی بہ

ممکن ہے ، کرے خضر سکندر سے ترا ذ کر گر لب کو نہ دے چشمۂ حیواں سے طہارت آصف کو سلیماں کی وزارت سے شرف تھا ہے فخر سلیماں ، جو کرے تیری وزارت

ہے نقش مریدی ترا ، فرمان الہی ارتہے داغ غالمی ترا ، توقیع ام

تو آب سے گر سلب کرے طاقت سیالں تو آگ سے گر دفع کرے تاب شرارت ڈھونڈے نہ ملے موجۂ دریا میں روانی باقی نہ رہے آتش سوزاں میں حرارت

ہے گر چہ مجھے نکتہ سرائی میں توغل

Page 155: Ghalib the Great Poet

154

ہے گر چہ مجھے سحر طرازی میں مہارت کیوں کر نہ کروں مدح کو میں ختم دعا پر

میں تری ، میری عبارت232ائشقاصر ہے ست نو روز ہے آج اور وه دن ہے کہ ہوئے ہیں

نظارگئ صنعت حق اہل بصارت !تجھ کو شرف مہر جہانتاب مبارک

!کو ترے عتبۂ عالی کی زیارت غالب

)حامد علی خان(چھپا ہے، ستائش ہی بہ ظاہر درست ہے۔ " شکایت"جی جگہ " ستائش:نسخۂ نظامی میں 232

Page 156: Ghalib the Great Poet

155

۔11 گزارش مصنف بحضور شاه

اے شہنشاه آسماں اورنگ

اے جہاندار آفتاب آثار نواۓ گوشہ نشیںتھا میں اک بے

تھا میں اک دردمند سینہ فگار تم نے مجھ کو جو آبرو بخشی

ہوئی میری وه گرمئ بازار کہ ہوا مجھ سا ذرۀ ناچیز روشناس ثوابت و سیار

گر چہ از روۓ ننگ و بے ہنری ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی

و عارجانتا ہوں کہ آۓ خاک ک کہ ہوں،شاد ہوں لیکن اپنے جی میں

بادشہ کا غالم کار گزار خانہ زاد اور مرید اور مداح

تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ نگار بارے نوکر بھی ہو گیا صد شکر

نسبتیں ہو گئیں مشخص چار نہ کہوں آپ سے تو کس سے کہوں

مدعائے ضروری االظہار اگرچہ مجھ کو نہیں! پیر و مرشد

ذوق آرائش سر و دستار کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر

تا نہ دے باد زمہریر آزار کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش جسم رکھتا ہوں ، ہے اگرچہ نزار کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال

کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار !رات کو آگ اور دن کو دھوپ

!بھاڑ میں جائیں ایسے لیل و نہار اپے کہاں تلک انسانآگ ت

کہاں تلک جاندار233دھوپ کھاوے !دھوپ کی تابش ، آگ کی گرمی

)جویریہ مسعود("کھاۓ"نسخۂ مہر میں 233

Page 157: Ghalib the Great Poet

156

!وقنا ربنا عذاب النار میری تنخواه جو مقرر ہے

اس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار رسم ہے مردے کی چھ ماہی ایک

خلق کا ہے اسی چلن پہ مدار ، ہوں بہ قید حیات234مجھ کو دیکھو تو

!اور چھ ماہی ہو سال میں دوبار بس کہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض اور رہتی ہے سود کی تکرار

میری تنخواه میں تہائی کا ہوگیا ہے شریک ساہو کار آج مجھ سا نہیں زمانے میں شاعر نغزگوۓ خوش گفتار رزم کی داستان گر سنئیے

ہے زباں میری تیغ جوہر دار بزم کا التزام گر کیجے

ابر گوہر بار235ہے قلم میری ظلم ہے گر نہ دو سخن کی داد قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار آپ کا بنده ، اور پھروں ننگا ؟

آپ کا نوکر ، اور کھاؤں ادھار ؟ میری تنخواه کیجے ماه بہ ماه

تا ، نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار :ختم کرتا ہوں اب دعا پہ کالم

)ھے سروکارشاعری سے نہیں مج( تم سالمت رہو ہزار برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

)امد علی خانح(چھپا ہے۔ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ " کہ"کی جگہ " تو"بعض قدیم و جدید نسخوں میں 234)حامد علی خان(۔ مذکر و مونث دونوں طرح لکھا ہےغالب نے قلم235

Page 158: Ghalib the Great Poet

157

مثنوی ۔1

در صفت انبہ

ہاں، دل درد مند زمزمہ سازکیوں نہ کھولے در خزینۂ رازخامے کا صفحے پر رواں ہونا

شاخ گل کا ہے گلفشاں ہونامجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھیے؟

!نکتہ ہائے خرد فزا لکھیےرے، آموں کا کچھ بیاں ہوجائےبا

خامہ نخل رطب فشاں ہوجائےآم کا کون مرد میدان ہے

ثمر و شاخ گوئے و چوگاں ہےتاک کے جی میں کیوں رہے ارماں

آئے، یہ گوئے اور یہ میداںخاک236جاوےآم کے آگے پیش

پھوڑتا ہے جلے پھپھولے تاکنہ چال جب کسی طرح مقدور

بادۀ ناب بن گیا انگورہ بھی ناچار جی کا کھونا ہےی

شرم سے پانی پانی ہونا ہے!مجھ سے پوچھو، تمہیں خبر کیا ہے

!آم کے آگے نیشکر کیا ہے237نہ شاخ و برگ، نہ بار نہ گل اس میں

238جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار

اور دوڑائیے قیاس کہاںجان شیریں میں یہ مٹھاس کہاںجان میں ہوتی گر یہ شیرینی

باوجود غمگینیکوہکن

)جویریہ مسعود("جاۓ"نسخۂ مہر میں236 )جویریہ مسعود(نہ شاخ و برگ و بار"نسخۂ آسی میں 237

)نسخۂ مہر ( جب خزاں ہو تب آۓ اس کی بہار 238

Page 159: Ghalib the Great Poet

158

جان دینے میں اس کو یکتا جانپر وه یوں سہل دے نہ سکتا جاننظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر

کہ دوا خانۂ ازل میں، مگرآتش گل پہ قند کا ہے قوام

شیرے کے تار کا ہے ریشہ نامیا یہ ہوگا، کہ فرط رافت سےباغبانوں نے باغ جنت سے

انگبیں کے، بہ حکم رب الناسبھر کے بھیجے ہیں سربمہر گالس

یا لگا کر خضر نے شاخ نباتمدتوں تک دیا ہے آب حیاتتب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل

ہم کہاں ورنہ اور کہاں یہ نخلتھا ترنج زر ایک خسرو پاسرنگ کا زرد پر کہاں بو باس

آم کو دیکھتا اگر اک بارپھینک دیتا طالئے دست افشار

گ و نوارونق کارگاه برنازش دودمان آب و ہوارہرو راه خلد کا توشہ

طوبی و سدره کا جگر گوشہو بار ہے آم239برگوخشاصاحب

ناز پروردۀ بہار ہے آمخاص وه آم جو نہ ارزاں ہو

نو بر نخل باغ سلطاں ہووه کہ ہے والئ والیت عہد

عدل سے اس کے ہے حمایت عہد240جاللفخر دیں عز شان و جاه

زینت طینت و جمال کمالکار فرمائے دین و دولت و بختچہره آرائے تاج و مسند و تخت

سایہ اس کا ہما کا سایہ ہےخلق پر وه خدا کا سایہ ہے!اے مفیض وجود سایہ و نور

)جویریہ مسعود" (شاخ برگ و بار" نسخۂ مہر میں 239

)حامد علی خان(چھپا ہے۔ اس سے کوئی خاص معنوی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ " عز جاه و شان جالل"نسخۂ مہر میں 240

Page 160: Ghalib the Great Poet

159

جب تلک ہے نمود سایہ و نوراس خداوند بنده پرور کو

وارث گنج و تخت و افسر کوو شادماں رکھیوشاد و دلشاد

!پہ مہرباں رکھیوغالب اور ۔2

ایک دن مثل پتنگ کاغذی لے کے دل سر رشتۂ آزادگی

خود بخود کچھ ہم سے کنیانے لگا اس قدر بگڑا کہ سر کھانے لگا !میں کہا، اے دل، ہواۓ دلبراں اںیزبس کہ تیرے حق میں رکھتی ہے بیچ میں ان کے نہ آنا زینہار

کے یار غارےے کسگیںہیہ نہیں گورے پنڈے پر نہ کر ان کے نظر

کرالڈکھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے اب تو مل جاۓ گی ان سے تیری گانٹھ

241لیکن آخر کو پڑے گی ایسی سانٹھ تجھےھانالجسسخت مشکل ہوگا

قہر ہے، دل ان میں الجھانا تجھے یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے

ں تجھےبھول مت اس پر اڑاتے ہی دیں گے کہیںاڑلکو ھجتایک دن

مفت میں ناحق کٹا دیں گے کہیں کھا پیچ و تاب،کانپ کر۔نے سن کردل

غوطے میں جا کر، دیا کٹ کر جواب رشتۂ در گردنم افگنده دوست

اوستخواه می برد ہر جا کہ خاطر

:نسخۂ مہر میں یہ شعر اس طرح درج ہے241

اب تو مل جاۓ گی ان سے تیری سانٹھ لیکن آخر کو پڑے گی ایسی گانٹھ

)جویریہ مسعود(

Page 161: Ghalib the Great Poet

160

خمسہ

تضمین بر غزل بہادر شاه ظفر

ھی ره گئیگھستے گھستے پاؤں کی زنجیر آد مر گۓ پر قبر کی تعمیر آدھی ره گئی

سب ہی پڑھتا کاش، کیوں تکبیر آدھی ره گئی جب تری شمشیر آدھی ره گئی! کھنچ کے، قاتل"

"غم سے جان عاشق دل گیر آدھی ره گئی

بیٹھ رہتا لے کے چشم پر نم اس کے روبرو غم اس کے روبرول کادکیوں کہا تو نے کہ کہہ

میں نکلتا ہے دم اس کے روبروبات کرنے ہم اس کے روبروکبکہہ سکے ساری حقیقت"

"آدھی ره گئی،آدھی ہوئی تقریر! ہم نشیں

!مجھ پہ کیسی بن گئی، اے رازدار! تو نے دیکھا خواب و بیداری پہ کب ہے آدمی کو اختیار

مثل زخم آنکھوں کو سی دیتا، جو ہوتا ہوشیار واب میں تصویر یارکھینچتا تھا رات کو میں خ"

"جاگ اٹھا جو، کھینچنی تصویر آدھی ره گئی

!غم نے جب گھیرا، تو چاہا ہم نے یوں، اے دل نواز مستئ چشم سیہ سے چل کے ہوویں چاره ساز تو صداۓ پا سے جاگا تھا، جو محو خواب ناز

تیری چشم نیم باز! دیکھتے ہی اے ستم گر" "آدھی ره گئیکی تھی پوری ہم نے جو تدبیر،

اس بت مغرور کو کیا ہو کسی پر التفات

جس کے حسن روز افزوں کی یہ اک ادنی ہے بات ماه نو نکلے پہ گزری ہوں گی راتیں پان سات

اس رخ روشن کے آگے ماه یک ہفتہ کی رات" "تابش خورشید پر تنویر آدھی ره گئی

ہے گھات میںبدخت بتا مجھے پہنچاۓ کاہش،

Page 162: Ghalib the Great Poet

161

اگر کچھ ہے، تو ہے آفات میں! ہاں فراوانی و الم، گھاٹا ہے ہر اک بات میںداغغم جز

کم نصیبی اس کو کہتے ہیں کہ میرے ہات میں" "آتے ہی خاصیت اکسیر آدھی ره گئی

سب سے یہ گوشہ کنارے ہے، گلے لگ جا مرے

آدمی کو کیا پکارے ہے، گلے لگ جا مرے گلے لگ جا مرےسر سے گر چادر اتارے ہے،

مانگ کیا بیٹھا سنوارے ہے، گلے لگ جا مرے" "وصل کی شب، اے بت بے پیر آدھی ره گئی

میں یہ کیا جانوں کہ وه کس واسطے ہوں پھر گۓ

سنا، جوں پھر گئےےپھر نصیب اپنا، انھیں جات دیکھنا قسمت وه آۓ، اور پھر یوں پھر گۓ

پھر گۓآ کے آدھی دور، میرے گھر سے وه کیوں" "کیا کشش میں دل کی ان تاثیر آدھی ره گئی

کی باتبک! ناگہاں یاد آگئی ہے مجھ کو، یا رب

باتسب کیسن رہا ہوں ،کچھ نہیں کہتا کسی سے باتوه پرسوں شب کی ! کس لۓ تجھ سے چھپاؤں، ہاں

نامہ بر جلدی میں تیری وه جو تھی مطلب کی بات" "ی ره گئیخط میں آدھی ہو سکی، تحریر آدھ

ہے یہ بھی غضب،ہو تجلی برق کی صورت میں

ہوتی فرصت عیش و طربگھنٹے توچھہ پانچ شام سے آتے تو کیا اچھی گزرتی رات سب

پاس میرے وه جو آۓ بھی، تو بعد از نصف شب" "آدھی ره گئی! نکلی آدھی حسرت، اے تقدیر

آشفتہ سرغالب تم جو فرماتے ہو، دیکھ اے

کو منع کرتے تھے، گیا کیوں اس کے گھر؟ہم نہ تجھ جان کی پاؤں اماں، باتیں یہ سب سچ ہیں مگر

دل نے کی ساری خرابی، لے گیا مجھ کو ظفر"" "واں کے جانے میں مری توقیر آدھی ره گئی

Page 163: Ghalib the Great Poet

162

مرثیہ

اے نفس باد سحر شعلہ فشاں ہو! ہاں چشم مالئک سے رواں ہو! اے دجلۂ خوں

عیسی پہ فغاں ہولب ! اے زمزمۂ قم کہاں ہو! اے ماتمیان شہ مظلوم

بگڑی ہے بہت بات، بناۓ نہیں بنتی

بنتیاب گھر کو بغیر آگ لگاۓ نہیں

تاب سخن و طاقت غوغا نہیں ہم کو ماتم میں شہ دیں کے ہیں، سودا نہیں ہم کو گھر پھونکنے میں اپنے، محابا نہیں ہم کو

نہیں ہم کوگر چرخ بھی جل جاۓ تو پروا

ہے242بپایہ خرگۂ نہ پایا جو مدت سے کیا خیمۂ شبیر سے رتبے میں سوا ہے؟

ہے جہاں کاتاآکچھ اور ہی عالم نظر

کچھ اور ہی نقشہ ہے دل و چشم و زباں کا !اور مہر جہاں تاب کہاں کا! کیسا فلک

ہوگا دل بےتاب کسی سوختہ جاں کا

243نہیں ہےاب صاعقہ و مہر میں کچھ فرق گرتا نہیں اس رو سے کہو برق نہیں ہے

سالم

سالم اسے کہ اگر بادشہ کہیں اس کو

)عودجویریہ مس("بہ جا" نسخۂ مہر میں 242

:نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ اس طرح درج ہے243 اب مہر میں اور برق میں کچھ فرق نہیں ہے

)جویریہ مسعود(

Page 164: Ghalib the Great Poet

163

تو پھر کہیں کچھ اس سے سوا کہیں اس کو نہ بادشاه نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے کہو کہ خامس آل عبا کہیں اس کو

خدا کی راه میں ہے شاہی و خسروی کیسی؟ یں اس کوخدا کہراه کہو کہ رہبر

خدا کا بنده، خداوندگار بندوں کا ؟اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اس کو

حسین ابن علی،فروغ جوہر ایماں کہیں اس کویا کہ شمع انجمن کبر

کفیل بخشش امت ہے، بن نہیں پڑتی اگر نہ شافع روز جزا کہیں اس کو

فیض جاں بخشیذ خامسیح جس سے کرے کشتۂ تیغ جفا کہیں اس کوستم ہے

وه جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل شہید تشنہ لب کربال کہیں اس کو

عدو کی سمع رضا میں جگہ نہ پاۓ وه بات کہ جن و انس و ملک سب بجا کہیں اس کو

گرد ره حسین بلندۂ یپابہت ہے بقدر فہم ہے گر کیمیا کہیں اس کو

ک ہر ایک ذرۀ خاکنظاره سوز ہے یاں ت تیغ قضا کہیں اس کو244کہ لوگ جوہر

ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اس کو

یں اس کے حسن صبر کی دادہمارا منہ ہے کہ د مگر نبی و علی مرحبا کہیں اس کو

زمام ناقہ کف اس کے میں ہے کہ اہل یقیں پیشوا کہیں اس کوعلی حسین پس از وادی میں خامہ فرسا ہے245لقمۂوه ریگ خدا رہنما کہیں اس کوطالبان کہ

امام وقت کی یہ قدر ہے کہ اہل عناد پیاده لے چلیں اور ناسزا کہیں اس کو یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمن دیں

علی سے آگے لڑے اور خطا کہیں اس کو پایہیزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا

)جویریہ مسعود("کہ ایک جوہر" نسخۂ مہر میں 244

)جویریہ مسعود("تفتہ"نسخۂ مہر میں 245

Page 165: Ghalib the Great Poet

164

گر ہم برا کہیں اس کوۓیمانبرا نہ علی کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسین کرے جو ان سے برائی، بھال کہیں اس کو؟

نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے سے جو بغض، کیا کہیں اس کو؟امامرکھے

دل خستہ کے کالم میں دردغالب بھرا ہے اس کوغلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں

Page 166: Ghalib the Great Poet

165

سہرے ۔1

خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا246 جواں بخت کے سر پر سہرا247شہزادهباندھ

!کیا ہی اس چاند سے مکھڑے پہ بھال لگتا ہے ہے ترے حسن دل افروز کا زیور سہرا

سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرف کاله مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا لمبر سہرا ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی ورنہ کیوں الۓ ہیں کشتی میں لگا کر سہرا

موتیسات دریا کے فراہم کئے ہوں گے تب بنا ہوگا اس انداز کا گز بھر سہرا

رخ پہ دولھا کے جو گرمی سے پسینا ٹپکا ہے رگ ابر گہر بار سراسر سہرا ھ جاۓیہ بھی اک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑ

ره گیا آن کے دامن کے برابر سہرا جی میں اترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اک چیز

سہرا248رچاہیے پھولوں کا بھی ایک مقر جب کہ اپنے میں سماویں نہ خوشی کے مارے گوندھے پھولوں کا بھال پھر کوئی کیونکر سہرا

کی چمک249غلتاںرخ روشن کی دمک ، گوہر فروغ مہ و اختر سہراۓھالکیوں نہ دک

تار ریشم کا نہیں ، ہے یہ رگ ابر بہار !الۓ گا تاب گرانبارئ گوہر سہرا

کے طرفدار نہیںغالب ہم سخن فہم ہیں ، 250!دیکھیں ، اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا

)حامد علی خان(غالب نے یہ سہرا اپنے دیوان میں شامل نہیں کیا تھا۔ 246)ج۔م۔("شہزادے" نسخۂ مہر میں 247)حامد علی خان(چھپا ہے لیکن کسی اور نسخے میں اس کی سند نہیں ملی۔ " مکرر"نسخۂ حسرت میں 248 )ج۔م۔(بھی ہے" غلطاں"اس کی ایک امال 249

:نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ اس طرح درج ہے250 !دیکھیں ، کہہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا

)ج۔م(چھپا ہے مگر مروجہ نسخوں میں اختالف ہے۔ معلوم نہیں کہ غالب نے " کی جگہ بہتر" بڑھ کر"آب حیات میں محمد حسین آزاد کی: مزید

)حامد علی خان(کیا کہا تھا۔

Page 167: Ghalib the Great Poet

166

۔2 ۔ق۔

ہم نشیں تارے ہیں، اور چاند شہاب الدیں خاں اہکشاں ہے سہرابزم شادی ہے فلک، ک

کی موجیں سمجھوحربلڑیاں نہ کہو، کوان ہے تو کشتی میں، ولے بحر رواں ہے سہرا

۔3

چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا

چاند کا دائره لے، زہره نے گایا سہرا رشک سے لڑتی ہیں آپس میں الجھ کر لڑیاں

اٹھایا سہراسر پہجبباندھنے کے لۓ

Page 168: Ghalib the Great Poet

167

۔4

)غالب گزارش (صنف بیان م

منظور ہے گزارش احوال واقعی اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے

سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے

آزاده رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غالم ہوں

مانا کہ جاه و منصب و ثروت نہیں مجھے استاد شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال؟ یہ تاب ، یہ مجال ، یہ طاقت نہیں مجھے

جام جہاں نما ہے شہنشاه کا ضمیر سوگند اور گواه کی حاجت نہیں مجھے

میں کون ، اور ریختہ ، ہاں اس سے مدعا جز انبساط خاطر حضرت نہیں مجھے

لکھا گیا ز ره امتثال امرسہرا دیکھا کہ چاره غیر اطاعت نہیں مجھے

سخن گسترانہ بات251ہےمقطع میں آ پڑی مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاه

سودا نہیں ، جنوں نہیں ، وحشت نہیں مجھے قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں

کہ شکایت نہیں مجھےہے شکر کی جگہ ، خدا گواهغالب 252صادق ہوں اپنے قول میں

کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

)جویریہ مسعود("تھی" نسخۂ مہر میں 251

)حامد علی خان" (قول میں"چھپا ہے، نسخۂ نظامی میں " قول کا"آزاد کے آب حیات میں 252

Page 169: Ghalib the Great Poet

168

قطعات ۔1

غالب گزارش اے شہنشاه فلک منظر بے مثل و نظیر اے جہاندار کرم شیوۀ بے شبہ و عدیل

سے تیرے ملے فرق ارادت ا ورنگؤںپا ا کلیلفرق سے تیرے کرے کسب سعادت

تیرا انداز سخن شانۂ ز لف الہام تیری رفتار قلم جنبش بال جبریل

تجھ سے عالم پہ کھال رابطۂ قرب کلیم تجھ سے دنیا میں بچھا مائدۀ بذل خلیل

بہ سخن ا وج ده مرتبۂ معنی و لفظ ناصیۂ قلزم و نیلہ بہ کرم داغ ن

253یش و طرب کی توفیرتا ، ترے وقت میں ہو ع تا ، ترے عہد میں ہو رنج و الم کی تقلیل

ماه نے چھوڑ دیا ثور سے جانا باہر زہره نے ترک کیا حوت سے کرنا تحویل

کی رہیناسد دانش ، مری اصالح مفتیری بخشش ، مرے انجاح مقاصد کی کفیلتیری

م مرے جینے کی نویدتیرا اقبال ترح نداز تغافل مرے مرنے کی دلیلاتیرا

بخت ناساز نے چاہا کہ نہ دے مجھ کو اماں چرخ کج باز نے چاہا کہ کرے مجھ کو ذلیل پیچھے ڈالی ہے سر رشتۂ اوقات میں گانٹھ پہلے ٹھونکی ہے بن ناخن تدبیر میں کیل

تپش دل نہیں بے رابطۂ خوف عظیم ثقیلکشش دم نہیں بے ضابطۂ جر

در معنی سے مرا صفحہ ، لقا کی ڈاڑھی کی زنبیل254مرا غم گیتی سے مرا سینہ

فکر میری گہر اندوز اشارات کثیر کلک میری رقم آموز عبارات قلیل

میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدق توضیح

)حامد علی خان(توقیر۔ : نسخۂ نظامی، سہو کتابت253کی زنبیل ہی )جسے عمرو عیار بھی کہتے ہیں(غالب نے اسے جان بوجھ کر الف سے لکھا ہے حاالں کہ زنبیل سے مراد عمر عیار 254

)اعجاز عبید( تعالی عنہ کی طرف نہ جاۓ۔ہے۔ مبادا یہ دانستہ اس لۓ الف سے لکھا ہے کہ کسی کا دھیان حضرت عمر رضی هللاہی لکھنا مناسب ہے، " عمرو"ہی لکھا ہے، یعنی متحرک میم کے ساتھ۔ جن حضرات کا یہ خیال ہے کہ یہاں " امر"غالب نے یہاں : مزید

)حامد علی خان(میں میم ساکن ہے۔ " عمرو"انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ

Page 170: Ghalib the Great Poet

169

میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل نیک ہوتی مری حالت تو نہ دیتا تکلیف

ع ہوتی مری خاطر تو نہ کرتا تعجیلجم قبلۂ کون و مکاں ، خستہ نوازی میں یہ دیر؟ کعبۂ امن و اماں ، عقده کشائی میں یہ ڈھیل؟

۔2

گۓ وه دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفا داری ہم خاموش رہتے تھے،کیا کرتے تھے تم تقریر

بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی ، جانے دو ، مل جاؤ ہم سے گر یہ بھی کہیں کیوں ہم نہ کہتے تھےقسم لو

۔3

ہاۓ ہاۓ

!کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں ہکلکت ا ک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہاۓ ہاۓ

!وه سبزه زار ہاۓ مطرا کہ ، ہے غضب !وه نازنیں بتان خود آرا کہ ہاۓ ہاۓ

!صبر آزما وه ان کی نگاہیں کہ حف نظر !ه ان کا اشارا کہ ہاۓ ہاۓ طاقت ربا و

وه میوه ہاۓ تازۀ شیریں کہ ، واه واه !وه باده ہاۓ ناب گوارا کہ ہاۓ ہاۓ

255در مدح ڈلی

ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی قدر اچھا کہیےسجزیب دیتا ہے اسے

خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے ےناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہی

مہر مکتوب عزیزان گرامی لکھیے بازوۓ شگرفان خود آرا کہیےحرز

مسی آلود سر انگشت حسیناں لکھیے داغ طرف جگر عاشق شیدا کہیے

خاتم دست سلیماں کے مشابہ لکھیے

)ج۔م۔" (ڈلیچکنی " نسخۂ مہر میں عنوان 255

Page 171: Ghalib the Great Poet

170

کہیےسر پستان پریزاد سے مانا اختر سوختۂ قیس سے نسبت دیجے

یےہکرخ دل کش لیلی ین شکال مخ حجر االسود دیوار حرم کیجے فرض

نافہ آہوۓ بیابان ختن کا کہیے 256وضع میں اس کو اگر سمجھیے قاف تریاق

رنگ میں سبزۀ نوخیز مسیحا کہیے صومعے میں اسے ٹھہرائیے گر مہر نماز مے کدے میں اسے خشت خم صہبا کہیے

کیوں اسے قفل در گنج محبت لکھیے تمنا کہیےرکار پ ۂکیوں اسے نقط

ر کیجےکیوں اسے گوہر نایاب تصو کیوں اسے مردمک دیدۀ عنقا کہیے

پیراہن لیلی لکھیےۂتکمکیوں اسے کیوں اسے نقش پۓ ناقۂ سلمی کہیے

بنده پرور کے کف دست کو دل کیجے فرض اور اس چکنی سپاری کو سویدا کہیے

۔4 بیسنی روٹی

حقیقت ، حضور واال نےنہ پوچھ اس کی مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی روغنی روٹی

نہ کھاتے گیہوں ، نکلتے نہ خلد سے باہر جو کھاتے حضرت آدم یہ بیسنی روٹی

۔5 چہار شنبہ آخر ماه صفر

ہے چار شنبہ آخر ماه صفر چلو

مشک بو کی ناندۓمرکھ دیں چمن میں بھر کے کے پیے ، اور ہو کے مستجو آئے ، جام بھر

سبزے کو روندتا پھرے ، پھولوں کو جائے پھاند 257ادشاهپیہ کیا بیاں ہے ، بجز مدح غالب

خواند258بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشت

:درج ہےوںیمصرعہ ہیںیمہر مۂنسخ256

میں میم کو متحرک اور ساکن دونوں طرح " سمجھیے"غالب نے : مزید)جویریہ مسعود( اقیقاف ترجئےیاس کو سمجھ لںیموضعپا ہے لیکن اور کسی دستیاب چھ" سمجھ لیجیے"کی جگہ " اگر سمجھیے"استعمال کیا ہے۔ اب اس لفظ میں سکون جائز نہیں۔ نسخۂ مہر میں

)حامد علی خان(نسخے میں یہ شعر یوں نہیں مال۔ )ج۔م("بادشاه"میں نسخۂ مہر ٭

Page 172: Ghalib the Great Poet

171

بٹتے ہیں سونے روپے کے چھلے حضور میں ہے جن کے آگے سیم و زر و مہر و ماه ماند

ے ہوئےیوں سمجھیے کہ بیچ سے خالی کی الکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند

۔6

روزه

افطار صوم کی جسے کچھ دستگاه ہو اس شخص کو ضرور ہے روزه رکھا کرے

جس پاس روزه کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو روزه اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

۔7

دلطائر 259اٹھا اک دن بگوال سا جو کچھ میں جوش وحشت میں

پھرا آسیمہ سر، گھبراگیا تھا جی بیاباں سے 260بستہنظر آیا مجھے اک طائر مجروح پر

ٹپکتا تھا سر شوریده دیوار گلستاں سے آخر ماجرا کیا ہے ! گمناموا"کہا میں نے کہ

"پڑا ہے کام کا تجھ کو کس ستم گر آفت جاں سے ہنسا کچھ کھلکھال کر پہلے، پھر مجھ کو جو پہچانا

رویا کہ جوۓ خوں بہی پلکوں کے داماں سےتو یہ میں صید ہوں اس کا کہ جس کے دام گیسو میں" کہا،

پھنسا کرتے ہیں طائر روز آ کر باغ رضواں سے اسی کی زلف و رخ کا دھیان ہے شام و سحر مجھ کو "نہ مطلب کفر سے ہے اور نہ ہے کچھ کام ایماں سے

ئر دل تھابہ چشم غور جو دیکھا، مرا ہی طا کہ جل کر ہو گیا یوں خاک میری آه سوزاں سے

۔8

خط منظوم بنام عالئی

چھپا " نوشت خواند) "بشمول نسخۂ نظامی، عرشی(چھپا ہے۔ باقی اکثر نسخوں میں " نوشت و خواند" نسخۂ حمیدیہ اور نسخۂ مہر میں 258

)علی خانحامد (ہے جو اہل زبان بولتے ہیں۔ )اعجاز عبید(اٹھا اک دن بگولہ سا جو تھا کچھ جوش وحشت میں:چند نسخوں میں یہ شعر یوں درج ہے259)جویریہ مسعود(لفظ آیا ہے جو کہ کتابت کی غلطی ہے۔" تشنہ " نسخۂ مہر میں 260

Page 173: Ghalib the Great Poet

172

261خوشی تو ہے آنے کی برسات کے پئیں بادۀ ناب اور آم کھائیں

موسم میں اندھے ہیں ہمآغاز سر کہ دلی کو چھوڑیں، لوہارو کو جائیں

ناج کے جو ہے مطلوب جاںا وس پائیںنہ واں آم پائیں، نہ انگور

ہوا حکم باورچیوں کو، کہ ہاں ابھی جا کے پوچھو کہ کل کیا پکائیں وه کھٹے کہاں پائیں املی کے پھول وه کڑوے کریلے کہاں سے منگائیں فقط گوشت، سو بھیڑ کا ریشہ دار

کہو اس کو کیا کھا کے ہم حظ اٹھائیں ۔9

قطعہ تاریخ

خجستہ انجمن طوۓ میرزا جعفر کھے سے سب کا ہوا ہے جی محظوظکہ جس کے دی

غالب ہوئی ہے ایسے ہی فرخنده سال میں 262"محظوظ" نہ کیوں ہو مادۀ سال عیسوی

۔10

قطعہ تاریخ

ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی ہوا بزم طرب میں رقص ناہید

"تاریخ اس کی کیا ہے؟ : " سےغالب کہا 263"انشراح جشن جمشید: " تو بوال

۔11

تاریخقطعہ

اس کتاب طرب نصاب نے جب

)ج۔م(خوشی یہ آنے کی برسات کے: نسخۂ مہر میں مصرعہ یوں ہے 261

عیسوی نکلتا ہے1854محظوظ سے سال 262 جریہ2631270

Page 174: Ghalib the Great Poet

173

آب و تاب انطباع کی پائی فکر تاریخ سال میں ، مجھ کو

ایک صورت نئی نظر آئی ہندسے پہلے سات سات کے دو

دیے ناگاه مجھ کو دکھالئی اور پھر ہندسہ تھا باره کا

با ہزاراں ہزار زیبائی 264سال ہجری تو ہوگیا معلوم بے شمول عبارت آرائی

اب ذوق بذلہ سنجی کومگر ہے جداگانہ کار فرمائی

سات اور سات ہوتے ہیں چوده بہ امید سعادت افزائی

غرض اس سے ہیں چارده معصوم جس سے ہے چشم جاں کو زیبائی

اور باره امام ہیں باره جس سے ایماں کو ہے توانائی

یہ سال اچھا ہےغالب ان کو جو ائمہ کے ہیں توالئی

۔12

265بال عنوان

سیہ گلیم ہوں الزم ہے میرا نام نہ لے جہاں میں جو کوئی فتح و ظفر کا طالب ہے

ہوا نہ غلبہ میسر کبھی کسی پہ مجھے ہےغالب کہ جو شریک ہو میرا ، شریک

۔13 سہل تھا مسہل ولے یہ سخت مشکل آپڑی

مجھ پہ کیا گزرے گی ، اتنے روز حاضر بن ہوئے پہلے ، تین دن مسہل کے بعدتین دن مسہل سے

تین مسہل ، تین تبریدیں ، یہ سب کے دن ہوئے؟ ۔14

جریہ2641277 )جویریہ مسعود(نسخۂ مہر میں اس قطعہ کا عنوان ہے۔ شریک غالب 265

Page 175: Ghalib the Great Poet

174

گو ایک بادشاه کے سب خانہ زاد ہیں266 دار لوگ بہم آشنا نہیںردربا

کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہیں کرتے ہوئے سالم 267اس سے مراد یہ ہے کہ ہم آشنا نہیں

۔15 ایک اہل درد نے سنسان جو دیکھا قفس

268ں کہا آتی نہیں اب کیوں صداۓ عندلیب؟یو بال و پر دو چار دکھال کر کہا صیاد نے یہ نشانی ره گئی ہے اب بجاۓ عندلیب

۔16

اے جہاں آفریں خداۓ کریم ضائع ہفت چرخ، ہفت اقلیم

نام میکلوڈ جن کا ہے مشہور یہ ہمیشہ بصد نشاط و سرور

عمرو دولت سے شادمان رہیں ان رہیںپہ مہربغالب اور

۔17

گانویں کی ہے جتنی رعیت، وه یک قلمڑوگ عاشق ہے اپنے حاکم عادل کے نام کی

سو یہ نظر فروز قلمدان نذر ہے صاحب عالی مقام کیانومسٹر کو

)جویریہ مسعود(درباری نسخۂ مہر میں اس قطعہ کا عنوان ہے۔ 266 :نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ یوں ہے 267

اس سے ہے یہ مراد کہ ہم آشنا نہیں )جویریہ مسعود(

:نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ اس طرح درج ہے268 )جویریہ مسعود( یوں کہا آتی نہیں کیوں اب صداۓ عندلیب؟

Page 176: Ghalib the Great Poet

175

رباعیات ۔1

زلف و رخ عرق فشاں کا غم تھاشب کیا شرح کروں کہ طرفہ تر عالم تھا

ح تلکرویا میں ہزار آنکھ سے صب ہر قطرۀ اشک دیدۀ پرنم تھا

۔2 دل سخت نژند ہوگیا ہے گویا

اس سے گلہ مند ہوگیا ہے گویا پر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں

منہ بند ہوگیا ہے گویاغالب

۔3 غالب دکھ جی کے پسند ہوگیا ہے 269غالب دل رک رک کر بند ہوگیا ہے

نہیںہیآتیوهللا کہ شب کو نیند غالب نا سوگند ہوگیا ہے سو

۔4 آتشبازی ہے جیسے شغل اطفال

ہے سوزجگر کا بھی اسی طور کا حال تھا موجد عشق بھی قیامت کوئی

!لڑکوں کے لئے گیا ہے کیا کھیل نکال

۔5 بعد از اتمام بزم عید اطفال

حالشساغرک ایام جوانی رہے آپہنچے ہیں تا سواد اقلیم عدم

:کچھ نسخوں میں یہ مصرعہ یوں ہے269

دل رک کر بند ہوگیا ہے غالب ہے ’ رک رک‘نے بحث کی ہے کہ وہی مصرعہ درست ہے جس میں ) راز حیات۔ خضر ناگپوری(اور اس سلسلے میں خضر ناگپوری

)اعجاز عبید(

اس رباعی کے دوسرے مصرع کے متعلق بڑا جھگڑا رہا ہے۔ یہ بہ ظاہر حضرت طباطبائی کے عروضی اعتراض سے شروع ہوا : مزیدکے " رک رک کر"جو غالبا غلط فہمی پر مبنی تھا۔ اس کے بعد مختلف حضرات اس مصرع پر طبع آزمائی کرتے رہے اور انہوں نے

رکھ کر اس کی اصالح کی کوشش بھی کی مگر یہ لحاظ نہ فرمایا کہ س اصالح سے رباعی کی جان بھی نکالی " کررک"بجاۓ صرف کہا " دل رک رک کر"۔ غالب نے "دل بند کر بند ہوگیا"یا "دل رک کر رک گیا "تو ایسا ہی مہمل ہے جیسا " دل رک کر بند ہوگیا"گئی ہے۔

کی طرف ایک بلیغ اشاره کیا تھا جو آخر کار حرکت قلب کامال بند ہو جانے کی تمہید بنا تھا اور تھا تو اس طرح ایک ایسے تدریجی عملکی جگہ نہیں دی جاسکتی۔ " رک رک کر"کو " رک کر"جس کا ذکر کیے بغیر مصرع قطعا بے کیف ره جاتا ہے۔ عروض خواه کچھ کہے

)حامد علی خان(

Page 177: Ghalib the Great Poet

176

گذشتہ یک قدم استقبالاے عمر ۔6

مشکل ہے زبس کالم میرا اے دل سن سن کے اسے سخنوران کامل آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش

گویم مشکل و گر نگویم مشکل ۔7

ہیں شہ میں صفات ذوالجاللی باہم آثار جاللی و جمالی باہم

ہوں شاد نہ کیوں سافل و عالی باہم الی باہموہے اب کے شب قدر و د

۔8

آزار نہیںمردمکہتے ہیں کہ اب وه عشاق کی پرسش سے اسے عار نہیں

جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہوگا !کیونکر مانوں کہ اس میں تلوار نہیں

۔9

سامان خور و خواب کہاں سے الؤں ؟ آرام کے اسباب کہاں سے الؤں ؟

لیکن! غالب روزه مرا ایمان ہے برفاب کہاں سے الؤں ؟خسخانہ و

۔10

درد تمہید سہیجان دل تھا ، کہ جو دید سہیحسرت بیتابئ رشک و

ہم اور فسردن اے تجلی افسوس تکرار روا نہیں تو تجدید سہی

۔11

حسد قماش لڑنے کے لئےلق خ ہے تالش لڑنے کے لئےۀکدوحشت

Page 178: Ghalib the Great Poet

177

270یعنی ہر بار صورت کاغذ باد

لڑنے کے لئےملتے ہیں یہ بدمعاش ۔12

بھیجی ہے جو مجھ کو شاه جم جاه نے دال ہے لطف و عنایات شہنشاه پہ دال یہ شاه پسند دال بے بحث و جدال

ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال ۔13

حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے تا شاه شیوع دانش و داد کرے

یہ جو دی گئی ہے رشتۂ عمر میں گانٹھ کہ افزائش اعداد کرےفرص ہے

۔14

اس رشتے میں الکھ تار ہوں ، بلکہ سوا اتنے ہی برس شمار ہوں ، بلکہ سوا

کو ایک گره فرض کریںسیکڑےہر ایسی گرہیں ہزار ہوں ، بلکہ سوا

۔15 ہم گر چہ بنے سالم کرنے والے

کرتے ہیں درنگ ، کام کرنے والے ! هللاکہتے ہیں کہیں خدا سے ، هللا

!وه آپ ہیں صبح و شام کرنے والے ۔16

ان سیم کے بیجوں کو کوئی کیا جانے بھیجے ہیں جو ارمغاں شہ واال نے گن کر دیویں گے ہم دعائیں سو بار

فیروزے کی تسبیح کے ، ہیں یہ دانے ۔17

رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے ہے بے جا تم نےکیحرکت یہ !ثاقب

)حامد علی خان(متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ ۔ " یعنی ہر بار کاغذ باد کی طرح: "ج ہےنسخۂ طبابطائی میں یہ مصرع یوں در270

Page 179: Ghalib the Great Poet

178

اجی کلو کو دے کے بے وجہ جوابح کا پکا دیا ہے کلیجا تم نےغالب

۔18

اے روشنئ دیده شہاب الدیں خاں ؟کٹتا ہے بتاؤ کس طرح سے رمضاں

ہوتی ہے تراویح سے فرصت کب تک سنتے ہو تراویح میں کتنا قرآں

۔19

اے منشئ خیره سر سخن ساز نہ ہو عصفور ہے تو مقابل باز نہ ہو

تیری نکلی اور آواز کے ساتھآواز الٹھی وه لگی کہ جس میں آواز نہ ہو

۔20

جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری کہتے ہیں مجھے وه رافضی و دہری

دہری کیونکر ہو جو کہ ہووے صوفی؟ شیعی کیونکر ہو ماوراءالنہری

متفرقات

ہالک بے خبری نغمۂ وجود و عدم ہاں فریادجہان و اہل جہاں سے جہاں ج

آئی اگر بال تو جگر سے ٹلی نہیں

ایرا ہی دے کے ہم نے بچایا ہے کشت کو

Page 180: Ghalib the Great Poet

179

اولضمیمۂ

)نسخۂ مہر(از نواۓ سروش

:نوٹ از موالنا مہریں لیکن اہل نظر مجموعۂ آسی یہ غزلیں موالنا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہ ب صحیح نہیں سمجھتےمیں شائع شده پورے غیر مطبوعہ کالم کا انتسا

1

آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ پھول ہنس ہنس کے گلستاں میں فنا ہوجاتا

کاش ناقدر نہ ہوتا ترا انداز خرام میں غبار سر دامان فنا ہوجاتا

یک شبہ فرصت ہستی ہے اک آئینۂ غم گلستاں کی ہـوا ہوجاتا! رنگ گل کاش

ورنہمستقل مرکز غم پہ ہی نہیں تھے ہـم کو انـدازۀ آئـین فـنـا ہـوجـاتــا

دست قدرت ہے مرا خشت بہ دیوار فنا گر فنا بھی نہ میں ہوتا تو فنا ہوجاتا

حیرت اندوزئ ارباب حقیقت مت ہوچھ جلوه اک روز تو آئینہ نما ہوجاتا

2

بدتر از ویرانہ ہے فصل خزاں میں صحن باغ چراغخانۂ بلبل بغیر از خندۀ گل بے

پتا پتا اب چمن کا انقالب آلوده ہے نغمۂ مرغ چمن زا ہے صداۓ بوم و زاغ

ہاں بغیر از خواب مرگ آسودگی ممکن نہیں رخت ہستی باندھ تا حاصل ہو دنیاۓ فراغ

شور طوفان بال ہے خندۀ بے اختیار کیا ہے گل کی بے زبانی کیا ہے یہ اللے کا داغ

اسد قلب ہے اے چشم پر نم ره، زمانہ مناب یہی ہے بس مے شادی سے پر ہونا ایاغ

3

خزینہ دار محبت ہوئ ہواۓ چمن

Page 181: Ghalib the Great Poet

180

بناۓ خندۀ عشرت ہے بر بناۓ چمن بہ ہرزه سنجئ گلچیں نہ کھا فریب نظر

ترے خیال کی وسعت میں ہے فضاۓ چمن یہ نغمۂ سنجئ بلبل متاع زحمت ہے

کہ گوش گل کو نہ راس آۓ گی صداۓ چمن اۓ خندۀ گل تا قفس پہنچتی ہےصد

نسیم صبح سے سنتا ہوں ماجراۓ چمن گل ایک کاسۂ دریـوزۀ مسرت ہے کہ عندلیب نواسنج ہے گداۓ چمن

حریف نالۂ پرورد ہے، تو ہو، پھر بھی ہے اک تبسم پنہاں ترا بہاۓ چمن

اسد فنـا ہـے بـہـار راه رو جـادۀ گل شگفتہ ہیں گویا کہ نقش پاۓ چمن

4

کرم ہی کچھ سبب لطف و التفات نہیں انہیں ہنساکے رالنا بھی کوئ بات نہیں

کہاں سے الکے دکھاۓ گی عمر کم مایہ سیہ نصیب کو وه دن کہ جس میں رات نہیں

زبان حمد کی خوگر ہوئ تو کیا حاصل کہ تیری ذات میں شامل تری صفات نہیں اسد خوشی، خوشی کو نہ کہہ، غم کو غم نہ جان

قرار داخل اجزاۓ کائنات نہیں

5 جوں شمع ہم اک سوختہ سامان وفا ہیں

اور اس کے سواکچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں اک سرحد معدوم میں ہستی ہے ہماری ساز دل بشکستہ کی بیکار صدا ہیں

جس رخ پہ ہوں ہم، سجده اسی رخ پہ ہے واجب گو قبلہ نہیں ہیں مگر اک قبلہ نما ہیں

وجیو اے سیل فنا ان سے مقابلمت ہ جانباز الم نقش بہ دامان بقا ہیں پائ ہے جگہ ناصیۂ باد صبا پر خاکستر پروانۂ جانباز فنا ہیں

Page 182: Ghalib the Great Poet

181

ہر حال میں ہیں مرضئ صیاد کے تابع ہم طائر پر سوختہ رشتہ بہ پا ہیں اے وہم طرازان مجازی و حقیقی

عشاق فریب حق و باطل سے جدا ہیں خودئ شوق میں کرلیتے ہیں سجدےہم بے

یہ ہم سے نہ پوچھو کہ کہاں ناصیہ سا ہیں غالب اب منتظر شوق قیامت نہیں

دنیا کے ہر ذرے میں سو حشر بپا ہیں 6

نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں کروں یا نہ کروں! یہ بھی اے چرخ ستمگار

مجھ کو یہ وہم کہ انکار نہ ہو جاۓ کہیں ان کو یہ فکر کہ اقرار کروں یا نہ کروں

لطف جب ہو کہ کروں غیر کو بھی میں بدنام کروں یا نہ کروں! کہیۓ کیا حکم ہے سرکار

7

وضع نیرنگئ آفاق نے مارا ہم کو ہوگۓ سب ستم و جور گوارا ہم کو

دشت وحشت میں نہ پایا کسی صورت سے سراغ گرد جوالن جنوں تک نے پکارا ہم کو

جز ہی اصل میں تھا حامل صد رنگ عروجع ذوق پستـئ مصیبت نے ابھارا ہم کو

ضعف مشغول ہے بیکار بہ سعئ بیجا کرچکا جوش جنوں اب تو اشاره ہم کو

صور محشر کی صدا میں ہے افسون امید خواہش زیست ہوئ آج دوبارا ہم کو

اسد تختۂ گور سفینے کے مماثل ہے ہے کنارا ہم کوبحر غم کا نظر آتا

8 حسن بے پروا گرفتار خود آرائ نہ ہو گر کمیں گاه نظر میں دل تماشائ نہ ہو

ہیچ ہے تاثیر عالم گیرئ ناز و ادا ذوق عاشق گر اسیر دام گیرائ نہ ہو خود گداز شمع آغاز فروغ شمع ہے سوزش غم درپۓ ذوق شکیبائ نہ ہو

Page 183: Ghalib the Great Poet

182

جنوںتار تار پیرہن ہے اک رگ جان عقل غیرت پیشہ حیرت سے تماشائ نہ ہو

بزم کثرت عالم وحدت ہے بینا کے لۓ بے نیاز عشق اسیر زور تنہائ نہ ہو

اسد ہے محبت رہزن ناموس انساں اے قامت عاشق پہ کیوں ملبوس رسوائ نہ ہو

9

نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ کے ساتھلبوں پہ جان بھی آجاۓ گی جواب

مجھے بھی تاکہ تمنا سے ہو نہ مایوسی ملو رقیب سے لیکن ذرا حجاب کے ساتھ نـہ ہو بـہ ہـرزه روادار سـعـئ بـے ہـوده

کہ دور عیش ہے مانا خیال و خواب کے ساتھ بـہ ہر نـمـط غـم دل باعـث مسـرت ہے

نموۓ حیرت دل ہے ترے شباب کے ساتھ ــیام مسـتی کالـگاؤ اس کا ہـے بـاعـث ق

ہوا کو الگ بھی ہے کچھ مگر حباب کے ساتھ غالب ہـزار حـیف کـہ اتنـا نـہیں کـوئ

کہ جاگنے کو مال دے وے آکے خواب کے ساتھ 10

بتائیں ہم تمہارے عارض و کاکل کو کیا سمجھے اسے ہم سانپ سمجھے اور اسے من سانپ کا سمجھے

موذی سے نسبت دیںیہ کیا تشبیہ بے ہوده ہے، کیوں ہما عارض کو، اور کاکل کو ہم ظل ہما سمجھے

غلط ہی ہوگئ تشبیہ، یہ تو ایک طائر ہے اسے برگ سمن اور اس کو سنبل کو جٹا سمجھے

نباتات زمیں سے کیا ان کو نسبت؟ معاذهللا اسے برق اور اسے ہم کالی ساون کی گھٹا سمجھے

ان کو نسبت دیںگھٹا اور برق سے کیوں کر گھٹاکر اسے ظلمات، اسے ہم چشمۂ آب بقا سمجھے

جو کہیے یہ، فقط مقصود تھا خضر و سکندر سے ید بیضا اسے اور اس کو موسی کا عصا سمجھے

جو اس تشبیہ سے بھی داغ ان کو آتا ہو اسے وقت نماز صبح اور اس کو عشاء سمجھے

جو یہ نسبت پسند خاطر واال نہ ہو تو پھر

Page 184: Ghalib the Great Poet

183

اسے قندیل کعبہ، اس کو کعبے کی ردا سمجھے ان ساری تشبیہوں کو رد کرکے یہ کہتا ہےاسد

سویدا اس کو سمجھے اس کو ہم نور خدا سمجھے 11

صبح جب کنعاں میں بوۓ پیرہن الئنسیم پئے یعقوب ساتھ اپنے نوید جان و تن الئ

وقار ماتم شب زنده دار ہجر رکھنا تھا صبح غم کی دوش پر رکھ کر کفن الئسپیدی

شہید شیوۀ منصور ہے انداز رسوائ مصیبت پیشگئ مدعا دار و رسن الئ

غالب وفا دامن کش پیرایہ و ہستی ہے اے کہ پھر نزہت گہ غربت سے تا حد وطن الئ

12

وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئ ہے ازل کے دن سے یہ اے یار ہوتی آئ ہے

ت بزم نشاط جاناں ہےجواب جن مری نگاه جو خونبار ہوتی آئ ہے

مبارک باد! نموۓ جوش جنوں وحشیو بہار ہدیۂ انظار ہوتی آئ ہے

دل و دماغ وفا پیشگاں کی خیر نہیں جگر سے آه شرر بار ہوتی آئ ہے

13

یونہی افزائش وحشت کےجو ساماں ہوں گے دل کے سب زخم بھی ہم شکل گریباں ہوں گے

وجہ مایوسئ عاشق ہے تغافل ان کا نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے

دل سالمت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے

منتشر ہو کے بھی دل جمع رکھیں گے یعنی ہم بھی اب پیروۓ گیسو ۓ پریشاں ہوں گے

گردش بخت نے مایوس کیا ہے لیکن بھی ہر گوشۂ دل میں کئ ارماں ہوں گےاب

ہے ابھی خوں سے فقط گرمئ ہنگامۂ اشک پر یہ حالت ہے تو نالے شرر افشاں ہوں گے

باندھ کر عہد وفا اتنا تنفر، ہے ہے

Page 185: Ghalib the Great Poet

184

ہوں گے! تجھ سے بے مہر کم اے عمر گریزاں اس قدر بھی دل سوزاں کو نہ جان افسرده

ہوں گےفروزاں ! ابھی کچھ داغ تو اے شمع عہد میں تیرے کہاں گرمئ ہنگامۂ عیش

گل میری قسمت واژونہ پہ خنداں ہوں گے خوگر عیش نہیں ہیں ترے برگشتہ نصیب ان کو دشوار ہیں وه کام جو آساں ہوں گے

غالب موت پھر زیست نہ ہوجاۓ یہ ڈر ہے وه مری نعش پہ انگشت بہ دنداں ہوں گے

14

تغافل ہےنمائش پرده دار طرز بیداد تسلی جان بلبل کے لئے خندیدن گل ہے نمود عالم اسباب کیا ہے؟ لفظ بے معنی

کہ ہستی کی طرح مجھ کو عدم میں بھی تامل ہے نہ رکھ پابند استغنا کو قیدی رسم عالم کا ترا دست دعا بھی رخنہ انداز توکل ہے

نہ چھوڑا قید میں بھی وحشیوں کو یاد گلشن نے چاک پیرہن گویا جواب خندۀ گل ہےیہ

ابھی دیوانگی کا راز کہہ سکتے ہیں ناصح سے ابھی فصل گل و مل ہےغالب ابھی کچھ وقت ہے

15

خود جاں دے کے روح کو آزاد کیجئے تاکے خیال خاطر جالد کیجئے

بھولے ہوۓ جو غم ہیں انہیں یاد کیجئے تب جاکے ان سے شکوۀ بے داد کیجئے

نکہ اب زباں میں نہیں طاقت فغاںحاال پر دل یہ چاہتا ہے کہ فریاد کیجئے

بس ہے دلوں کے واسطے اک جنبش نگاه اجڑے ہوۓ گھروں کو پھر آباد کیجئے

کچھ دردمند منتظر انقالب ہیں جو شاد ہوچکے انہیں ناشاد کیجئے شاید کہ یاس باعث افشاۓ راز ہو

لطف و کرم بھی شامل بے داد کیجئے بیگانۂ رسوم جہاں ہے مذاق عشق

طرز جدید ظلم ایجاد کیجئے

Page 186: Ghalib the Great Poet

185

16 ہم سے خوبان جہاں پہلو تہی کرتے رہے ہم ہمیشہ مشق از خود رفتگی کرتے رہے

کثرت آرائ خیال ما سوا کی وہم تھی مرگ پر غافل گمان زندگی کرتے رہے

داغہاۓ دل چراغ خانۂ تاریک تھے کرتے رہےتا مغاک قبر پیدا روشنی

شور نیرنگ بہار گلشن ہستی، نہ پوچھ ہم خوشی اکثر رہین ناخوشی کرتے رہے

رخصت اے تمکین آزار فراق ہمرہاں ہوسکا جب تک غم واماندگی کرتے رہے

17

درد ہو دل میں تو دوا کیجے دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

ہم کو فریاد کرنی آتی ہے آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے

ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب توبہ توبہ خدا خدا کیجے

رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی پہلے دل درد آشنا کیجے

عرض شوخی نشاط عالم ہے حسن کو اور خود نما کیجے دشمنی ہو چکی بہ قدر وفا اب حق دوستی ادا کیجے

غالب موت آتی نہیں کہیں کب تک افسوس زیست کا کیجے

18

خامشی اظہار حـال بے زبـانی ہےسکوت و کمیـن درد میں پوشـیده راز شـادمـانی ہے

عیاں ہیں حال و قال شیخ سے انداز دلچسپی مگر رنـد قـدح کش کا ابھـی دور جوانـی ہے

ثبات چند روزه کارفرماۓ غم و حسـرت اجل سرمایہ دار دور عیش و کامرانی ہے

خانہ ویرانیگداز داغ دل شمع بساط تپش گاه محبت میں فروغ جاودانی ہے

Page 187: Ghalib the Great Poet

186

وفـور خود نمائ رہـن ذوق جـلوه آرائ بہ وہم کامرانی جذب دل کی شادمانی ہے

دل حرماں لقب کی داد دے اے چرخ بے پروا بہ غارت دادۀ رخت و متاع کامرانی ہے

19

کس کی برق شوخئ رفتار کا دلداده ہے کا اضطراب آماده ہےذره ذره اس جہاں

ہے غـرور سرکشی صورت نماۓ عجز بھی منقلب ہو کر بسان نقش پا افتاده ہے

خانہ ویراں سازئ عشق جفا پیشہ نہ پوچھ نامرادوں کا خط تقدیر تک بھی ساده ہے خود نشاط و سرخوشی ہے آمد فصل بہار آج ہر سیل رواں عالم میں موج باده ہے

اسد فنا ہے اے زندگانی رہرو راه ہر نفس ہستی سے تا ملک عدم اک جاده ہے

20

اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے تمنا ہے امید کرم تجھ سےکیا طرفہ

ہم آخرتھےامید نوازش میں کیوں جیتے سہتے ہی نہیں کوئ جب درد و الم تجھ سے

وارفتگئ دل ہے یا دست تصرف ہے میں دن رات بہم تجھ سےہیں اپنے تخیل

نا پھر ترک وفا کرناــا سہــور و جفـــہ جـی اے ہرزه پـژوہی بس عاجز ہوۓ ہم تجھ سے

کی وفا کیشی اور تیری ستـم رانیغالب مشہور زمانہ ہے اب کیا کہیں ہم تجھ سے

Page 188: Ghalib the Great Poet

187

دومضمیمۂ )انتخاب از نسخۂ حمیدیہ(

1

حدعوئ عشق بتاں سے بہ گلستاں گل و صب ہیں رقیبانہ بہم دست و گریباں گل و صبح

ساق گلرنگ سے اور آئنۂ زانو سے جامہ زیبوں کے سدا ہیں تــہ داماں گل و صبح

وصل آئینۂ رخاں ہم نفس یک دیگر ہیں دعا ہاۓ سحر گاه سے خواہاں گل و صبح

271آئنہ خانہ ہے صحن چمنستاں تجھ سے صبحبسکہ ہیں بے خود و وارفتہ و حیران گل و

زندگانی نہیں بیش از نفس چند اسد غفلت آرامئ یاراں پہ ہیں خنداں گل و صبح

2

بسکہ ہیں بدمست بشکن بشکن میخانہ ہم موۓ شیشہ کو سمجھتے ہیں خط پیمانہ ہم

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم

اں سے ہے تار شعاعبسکہ ہر یک موۓ زلف افش پنجۂ خورشید کو سمجھتے ہیں دست شانہ ہم

272نقش بند خاک ہے موج از فروغ ماہتاب سیل سے فرش کتاں کرتے ہیں تا ویرانہ ہم مشق از خود رفتگی سے ہیں بہ گلزار خیال

آشنا تعبیر خواب سبزۀ بیگانہ ہم فرط بے خوابی سے ہیں شب ہاۓ ہجر یار میں

ن شمع داغ گرمئ افسانہ ہمجوں زبا جانتے ہیں جوشش سوداۓ زلف یار میں

سنبل بالیده کو موۓ سر دیوانہ ہم بسکہ وه چشم و چراغ محفل اغیار ہے

حاشیہ از پروفیسر حمید احمد خان (تحریر کیا ہے۔ " یکسر" کو کاٹ کر موٹے قلم سے شکستہ خط میں " تجھ سے" یہاں متن میں 271

)جویریہ مسعود) (مرتب نسخۂ حمیدیہلکھا ہے اور حاشیے موٹے قلم سے شکستہ خط میں اس کے بجاۓ مصرع ذیل تحریر " ال ال" اس مصرع پر :حاشیہ از نسخۂ حمیدیہ272

) جویریہ مسعود(وغ ماه سے ہر موج یک تصویر خاک۔ ہے فر: کیا ہے

Page 189: Ghalib the Great Poet

188

چپکے چپکے جلتے ہیں جوں شمع ماتم خانہ ہم 273شام غم میں سوز عشق شمع رویاں سے اسد جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم

3

صاف ہے ازبسکہ عکس گل سے گلزار چمن جانشین جوہر آئینہ ہے خار چمن

ہے نزاکت بس کہ فصل گل میں معمار چمن قالب گل میں ڈھلی ہے خشت دیوار چمن

برشگال گریۂ عشاق دیکھا چاہیے 274کھل گئی مانند گل سو جا سے دیوار چمن تیری آرائش کا استقبال کرتی ہے بہار

نہ ہے یاں نقش احضار چمنجوہر آئی بس کہ پائی یار کی رنگیں ادائی سے شکست

ہے کاله ناز گل بر طاق دیوار چمن الفت گل سے غلط ہے دعوئ وارستگی سرو ہے باوصف آزدی گرفتار چمن

وقت ہے گر بلبل مسکیں زلیخائی کرے یوسف گل جلوه فرما ہے بہ بازار چمن

ف فصل گل اسد وحشت افزا گریہ ہا موقو چشم دریاریز ہے میزاب سرکار چمن

4 ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں

دامن تمثال آب آئنہ سے تر نہیں 275ہوتے ہیں بے قدر در کنج وطن صاحب دالں

عزلت آباد صدف میں قیمت گوہر نہیں باعث ایذا ہے برہم خوردن بزم سرور

تر نہیںلخت لخت شیشۂ بشکستہ جز نش

میں یہ مقطع بدال گیا ہے۔ حاشیے میں موٹے قلم سے شکستہ خط " سوز عشق آتش رخسار سے" اس مصرع کا آخری حصہ بعد میں 273

:لکھا ہے دائم الحبس اس میں ہے الکھوں تمنائیں اسد )جویریہ مسعود) (حواشی از پروفیسر حمید احمد خان( جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم

)جویریہ مسعود(یہ شعر مرتب کے بقول قلمی مخطوطے کے متن کے بجاۓ حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں درج ہے۔ 274

:مفتی انوار الحق کے مطابق یہ مصرع متن میں پہلے یوں تھا275 ہوتے ہیں بے قدر در گنج وطن صاحب دالں

)جویریہ مسعود(

Page 190: Ghalib the Great Poet

189

واں سیاہی مردمک ہے اور یاں داغ شراب مہ حریف نازش ہم چشمئ ساغر نہیں ہے فلک باال نشین فیض خم گر دیدنی

عاجزی سے ظاہرا رتبہ کوئی برتر نہیں دل کو اظہار سخن انداز فتح الباب ہے یاں صریر خامہ غیر از اصطکاک در نہیں

پر زباںکب تلک پھیرے اسد لب ہاۓ تفتہ طاقت لب تشنگی اے ساقئ کوثر نہیں

5

ہم زباں آیا نظر فکر سخن میں تو مجھے مردمک ہے طوطئ آئینۂ زانو مجھے یاد مژگاں بہ نشتر زار صحراۓ خیال

چاہیے بہر تپش یک دست صد پہلو مجھے خاک فرصت برسر ذاق فنا اے انتظار ہے غبار شیشۂ ساعت رم آہو مجھے

اب عمر بے مطلب نہیں آخر کہ ہےاضطر جستجوۓ فرصت ربط سر زانو مجھے چاہیے درمان ریش دل بھی تیغ یار سے مرہم زنگار ہے وه وسمۂ ابرو مجھے

کثرت جور و ستم سے ہو گیا ہوں بے دماغ بد خو مجھے276خوبرویوں نے بنایا ہے اسد

6

یوں بعد ضبط اشک پھروں گرد یار کے277 کسو پہ کوئی جیسے وار کےپانی پیے

سیاب پشت گرمئ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوۓ ہیں دل بے قرار کے

ہیں278بعد از وداع بہ خوں در طپیده نقش قدم ہیں ہم کف پاۓ نگار کے

ظاہر ہے ہم سے کلفت بخت سیاه روز گویا کہ تختۂ مشق ہے خط غبار کے

) حاشیہ از حمید احمد خان(لکھا گیا ہے۔ " غالب" کے لفظ کو کاٹ کر " ہے اسد" اس مصرع میں 276

)ے غزل میں درج ہیں ۔ جویریہ مسعودنمبر ک218اس غزل کے دو شعر اردو ویب کے نسخے میں ( 277

)جویریہ مسعود(اس لفظ کی جدید امال تپیده ہے۔ 278

Page 191: Ghalib the Great Poet

190

گلحسرت سے دیکھ رہتے ہیں ہم آب و رنگ مانند شبنم اشک ہے مژگان خار کے

آغوش گل کشوده براۓ وداع ہے اے عندلیب چل کہ چلے دن بہار کے ہم مشق فکر وصل و غم ہجر سے اسد الئق نہیں رہے ہیں غم روزگار کے

7 بسکہ حیرت سے ز پا افتادۀ زنہار ہے279

ناخن انگشت تبخال لب بیمار ہے نہیں ممکن دریغزلف سے شب درمیاں دادن

ورنہ صد محشر بہ رہن صافئ رخسار ہے در خیال آباد سوداۓ سر مژگان دوست

صد رگ جاں جاده آسا وقف نشتر زار ہے جی جلے ذوق فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں

ہم نہیں جلتے، نفس ہر چند آتش بار ہے ہے وہی بد مستی ہر ذره کا خود عذر خواه

یں تا آسماں سرشار ہےجس کے جلوے سے زم مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی 280زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بے زار ہے

بس کہ ویرانی سے کفر و دیں ہوۓ زیر و زبر گرد صحراۓ حرم تا کوچۂ زنار ہے اے سر شوریده ناز عشق و پاس آبرو

یک طرف سودا و یک سو منت دستار ہے انتظار طرفہ رکھتا ہے مگروصل میں دل

فتنہ تاراجی تمنا کے لیے درکار ہے ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا

ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے خانماں ہا پائمال شوخئ دعوی اسد

سایۂ دیوار سے سیالب در و دیوار ہے 8

نیم رنگی جلوه ہے بزم تجلی راز دوست تھا شاید خط رخسار دوستدود شمع کشتہ

)نمبر غزل میں درج ہیں ۔ جویریہ مسعود174شعر اردو ویب کے نسخے میں 6اس غزل کے (279

)از پروفیسر حمید احمد خانحاشیہ( یہ تینوں شعر اصل قلمی نسخے میں حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں لکھے ہوۓ ہیں 280

Page 192: Ghalib the Great Poet

191

چشم بند خلق جز تمثال خود بینی نہیں آئینہ ہے قالب خشت در و دیوار دوست برق خرمن زار گوہر ہے نگاه تیز یاں

اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمئ رفتار دوست ہے سوا نیزے پہ اس کے قامت نوخیز سے

آفتاب روز محشر ہے گل دستار دوست مصلحت چندے بہ ضبط افسرده رهاے عدوۓ

کردنی ہے جمع تاب شوخی دیدار دوست لغزش مستانہ و جوش تماشا ہے اسد

آتش مے سے بہار گرمئ بازار دوست

*اختتام*

Page 193: Ghalib the Great Poet

192

کتابیات ۔ دیوان غالب۔ مکتبہ الفاظ علی گڑھ1 ۔ دیوان غالب۔ نسخہ تاج کمپنی الہور2 لکھنؤدیوان غالب۔ نولکشور پریس۔3 ) نسخۂ مہر(نواۓ سروش از موالنا غالم رسول مہر۔4 )نسخۂ آسی( از عالمہ عبدالباری آسی غالب ۔ شرح دیوان 5 )فرہنگ کے ساتھ(غالب ۔ دیوان 6 نسخۂ طاہرغالب ۔ دیوان 7 )نسخۂ حمیدیہ(۔ دیوان غالب 8 1969ہ مطبوع) حامد علی خانبہ تصحیح متن و ترتیب(۔ دیوان غالب 9

گل رعنا، نسخۂ شیرانی، نسخۂ بھوپال بخط غالب، نسخۂ رضا سے10فروری ۔ انتخاب نسخۂ بھوپال کی باز یافت۔ سید تصنیف حیدر، ماہنامہ آج کل، 11

)نسخۂ مبارک علی کے حوالے اسی سے ماخوذ ہیں(ء٢٠٠٧ تاریخی ترتیب سے۔ کالی داس گپتا رضا ) کامل(۔ دیوان غالب 12

اوپر