ام کلثوم کی عمر سے شادی ا یک تحقیقی جائزہ

317
مؤلف: چوھدری یاسر عمارقی جائزہک تحقی ای شادی کی عمر سے ام کلثوم مطالعہ کر نےکے بعد کوئیو آخر تکیق کے کہ اس تحقرئین سے گزارش ہام قا تمتہ کو لے کر زمین نک ایک صرف کسییں اورض کو بیان کر اعترائے یا اپنی راش نہ کیجئے کیوں کہ کرنے کی کوشن ایک آسما رکھنے کے کو مد نظرم قرائن تماامسی خاطر تمہئے ا ہونا چاسان کا طریقہ ایک اچھے ان فیصلہ کرنا بعد کوئی حتمی

Transcript of ام کلثوم کی عمر سے شادی ا یک تحقیقی جائزہ

مؤلف:

عمار یاسرچوھدری

ام کلثوم کی عمر سے شادی ایک تحقیقی جائزہ

تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اس تحقیق کو آخر تک مطالعہ کر نےکے بعد کوئی

اپنی رائے یا اعتراض کو بیان کریں اور صرف کسی ایک نکتہ کو لے کر زمین

تمام قرائن کو مد نظر رکھنے کے آسمان ایک کرنے کی کوشش نہ کیجئے کیوں کہ

بعد کوئی حتمی فیصلہ کرنا ایک اچھے انسان کا طریقہ ہونا چاہئے اسی خاطر تمام

زاویوں کو مطالعہ کیجئے اور پھر اپنے اعتراض یا مشورہ عنایت کیجئے

: تحقیق

گے۔ ہم اس تحقیق میں چند زاویوں سے بحث کریں

پہال زاویہ : ام کلثوم کےنام سے امام علی علیہ السالم کی کوئی بیٹی نہیں تھی ۔

نظریہ یہ ہے امیر ]ع[ کی زینب کے عالوہ شیعہ سنی میں سے ایک جماعت کا

کوئی اور دختر نہیں تھی اور در حقیقت ام کلثوم وہی جناب زینب ہیں اور وہ افراد

اوالد ذکر کی ہیں یعنی امام حسن و 5جنھوں نے جناب امیر کی جناب سیدہ سے

حسین و محسن زینب و ام کلثوم در حقیقت انھوں نے اس روایت کی مطلب کو بیان

یا جس میں کبھی زینب کا نام ہے تو کبھی ام کلثوم کا نام ہے اور اس بات کی ک

طرف توجہ نہیں کی ہے ام کلثوم اور زینب ایک ہی ہیں اور ام کلثوم جناب زینب کی

کنیت ہے چنانچہ یہ بات متعدد کتب میں ذکر ہوئی ہے ۔

:شیعہ علماء کی اس نظریہ کی تائید

عالم ہیں وہ امام علی علیہ السالم کی اوالد کے صدی کے شیعہ 8رضى الدین حلى

:بارے میں کہتے ہیں

كان له ) علیه السالم ( سبعة وعشرون ذكرا وأنثى: الحسن، والحسین، وزینب الكبرى

المكناة بأم كلثوم ۔۔۔۔

اوالد تھیں حسن حسین زینب کبری کہ انکی کنیت ام کلثوم ہے ۔۔۔۔۔ 71امام علی کی

العدد القویة لدفع ، (ـہ105على بن یوسف المطھر، )متوفاي الحلي، رضى الدین

، تحقیق: السید مھدى الرجائى، ناشر: مكتبة آیة هللا 242، صالمخاوف الیومیة

.ـہ 7408قم، الطبعة األولى، ـالمرعشى

صدی کے عالم 10، فضل بن روزبھان شرح احقاق الحقاور آیت هللا مرعشى نے

سے نقل کیا ہے

في " وسیلة 721العالمة فضل هللا روزبھان الخنجي األصفھاني المتوفى سنة ومنھم

ط 701الخادم إلى المخدوم " در شرح صلوات چھاردہ معصوم علیھم السالم ) ص

...:كتابخانه عمومى آیة هللا العظمى نجفى بقم ( قال

اوالد تھیں اور ایک دوسری روایت کے 71اور حضرت امیر المؤمنین على کی

اوالد تھیں حسن و حسین و محسن ۔۔۔ ام کلثوم]سالم هللا علیہم[ یہ چار 20اعتبار سے

سالم هللا علیہا[ سے ہیں]جناب سیدہ فاطمہ

لحق شرح إحقاق ا، (ش7137المرعشي النجفي، آیة هللا السید شھاب الدین )متوفاي

، ناشر: منشورات مكتبة آیة هللا العظمى المرعشي 712ص 10، ج وإزهاق الباطل

.قم ـالنجفي

:باقر شریف القرشى، اس زمانے کے محقق لکھتے ہیں

لیس لصدیقة الطاهرة بنت غیر السیدة زینب. و أنھا تكنا بأم كلثوم. كما ذكرنا الیه بعض

بغیر تردد اذا ان الصدیقة الطاهرة الزهراء لیس المحققین. و علي اي حال فإني اذهب

.عندها بنت تسمي بأم كلثوم

صدیقه طاهرہ،کی زینب کے عالوہ کوئی دختر نہیں تھی زنیب وہی ہیں جن کی

کنیت ام کلثوم ہے جیسا کہ بعض محقق حضرات کی یہی رائے ہے لیکن میں بغیر

ینب کے عالوہ کوئی اور کسی شک اس بات کا قائل ہوں کہ جناب سیدہ ]س[ کی ز

دختر نہیں تھی جس کا نام ام کلثوم ہو۔

سالم هللا علیھا، ص حیاة سیدة النساء فاطمة الزهرا، (القرشي، باقر شریف )معاصر

277.

:علماء اهل سنت اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں

کی صرف چار اوالد یا [سالم هللا علیہا]بعض اہل سنت کے عالم جناب سیدہ فاطمہ

تین اوالد بیان کرتے ہیں جس میں ام کلثوم کا نام نہیں ہے

: صالحى شامى نےسبل الھدى و الرشاد میں لکھا ہے

له من الولد الحسن والحسین ومحسن وزینب -رضي هللا تعالى عنھم - الثاني: في ولدہ

.وله أوالد من غیرها كثیرون -رضي هللا تعالى عنھم -الكبرى من فاطمة

رضى هللا عنه ،فاطمه زهرا سے ؛ حسن، حسین، محسن و زینب كبرى اوالد علي

تھیں اور انکی مزید اوالد دوسری ازواج سے تھیں،

سبل الھدى والرشاد في سیرة خیر ، (ـہ742الصالحي الشامي، محمد بن یوسف )متوفي

، تحقیق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: 288، ص 77، ج العباد

.ـہ7474بیروت، الطبعة: األولى، -الكتب العلمیة دار

نے شرح جالل الدین محلى جو منھاج (ـہ7037اسی طرح شھاب الدین قلیوبى )متوفي

الطالبین کی شرح ہے اسکے حاشیہ پر لکھا ہے علی]علیہ السالم [ کی جناب سیدہ

:نقل کی ہے ]سالم هللا علیہا[سے تین اوالد تھی اور یہی بات جالل الدین سیوطى سے

:وہ مزید لکھتے ہیں

قوله: ) واالعتبار باألب ( أي إال في حقه )ص( فإن أوالد بنته فاطمة وهم الحسن

والحسین وأوالدهما من الذكور ینتسبون إلیه، وهم األشراف في عرف مصر وإن كان

الشرف أصالة لقبا لكل من أهل البیت، وأما أوالد زینب بنت فاطمة، وكذا أوالد بنات

الحسن والحسین وأوالدهما من غیرهم، فإنھم ینتسبون إلى آبائھم وإن كان یقال للجمیع

.أوالدہ )ص( وذریته

فائدة: قال الجالل السیوطي رحمه هللا لم یعقب من أوالدہ )ص( إال فاطمة الزهراء فإنھا

ولدت من علي رضي هللا عنه الحسن والحسین وزینب، وتزوجت زینب هذہ بابن عمھا

هللا فولد له منھا علي وعون األكبر وعباس ومحمد وأم كلثوم، وكل ذریة فاطمة یقال عبد

لھم أوالدہ )ص( وذریته لكن ال ینسب إلیه منھم إال الذكور من أوالد الحسن والحسین

.خاصة لنصه على ذلك ا ہ

یہ بات صحیح ہے اوالد کو باپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے سوائے رسول اکرم

کا معاملہ کو چھوڑ کر اس لئے کہ انکی بیٹی فاطمہ ]سالم هللا [علیہ و آلہصلی هللا ]

صلی هللا ]اور انکی اوالد ذکور وہ آپ [علیہا السالم]علیہا[کی اوالد حسن وحسین

سے منسوب ہیں جسے مصر کے عرف میں اشراف کہا جاتا ہے اگرچہ [علیہ و آلہ

شرف اصل میں اہل بیت کے ہرنفر کا لقب ہے۔

اں تک تعلق زینب ]س [کی اوالد کا ہےاور اسی طرح حسن وحسین]سالم هللا جہ

علیہما[ کی بیٹیوں کی اوالد کا تعلق ہے ۔۔۔ یہ سب اپنے آباء کی طرف منسوب ہیں

صلی هللا علیہ ]یا اوالد رسول [صلی هللا علیہ و آلہ]اگر انکے لئے ذریت رسول اکرم

کہا جائے [و آلہ

کے اوالد میں [صلی هللا علیہ و آلہ]ہا ہے : رسول اکرم جالل الدین سیوطى نے ک

کی نسل چلی [صلی هللا علیہ و آلہ]سالم هللا علیہا [سے آپ ]سےصرف جناب فاطمہ

ہے اس لئے سیدہ کی امیر المومنین علی علیہ السالم سے سے حسن حسین اور زینب

جس سے علی ، اوالد تھی زینب نے اپنے چچا زاد عبد ہلل بن جعفر سے شادی کی

کو [ عون اکبر ۔عباس ، محمد اور ام کلثوم پیدا ہوئے ہر ذریت فاطمہ]سالم هللا علیہا

صلی ]کہا جاتا ہے لیکن ذریت رسول اکرم [صلی هللا علیہ و آلہ]اوالد رسول اکرم

آپ کی طرف منسوب نہیں ہوتی ہیں فقط حسن و حسین کی ذکور [هللا علیہ و آلہ

صلی هللا علیہ ]سے منسوب ہے کیوں کہ رسول اکرم [علیہ و آلہصلی هللا ]اوالد آپ

.کی طرف سے اسکے بارے میں نص خاص آئی ہے [و آلہ

حاشیة قلیوبي على ، (ـہ7037القلیوبي، شھاب الدین أحمد بن أحمد بن سالمة )متوفاي

، تحقیق: مكتب البحوث 213، ص 1، ج شرح جالل الدین المحلي على منھاج الطالبین

.م7778 - ـہ7477والدراسات، ناشر: دار الفكر، بیروت، الطبعة: األولى،

اور شیخ محمد خضرى اہلسنت کے مصری عالم نے اوالد فاطمہ]سالم هللا علیہا[ کی

:بتائی ہے 1تعداد صرف

زواج علي بفاطمة علیھما السالم. وفي هذہ السنة تزوج علي بن أبي طالب وعمرہ

بنت رسول هللا، وسنھا خمس عشرة سنة، وكان منھا عقب إحدى وعشرون سنة بفاطمة

.رسول هللا صلى هللا علیه وسلم بنوہ: الحسن والحسین وزینب

کی طرف سے کی [صلی هللا علیہ و آلہ]سے آپ رسول اکرم [ سالم هللا علیہا]فاطمہ

تھے [سالم هللا علیہم اجمعین]نسل چلی جو حسن وحسین اور زینب

، 7، ج نور الیقین في سیرة سید المرسلین، (ـہ7278محمد )متوفايالخضري، الشیخ

المنصورة / مصر، -، تحقیق: أحمد محمود خطاب، ناشر: مكتبة اإلیمان 777ص

.م7777 - ـہ7477الطبعة: األولى،

----------------------------------------------------------

:اس نظریہ کے صحیح ہونے پرقرائن

نظریہ کے صحیح ہونے پر کافی قرائن ہیں جس میں سے بعض کیا ذکر کرتے اس

:ہیں

کسی بھی صحیح السند روایت میں زینب اور ام کلثوم کا نام ایک ساتھ نہیں آیا .1

: ہے

کسی بھی صحیح السند روایت شیعہ میں زینب اور ام کلثوم کا نام ایک ساتھ نہیں آیا

ام کلثوم آیا ہے اسی طرح کسی بھی صحیح السند میں ہے یا نام زینب آیا ہے یا نام

نہیں آیا ہے خلیفہ دوم نے جناب سیدہ کی بیٹی سے شادی کی تھی بلکہ تمام روایت

یہ کہتی ہے کہ ام کلثوم کے بارے میں بتایا جو امام علی کے گھر میں تھی

جو فقط اس بات کا استدالل بعض علماء کے کالم اور اجتہادات سے کیا گیا ہے

دوسروں کے لئے جحت نہیں رکھتا ہے

:عبد هللا بن جعفرنے کس سے شادی کی ؟ .2

اهل سنت نےسند صحیح کے ساتھ نقل کیا ہے کہ عبد هللا بن جعفر نے علی ]ع[ کی

ایک زوجہ اور علی ]ع[ کی ایک بیٹی سے شادی کی

کلثوم شادی کے ساتھ ہوئی ہے بعض میں اس دختر کا نام زینب اور بعض میں ام

ذکر ہوا ہے

:محمد بن اسماعیل بخارى لکھتے ہیں

بن جعفر بین ابنة علي وامرأة علي .وجمع عبد هللاه

عبد هللا بن جعفر نے علی ]ع[ کی بیٹی اور ایک زوجہ کو ایک ہی وقت میں رشتہ

.ازدواج میں رکھا

، ج صحیح البخاري، (ـہ253)متوفاي البخاري الجعفي، محمد بن إسماعیل أبو عبدهللا

، كتاب النكاح، باب ما یحل من النساء وما یحرم، تحقیق د. مصطفى دیب 7731، ص 5

.7781 - 7401بیروت، الطبعة: الثالثة، -البغا، ناشر: دار ابن كثیر، الیمامة

سے مراد جناب اس روایت کی شرح میں علماء اہل سنت نے لکھا ہے کہ اس دختر

: زینب]سالم هللا علیہا[ ہیں

وجمع عبد هللا بن جعفر بین بنت علي وامرأته أما امرأة علي فھي لیلى بنت مسعود وأما

.بنته فھي زینب

عبد هللا بن جعفر نے علی ]ع[ کی بیٹی اور ایک زوجہ کو ایک ہی وقت میں رشتہ

عود اور بیٹی سے مراد ازدواج میں رکھا . زوجہ علی ]ع[سے مراد لیلی بن مس

ہیں [زینب]س

هدي الساري ، (ـہ852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي

، تحقیق: محمد فؤاد عبد 127، ص 7، ج مقدمة فتح الباري شرح صحیح البخاري

.ـہ7117 –بیروت -الباقي، محب الدین الخطیب، ناشر: دار المعرفة

: سے مراد ام کلثوم لی ہے اور بعض نے اس بیٹی

ثنا جریر بن عبد الحمید عن قثم مولى آل العباس قال جمع عبد هللا بن ثنا سعید حده حده

جعفر بین لیلى بنت مسعود النھشلیة وكانت امرأة على وبین أم كلثوم بنت على لفاطمة

.بنت رسول هللا صلى هللا علیه وسلم فكانتا امرأتیه

بن جعفر نے لیلى بنت مسعود نھشلى جو کسی زمانہ میں زوجہ علی تھیں عبد هللا

اسے اور علی ]ع[ کی بیٹی کو ایک وقت میں بعنوان زوجہ رکھا۔

، ص 7، ج سنن سعید بن منصور، (ـہ221الخراساني، سعید بن منصور )متوفاي

لطبعة: الھند، ا -، تحقیق: حبیب الرحمن األعظمي، ناشر: الدار السلفیة 7077، ح283

. م7782 ـ ـہ7401األولى،

اسکی سند مکمل طور پر صحیح ہے ابن حجر اس کی روایت کو نقل کرنے کے بعد

: کہتے ہیں

وقال بن سیرین ال بأس به وصله سعید بن منصور عنه بسند صحیح

ابن سیرین نے کہا ہے کہ اس روایت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اس لئے کہ سعید بن

سند صحیح سے نقل کیا ہےمسعود نے اسے

فتح الباري ، (ـہ 852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي

، تحقیق: محب الدین الخطیب، ناشر: دار 755، ص 7، ج شرح صحیح البخاري

.بیروت -المعرفة

: احمد بن حنبل کے فرزند نے بھی اس دختر کو ام کلثوم کہا ہے

.بن جعفر أم كلثوم بنت علي ولیلى بنت مسعود وامرأة علي النھشلیةكانت عند عبد هللا

(، مسائل أحمد بن حنبل روایة ابنه عبد هللا ج ـہ 270عبد هللا بن أحمد بن حنبل )متوفاي

بیروت، الطبعة: -، تحقیق: زهیر الشاویش، ناشر: المكتب اإلسالمي 147، ص 7

. م7787 ـ ـہ1401األولى،

اپنی دو کتاب میں دو كتاب عبد هللا بن جعفر کی زوجہ کا نام ام کلثوم و بیھقى نےبھی

: لکھا ہے

جمع عبد هللا بن جعفر بین لیلى بنت مسعود والنھشلیة وكانت امرأة علي وبین أم كلثوم

.بنت علیلفاطمة فكانتا امرأتیه

سنن معرفة ال، (ـہ458البیھقي، أحمد بن الحسین بن علي بن موسى أبو بكر )متوفاي

، تحقیق: سید 274، ص 5، ج واآلثار عن االمام أبي عبد هللا محمد بن أدریس الشافعي

.بیروت ـكسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمیة

سنن البیھقي ، (ـہ458البیھقي، أحمد بن الحسین بن علي بن موسى أبو بكر )متوفاي

تحقیق: محمد عبد مكة المكرمة، -، ناشر: مكتبة دار الباز 731، ص 1، ج الكبرى

.7774 - 7474القادر عطا،

:!اس تضاد کا اہلسنت جواب دیتے ہیں

علماء اہل سنت ان دو روایت کو حل کرنے کے لئے چونکہ جانتے ہیں کہ زینب اور

ام کلثوم کو ایک ہی شخصیت قرار دیں تو مشکل ساز ہوجائے گی اس لئے ایک

توجیہ غیر معقول کرتے ہیں ۔

--------------------

:ان دو بہنوں نے ایک کے بعد ایک عبد هللا سے شادی کی ہے

:ابن حجر عسقالنى لکھتے ہیں

وال تعارض بین الروایتین في زینب وأم كلثوم ألنه تزوجھما واحدة بعد أخرى مع بقاء

.لیلى في عصمته

ان روایت میں کوئی تضاد نہیں ہے ایک میں زینب نام آیا ہے اور دوسری میں ام

کلثوم اس لئے کہ عبد هللا نے ایک کے بعد ایک بہن سے شادی کی تھی

فتح الباري ، (ـہ 852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي

، تحقیق: محب الدین الخطیب، ناشر: دار 755، ص 7، ج شرح صحیح البخاري

.بیروت -المعرفة

ہو سکتا ہے یا پہلے زینب سے شادی کی ابن حجر کا قول دو احتمال سے خالی نہیں

تھی بعد میں ام کلثوم سے یا پہلے ام کلثوم سے پھر زینب سے شادی کی؟

پہال احتمال اگر ہو تو اسکا جواب بعد میں بیان ہوگا ہے لیکن اگر دوسرا احتمال لیا

جائے تو علماء اہل سنت کی صراحت کے خالف ہونے کے ساتھ دوسرےبھی

تا ہے۔اشکاالت بھی رکھ

اہل سنت کی مشہور رائے یہ ہے ام کلثوم زمانہ امام حسن ]ع[میں فوت ہوگئ تھی

اور اس زمانہ تک عبد هللا بن جعفر کی بیوی شمار ہوتی تھی اس بناء پر زینب کی

شادی زمانہ امام علی]ع[ میں ممکن نہیں ہےاس لئے جمع اختین}دو بہن کا ایک

گا لیکن روایات اہل سنت کے مطابق عبد هللا وقت میں کسی کی بیوی ہونا{ ہوجائے

امام علی]ع[ کی زندگی میں زینب کے شوہر تھے۔

ابوبكر آجرى ابن ملجم کے قتل کیئے جانے کے بارے میں نقل کیا ہے

فعجل علیه عبد هللا بن جعفر وكانت زینب بنت علي تحته

اقدام کیازینب کے شوہر ، عبد هللا بن جعفر ، نے ابن ملجم کے قتل کے لئے

، تحقیق 2708، ص 4ج الشریعة،، ـہ130اآلجري، أبي بكر محمد بن الحسین )متوفاي

الریاض / السعودیة، -الدكتور عبد هللا بن عمر بن سلیمان الدمیجي، ناشر: دار الوطن

.م 7777 - ـہ 7420الطبعة: الثانیة،

ہیں کہ عبد هللا ابن حجر کا یہ قول دوسرے علماء اہل سنت کے خالف ہے جو کہتے

نے زینب کو طالق یا وفات کے بعد ام کلثوم سے شادی کی تھی

بالکل خالف ہے

!!! زینب کو طالق دیکر ام کلثوم سے شادی کی

بعض لوگوں نے یہ ادعا کیا ہے کہ عبد هللا بن جعفر، نے حضرت زینب سالم هللا

علیھا کو طالق دیکر ام*كلثوم سے شادی کی ۔

:ے کہا ہے کہ ابن حزم ظاهرى ن

-صلى هللا علیه وسلم -وتزوج أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب، بنت بنت رسول هللا

رضي هللا -عمر بن الخطاب، فولدت له زیدا لم یعقب، ورقیة؛ ثم خلف علیھا بعد عمر

عون بن جعفر بن أبي طالب؛ ثم خلف علیھا بعدہ محمد بن جعفر بن أبي طالب؛ - عنه

.بعدہ عبد هللا بن جعفر ابن أبي طالب، بعد طالقه ألختھا زینب ثم خلف علیھا

سے شادی کی جس سے زید اور رقیہ پیدا (عمر نے ام*كلثوم دختر رسول خدا )ص

ہوئے عمر کے بعد عون بن جعفر بن ابوطالب نے شادی کی اور انکے بعد عبد هللا

دیکر۔بن جعفر بن ابوطالب نے شادی کی انکی بہن ]زینب[ کو طالق

جمھرة أنساب ،(ـہ453إبن حزم الظاهري، علي بن أحمد بن سعید أبو محمد )متوفاي

ـ ـہ 7424بیروت، الطبعة: الثالثة، -، ناشر: دار الكتب العلمیة 18، ص 7، ج العرب

م2001

جبکہ شیعہ سنی روایات کے مطابق عبد هللا بن جعفر نے امام علی علیہ السالم کی

زندگی میں زینب ]س[سے شادی کی تھی اور زینب ]ع[ تا حیات انکی بیوی رہیں

ہجری[ کے بعد تک37سال ]یعنی امام حسین علیہ السالم کی شہادت

.!!! عبد هللا سے شادی کی ہوالبتہ یہ ہو سکتا ہے ام کلثوم دوبارہ زندہ ہوئی ہوں اور

: بیھقى نے وفات حضرت زینب سالم هللا علیھا کے بارے میں لکھا ہے

فأما زینب فتزوجھا عبد هللا بن جعفر فماتت عندہ

زینب، سے عبد هللا بن جعفر نے شادی کی اور جب تک زینب ]س[ زندہ تھیں عبد

.هللا کی بیوی رہیں

، ص 1(، دالئل النبوة، ج ـہ458بن علي )متوفاي البیھقي، أبي بكر أحمد بن الحسین

، طبق برنامه الجامع الكبیر؛281

سنن البیھقي ،(ـہ458البیھقي، أحمد بن الحسین بن علي بن موسى أبو بكر )متوفاي

مكة المكرمة، تحقیق: -، ناشر: مكتبة دار الباز 71207، الرقم 10، ص 1ج ،الكبرى

؛7774 – 7474محمد عبد القادر عطا،

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة هللا بن عبد

ج ،تاریخ مدینة دمشق وذكر فضلھا وتسمیة من حلھا من األماثل ،(ـہ517هللا،)متوفاي

، تحقیق: محب الدین أبي سعید عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر 713، ص 37

.7775 -بیروت -

ہ ادعا کرنا کہ عبد هللا نے زینب]س[ کو طالق دیکر ام کلثوم سے شادی اس بناء پر ی

کی ،صحیح نہیں ہے۔

!!! کیا وفات زینب]س[ کے بعد ام كلثوم سے شادی کی

: عمدة القاري، میں اس معمہ کو اس طرح حل کرنے کی کوشش کی ہے عینى نے

مسعود، وقال ابن أن ابن جعفر تزوج زینب بنت علي وتزوج معھا امرأته لیلى بنت

سعد: فلما توفیت زینب تزوج بعدها أم كلثوم بنت علي بنت فاطمة، رضي هللا تعالى

.عنھم

عبد هللا بن جعفر نے زینب دختر علي]ع[ اور لیلى سے شادی کی ابن سعد کہتا ہے:

جب زینب ]س[دنیا سے چلی گئی تو ام کلثوم بنت علی و فاطمہ سے شادی کی ۔

عمدة القاري شرح صحیح ،(ـہ855محمود بن أحمد )متوفاي العیني، بدر الدین

.بیروت –، ناشر: دار إحیاء التراث العربي 707، ص 20، ج البخاري

جبکہ اہل سنت کی روایات ام کلثوم اور زینب الگ الگ ہونے کے نظریہ کہ جس

کے مطابق ام کلثوم نے عمر سے شادی کی اور زینب ]س[کی وفات سے پہلے اور

حسین علیہ السالم کے مدینہ میں ہوتے ہوئے ام کلثوم اپنے بیٹے زید کے ساتھ امام

فوت کر جاتی ہیں اور امام حسین اورامام حسن ]ع[ان پر نماز پڑهتے ہیں ؟کیسے

صحیح کر سکتے ہیں ؟۔

محمد بن حبیب بغدادى نے المنمق میں اور ابن عساكر دمشقى نے تاریخ مدینة دمشق

:میں لکھا ہے افى فى الوفیاتالو صفدى نے میں اور

وقد ذكر بعض أهل العلم أنه وأمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب رحمة هللا علیھم

وكانت تحت عبد هللا بن جعفر بن أبي طالب علیه مرضا جمیعا وثقال ونزل بھما وأن

ا في رجاال مشوا بینھما لینظروا أیھما یموت قبل صاحبه فیرث منه اآلخر وأنھما قبض

.ساعة واحدة ولم یدر أیھما قبض قبل صاحبه فلم یتوارثا

بعض اہل علم نے کہا ہے کہ انکی ]زید[ کی والدہ ام کلثوم بنت علی تھیں اوروہ اس

زمانہ میں عبد هللا بن جعفر کی بیوی تھیں یہ دونوں مریض ہوگئے اور ایک کی

کون پہلے مرتا ہے وقت دنیا سے گزر گئے بعض لوگ انکے گھر آئے تاکہ دیکھے

تاکہ دوسرا وارث بن سکے لیکن دونوں ایک ساتھ انتقال کر جاتے ہیں اور لوگوں

کو معلوم نہ ہو سکا کہ کون پہلے مرا ہے اسی وجہ سے ارث ان دونوں میں تقسیم

نہیں ہوئی۔

:محمد بن سعد نے الطبقات الكبرى، میں اس موضوع پر تین روایت نقل کی ہیں

مر أنه صلى على أم كلثوم بنت علي وابنھا زید وجعله مما یلیه عن عامر عن بن ع

وكبر علیھما أربعا أخبرنا وكیع بن الجراح عن زید بن حبیب عن الشعبي بمثله وزاد فیه

وخلفه الحسن والحسین ابنا علي ومحمد بن الحنفیة وعبد هللا بن عباس وعبد هللا بن

.جعفر

ائیل عن جابر عن عامر عن عبد هللا بن عمر أنه أخبرنا عبید هللا بن موسى أخبرنا إسر

.كبر على زید بن عمر بن الخطاب أربعا وخلفه الحسن والحسین

عبد هللا بن عمر نے ام*كلثوم دختر علي]ع[ اور انکے بیٹے زید پر چار تکبیروں

[کے ساتھ نماز پڑهائی اور دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ امام حسن و حسین]ع

نفیہ ، ابن عباس عبد هللا بن جعفر نےعبد هللا بن عمر کے پیچھے نماز ، محمد بن ح

پڑهی۔

أخبرنا عبید هللا بن موسى أخبرنا إسرائیل عن السدي عن عبد هللا البھي قال شھدت بن

عمر صلى على أم كلثوم وزید بن عمر بن الخطاب فجعل زیدا فیما یلي اإلمام وشھد

.ذلك حسن وحسین

تا ہے: میں نے عبد هللا بن عمر کو ام*كلثوم اور انکے بیٹے زید پر عبد هللا الھبى کہ

نماز پڑهتا ہوا دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ حسن و حسین]ع[ اس نماز میں حاضر

تھے۔

، الطبقات الكبرى ،(ـہ210متوفاي) الزهري، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدهللا البصري

.بیروت -، ناشر: دار صادر 434، ص 8ج

ذهبى نے تاریخ اإلسالم میں لکھا ہے کہ سعید بن عاص نے جو اس زمانہ میں امیر

مدینہ تھا ام کلثوم پر نماز پڑهائی۔

وقال حماد بن سلمة، عن عمار بن أبي عمار، إن أم كلثوم وزید بن عمر ماتا فكفنا،

.وصلى علیھما سعید بن العاص، یعني إذ كان أمیر المدینة

ر بن ابى عمار سے روایت کی ہے کہ ام کلثوم اور انکے حماد بن سلمه نے عما

بیٹے زید بن عمر مر گئے اور کفن دیئے گئے اور ان پر سعید بن عاص نے نماز

پڑهائی جب وہ مدینہ کے امیر تھے

تاریخ اإلسالم ووفیات ،(ـہ148الذهبي، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، )متوفاي

، تحقیق د. عمر عبد السالم تدمرى، ناشر: دار 718، ص 4، ج المشاهیر واألعالم

.م7781 - ـہ7401لبنان/ بیروت، الطبعة: األولى، -الكتاب العربي

.میں فوت کرگئے ـہ57جبکہ سعید بن عاص زمانہ معاویه میں امیر مدینه تھے سال

ذهبى نےاس سال کے واقعے میں لکھا ہے

.العاص األموي، على الصحیح حوادث سنة تسع وخمسین. فیھا توفي: سعید بن

.میں فوت کر گئے ـہ57صحیح نقل کی بناء پر ،* سعید بن عاص اموى سال

تاریخ اإلسالم ووفیات ،(ـہ148الذهبي، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، )متوفاي

، تحقیق د. عمر عبد السالم تدمرى، ناشر: دار 718، ص 4، ج المشاهیر واألعالم

.م7781 - ـہ7401لبنان/ بیروت، الطبعة: األولى، -الكتاب العربي

اس بناء پر ام کلثوم کی شادی زینب ]س[کے بعد جو کربال میں بھی موجود تھیں فقط

ایک صورت میں ہو سکتی ہےوہ یہ ہے ام کلثوم کربال کے واقعے کے بعد دوبارہ

!!! زندہ ہوئی ہوں

: ایک خطبه دو انسانوں کے نام پر .3

کا شام اور کوفہ میں خطبہ دینا تاریخی کتب میں دو عنوانحضرت زینب

سے ذکر ہوا ہے یعنى وہی «خطبة زینب بنت علي» اور «خطبة ام کلثوم بنت علي» ا

خطبہ جس زینب]س[ کے نام سے نقل ہوا ہے وہی بہ عینیہ ام کلثوم کے نام سے

ذکر ہوا ہے

:صدی کے عالم ابن طیفور نے 4

نثر الدرر میں، اور ابن حمدون نے ں ، ابوسعد اآلبى نےبالغات النساء می كتاب

التذكرة الحمدونیة،میں خطبه ام*كلثوم کوفہ میں دیا جانے والے کو اس طرح نقل کیا

: ہے

ورأیت أم كلثوم علیھا السالمولم أر خفرة وهللا أنطق منھا كأنما تنطق وتفرغ على لسان

الناس أن اسكتوا فلما سكنت األنفاس وهدأت وقد أومأت إلى أمیر المؤمنین علیه السالم

األجراس قالت أبدأ بحمد هللا والصالة والسالم على جدي أما بعد یا أهل الكوفة یا أهل

الختر والخذل إال فال رفأت العبرة وال هدأت الرنة إنما مثلكم كمثل التي نقضت غزلھا

.من بعد قوة أنكاثا

، ص بالغات النساء ،( ـہ 180طیفور )متوفاىأبي الفضل بن أبي طاهر المعروف بابن

.طبق برنامه الجامع الكبیر 77قم و ص ـ، ناشر: منشورات مكتبة بصیرتي 24

، 4، ج نثر الدر في المحاضرات ،(ـہ427اآلبي، أبو سعد منصور بن الحسین )متوفاي

، بیروت /لبنان -، تحقیق: خالد عبد الغني محفوط، ناشر: دار الكتب العلمیة 77ص

م؛2004 - ـہ7424الطبعة: األولى،

، ج التذكرة الحمدونیة ،(ـہ308ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي )متوفاي

بیروت،، الطبعة: -، تحقیق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر 235، ص 3

.م7773األولى،

-العلمیة ، ناشر: المكتبة 714، ص 2ج جمھرة خطب العرب، صفوت، أحمد زكي،

.بیروت

جبکہ شیخ مفید اور دوسرے افراد نے اسی خطبہ کو زبان حضرت زینب سالم هللا

علیھا سے نقل کیاہے

ولم أر خفرة قط أنطق منھا كأنھا تفرغ عن لسان ورأیت زینب بنت علي علیھما السالم

األنفاس قال: وقد أومأت إلى الناس أن اسكتوا، فارتدت .أمیر المؤمنین علیه السالم

الحمد ہلل والصالة على أبي رسول هللا، أما بعد یا أهل الكوفة، :وسكتت األصوات فقالت

ویا أهل الختل والخذل، فال رقأت العبرة، وال هدأت الرنة، فما مثلكم إال " كالتي نقضت

.غزلھا من بعد قوة أنكاثا، تتخذون أیمانكم دخال بینكم

عمان ابن المعلم أبي عبد هللا العكبري، البغدادي الشیخ المفید، محمد بن محمد بن الن

علي أكبر الغفاري، -، تحقیق الحسین أستاد ولي 122، ص األمالي ،(ـہ 471)متوفاي

7771 - ـہ7474بیروت، الطبعة: الثانیة، -ناشر: دار المفید للطباعة والنشر والتوزیع

روکنا ، بعض نے اسی طرح اہل بیت کے بچوں کو کوفیوں کے صدقہ کھانے سے

ام کلثوم کی جانب سے منع کرنا اور بعض نے زینب]س[ کی طرف سے منع کرنا

نقل کیا ہے ۔

للسبایا عن أخذ صدقات زینب أو أم كلثوم علیھما السالم وقد اشتھر حكایة منع سیدتنا

.أهل الكوفة معللتین بكونھا صدقة

کوفہ کے صدقات سے منع کرنی اور سیدہ زینب ]س[یا ام کلثوم کا اسیروں کو اہل

کی حکایت مشہور ہے ۔

، تحقیق: تحقیق: 151( كتاب الزكاة، صـہ 7287األنصاري*، الشیخ مرتضي )متوفاي

لجنة تحقیق تراث الشیخ األعظم، ناشر: المؤتمر العالمي بمناسبة الذكرى المئویة الثانیة

.ـہ 7475قم، الطبعة: األولى، ـلمیالد الشیخ األنصاري

: ام كلثوم کی حضرت زهرا سالم هللا علیھا کے لئے عزادری اور نوحہ خوانی .4

: میں لکھا ہے روضة الواعظین فتال نیشابورى نے

ثم توفیت صلوات هللا علیھا وعلى أبیھا، وبعلھا وبنیھا فصاحت أهل المدینة صیحة

المدینة ان واحدة واجتمعت نساء بني هاشم في دارها، فصرخن صرخة واحدة كادت

تزعزع من صراخھن وهن یقلن: یا سیدتاہ یا بنت رسول، واقبل الناس مثل عرف

علیه السالم " وهو جالس، والحسن والحسین علیھما السالم بین یدیه " الفرس إلى علي

وخرجت أم كلثوم وعلیھا برقعة وتجر ذیلھا، متجللة برداء یبكیان فبكى الناس لبكائھما،

تقول: یا أبتاہ یا رسول هللا، اآلن حقا فقدناك فقدا اللقاء بعدہ ابدا علیھا تسحبھا وهي

واجتمع الناس فجلسوا، وهم یرجون وینظرون ان تخرج الجنازة، فیصلون علیھا وخرج

أبو ذر فقال: انصرفوا فإن ابنة رسول هللا ) صلى هللا علیه وآله ( قد أخر اخراجھا في

.هذہ العشیة فقام الناس وانصرفوا

بی بی فاطمہ]س[ وفات کر گئیں ۔۔۔ تو اہل مدینہ نے نالہ وشیون پرپا کردیا اور جب

بنی پاشم کی مخدرات انکے گھر میں جمع ہوگئیں اور ایسا نالہ وشیون کیا کہ جس

سے مدینہ لرز اٹھا اور وہ مخدرات کہتی تھیں اے ہماری بی بی و سیدہ اے رسول

سالم [ کے پاس آئے جبکہ حسن و حسین کی بیٹی ۔لوگ جوک در جوک علی ]علیہ ال

علیہما السالم [ آپ کے آگے بیٹھے ہوئے تھے اور گریہ کر رہے تھے اور لوگ ]

انکے بکا سے بکا کر رہے تھےاتنے میں ام کلثوم جبکہ انکے چہرے پر نقاب اور

سر پرعربی چادر تھی جو زمین پر لگ رہی تھی گھر سے باہر آئیں اور فریاد کی

سائے سے محروم ہوگئی ص[در حقیقت آج میں آپ کے]اے میرے جد رسول هللا

ہوں جو کبھی نصیب نہیں ہوگا لوگ جمع ہو کر بیٹھ گئے اور جنازہ کے لئے منتظر

تھے تاکہ اس پر نماز پڑهیں لیکن ابو ذر گھر سے نکلے اور کہا سب چلے جائیں

اس رات میں جنازہ نکلنا موخر ہوگیا تب لوگ چلے گئے ۔

، تحقیق: 752، ص روضة الواعظین ،(ـہ508النیسابوري، محمد بن الفتال )متوفاي

إیران –تقدیم: السید محمد مھدي السید حسن الخرسان، ناشر: منشورات الرضي قم

اس روایت میں فقط حسن]ع[ و حسین ]ع[اور ام کلثوم حضرت زہرا]س[ کے 1

عزادار بتائے گئے ہیں اور زینب ]س[کا کوئی تذکرہ نہیں کہ اس بات پرسب کا

: کلثوم سے بڑی تھیںاتفاق ہے زینب ام

شھادت حضرت زهرا سالم هللا علیھا، کے وقت ام کلثوم کے وجود کے مدعی 2

افراد کے اعتبار سےوہ رسول کے آخری ایام حیات میں دنیا میں آئیں جس کا محتاط

اندازہ دو سال ہے پس اس بناء پر نوحہ سرائی اور نقاب وغیرہ اس عمر میں وغیرہ

اس بناء پر الزم ہے کہ اس روایت میں موجود ام کلثوم سے کیا معنی رکھتا ہے ؟

مراد جناب زینب]س[ لیں ۔

امیر المؤمنین شب ضربت کس کے مہمان تھے ؟ .5

متعدد روایات میں موجود ہے کہ علی ]ع[ رمضان کی ہر رات اپنے اوالد میں سے

ور کسی نہ کسی کے مہمان بنتے تھے کبھی امام حسن ]ع[کبھی امام حسین]ع[ ا

کبھی عبد هللا بن جعفر کے مہمان ہوتے ۔ تمام نقل کے اتفاق کے ساتھ شب ضربت،

امام علی]ع[ ام کلثوم کے مہمان تھے ۔ اب ام کلثوم ان افراد میں سے کس کی زوجہ

تھیں ؟

: میں لکھا ہے اإلرشاد شیخ مفید نے كتاب شریف

لیلة عند الحسن ولیلة لما دخل شھر رمضان، كان أمیر المؤمنین علیه السالم یتعشى

عند الحسین ولیلة عند عبد هللا بن جعفر، وكان ال یزید على ثالث لقم، فقیل له في لیلة

من تلك اللیالي في ذلك، فقال: " یأتیني أمر هللا وأنا خمیص، إنما هي لیلة أو لیلتان "

.فأصیب علیه السالم في آخر اللیل

ؤمنین علیه السالم ایک رات امام حسن]ع[ جب ماہ مبارك رمضان آ پہنچا تو، امیر م

ایک رات امام حسین ]ع[اور ایک رات عبد هللا بن جعفر )شوهر حضرت زینب سالم

هللا علیھا( کے پاس گزارتے تھے اور تین لقموں سے زیادہ تناول نہیں فرماتے تھے

و رمضان کی کسی رات آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ اتنا کم کیوں تناول کرتے ہیں ت

فرمایا: مجھے پسند ہے کہ خالی پیٹ خدا سے مالقات کروں۔ ایک یا دو رات بعد

رات کے آخری حصہ میں آپ]ع[ پر شمشیر چلی۔

الشیخ المفید، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد هللا العكبري، البغدادي

، تحقیق: 74، ص 7، ج اإلرشاد في معرفة حجج هللا علي العباد ،(ـہ 471)متوفاي

مؤسسة آل البیت علیھم السالم لتحقیق التراث، ناشر: دار المفید للطباعة والنشر

.م 1993 - ـہ7474لبنان، الطبعة: الثانیة، -بیروت -والتوزیع

: اور قطب الدین راوندى نے لکھا ہے

ابن وكان یفطر في هذا الشھر لیلة عند الحسن، ولیله عند الحسین، ولیلة عند عبد هللا

جعفر زوج زینب بنته ألجلھا، ال یزید على ثالث لقم، فقیل له في ذلك، فقال: یأتیني أمر

هللا وأنا خمیص، إنما هي لیلة أو لیلتان، فأصیب من اللیل. وقد توجه إلى المسجد في

اللیلة التي ضربه الشقي في آخرها، فصاح اإلوز في وجھه، فطردهن الناس، فقال:

.دعوهن فإنھن نوائح

اس ماہ رمضان میں آپ علیہ السالم ایک رات امام حسن ایک رات امام حسین اور

ایک رات عبد هللا بن جعفر کے پاس جوزینب کے شوہر انکی وجہ سے افطار کرتے

تھے اور تین لقموں سے زیادہ تناول نہیں کیا کرتے تھے ۔۔۔ اس رات کے آخری

لگائی تھی مرغابیوں نے حصہ میں آپ مسجد گئے جس میں شقی نے آپ پر ضرب

آپ کے سامنے شور مچایا تو لوگوں نے مرغابیوں کو دور کیا لیکن امام علی

]ع[نے کہا چھوڑ دو یہ مجھ پر نوحہ کر رہی ہیں۔

، تحقیق 207ص 7، ج الخرائج والجرائح ،(ـہ511متوفاي) الراوندي، قطب الدین

.ـہ7407األولى، قم، الطبعة: ـونشر مؤسسة اإلمام المھدي علیه السالم

: اهل سنت کے علماء نے بھی اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے

كان علي لما دخل رمضان یتعشى لیلة عند الحسن ولیلة عند الحسین ولیلة عند أبي

.جعفر ال یزید علي ثالث لقم یقول أحب أن یأتیني أمر هللا وأنا خمیص

حسن ایک رات امام حسین اور ماہ رمضان میں علی ]علیہ السالم[ ایک رات امام

ایک رات عبد هللا بن جعفر کے پاس افطار کرتے تھے اور تین لقموں سے زیادہ

تناول نہیں کیا کرتے تھے ۔۔۔ ۔

أسد الغابة في ،(ـہ310الجزري، عز الدین بن األثیر أبي الحسن علي بن محمد )متوفاي

ناشر: دار إحیاء التراث ، تحقیق عادل أحمد الرفاعي، 728، ص 4، ج معرفة الصحابة

م؛ 7773 - ـہ 7471بیروت / لبنان، الطبعة: األولى، -العربي

الكامل في (ـہ310الجزري، عز الدین بن األثیر أبي الحسن علي بن محمد )متوفاي

بیروت، -، تحقیق عبد هللا القاضي، ناشر: دار الكتب العلمیة 254، ص 1، ج التاریخ

؛ـہ7475الطبعة الثانیة،

( ـہ518لزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار هللا )متوفاىا

؛247، ص 7ربیع األبرار، ج

نھایة األرب في فنون ،(ـہ111النویري، شھاب الدین أحمد بن عبد الوهاب )متوفاي

-، تحقیق مفید قمحیة وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمیة 172، ص 1، ج األدب

.م2004 - ـہ7424عة: األولى، بیروت، الطب

اور دوسری جانب بعض لوگوں نے روایت کی ہے امام علی علیہ السالم اس رات ام

: کلثوم کے مہمان تھے

قالت أم كلثوم بنت أمیر المؤمنین صلوات هللا علیه: لما كانت لیلة تسع عشرة من شھر

قصعة فیھا لبن وملح رمضان قدمت إلیه عند إفطارہ طبقا فیه قرصان من خبز الشعیر و

.جریش

رمضان آئی تو میں نے دستر خوان بچھایا جس پر دو جو ۹۱ام کلثوم کہتی ہیں جب

کی روٹیاں اور اور ایک برتن میں دوده اور کچھ نمک تھا ،

، تحقیق: محمد 213ص 42، ج بحار األنوار ،(ـہ7777المجلسي، محمد باقر )متوفاي

لبنان، الطبعة: الثانیة المصححة، -بیروت -الوفاء الباقر البھبودي، ناشر: مؤسسة

.م 7781 - 7401

اب کس طرح ان روایت کو جمع کریں ؟ کیا امام علی علیہ السالم کا معمول یہ تھا

ایک رات امام حسن ،ایک رات ،امام حسین ، ایک رات جناب زینب ،اور ایک رات

نہیں ہے یا ام کلثوم کےگھر کو ام کلثوم کے پاس گزرتے ؟ کیا یہ نص کے برخالف

ان تین گھر میں سے کسی ایک کو کہا جائے یعنی عبد هللا کے گھر کو اور زینب

سے مراد خود ام کلثوم ہی ہیں اگر ام کلثوم الگ سے تھیں تو کیوں انکے لئے ایک

رات کو مخصوص نہیں کیا گیا ؟

:ام کلثوم امیر مؤمنین علی علیه السالم کی بہترین بیٹی .6

قاضى نعمان مغربى، نے ایک روایت کے ضمن میں ام کلثوم کو بہترین بیٹی قرار

: دیا ہے

: یا بنیة ما أراني إال ـوكانت خیر بناته ـقالت: قال علي علیه السالم یوما البنته أم كلثوم

.....أقل ما أصحبك

تھیں ، کہا علي علیہ السالم نے ایک دن اپنی بیٹی ام کلثوم سے جو انکی بہترین بیٹی

میری اور تمہاری مالقات کے دن بہت کم رہ گئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

شرح األخبار في ،(ـہ 131التمیمي المغربي، أبي حنیفة النعمان بن محمد )متوفاي

، تحقیق: السید محمد الحسیني الجاللي، ناشر: 452ص 2، ج فضائل األئمة األطھار

.ـہ 7474ة، قم، الطبعة: الثانی ـمؤسسة النشر االسالمي

امام علی ]ع[کی سب [جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے زینب عقلیہ عرب ]س

. سے بہترین بیٹی تھیں

معاویه، نے کس کی بیٹی سے خوستگاری کی ؟ .7

اهل سنت، کی روایت کے مطابق ، معاویہ بن ابوسفیان، نے عبد هللا بن جعفر کی

امام حسین علیہ السالم کی مداخلت سے بیٹی سے یزید کے لئے خوستگاری کی لیکن

نے قاسم بن محمد بن جعفر سے اس [معاویہ کی سازش ناکام ہوئی اور امام حسین]ع

کا نکاح کردیا ۔

۔ ام کلثوم بنت زینب بنت فاطمہ 1یہ لڑکی کس کی تھی دو طرح سے نقل ہوا ہے

هللا علیہا۔۔ زینب بنت ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا سالم 2زہرا سالم هللا علیہا

بالذرى اور حموى کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ جناب زینب]س[ اور عبد هللا بن جعفر کی

كتب معاویة إلى مروان وهو على المدینة بیٹی تھیں

أن یخطب أم كلثوم بنت عبد هللا بن جعفر، وأمھا زینب بنت علي. وأمھا فاطمة بنت

.هللا صلى هللا علیه وسلم، على ابنه یزیدرسول

معاویہ، نے مروان جو اسکی طرف سے والی مدینہ تھا ،کو خط لکھا اس میں لکھا

کہ ام کلثوم بنت عبد هللا کہ جن کی ماں زینب بنت علی اور بنت فاطمہ بنت رسول

ص[ہیں اس کے لئے میرے بیٹے یزید کی خوستگاری کرو]

.721، ص 2، ج أنساب األشراف ،(ـہ217بن جابر )متوفايالبالذري، أحمد بن یحیى

: اور حموى نے لکھا

وتحدث الزبیریون أن معاویة كتب إلى مروان بن الحكم وهو والي المدینة أما بعد فإن

أمیر المؤمنین قد أحب أن یرد األلفة ویسل السخیمة ویصل الرحم فإذا وصل إلیك كتابي

.ابنته أم كلثوم على یزید ابن أمیر المؤمنینفاخطب إلى عبد هللا بن جعفر

زبیریوں نے نقل کیا ہے کہ ہے معاویہ نے حاکم مدینہ مروان کو خط لکھا کہ : میں

چاہتا ہوں کہ کینہ ختم ہوجائے اور صلہ رحم بڑے پس اس خط کو پڑهنے کے بعد

کی عبد هللا بن جعفر کے پاس جاو اور انکی لڑکی ام کلثوم سے میرے بیٹے یزید

خوستگاری کرو۔

، ص 7، ج معجم البلدان ،(ـہ323الحموي، أبو عبد هللا یاقوت بن عبد هللا )متوفاي

.بیروت –، ناشر: دار الفكر 437

لیکن بعض اهل سنت کے علماء نے اس لڑکی کو بنت ام کلثوم اور بنت عبد هللا بن

جعفر لکھا ہے

: صدی کے عالم نے لکھا ہے 4أبو الفرج نھروانى

أم بكر بنت المسور بن مخرمة قالت سمعت أبي یقول كتب معاویة إلى مروان وهو عن

على المدینة أن یزوج ابنه یزید بن معاویة زینب بنت عبد هللا بن جعفر وأمھا أم كلثوم

.بنت علي وأم أم كلثوم فاطمة بنت رسول هللا

و مروان کو بنت مسور نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ معاویہ نے والی مدینہ ک

خط لکھاتاکہ وہ عبد هللا بن جعفر اور ام کلثوم کی بیٹی سے یزید کی خواستگاری

کرے ۔

الجلیس الصالح واألنیس (ـہ170النھرواني، أبو الفرج المعافى بن زكریا )متوفي

.33، ص 7، ج الناصح

: ابن عساكر دمشقى نے بھی اسی مطلب کو لکھا ہے

أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة هللا بن عبد ابن عساكر الدمشقي الشافعي،

، ج تاریخ مدینة دمشق وذكر فضلھا وتسمیة من حلھا من األماثل ،(ـہ517هللا،)متوفاي

، تحقیق: محب الدین أبي سعید عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر 245، ص 51

.7775 -بیروت -

: شام میں کون دفن ہے .8

کہتا ہے قبر [میں بجائے زیارت زینب بنت علی ]ع (ـہ117)متوفيرحلة ابن بطوطة

ام کلثوم بنت علی دمشق کے نزدیک ۔۔۔

وبقریة قبلي البلد وعلى فرصخ منھا مشھد أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب من فاطمة

علیھم السالم ویقال أن اسمھا زینب وكناها النبي صلى هللا علیه وسلم أم كلثوم لشبھھا

....ا أم كلثوم بنت الرسولبخالتھ

اس شہر کے نزدیک اور ایک فرسخ کے فاصلہ پر ، بارگاہ ام*كلثوم بنت علي بن

أبى طالب و فاطمه علیھم السالم ہے بعض نے کہا ہے انکا نام زینب لیکن نبی]ص[

نے انکی کنیت ام کلثوم رکھی اپنی خالہ سے شباہت رکھنے کی وجہ سے ۔

تحفة ،(ـہ 117هللا بن محمد اللواتي أبو عبد هللا )متوفاي ابن بطوطة، محمد بن عبد

، 7، ج ( رحلة ابن بطوطة مشھور به) النظار في غرائب األمصار وعجائب األسفار

بیروت، الطبعة: -، تحقیق: د. علي المنتصر الكتاني، ناشر: مؤسسة الرسالة 771ص

.ـہ7405الرابعة،

سکتا ہے کہ یہ مدفن ام کلثوم کا ہے جو ابن بطوطہ کے اس کالم سے نتیجہ لیا جا

وہی جناب زینب ]س[ہیں اور یہ مدفون ام کلثوم نہیں ہو سکتا ہے اس لئے جو لوگ

قائل ہیں کہ ام کلثوم اور زینب الگ الگ ہیں انکا مدفن مدینہ میں ہیں نہ کہ شام میں

: حموى نے معجم البلدان نے بھی اس مزار کو ام*كلثوم کا قرار دیا ہے

راویة بكسر الواو ویاء مثناة من تحت مفتوحة بلفظ راویة الماء قریة من غوطة دمشق

.بھا قبر أم كلثوم

. قبر ام*كلثوم راویه دمشق میں ہے

، 20، ص 1، ج معجم البلدان ،(ـہ323الحموي، أبو عبد هللا یاقوت بن عبد هللا )متوفاي

.بیروت –ناشر: دار الفكر

: اپنے سفرنامه میں ، اس مدفن کو ام کلثوم کا قرار دیا ہےابن جبیر اندلسى نے

ومن مشاهد أهل البیت رضى هللا عنھم مشھد أم كلثوم ابنة علي بن أبي طالب رضى هللا

عنھما ویقال لھا زینب الصغرى وأم كلثوم كنیة اوقعھا علیھا النبي صلى هللا علیه وسلم

لشبھھا بابنته أم كلثوم رضى هللا عنھا وهللا اعلم بذلك ومشھدها الكریم بقریة قبلي البلد

على مقدار فرسخ وعلیه مسجدكبیر وخارجة مساكن وله اوقاف وأهل هذہ تعرف براویة

.الجھات یعرفونه بقبر الست أم كلثوم مشینا الیه وبتنا به وتبركنا برؤیته نفعنا هللا بذلك

اور اہل بیت کے مزارات میں سے ایک مزار مدفن ام کلثوم بنت علی]ع[ کا ہے جس

وم کنیت ہے جسے آپ ص نے عنایت کی کو زینب صغرا بھی کہتے ہیں اور ام کلث

۔۔اور یہ دمشق میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رحلة ابن ،(ـہ374الكناني األندلسي، أبي الحسین محمد بن أحمد بن جبیر )متوفاي

، تحقیق: تقدیم / الدكتور محمد مصطفى زیادة، ناشر: دار الكتاب 773، ص 7، ج جبیر

.القاهرةبیروت / -اللبناني / دار الكتاب المصري

صدی کے عالم نے واضح کہا ہے ام کلثوم وہی 74اور عبد الرزاق بیطار،

:زینب]س[ ہیں اور یہ مدفن انکا ہے ،

راویة، وهي قریة من جھة الشرق إلى القبلة من الشام، بینھا وبین الشام نحو ثالثة

ي طالب، أمھا أمیال، وقد دفن في هذہ القریة السیدة زینب أم كلثوم بنت اإلمام علي بن أب

.فاطمة الزهراء بنت رسول هللا

روایه، شام کےمشرقی حصہ میں واقع ایک گاوں کا نام ہے جو شام سے تین میل

کے فاصلہ پر ہے اس گاوں میں زینب بنت علی]ع[ و فاطمہ]س[ جن کی کنیت ام

کلثوم تھی دفن ہوئی ہیں

حلیة البشر في تاریخ ،(ـہ7115البیطار، عبد الرزاق بن حسن بن إبراهیم )متوفاي

.50، ص 2، ج القرن الثالث عشر

تاریخ مدینه دمشق میں بھی اسے ام کلثوم بتایا گیا ہے اور ام کلثوم جس کا یہ لوگ

کہتے ہیں وہ مدینہ میں فوت ہوکر دفن ہوئی ہیں۔

وأم كلثوم هذہ لیست بنت رسول هللا صلى هللا مستجد على قبر أم كلثوم مسجد راویة

التي كانت عند عثمان ألن تلك ماتت في حیاة النبي صلى هللا علیه وسلم علیه وسلم

ودفنت بالمدینة وال هي أم كلثوم بنت علي من فاطمة التي تزوجھا عمر بن الخطاب

رضي هللا تعالى عنه ألنھا ماتت هي وابنھا زید بن عمر بالمدینة في یوم واحد ودفنا

....بالبقیع

کو قبر ام کلثوم پر بنایا گیا اور یہ ام کلثوم بنت مسجد راویه، وہ مسجد ہے جس

رسول]ص[ نہیں ہے اسی طرح عمر کی زوجہ بھی نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنے

فرزند زید کے ساتھ مدینہ ]بقیع [ میں دفن ہیں۔

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة هللا بن عبد

ج ،تاریخ مدینة دمشق وذكر فضلھا وتسمیة من حلھا من األماثل ،(ـہ517هللا،)متوفاي

-، تحقیق: محب الدین أبي سعید عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر 107، ص 2

.7775 -بیروت

پس تمام باتوں کا بہرین حل یہی ہے کہ ام کلثوم وہی زینب]س[ ہیں

:کون کون اہل بیت میں سے کربال سے اسیر ہوا ؟ .9

، میں تمام اسیران کربال کے نام لکھے ہیں شرح األخبار قاضى نعمان مغربى نے

:لیکن ان مین بی بی زینب ]س[کا نام نہیں ہے

والذین أسروا منھم بعد من قتل منھم یومئذ: علي بن الحسین علیه السالم وكان علیال

.لي بن أبي طالبدنفا... ومن النساء أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب. وأم الحسن بنت ع

.وفاطمة. وسكینة ابنتا الحسین بن علي

جو روز عاشور اسیر بنائے گئے ان میں علی بن حسین علیہ السالم جو بیمار تھے ۔۔

عورتوں میں سے ام کلثوم بنت علی ام الحسن بنت علی فاطمہ بنت حسین ، اور

[سکینہ بنت حسین]ع

شرح األخبار في ،(ـہ 131)متوفاي التمیمي المغربي، أبي حنیفة النعمان بن محمد

، تحقیق: السید محمد الحسیني الجاللي، ناشر: 778ص 1، ج فضائل األئمة األطھار

. ـہ 7474قم، الطبعة: الثانیة، ـمؤسسة النشر االسالمي

ام کلثوم زینب کی کنیت کو ذهن میں رکھ کر یہ احتمال قوی ہے کہ مراد ام کلثوم

کہ سب کا اتفاق ہے اس بات پر کہ زینب ]س[کربال کے س[ہے اس لئے ]سے زینت

اسیروں میں تھیں اور ایک اور ام کلثوم کا ہونا ثابت نہیں ہے

: میراث فاطمہ فقط ام کلثوم کو ملی .10

: سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے مصباح األنوار عالمه مجلسى رضوان هللا علیه نے

علیھا السالم لما احتضرت أوصت علیا علیه عن أبي عبد هللا، عن آبائه قال: إن فاطمة

السالم فقالت: إذا أنت مت فتول أنت غسلي، وجھزني وصل على وأنزلني قبري،

وألحدني وسو التراب على واجلس عند رأسي قبالة وجھي فأكثر من تالوة القرآن

والدعاء، فإنھا ساعة یحتاج المیت فیھا إلى انس االحیاء وأنا أستودعك هللا تعالى

وأوصیك في ولدي خیرا ثم ضمت إلیھا أم كلثوم فقالت له: إذا بلغت فلھا ما في المنزل

.ثم هللا لھا

فاطمہ سالم هللا علیہا نے احتضار کے عالم میں علی علیہ السالم سے کہا جب میں

اس دنیا سے چلی جاوں تو آپ خود مجھے غسل دینا کفن دینا اور مجھ پر خود ہی

کرنا ۔۔۔۔ پھر بی بی فاطمہ ]س[نےام کلثوم کو گلے لگایا اور کہا نماز پڑهنا اور دفن

جب یہ بالغ ہوجائے تو جو کچھ گھر میں اسکا ہےهللا اسکا نگبان ہے۔

، تحقیق: محمد 21ص 17، ج بحار األنوار ،(ـہ7777المجلسي، محمد باقر )متوفاي

الطبعة: الثانیة المصححة، لبنان، -بیروت -الباقر البھبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء

.م7781 - 7401

!!! عمر کی شادی حضرت زینب )س( کے ساتھ .11

بعض اهل سنت نے عجیب دعوی کیا ہے کہ خلیفه دوم نے حضرت زینب سالم هللا

.!!!علیھا سے شادی کی تھی

:عبد الحى كتانى لکھتا ہے

الحافظ الدمیري اعظم صداق ذكر الشیخ المختار الكنتي في االجوبة المھمة نقال عن

بلغنا خبرہ صداق عمر لما تزوج زینب بنت علي فانه أصدقھا اربعین الف دینار فقیل له

في ذلك فقال وهللا ما في رغبة إلى النساء والكني سمعت رسول هللا صلى هللا علیه وسلم

ي وبینه یقول كل سبب ونسب ینقطع یوم القیامة اال سببي ونسبي فأردت تاكید النسب بین

صلى هللا علیه وسلم فأردت أن أتزوج ابنته كما تزوج ابنتي وأعطیت هذا المال العریض

اكراما لمصاهرتي ایاہ صلى هللا علیه وسلم. منھا هذا مع كون عمر نھى عن المغاالت

.في المھر

مختار كنتى نے دمیرى سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: سب سے زیاد مہر جو آج تک

کا مہر تھا جب انھوں نے زینب بنت علی ]ع[سے شادی کی تھی سنا ہے وہ عمر

ہزار دینار تھا ۔ جب ان سے مہر کے بارے میں سوال کیا گیا تو 40اور وہ مہرتھا

انھوں نے کہا مجھے عورتوں میں دلچسپی نہیں ہے چونکہ حضرت رسول

میرا ]ص[نے فرمایا تھا تمام نسب اور سبب قیامت میں ختم ہوجائیں گے سوا ئے

نسب اور سبب کے اسلئے خواہش تھی کہ میرے اور رسول ]ص[کے درمیان سبب

اور پختہ ہوجائے میں نےآپ ص کی بیٹی سے شادی کی جس طرح انھوں نے میری

بیٹی سے شادی کی تھی اور اس مہر کی خطیر رقم رسول]ص[ کی دامادی کا

عوض ہے۔

الحكومة النبویة المسمى التراتیب نظام ،(ـہ7182الكتاني، الشیخ عبد الحي )متوفاي

.بیروت –، ناشر: دار الكتاب العربي 405، ص 2، ج اإلدرایة

یہ بھی بتا رہا ہے ام کلثوم اور زینب]س[ ایک ہی تھیں اور اس کو لحاظ کرتے

ہوئے جناب زینب ]س[نے خلیفہ دوم سے شادی نہیں کی تھیں ،واضح ہوجاتا ہے کہ

السالم کی کسی بھی بیٹی سے شادی نہیں کی تھی خلیفہ دوم نے حضرت علی علیہ

بلکہ یہ داستان ایک افسانہ کے عالوہ کچھ نہیں ہے۔

: ام كلثوم کربال میں موجود تھیں .12

جو لوگ کہتے ہیں کہ ام کلثوم اور زینب ]س[ دو الگ بیٹاں تھیں انکا نظریہ یہ ہے

گئیں اور بقیع میں دفن کہ ام کلثوم امام حسن علیہ السالم کے زمانہ میں فوت کر

ہوئی ہیں لیکن بعض کتب اہل سنت کے مطابق ام کلثوم کربال میں بھی موجود تھیں

: جیسا کہ خطبہ بالغت النساء میں بیان ہوا ہے کہ

...أما بعد یا أهل الكوفة والصالة والسالم على جدي قالت أبدأ بحمد هللا

و سالم اے اہل کوفہ ۔۔۔ اس طرح کہا : هللا کی حمد اور میرے جد پر درود

، ص بالغات النساء ،( ـہ 180أبي الفضل بن أبي طاهر المعروف بابن طیفور )متوفاى

.، طبق برنامه الجامع الكبیر77قم و ص ـ، ناشر: منشورات مكتبة بصیرتي 24

: میں لکھتے ہیں قرن کے عالم بستان الواعظین ۶اور جمال الدین بغدادى اهل سنت

رفعت رأسھا أم كلثوم الحسین بینھن مصلوب تسع ساعات من النھار وإنفظللن ورأس

هذا رأس یا جداہ ترید رسول هللا صلى هللا علیه وسلم فرأت رأس الحسین فبكت وقالت

.حبیبك الحسین مصلوب

گھنٹے اسیروں کے سامنے نیزہ کے اوپر 7سر مبارك امام حسین علیہ السالم کو

ے اپنے سر کو اٹھایا تو دیکھا کہ سر حسین ]ع[ہے گریہ رکھا گیا اور جب ام کلثوم ن

کیا اور کہا اے میرے جد رسول هللا]ص[ یہ آپ کے پیارے حسین ]ع[کا سر نیزے

پر ہے ۔

البغدادي، جمال الدین أبو الفرج عبد الرحمن بن أبي الحسن علي بن محمد

تحقیق: أیمن ، 234، ص 7، ج بستان الواعظین وریاض السامعین ،(ـہ571)متوفاي

.م7778 ـ ـہ7477بیروت، الطبعة: الثانیة، -البحیري، ناشر: مؤسسة الكتب الثقافیة

ان روایات میں ام کلثوم نے رسول هللا ]ص[کو اپنا جد کہا ہے اور اہل سنت

کےمشہور نظریہ کے رو سے ام کلثوم امام حسن]ع[ کے زمانہ میں مدینہ میں انتقال

ان روایات کو بغیر کسی توجیہ کے سوائے اس کہ ام کر گئی تھیں تو ضروری ہے

کلثوم سے مراد حضرت زینب علیھا السالم کو لیا جائے

:نتیجه

ان ذکر شدہ شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے ، ام کلثوم بنت حضرت زهرا سالم هللا

علیھا مورد شک ہے بلکہ مراد ام کلثوم سے خود حضرت زینب سالم هللا علیھا ہی

جب ام کلثوم اور حضرت زینب سالم هللا علیھا ایک ہی شخصیت ہے تو ہیں اور

عمر کی شادی کا افسانہ ہی ختم ہوجاتا ہے اس لئے اس زمانہ میں حضرت زینب

سالم هللا علیھا حضرت عبد هللا بن جعفر کی بیوی تھیں ۔

: علماء اہل سنت کے مطابق اہل بیت اس شادی کے منکر تھے

عبارات سے واضح ہوتا ہے اہل بیت اور سادات میں ایسے افراد علماء اهل سنت کی

موجود تھے جو اس شادی کے منکر تھے۔

ابن حجر هیثمى الصواعق المحرقه میں ، شادی کے حوالہ سے ضعیف السند روایت

:کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں

أن علیا عزل وفي روایة أخرجھا البیھقي والدارقطني بسند رجاله من أكابر أهل البیت

بناته لولد أخیه جعفر فلقیه عمر رضي هللا تعالى عنھما فقال له یا أبا الحسن أنكحني

ابنتك أم كلثوم بنت فاطمة بنت رسول هللا صلى هللا علیه وسلم فقال قد حبستھا لولد أخي

جعفر فقال عمر إنه وهللا ما على وجه األرض من یرصد من حسن صحبتھا ما أرصد

أبا الحسن فقال قد أنكحتكھا فعاد عمر إلى مجلسه بالروضة مجلس فأنكحني یا

المھاجرین واألنصار فقال رفئوني قالوا بمن یا أمیر المؤمنین قال بأم كلثوم بنت علي

وأخذ یحدث أنه سمع رسول هللا صلى هللا علیه وسلم یقول ) كل صھر أو سبب أو نسب

أنه كان لي صحبة فأحببت أن یكون لي و ( ینقطع یوم القیامة إال صھري وسببي ونسبي

معھا سبب

إنكار جماعة من جھلة وبھذا الحدیث المروي من طریقة أهل البیت یزداد التعجب من

في أزمنتنا تزویج عمر بأم كلثوم؛ لكن ال عجب ألن أولئك لم یخالطوا العلماء أهل البیت

فقلدوهم فیه وما دروا ومع ذلك استولى على عقولھم جھلة الروافض فأدخلوا فیھا ذلك

أنه عین الكذب ومكابرة للحس إذ من مارس العلم وطالع كتب األخبار والسنن علم

ضرورة أن علیا زوجھا له وأن إنكار ذلك جھل وعناد ومكابرة للحس وخبال في العقل

.وفساد في الدین

اس روایت میں جسے بیہقی اور دارقطنی نے ایسی سند کے ساتھ نقل کیا جس کے

وی بزرگ اہل بیت ہیں کہ علی]ع[ نے اپنی ایک بیٹی کو اپنے بھائی جعفر کی را

اوالد کے لئے دینے کا ارادہ کیا تو عمر ملے اور کہا اے ابو الحسن اپنی بیٹی ام

کلثوم بنت فاطمہ کی شادی مجھ سے کر دو علی ]ع[نے کہا میں نے اسے اپنے

ب میں کہا هللا کی قسم اس زمین بھائی کے بیٹے کے لئے رکھا ہوا ہے عمر نے جوا

پر مجھ سے بہتر کوئی نہیں ہے جو اس کے ساتھ اچھی طرح زندگی گزارے پس

مجھ سے شادی کر دو علی ]ع[نے کہا میں نے نکاح کردیا اس کے بعد عمر اپنی

محفل مسجد میں واپس آئے اور کہا مجھے شادی کی مبارکباد دو ۔لوگوں نے کہا

عمر نےجواب دیا:ام کلثوم بنت علی ]ع[سےاور پھر کہا کس سے شادی کر لی ہے ؟

رسول ]ص[سے سنا ہے کہ ہر نسب و سبب قیامت کے دن ختم ہوجائے گا سوائے

میرا نسب و سبب۔

میں صحابی تھا اور میری خواہش تھی کہ رسول ]ص[سے سببی رشتہ بھی قائم

!!! کرلوں

بعض اہل بیت ہمارے زمانہ اور یہ روایت اہل بیت سے نقل ہوئی ہے تعجب ہے کہ

میں اس شادی سے انکار کرتے ہیں لیکن تعجب نہیں ہے اس لئے کہ اس لئے کہ وہ

علماء کے ساتھ نہیں رہے ہیں اور نادان روافض انکی عقل پر مسلط ہوگئے ہیں اور

انھیں اپنے ساتھ کر لیا ہے اسی سب سے روافض کی تقلید کرتے ہیں اور انھیں

روافض اس معاملہ میں جھوٹے اور حسیات کے منکر ہیں!!! اس معلوم نہیں ہے کہ

لئے کہ جو کوئی علوم ، کتب اور اخبار میں ممارست کرے اسے معلوم ہوجائے گا

کہ علی ]ع[نے عمر سے شادی کروائی تھی اور اس سے انکار جہل ، عناد اور

!!! !!! !!! بدیہات کا نکار کرنا اور عقل میں خرابی ہے

الصواعق ،ـہ711و العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر )متوفايالھیثمي، أب

، تحقیق عبد الرحمن بن 453، ص 2، ج المحرقة على أهل الرفض والضالل والزندقة

لبنان، الطبعة: األولى، -كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة -عبد هللا التركي

.م7771 - ـہ7471

یت کا ادعا ابن حجر نے کیا ہے وہ روایت اس قابل غور بات یہ ہے کہ جس روا

مضمون اور مطلب کے ساتھ نہ بیہقی میں ہے اور نہ ہی دارقطی میں !!! فقط وہ

روایت جو ملی ہے وہ سیرہ ابن اسحاق میں ہے ایک سند کے ساتھ اور سنن

دارقطنی میں دو سند مرسل کے ساتھ ]جس کی ایک سند ابن اسحاق سے لی ہے[

!!! اس متن سے بہت مختلف ہے جسے ابن حجر نے لکھا ہےاور وہ بھی

أخبرنا أبو عبد هللا الحافظ ثنا الحسن بن یعقوب وإبراهیم بن عصمة قاال ثنا 13171

السري بن خزیمة ثنا معلى بن أسد ثنا وهیب بن خالد عن جعفر بن محمد عن أبیه عن

لعباس محمد بن یعقوب ثنا أحمد علي بن الحسین ح وأخبرنا أبو عبد هللا الحافظ ثنا أبو ا

بن عبد الجبار ثنا یونس بن بكیر عن بن إسحاق حدثني أبو جعفر عن أبیه علي بن

الحسین قال لما تزوج عمر بن الخطاب رضي هللا عنه أم كلثوم بنت علي رضي هللا

عنھم أتى مجلسا في مسجد رسول هللا صلى هللا علیه وسلم بین القبر والمنبر للمھاجرین

م یكن یجلس فیه غیرهم فدعوا له بالبركة فقال أما وهللا ما دعاني إلى تزویجھا إال أني ل

سمعت رسول هللا صلى هللا علیه وسلم یقول كل سبب ونسب منقطع یوم القیامة إال ما

حسن وهو مرسل كان من سببي ونسبي لفظ حدیث بن إسحاق

جب عمر نے ام کلثوم سے شادی کی تو یہ دونوں مسجد نبوی قبر اور منبر کے

درمیان مہاجر کے مجمع میں آئے ، تو ان مہاجرین نے انکے لئے برکت کی دعا

کی تب عمر نے کہا میں نے صرف ایک غرض کے لئے شادی کی ہے وہ یہ ہے

!!! حسن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ روایت کا متن ابن اسحاق کا ہے اور یہ مرسل

سنن البیھقي ،(ـہ458البیھقي، أحمد بن الحسین بن علي بن موسى أبو بكر )متوفاي

مكة المكرمة، تحقیق: محمد عبد القادر -، ناشر: مكتبة دار الباز 31، ص 1، ج الكبرى

.7774 - 7474عطا،

انتہائی تعجب کی بات ہے کہ ابن حجر نے اس روایت کے مرسل ہونے کو نہیں

ہے اور صرف اس سبب سے کہ اس روایت میں بعض شیعہ امام کا نام آیا ہے دیکھا

کہہ رہے ہیں کہ وہ اہل بیت جو اس شادی کے منکر ہیں اہل سنت کے نظریہ کو

کیوں قبول نہیں کرتے ہیں اور ان اہل بیت کو نادان ہونے کی تہمت لگا رہے ہیں

جبکہ ایسی روایت کو قبول کرنا خود بڑی نادانی ہے۔

شگفت*آور است كه ابن حجر، مرسل بودن روایت را ندیدہ و تنھا و تنھا به این علت كه در سند

روایت، نام ائمه شیعه آمدہ است، مى گوید چرا اهل بیتى كه منكر این ازدواج هستند، نظر اهل

ین سنت را قبول نمى كنند!!! و ایشان را متھم به نادانى مى كند، با اینكه قبول چنین روایتى ع

.نادانى است

ما نیز از این همه توهین ابن حجر نسبت به منكرین ازدواج، تعجب نمى*كنیم؛ چرا كه او در

.مكتبى رشد یافته است كه از اهل بیت علیھم السالم و آموزہ*هاى آن*ها سودى نبردہ*اند

میں تعجب کی بات ہے کہ ابن حجر کو روایت کا مرسل ہونا نظر نہیں آیا ہے اور فقط روایت

بعض ائمہ اہل بیت کانام آیا ہے اس کی وجہ سےکہتے ہیں وہ اہل بیت جو اس شادی کے منکر

ہیں کیوں اہل سنت کی بات قبول نہیں کرتے ہیں ؟!!! اور انکو نادان ہونے کی تہمت لگاتے ہیں

جبکہ ایسی روایت سے استدالل کرنا خود سب سے بڑی نادانی اور جہل ہے ہم بھی انکی اس

سے تعجب نہیں کرتے ہیں اس لئے انھوں نے جس مکتب میں پروش پائی ہے اس مکتب توہین

کی تعلیمات میں کچھ سیکھا ہی نہیں ہے ۔ [نے اہل بیت]ع

خود یہ توہین کرنا شادی کے افسانہ ہونے دلیل اور منکرین کا انکار صحیح ہے ورنہ اگر ابن

کرتا بلکہ دلیل اور مدرک سے بات حجر اپنے نظریہ سے مطمئن ہوتا تو کبھی توہین نہیں

کرتے۔ نیز انکے کالم سے استفادہ ہوتا ہے اہل بیت ]ع[ میں ایسے افراد موجود تھے جو اس

شادی کے منکر تھے اور یہی چیز ہمارے لئے اهم ہے۔

ام كلثوم بنت ابوبكر، یا ام كلثوم بنت امیر المؤمنین علی علیه السالم؟ :دوسرا زاویہ

یہ ہےکہ ام کلثوم علی]ع[ اور فاطمہ]س[ کی بیٹی تھیں اس اہل سنت کا نظر

کےبرخالف شیعہ کی کوئی بھی روایت اس مطلب کو بیان نہیں کرتی ہے کہ وہ

س[کی بیٹی تھی بلکہ صرف اتنا ہے وہ ام کلثوم جو ]لڑکی امام علی]ع[ اور فاطمہ

زبردستی[ علی ]ع[کے گھر میں تھی اور عمر بن خطاب کی اس سے ]وہ بھی

نے اسے دوبارہ اپنے گھر لے کر آئے ہیں ۔ [شادی ہوئی ہے اور اسکے بعد علی]ع

اس بناء پر ممکن ہے کوئی کہے کہ وہ لڑکی امام علی ]ع[سے ہی تھی لیکن جناب

سیدہ فاطمہ ]س[ کےعالوہ کسی اور بیوی سے تھی ۔لیکن اس توجیہ سےبھی جناب

ہوتا ہے ۔ کی بھی بیٹی ہو نا ثابت نہیں [سیدہ]س

احتمال قوی اور علماء اہل سنت کے اعتراف کے اعتبار سے وہ لڑکی امام علی علیہ

السالم کی ربیبہ تھی اور ابوبکر کی بیٹی تھی۔

شارح صحیح مسلم کا اهم اعتراف کہ : عمر ابوبکر کے داماد تھے .1

تھا بعض علماء اہل سنت نے تصریح کی ہے کہ جس ام کلثوم کا نکاح عمر سے ہوا

وہ ابوبکر کی بیٹی تھی

تھذیب االسماء میں کہا ہے کہ عمر محى الدین نووى، شارح صحیح مسلم نے کتاب

!!! نے ابوبکرکی بیٹی سے شادی کی تھی

أختا عائشة: اللتان أرادهما أبو بكر الصدیق، رضى هللا عنه، بقوله لعائشة: إنما هما

؟ فقال: ذو بطن بنت خارجة، فإنى أخواك وأختاك، قالت: هذان أخواى، فمن أختاى

أظنھا جاریة. ذكر هذہ القصة فى باب الھبة من المھذب، وقد تقدم بیانھما فى أسماء

الرجال فى النوع الرابع فى األخوة، وهاتان األختان هما أسماء بنت أبى بكر، وأم كلثوم،

تزوجھا عمر بن وأم كلثوم هذہ وهى التى كانت حمال، وقد تقدم هناك إیضاح القصة،

.الخطاب، رضى هللا عنه

عائشہ کی دو بہنیں وہی جو ابوبکر کی حضرت عائشہ سے گفتگو میں مراد تھیں "

یہ دو بھائی اور دو بہن ]جو مجھ سے میراث پائیں گے[ عائشہ سوال کیا میرے تو

دو بھائی ہیں لیکن دو بہن کیسی ]میری تو ایک بہن ہے[ ابوبکر نے جواب دیا وہ

جو خارجہ کے شکم میں ہے میرے گمان میں وہ ایک لڑکی ہے ۔ اس قصہ کو بہن

کتاب الھبہ من المھذب میں بیان کیا گیا ہے اور ابوبکر کی دو بیٹوں کا بیان "ذکر

اسماء رجال " میں گزر گیا ہے یہ دونوں ابوبکر کی بیٹیاں وہ ہی اسماء بنت ابو بکر

قت شکم مادر میں تھی اور اسی بحث میں اور ام کلثوم ہے جو اببکر کی موت کے و

کامل قصہ گزر گیا ہے اور یہ وہی ام کلثوم ہےجس سے عمر بن خطاب کی شادی

ہوئی

ـہ 313النووي، أبو زكریا محیي الدین یحیى بن شرف بن مري )متوفاي ) تھذیب ،

، تحقیق: مكتب البحوث والدراسات، 7224، رقم: 310، ص2، ج األسماء واللغات

م7773بیروت، الطبعة: األولى، -ر الفكر ناشر: دا .

اس اعتراف کے بعد امیر المومنین کی بیٹی کے ساتھ عمر کی شادی ایک افسانہ

سے زیادہ کچھ نہیں ہے

اور یہ شادی تاریخی حقائق کے ساتھ سازگار بھی ہے اس لئے خلیفہ اول اور دوم

بعد یہ فطری بات ایک دوسرے کے دہرینہ دوست تھے اور ابو بکر کی موت کے

تھی کہ عمر اس پر سوچتے کہ ابوبکر کی اوالد کی کفالت کا بند و بست کیا جائے

اور ابوبکر کی بیٹی سے شادی کرنا اس کا بہترین طریقہ ہے ۔

روایت کہ "عائشہ نےعمر کی ابوبکر کی خواستگاری کو رد کردیا تھا " کی تحقیق

:

ی ہے کہ عمر نے فقط خواستگاری کی البته بعض افراد نے یہ کہنے کی کوشش ک

تھی لیکن شادی نہیں ہوئی تھی اور خواستگاری کو اس طرح نقل کیا ہے کہ جس کو

نہ اہل سنت قبول کرتے ہیں اور نہ ہی شیعہ قبول کر سکتے ہیں۔

اهل سنت کے علماء نے نقل کیا ہے کہ عمر نے ابوبکر کی بیٹی سے خواستگاری

نے عمر کی بد اخالقی اور سخت مزاجی کی وجہ سے کی تو عائشہ اور ام کلثوم

مخالفت کی اور عائشہ نے عمرو عاص کو جو اہل بیت خصوصا امام علی علیہ

السالم کی دشمنی میں پیش پیش تھا اسے واسطہ قرار دیا اور اس نے عمر کو ام

کلثوم بنت علی سےشادی کا کہا ۔

ا إلى عائشة فقالت األمر إلیك وخطب أم كلثوم بنت أبي بكر وهي صغیرة وأرسل فیھ

فقالت أم كلثوم ال حاجة لي فیه فقالت لھا عائشة ترغبین عن أمیر المؤمنین قالت نعم إنه

.خشن العیش شدید على النساء

فأرسلت عائشة إلى عمرو بن العاص فأخبرته فقال أكفیك فأتى عمر فقال یا أمیر

قال خطبت أم كلثوم بنت أبي بكر قال قال وما هو بلغني خبر أعیذك باہلل منه المؤمنین

نعم أفرغبت بي عنھا أم رغبت بھا عني قال ال واحدة ولكنھا حدثة نشأت تحت كنف أم

وما نقدر أن نردك عن خلق من أخالقك المؤمنین في لین ورفق وفیك غلظة ونحن نھابك

ما یحق كنت قد خلفت أبا بكر في ولدہ بغیر فكیف بھا إن خالفتك في شيء فسطوت بھا

علیك قال فكیف بعائشة وقد كلمتھا قال أنا لك بھاوأدلك على خیر منھا أم كلثوم بنت علي

.بن أبي طالب

عمر بن خطاب نے پہلے ام*كلثوم بنت ابوبكر سے خواستگارى کی تو عائشہ نے

اپنی بہن کو اس رشتہ کی بارے میں بتایا تو اس نے کہا مجھے عمر کی کوئی

ئشہ نے کہا کیا امیر المومنین نہیں چاہئے ؟ام کلثوم نے کہا ضرورت نہیں ہے ،عا

نہیں وہ شدت پسند اور سخت مزاج ہے اور عورتوں پر تند مزاجی رکھتا ہے :

۔عائشہ نے کسی کو عمرو عاص کے پاس بھیجا اور تمام ماجری بیان کر دیا۔ عمرو

عاص نے کہا میں مسئلہ کو حل کردونگا ۔عمرو عاص عمر کے پاس جاکر کہتا اے

ہو ۔ عمر نے کہا کیا سنا ہے امیر المومنین ایک خبر سنی ہے کہ هللا کرے صحیح نہ

تم نے؟ عمرو عاص نے کہا سنا ہے آپ نے ابوبکر کی بیٹی کا رشتہ مانگا ہے ؟

عمر نے کہا ایسا ہی ہے کیا مجھ اس کی الئق نہیں جانتے ہو یا اسے میرے الئق

نہیں سمجھتے ؟ عمرو عاص نے کہا نہیں ایسی بات نہیں ہے لیکن وہ چھوٹی ہے

ناز و نعم میں پلی ہے جبکہ تم تلخ مزاج اور ہم بھی تم سے اور ام المومنین کے

ڈرتے ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی قادر نہیں ہے تمہارے اخالق کو صحیح کر

سکے ۔۔۔۔۔لہذا میں تم کو ابوبکر کی بیٹی سے بہتر ام کلثوم بنت علی کا مشورہ دیتا

ہوں ۔

170الطبري، أبي جعفر محمد بن جریر )متوفاي ) ، 534، ص 2ج ،خ الطبريتاری ،

بیروت؛ -ناشر: دار الكتب العلمیة

ـہ128األندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه )متوفاي ) ، 77، ص 3، ج العقد الفرید ،

م؛7777 - ـہ7420بیروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، -ناشر: دار إحیاء التراث العربي

ـہ310مد )متوفايالجزري، عز الدین بن األثیر أبي الحسن علي بن مح ) الكامل في ،

بیروت، -، تحقیق عبد هللا القاضي، ناشر: دار الكتب العلمیة 457، ص 2، ج التاریخ

ـہ7475الطبعة الثانیة، .

کیا اہل سنت اس بات کو قبول کرتے ہیں عمر کی ابوبکر کی خواستگاری اتنی

شخص مشورہ خوفناک تھی کہ عمرو عاص اس سے هللا کی پناہ مانگتا ہے اور یہی

دیتا ہے کہ امام علی علیہ السالم کی بیٹی سے شادی کرلیجئے یعنی ابوبکر کا احترام

واجب اور اس کی بیٹی کو نہ ستایا جائے لیکن حضرت زہرا ]س[کا کوئی احترام

!!! نہیں ہے اور انکی بیٹی کو ستانے میں مسئلہ نہیں ہے

وبکر کو اذیت دینا روح حضرت کیا اہل سنت اس بات کو قبول کرے ہیں کہ روح اب

زهرا سالم هللا علیھا کو اذیت دینے سے زیادہ اهمیت رکھتا ہے ؟ جبکہ اہل سنت کی

کو [صحیح السند روایت میں ہے جناب سیدہ فاطمہ]س[ کو ستانا رسو ل هللا]ص

ستانے کے برابر ہے جبکہ ابوبکر کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کیا۔

سے نقل نہیں کرتے ہیں کہ رسول ]ص[کے رشتہ دار میرے لئے کیا اہل سنت عمر

اپنے رشتہ داروں سے زیادہ اهمیت رکھتے ہیں ؟

کیا اہل سنت اس بات کو قبول کرینگے کہ عمر ابوبکر کے گھر والوں کی تو رعایت

کرے لیکن رسول ]ص[کے گھر والوں کی رعایت نہیں کرتے ہیں ؟ اپنی ذاتی بد

بوبکر کی بیٹی سے تو امتناع لیکن نا موس رسول]ص[ سے اخالقی کی وجہ سے ا

!!!شادی پر اصرار

اگر اس روایت کو صحیح مانا جائے تو بیان شدہ اعتراضات اہل سنت پر لگائے

[ جائیں گے اور اگر اس روایت کو جعلی قبول کر لیا جائے ]کہ ایسا ہی ہے

نے کے زمانہ میں اور اس کو گھڑ نے کی وجہ بھی معلوم ہے کہ اس کو گھڑ

مشہور تھا کہ عمر نے ابوبکر کی بیٹی سے شادی کی ہے نہ کہ امام علی ]ع[کی

بیٹی سے ان لوگوں نے چاہا کہ کہیں وہ صرف ایک خواستگاری کی گئ تھی اس

ع[کی بیٹی کے لئے اقدام کیا گیا ، ۔۔۔]کے بعد حضرت علی

ے ہیں اور ام کلثوم زوجہ شیعہ نسب شناس علماء بھی نووی کے کالم کو قبول کرت

عمر کو نسل امام علی علیہ السالم سے نہیں جانتے ہیں

آیة هللا مرعشى کہ جن کے پاس تمام اہل بیت کے شجرہ نامہ موجود ہیں وہ حاشیه

پر اسی نظریہ کو لکھتے ہیں اور اسے محققین کا قول جانتے ہیں شرح احقاق الحق

لمدینة المنورة، تزوجھا بعد جعفر أبو بكر، هاجرت مع زوجھا إلى الحبشة، ثم إلى ا

فتولدت له منھا عدة أوالد منھم أم كلثوم وهي التي رباها أمیر المؤمنین علیه السالم

وتزوجھا الثاني، فكانت ربیته علیه السالم وبمنزلة إحدى بناته، وكان علیه السالم

عدة من المحدثین یخاطب محمد بابني وأم كلثوم هذہ بنتي، فمن ثم سرى الوهم إلى

والمؤرخین فكم لھذہ الشبھة من نظیر، ومنشأ األكثر االشتراك في االسم أو الوصف، ثم

.بعد موت أبي بكر تزوجھا موالنا علي علیه السالم

وہ اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کرکے مدینہ لوٹیں اور جعفر کے بعد ان سے

سے ام کلثوم بھی تھی اور ابوبکر نے شادی کی اور اوالد بھی ہوئی جن میں

حضرت علی]ع[ نے اسے بڑا کیا اور خلیفہ دوم نے اس سے شادی کی وہ امام علی

، محمد بن []ع[کی منہ بولی بیٹی اور امام کی بیٹیوں کی طرح تھی امام علی]ع

ابوبکر کو اپنا بیٹا اور اسی ام کلثوم کو اپنی بیٹی کہہ کر مخاطب کرتے تھے اسی

محدثین اور مروخین اس وهم میں مبتالء ہو گئے اور ایسی غلطیاں سبب سے بعض

بہت زیادہ پائی جاتی ہیں جس کا سبب کسی نام میں یا کسی صفت میں مشترک ہونا

بنتا ہے ابوبکر کی موت کے بعد امام علی علیہ السالم نے انکی بیوی سے شادی کی

۔

ش7137 المرعشي النجفي، آیة هللا السید شھاب الدین )متوفاي ) شرح إحقاق الحق ،

اشر: منشورات مكتبة آیة هللا العظمى المرعشي 175ص 10، ج وإزهاق الباطل

قم ـالنجفي .

سوال یہ ہوتا ہے یہ لڑکی کیسے امام علی ]ع[کے گھر میں آئی ؟ ظاہر ہے جب

ابوبکر اس دنیا سے چلے گئے اور ابوبکر کی بعض بیویوں نے امام علی]ع[ سے

سی سبب سے ابوبکر کے بعض بچوں نے امام علی علیہ السالم کے شادی کی تو ا

گھر میں نشاء و نما پائی۔اور محمد بن ابى بکر؛ اور ام*كلثوم بھی انھیں بچوں میں

سے ہیں ۔

البتہ کوئی اعتراض کرے کہ بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ لڑکی امیر

ہل سنت کے نقل کے اعتبار سے المومنین کی ربیبہ نہیں ہو سکتی ہے اس لئے کہ ا

وہ حبیبہ بنت خارجہ کی بیٹی تھی اور بنت خارجہ نے ابوبکر کے مرنے کے بعد

خبیب بن اسیاف سے شادی کی تھی ناکہ امیر المومنین سے ؟

اسکے جواب میں ہم کہیں گے کہ ام کلثوم کی والدہ کی شادی خبیب بن اسیاف سے

یقت تک رسائی کے تمام راستہ بند کر اسی جھوٹے قصہ کی ایک لڑی ہے تاکہ حق

دیئے جائیں جب اس جھوٹ سے پردہ ہٹایا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ حقیقت کیا

ہے اس لئے کہ اہل سنت کے قدیمی تاریخ کے منابع کہتے ہیں کہ خبیب بن اسیاف

جنگ یمامہ میں اور ابوبکر کی زندگی میں قتل ہوگیا تھا ۔

میں لکھا ہے المحبرمحمد بن حبیب بغدادى نے :

.خبیب بن اساف قتل یوم الیمامة

.خبیب بن اساف روز یمامه )جنگ با مسیلمه كذاب( میں قتل ہوگیا تھا

ـہ245البغدادي، أبو جعفر محمد بن حبیب بن أمیة )متوفاي ) ، 401، ص 7، ج المحبر ،

.طبق برنامه الجامع الكبیر

: یك روایت دو ام كلثوم سے .2

ماخذ کی طرف جب ہم دیکھتے ہیں تو اس میں ایک ہی روایت دو اہل سنت کے

طریقہ سے نقل ہے یعنی کبھی ام کلثوم بنت ابوبکر اور کبھی وہی روایت ام کلثوم

بنت امام علی علیہ السالم سے نقل ہوئی ہے یہ وہی ام کلثوم بنت علی ہے جو در

حقیقت ابوبکر کی بیٹی ہے ۔

و ام*كلثوم بنت ابوبكر سے نقل کرتے ہیںابن أبى شیبه، ذیل کی روایت ک :

عن جبر بن حبیب عن أم كلثوم بنت أبي بكر حدثنا عفان حدثنا حماد بن سلمة أخبرنا

أن رسول هللا صلى هللا علیه وسلم علمھا هذا الدعاء اللھم إني أسألك من الخیر عائشة

كله ما علمت منه وما لم كله عاجله وآجله ما علمت منه وما لم أعلم وأعوذ بك من الشر

أعلم اللھم إني أسألك من خیر ما سألك عبدك ونبیك وأعوذ بك من شر ما عاذ به عبدك

ونبیك اللھم إني أسألك الجنة وما قرب إلیھا من قول أو عمل وأعوذ بك من النار وما

.قرب إلیھا من قول أو عمل وأسألك أن تجعل كل قضاء تقضیه لي خیرا

ے روایت کی ہے کہ حماد بن سلمہ / جبر بن حبیب نے روایت عفان نے ہمارے لئ

کی ہے کہ ام کلثوم بنت ابوبکر نے عائشہ سے روایت کی ہے ۔ ۔ ۔

ـہ 215إبن أبي شیبة الكوفي، أبو بكر عبد هللا بن محمد )متوفاي ) الكتاب المصنف في ،

: مكتبة ، تحقیق: كمال یوسف الحوت، ناشر27145، ح44، ص 3، ج األحادیث واآلثار

؛ـہ7407الریاض، الطبعة: األولى، -الرشد

ـہ247الشیباني، أحمد بن حنبل أبو عبدهللا )متوفاي ) ، ص 3، ج مسند أحمد بن حنبل ،

مصر؛ –، ناشر: مؤسسة قرطبة 711

ـہ253البخاري الجعفي، محمد بن إسماعیل أبو عبدهللا )متوفاي ) ، 7، ج األدب المفرد ،

بیروت، -عبدالباقي، ناشر: دار البشائر اإلسالمیة ، تحقیق: محمد فؤاد 222ص

م7787 – 7407الطبعة: الثالثة، .

جبکہ اسحق بن راهویہ نے اسی روایت کو ام کلثوم بنت علی ]ع[کے نام سے ذکر

کیا ہے عائشہ سے نقل کرتے ہوئے ۔

عن عائشة تحدث كلثوم بنت عليجبر بن حبیب قال سمعت أم أخبرنا النضر نا شعبة نا

أن رسول هللا صلى هللا علیه وسلم لیكلمه في حاجة وعائشة تصلي فقال رسول هللا صلى

هللا علیه وسلم یا عائشة علیك بالجوامع والكوامل قولي اللھم إني أسألك من الخیر كله

عاجله وآجله ما عملت منه وما لم أعلم وأعوذ بك من الشر كله عاجله وآجله ما عملت

ھم إني أسألك الجنة وما قرب إلیھا من قول أو عمل وأعوذ بك من منه وما لم أعلم الل

النار وما قرب إلیھا من قول أو عمل اللھم إني أسألك مما سألك منه محمد وأعوذ بك مما

استعاذ منه محمد صلى هللا علیه وسلم اللھم ما قضیت لي من قضاء فاجعل عاقبته لي

رشدا

ـہ218ن راهویه )متوفايالحنظلي، إسحاق بن إبراهیم بن مخلد ب ) مسند إسحاق بن ،

، تحقیق: د. عبد الغفور بن عبد الحق البلوشي، ناشر7735، ح570، ص 2، ج راهویه :

م7777 – ـہ7472المدینة المنورة، الطبعة: األولى، -مكتبة اإلیمان

:اس قضیہ کے نقل میں تعارض :تیسرا زاویہ

جھوٹ اور افسانہ ہونے کی دلیلوں میں سے ایک دلیل اس ماجری اس شادی کے

میں پائے جانے واال شدید اختالف ہے اور یہ اختالف اور تناقض اتنا زیادہ ہے کہ

اسکے ہوتے ہوئے انسان اسشادی کے صحیح ہونے میں شک کرتا ہے اور اسے

اطمینان ہوجاتا ہے کہ یہ صرف ایک افسانہ ہے۔

: تعالى علیه اس تناقض اور اختالف کے بارے میں لکھتے ہیںشیخ مفید رضوان هللا

والحدیث بنفسه مختلف، فتارة یروى: أن أمیر المؤمنین علیه السالم تولى العقد له على

وتارة یروى أن العباس تولى ذلك عنه. وتارة یروى: أنه لم یقع العقد إال بعد وعید .ابنته

أنه كان عن اختیار وإیثارمن عمر وتھدید لبني هاشم. وتارة یروى .

ثم إن بعض الرواة یذكر أن عمر أولدها ولدا أسماہ زیدا. وبعضھم یقول: إنه قتل قبل

.وبعضھم یقول: إن لزید بن عمر عقبا. ومنھم من یقول: إنه قتل وال عقب له .دخوله بھا

یقول: إن ومنھم من یقول: إنه وأمه قتال. ومنھم من یقول: إن أمه بقیت بعدہ. ومنھم من

عمر أمھر أم كلثوم أربعین ألف درهم. ومنھم من یقول: مھرها أربعة آالف درهم.

.ومنھم من یقول: كان مھرها خمسمائة درهم

.وبدو هذا االختالف فیه یبطل الحدیث، فال یكون له تأثیر على حال

خود اس روایت میں کافی اختالف موجود ہے کبھی روایت کہتی ہے اس عقد ام

کی خود امام علیکلثوم نےسرپرستی کی اور متولی ہوئے اور بعض میں کہا [ع]

جاتا ہے کہ عباس نے سرپرستی کی اور متولی ہوئے اور بعض میں کہا جاتا ہے یہ

عقد اس وقت تک نہیں ہوا جب تک عمر نے دهمکیاں نہ دی اور بنی ہاشم کو جب

یہ عقد اختیار اور میل تک ڈرایا اور دهمکایا نہ گیا اور بعض روایت میں ہے کہ

باطنی سے ہوا ۔

بعض راوی کہتے ہیں کہ اس ام کلثوم سے عمر کی زید نامی اوالد ہوئی اور بعض

کہتے ہیں کہ عمر ام کلثوم سے شب زفاف سے پہلے ہی قتل کردیا گئے ۔ بعض

کہتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ زید بن عمر کی بھی اوالد ہوئی او ر بعض کہتے ہیں زید

د نہ ہوئی بعض کہتے ہیں کہ زید بن عمر اور انکی ماں ام کلثوم ایک ساتھ کی اوال

مر گئے اور بعض کہتے ہیں کہ زید کی ماں اس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہی

بعض کہتے ہیں عمر نے ام کلثوم کا مہر چالیس ہزار درهم معین کیا اور بعض

رهم مہر تھا اسی اختالف کہتے ہیں چار ہزار درهم اور بعض کہتے ہیں پانچ سو د

حدیث کی وجہ سے یہ حدیث باطل ہوجاتی ہے اور اس روایت کا کوئی اثرو تاثیر

باقی نہیں رہتی ہے۔

الشیخ المفید، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد هللا العكبري، البغدادي

ـہ 471)متوفاي ) ناشر: دار ، تحقیق: صائب عبد الحمید، 70، ص المسائل السرویة ،

م7771 - ـہ7474بیروت، الطبعة: الثانیة، -المفید للطباعة والنشر والتوزیع .

چونکہ اختالف بہت زیادہ ہے اور یہ مقالہ اس کی گنجائش نہیں رکھتا ہے فقط چند

موارد کو اہل سنت کی دلیل سے بیان کرینگے ۔

ام كلثوم نے عمر کے بعد کس سے شادی کی ؟ .1

ے تھے کہ ام کلثوم عمر کے بعد زندہ رہی ہیں لہذا انکے لئے کافی اپل سنت یہ جانت

شوہر گھڑے گئے ہیں ۔

اہل سنت میں سب سے پہلےجس نے اس افسانہ کو لکھا ہے وہ

ـہ210متوفى )محمد بن سعد زهرى ہے اس نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے (

اپنی کتاب میں نقل اسکے دوسرے علماء اہل سنت کی طرح بغیر تناقض کو دیکھے

کیا ہے ۔

: محمد بن سعد لکھتے ہیں

أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي وأمھا

فاطمة بنت رسول هللا وأمھا خدیجة بنت خویلد بن أسد بن عبد العزى بن قصي تزوجھا

تل وولدت له زید بن عمر عمر بن الخطاب وهي جاریة لم تبلغ فلم تزل عندہ إلى أن ق

ورقیة بنت عمر ثم خلف على أم كلثوم بعد عمر عون بن جعفر بن أبي طالب بن عبد

المطلب فتوفي عنھا ثم خلف علیھا أخوہ محمد بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب

فتوفي عنھا فخلف علیھا أخوہ عبد هللا بن جعفر بن أبي طالب بعد أختھا زینب بنت علي

طالب بن أبي .

کہ انکی والدہ فاطمه بنت رسول خدا صلى هللا ...[ام*كلثوم، بنت علي بن أبى طالب]ع

علیه وآله وسلم تھی ...ان سے نابالغ سن میں عمر بن خطاب نے شادی کی اور وہ

عمر کے قتل تک انکے پاس تھی اور ان سے زید بن عمر اور رقیہ بنت عمر پیدا

سے پھر محمد بن جعفر سے ام کلثوم نے شادی ہوئی عمر کے بعد عون بن جعفر

کی اور جب محمد بن جعفر بھی فوت کر گئے تو انکے بھائی عبد هللا بن جفعر نے

ام کلثوم کی بہن زینب کے بعد ام کلثوم سے شادی کی ۔ ۔ ۔

) الزهري، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدهللا البصري ـہ210متوفاي ) ، الطبقات الكبرى ،

بیروت؛ -ناشر: دار صادر ، 431، ص 8ج

ـہ217البالذري، أحمد بن یحیى بن جابر )متوفاي ) 718، ص 7، ج أنساب األشراف ، .

اس روایت میں آیا ہے کہ ام کلثوم نے عمر کے قتل کے بعد اپنے چچا زاد عون بن

جعفر اور انکے بعد انکے بھائی محمد بن جعفر اور انکے بعد انکے بھائی عبد هللا

شادی کی لیکن راوی نے روایت کرتے وقت یہ فراموش کردیا ہے کہ بن جعفر سے

ہجری میں 71یا 73عون بن جعفر اور محمد بن جعفر دونوں جنگ شوشتر سال

شہید ہوگئے تھے اور وہ عمر کے قتل سے پہلے خلیفہ دوم کی زندگی میں ہی شہید

! ہوگئے تھے یعنی دوسرا اور تیسرا شوہر پہلے شوہر سے قبل مر گئے

:ابن حجر نے االصابه کہتے ہیں

.استشھد عون بن جعفر في تستر وذلك في خالفة عمر وما له عقب

عون بن جعفر جنگ شوشتر میں زمان خالفت عمر میں شہید ہوئے اور انکی کوئی

. اوالد نہ تھی

ـہ852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي ) اإلصابة في ،

-، تحقیق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجیل 144، ص 4، ج الصحابةتمییز

7772 - 7472بیروت، الطبعة: األولى، .

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ابن حجر عسقالنی اسی کتاب کے دوسرے مقام پر محمد بن

: جعفر کے احوال میں لکھتے ہیں

وأنه تزوج أم یكنى أبا القاسممحمد بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب... أنه كان

.كلثوم بنت علي بعد عمر قال واستشھد بتستر

محمد بن جعفر بن ابى طالب بن عبد المطلب...انکی كنیت او ابوالقاسم تھی انھوں نے

!عمر کے بعد ام کلثوم سے شادی کی اور وہ جنگ تستر میں شہید ہوئے

، ج اإلصابة في تمییز الصحابة ،العسقالني، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل الشافعي

بیروت، -، تحقیق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجیل 1137، رقم: 1138، ص 3

7772 - 7472الطبعة: األولى، .

بڑوں سے یہ کہاوت چلی آئی ہے کہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا ہے اگر محمد بن

نے کیسے عمر کے جعفر اور عون بن جعفر جنگ تستر میں شہید ہوئے تو انھوں

!بعد زندہ ہوکر ام کلثوم سے شادی کی ؟

اس کے عالوہ ام کلثوم کی جناب زینب ]س[کے شوہر عبد هللا بن جعفر سے شادی

ممکن نہیں ہے اور روایت کا مضمون دو بہنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا بنتا ہے اس

ی بیوی تھیں لئے کہ حضرت زینب]س[ واقعہ کربال کے بعد تک زندہ اور عبد هللا ک

۔

اور یہ بھی نہیں ہو سکتا ہے کہ عبد هللا نے زینب]س[ کے بعد ام کلثوم سے شادی

کی ہو اس لئے کہ ام کلثوم اہل سنت کے مطابق زمانہ امام حسن]س[ میں مدینہ فوت

ہوگئی تھیں اور اسکی دلیل ہم نے پہلے بیان کردی ہے ۔

ے کہ ام کلثوم نے عون و بعض علماء اہل سنت اس جھوٹ کی طرف متوجہ ہوئ

محمد بن جعفر سے شادی ہونا تاریخ سے سازگار نہیں ہے لہذا ادعا کیا کہ ام کلثوم

نے عمر کے بعد عبد هللا بن جعفر سے شادی کی ہے

.ثم هلك عمر عن أم كلثوم فتزوجھا عبد هللا بن جعفر فلم تلد منه

شادی کی لیکن کوئی عمر کے مرنے کے بعد ام کلثوم نے عبد هللا بن جعفر سے

اوالد نہیں ہوئی ۔

ـہ253الزبیر بن بكار بن عبد هللا بن مصعب الزبیري أبو عبد هللا )متوفي ) المنتخب ،

، تحقیق: سكینة الشھابي، 17، ص 7، ج من كتاب أزواج النبي صلى هللا علیه وسلم

ـہ7401بیروت، الطبعة: األولى، -ناشر: مؤسسة الرسالة .

بالکل غلط ہے اس لئے اہل سنت اور شیعہ کا اتفاق ہے کہجبکہ یہ بات

حضرت زینب سالم هللا علیھا نے زمانہ امیر مؤمنین علیه السالم میں عبد هللا بن جعفر

عقد کے وقت ام کلثوم کا سن ۔ .2سے شادی کی اور تا حیات انکی بیوی رہی ۔

اء کے درمیان شادی کے وقت ام*كلثوم کی عمر کے بارے میں اہل سنت کے علم

بہت اختالف ہے اور خلیفہ دو م کی آبرو رکھنے کے لئے ام کلثوم کو اتنا چھوٹا

ثابت کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے بوسہ دینا ، گلے لگانا اور حتی کہ پیر ننگے

کرنا بھی انکے لئے حرام نہ رہے ۔

:ابھی تک اس حد تک نہ پہنچی تھی کہ شہوت انگیز ہو

الصواعق المحرقه میں کہتے ہیں ابن حجر هیثمى ، :

وتقبیله وضمه لھا على جھة اإلكرام ألنھا لصغرها لم تبلغ حدا تشتھى حتى یحرم

....ذلك

بوسہ لینا اور گلے لگانا تکریم کی خاطر تھا اس لئے کہ وہ اس عمر کی نہیں ہوئی

!!! تھی کہ شہوت انگیز ہو حتی کہ عمر کے لئے ایسا کرنا حرام ہو

ـہ711أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر )متوفاي الھیثمي، ) الصواعق ،

، تحقیق عبد الرحمن بن 451، ص 2، ج المحرقة على أهل الرفض والضالل والزندقة

لبنان، الطبعة: األولى، -كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة -عبد هللا التركي

م7771 - ـہ7471 .

دوسری لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی ہوچھوٹی اور نابالغ جو :

عبد الرزاق صنعانى اسے ایسی چھوٹی بچی کہا ہے جو دوسری بچیوں کے ساتھ

: کھیلتی ہو

تزوج عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي جاریة تلعب مع

....الجواري

ـہ277الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام )متوفاي ) ، 734 ، ص3، ج المصنف ،

بیروت، الطبعة: الثانیة، -تحقیق حبیب الرحمن األعظمي، ناشر: المكتب اإلسالمي

ـہ7401 .

: محمد بن سعد زهرى، نے بھی نابالغ بچی لکھا ہے

.تزوجھا عمر بن الخطاب وهي جاریة لم تبلغ

) الزهري، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدهللا البصري ـہ210متوفاي ) ، الطبقات الكبرى ،

بیروت -، ناشر: دار صادر 431، ص 8ج .

: اور دوسری روایت میں تو صبیہ یعنی بہت چھوٹی بچی لکھا ہے

.لما خطب عمر بن الخطاب إلى علي ابنته أم كلثوم قال یا أمیر المؤمنین إنھا صبیة

جب عمر، نے ام*كلثوم کی علي )علیه السالم( سے خواستگارى کی ، تو علي )علیه

فرمایا : اے امیر المومنین وہ تو بہت چھوٹی ہے ]صبیہ [ ہےالسالم( نے

) الزهري، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدهللا البصري ـہ210متوفاي ) ، الطبقات الكبرى ،

بیروت –، ناشر: دار صادر 434، ص 8ج .

. ابن عساكر اور ابن جوزى نے بھی اسی مطلب کو نقل کیا ہے

القاسم علي بن الحسن إبن هبة هللا بن عبد ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي

ـہ517هللا،)متوفاي ) ، ج تاریخ مدینة دمشق وذكر فضلھا وتسمیة من حلھا من األماثل ،

، تحقیق: محب الدین أبي سعید عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر 485، ص 77

7775 -بیروت - .

ـہ 571متوفاي ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد ) ) المنتظم في ،

بیروت، الطبعة: األولى، -، ناشر: دار صادر 211، ص 4، ج تاریخ الملوك واألمم

7158.

نے کہا ہے کہ وہ عمر سے شادی کے ...بالذرى، ابن عبد البر، زمخشرى اور

وقت"صغیرہ" تھی

ا صغیرةفقال: إنھ -رضي هللا تعالى عنھم -خطب عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي .

جب عمر، نے ام*كلثوم کی علي )علیه السالم( سے خواستگارى کی ، تو علي )علیه

السالم( نے فرمایا : وہ بہت چھوٹی ہے۔

ـہ217البالذري، أحمد بن یحیى بن جابر )متوفاي ) ؛273، ص 7، ج أنساب األشراف ،

ـہ 431القرطبي، یوسف بن عبد هللا بن محمد بن عبد البر )متوفاي ) االستیعاب في ،

-، تحقیق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجیل 7754، ص 4، ج معرفة األصحاب

؛ـہ7472بیروت، الطبعة: األولى،

( ـہ518الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار هللا )متوفاى

438، ص 7ربیع األبرار، ج .

ہوئی اور عمر نے اس وقت شادی کہ ہجری میں 71ابن جوزى نے کہا، یہ شادی

: جب وہ نابالغ تھیں

17)وفي هذہ السنة ( تزوج عمر رضي هللا عنه أم كلثوم بنت علي رضي هللا عنه... ـہ

.فزوجھا إیاہ ولم تكن قد بلغت فدخل بھا في ذي القعدة ثم ولدت له زیدا

ـہ 571ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد )متوفاي ) المنتظم في ،

بیروت، الطبعة: األولى، -، ناشر: دار صادر 211، ص 4، ج تاریخ الملوك واألمم

7158.

: سال یا اس سے زیادہ 10

اور جب ام کلثوم کے لئے اوالد ثابت کرنا ہوتو انکی عمر اسی کے مطابق بتاتے ہیں

سال یا اس سے زیادہ کا بتاتے ہیں 70اور انھیں :

بن أبي طالب الھاشمیة أمھا فاطمة بنت رسول هللا صلى هللا علیه أم كلثوم بنت علي

ولھا وسلم ولدت في أواخر عھد النبي صلى هللا علیه وسلم وتزوجھا عمر بن الخطاب

فولدت له زیدا وماتت هي وابنھا زید في یوم واحد عشر سنین أو أكثر

ص[ آپ صلی هللا علیہ وآلہ ]ع[اور بنت فاطمہ بنت رسول خدا ]ام کلثوم بنت علی

کے آخری ایام زندگی میں پیدا ہوئی عمر نے ان سے شادی کی شادی کے وقت

سال یا اس سے زیادہ تھی عمر کا ان سے بیٹا زید ہوا اور ماں بیٹا 10انکی عمر

ایک ہی دن میں دنیا سے چلے گئے۔

ـہ 852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي ) اإلیثار بمعرفة ،

، تحقیق: سید كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمیة 128، 277، ص 7ج رواة اآلثار

ـہ7471بیروت، الطبعة: األولى، - .

هجرى میں پیدا ہوئی 3ذهبى اپنی ایک کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ ام کلثوم سال :

الھاشمیة شقیقة الحسن أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم

ورأت النبي صلى هللا علیه وسلم ولم ترو ولدت في حدود سنة ست من الھجرة والحسین

وهي صغیرة عنه شیئا. خطبھا عمر بن الخطاب .

ہجری میں پیدا ۶ *،[ام*كلثوم بنت علي بن ابوطالب]ع[، خواهر حسن]ع[ و حسین]ع

سے کوئی روایت نقل نہیں ہوئیں انھوں نے رسول ]ص[کو درک کیا لیکن آپ ]ص[

کی ہے عمر نے ان سے کمسنی میں خواستگاری کی ۔

ـہ148الذهبي، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، )متوفاي ) ، ج سیر أعالم النبالء ،

، تحقیق: شعیب األرناؤوط، محمد نعیم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة 500، ص 1

ـہ7471بیروت، الطبعة: التاسعة، -الرسالة .

ہجری میں مانے یا 78یا 71ہم یا تو شادی کو اہل سنت کے نظریہ کے مطابق اگر

!!!پھر وہ گیارہ یا بارہ سال کی تھی مانے

جب کہ ذهبی دوسرا مقام پر لکھتے ہیں کہ ام کلثوم رسول اکرم ]ص[کی زندگی میں

: پیدا ہوئی عمر نے ان سے جب شادی کی تو بہت چھوٹی اور صغیرہ تھیں

بنت علي بن أبي طالب الھاشمیة. ولدت في حیاة جدها صلى هللا علیه وسلم، أم كلثوم

.وتزوجھا عمر وهي صغیرة

ـہ148الذهبي، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، )متوفاي ) تاریخ اإلسالم ووفیات ،

، تحقیق د. عمر عبد السالم تدمرى، ناشر: دار 711، ص 4، ج المشاهیر واألعالم

م7781 - ـہ7401لبنان/ بیروت، الطبعة: األولى، -الكتاب العربي .

اور ابن سعد کے مطابق جو گزر گیا کہ ام کلثوم یا صبیہ تھی یا نابالغ تھیں پس

ہجری میں پیدا ہو ئی ہوں 8کیسے قبول کر سکتے ہیں سال !!.

:ام كلثوم کے مہر کی مقدار .3

دینار اور اکثرعلماء اہل هزار 70ام کلثوم کے مہر میں بھی اختالف ہے بعض نے

الف: دس هزار دینارہزار درهم کہی ہے ۔ 40سنت نے اس کی مقدار :

: یعقوبى تاریخ میں لکھا ہے

.فتزوجھا وأمھرها عشرة آالف دینار

.انکا مہر دس ہزار دینار تھا

تاریخ ،ـہ272الیعقوبي، أحمد بن أبي یعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح )متوفاي

بیروت –، ناشر: دار صادر 750ص ،2ج ،الیعقوبي .

هزار دینار 04ب: :

.لما تزوج زینب بنت علي فانه أصدقھا اربعین الف دینار

ـہ7182الكتاني، الشیخ عبد الحي )متوفاي ) نظام الحكومة النبویة المسمى التراتیب ،

بیروت –، ناشر: دار الكتاب العربي 405، ص 2، ج اإلدرایة .

هزار درهم 04ج: :

ہزار درهم کہا ہے 40علماء اہل سنت نے اکثر :

أن عمر تزوج أم كلثوم على أربعین ألف درهم

ـہ 215إبن أبي شیبة الكوفي، أبو بكر عبد هللا بن محمد )متوفاي ) الكتاب المصنف في ،

-، تحقیق: كمال یوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد 474، ص 1، ج األحادیث واآلثار

؛ـہ7407 الریاض، الطبعة: األولى،

) الزهري، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدهللا البصري ـہ210متوفاي ) ، الطبقات الكبرى ،

بیروت؛ -، ناشر: دار صادر 431، ص 8ج

ـہ431إبن عبد البر، یوسف بن عبد هللا بن محمد )متوفاي ) االستیعاب في معرفة ،

بیروت، -الجیل ، تحقیق علي محمد البجاوي، ناشر: دار 7755، ص 4، ج األصحاب

؛ـہ7472الطبعة: األولى،

ـہ852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي ) اإلصابة في ،

-، تحقیق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجیل 271، ص 8، ج تمییز الصحابة

7772 - 7472بیروت، الطبعة: األولى، .

ں ایک اور مشکل یہ ہے کہ اہل سنت مہر کی مقدار میں اختالف کےعالوہ اس می

کی صحیح السند روایت کے مطابق خود عمر نے زیادہ اور گراں مہر رکھنے سے

منع کیا ہے

: ابن ماجه قزوینى نے سنن میں لکھا ہے

حدثنا أبو بكر بن أبي شیبة ثنا یزید بن هارون عن بن عون ح وحدثنا نصر بن علي

لمي الجھضم د بن سیرین عن أبي العجفاء الس ي ثنا یزید بن زریع ثنا بن عون عن محمه

نیا أو تقوى قال عمر بن الخطهاب ال تغالوا صداق النساء قال فإنهھا لو كانت مكرمة في الد

كان أوالكم د صلى هللا علیه وسلم ما أصدق امرأة من نسائه وال عند هللاه وأحقهكم بھا محمه

جل لیثقل صدقة امرأته حتى أصدقت امرأة من بناته أكثر من اثنتي عشرة أوقیهة وإنه الره

ول قد كلفت إلیك علق القربة أو عرق القربة وكنت رجال یكون لھا عداوة في نفسه ویق

.عربیا مولدا ما أدري ما علق القربة أو عرق القربة

عمر بن الخطاب کہتےہیں کہ عورتوں کے مہر گراں نہ رکھو اس لئے کہ اگر یہ

کی بات ہوتی تو تم سب میں اس کے حقدار محمد دنیاوی یا خدا کے ہاں تقوی

]ص[تھے۔ آپ نے اپنی ازواج میں سے اور اپنی صاحبزادیوں میں سے کسی کا مہر

بھی بارہ اوقیہ سے زیادہ نہ مقرر فرمایا اور مرد اپنی بیوی کا مہر زیادہ رکھتا ہے

یہ ادا نہیں پھر اس کے دل میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔ )بیوی مطالبہ کرتی ہے اور

کرسکتا( اور کہتا ہے میں نے تیرے لئے مشقت برداشت کی یہاں تک مشکیزہ کی

رسی بھی اٹھانی پڑی یا مشک کے پانی کی طرح مجھے پسینہ آیا۔ ابوالعجفاء کہتے

ہیں کہ میں اصل عرب نہ تھا بلکہ بائیں طور پر دوسرے عالقہ کا تھا اس لئے علق

ب نہیں سمجھا۔القربہ یا عرق القربہ کا مطل

!!!

ـہ215القزویني، محمد بن یزید أبو عبدهللا )متوفاي ) ، 301، ص 7، ج سنن ابن ماجه ،

بیروت -، باب ضرب النساء، تحقیق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر 7881ح .

میں تصحیح کی ہے 7512البانى نے اس روایت کو صحیح ابن ماجه شمارہ .

نے سنن میں لکھا ہےاور ابوداوود :

لمي قال د عن أبي العجفاء الس اد بن زید عن أیوب عن محمه حدثنا محمد بن عبید ثنا حمه

نیا أو خطبنا عمر رحمه هللا فقال أال ال تغالوا بصدق النساء فإنهھا لو كانت مكرمة في الد

صلى هللا تقو لكان أوالكم بھا النبي صلى هللا علیه وسلم ما أصدق رسول هللاه ى عند هللاه

علیه وسلم امرأة من نسائه وال أصدقت امرأة من بناته أكثر من ثنتي عشرة أوقیهة

مت ٹھہراؤ کیونکہ اگر یہ چیز عمر نے کہا خبردار عورتوں کے بھاری بھر کم مہر

دینا میں بزرگی اور هللا کے نزدیک پرہیز گاری کا سبب ہوتی تو رسول هللا صلی هللا

علیہ وآلہ وسلم اس کے زیادہ حقدار تھے مگر آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے بارہ

اوقیہ سے زائد مہر نہ اپنی کسی بیوی کا باندها اور نہ کسی بیٹی کا۔

ـہ215ي األزدي، سلیمان بن األشعث أبو داود )متوفايالسجستان ) ، 2، ج سنن أبي داود ،

، تحقیق: محمد محیي الدین عبد الحمید، ناشر: دار الفكر2703، ح215ص .

میں صحیح قرار دیا ہے 7852البانى اس روایت کو صحیح ابى داوود شمارہ .

ہے اور ترمذى نے بھی اس روایت کو نقل کرکے صحیح قرار دیا :

حدثنا بن أبي عمر حدثنا سفیان بن عیینة عن أیوب عن بن سیرین عن أبي العجفاء

لمي قال قال عمر بن الخطهاب أال ال تغالوا صدقة النساء فإنهھا لو كانت مكرمة في الس

ل نیا أو تقوى عند هللاه الد صلى هللا علیه وسلم ما علمت رسول هللاه كان أوالكم بھا نبي هللاه

صلى هللا علیه وسلم نكح شیئا من نسائه وال أنكح شیئا من بناته على أكثر من ثنتي

.عشرة أوقیهة

لمي اسمه هرم واألوقیهة عند قال أبو عیسى هذا حدیث حسن صحیح وأبو العجفاء الس

أهل العلم أربعون درهما وثنتا عشرة أوقیهة أربعمائة وثمانون درهما

ـہ217الترمذي السلمي، محمد بن عیسى أبو عیسى )متوفاي ) ، 1، ج سنن الترمذي ،

: أحمد محمد شاكر وآخرون، ناشر: دار إحیاء التراث ، تحقیق7774، ح422ص

بیروت -العربي .

: اور سیوطى نے جامع األحادیث میں لکھا ہے

عنه المنبر ثمه قال: أیھا النهاس ما :عن مسروق قال ركب عمر بن الخطهاب رضي هللاه

وأصحابه وإنهما الصداق فیما بینھم إكثاركم في صداق النساء وقد كان رسول هللاه

أو مكرمة لم أربعمائة درهم فما دون ذالك، فلو كان اإلكثار في ذالك تقوى عند هللاه

.( تسبقوهم إلیھا ( ) ص، ع

ہے کہ عمر نےمنبر رسول ]ص[سے کہا اے لوگوں تمہیں کیا مسروق سے روایت

ہوگیا ہے کہ اپنی عورتوں کا مہر بھاری بھرکم رکھتے ہو جبکہ رسول]ص[ اور

انکے اصحاب چار سو درهم یا اس سے کم مہر رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔

ـہ777السیوطي، جالل الدین عبد الرحمن بن أبي بكر )متوفاي ) جامع االحادیث ،

صغیر وزوائدہ والجامع الكبیر)الجامع ال ) 1178، ح217، ص 74، ج .

اس بناء پر اول تو مہر ام کلثوم سنت رسول ]ص[کے برخالف ہے کیوں گذشتہ تمام

روایات میں بیان ہوا کہ حضرت رسول ]ص[کسی بھی عورت اور بیٹی کا زیادہ مہر

نہیں رکھتے تھے

اہل سنت ایسی نسبت عمر کی ثانیا: یہ مہر خود مخالف سیرت و سنت عمر ہے۔ کیا

:طرف دے سکتے ہیں جس سے انکا یہ فعل اس آیت کا مصداق قرار پائے گا

أن تقولوا ما ال تف مقتا عند هللاه ا الهذین ءامنوا لم تقولون ما ال تفعلون. كبر . علونیأیه

1و 2الصف / .

ان الئے ہو تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں اے وہ لوگوں جو ایم

کرتےهللا کے نزدیک یہ طریقہ بڑا ہی ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ کچھ کہو جو کہ خود نہ

کرو۔

کیا ام کلثوم سے عمر کی اوالد ہوئی؟ .4

اس شادی کے افسانہ ہونے کی دلیل ام کلثوم کی اوالد کی کہانی بھی ہے بعض

کلثوم کوئی اوالد نہیں ہوئی بعض کہتے ہیں صرف ایک زید نامی کہتے ہیں کہ ام

بیٹا ہوا اور بعض کہتے ہیں زید اور رقیہ اور بعض کہتے ہیں زید ، رقیہ ، فاطمہ

کو ام کلثوم نےجنم دیا۔

: کوئی بھی اوالد نہیں تھی

:مسعودى شافعى نے عمر کی اوالد کے بارے میں لکھا ہے

ولد: عبد هللا، وحفصة زوج النبي صلى هللا علیه وسلم، أوالد عمر. وكان له من ال

وعاصم، وعبید هللا، وزید، من أم، وعبد الرحمن، وفاطمة، وبنات آخر، وعبد الرحمن

من ام -وهو المحدود في الشراب، وهو المعروف بأبي شحمة - األصغر .

عمر کی اوالد: عمر کی مندرجہ اوالد ہیں

پیامبر )ص(* و عاصم و عبید هللا و زید ایک ماں سے ؛ اور عبد هللا ، حفصه زوجہ

عبد الرحمن و فاطمه اور دوسری بیٹیاں اور عبد الرحمن اصغر یہ وہی ہے جو

شراب نوشی کی بناء پر سزا یافتہ ہے جو ابوشحمہ کے نام سے مشہور ہے ، ایک

دوسری ماں سے ۔

ـہ143المسعودي، أبو الحسن على بن الحسین بن على )متوفاى ) ، 7، ج مروج الذهب ،

277ص

اس نقل کی بناء پر عمر کا زید ایک بیٹا تھا اور اس کے بھائی عاصم اور عبد هللا

تھے ایک ماں اور ان تینوں کی ماں ام کلثوم بنت جرول تھی اور عمر کی کوئی بھی

اوالد ام کلثوم سے ہوئی ہو ، نقل نہیں ہوئی ہے ۔

:صرف ایک بیٹا تھا

کافی علماء نے ام کلثوم سے صرف ایک فرزند ذکر کیا ہے اہل سنت کے :

: بیھقى نے سنن كبراى میں کہا ہے

بن الخطاب رضي هللا عنه فولدت له زید بن عمر ضرب وأما أم كلثوم فتزوجھا عمر

لیالي قتال بن مطیع ضربا لم یزل ینھم له حتى توفي ثم خلف على أم كلثوم بعد عمر

ه شیئا حتى ماتعون بن جعفر فلم تلد ل .

ام*كلثوم، نے عمر سے شادی کی جس سے زید بن عمر پیدا ہوا پھر رات کی لڑائی

میں ابن مطیع نے ایسی ضرب لگائی کہ مرتے دم تک اس درد میں رہا پھر ام کلثوم

نے عمر کے بعد عون بن جعفر سے شادی کی اور اس سے انکی کوئی اوالد نہ

۔ہوئی یہاں تک دنیا سے چلے گئیں

ـہ458البیھقي، أحمد بن الحسین بن علي بن موسى أبو بكر )متوفاي ) سنن البیھقي ،

مكة المكرمة، تحقیق: محمد عبد القادر -، ناشر: مكتبة دار الباز 10، ص 1، ج الكبرى

7774 - 7474عطا، .

میں لکھا ہے نھایة األرباور نویرى نے :

بن عمر، ثم خلف علیھا بعدہ عون بن وتزوج أم كلثوم عمر بن الخطاب فولدت له زید

.جعفر فلم تلد له حتى مات

ام*كلثوم نے عمر بن خطاب سے شادی کی جس سے زید بن عمر پیدا ہوا اس کے

بعد ام کلثوم نے عون بن جعفر سے شادی کی اور ان سے بچہ نہیں ہوا یہاں تک وہ

مر گئیں

ـہ111)متوفايالنویري، شھاب الدین أحمد بن عبد الوهاب ) نھایة األرب في فنون ،

-، تحقیق مفید قمحیة وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمیة 742، ص 78، ج األدب

م2004 - ـہ7424بیروت، الطبعة: األولى، .

: اور صفدى نے، بھی ام کلثوم کے لئے فقط ایك فرزند ذکر کیا ہے

له زیداوأم كلثوم تزوجھا عمر بن الخطاب رضي هللا عنه فولدت .

ـہ134الصفدي، صالح الدین خلیل بن أیبك )متوفاي ) ، 17، ص 7، ج الوافي بالوفیات ،

-ـہ7420 -بیروت -تحقیق أحمد األرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحیاء التراث

م2000 .

: اور ابن كثیر دمشقى سلفى نے بھی لکھا ہے

فولدت له زیدا ومات عنھا وأما أم كلثوم فتزوجھا أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب

....فتزوجت بعدہ ببني عمھا جعفر واحدا بعد واحد

ام*كلثوم، نے عمر کے ساتھ شادی کی جس سے زید بن عمر پیدا ہوا اور عمر کے

مرنے کے بعد ام کلثوم نے اپنے چچا جعفر کے لڑکوں سے شادی کی ایک کے بعد

ایک ۔۔۔۔

ـہ114كثیر أبو الفداء )متوفايالقرشي الدمشقي، إسماعیل بن عمر بن ) البدایة ،

بیروت –، ناشر: مكتبة المعارف 271، ص 5، ج والنھایة .

:دو اوالد تھی

:اكثر علماء اہل سنت نے کہا ہے کہ دو اوال تھی ،

وزید األكبر ال بقیة له ورقیة وأمھما أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن

رسول هللاهاشم وأمھا فاطمة بنت .

اور زید اكبر، کہ جس کی اوالد نہ تھی اور رقیه؛ ان دونوں کی ماں ام*كلثوم بنت

علي بن ابى طالب بن عبد المطلب بن هاشم اور بنت فاطمه بنت رسول خدا )ص(*

.تھیں

) الزهري، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدهللا البصري ـہ210متوفاي ) ، الطبقات الكبرى ،

بیروت؛ -ناشر: دار صادر ، 235، ص 1ج

ـہ213الزبیري، أبو عبد هللا المصعب بن عبد هللا بن المصعب )متوفاي ) ، نسب قریش ،

، تحقیق: لیفي بروفسال، القاهرة، ناشر:دار المعارف؛147، ص 70ج

ـہ 154التمیمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم )متوفاي ) ، ص 2، ج الثقات ،

– ـہ7175شرف الدین أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: األولى، ، تحقیق السید 744

م؛7715

170الطبري، أبي جعفر محمد بن جریر )متوفاي ) ، 534، ص 2، ج تاریخ الطبري ،

بیروت؛ -ناشر: دار الكتب العلمیة

ـہ310الجزري، عز الدین بن األثیر أبي الحسن علي بن محمد )متوفاي الكامل في (

بیروت، -، تحقیق عبد هللا القاضي، ناشر: دار الكتب العلمیة 450، ص 2، ج التاریخ

ـہ7475الطبعة الثانیة، .

: تین اوالد تھی

: بالذرى نے انساب األشراف میں ام کلثوم کی زید کے عالوہ دوبہنوں کا ذکر کیا

فاطمة بنت عمر، وأمھا أم كلثوم، بنت علي عبد الرحمن بن زید بن الخطاب: كانت تحته

أبي طالب، وجدتھا فاطمة بنت رسول هللا صلى هللا علیه وسلم،وأخوها ألبیھا وأمھا بن

زید بن عمر بن الخطاب، فولدت لعبد الرحمن: عبد هللا وابنة. وإبراهیم بن نعیم النحام

كانت عندہ بن عبد هللا بن أسید بن عبد بن عوف بن عبید بن عویج بن عدي بن كعب،

ألبیھا، وأمھا: أم كلثوم بنت علي رقیة بنت عمر، أخت حفصة .

ـہ217البالذري، أحمد بن یحیى بن جابر )متوفاي ) 787، ص 7، ج أنساب األشراف ، .

زید عمر کا بھائی یا عمر کا بیٹا؟

ابن عساكر دمشقى، نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ام کلثوم خطاب کی بیوی تھی نا

کہ عمر بن خطاب کی

عن عبد الحمید بن عبد المؤملي حدثني سعید بن عبد الكبیروحدثني عمر بن أبي بكر

الرحمن بن زید بن الخطاب وأمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وكان سبب ذلك أن

.حربا وقعت فیما بین عدي بن كعب

بنت علي عبد الحمید بن عبد الرحمن بن زید بن خطاب كه جن کی والدہ ام*كلثوم ...

...بن ابى طالب]ع[ تھی روایت کی ہے

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة هللا بن عبد

ـہ517هللا،)متوفاي ) ج ،تاریخ مدینة دمشق وذكر فضلھا وتسمیة من حلھا من األماثل ،

ار الفكر ، تحقیق: محب الدین أبي سعید عمر بن غرامة العمري، ناشر: د481، ص 77

7775 -بیروت - .

!!! زید اصغر، زید اكبر سے بڑے

اس سے بھی اهم ترین بات وہ ہے جس کی طرف اہل سنت کے علماء نے اشارہ کیا

ہے : کہ اہل سنت کے علماء نے عمر کے دو بیٹوں کا نام زید بتایا ہے ایک ام کلثوم

بنت جردل زمانہ بنت جردل سے اور دوسرا ام کلثوم بنت علی ]ع[سے ام کلثوم

جاہلیت میں عمر کی بیوی تھی اور عمر اسالم النے کے بعد اس سے الگ ہوگئے

اور اس عورت نے کسی اور سے شادی کر لی ۔

وأم عبید هللا أم كلثوم: واسمھا ملیكة بنت جرول الخزاعیة، وكانت على شركھا حین

ھم بن حذیفة صاحب فطلقھا عمر فتزوجھا أبو ف« وال تمسكوا بعصم الكوافر»نزلت

.الخمیصة، وقد تقدم ذكرہ في أول الكتاب

عبید هللا کی ماں ام کلثوم سے مشہور ہے جس کا اصل نام ملیکہ بنت جردل خزاعی

نازل ہوئی تو وہ کافر ہی رہی تو «وال تمسكوا بعصم الكوافر»ہے اور جب یہ آیت

۔عمر نے اسے طالق دیدی تو اس سے ابن حذیفہ نے شادی کی ۔۔۔

ـہ344االنصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري )متوفاي الجوهرة في (

258، ص 7، ج نسب النبي وأصحابه العشرة .

:اور ابن حجر عسقالنى نے کہا

زید بن عمر بن الخطاب القرشي العدوي شقیق عبد هللا بن عمر المصغر أمھما أم كلثوم

اإلسالم لما نزلت والتمسكوا بعصم الكوافر بنت جرول كانت تحت عمر ففرق بینھما

وغیرہ فھذا یدل فتزوجھا أبو الجھم بن حذیفة وكان زوجھا قبله عمر ذكر ذلك الزبیر

.على أن زیدا ولد في عھد النبي

زید بن عمر بن خطاب قرشى عدوى، برادر عبد هللا بن عمر اصغر؛ ان دونوں کی

وال تمسكوا »ماں ام کلثوم بنت جرودل ہے اور یہ عمر کی بیوی تھی جب یہ آیت

نازل ہوئی تو اسالم نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی پھر اس «بعصم الكوافر

عمر کی بیوی تھی اس بات کو سے ابو جھم نے شادی کی اور اس سے پہلے وہ

زبیر اور دیگران نے ذکر کیا ہے اور یہ بات یہ بتاتی ہے کہ زید ]اصغر[ رسول

ص[کی زندگی میں پیدا ہوا ہے]اکرم

ـہ852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي ) اإلصابة في ،

مد البجاوي، ناشر: دار ، تحقیق: علي مح2737، رقم: 328، ص 2، ج تمییز الصحابة

7772 - 7472بیروت، الطبعة: األولى، -الجیل .

نکتہ یہاں پر ہے کہ وہ زید ام کلثوم بنت جرول کا بیٹا جو زمانہ رسول]ص[ میں پیدا

ہوا ہے ان لوگوں نے اسے " زید اصغر " قرار دیا ہے اور ام کلثوم بنت علی]ع[

ہے اوریہ مطلب ام کلثوم کے بیٹے زید کے بیٹے کو ان لوگوں نے زید اکبر قرار دیا

کے سرے سے ہونے کو مخدوش کرتا ہے کیسے ہوسکتا ہے چھوٹے بیٹے کو اکبر

اور بڑے کو اصغر بنادیا جائے۔

:علماء اہل سنت نے اس مشکل کو سمجھے بغیر نقل کیا ہے کہ

رسول هللا وزید األكبر ورقیة وأمھم أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وأمھا فاطمة بنت

صلى هللا علیه وسلم وزید األصغر وعبیدهللا وأمھما أم كلثوم بنت جرول. وفرق اإلسالم

بین عمر وبین أم كلثوم بنت جرول

زید اكبر و رقیه، کہ ان دو کی ماں ام*كلثوم بنت علي بن ابى طالب و فاطمه بنت

نت جردل ہے رسول خدا )ص(* ہیں و زید اصغر و عبید هللا انکی ماں ام کلثوم ب

اسالم نے عمر اور بنت جردل کے درمیان جدائی ڈال دی تھی۔

ـہ 571ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد )متوفاي ) المنتظم في ،

بیروت، الطبعة: األولى، -، ناشر: دار صادر 717، ص 4، ج تاریخ الملوك واألمم

7158.

ہے کہ ام کلثوم بنت ابوبکر تھی اور زید بن اس بناءپر ، کالم اہل سنت سے ثابت ہوا

عمر ام کلثوم بنت جرول سے تھا نہ کہ ام کلثوم بنت امام علی]ع[ سے البتہ اہل سنت

کے علماءنے اس کے عالوہ ایک اور ام کلثوم کو عمر کی بیوی قرار دیا ہے

: عاصمی مکی عمر کی زوجات کی تعداد بتاتے ہوا لکھتا ہے

بن ثابت بن أبى األفلح حمى الدبر أم كلثوم جمیلة بنت عاصم والرابع عاصم أمه .

عمر، کا بیٹا عاصم ہے اسکی ماں ؛ ام*كلثوم جمیله بنت عاصم بن ثابت بن ابى افلح

. ہے

ـہ7777العاصمي المكي، عبد الملك بن حسین بن عبد الملك الشافعي )متوفاي ) سمط ،

، تحقیق: عادل أحمد عبد 508، ص 2 ج ،النجوم العوالي في أنباء األوائل والتوالي

علي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمیة -الموجود .

ام*كلثوم بنت .1 :نام کے سے چار بیویاں تھیں «ام*كلثوم»یعنى خلیفه دوم کی

. ام*كلثوم بنت 4. ام*كلثوم بنت عاصم بن ثابت؛ 1. ام*كلثوم بنت ابوبكر؛ 2جرول؛

.!!!.امیر المؤمنین

ا اہل سنت کے علماء نے تشابہ اسمی کی و جہ سے ام کلثوم بنت علی علیہ السالم گوی

کو بھی شامل کر لیا ۔

: عمر نے، اپنی بیٹی رقیه کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی

اس قصہ کے جھوٹے ہونے کی ایک اور تائید اہل سنت کے علماء کا یہ دعوی ہے

کلثوم کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی ۔کہ عمر نے خود اپنی بیٹی رقیہ بنت ام

:ابن قتیبه دینورى لکھتا ہے

فماتت إن اسم بنت أم كلثوم من عمر رقیة وأن عمر زوجھا إبراهیم بن نعیم النحام ویقال

.عندہ ولم تترك ولدا

اور کہا گیا ہے کہ عمر نے اپنی بیٹی رقیہ بنت ام کلثوم کی شادی ابراہیم بن نعیم

رقیہ ابراہیم کی زوجیت میں فوت کر گئی اور کوئی اوالد نہ ہوئی۔سے کی اور وہ

، ص 7(، المعارف، ج ـہ213الدینوري، أبو محمد عبد هللا بن مسلم ابن قتیبة )متوفاي

، تحقیق785 القاهرة -دكتور ثروت عكاشة، ناشر: دار المعارف : .

:اور ابن اثیر جزرى نے بھی لکھا

أن عمر بن الخطاب زوج ابنته رقیة من إبراهیم بن نعیم بن وقد ذكر الزبیر بن أبي بكر

عبد هللا النحام

زبیر بن ابى بكر نے کہا كه : عمر بن خطاب نے اپنی بیٹی رقیہ کی شادی ابراہیم بن

.نعیم سے کی

ـہ310الجزري، عز الدین بن األثیر أبي الحسن علي بن محمد )متوفاي ) أسد الغابة في ،

، تحقیق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحیاء التراث 17ص ،7، ج معرفة الصحابة

م 7773 - ـہ 7471بیروت / لبنان، الطبعة: األولى، -العربي .

: ابن حجر عسقالنى اس بارے میں لکھا

قلت وعند البالذري أنه كانت عندہ زوج عمر بن الخطاب إبراهیم هذا ابنته وقال الزبیر

علي رقیة بنت عمر من أم كلثوم بنت .

زبیر بن ابى بكر نے کہا كه : عمر بن خطاب نے اس بیٹی کی شادی ابراہیم بن نعیم

سے کی ؛ بالذرى نے بھی کہا ابراہیم کی بیوی رقیہ بنت عمر و ام کلثوم بنت

تھی۔ [علی]ع

ـہ852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي ) اإلصابة في ،

-، تحقیق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجیل 718ص ،7، ج تمییز الصحابة

7772 - 7472بیروت، الطبعة: األولى، .

۹۱یا ۹۱اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ خلیفہ دوم کی شادی ام کلثوم سے

ہجری میں ہوئی یعنی عمر نے ام ۳۲ہجری میں ہونا کہتے ہیں اور عمر کی وفات

ں ۔اور یہ بھی دیکھتے ہوئے زید ام کلثومسال گزارے ہی ۶کلثوم کے ساتھ کا بیٹا !!!

رقیہ سے بڑا تھا اور زید خود اپنے پاپ کی زندگی کے آخری ایام میں پیدا ہوا پس

کیسے قبول کر سکتے ہیں کہ رقیہ اس چھوٹی سی عمر یعنی ایک سال یا دو سال

میں بیاہ دی گئی ہو ؟

ں کہا ہے ابن حجر نے زید کی تاریخ والدت کے بارے می

.وكان مولدہ في آخر حیاة أبیه سنة ثالث وعشرین

۳۲زید کی والدت اپنے باپ کے آخری ایام زندگی .ہجری میں ہوئی

ـہ 852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي ) اإلیثار بمعرفة ،

-العلمیة ، تحقیق: سید كسروي حسن، ناشر: دار الكتب 17، ص 7ج رواة اآلثار

ـہ7471بیروت، الطبعة: األولى، .

شاید عمر نے ام کلثوم سے بہت چھوٹی عمر میں شادی کی تھی اسی لئے خواہش ہو

.!!! کہ اپنی دوده پیتی بیٹی کو دلہن بنا دے

:ام كلثوم و زید کی تاریخ وفات .5

امام تاریخ وفات ام*كلثوم اور زید میں بھی اختالف پایا جاتا ہے بعض نے کہا

حسن]ع[ کے زمانہ میں فوت کر گئے اور بعض نے کہا عبد الملک بن مروان نے

انھیں زہر دیا۔

ـہ68 ـ 37زمانہ حكومت عبد الملك بن مروان میں موت ) ):

عبد الرزاق صنعانى،نے ان دونوں کی موت کو زمانہ حكومت عبد الملك بن مروان

یعنی ام کلثوم اور زید حد اقل هجرى میں وفات کی ہے 83میں ذکر کی ہے اور سال

ہجری تک زندہ ہونگے ۱۱ :

قال عبد الرزاق وأم كلثوم من فاطمة بنت رسول هللا صلى هللا علیه وسلم ودخل علیھا

فماتا وصلى عبد الملك بن مروان سمھما عمر وأولد منھا غالما یقال له زید فبلغني أن

فخاف على ملكه هذا بن علي وبن عمر علیھما عبد هللا بن عمر وذلك أنه قیل لعبد الملك

.فسمھما

عبد الرزاق کہتے ہیں: اور ام*كلثوم بنت فاطمه بنت رسول خدا )صلى هللا علیه وآله

وسلم( جس سے عمر نے شادی کی اور اس سے زید پیدا ہوا ہمیں خبر پہنچی ہے کہ

مر نے ان ان دونوں کو عبد الملک بن مروان نے زہر دے کر مارا ہے عبد هللا بن ع

دونوں پر نماز پڑهائی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عبد الملک کو کہا گیا کہ زید علی

اور عمر کا بیٹا ہے اسی لئے اپنے خالفت کے لئے خطرہ دیکھا تو دونوں کو زہر

! دے دیا

ـہ277الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام )متوفاي ) ، 734، ص 3، ج المصنف ،

بیروت، الطبعة: الثانیة، -األعظمي، ناشر: المكتب اإلسالمي تحقیق حبیب الرحمن

ـہ7401 .

ـہ40 ـه 06سعید بن العاص کی امارت مین وفات پائی ) ):

سعید بن العاص كه روایات مشھور اهل سنت یہ ثات کرتی ہیں کہ یہ دونوں زمانہ

تک امیر مدینه میں فوت کر گئے ۔ ـہ54سے ـہ48سال

میں لکھا ہے بالوفیاتصفدى نے الوافى :

حدود الخمسین للھجرة وتوفي زید رحمه هللا شابا في .

هجرى میں دنیا سے چلے گیا 50زید رحمه هللا جوانى میں تقریبا سال .

ـہ134الصفدي، صالح الدین خلیل بن أیبك )متوفاي ) ، ص 75، ج الوافي بالوفیات ،

بیروت -إحیاء التراث ، تحقیق أحمد األرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار 24 -

1420 م2000 -ـہ .

: اور ابن حجر عسقالنى کہتے ہیں

زید بن عمر بن الخطاب القرشي العدوي أمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب مات مع

أمه في یوم واحد وكان مولدہ في آخر حیاة أبیه سنة ثالث وعشرین ومات وهو شاب في

على المدینةخالفة معاویة في والیة سعید بن العاص

زید بن عمر بن خطاب قرشى عدوى، انکی ماں ام*كلثوم بنت علي بن ابى طالب]ع[

ہے یہ دونوں ایک ہی دن میں وفات کر گئے

میں ہوئی اور زید کی وفات خالفت 21زید کی والدت اپنے باپ کی حیات سال

.معاویه اور زمانہ امیر مدینہ سعید بن عاص میں ہوئی

ـہ 852ي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفايالعسقالني الشافع ) اإلیثار بمعرفة ،

-، تحقیق: سید كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمیة 17، ص 7ج رواة اآلثار

ـہ7471بیروت، الطبعة: األولى، .

سال کا فرق ہے 20اس دو نقل میں !!!.

: واقعه كربال کے بعد وفات

ابن طیفور نے نقل کیا ہے بتاتا ہے کہ کربال کے خطبہ ام کلثوم کوفہ میں جسے

واقعے کے بعد تک ام کلثوم زندہ تھی۔

أما بعد یا أهل الكوفة والصالة والسالم على جدي قالت أبدأ بحمد هللا ...

ـہ 180أبي الفضل بن أبي طاهر المعروف بابن طیفور )متوفاى ) ، ص بالغات النساء ،

، طبق برنامه الجامع الكبیر77قم و ص ـ، ناشر: منشورات مكتبة بصیرتي 24 .

: ام كلثوم و زید کی وفات کا سبب .6

وفات ام*كلثوم و زید کے سبب میں بھی اختالف ہے بعض کہتے ہیں مریضی کی

وجہ اور اسی مریضی میں فوت کر گئے،۔

: مریضي کی وجہ سے وفات

تاریخ مدینة دمشق میں اور ابن عساكر دمشقى نے المنمق محمد بن حبیب بغدادى نے

میں لکھا ہے صفدى نے الوافى فى الوفیات میں اور :

وقد ذكر بعض أهل العلم أنه وأمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب رحمة هللا علیھم

وكانت تحت عبد هللا بن جعفر بن أبي طالب علیه مرضا جمیعا وثقال ونزل بھما وأن

قبل صاحبه فیرث منه اآلخر وأنھما قبضا في رجاال مشوا بینھما لینظروا أیھما یموت

.ساعة واحدة ولم یدر أیھما قبض قبل صاحبه فلم یتوارثا

بعض اهل علم نے کہا ہے کہ زید اور انکی والدہ ام*كلثوم بنت علي بن ابى طالب

رحمة هللا علیھم( نے جب وہ عبد هللا بن جعفر کی بیوی تھی دونوں مریض ہوئے )

ں وفات کی ہم لوگ انکے پاس آنا جانا رکھتے تھے تاکہ دیکھیں اور ایک ہی وقت می

کون پہلے مرتا ہے اور کون وارث بنتا ہے لیکن یہ دونوں ایک ہی وقت اور لمحہ

میں مر گئے اور معلوم نہیں ہو سکا کہ پہلے کون مرا ہےاسی وجہ سے ارث دونوں

میں تقسیم نہ ہو سکی ۔

ـہ245ن أمیة )متوفايالبغدادي، أبو جعفر محمد بن حبیب ب ) ، المنمق في أخبار قریش ،

بیروت، الطبعة: -، تحقیق: خورشید أحمد فارق، ناشر: عالم الكتب 172، ص 7ج

م؛7785 ـ ـہ7405األولى،

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة هللا بن عبد

ـہ517هللا،)متوفاي ) ، ج فضلھا وتسمیة من حلھا من األماثلتاریخ مدینة دمشق وذكر ،

تحقیق: محب الدین أبي سعید عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر 481، ص 77

؛7775 -بیروت -

ـہ134الصفدي، صالح الدین خلیل بن أیبك )متوفاي ) ، ص 75، ج الوافي بالوفیات ،

-بیروت - ، تحقیق أحمد األرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحیاء التراث24

م2000 -ـہ7420 .

:پتھر لگنے کی وجہ سے موت واقع ہوئی

. بعض نے کہا زید پتھر لگنے کی وجہ سے مر گئے

:ابن حبان نے لکھا

.فأما أم كلثوم فزوجھا على من عمر فولدت لعمر زیدا ورقیة وأما زید فأتاہ حجر فقتله

اور رقیہ پیدا ہوئی ام*كلثوم کی علي]ع[ نے عمر سے شادی کروائی جس سے زید

اور زید کو پتھر لگا جس نے جان لے لی!۔

ـہ 154التمیمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم )متوفاي ) ، ص 2، ج الثقات ،

– ـہ7175، تحقیق السید شرف الدین أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: األولى، 744

م7715 .

، بنى عویج و بنى رزاح کے درمیان ہونے ابن قتیبه دینورى کا یہ اعتقاد ہے کہ زید

والی جنگ میں قتل ہوا۔

فرمى بحجر في حرب كانت بین بني عویج وبین بني وأما زید بن عمر بن الخطاب

فمات وال عقب له ویقال أنه مات هو وأم كلثوم أمه في ساعة واحدة فلم یرث رزاح

...واحد منھما من صاحبه

رزاح کی جنگ میں پتھر لگنے کی وجہ سے وفات اور زید بن عمر، عویج اور بنى

کر جاتے ہیں اور انکی کوئی اوالد نہ تھی۔

اسی طرح کہا گیا ہے کہ انکی والدہ بھی اسی گھڑی میں انکے ساتھ وفات کر گئ

...اسی وجہ سے ایک دوسرے سے ارث نہیں لےسکے

، ص 7المعارف، ج (، ـہ213الدینوري، أبو محمد عبد هللا بن مسلم ابن قتیبة )متوفاي

، تحقیق788 القاهرة -دكتور ثروت عكاشة، ناشر: دار المعارف : .

اور بعض علماء اهل سنت نے کہا قبلیہ بنی عدی کے درمیان ہونے والی جنگ میں

:مارا گیا

وتوفیت أم كلثوم وابنھا زید في وقت واحد وقد كان زید أصیب في حرب كانت بین بني

لیصلح بینھم فضربه رجل منھم في الظلمة فشجه وصرعه فعاش عدي لیال كان قد خرج

...أیاما ثم مات وهو وأمه في وقت واحد وصلى علیھما ابن عمر

ام*كلثوم اور انکے بیٹے زید نے ایک ہی گھڑی میں وفات پائی ، زید رات کے وقت

بنی عدی کے درمیان ہونے والی جنگ میں صلح کے لئے گئے تھے تاریکی میں

پر کسی نے ضرب لگائی اور وہ زخمی ہوگئے زید اس کے بعد چند روز اسے سر

زندہ رہا اور اپنی ماں کے ساتھ ایک ہی وقت میں وفات کر گیا اور ابن عمر نے ان

....پر نماز پڑهائی

ـہ 431القرطبي، یوسف بن عبد هللا بن محمد بن عبد البر )متوفاي ) االستیعاب في ،

-، تحقیق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجیل 7753، ص 4، ج معرفة األصحاب

؛ـہ7472بیروت، الطبعة: األولى،

ـہ310الجزري، عز الدین بن األثیر أبي الحسن علي بن محمد )متوفاي ) أسد الغابة في ،

، تحقیق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحیاء التراث 425، ص 1، ج معرفة الصحابة

م 7773 - ـہ 7471الطبعة: األولى، بیروت / لبنان، -العربي

: تیر لگنے کی وجہ سے وفات

فولدت له زید بن عمر وهو زید األكبر ورقیة بنت عمر وكانت وفاتھا ووفاة ابنھا في

ساعة واحدة وكان سبب موته سھما أصابه لیال في ثائرة وقعت بین عدي وبني حذیفة

زید اکبر ہے اسی طرح رقیہ اور ام*كلثوم، کا عمر سے زید نامی لڑکا ہو اور یہی

زید اور ام کلثوم ایک ہی وقت میں مر گئے زید کی موت کا سبب بنی عدی اور بنی

حذیفہ میں ہونے والی جنگ میں تیر کا لگنا تھا ۔

ـہ587السھیلي، عبد الرحمن بن عبد هللا أبو القاسم )متوفاي ) الفرائض وشرح آیات ،

مكة -حمد إبراهیم البنا، ناشر: المكتبة الفیصلیة ، تحقیق: د. م718، ص 7، ج الوصیة

ـہ7405المكرمة، الطبعة: الثانیة، .

: موت کا سبب زہر کھانا

: عبد الرزاق صنعانى، بخاری کے استاد نے لکھا ہے

قال عبد الرزاق وأم كلثوم من فاطمة بنت رسول هللا صلى هللا علیه وسلم ودخل علیھا

له زید فبلغني أن عبد الملك بن مروان سمھما فماتا وصلى عمر وأولد منھا غالما یقال

علیھما عبد هللا بن عمر وذلك أنه قیل لعبد الملك هذا بن علي وبن عمر فخاف على ملكه

.فسمھما

عبد الرزاق کہتے ہیں: اور ام*كلثوم بنت فاطمه بنت رسول خدا )صلى هللا علیه وآله

زید پیدا ہوا ہمیں خبر پہنچی ہے کہ وسلم( جس سے عمر نے شادی کی اور اس سے

ان دونوں کو عبد الملک بن مروان نے زہر دے کر مارا ہے عبد هللا بن عمر نے ان

دونوں پر نماز پڑهائی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عبد الملک کو کہا گیا کہ زید

علی]ع[ اور عمر کا بیٹا ہے اسی لئے اپنے خالفت کے لئے خطرہ دیکھا تو دونوں

زہر دے دیاکو !

ـہ277الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام )متوفاي ) ، 734، ص 3، ج المصنف ،

بیروت، الطبعة: الثانیة، -تحقیق حبیب الرحمن األعظمي، ناشر: المكتب اإلسالمي

ـہ7401 .

آیا زید، کی کوئی اوالد تھی ؟ .7

اس کی اوالد ہوئی زید کی اوالد ہونے یا نہ ہونے میں بھی اختالف ہے بعض کہا

تھی اور بعض نے کہا انکی کوئی اوالد نہ تھی ۔

: اوالد نہ تھی

وزید األكبر ال بقیة له ورقیة وأمھما أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن

.هاشم وأمھا فاطمة بنت رسول هللا

ام*كلثوم بنت و رقیه، ان دونوں کی ماں -اسکی کوئی اوالد نہیں تھی – زید اكبر

علي بن ابى طالب بن عبد المطلب بن هشام اور ام*كلثوم، کی ماں فاطمه دختر رسول

. خدا ]ص[ ہیں

ـہ232النمیري البصري، أبو زید عمر بن شبة )متوفاي ) ، 7، ج تاریخ المدینة المنورة ،

-، تحقیق علي محمد دندل ویاسین سعد الدین بیان، ناشر: دار الكتب العلمیة 145ص

م7773-ـہ7471 -بیروت .

: بہت سی اوالد تھی

:ابن قدامه مقدسى، مشھور حنبلی فقیه کہتے ہیں کہ زید کی بہت اوالد تھی

فإن زید بن عمر هو ابن أم كلثوم بنت علي الذي صلي علیه معھا وكان رجال له أوالد

.كذلك

کی نماز زید بن عمرجو ام*كلثوم بنت علي]ع[ کا بیٹا ہے اسکی اور اسکی ماں

جنازہ ایک ساتھ ہوئی یہ مرد تھا اور اسکی اوالد بھی تھی۔

ـہ320المقدسي، عبد هللا بن أحمد بن قدامة أبو محمد )متوفاي ) المغني في فقه اإلمام ،

بیروت، الطبعة: األولى، -، ناشر: دار الفكر 227، ص 2، ج أحمد بن حنبل الشیباني

ـہ7405 .

ـہ320قدامة أبو محمد )متوفاي المقدسي، عبد هللا بن أحمد بن ) الشرح الكبیر البن ،

145، ص 2، ج قدامة .

: ابن عساكر دمشقى نے بھی کہا ہے

قال الزبیر وأما زید بن عمر بن الخطاب فكان له ولد فانقرضوا

زبیر نےکہا ہے کہ زید بن عمر بن خطاب، انکی اوالد تھی لیکن نسل آگے باقی نہ

رہی

الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة هللا بن عبد ابن عساكر الدمشقي

ـہ517هللا،)متوفاي ) ، ج تاریخ مدینة دمشق وذكر فضلھا وتسمیة من حلھا من األماثل ،

، تحقیق: محب الدین أبي سعید عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر 481، ص 77

7775 -بیروت - .

: مرنے کے وقت زید کی عمر .8

مر،مرتے ہوئے کتنے سال کے تھے ؟ بعض نے اسے زید بن ع صغیر؛ بہت چھوٹا »

بچہ کہا ہے اور بعض نے اسے جوان کہا ہے اور بعض نے اسے مرد "رجل" کہا

ہے ۔

:زید صغیر تھا

أبى حاتم رازى نے الجرح و التعدیل میں اور ابن عساكر دمشقى نے تاریخ مدینه

»دمشق میں زید کو کہا ہے«صغیر :

عمر بن الخطاب من أم كلثوم بنت على سمعت أبى یقول ذلك ویقول توفى هو زید بن

وأمه أم كلثوم في ساعة واحدة وهو صغیر ال یدرى أیھما مات أول

زید بن عمر بن خطاب، كه جنکی ماں ام*كلثوم بنت علي]ع[تھی : میں نے اپنے والد

ں کے ساتھ ایک سے سنا ہے کہ زید کمسنی اور صغیر ہونے کی حالت میں اپنی ما

ہی گھڑی میں مر گئے اور معلوم نہ ہو سکا کہ پہلے کون مرا ہے ۔

ـہ121الرازي التمیمي، أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم محمد بن إدریس )متوفاي ) ،

-، ناشر: دار إحیاء التراث العربي 2513، رقم: 538، ص 1، ج الجرح والتعدیل

م؛7752 ـ ـہ7217بیروت، الطبعة: األولى،

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة هللا بن عبد

ـہ517هللا،)متوفاي ) ، ج تاریخ مدینة دمشق وذكر فضلھا وتسمیة من حلھا من األماثل ،

، تحقیق: محب الدین أبي سعید عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر 484، ص 77

7775 -بیروت - .

:جوان تھا

: کہا ہے «شاب؛ جوان»ذهبى و ابن حجر، نے اسے

زید بن عمر بن الخطاب، القرشي العدوي، وأمه أم كلثوم بنت فاطمة الزهراء. قال

.عطاء الخراساني: توفي شابا ولم یعقب

. زید بن عمر بن خطاب قرشى عدوى، انکی ماں ام*كلثوم بنت فاطمه زهرا ]س[ہے

جوانی میں ال ولد دنیا سے گیا ہے ۔عطاء خراسانى نے کہا ہے کہ وہ

ـہ148الذهبي، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، )متوفاي ) تاریخ اإلسالم ووفیات ،

، تحقیق د. عمر عبد السالم تدمرى، ناشر: دار 58، ص 4، ج المشاهیر واألعالم

م7781 - ـہ7401لبنان/ بیروت، الطبعة: األولى، -الكتاب العربي .

نے کہااور ابن حجر :

زید بن عمر بن الخطاب القرشي العدوي أمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب مات مع

أمه في یوم واحد وكان مولدہ في آخر حیاة أبیه سنة ثالث وعشرین ومات وهو شاب في

خالفة معاویة في والیة سعید بن العاص على المدینة

بنت علی بن ابیطالب]ع[ زید بن عمر بن خطاب قرشى عدوى؛ انکی ماں ام*كلثوم

ہے اپنی ماں کے ساتھ ایک ہی روز میں وفات کی انکی والدت اپنے والد کے آخری

ہجر ی میں ہوئی اور معاویہ کی ملوکیت اور سعید بن عاص کی 21ایام زندگی

امارت میں وفات کی ۔

ـہ 852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي ) معرفة اإلیثار ب ،

-، تحقیق: سید كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمیة 17، ص 7ج رواة اآلثار

ـہ7471بیروت، الطبعة: األولى، .

: مرد تھے

: علماء اهل سنت دوسرے گروہ نے کہا زید بن عمر مرد ہونے تک زندہ رہے

:خطیب بغداد لکھتا ہے

ماتفولدت له زید بن عمر بن الخطاب فعاش حتى كان رجال ثم

ـہ431البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطیب )متوفاي ) ، ص 3، ج تاریخ بغداد ،

بیروت –، ناشر: دار الكتب العلمیة 782 .

ابن عساكر دمشقى نے ایک قصہ نقل کیاہے جس میں زید بسر بن ابی ارطاہ سے

: مار دهاڑ ہے جو بیان کرتا ہے کہ زید رجل تھا

قال وفاقا مع زید بن عمر بن الخطاب وأمه أم كلثوم حدثني رجل من األنصار عن أبیه

بنت علي بن أبي طالب وأمھا فاطمة بنت رسول هللا ص إلى معاویة بن أبي سفیان

فأجلسه على السریر وهو یومئذ من أجمل الناس وأشبھھم فبینا هو جالس قال له بسر بن

هللا خیر منك وأزكى وأطیب أرطأة یا ابن أبي تراب فقال له أإیاي تعني ال أم لك لك أنا و

فما زال الكالم بینھما حتى نزل زید إلیه فخنقه حتى صرعه وبرك على صدرہ فنزل

معاویة عن سریرہ فحجز بینھما وسقطت عمامة زید فقال زید وهللا یا معاویة ما شكرت

الحسنى وال حفظت ما كان منا إلیك حیث تسلط علي عبد بني عامر فقال معاویة أما

ابن أخي أني لكفرت الحسنى فوهللا ما استعملني أبوك إال من حاجة إلي وأما ما قولك یا

ذكرت من الشكر فوهللا لقد وصلنا أرحامكم وقضینا حقوقكم وإنكم لفي منازلكم فقال زید

أنا ابن الخلیفتین وهللا ال تراني بعدها أبدا عائدا إلیك وإني ألعلم أن هذا لم یكن إال عن

ید إلینا وقد تشعث رأسه وسقطت عمامتهرأیك قال وخرج ز .

ایک انصاری ے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ میں زید کے ساتھ کہ جس کی ماں ام

کلثوم بن علی]ع[تھی ۔۔۔۔۔ معاویہ کے پاس گئے معاویہ نے اسے اپنے ساتھ تخت پر

ہ نے بٹھایا اور زید لوگوں میں حسین ترین انسان تھا اسی اثنا میں بسر بن ابی ارطا

زید سے کہا: اے ابو تراب کے بیٹے ! زید نے کہا تمہاری مراد میں ہوں ؟ اے بنا

ماں کے ؟ هللا کی قسم میں تم سےبہتر اور پاکیزہ ہوں اور دونوں میں اتنا کالمی

نزاع ہوا کہ زید نے تخت سے اتر کر بسر کو زمین پر دے مارا اور اسکے سینے

جدا کیا اور زید کا عمامہ سر سے گر گیا ۔ پر سوار ہوگیا معاویہ نے دونوں کو

زید نے کہا ےا معاویہ تم نے ہماری بھالئیوں کی جزا اچھی نہیں دی اور جو احسان

ہم نے کئے اس کا خیال نہ رکھا اورتم نے بنی عامر کے ایک غالم کو مجھ پر

مسلط کردیا ۔

کا اچھا صلہ نہیں معاویہ نےجواب میں کہا : تم نے کہا کہ ہم نے تمہاری بھالئیوں

دیا تو جان لو کہ تمہارے باپ ]عمر[ نے جو مجھے عامل بنا تھا وہ اس لئے کہ وہ

میرا محتاج تھا اور تمہارایہ کہنا کہ میں نے تمہاری خوبیوں کا پاس نہیں رکھا تو

جان لو کہ ہم نے تمہارے رشتہ داروں سے رشتہ قائم کئے اور جس مقام پر پہلے

آج بھی رکھا ہے زید نے کہا میں دو خلیفہ کا بیٹا ہوں اب تو تھے اسی مقام پر

مجھے اپنے پاس کبھی آتا نہیں دیکھو گےاور میں جانتا ہوں یہ بسر کا کالم اور

جھگڑا تیری سازش تھی اس کے بعد زید ہمارے پاس لوٹ آئے جبکہ انکے بال

بکھڑے اور عمامہ گرا ہوا تھا۔

القاسم علي بن الحسن إبن هبة هللا بن عبد ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي

ـہ517هللا،)متوفاي ) ، ج تاریخ مدینة دمشق وذكر فضلھا وتسمیة من حلھا من األماثل ،

، تحقیق: محب الدین أبي سعید عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر 484، ص 77

7775 -بیروت - .

ربیع األبرار میں ، زمخشرى نےانساب األشراف میں، اسی داستان کو بالذرى نے

الكامل فى التاریخ میں اور ذهبى ابن حمدون نے التذكرة الحمدونیة میں، ابن أثیر نے

سیر اعالم النبالء، مختصر اور کچھ اختالف متن کے ساتھ تحریر کیا ہے نے :

ـہ217البالذري، أحمد بن یحیى بن جابر )متوفاي ) ؛83، ص 2، ج أنساب األشراف ،

( ـہ518ي الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار هللا )متوفاىالزمخشر

؛437، ص 7ربیع األبرار، ج

ـہ308ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي )متوفاي ) ، ج التذكرة الحمدونیة ،

بیروت،، الطبعة: -، تحقیق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر:دار صادر 107، ص 7

م؛7773األولى،

ـہ310الجزري، عز الدین بن األثیر أبي الحسن علي بن محمد )متوفاي الكامل في (

بیروت، -، تحقیق عبد هللا القاضي، ناشر: دار الكتب العلمیة 111، ص 1، ج التاریخ

؛ـہ7475الطبعة الثانیة،

ـہ148الذهبي، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، )متوفاي ) ج ، سیر أعالم النبالء ،

، تحقیق: شعیب األرناؤوط، محمد نعیم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة 502، ص 1

ـہ7471بیروت، الطبعة: التاسعة، -الرسالة .

آیا زید جوانی میں اس طرح بسر جو معاویہ کے لشکر کا کمنڈر تھا ،کو زمین پر

دے مارے ؟ اور اس طرح کالم کرے ؟

دنوں میں پیدا ہوا ہے تو اگر سعید اس کے عالوہ اگر زید عمر کی موت کے آخری

50سال اور اگر عبد الملک نے زہر دیا ہے تو 28بن عاص کے زمانہ مرا ہے تو

! سال کا تھا

جنازہ زید اور ام كلثوم پر کس نے نماز پڑهائی؟ .9

ان دونوں پر نماز جنازہ پڑهانے والے میں اختالف ہے بعض کہتے ہیں بعض نقل

ن عمر نے اور بعض نقل میں سعید بن العاص ہےمیں ہے کہ عبد هللا ب :

عبد هللا بن عمر

ابن حجر عسقالنى، کہتے ہیں کہ صحیح روایت میں آیا ہے کہ عبد هللا بن عمر نے

:زید و ام*كلثوم پر نماز پڑهائی

وأخرج بسند صحیح أن بن عمر صلى علي أم كلثوم وابنھا زید فجعله مما یلیه وكبر

أربعا

میں آیا ہے کہ ابن عمر نے ام*كلثوم اور انکے بیٹے زید پر نماز صحیح روایت

.پڑهائی اور جانب امام قرار دیا اور چار تكبیر کہیں

ـہ852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي ) اإلصابة في ،

-، تحقیق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجیل 274، ص 8، ج تمییز الصحابة

7772 – 7472بیروت، الطبعة: األولى، .

:محمد بن حسن شیبانى اهل سنت کے دوسری صدی کے عالم نے لکھا ہے

رضي هللا عنه على أم كلثوم بنت علي رضي صلى ابن عمر :عن عامر الشعبي، قال

هللا عنه وزید بن عمر رضي هللا عنه ابنھا، فجعل أم كلثوم تلقاء القبلة، وجعل زیدا مما

اإلمامیلي

ابن عمر نے ام*كلثوم بنت علي رضى هللا عنه اور :عامر شعبى سے روایت ہے کہ

زید بن عمر رضى هللا عنه كہ جو ام کلثوم کا بیٹا ہے پر نماز پڑهی

. ام کلثوم کو سمت قبلہ اور زید کو سمت امام قرار دیا

ـہ787الشیباني، أبو عبد هللا محمد بن الحسن بن فرقد )متوفاي ) آلثار لمحمد ابن ا ،

178، ص 7، ج الحسن .

: اور محمد بن سعد اور عبد الرزاق صنعانى لکھتے ہیں

عبد الرزاق عن الثوري عن أبي حصین وإسماعیل عن الشعبي أن بن عمر صلى على

.أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وزید بن عمر فجعل زیدا یلیه والمرأة أمام ذلك

عمر نے ام کلثوم بنت علی]عشعبى سے روایت ہے کہ :ابن اور زید پر نماز [

پڑهائی اور زید کو اپنے سامنے اور عورت کو بعد میں رکھا۔

ـہ277الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام )متوفاي ) 435، ص 1، ج المصنف ،

بیروت، الطبعة: -، تحقیق حبیب الرحمن األعظمي، ناشر: المكتب اإلسالمي 3113ح

؛ـہ7401الثانیة،

) الزهري، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدهللا البصري ـہ210متوفاي ) ، الطبقات الكبرى ،

بیروت -، ناشر: دار صادر 434، ص 8ج .

میں لکھا ہے تاریخ األوسطاور بخارى نے :

حدثنا محمد بن الصباح ثنا إسماعیل بن زكریا عن رزین البزاز حدثني الشعبي 419

كلثوم فقدموا عبد هللا بن عمر وخلفه الحسن والحسین ومحمد قال توفى زید بن عمر وأم

.بن الحنفیة وعبد هللا بن جعفر

شعبى سے روایت ہے کہ : زید اور عمر کلثوم دنیا سے چلے گئے تو لوگوں نے

عبد هللا بن عمر کو امام جماعت کے عنوان سے آگے کیا اور انکے پیچھے حسن]ع[

جعفر بن عبد هللا تھے ۔ ، محمد بن حنفیہ ، اور [و حسین]ع

ـہ253البخاري الجعفي، محمد بن إسماعیل أبو عبدهللا )متوفاي ) ، 7، ج التاریخ األوسط ،

حلب، -، تحقیق: محمود إبراهیم زاید، ناشر: دار الوعي، مكتبة دار التراث 702ص

م7711 ـم 7171القاهرة، الطبعة: األولى، .

مدینہ کا امیر تھا اسکے ہوتے ہوئے عبد هللا البته اس بات کو کہ سعید بن العاص جو

بن عمر کا زید و ام کلثوم پر نماز جنازہ پڑهانا بعید ہے ۔

:سعید بن العاص

روایات متعدد میں ہے کہ اس زمانہ کا امیر مدینہ سعید بن العاص نے ان دونوں پر

نماز پڑهائی۔

: ابن أبى شیبه کہتا ہے

ار مولى بني هاشم قال شھدت أمه كلثوم وزید بن حدثنا حاتم بن وردان عن یونس عن عمه

ا فصلهى علیھما سعید بن العاص عمر ماتا في ساعة واحدة فاخرجوهما فجعل زیدا ممه

ئذ ناس من أصحاب النبي صلى هللا یلیه وجعل أمه كلثوم بین یدي زید وفي الناس یوم

.علیه وسلم والحسن والحسین في الجنازة

میں بنی ہاشم کے پاس موجود تھا میں نے دیکھا کہ ام کلثوم اور زید بن عمر نے

ایک ہی وقت میں دم توڑا لوگ انھیں باہر لے کر آگئے اور سعید بن العاص نے ان

زید کو امام کی جانب اور ام کلثوم کو قبلہ کی جانت رکھا اور دو پر نماز پڑهائی

لوگوں میں اصحاب کی ایک جماعت موجود تھی اور حسن]ع[ اور حسین]ع[ جنازہ

میں تھے۔

ـہ 215إبن أبي شیبة الكوفي، أبو بكر عبد هللا بن محمد )متوفاي ) الكتاب المصنف في ،

تحقیق: كمال یوسف الحوت، ناشر: مكتبة ، 77538،* ح8، ص 1، ج األحادیث واآلثار

ـہ7407الریاض، الطبعة: األولى، -الرشد .

:اور احمد بن حنبل، مذهب حنبلى کے بانی کہتے ہیں

فصلى عن عمار مولى بني هاشم قال شھدت وفاة أم كلثوم بنت علي وزید بن عمر قال

وقدم أم كلثوم بین یدي زید بن عمر علیھما سعید بن العاص .

هاشم کے غالم عمار سے روایت ہے کہ : میں ام کلثوم بنت علی]ع[ اور زید بن بنى

عمر کے مرتے وقت حاضر تھا سعید بن العاص نے ان دو پر نماز پڑهائی ۔۔۔

ـہ247الشیباني، أحمد بن حنبل أبو عبدهللا )متوفاي ) ، ص 7ج ،العلل ومعرفة الرجال ،

-المكتب اإلسالمي، دار الخاني ، تحقیق: وصي هللا بن محمد عباس، ناشر:740

7788 - 7408بیروت، الریاض، الطبعة: األولى، .

نیل محمد بن علي شوكانی کہ وهابی جس کے اقوال کو بہت اهمیت دیتے ہیں وہ

میں لکھتے ہیں األوطار :

عبي أنه أمه كلثوم بنت علي وابنھا زید بن عمر توفیا جمیعا فأخرجت جنازتاهما وعن الشه

ى بین رؤوسھما وأرجلھما حین صلى علیھما فصلهى علیھما أمیر المدینة فسوه

شعبی سے روایت ہے کہ ان دو پر امیر مدینہ سعید بن العاص نے نماز پڑهائی

ـہ7255الشوكاني، محمد بن علي بن محمد )متوفاي ) نیل األوطار من أحادیث سید ،

7711 –، ناشر: دار الجیل، بیروت 770، ص 4ج ،األخیار شرح منتقى األخبار .

قابل غور بات یہ ہے کہ ان روایت شعبی سے نقل ہے کہ ان دونوں پر امیر مدینہ

سعید بن العاص نے نماز پڑهائی جبکہ جبکہ پہلے گزر کیا ہے کہ شعبی کہتا ہے کہ

ان دونوں پر عبد هللا بن عمر نے نماز پڑهائی یعنی دونوں قول ایک ہی شخص شعبی

سے نقل ہے ۔

ا ہےنسائى نے المجتبى میں لکھ :

ووضعت جنازة أم كلثوم بنت علي امرأة عمر بن الخطهاب وبن لھا یقال له زید وضعا

مام یومئذ سعید بن العاص وفي الناس بن عمر وأبو هریرة وأبو سعید وأبو جمیعا واإل

مام قتادة فوضع الغال ا یلي اإل م ممه .

جنازہ ام*كلثوم بنت علي ]ع[زوجہ عمر بن خطاب اور انکے فرزند زید کا جنازہ

زمین پر رکھا گیا اور امام جماعت اس دن سعید بن العاص تھا اور انکے پیچھے عبد

هللا بن عمر ، ابوہریرہ ،ابو سعید ، ابو قتادہ تھے جوان کا جنازہ امام کی جانب تھا ۔

، تحقیق: 17، ص 4، ج المجتبى من السنن النسائي، أحمد بن شعیب أبو عبد الرحمن،

- 7403حلب، الطبعة: الثانیة، -عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات اإلسالمیة

7783.

مین لکھا ہے المدونة الكبرىاور مالك بن أنس، نے :

علي بن أبي طالب من فاطمة عن نافع عن بن عمر قال وضعت جنازة أم كلثوم بنت

بنت رسول هللا صلى هللا علیه وسلم وهي امرأة عمر بن الخطاب وبن لھا یقال له زید

فصفا جمیعا واإلمام یومئذ سعید بن العاص فوضع الغالم مما یلي اإلمام وفي الناس بن

.عباس وأبو هریرة وأبو سعید وأبو قتادة فقالوا هي السنة

علي ]ع[زوجہ عمر بن خطاب اور انکے فرزند زید کا جنازہ جنازہ ام*كلثوم بنت

زمین پر رکھا گیا اور امام جماعت اس دن سعید بن العاص تھا اورلوگوں میں عبد هللا

بن عباس ، ابوہریرہ ،ابو سعید ، ابو قتادہ تھے جوان کا جنازہ امام کی جانب تھا اور

کہا یہ سنت ہے

ـہ717)متوفاي ماالك بن أنس أبو عبدهللا األصبحي ) ، 782، ص 7، ج المدونة الكبرى ،

بیروت –ناشر: دار صادر .

. عبد الرازق صنعانى نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے

ـہ277الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام )متوفاي ) ، 435، ص 1، ج المصنف ،

الثانیة، بیروت، الطبعة: -تحقیق حبیب الرحمن األعظمي، ناشر: المكتب اإلسالمي

ـہ7401 .

: ابن ملقن انصارى، نے روایت نماز سعید بن العاص کو صحیح قرار دیا ہے

أثر سعید بن العاص أنه صلى على زید بن عمر بن الخطاب وأمه أم كلثوم بنت 980

علي فوضع الغالم بین یدیه والمرأة خلفه وفي القوم نحو من ثمانین نفسا من أصحاب

یه وسلم فصوبوہ وقالوا هو السنة رواہ البیھقي وبنحوہ أبو داود النبي صلى هللا تعالى عل

.والنسائي بإسناد صحیح

وہ روایت کہ جو کہتی ہے کہ سعید بن عاص نے زید اور انکی ماں ام کلثوم بنت

80علی]ع[ پر نماز پڑهائی زید کا جنازہ ام کلثوم سے پہلے رکھا اور صحابہ میں

فعل] جنازہ کی ترتیب [ کی تائید کی اور کہا یہ سے زائد لوگ حاضر ہوئے اور اس

سنت ہے اسے بیہقی نے اور اسی سے ملتا مطلب ابو داود اور نسائی نےاسناد

صحیح کےساتھ نقل کیا ہے ۔

ـہ804األنصاري، عمر بن علي بن الملقن )متوفاي ) خالصة البدر المنیر في تخریج ،

: حمدي عبد المجید إسماعیل ، تحقیق718، ص 7، ج كتاب الشرح الكبیر للرافعي

ـہ7470الریاض، الطبعة: األولى، -السلفي، ناشر: مكتبة الرشد .

:!أبو قتادہ بدري کا صف نماز جماعت میں حاضر ہونا .10

وفات ام*كلثوم، کے نقل میں پائے جانے والے تناقضات میں سے تناقض ابو قتادہ

بدری کا جنازہ میں حاضر ہونا ہے جبکہ وہ کافی سال پہلے اس دنیا سے جا چکے

، میں اس معمہ کی طرف اشارہ کیا معرفة السنن واآلثارتھے ۔ابوبكر بیھقى نے كتاب

:ہے

یج وأسامة بن زید عن نافع مولى ابن عمر في وروینا في كتاب الجنائز عن ابن جر

اجتماع الجنائز أن جنازة أم كلثوم بنت علي إمرأة عمر بن الخطاب وابنھا زید بن عمر

وضعتا جمیعا واإلمام یومئذ سعید بن العاص وفي الناس یومئذ ابن عباس وأبو هریرة

لوا: هي السنةوأبو سعید وأبو قتادة فوضع الغالم مما یلي اإلمام ثم سئلوا فقا .

وقد ذكرنا أن إمارة سعید بن العاص إنما كانت من سنة ثمان وأربعین إلى سنة أربع

وخمسین وفي هذا الحدیث الصحیح شھادة نافع بشھود أبي قتادة هذہ الجنازة التي صلى

.علیھا سعید بن العاص في إمارته على المدینة

ومن تابعه في موت أبي قتادة في روایة موسى بن عبد هللا وفي كل ذلك داللة على خطأ

خالفة علي. ویشبه أن تكون روایة غلط من قتادة بن النعمان أو غیرہ ممن تقدم موته إلى

.أبي قتادة

فقتادة بن النعمان قدیم الموت وهو الذي شھد بدرا منھما. إال أن الواقدي ذكر أنه مات في

قتادة صلى علیه عليخالفة عمر وصلى علیه عمر وذكر هذا الراوي أن أبا والجمع .

.بینھما متعذر

كتاب جنائز، میں ایک روایت نافع غالم عمر سے گزری کہ جب چند جنازہ جمع

ہوجائے اس میں بیان ہوا کہ ام کلثوم اور زید کا جنازہ ایک ساتھ رکھا گیا اور امام

سعید بن عاص تھا اور لوگوں میں موجود ابن عباس ابو ہریرہ ابو سعدی اور ابوقتادہ

س رکھا گیا اور سوال کیا گیا تو صحابہ نے کہا تھے اور جوان کا جنازہ امام کے پا

یہ سنت ہے

ہجری تک 54ہجری سے 47اور ہم نے یہ کہا کہ سعید بن عاص کی امارت سال

تھی اور اس روایت صحیح میں آیا ہے کہ ابوقتادہ سعید بن عاص کےنماز پڑهاتے

ے کہ ہوئے حاضر تھے ۔اور اس روایت میں بیان ہے وہ روایت خطا ہے جس میں ہ

کی خالفت میں ہوئی اور احتمال روایت صحیح ہے [ع]ابوقتادہ کی موت امام علی

کہ وہ قتادہ بن نعمان یا کوئی اور ہو جس ابوقتادہ سے پہلے مرا ہو۔

اس لئے کہ قتادة بن نعمان ان سے پہلے مر چکے تھے اور وہ جنگ بدر میں

. شریک ہوئے تھے

ں کہ ابوقتادہ خالفت عمر میں فوت ہوئے اور لیکن مشكل یہاں ہے کہ واقدی کہتے ہی

عمر نے ان پر نماز پڑهائی اور یہ راوی کہتا ہے علی]ع[ نے اس پر نماز پڑهائی

ان دو اقوال کو جمع کرنا ممکن نہیں ہے ۔

ـہ458البیھقي، أحمد بن الحسین بن علي بن موسى أبو بكر )متوفاي ) معرفة السنن ،

، تحقیق: سید 557، ص 7، ج محمد بن أدریس الشافعيواآلثار عن االمام أبي عبد هللا

بیروت -كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمیة .

میں فوت [یعنی روایات اهل سنت کے مطابق ، ابوقتادة زمانہ امیرالمؤمنین علی ]ع

کر گئے اور ان پر امام علی]ع[ نے نماز پڑهائی اور اس روایت میں ابوقتادہ جنازہ

حاضر تھے اور بیہقی کہتا ہے کہ امام علی]ع[ کی قتادہ پر نماز پڑهانا ام کلثوم میں

اشتباہ ہے جبکہ ہم کہیں کہ قرائن کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ام کلثوم اور زید پر

نماز پڑهنا اشتباہ ہے اور ذهن کا ایجاد کردہ ہے ۔

(عمر کی شادی ام كلثوم سے یا حضرت زینب سے

ف اور تناقض اس حد تک پہن گئے کہ انھیں بھی خبر روایات اهل سنت میں اختال

نہیں ہے کہ عمر کی شادی امام علی علیہ السالم کی کس بیٹی سے ہوئی عبد الحی

: !!! کنانی کا یہ نظریہ ہے کہ عمر کی شادی زینب سالم هللا علیھا ہوئی

عظم صداق ذكر الشیخ المختار الكنتي في االجوبة المھمة نقال عن الحافظ الدمیري ا

بلغنا خبرہ صداق عمر لما تزوج زینب بنت علي فانه أصدقھا اربعین الف دینار فقیل له

في ذلك فقال وهللا ما في رغبة إلى النساء والكني سمعت رسول هللا صلى هللا علیه وسلم

یقول كل سبب ونسب ینقطع یوم القیامة اال سببي ونسبي فأردت تاكید النسب بیني وبینه

علیه وسلم فأردت أن أتزوج ابنته كما تزوج ابنتي وأعطیت هذا المال العریض صلى هللا

اكراما لمصاهرتي ایاہ صلى هللا علیه وسلم ہ منھا هذا مع كون عمر نھى عن المغاالت

.في المھر

مختار كنتى نے دمیرى سے نقل کیا ہے کہ : سب سے گراں بہا مہر جو میں آج تک

بنت علی]ع[ کے ساتھ شادی کا مہر ہے اس کی مقدار سنا ہے وہ ہے عمر کا زینب

ہزاردینار تھی جب ان سے اس گراں مہر کا سوال کیا گیا تو کہا مجھے عورتوں 40

کی ضرورت نہیں ہے لیکن میں نے رسول]ص[ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن تمام

نسب اور سبب ختم ہوجائیں گے سوائے میرے تو میں نے ارادہ کیا کہ اس سبب کو

پختہ کروں اسی لئے انکی بیٹی سے شادی کی جس طرح انھوں نے میری بیٹی سے

شادی کی تھی اور یہ مہر گراں بہا انکی دامادی کے عوض ہے ۔

ـہ7182الكتاني، الشیخ عبد الحي )متوفاي ) نظام الحكومة النبویة المسمى التراتیب ،

بیروت –، ناشر: دار الكتاب العربي 405، ص 2، ج اإلدرایة .

امام جماعت کس نے مقدم كیا؟ .12

اهل سنت اس افسانہ کو زیادہ چٹ پٹا کرنے کی خاطر ادعا کر گئے کہ جنازہ میں

امام حسن اور حسین علیہم السالم موجود تھے اور چونکہ سعید بن عاص یا ابن عمر

کا جنازہ پڑهانا جبکہ امام حسن اور حسین فرزندان رسول اکرم ]ص[اور بھائی کے

ہوئے سزاوار تر تھے ان لوگوں کی توجیہ کی کہ ان لوگوں نے خود ابن عمر ہوتے

!!!یا سعید بن عاص کو مقدم کیا اور خود انکے پیچھے نماز پڑهی

لیکن کس امام نے یہ کام کیا روایت انکی مختلف ہے بعض میں ہے امام حسن علیہ

ےالسالم نے اور بعض میں ہے کہ امام حسین بن علیعلیھم السالم ن

:امام حسن علیه السالم.

: ابن عبد البر نے اإلستیعاب میں لکھا ہے

وتوفیت أم كلثوم وابنھا زید في وقت واحد وقد كان زید أصیب في حرب كانت بین بني

عدي لیال كان قد خرج لیصلح بینھم فضربه رجل منھم في الظلمة فشجه وصرعه فعاش

قدمه الحسن بن علي ھما ابن عمرأیاما ثم مات وهو وأمه في وقت واحد وصلى علی .

۔۔۔۔ دونوں مر گئے ایک وقت میں ان پر ابن عمر نے نماز پڑهائی ابن عمر کو امام

حسن ]ع[کے آگے کیا

ـہ 431القرطبي، یوسف بن عبد هللا بن محمد بن عبد البر )متوفاي ) االستیعاب في ،

-ناشر: دار الجیل ، تحقیق: علي محمد البجاوي، 7753، ص 4، ج معرفة األصحاب

ـہ7472بیروت، الطبعة: األولى، .

: محب الدین طبرى لکھتا ہے

وحكى الدوالبي وغیرہ القولین في موتھا عندہ أوموته عندها قال أبو عمر ماتت أم كلثوم

وابنھا زید في وقت واحد وكان زید قد أصیب في حرب بین بني عدي لیال فخرج لیصلح

لظلمة فشجه وصرعه فعاش أیاما ثم مات هو وأمه في بینھم فضربه رجل منھم في ا

قدمه الحسن بن علیفكانت فیھما سنتان فیما ذكروا لم وقت واحد وصلى علیھما ابن عمر

.یورث أحدهما من اآلخر

دوالبى اور دیگران نے ام کلثوم کازید کے پاس مرنا یا زید کا ام کلثوم کے پاس مرنا

دو روایت نقل کی ہے !۔۔۔۔۔ ابن عمر نے ان دونوں پر نماز پڑهائی اسے حسن بن

ع[نےآگے کیا ۔]علی

ـہ374الطبري، محب الدین أحمد بن عبد هللا )متوفاي ) ذخائر العقبى في مناقب ذوي ،

مصر –، ناشر: دار الكتب المصریة 71، ص 7، ج القربى .

:اور عاصمى مكى لکھتے ہیں

وكان موتھا هي وولدها من عمر المسمى زیدا األكبر المقتول خطأ بید خالد بن اسلم

مولى زوجھا عمر رضي هللا عنه في وقت واحد وصلى علیھما ابن عمرقدمه الحسن بن

.علي

اسم عمر کے غالم کے ہاتھوں غلطی سے قتل ہوا ام*كلثوم انکا بیٹا زید اکبر خالد بن

ابن عمر نے ان دو پر نماز پڑهائی اور ابن عمر کو امام حسن ]ع[نے آگے جانے کو

! کہا

ـہ7777العاصمي المكي، عبد الملك بن حسین بن عبد الملك الشافعي )متوفاي ) سمط ،

عادل أحمد عبد ، تحقیق:514، ص 7ج ،النجوم العوالي في أنباء األوائل والتوالي

علي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمیة -الموجود .

:امام حسین علیه السالم

اور دوسری روایت میں صراحت سے ہے کہ امام حسین علیہ السالم نے ابن عمر

کو آگے کیا اور امام حسن ]ع[کا کوئی نام نہیں اس مسئلہ میں

:محمد بن یوسف العبدرى لکھتےہیں

على جنازة أخته أم كلثوم وابنھا زید بن عمر الحسین عبد هللا بن عمر للصالةوقد قدم

قال ابن رشد: وهذا ال حجة فیه إذ یحتمل أنه قدمه لسنه وإلقرارہ بفضله ال ألنه أحق

، نے عبد هللا بن عمر کو نماز کے لئے آگے کیا اپنی بہن پر نماز اور زید [حسین]ع

حسین]ع[ کا فعل حجت نہیں ہے اس لئے کہ شاید بن عمر پر نماز کے لئے اور یہ

اسے اس کی سن کی وجہ سے یا اس اقرار سے کہ وہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے نہ

!اس وجہ سے کہ وہ زیادہ حقدار ہے

ـہ871العبدري، أبو عبد هللا محمد بن یوسف بن أبي القاسم )متوفاي ) التاج واإلكلیل ،

م7178بیروت، الطبعة: الثانیة، -الفكر ، ناشر: دار252، ص 2، ج لمختصر خلیل .

اور بعض روایت میں تو امام حسن ]ع[کا نام تک نہیں ہے کہ وہ جنازہ میں حاضر

!!ہوئے ہوں فقط حسین بن علی]ع[ کا نام آیا ہے

:محمد ضیاء األعظمى لکھتے ہیں

رجل الشعبي قال: صلى ابن عمر على زید بن عمر وأمه أم كلثوم بنت علي، فجعل ال

مما یلي اإلمام والمرأة من خلفه، فصلهى علیھما فكبر أربعا وخلفه ابن الحنفیة، والحسین

.بن علي، وابن عباس

شعبى کہتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن عمر نے نماز پڑهائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ انکے پیچھے محمد حنفیه

و حسین بن علي]ع[ و ابن عباس تھے

ـہ458)متوفاياألعظمي، محمد ضیاء الرحمن ) المنة الكبرى شرح وتخریج السنن ،

السعودیة/ الریاض، الطبعة: األولى، -، ناشر: مكتبة الرشد 52، ص 1، ج الصغرى

م2007 - ـہ7422 .

روایت بیھقى سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن علیہ السالم جنازہ میں شریک

: نہیں تھے

هللا بن جعفر ثنا یعقوب بن سفیان ثنا أبو نعیم ثنا أخبرنا أبو الحسین بن الفضل أنبأ عبد

رزین بیاع الرمان عن الشعبي قال صلى بن عمر على زید بن عمر وأمه أم كلثوم بنت

علي فجعل الرجل مما یلي اإلمام والمرأة من خلفه فصلى علیھما أربعا وخلفه بن الحنفیة

والحسین بن علي وبن عباس رضي هللا عنھما

ـہ458أحمد بن الحسین بن علي بن موسى أبو بكر )متوفاي البیھقي، ) سنن البیھقي ،

مكة المكرمة، تحقیق: -، ناشر: مكتبة دار الباز 3141،* ح18، ص 4، ج الكبرى

7774 - 7474محمد عبد القادر عطا، .

! لوگوں نے امام جماعت کو مقدم کیا

میں لکھا ہے تاریخ األوسطاور بخارى نے :

حدثنا محمد بن الصباح ثنا إسماعیل بن زكریا عن رزین البزاز حدثني الشعبي 419

قال توفى زید بن عمر وأم كلثوم فقدموا عبد هللا بن عمر وخلفه الحسن والحسین ومحمد

.بن الحنفیة وعبد هللا بن جعفر

شعبى نے روایت کی ہے کہ زید بن عمر اور ام کلثوم فوت کر گئے تو لوگوں نے

بن عمر کو امامت جماعت کے لئے آگے بڑایا اور انکے پیچھے امام عبد هللا

حسن]ع[ و امام حسین ]ع[،محمد حنفیہ اور عبد هللا بن جعفر تھے ۔

کی توہین [صلی هللا علیہ و آلہ]ناموس رسول هللا :چوتھا زاویہ

اهل سنت نے عمر اور ام کلثوم کی شادی کو ثابت کرنے کے سلسلے میں متعدد

جعلی روایات کو گھڑا ہے کہ جس کےپڑهنے اور سننے سے ہر مسلمان شرم ایسی

.سے پانی پانی ہوجاتا ہے

ہم اہل سنت سے سوال کرینگے کہ اچھے تعلق کو ثابت کرنا کس قیمت پر ؟ کیا اتنی

اہمیت رکھتا ہے کہ اس طرح کی جعلی اور گندی اور فحش روایات کو ذکر کیا

جائے ؟

ل سنت نے اس طرح کی روایات کو ذکر کرکے خود رسول اکرم ان نام نہاد علماء اہ

صلی هللا علیہ و آلہ ، علی مرتضی علیہ السالم کی توہین کی ہے اور خلیفہ کی بھی

عزت کو مٹی میں مال دیا ہے ۔

ام کلثوم اور عمر کی شادی کے کچھ نتائج نکلتے ہیں جس میں سے چھوٹا ترین

هللا علیہ و آلہ سے عمر کی خیانت ہے ۔ایک نتیجہ، ناموس رسول اکرم صلی

کیا یہ لوگ اس نتیجہ کو قبول کرتے ہیں ؟

:عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر نگاہ کی

ابن حجر عسقالنى کہ جو اہل سنت کے علمی شخصیت میں سے ہیں اور حافظ علی

میں اور دیگر بزرگ االصابة و تلخیص الحبیر االطالق مانے جاتے ہیں وہ كتاب

: علماء اہل سنت نے اس توہین آمیز جمالت کو نقل کیا ہے

د بن علي بن الحنفیهة أنه عمر خطب إلى علي ابنته أمه كلثوم فذكر له صغرها عن محمه

ل بھا إلیه فكشف عن ساقھا فقالت لوال فقال أبعث بھا إلیك فإن رضیت فھي امرأتك فأرس

أنهك أمیر المؤمنین لصككت عینك وهذا یشكل على من قال إنهه ال ینظر غیر الوجه

.والكفهین

محمد بن علي سے روایت ہے کہ عمر نے ام *كلثوم کی علي )علیه السالم( سے

۔، علی ]ع[ نے عمر کو یاد دالیا کہ وہ بہت چھوٹی ہےپھر علی ]ع[ خواستگارى کی

نے کہا میں ام کلثوم کو تمہارے پاس بھیجوں گا اگر پسند آئے تو وہ تمہاری بیوی

ہے پس انھوں نے بھیجا تو عمر نے ام کلثوم کی پنڈلی برہنہ کی تو ام کلثوم نے کہا

ها کردیتی ! ۔۔۔ ۔اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو تیری آنکھوں کو اند

ـہ277الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام )متوفاي ) ، 731، ص 3، ج المصنف ،

بیروت، الطبعة: -، تحقیق حبیب الرحمن األعظمي، ناشر: المكتب اإلسالمي 70152ح

؛ـہ7401الثانیة،

ـہ221الخراساني، سعید بن منصور )متوفاي ) ، ص 7، ج سنن سعید بن منصور ،

الھند، الطبعة: -، تحقیق: حبیب الرحمن األعظمي، ناشر: الدار السلفیة 7077ح، 711

م7782 ـ ـہ7401األولى، .

ـہ 431القرطبي، یوسف بن عبد هللا بن محمد بن عبد البر )متوفاي ) االستیعاب في ،

-، تحقیق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجیل 7755، ص 4، ج معرفة األصحاب

ـہ7472: األولى، بیروت، الطبعة .

ـہ344االنصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري )متوفاي الجوهرة في (

؛230، ص 7، ج نسب النبي وأصحابه العشرة

ـہ382ابن قدامة المقدسي، بد الرحمن بن محمد )متوفاي ) ، ص 1ج الشرح الكبیر، ،

؛141

ـہ852الفضل )متوفايالعسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو تلخیص الحبیر (

، تحقیق السید عبدهللا هاشم الیماني المدني، 741، ص 1، ج في أحادیث الرافعي الكبیر

م؛7734 – ـہ7184 –المدینة المنورة -ناشر:

، تحقیق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار 271، ص 8ج ،اإلصابة في تمییز الصحابة

؛7772 - 7472، بیروت، الطبعة: األولى -الجیل

ـہ777السیوطي، جالل الدین عبد الرحمن بن أبي بكر )متوفاي ) جامع االحادیث ،

()الجامع الصغیر وزوائدہ والجامع الكبیر ؛235، ص 74، ج

ـہ7255الشوكاني، محمد بن علي بن محمد )متوفاي ) نیل األوطار من أحادیث سید ،

7711 –دار الجیل، بیروت ، ناشر:240، ص 3، ج األخیار شرح منتقى األخبار .

!عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر ہاتھ پھیرا

سیر أعالم النبالء میں اور دیگر بزرگان اور اهل سنت کی علمى شخصیت ذهبی نے

:اهل سنت، نے اس توہین کو دوسری طرح نقل کیا ہے

زوجنیھا أبا حسن، فإني أرصد من كرامتھا ماال یرصد أحد، قال: فأنا :قال عمر لعلي

جتكھا، یعتل بصغرها، قال: فبعثھا إلیه ببرد، وقال لھا: أبعثھا إلیك، فإن رضیتھا، فقد زوه

قولي له: قد رضیت رضي هللا :قولي له: هذا البرد الذي قلت لك، فقالت له ذلك. فقال

ھا، فكشفھا، فقالت: أتفعل هذا؟ لوال أنك أمیر المؤمنین، عنك، ووضع یدہ على ساق

.!لكسرت أنفك، ثم مضت إلى أبیھا، فأخبرته وقالت: بعثتني إلى شیخ سوء

علیه السالم ( سے کہا: ام كلثوم کی مجھ سے شادی کردو اور اس )عمر نے علي

کے ذریعے سے ایسی فضیلت تک پہن جاوں جس تک کوئی نہیں پہنچا علی ]ع[

نے جواب دیا میں اسے تمہارے پاس بھیجوں گا اگر تمہیں پسند آئے]یا اسے راضی

کردیا[ تو اسکی تم سے شادی کر دونگا اگر چہ علی]ع[ انکی صغر سنی کو راضی

نہ ہونے کا سبب بیان کر رہے تھے پھر اسے ایک چادر کے ہمراہ بھیجا اس سے

جس کا میں نے تم سے کہا تھا ۔ کہا کہ عمر کو میری طرف سے کہنا یہ وہ کپڑا ہے

ام کلثوم نے بھی علی]ع[ کے کالم کو دهرایا ۔ عمر ے کہا : اپنے والد کو میری

مجھ پسند آیا هللا تم سے راضی ہو پھر عمر نے ام کلثوم کی ساق : طرف سے کہنا

ہ پر ہاتھ رکھا اور اسے برہنہ کیا ام کلثوم نے کہا یہ کیا کر رہا ہے ؟ اگر تم خلیفہ ن

ہوتے تو تمہاری ناک توڑ دیتی پھر اپنے والد کے پاس لوٹ گئی اور انھیں سب بتا

دیا اور ام کلثوم نے کہا آپ نے مجھے ایک بد]کردار[ بڈهے کے پاس بھیجا تھا ۔

ـہ213الزبیري، أبو عبد هللا المصعب بن عبد هللا بن المصعب )متوفاي ) ، نسب قریش ،

تحقیق: لیفي بروفسال، القاهرة؛، ناشر: دار المعارف 147، ص 70ج

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة هللا بن عبد

ـہ517هللا،)متوفاي ) ، ج تاریخ مدینة دمشق وذكر فضلھا وتسمیة من حلھا من األماثل ،

، تحقیق: محب الدین أبي سعید عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر 481، ص 77

؛7775 –روت بی -

ـہ 571ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد )متوفاي ) المنتظم في ،

بیروت، الطبعة: األولى، -، ناشر: دار صادر 211، ص 4، ج تاریخ الملوك واألمم

؛7158

ـہ308ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي )متوفاي ) ، ج التذكرة الحمدونیة ،

بیروت،، الطبعة: -یق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر ، تحق107، ص 7

م؛7773األولى،

ـہ310الجزري، عز الدین بن األثیر أبي الحسن علي بن محمد )متوفاي ) أسد الغابة في ،

، تحقیق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحیاء التراث 425، ص 1، ج معرفة الصحابة

م؛ 7773 - ـہ 7471ة: األولى، بیروت / لبنان، الطبع -العربي

ـہ148الذهبي، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، )متوفاي ) تاریخ اإلسالم ووفیات ،

، تحقیق د. عمر عبد السالم تدمرى، ناشر: دار 718، ص 4، ج المشاهیر واألعالم

م؛7781 - ـہ7401لبنان/ بیروت، الطبعة: األولى، -الكتاب العربي

، تحقیق: شعیب األرناؤوط، محمد نعیم العرقسوسي، 507، ص 1، ج النبالءسیر أعالم

؛ـہ7471بیروت، الطبعة: التاسعة، -ناشر: مؤسسة الرسالة

ـہ134الصفدي، صالح الدین خلیل بن أیبك )متوفاي ) ، ص 24، ج الوافي بالوفیات ،

-یروت ب -، تحقیق أحمد األرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحیاء التراث 212

م؛2000 -ـہ7420

ـہ855العیني، بدر الدین محمود بن أحمد )متوفاي ) عمدة القاري شرح صحیح ،

بیروت؛ –، ناشر: دار إحیاء التراث العربي 738، ص 74، ج البخاري

ـہ 874الصفوري، عبد الرحمن بن عبد السالم بن عبد الرحمن بن عثمان )متوفاي ) ،

، تحقیق: عبد الرحیم ماردیني، ناشر: 418، ص 2، ج نزهة المجالس ومنتخب النفائس

م2002/ 2007 -دمشق -بیروت -دار آیة -دار المحبة .

ام کلثوم ,سنوار کر عمر کےپاس بھیجا گیا، اور عمر نے ساق کو پکڑا اور چوما

!کو سجا

: تاریخ بغداد میں مزید قبیح الفاظ میں نقل کیا ہے اسی طرح خطیب بغدادى نے كتاب

على فأمر بابنته من فاطمة فزینت ثم بعث بھا إلى أمیر المؤمنین عمر فلما رآها قام فقام

إلیھا فأخذ بساقھا وقال قولي ألبیك قد رضیت قد رضیت قد رضیت فلما جاءت الجاریة

إلى أبیھا قال لھا ما قال لك أمیر المؤمنین قالت دعاني وقبلني فلما قمت اخذ بساقي وقال

ت فأنكحھا إیاہقولي ألبیك قد رضی .

علي )علیه السالم( نے اپنی بیٹی کو زینت اور سجنے کا کہا اور عمر کے پاس بھیجا

، جب عمر نے اسے دیکھا تو اس کی طرف آئے اور اس کی ساق کو پکڑا اور کہا

اہنے والد سے کہنا میں راضی ہو گیا ام کلثوم اپنے والد کے پاس آئی انکے والد نے

یا کہا ؟ ام کلثوم نے کہا اس نے مجھے اپنے پاس بالیا اور سوال کیا :عمر نے ک

میرے بوسہ لئے! اور جب میں وہاں سے آنے لگی تو میری ساق پکڑ لی ! اور پھر

کہا میری طرف سے اپنے والد کو کہو میں راضی ہو گیا ہوں۔۔۔ ۔

ـہ431البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطیب )متوفاي ) ، ص 3، ج تاریخ بغداد ،

بیروت –، ناشر: دار الكتب العلمیة 782 .

:عمر کا ساق کو برہنہ کرنا ، انکی پیروی کرنے والوں کے لئے منبع تشریع بن گیا

چونکہ خلفاء ثالثہ خود کو جانشین مطلق رسول خدا صلى هللا علیه وآله جانتے تھے

مرتبہ کے اسی لئے اپنے لئے رسول اکرم صلى هللا علیه وآله کے تمام اختیارات اور

بھی قائل تھے جس میں سے ایک اپنے آپ کو منبع شرعیت اور تشریع ماننا ہے

،اسی سبب سے متعدد بدعتیں اور کج روی ان سے سرزد ہوئیں ہیں کہ جو کتب اہل

سنت میں نقل ہوئی یہ خود بہترین دلیل اس مطلب کے اثبات میں ہے ۔

نے نماز و رکعت کی تعداد اور خلفاء نےدیکھا تھا رسول خدا صلى هللا علیه وآله

کیفیت ، زکات کی مقدار ۔۔۔۔معین فرمایا تھا اسی لئے خیال کرنے لئے کہ وہ بھی

حى علي »مجاز ہیں کہ شریعت کے احکامات میں رد وبدل کر سکتے ہیں ۔حذف

کا اذان میں اضافہ اور نماز ، حج «الصالة خیر من النوم»اذان سے اور «خیر العمل

سالہ حکومت کے کارنامہ ہیں ۔ 25۔۔۔ میں متعدد تبدیلیاں انکی ، زکات اور

جس چیز کا انھوں نے کا پرچار انکے پیروان بھی خلفا کو اسی نگاہ سے دیکھتے

ہیں اور سنت شیخین کو کتاب خدا اور سنت رسول اکرمصلى هللا علیه وآله کی طرح

ئے الزم اور ضروری معتبر جانتے ہیں اور اس کی پاسداری کو تمام لوگوں کے ل

قرار دیتے ہیں ۔

وہ افعال جس کی نسبت ان لوگوں نے عمر کی طرف دی ہے اور انکے پیروکار

افراد نے اسی اعمال کو منبع شرعیت قرار دیا ہے اور خود اسی عمل قبیح یا اس

سے بدتر کے مرتکب ہوئے ہیں انھی افعال میں سے ایک کشف ساق ہے ۔

ق عبد هللا، خلیفه دوم کے بیٹے ان افراد میں سے جو روایات اهل سنت، کے مطاب

اپنے والد کی پیروی کرتے ہوئے نا محرم لڑکیوں اور کنیزوں کی ساق کو برہنہ

کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں

: عبد الرزاق صنعانى، نے كتاب معتبر المصنف میں لکھا ہے

معمر عن أیوب عن عبد الرزاق عن عبد هللا بن عمر عن نافع عن بن عمر و 13200

نافع عن بن عمر كان إذا اراد أن یشتري جاریة فراضاهم على ثمن وضع یدہ على

.عجزها وینظر إلى ساقیھا وقبلھا یعني بطنھا

ابن عمر سے روایت ہوئی ہے کہ جب بھی کسی کنیز کو خریدنے کا ارادہ کرو اور

اسکی ساق اور قیمت کنیز معلوم ہوجائے تو اس کے کولہوں پر ہاتھ رکھو اور

پنڈلیوں کو دیکھے اور اسی طرح اس کی فرج] شرمگاہ[پر نگاہ کرو اور یہاں

!!! فرج]شرمگاہ[ سے مراد اس کا پیٹ ہے

قبل زبان عربى میں مشخص اور معین ہے لیکن کیوں یہاں اس کا معنی پیٹ کیا گیا

پیروی ہے تو الزم ہے کہ ابن عمر کی بال تامل تعصب اور جانبداری کے ساتھ

کرنےوالوں کی سرش میں تالش کیا جائے ۔

: اور دوسری روایت میں ہے

عبد الرزاق عن معمر عن عمرو بن دینار عن مجاهد قال مر بن عمر على 13202

قوم یبتاعون جاریة فلما رأوہ وهم یقلبونھا أمسكوا عن ذلك فجاءهم بن عمر فكشف عن

وأخبرني بن أبي نجیح عن مجاهد قال ساقھا ثم دفع في صدرها وقال اشتروا قال معمر

.وضع بن عمر یدہ بین ثدییھا ثم هزها

ابن عمر، کا ایسے افراد کے قریب سے گزر ہوا جو کنیز کی خرید اور فروخت میں

مشغول تھے جب لوگوں نے ابن عمر کو دیکھا تو کنیز کی جان پڑتال سے روک

اں برہنہ کی پھر اسکے گئے تب ابن عمر انکے پاس آئے اور اس کنیز کی پنڈلی

سینے پر ہاتھ مارا اور کہا اسے خرید لو اسی طرح دوسری روایت میں ہے کہ ابن

!! عمر نے کنیز کے دو پستان کے درمیان ہاتھ رکھ کر ہالیا

: اور اس کے آگے لکھتے ہیں

عبد الرزاق عن بن جریج عن نافع أن بن عمر كان یكشف عن ظھرها وبطنھا 13205

یدہ على عجزها وساقھا ویضع .

ابن عمر کنیز کی کمر اور شکم کو اسی طرح اس کی ساق کو برہنہ کرتے اور اس

!! کے کولہوں پر ہاتھ رکھتے تھے

ـہ277الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام )متوفاي ) ، 283، ص 1، ج المصنف ،

الثانیة، بیروت، الطبعة: -تحقیق حبیب الرحمن األعظمي، ناشر: المكتب اإلسالمي

ـہ7401 .

جب ان علماء نے اس فعل کی نسبت خلیفہ کی طرف دیدی تو یہ فعل انکے پیروان

کے نزدیک ایک سنت اور قابل احترام فعل بن گیا کہ جس پر عمل کرنا الزمی ہو

بسر بن ارطاہ جو تاریخ کا سفاک انسان شمار ہوتا ہے اس نے معاویہ کے حکم سے

کے ساتھ دهرایا ۔ یہی قبیح فعل مسلمان عورتوں

: ابن عبد البر نے كتاب اإلستیعاب میں لکھا ہے

عن أبي ارباب وصاحب له أنھما سمعا أبا ذر رضى هللا عنه یدعو و یتعوذ في صالة

صالها أطال قیامھا وركوعھا وسجودها قال فسألناہ مم تعوذت وفیم دعوت فقال تعوذت

اك قال أما یوم البالء فتلتقي فتیان من فقلنا وما ذ ویوم العورة باہلل من یوم البالء

.المسلمین فیقتل بعضھم بعضا

فأیتھن كانمت أعظم فیكشف عن سوقھن وأما یوم العورة فإن نساء من المسلمات لیسبین

ساقا اشتریت على عظم ساقھا فدعوت هللا أال یدركني هذا الزمان ولعلكما تدركانه قال

طاة إلى الیمن فسبى نساء مسلمات فأقمن في فقتل عثمان ثم ارسل معاویة بسر بن ار

.السوق

ابو ارباب اور انکے ساتھی نے روایت کی ہے کہ ہم نے ابوذر سے سنا ہے کہ وہ

اپنی طوالنی نماز میں قیام ، رکوع اور سجدہ کو طول دیتے ہوئے دعا کر رہے تھے

بات کی هللا اور هللا سے پناہ مانگ رہے تھے ۔ہم نے ابوذر سے سوال کیا کہ آپ کس

سے پناہ مانگ رہے ، اور دعا کر رہے تھے ؟ ابوذر نے جواب دیا : میں نے هللا

سے رزو بالء اور روز عورت ]ستر ، شرمگاہ [ سے پناہ مانگی ہے ہم نے سوال

کیا وہ کونسے دن ہیں ؟ کہا روز بالء وہ دن ہے جس مسلمین کے دو گروہ ایک

ہ دن ہے جب مسلم عورتوں کو اسیر روز عورت ودوسرے کو قتل کرینگے اور

بنایا جائے گا اور انکی پنڈلیوں کو برہنہ کیا جائے اور جس کی پنڈلی موٹی ہوگی

لیکن اسے خریدا جائے گا اسی لئے خدا سے دعا کی کہ هللا مجھے وہ دن نہ دکھائے

شاید تم لوگ اس وقت موجود ہوں کچھ زمانہ ہی گزرا تھا عثمان قتل ہو گئے اور

کو کنیز بنا مسلمانوں عورتوںیہ نے بسر بن ارطاہ کو یمن بھیجا اور اس نے معاو

!کر بازار میں فروخت کے لئے لیکر آگیا ۔

ـہ 431القرطبي، یوسف بن عبد هللا بن محمد بن عبد البر )متوفاي ) االستیعاب في ،

-، تحقیق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجیل 737، ص 7، ج معرفة األصحاب

ـہ7472بیروت، الطبعة: األولى، .

جب اہل سنت اس طرح کی روایت خلیفہ رسول صلى هللا علیه وآله سے نقل کرینگے

کہ جس میں حرمت ناموس رسالت صلى هللا علیه وآله کی رعایت نہیں کی گئی اور

اسی ساق کو برہنہ کرینگے تو عبد هللا بن عمر اور بسر بن ابی ارطاہ سے کیا توقع

!!!.

: سعدى کے بقول

اگر ز باغ رعیت ملك خورد سیبي

برآورند غالمان او درخت از بیخ

یعنی جب بادشاہ رعیت کے باغ سے سیب کھائے گا تو اس کے غالم اس درخت کو ]

جڑوں سمیت لے کر آجائیں گے ۔

:محمد بن اسماعیل صنعانى نے سبل السالم میں لکھا ہے

ظر إلى من یرید نكاحھا وهو قول جماهیر العلماء دلت األحادیث على أنه یندب تقدیم الن

والنظر إلى الوجه والكفین ألنه یستدل بالوجه على الجمال أو ضدہ والكفین على

.خصوبة البدن أو عدمھا

وقال األوزاعي ینظر إلى مواضع اللحم. وقال داود ینظر إلى جمیع بدنھا. والحدیث

إلیه ویدل علیه فھم الصحابة لذلك ما مطلق فینظر إلى ما یحصل له المقصود بالنظر

.رواہ عبد الرزاق وسعید بن منصور أن عمر كشف عن ساق أم كلثوم بنت علي

۔۔۔ جس عورت سے شادی کا ارادہ ہو ۔۔۔۔۔۔اوزاعى نے کہا ہے کہ عورت کے جہاں

بھی گوشت ہوتا ہے اسے دیکھا جا سکتا ہے ! اور داود نے کہا عورت کے پورے

ا سکتا ہے ! اور روایت مطلق ہونی کی وجہ سے تمام اس مقامات بدن کو دیکھا ج

کو دیکھ سکتا ہے جس کے لئے شادی کر رہا ہے! اور اسی تمام بدن کے اوپر

صحابہ کا فہم داللت کرتا ہےاور یہ اس روایت کی وجہ سے جسے عبد الرزاق اور

ڈلی کو برہنہ سعید بن منصور نے نقل کی یعنی عمر کا ام کلثوم بنت علی]ع[ کی پن

۔!کرنا

ـہ852الصنعاني األمیر، محمد بن إسماعیل )متوفاي ) سبل السالم شرح بلوغ المرام ،

، تحقیق: محمد عبد العزیز الخولي، ناشر: دار إحیاء 771، ص 1، ج من أدلة األحكام

ـہ7117بیروت، الطبعة: الرابعة، -التراث العربي .

کرتے ہیںعلماء اهل سنت عمر کےاس فعل کی توجیہ :

بعض علماء اہل سنت جانتے ہیں کہ خلیفه کا ناموس رسول خدا صلى هللا علیه وآله،

پر دست درازی کرنا قبیح اور گندا عمل ہے لھذا خلیفہ دوم عزت بچانے کے لئے

مضحکہ خیز توجیہ کرتے ہیں

: ابن حجر هیثمی نے لکھا ہے

لم تبلغ حدا تشتھى حتى یحرم وتقبیله وضمه لھا على جھة اإلكرام ألنھا لصغرها

....ذلك

ام کلثوم کو بوسہ دینا اور گلے لگانا یہ احترام کی وجہ سے تھا اس لئے کہ ام کلثوم

اس سن کی نہیں تھی کہ جو شہوت انگیزی پیدا کرے اور جس کے نتیجہ میں یہ کام

!عمر کے لئے [ حرام ہوجائے ]

ـہ711ن حجر )متوفايالھیثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي اب ) الصواعق ،

، تحقیق عبد الرحمن بن 451، ص 2، ج المحرقة على أهل الرفض والضالل والزندقة

لبنان، الطبعة: األولى، -كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة -عبد هللا التركي

م7771 - ـہ7471 .

عجیب ہے کہ ام کلثوم تو اس قبیح حرکت کو محسوس کرے اور خلیفہ کی ناک

توڑنے یا اسکی آنکھ باہر نکالنا چاہے لیکن اس حد تک ممیز نہیں ہوئی ہو کہ اس

سے دست درازی حرام نہ ہو ؟

اور اگر بوسہ لینا احترام کی خاطر تھا تو ساق کو ننگا کرنا کس واسطے تھا ؟کیا آج

کھا ہے جو کسی لڑکی کی پنڈلی ننگی کرکے اس کا احترام کرنا تک کسی کو دی

چاہتا ہو ؟

البتہ قابل غور و فکر یہ بات ہے کہ ابن حجر ہیثمی کے بقول وہ اس حد تک نہیں

پہنچی تھی کہ شہوت کا عمل دخل ہو لیکن وہی بچی بہت ہی کم عرصہ میں تین

! ! ! بچوں کی ماں بن جائے

منصف حضرات کی نظر میںان روایات کی تحقیق :

اس عمل میں اتنی قباحت ہے کہ انکے طرفدار بھی چیخ پڑے ہیں

: سبط ابن الجوزى حنفی نے لکھا ہے

ذكر جدي في كتاب منتظم ان علیا بعثھا لینظرها و ان عمر كشف ساقھا و لمسھا بیدہ،

یجوز لمس االجنبیههذا قبیح وهللا. لو كانت امة لما فعل بھا هذا. ثم باجماع المسلمین ال .

یعنی ابن جوزی [ نے کتاب منتظم میں لکھا ہے کہ علي )علیه السالم( ] میرے جد

نے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ اسے دیکھے اور عمر نے اس کی ساق

کو برہنہ کیا اور ہاتھ لگائے ، هللا کی قسم یہ بہت قبیح اور گندا فعل ہے اگر وہ کنیز

تو تب عمر کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اس کے عالوہ اجماع مسلمین ہے بھی ہوتی

کہ نا محرم کو ہاتھ لگانا حرام ہے ۔

سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدین أبوالمظفر یوسف بن فرغلي بن عبد هللا البغدادي،

ـ ـہ7407بیروت، ـ، ناشر: مؤسسة أهل البیت 287 ـ 288، صتذكرة الخواص

م7787 .

عل سے متعلق علماء شیعه کا نظریہاس ف :

:شھید قاضى نور هللا تسترى اس بارے میں لکھتے ہیں

وإني ألقسم باہلل على أن ألف ضربة على جسدہ علیه السالم وأضعافه على جسد أوالدہ

أهون علیه من أن یرسل ابنته الكریمة إلى رجل أجنبي قبل عقدها إیاہ لیریھا فیأخذها

إلیه ویقبلھا ویكشف عن ساقھا وهل یرضى بذلك من له أدنى غیرة ذلك الرجل ویضمھا

.من آحاد المسلمین

میں هللا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ امام علی علیہ السالم کے بدن پر ہزار وار اور

اس سے زیادہ آپ کی اوالد اطہار کے بدن پر وار کھانا انکے نزدیک کچھ نہیں اس

بیٹی کو عقد سے پہلے کسی نا محرم کے پاس بات کی نسبت کہ وہ اپنی پیاری

بھیجے تاکہ وہ دیکھے ، گلے لگائے ، چومے ، اور اسکی ساق برہنہ کرے کیا

کوئی مسلمان جس کے پاس تھوڑی سی بھی غیرت ہو اس فعل سے راضی ہوسکتا

ہے ؟

200ص -الشھید نور هللا التستري -الصوارم المھرقة

بارے میں لکھتے ہیںاور سید ناصر حسین الھندى اس :

ومن العجائب أن واضع هذ الخبر لقلة حیائه قد افترى أن سیاقه المنكر أن عمر بن

الخطاب معاذ هللا قد كشف ساق سیدتنا أم كلثوم )ع( وهذا كذب عظیم، وبھتان جسیم،

تقشعر منه الجلود، وتنفر عنه كل قلب ولو كان الجلمود، ولعمري إن هذا المفتري

اق في الفریة والفضیحة وبالجرأة والجسارة على مختلق السیاق السابق الذي الكذاب قد ف

أوردہ ابن عبد البر، أوال بغیر سند، فإن ذلك المختلق المدحور قد ذكر في سیاق المذكور

....وضع الید على الساق

ومن البین أن وضع الید على الساق وإن كان منكرا قبیحا جدا، ولكن هذا الخبیث الذي

: فكشف عن ساقھا، یظھر خبثه صراحة... ومما یضحك الثكلى أن وضاع هذا یقول

السیاق السائق إلى الجحیم قد نسب إلى سیدتنا أم كلثوم سالم هللا علیھا أنھا لما أحست

.بقبح عمر بن الخطاب، أقسمت باہلل وهددته بلطم عین إمامه

انتہائی عجیب بات ہےکہ اس روایت کے گھڑنے والے نے اپنی بے حیائی کی وجہ

سے ایسی جھوٹی روایت کی ہے جس کا متن نا قابل قبول ہے کہ :عمر بن خطاب

نے معاذ هللا ام کلثوم ]س[ کی ساق کو برہنہ کیا یہ ایک عظیم کذب ہے اور بہت بڑا

کھڑے ہوجاتے ہیں اور بہتان ہے کہ جس ]کے سننے [ سے جسم کے رونگٹے

سخت ترین دل بھی نفرت اور غم سے ڈوب جاتا ہے میری جان کی قسم اس کذاب

اور بہتان باندهنے والے نے بے حیائی ، تہمت لگانے اور جسارت کرنے میں اس

روایت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کو عبد البر نے بغیر سند کے ذکر کیا ہے

اتھ ساق پر رکھنے کو لکھا ہے !! ۔۔۔ اور واضح اس لئے کہ اس کذاب نے صرف ہ

ہے کہ ساق پر ہاتھ رکھنا انتہائی قبیح ہے لیکن اس خبیث نے جو کہتا ہے کہ ساق

کو برہنہ کیا ہے اپنی خباثت کو خوب ظاہر کر دیا ہے ۔۔۔

اور روتے ہوئے شخص کو بھی ہنسادینے والی بات ہے جسے اس روایت کے

النے والے کہی ہے کہ ام کلثوم ]س[ نےجب یہ محسوس جاعل اور جہنم کی طرف ب

کیا کہ عمر برا ارادہ رکھتا ہے تو قسم کھا کر دهمکی دی کہ اپنے طمانچہ سے اس

!!!کے خلیفہ کی آنکھ باہر نکال دینگی ۔

، إفحام األعداء والخصوم بتكذیب ما (الموسوي الھندي، السید ناصر حسین )معاصر

، تقدیم وتحقیق 737، ص 7، جثوم علیھا سالم الحي القیومافتروہ على سیدتنا ام*كل

طھران ـوتعلیق الدكتور محمد هادي األمیني، ناشر: مكتبة نینوى الحدیثة .

کیا ممکن اور مناسب بات ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السالم کی طرف ایسی بات

لئے کی نسبت دی جائے ؟اور کیا شادی سے پہلے ایسی شرمناک مالقات کے

بھیجے؟

ہم بھی ان روایات کے جعلی اور جھوٹ ہونے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ان اہل سنت

کے بڑے علماء مثل ذهبی ، ابن حجر سے سوال کرینگے جنھوں نے اسے بڑے شد

: ومد کے ساتھ پیش کیا ہے

ایک بچی تو اس برے فعل کی برائی کو درک کر لے لیکن مسلمانوں کے خلیفہ

سکے ؟ کیا ممکن ہے ؟ اسے درک نہ کر

خود کو کہلوانے والے کے لئے یہ (کیا خلیفہ رسول خدا )صلى هللا علیه و آله و سلم

مناسب ہے کہ اس قبیح فعل کو انجام دے اگر اسے پسند نہیں کرتے تو کیوں ناموس

رسول اکرم صلی هللا علیہ و آلہ کے لئے تجویز کرتے ہو اور نقل کرتے ہو ؟

!!! کہتی ہیں «امیر المؤمنین» ام كلثوم، عمر کو

حیرت کی بات ہے کہ اس افسانہ میں جب خلیفہ دوم پوری وقاحت کے ساتھ ام کلثوم

کی ساق کو برہنہ اور چہرے کو بوسہ دیتا ہے ، تو ام کلثوم اس گندے فعل کو سمجھ

جاتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ اسے مار کر اسے اندها کردے لیکن اسی عالم میں اسے

المومنین کا لقب بھی دیتی ہیں !!! سوچئے ؟ امیر

سید ناصر حسین الھندى نے كتاب إفحام األعداء والخصوم میں اسی کی طرف اشارہ

: کیا ہے

ومما یدل على قلة حیاء هؤالء الكذابین أنھم ینسبون إلى سیدتنا أم كلثوم ) ع ( أنھا

دة التي ولدت في بیت وصفت عمر بن الخطاب بأمیر المؤمنین وال یشعرون أن السی

النبوة وترعرعت من جرثومة الرسالة كیف تخاطب رجال وضع یداہ على ساقھا، أو

.كشف ساقاها، واستحق عندہ أن یكسر أنفه أو یلطم عینیه بھذا الخطاب الجلیل

ولعمري أن الواضع للسیاق األول أحق بالتعسیر والتندید، حیث أورد في سیاقه بعد ذكر

د، أنھا لما جاءت أباها أخبرته الخبر، وقال: بعثتني إلى شیخ سوء، التشویر والتھدی

أفیكون هذا الشیخ الذي أسوأ المجسم مستحقا للوصف بأمرة المؤمنین؟ حاشا وكال إن هذا

.الختالق واضح وهللا ال یھدي كید الخائنین

کلثوم وہ مطالب جو ان کذاب افراد کی بے حیائی پر داللت کرتے ہیں یہ ہیں کہ وہ ام

لیکن !!!ع[ کی طرف ، نسبت دیتے ہیں کہ انھوں نے عمر کو امیر المومنین کہا]

انھیں معلوم نہیں ہے کہ یہ بیت نبویصلى هللا علیه وآله میں پیدا ہوئی اور تربیت پائی

ہوئی ہیں کیسے ممکن ہے کہ ایسے شخص کو جس نے پنڈلی پر ہاتھ رکھا ہو اور

نزدیک اندهے ہونے کا یا ناک توڑے جانے کا اسے برہنہ کیا ہو اور اس کے

!!!مستحق ہو اور وہ اسطرح مودبانہ طریقہ سے مخاطب کرے

هللا کی قسم پہلی روایت گھڑنے واال زیادہ عذاب کا مستحق ہے اس لئے کہ اس نے

ام کلثوم کی گفتگو اور عمر کو دانٹنے کے بعد لکھا ہے کہ وہ اپنے والد پاس پلٹ

ماجری کو بیان کرنے کے بعد کہتی ہیں آپ نے مجھے ]کس[ پلید آنے کے بعد تمام

!بڈهے کے پاس بھیجا تھا ۔

آیا جس بڈهے نے ایسا گندہ فعل انجام دیا ہو وہ امیر المومنین کے لقب کا سزاوار ہے

؟

یقینا ایسا نہیں ہے اور یہ آشکار جھوٹ ہے اور هللا خائن افراد کے مکر کو کامیاب

ےنہیں ہونے دیتا ہ

، إفحام األعداء والخصوم بتكذیب ما (الموسوي الھندي، السید ناصر حسین )معاصر

، تقدیم وتحقیق 737، ص 7، جافتروہ على سیدتنا ام*كلثوم علیھا سالم الحي القیوم

طھران ـوتعلیق الدكتور محمد هادي األمیني، ناشر: مكتبة نینوى الحدیثة .

بے جان مغیرہ ام كلثوم، کی توہین کرے اور عمر :

اهل سنت ادعا کرتے ہیں کہ عمر نے ام کلثوم سے شادی کی تھی اگر یہ بات صحیح

تھی تو مغیرہ بن شعبہ نے عمر کے سامنے ام کلثوم کی توہین کی لیکن انکی غیرت

:نہ جاگی اور نہ ہی اپنی بیوی پر تہمت کا جواب نہیں دیا

: ابن خلكان نے وفیات األعیان میں لکھا ہے

إن أم جمیل وافقت عمر بن الخطاب رضي هللا عنه بالموسم والمغیرة هناك فقال له ثم

عمر أتعرف هذہ المرأة یا مغیرة قال نعم هذہ أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهل

.علي وهللا ما أظن أبا بكرة كذب علیك وما رأیتك إال خفت أن أرمى بحجارة من السماء

)ام جمیل ہ جس کے بارے میں تین لوگوں نے گواہی دی کہ یہ وہ عورت ہے ک

مغیرہ نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے لیکن جب چوتھے کی گواہی کی نوبت آئی تو وہ

عمر کی کوششوں سے خاموش رہا اور مغیرہ سے حد زنا ٹل گئی [یہ عمر کے

ساتھ ایام حج میں مکہ میں تھی اور مغیرہ بھی موجود تھا عمر نے مغیرہ سے سوال

!کیا اسے جانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں جانتا ہوں یہ ام کلثوم بنت علی ]ع[ہے : کیا

عمر نے کہا کیوں انجانے بنتے ہو هللا کی قسم مجھے نہیں لگتا ہے کہ ابوبکرہ نے

تمہارے خالف جھوٹ بوال ہو ]اور تمہارے خالف جھوٹی شہادت زنا دی ہو[ میں

کہیں آسمان سے میرے سر پر عذاب جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ

! کی صورت میں پتھر نازل ہوجائے

ـہ387إبن خلكان، أبو العباس شمس الدین أحمد بن محمد بن أبي بكر )متوفاي ) وفیات ،

-، تحقیق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة 133، ص3، جاألعیان و انباء أبناء الزمان

.لبنان

: اور ابوالفرج اصفھانى نے لکھا

حدثنا ابن عمار والجوهري قاال حدثنا عمر بن شبة قال حدثنا علي بن محمد عن یحیى

بن زكریا عن مجالد عن الشعبي قال كانت أم جمیل بنت عمر التي رمي بھا المغیرة بن

شعبة بالكوفة تختلف إلى المغیرة في حوائجھا فیقضیھا لھا قال ووافقت عمر بالموسم

أتعرف هذہ قال نعم هذہ أم كلثوم بنت علي فقال له عمر والمغیرة هناك فقال له عمر

أتتجاهل علي وهللا ما أظن أبا بكرة كذب علیك وما رأیتك إال خفت أن أرمى بحجارة من

السماء

ام جمیل جس کے ساتھ زنا پر مغیرہ کو متھم کیا گیاتھا اور جو کوفہ میں مغیرہ کے

رہ ساتھ مکہ میں تھی عمر نے پاس اپنے کام کے لئے جاتی تھی یہ عمر اور مغی

سوال کیا اسے جانتے ہو؟ مغیرہ نے کہا ہاں جانتا ہوں یہ ام کلثوم بنت علی ]ع[ہے

عمر نے اس سے کہا میرے سامنے انجانے بنتے ہو؟ هللا کی قسم مجھے نہیں لگتا

ہے کہ ابوبکرہ نے تمہارے بارے میں جھوٹ بوال ہو میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں

تا ہے کہ کہیں آسمان سے میرے سر پر عذاب کی صورت میں پتھر نازل تو ڈر لگ

! ہوجائے

ـہ153األصبھاني، أبو الفرج )متوفاي ) ، تحقیق: علي مھنا 707، ص 73، ج األغاني ،

لبنان -وسمیر جابر، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر .

زانیہ ہونے مغیرہ کا ام*جمیل، سے زنا مشھور و معروف تھا اسی طرح ام*جمیل

میں خاص وعام میں جانی جاتی تھی اور مغیرہ ملعون ایسی زنا کار سے مقائسہ

کرتا ہے اور خلیفہ دوم اسے سزا بھی نہیں دیتے ؟ اگر انکی بیوی ہوتی تو انکی

غیرت اس توہین کے خالف جاگ جاتی اب یا انکی بیوی نہیں تھی یا انکی غیرت مر

چکی تھی ۔

تجزیہ اور تحقیق عمر کے شادی کے بہانے کی : پانچواں زاویہ

اهل سنت،کے ادعا کے مطابق خلیفہ دوم نےام کلثوم کی خوستگاری کی تو امام علی

علیہ السالم نے اس کے چھوٹے ہونے کا عذر بتاتے ہوئے منع کیا لیکن عمر کے

.!!! اصرار اور عمر کی بیان کردہ دلیل کی بناء پر قبول کر لیا

عانى لکھتے ہیںعبد الرزاق صن :

تزوج عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي جاریة تلعب مع الجواري

فجاء إلى أصحابه فدعوا له بالبركة فقال إني لم أتزوج من نشاط بي ولكن سمعت رسول

هللا صلى هللا علیه وسلم یقول إن كل سبب ونسب منقطع یوم القیامة إال سببي ونسبي

ون بیني وبین نبي هللا صلي هللا علیه وسلم سبب ونسبفأحببت أن یك

عمر بن خطاب نے ام*كلثوم بنت علي بن ابى طالب]ع[ سے شادی کی . ام*كلثوم

بہت چھوٹی بچی تھی اور دیگر لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی تھی پس عمر اپنے

ساتھیوں کے پاس گئے اور انھوں نے عمر کے لئے برکت کی دعا کی ۔ پھر عمر

کہا میں نے شادی جوانی کےشوق کی وجہ سے نہیں کی ہے ! بلکہ میں نے نے

رسول صلی هللا علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر نسب اور سبب ختم

ہوجائے گا سوائے میرے نسب اور سبب کے تو میں نے چاہا کہ میرے اور رسول

صلی هللا علیہ و آلہ کے درمیان نسب اور سبب قائم ہو ۔

ـہ277نعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام )متوفايالص ) ، 734، ص 3، ج المصنف ،

بیروت، الطبعة: الثانیة، -تحقیق حبیب الرحمن األعظمي، ناشر: المكتب اإلسالمي

ـہ7401 .

جبکہ شیعہ سنی کا اتفاق ہے کہ ، رسول خدا صلى هللا علیه و آلہ نے عمر کی بیٹی

پس کیا احتیاج ہےکہ ام کلثوم سے شادی کرے۔حفصہ سے سبب قائم کیا ہوا تھا

فرق نہیں پڑتا ہے انسان کسی کا داماد ہو یا وہ کسی کا سسر ہو سبب تو قائم ہوحاتا

ہے اور رشتہ داری بن جاتی ہے اگر قیامت کے دن رسول صلی هللا علیہ و آلہ کی

وجہ رشتہ داری قیامت میں کسی کو کام آئے سکے تو عمر کو حفصہ کی شادی کی

سے کام آئے گی اس بناء پر ام کلثوم کے ذریعہ سے رسول صلی هللا علیہ و آلہ کی

رشتہ داری بنانے کا ڈهونگ جھوٹ ہے اور یہ سبب بنتا ہے شادی بذات خود جھوٹ

نظر آئے ۔

: سید ناصر حسین لكھنوى اس بارے میں لکھتے ہیں

إن رسول هللا ) ص ( قال: وأما ما وقع في هذا الخبر المكذوب أن عمر قال لألصحاب:

كل نسب وسبب منقطع یوم القیامة إال نسبي وسببي، وكنت قد صحبته فأحببت أن یكون

.هذا أیضا

فمردود ألن اتصال السبب من رسول هللا ) ص ( لعمر بعد الصحبة كان حاصال بال

شبھة عند أهل السنة من جھة أبنته حفصة: فإنھا كانت من أزواج رسول هللا ) ص (،

وهذا االتصال یكفي له أن كان عمر بن الخطاب مؤمنا مصدقا لقوله، وإن لم یكن مؤمنا

ا االتصال الذي طلبه من علي ) ع ( وهو محرم مصدقا للرسول ) ص ( فما یزیدہ هذ

علیه بوجوہ عدیدة غیر تقصیر وتخسیر كما ال یخفى على من له حظ من اإلیمان،

.ونصیب

وہ بات جو اس جھوٹی روایت میں آئی ہے کہ عمر نے اپنے یاروں سے کہا : رسول

وجائے گا صلی هللا علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر نسب اور سبب ختم ہ

سوائے میرے نسب اور سبب کے میں ایک صحابی تھا دل چاہتا تھا کہ رسول صلی

هللا علیہ و آلہ سے میری بھی یہی نسبت ہو! ۔

یقینا یہ بات بالکل باطل اور غلط ہے اسلئے کہ اہل سنت کا اس میں اختالف نہیں ہے

دار بھی بن کہ عمر ،رسول صلی هللا علیہ و آلہ کے صحابی بننے کے بعد رشتہ

گئے تھے اور یہ رشتہ داری عمر کی بیٹی حفصہ کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی

اور حفصہ ازواج نبی صلی هللا علیہ و آلہ میں شمار ہوتی تھیں اور یہی رشتہ اور

اتصال ، عمر کا رسول صلی هللا علیہ و آلہ کی بات پر ایمان رکھنے کی صورت

یا تھا ۔میں کافی تھا اور اس سے، رشتہ بن گ

اور اگر عمر کا رسول صلی هللا علیہ و آلہ کے قول ہر ایمان نہیں تھا تو دوسری بار

رشتہ اور اتصال ام کلثوم کے ذریعہ سے کوئی فائدہ نہیں رکھتا ہے اس کے عالوہ

یہ رشتہ متعدد وجوہ کی وجہ سے عمر پر حرام تھا اور یہ بات صاحبان ایمان پر

میں آئے گی آشکار ہے ]اسکی تفصیل بعد ]

، إفحام األعداء والخصوم بتكذیب ما (الموسوي الھندي، السید ناصر حسین )معاصر

، تقدیم وتحقیق 740، ص 7، جافتروہ على سیدتنا ام*كلثوم علیھا سالم الحي القیوم

طھران ـوتعلیق الدكتور محمد هادي األمیني، ناشر: مكتبة نینوى الحدیثة

:هللا صلی هللا علیہ و آلہ کی مخالفتچھٹا زاویہ : سنت رسول

: خداوند نے قرآن كریم میں تمام مومنین کو مخاطب کر کے کہا

خر و ذكر هللاه و الیوم اال أسوة حسنة لمن كان یرجوا هللاه . كثیرالهقد كان لكم فى رسول هللاه

.27األحزاب /

یں هللا نے مومنین سے کہا ہے رسولصلی هللا علیہ و آلہ تمہارے لئے ہر جگہ اس آیت م

»اسوہ ہیں اور اسوہ سے مراد یہاں آپ کی پیروی کرنا ہے کی عبارت « لكم في رسول هللاه

بیان کر رہی ہے کہ استمرار پر داللت کر رہی ہے یعنی حکم ہمیشہ کے لئے ثابت ہے اور

آئیڈیل ہونے چاہئے اور رسالت رسول اللہصلی هللا علیہ و آلہ کا فلسفہ ہی آپ ہر زمانہ میں

یہی ہے کہ مومنین ہر زمانہ میں انکے قول اور فعل میں پیروی کریں ۔

:صلی هللا علیہ و آلہ ( عمر اور ابوبکر کی خواستگاری کو رد کر دیتے ہیں)رسول هللا

رت زهرا سالم هللا علیھا کی خوستگاری یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ابو بکر اور عمر، حض

انکار دیا اور ان سے منہ موڑ کے لئے آئے تو رسول اکرم صلی هللا علیہ و آلہ نے جواب

لیا یعنی رسول اکرم صلی هللا علیہ و الہ کا مقصود یہ تھا تم دونوں حضرت زہرا سالم هللا

خالق اور دیگر صفات میں ۔۔۔علیہا کے الئق نہیں ہو نہ عمر میں نا ایمان میں اور نہ ا

:صواعق محرقه میں لکھا ہے 77ابن حجر هیثمى نے شیعہ کے خالف کتاب باب

وأخرج أبو داود السجستاني أن أبا بكر خطبھا فأعرض عنه صلى هللا علیه وسلم ثم عمر

.فأعرض عنه فأتیا علیا فنبھاہ إلى خطبتھا فجاء فخطبھا

کہ ابو بکر نے حضرت زہرا]سالم هللا علیھا[ کی رسول ابو داوود سجستانى نےنقل کیا ہے

صلی هللا علیہ و آلہ سے خواستگاری کی تو آپصلی هللا علیہ و آلہ نے منہ موڑ لیا پھر عمر

نے خواستگاری کی ان سے بھی منہ موڑ لیا ۔۔۔

الصواعق المحرقة على ،ـہ711الھیثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر )متوفاي

-، تحقیق عبد الرحمن بن عبد هللا التركي 417، ص 2، ج أهل الرفض والضالل والزندقة

.م7771 - ـہ7471لبنان، الطبعة: األولى، -كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة

: ابن حبان نے صحیح میں اور نسائى نے اپنی سنن میں لکھا ہے

بن بریدة أخبرنا الحسین بن حریث قال حدثنا الفضل بن موسى عن الحسین بن واقد عن عبد هللاه

صلى هللا علیه وسلم عن أبیه قال خطب أبو بكر وعمر رضي هللا عنھما فاطمةفقال رسول هللاه

جھا منه أنھا صغیرة .فخطبھا علي فزوه

والد سے نقل کیا ہے کہ :ابوبکر اور عمر نے رسولصلی هللا علیہ عبد هللا بن بریدہ نے اپنے

کیخواستگاری کی تو آپ صلی هللا علیہ و آلہ نے [و آلہ سے حضرت زہرا]سالم هللا علیھا

فرمایا وہ ابھی چھوٹی ہیں پھر علی ]ع[ نے خواستگاری کی تو ان سے شادی کروادی ۔

خصائص أمیر المؤمنین علي بن ،(ـہ 101وفايالنسائي، أحمد بن شعیب أبو عبد الرحمن )مت.

الكویت -، تحقیق: أحمد میرین البلوشي، ناشر: مكتبة المعال 713، ص 7، ج أبي طالب

؛ـہ 7403الطبعة: األولى،

، تحقیق: عبدالفتاح 32، ص 3، ج المجتبى من السنن النسائي، أحمد بن شعیب أبو عبد الرحمن،

؛7783 - 7403حلب، الطبعة: الثانیة، -اإلسالمیة أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات

صحیح ابن حبان بترتیب ،(ـہ 154التمیمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم )متوفاي

بیروت، -، تحقیق: شعیب األرنؤوط، ناشر: مؤسسة الرسالة 177، ص 75، ج ابن بلبان

م؛7771 ـ ـہ7474الطبعة: الثانیة،

، ج موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان ،(ـہ 801علي بن أبي بكر )متوفاي الھیثمي، أبو الحسن

بیروت؛ -، تحقیق: محمد عبد الرزاق حمزة، ناشر: دار الكتب العلمیة 547، ص 7

النكت الظراف على ،(ـہ852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي

حقیق: عبد الصمد شرف الدین، زهیر الشاویش، ، ت81، ص 2تحفة األشراف(، ج ) األطراف

م؛ 7781 - ـہ 7401بیروت / لبنان، الطبعة: الثانیة، -ناشر: المكتب اإلسالمي

، ص 77ج ،مرقاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح مال علي القاري، علي بن سلطان محمد،

بیروت، الطبعة: األولى، لبنان/ -، تحقیق: جمال عیتاني، ناشر: دار الكتب العلمیة 257

. م2007 - ـہ7422

: حاكم نیشابورى نے اس حدیث کو نقل کے بعد کہا

.هذا حدیث صحیح على شرط الشیخین ولم یخرجاہ

یہ حدیث، بخاری اور مسلم کی شرائط پر صحیح ہے لیکن انھوں نے نقل نہیں کیا۔

، المستدرك على الصحیحین ،(ـہ 405النیسابوري، محمد بن عبدهللا أبو عبدهللا الحاكم )متوفاي

بیروت، الطبعة: -، تحقیق: مصطفى عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمیة 787، ص 2ج

.م7770 - ـہ7477األولى،

اس بناء پر، مذکورہ بات سے واضح ہوا کہ سنت رسول اکرم صلی هللا علیہ و آلہ یہ ہے کہ

جائے۔ تو کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی اہل بیت کی بیٹی ابوبکر اور عمر کو نہ دی

علیہ السالم اس سنت رسول صلی هللا علیہ و آلہ کی مخالفت کرتے ۔

: عمر زمانہ جاہلیت کی رسومات کو دوبارہ زندہ کرتے ہیں

عمر اور ام کلثوم کی شادی کا ایک نتیجہ یہ ہے عمر بعثت رسول صلی هللا علیہ و آلہ

؛ گزر جانے کے بعد وہ ابھی تک رسوم جاہلیت سال اورخالفت کے متعدد سال 10کے

کےمبلغ اور پرچار کرنے والے ہیں اور عمر زمانہ جاہلیت کی رسم کو بھال نہ سکے

جبکہ رسول اکرم صلی هللا علیہ و آلہ نے واضح طور پر مسلمانوں کو اس رسم سے منع

کیا تھا ۔

م کی امام علي )علیه السالم( ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے : عمر نے ام*كلثو

سےخواستگارى کی تو ،مزار رسول اکرم صلی هللا علیہ و آلہ میں موجود مھاجرین اور

:انصار سے کہا

.رفئوني فرفؤوہ وقالوا بمن یا أمیر المؤمنین قال بابنة علي بن أبي طالب

ہا علی ]ع[ مجھے مبارکباد دو ]رفئوني فرفؤوہ [انھوں نے سوال کس بات کی مبارکباد ؟ ک

کی بیٹی سے شادی کی۔

، 8، ج الطبقات الكبرى ،(ـہ210متوفاي) الزهري، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدهللا البصري

بیروت؛ -، ناشر: دار صادر 431ص

، 712، ص 7، ج سنن سعید بن منصور ،(ـہ221الخراساني، سعید بن منصور )متوفاي

ـ ـہ7401الھند، الطبعة: األولى، -السلفیة تحقیق: حبیب الرحمن األعظمي، ناشر: الدار

م؛7782

االستیعاب في معرفة ،(ـہ 431القرطبي، یوسف بن عبد هللا بن محمد بن عبد البر )متوفاي

بیروت، الطبعة: -، تحقیق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجیل 7755، ص 4، ج األصحاب

؛ـہ7472األولى،

، ص 7، ج التذكرة الحمدونیة ،(ـہ308محمد بن علي )متوفايابن حمدون، محمد بن الحسن بن

بیروت،، الطبعة: األولى، -، تحقیق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر 107

م؛7773

أسد الغابة في معرفة ،(ـہ310الجزري، عز الدین بن األثیر أبي الحسن علي بن محمد )متوفاي

-الرفاعي، ناشر: دار إحیاء التراث العربي ، تحقیق عادل أحمد 425، ص 1، ج الصحابة

م؛ 7773 - ـہ 7471بیروت / لبنان، الطبعة: األولى،

الجوهرة في نسب (ـہ344االنصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري )متوفاي

؛257، ص 7، ج النبي وأصحابه العشرة

، 21، ص 75، ج ي بالوفیاتالواف ،(ـہ134الصفدي، صالح الدین خلیل بن أیبك )متوفاي

-ـہ7420 -بیروت -تحقیق أحمد األرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحیاء التراث

م؛2000

اإلصابة في تمییز ،(ـہ852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي

الطبعة: بیروت، -، تحقیق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجیل 274، ص 8، ج الصحابة

.7772 - 7472األولى،

کی عبارت کے ساتھ مبارکباد دینا زمانہ جاهلیت میں «بالرفاء والبنین »یا «رفئوني »

مرسوم تھی لیکن جب رسول اسالم صلى هللا علیه وآله وسلم مبعوث ہوئے تو اس عمل سے

: نہی فرمائی جیسا کہ نووی نے اس کی وضاحت کی ہے

.أن یقال ) بالرفاء والبنین ( ثم نھى النبي صلى هللا علیه وسلم عنھاوكانت ترفئة الجاهلیة

کے کلمات سے تبریک کہنا مرسوم تھی «بالرفاء والبنین »اور «رفئوني »جاهلیت میں

پھر نبی کریم ]صلى هللا علیه وآله وسلم[ نے اس سے نہی و منع فرمایا ۔

، ناشر: دار 205، ص 73، ج المجموع ،(ـہ 313النووي، أبي زكریا محیي الدین )متوفاي

.الفكر للطباعة والنشر والتوزیع، التكملة الثانیة

: اور عینى، شارح صحیح بخارى نے كتاب عمدة القارى میں لکھا ہے

قوله: ) بارك هللا لك ( وهذہ اللفظة ترد القول: بالرفاء والبنین، ألنه من أقوال الجاهلیة، والنبي

.صلى هللا علیه وسلم كان یكرہ ذلك لموافقتھم فیه، وهذا هو الحكمة في النھي

کہنے کو رد کرتا ہے کیونکہ یہ کلمات جاہلیت میں «بالرفاء والبنین »کہنا «بارك هللا لك »

ہیں اور رسول اسالم صلى هللا علیه وآله وسلم، اس کے کہنے کو ناپسند کرتے تھے سے

اور آپ صلى هللا علیه وآله وسلم کے منع کرنے کی وجہ رسم جاہلیت کی مخالفت تھی۔

، ج عمدة القاري شرح صحیح البخاري ،(ـہ855العیني، بدر الدین محمود بن أحمد )متوفاي

.بیروت –إحیاء التراث العربي ، ناشر: دار 743، ص 20

8قابل غور بات یہ ہے کہ اہل سنت کی روایات کے مطابق جناب عقیل بن ابیطالب نے

ہجری میں ہجرت کی اور اس کے بعد مریضی اور بیماری کی وجہ سے بہت سے اهم

واقعات میں شریک نہ ہوئے اور اسی طرح حضرت رسول اکرم صلى هللا علیه وآله وسلم

میں شرکت سے قاصر رہے لیکن اس کے با وجود اس رسم جاہلیت کی حرمت کے خطبات

سے آگاہ تھے ! جبکہ اہل سنت کے اعتقاد کے اعتبار سے عمر اور انکے حواری جو

اولین مہاجرین میں شمار ہوتے ہیں اس حرمت سے نا آگاہ تھے ! ؟

فعرض له مرض فلم فشھد غزوة مؤتة ثم رجع خرج إلى رسول هللا مھاجرا في أول سنة ثمان

یسمع له بذكر في فتح مكة وال الطائف وال خیبر وال في حنین

ہجری کی ابتدا میں ہجرت کی پھر جنگ موتہ میں شریک ہوئے اور لوٹ 8انھوں نے سال

آئے اور مریض ہو گئے پھر انکے فتح مکہ ، طائف ۔ خیبر ، حنین

! میں شریک ہونے کے بارے میں کچھ سنائی نہیں دیا گیا

، 4ج ،الطبقات الكبرى ،(ـہ210متوفاي) الزهري، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدهللا البصري

.بیروت -، ناشر: دار صادر 41ص

: احمد بن حنبل نے مسند میں لکھا ہے

حدثني أبي ثنا الحكم بن نافع حدثنا إسماعیل ابن عیهاش عن سالم بن عبد بن عبد حدثنا عبد هللاه

فاء ج عقیل بن أبي طالب فخرج علینا فقلنا بالر د بن عقیل قال تزوه بن محمه عن عبد هللاه هللاه

والبنین فقال مه ال تقولوا ذلك فان النبي صلى هللا علیه وسلم قدنھانا عن ذلك وقال قولوا بارك

فیھاهللا فیك وبارك هللا

؛ «بالرفاء والبنین»نے شادی کی تو ہم نے انھیں ان کلمات [ عقیل بن ابى طالب ]علیہ السالم

سے مبارکباد دی تو انھوں نے کہا : خبردار اس طرح نہ کہو رسول اکرم]صلى هللا علیه

وآله [ نے اس کے کہنے سے منع کیا ہے بلکہ کہو هللا تمہارے اور تمہاری بیوی میں

عنایت فرمائے۔برکت

، 207، ص 7، ج مسند أحمد بن حنبل ،(ـہ247الشیباني، أحمد بن حنبل أبو عبدهللا )متوفاي

.مصر –، ناشر: مؤسسة قرطبة 7118ح

کیا اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ عمر سنت رسول خدا صلى هللا علیه وآله وسلم کے

ہلیت کو دوبارہ زندہ کیا جائے خالف عمل کرنے میں مصر ہیں اور چاہتے ہیں کہ رسوم جا

؟کیا رسول اکرم صلى هللا علیه وآله وسلم نے اس فعل سے منع نہیں کیا تھا؟

تعجب کی بات ہے کہ بعض علماء اہل سنت نے جب دیکھا کہ یہ سراسر برا فعل اور

مخالفت حکم رسول هللا صلى هللا علیه وآله وسلم ہے تو خلیفہ دوم کے دفاع میں مضحکہ

جیہ کی ہے جو عذر بدتر از گناہ کا مصداق نظر آتا ہے ۔خیز تو

: حلبى نے سیرت میں لکھا ہے

أن سیدنا عمر بن الخطاب رضي هللا عنه جاء إلى مجلس المھاجرین األولین في الروضة فقال

ولعل النھى لم رفئوني فقالوا ماذا یا أمیر المؤمنین قال تزوجت أم كلثوم بنت على هذا كالمه

.هؤالء الصحابة حیث لم ینكروا قوله كما لم یبلغ سیدنا عمر رضي هللا تعالى عنھمیبلغ

صلی هللا علیہ و ]ہمارے سردار عمر بن خطاب نے ، اولین مھاجرین جو مزار رسول اکرم

کہو ان لوگوں نے کس بات پر ؟ .«بالرفاء والبنین»آلہ[ میں موجود تھے ،سے کہا مجھے

شاید رسول ]صلی !سے شادی کر لی ہے [م کلثوم بنت علی ]ععمر نےجواب دیا میں نے ا

تاکہ عمر پر اعتراض کرتے !هللا علیہ و آلہ[ کی نہی اور حرمت ان تک نہیں پہنچی ہے

! !اسی طرح ہمارے سردار عمر تک بھی اس کی حرمت اور نہی نہیں پہنچی ہے

، 2ج الحلبیة في سیرة األمین المأمون،السیرة ،(ـہ7044الحلبي، علي بن برهان الدین )متوفاي

.ـہ7400 –بیروت -، ناشر: دار المعرفة 42ص

حلبی کی یہ توجیہ خود واقعہ سے زیادہ بدتر ہے اس لئے کہ یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عمر

متعدد سال مسلمانوں پر حکومت کرنے کے باوجود ابھی تک بنیادی احکام اور مسائل دین

ا شخص مسند خالفت رسول خدا صلى هللا علیه وآله پر بیٹھنے کا اہل سے نابلد ہیں کیا ایس

مھاجرین »ہےاور مسلمانوں کو صراط مستقیم پر لے کر چل سکتا ہے ؟اس سے بدتر

.!!!کے بھی بے خبر اور نابلد ہونے کا دعوی کیا گیا ہے ۔ «األولین

کی صحبت میں رہنے سال رسول خدا صلى هللا علیه وآله 20کیا قبول کیا جاسکتا ہے کہ

والے اس حکم خدا سے نابلد ہوں ؟

کیا ایسا شخص رسول خدا صلى هللا علیه وآله کے بعد مسلمانوں کا دینی رہبر بن سکتا ؟

کیا پتہ دیگر احکامات الہی بھی اسی کی طرح پایمال نہ کئے گئے ہوں ؟

:کرنا رسول خدا صلى هللا علیه وآله کی بیٹی اور شمن خدا کی بیٹی کو جمع

اهل سنت کے بعض نام نہاد علماء نے امام علی علیہ السالم سے بغض کا حساب پورا

کرنے کے لئے نقل کیا ہے کہ امام علی علیہ السالم نے جناب خاتون جنت سالم هللا علیہا

اور جب یہ بات بی بی ]سالم هللا !کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی سے خواستگاری کی

اور رسول خدا صلى هللا علیه وآله سے شکایت کی !ہوئی تو ناراض ہوئیںعلیہا[کو معلوم

جب رسول خدا صلى هللا علیه وآله کو خبر ہوئی تو بہت غصہ ہوئے !اور مسجد میں خطبہ

: !فرمانے آئے اور ارشاد فرمایا

ال صلى هللا علیه وإنه فاطمة بضعة مني، وإني أكرہ أن یسوءها، وهللاه تجتمع بنت رسول هللاه

عند رجل واحد .فترك علي الخطبة ." وسلم وبنت عدو هللاه

سالم هللا علیہا[میرا حصہ ہیں ، مجھے گوارا نہیں ہے کہ کوئی میری بیٹی کو ]فاطمه

صلى هللا علیه وسلم اور بنت دشمن خدا ایک مرد ناراضی کرے هللا کی قسم بنت رسول هللاه

کے پاس جمع نہیں ہوسکتی ہیں تب علی ]ع[ نے ابو جہل کی بیٹی کی خواستگاری چھوڑ

دی !۔

، ص 1، ج صحیح البخاري ،(ـہ253البخاري الجعفي، محمد بن إسماعیل أبو عبدهللا )متوفاي

أصھار النهبي صلى هللا علیه وسلم ، باب ذكر 73، كتاب فضائل الصحابة، ب 1521ح 7134

بیع، تحقیق د. مصطفى دیب البغا، ناشر: دار ابن كثیر، الیمامة -منھم أبو العاص بن الره

.7781 - 7401الثالثة، :بیروت، الطبعة

:!دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا

استأذنوا في أن ینكحوا ابنتھم عليه بن أبي طالب فال آذن ثمه ال آذن ثمه ال إنه بني هشام بن المغیرة

ي ما أرابھا آذن إال أن یرید بن أبي طالب أن یطلق ابنتي وینكح ابنتھم فإنهما هي بضعة مني یریبن

.ي ما آذاهاویؤذین

بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے یہ اجازت مانگی ہے کہ ہم اپنی بیٹی کی علی ابی

سے شادی کردیں، میں اجازت نہیں دیتا، پھر کہا میں اجازت نہیں دیتا، میں [طالب]ع

اجازت نہیں دیتا، لیکن علی ]ع[ میری بیٹی کو طالق دے دیں اور انکی بیٹی سے بیاہ

فاطمه ]سالم هللا علیہا[میرا حصہ ہیں انکی ناراضگی میری ناراضگی ہے کرلے ، کیونکہ

اور انکی اذیت میری اذیت ہے ۔

، ص 5، ج صحیح البخاري ،(ـہ253البخاري الجعفي، محمد بن إسماعیل أبو عبدهللا )متوفاي

جل عن ابنته في الغیرة 4712، ح2004 نصاف، تحقیق د. ، كتاب النكاح، باب ذب الره واإل

.7781 - 7401بیروت، الطبعة: الثالثة، -دار ابن كثیر، الیمامة :مصطفى دیب البغا، ناشر

چونکہ امام علی علیہ السالم کی تنقیص کا مسئلہ ہے اس لئے ان نام نہاد علماء اہل سنت نے

سالم هللا علیھا علی اس قضیہ کو خوب چڑا کر نقل کیا اور اس کو دلیل بنایا ہے کہ فاطمه

علیہ السالم سے غضبناک ہوئیں ۔

اب ہم سوال کرتے ہیں کہ اگر حقیقتا رسول]ص[ کی بیٹی اور شمن خدا کی بیٹی کو جمع

کرنا حرام ہے اور اسی وجہ امام علی علیہ السالم ابو جہل کی بیٹی کی خواستگاری سے

۔؟رک گئے تو خلیفہ دوم کیوں اس حرام عمل کے مرتکب ہوئے

ہجری میں یعنی اسی سال 78فاطمه بنت ولید بن مغیرہ، وہ عورت ہے جس سے عمر نے

جس میں ام کلثوم سے شادی کی اس سے بھی شادی کی ہوئی تھی۔

اور ولید بن مغیرہ، كفار قریش کے سرداروں میں سے ہیں ، اور ان افراد میں سے جو

«ذرنى ومن خلقت وحیدا»ں آیت جنگ بدر میں واصل جہنم ہوا تھا اور اسی کی مذمت می

!نازل ہوئی

: میں لکھا ہے ابن سعد نے الطبقات الكبرى

عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغیرة بن عبد هللا بن عمر بن مخزوم بن یقظة بن مرة

وأمه فاطمة بنت الولید بن المغیرة بن عبد هللا بن عمر بن مخزوم ویكنى عبد الرحمن أبا محمد

عشر سنین حین قبض النبي صلى هللا علیه وسلم ومات أبوہ الحارث بن هشام في وكان بن

فخلف عمر بن الخطاب على امرأته فاطمة بنت الولید سنة ثماني عشرة طاعون عمواس بالشام

وهي أم عبد الرحمن بن الحارث بن المغیرة

مغیرہ ہے ؛ جب عبد الرحمن بن حارث بن هشام بن مغیرة... اسکی ماں فاطمه بنت ولید بن

سال تھی اسکا باپ حارث بن ہشام 70رسول اکرم]ص[ اس دنیا سے گئے تو اسکی عمر

ہجری میں طاعون عمواس سے مر گیا پھر عمر نے اسکی بیوی سے شادی کی اور یہ 78

! عبد الرحمان بن حارث کی ماں ہے

، 5ج ،الطبقات الكبرى ،(ـہ210متوفاي) الزهري، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدهللا البصري

.بیروت -، ناشر: دار صادر 5ص

: ابن حجر عسقالنى نے ترجمه عبد الرحمن بن الحارث بن هشام اسی کو دهرایا ہے

اإلصابة في تمییز ،(ـہ852العسقالني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل )متوفاي

-البجاوي، ناشر: دار الجیل ، تحقیق: علي محمد 3204، رقم: 27، ص 5، ج الصحابة

.7772 - 7472بیروت، الطبعة: األولى،

اگر بنت رسول ]ص[اور بنت دشمن خدا کو جمع کرنا حرام ہے تو خلیفہ دوم نے کیوں یہ

[ حرام کام کیا ؟ ]شاید حلبی قبر میں کہہ رہا ہو شاید ان تک اس کی حرمت نہیں پہنچی ہو

ہی رسول اکرم] ص [کے بدترین دشمن تھے پس اگر ولید بن مغیرہ اور ابوجھل،* دونوں

ابوجہل کی بیٹی سے امیر المومنین علی علیہ السالم کی شادی حرام ہے تو عمر کے لئے

بھی ولید بن مغیرہ کی بیٹی حرام ہے ۔

آیا اهل سنت قبول کرتے ہیں کہ عمر اس حرام کے مرتکب ہوئے ؟

:نتیجه

سے عمر کی شادی نہیں ہوئی ہے یا قبول کریں []ع پس یا قبول کریں کہ ام کلثوم بنت علی

- کہ عمر نے یہ حرام فعل انجام دیا ہے اور انکی نسل بھی اسی حرام فعل سے چلی ہے

اگرچہ یہ مقام امام علی علیہ السالم پر تنقیص کے جواب دینے کا نہیں ہے لیکن امام علی ]

لوم ہوجاتا ہے کہ یہ کام اسی شجرہ علیہ السالم کے کردار اور اقوال کو سامنے رکھ کر مع

[ سالہ حکومت میں ان پر سب و شتم کو رائج کیا تھا 700ملعونہ کا ہے جس نے اپنے

: امام علی علیہ السالم پورے وجود سے نہج البالغہ میں اعالن فرما رہے ہیں

ه یرفع ل .ي في كل یوم من أخالقه علما و یأمرني باالقتداء و لقد كنت أتهبعه اتباع الفصیل أثر أم

میں آپ کے پیچھے اس طرح چلتا تھا کہ جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے

چلتا ہے اور آپ ہر روز میرے لئے اخالق عالیہ کا علم بلند کرتے اور مجھےاسکی پیروی

کا حکم دیتے ۔

.778بحي صالح، خطبه نھج البالغه، ص

عقد ام کلثوم بنت ابی بکر :

بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی ایک لڑکی کا نام ام کلثوم تھا عمر نے

اس سے شادی کرنے کی درخواست کی تھی جسے قبول کرلیا گیا ۔چونکہ ام کلثوم حضرت علی علیہ

ذا نام کی مشابہت کی وجہ سے بعض نافہم لوگوں نے اسے ام کلثوم بنت السالم کی بچی کا نام بھی تھا لہ

کی طرف منسوب کردیا ، چنانچہ ابن قتیبہ معارف میں لکھتے ہیں : جب عمر ام کلثوم بنت ابی لایرعلی

بکر سے شادی کرنے کی درخواست عائشہ کی پاس لے کر گئے تو عائشہ نے اسے قبول کرلیا،لیکن ام

۹کلثوم عمر کو پسند نہیں کرتی تھےں۔

عمر کے درمیان وسیع تعلقات کا قائم ہونااس حضرت ابو بکر کی طرح حضرت عائشہ اورحضرت

احتمال کے قوی ہونے پر مزید داللت کرتا ہے۔ عمر ی موصلی اور عمر رضا کحالہ نے بھی اس واقعہ

۳۲کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔

۔ ان پس معلوم ہونا چاہئے کہ یہ دو ام کلثوم ہیں ایک مادر عبدهللا ابن عمر اور دوسری ابو بکر کی لڑکی

دونوں کا رابطہ عمر سے سبب بنا کہ لوگ مشکوک ہو کر سمجھ بیٹھے کہ ام کلثوم بنت علی علیہ

۲۲السالم کی شادی عمر سے ہوئی جب کہ ایسا نہیں ہے ۔

--------------------------------

۔۹۱۱۔ابن قتیبہ ؛ المعارف ص ۹

،ص/ ۴ر رضا کحا لہ؛ اعالم النساء ج /۔ عم۲۰۲۔عمر موصلی؛الروضة الفیحاء فی تواریخ النساء ص/ ۳

۳۱۰

۔فرید سائل۔ افسانہ ازدواج )بررسی ازدواج حضرت ام کلثوم با عمر در مدرک شیعہ و سنی( ۲

۳۳و۳۰ص/

ذا اسم کے مشابہ ہونے رخین نے زید بن عمر کی ماں ام کلثوم بنت جردل خزاعی لکھا ہے ۔لہ بعض موٴ

گیا ، چنانچہ طبری کہتے ہےں : زید اصغر اور عبیدهللا)جو لکھ دیا لایرکی وجہ سے ام کلثوم بنت علی

جنگ صفین میں مارے گئے تھے ( کی ماں ام کلثوم بنت جردل خزاعی تھی ، جس کے درمیان اسالم

رخین ام کلثوم بنت جردل اور عمر کے درمیان شادی ۹۲نے عمر سے جدائی کروادی تھی۔ اکثر موٴ

کا کہناہے کہ یہ ام کلثوم بنت عقبہ بن معیط تھی۔ بعض تاریخ بعض ۳۲زمانہ جاہلیت میں جانتے ہیں ۔

سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت

عاصم تھی ۔

ماحصل

اگر ہم نفسیاتی اور عقلی طور پر اس واقعہ کے منفی ہونے پر نظر ڈالیں توحسب ذیل باتوں سے اس کی

:تائید ہوتی ہے

بطن سے تھیں جن سے عقد کرنے۔ام کلثوم اسی فاطمہ بنت رسول کے (۹

--------------------------------

۔۳۱، ص /۲، کامل ابن اثیر ج /۳۶۱، ص /۲۔تاریخ طبریج /۹

۔۶۱۱، ص/ ۳۔ تاریخ المدینہ المنورة، ج/۹۹۶۔ صفوة الصفوة، ص /۴۱۹، ص /۴۔االصابہ ج /۳

ذا جس ف عل کو رسول نے فاطمہ کی خواہش پر عمر کو دربار رسالت سے جواب مل چکا تھا ، لہ

ان کی بیٹی کے لئے کس طرح اسے مناسب سمجھیں گے؟لایرکے لئے مناسب نہ سمجھا علی لایر

۔ ام کلثوم اسی ماں کی بیٹی تھیں جو جیتے جی عمر سے ناراض رہیں اور مرتے دم بھی وصیت کر (۳

غافل تھے کہ گئیں کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیا حضرت علی علیہ السالم اس بات سے

کی روح کے لئے یہ رشتہ تازیانہ ثابت نہ ہوگی؟لایراگر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تو فاطمہ

۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحث میں عرض کیا کہ ام کلثوم اور عمر کے سن میں زمین وآسمان کا فرق (۲

ے ہی طے ہوچکی تھا، نیز روایت کے مطابق ام کلثوم کی شادی ان کے چچا زاد بھائی سے پہل

تھی،توپھر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت علی علیہ السالم عمرسے شادی کر نے

کے لئے کیسے راضی ہوگئے؟

۔ اگر ہم حضرت علی علیہ السالم اور عمرکے درمیان تعلقات پر غور کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا (۴

اور عمرکے درمیان تنازع لایرسے ہی حضرت علی آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ رسول کی وفات کے بعد

شروع ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپ کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالنے والے عمر تھے ، خالفت کا رخ

کا پہلو عمر نے شکستہ کیا ،شکم مادر میں لایرعمرکی وجہ سے اپنے محور سے منحرف ہوا ،فاطمہ

ے ہوتے ہوئے کیا حضرت علی علیہ السالم محسن کی شہادت عمر کی وجہ سے ہوئی،ان تمام باتوں ک

کے بارے میں کوئی انسان سوچ بھی سکتا ہے کہ آپ راضی و خوشی اپنی بیٹی عمر سے بیاہ دیں گے

۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی علیہ السالم نے عمر سے خوف زدہ ہوکر ام کلثوم کی شادی (۱

کہہ سکتے ہیں جو تاریخ اسالم کا مطالعہ نہیں رکھتے ، عمر سے کردی تھی ، تو یہ بات وہی حضرات

جس کی تیغ کا لوہا بدر و احد ، خبیرو خندق کے بڑے بڑے شہسوار اور سورما مان چکے ہوں وہ ان

للو پنجو لوگونسے ڈر کر اپنا سارا وقار خاک میں مالکر بیٹی سے شادی کردےں گے ! حیرت ہے ایسی

!عقلوں اور سوج بوجھ پر

مسئلہ خالفت پر صبر کرتے ہوئے تلوار کا نہ اٹھاناایک دوسری بات ہے ، کیونکہ نبی اکرم کی البتہ

اس سلسلہ میں تم صبر کرنا ،اگر علی اس موقع پر صبر نہ کرتے اور تلوار اٹھا لایروصیت تھی کہ علی

سلمان لیتے تو بہت سے ایسے افراد جو ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اسالم سے پلٹ جاتے ،اور م

اپنی خانہ جنگی کے شکار ہو جاتے ، جس کے نتیجہ میں خارجی طاقتیں اسالم پر غالب ہوجاتیں اور

اسالم کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن جہاں تک ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس میں آپ کیوں کسی

پ ام کلثوم کی شادی عمر سے خوف کھاتے ؟یہ کوئی دین اسالم کی نابودی کا مسئلہ تو تھا نہیں کہ اگر آ

سے نہ کرتے تو عمر جنگ پرآجاتے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان تمام نہ ہونے والی جنگ

شروع ہو جاتی !اور جب اس جنگ کے کوئی اسباب دریافت کرتا تو یہ کہا جاتا کہ یہ جنگ عمر کی

ت کو سوچ رہے ہوں گے کہ شادی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی !!اور پھر کیا حضرت عمر بھی اس با

اگر شادی نہ ہوئی تو جنگ کریں گے، ہم اس بات کو بعید از عقل سمجھتے ہےں کہ عمر ایک بچی سے

!!شادی کرنے کے لئے اتنا ہلڑ ہنگامہ پسند کرتے

ذا جو لوگ عمر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس قضیہ کو طول دے کر لہ

توہین نہ کریں،عالمہ سبط ابن جوزی بڑے سمجھدار نکلے کہ انھوں نے اپنے برائے خدا ان کی مزید

دادا کی بات کو رد کرتے ہوئے فورا لکھ دیا کہ اس واقعہ سے عمر کی فضیلت نہیں بلکہ ان کی

منقصت

ہوتی ہے ۔

و بھی ۔ کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ اس شادی میں عمر نے چالیس ہزار درہم مہر رکھا تھا، یہ پہل (۶

عمر کی تنقیص پر داللت کرتا ہے،کیونکہ اہل سنت کا ہر فرد اس بات کو جانتا ہے کہ عمرنے فقیرانہ

زندگی میں خالفت کی چکی چالئی ہے ، آپ کی تنخواہ ایک معمولی انسان کے برابر تھی ، چنانچہ

کی قمیص میں ستر تاریخ ابن خلدون میں آیا ہے: عمر کے کپڑوں میں ہمیشہ پیوند لگے ہوتے تھے، آپ

پیوند تھے ، اسی طرح ایک مرتبہ آپ نماز عید پڑهانے نکلے تو جوتوں میں کئی پیوند لگے ہوئے

تھے، ایک مرتبہ گھر سے باہر نہیں نکلے معلوم کرنے پر پتہ چال کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے ،

پیوند لگے ہوئے تھے۔۹۳اور آپ کے تہہ بند میں

کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ چالیس ہزار درہم مہر کی روایت من گھڑت ان تمام باتوں پر غور

اور جعلی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی سرو کا رنہیں ہے ، ممکن ہے یہ روایت دشمنان اسالم کی جانب

سے اسالمی راہنماؤں کی توہین کی خاطر سوچے سمجھے پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہو۔

!!!یںاہم واقعہ اہل سنت کی اہم کتابوں نہ

جناب ام کلثوم کی شادی عمر ابن خطاب سے یہ واقعہ نہ تو صحیح بخاری میں ہے نہ صحیح

مسلم میں ،حتی کسی بھی صحاح ستہ میں یہ واقعہ موجود نہیں ہے اور نہ ہیاہل سنت کی کسی بھی

مشہور مسانید و معاجم میں اس قسم کی کوئی روایت موجود ہے ۔

ر ایسا ہوتا تو عمر کی خالفت محکم کرنے کے لئے ضرور اہل یہاں پر جائے تعجب ہے کہ اگ

سنت کے علماء اپنی مشہور و معروف کتابوں میں تحریر فرماتے۔

اور یہ نا ممکن ہے کہ اتنے بڑے اور اہم واقعہ سے ان لوگوں نے غفلت کی ہو؟ پس معلوم ہوا

سانی سے اس واقعہ کو ہرگز نظر کہ اس طرح کے واقعہ کی کوئی بنیاد و اساس نہیں ہے۔ ورنہ اتنے ا

انداز نہ کرتے۔ اپنی اہم کتابوں صحاح و مسانید میناس واقعہ کو ضرور تحریر فرماتے۔

صاحب کنز العمال متقی ہندی تحریر فرماتے ہیں : جس وقت عمر نے حضرت علی ابن ابی

ہ السالم نے فرمایا طالب علیہ السالم سے ان کی لڑکی ام کلثوم سے خوستگاری کی تو حضرت علی علی

۹۲: ابھی وہ چھوٹی ہے اور میں اسے اپنے بھتیجے سے منسوب کر چکا ہوں ۔

ایک اور واقعہ

سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں پر بیان کرنا چاہتاہوں کہ “ ارشاد”مرحوم محقق شوشتری کی کتاب

حضرت علی علیہ السالم کی دو لڑکیوں کا نام

کبری جو فاطمہ زہرا سالم هللا علیہا سے تھیں اور دوسری ام کلثوم صغری جو ام کلثوم تھا۔ایک ام کلثوم

)ام ولد (کنیزکی لڑکی تھیں۔

اہل سنت والجماعت اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا کی بیٹی

وجائے ، سےسببی رشتہ ہملسو هيلع هللا ىلصتھیں جن سے عمر نے شادی کی درخواست کی تھی تاکہ عمر کا رسول خدا

لیکن تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السالم کی ایک دوسری لڑکی ام کلثوم نام کی تھیں ،

رخین کا کہنا ہے کہ جوجناب فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، اسی طرح بعض موٴ

--------------------------------

۶۳۱ص/ ۹۲۔کنز العمال ، ج/۹

ر لڑکیاں زینب صغری اور ام کلثوم صغری نام کی تھیں اور وہ دونوں علیہ السالم کی دواوی حضرت عل

۹۲ام ولد تھیں ۔

ابن قتیبہ نے بھی ام کلثوم کو صرف امام علی علیہ السالم کی لڑکی جانا ہے جو حضرت فاطمہ زہرا

۳۲علیہا السالم کے بطن سے نہیں تھیں ، کہتے ہیں : اس کی ماں ام ولد اور کنیز تھی ۔

لکھتے ہیں کہ زینب صغری کی کنیت ام کلثوم تھی جو فاطمہ زہرا سالم هللا “ شادار”صاحب

علیہا کی اوالد سے تھیں۔

شاید اسی وجہ سے مورخین نے اشتباہ کیا ہے کہ ام کلثوم کبری کی شادی عمر بن خطاب سے

ا ئے۔ہوئی ۔کیوں کہ دونوں ام کلثوم کے باہم مل جانے کی وجہ سے یہ اشتباہات وجود میں

--------------------------------

۔۳۳۲، ص ۳۔ نہایة االرب ج ۹۰۲۔نور االبصار ص ۹۶۔تاریخ موالید االئمة ص ۹

۔۹۱۱۔ابن قتیبة ؛المعارف ص ۳

ا یة هللا اعظمی مرعشی نجفی کا نظریہ

لڑکی کی تحقیق یہ ہے کہ ام کلثوم ابوبکر کی بیوی اسماء بنت عمیس کی ۺا یة هللا مرعشی نجفی

تھیں جن کی شادی عمر ابن خطاب سے ہوئی تھی ۔ابوبکر کے مرنے کے بعد اسما بنت عمیس نے

ذا یہ بچی بھی محمد ابن ابوبکر کی طرح حضرت علی حضرت علی علیہ السالم سے شادی کرلی ۔ لہ

خطاب علیہ السالم کے گھر ا ئی اور حضرت علی علیہ السالم کی تربیت میں پلی بڑهی بعد میں عمر بن

نے اس لڑکی سے شادی کر لی ۔

خالصہ واقعہ یہ تھا(جس کو لوگوں نے عمر کی اہمیت بڑهانے کے لئے ام کلثوم بنت علی )

۹۲علیہ السالم سے شہرت دے دی۔

--------------------------------

۔ڈاکٹر علی اکبر محسنی۱۱،ص/۳۔تاریخ تحلیل و سیاسی اسالم ج/۹

مختصر تنقیدی تبصرہ

:بنیادی اور اہم مطالب جو اس موقع پر بیان کئے جا نے کے قابل ہےں وہ یہ ہےںوہ

بعض روایات میں یہ داستان ائمہ معصومیں علیہم السالم سے اہل سنت کے راویوں سے نقل

ہوئی ہیں ۔ایسی روایتیں الطبقات ابن سعد، المستدرک حاکم ، السنن الکبری بیہقی اور الذریہ الطاہرہ میں

موجود ہےں ۔

:اس قسم کی روایتوں کے بارے میں ان باتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے

پہلی بات : اہل سنت کے اس قسم کی روایات اور احادیث کے مطالعہ اور تحقیق سے ہم اس

نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مخالفین اہلبیت علیہم السالم یا کچھ متعصب اہل سنت حضرات چاہتے ہیں کہ

اہلبیت علیہم السالم کی طرف منسوب کریں جوان کی شان کے خالف ہواور جس سے ان کی ایسی باتیں

شخصیت مجروح ہو ۔یہی وجہ ہے کہ ایسی باتیں کسی بھی معصوم علیہ السالم کی طرف نسبت دے کر

نقل کردیتے ہیں ۔

حضرت فاطمہ مثال جس وقت چاہا کہ رسول خدا صلی هللا علیہ و ا لہ و سلم و ان کی اکلوتی بیٹی

زہرا سالم هللا علیہا اور ان کے بال فصل خلیفہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السالم کی شخصیتوں کو

مجروح کریں اور ان پر اشکاالت واردکریں تو ابو جہل کی بیٹی سے حضرت علی علیہ السالم کی

ر دیا۔خواستگاری کی داستان کو جعل کر کے اہل بیت علیہم السالم کی طرف منسوب ک

صحابہ کو ” یا اسی طرح جس وقت چاہا کہ صحابہ کی فضیلت میں کوئی حدیث گڑهینتو

دے کر امام جعفر صادق علیہ السالم کی طرف منسوب کر کے جعل کر دیا۔“ ستاروں سے تشبیہ

کی داستان بھی ان ہی جعل شدہ روایتوں “جناب ام کلثوم کی شادی عمر سے” بالکل اسی طرح

س کی کوئی حقیقت نہیں ۔میں سے ہے ج

نور ایمان

عالی جناب خان بہادر موالنا مولوی خیرات احمد وکیل صاحب نے اپنی گراں بہا کتاب نور ایمان

:میں جناب ام کلثوم کی شادی کے بارے میں بحث کی ہے

:موصوف کا انداز تحریر اس طرح ہے

لیکن حضرت فاروق کو بڑا فخر یہ محی الدین: شہدائے کربال کے مدارج میں مجھے کالم نہیں

ہے کہ عالوہ اس کے کہ ا پ کی صاحبزادی حفصہ جناب سرور کائنات کے حرم میں داخل تھیں

سے ہوئی تھی اس لئے حضرت لایرحضرت فاروق کی شادی حضرت ام کلثوم بنت حضرت فاطمہ زہرا

فاروق کو خاندان نبوت سے دہرا توسل حاصل تھا ۔

علی رضا : نعوذ باہلل من ذلک، میں ایسے اتہام کو گالی گلوچ میں شمار کرتا ہوں ہرگز جناب ام

عمر کی نکاح میں نہ ا ئیں اور نہ ا سکتی تھیں اور نہ کوئی عقل سلیم لایرکلثوم بنت حضرت فاطمہ زہرا

ت سب کا اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ عمر ایسے ازخود رفتہ ہو گئے ہوں کہ دن سن اور فطر

خیال برطرف کرکے ایسے بے جوڑ ازواج کی طرف متوجہ ہوئے ہوں ۔ ہم لوگوں پر ا پ لوگوں کا بڑا

الزام یہ ہے کہ ہم لوگ عمر کو برا سمجھتے ہیں لیکن ا پ لوگ اس بات کو فرض کرکے عمر کی

اپنے وعدہ سے سیرت پر ایسا دهبہ لگاتے ہیں کہ اگر ہم اس کو زبان پر الئیں تو ا پ کہیں گے کہ ہم

منحرف ہو گئے اس لئے ہم یہ التماس کرتے ہیں کہ یا تو اس قصہ کو ترک کیجئے یا مجھے اجازت

دیجئے کہ میں بال نفسانیت ان الزاموں کو جو عمر پر عائد ہو تے ہیں بیان کروں ۔

ستعمال محی الدین : یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ا پ میرے پیشوا کے شان میں کوئی لفظ بے ادبانہ ا

کریں اور میں اس کو جائز رکھوں لیکن میں بحث

کو بھی ترک نہیں کر سکتا کیوں کہ اس سے حضرت فاروق کی بڑی

عظمت ثابت ہوتی ہے ۔

علی رضا :مجھے اس بحث سے ہر گز گریز نہیں اس لئے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ

شوہر بزرگوار کا درجہ تو بہت جناب حضرت سیدہ کا توسل ایک بڑی نعمت ہے تب خود حضرت کے

ہی اعلی ہو جاتا ہے ۔ لیکن انہی عمر نے ان دونوں بزرگوار وں کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ ایک کو

خانہ نشین کر دیا اور دوسرے کے کفن دفن تک میں شریک نہ ہوئے ۔ جیسا کہ ہم ا گے ثابت کریں گے

سی جرم کا مجرم قرار دیں تو بغیر اس مقام پر مجھے مشکل یہ ہے کہ جب ہم کسی شخص کو ک

استعمال اس لفظ کے کیوں کر الزام دے سکتے ہیں اسی گفتگو میں ا پ دیکھئے کہ ا پ کہتے ہیں کہ اس

واقعہ سے عمر کی بڑی عظمت ثابت ہوتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ اگر یہ واقعہ فرض کیا جائے تو

وں اب تم بتالؤ میں کیا کروں ۔۔۔۔ اگر اس لفظ کا بجائے عظمت کے عمر کی بڑی ۔۔۔۔بھائی میں مجبور ہ

استعمال کروں تو تم مجھ پر الزام دوگے کہ میں اپنے وعدہ تہذیب سے گزر گیا اور اگر اس لفظ کا

استعمال نہ کروں تو اپنے دعوی کیوں کر ثابت کروں ۔محی الدین نے دیر تک دل میں غور کی کہ

دوسرے شخص پر کسی بات کا الزام دهرنا چاہے تو بغیر واقعی یہ س ہے کہ اگر ایک شخص کسی

استعمال اس لفظ کے اپنے دعوے کو ثابت نہیں کر سکتا ۔اس لئے ۔۔۔

محی الدین : خیر تو میں تمھیں اجازت دیتا ہوں کہ اگر بال نفسانیت اور طعن و تشنیع تم اپنے

خیاالت کو ظاہر کرو گے تو میں برا نہ مانوں گا ۔

جزاک هللا ، میں بے قسم کہتا ہوں کہ مجھے مطلقا نفسانیت نہیں ہے اور نہ میں علی رضا :

طعن و تشنیع کو اچھا سمجھتا ہوں میں صرف ان نتائج کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جو اس واقعہ کے فرض

کرنے سے پیدا ہوتے ہیں میں کہنا چاہتا تھا کہ اگر یہ واقعہ مان لیا جائے تو بجائے عظمت کے عمرکی

بڑی بے عزتی اور سبکی ثابت ہوتی ہے ۔

محی الدین : کیوں کر

علی رضا : تم خود کہہ چکے ہو جیسا کہ واقعہ ہے کہ عمر کی بیٹی حفصہ حضرت رسول

کےحرم میں داخل تھیں اس لئے حضرت ام کلثوم حفصہ کی اپنی سوتیلی نواسی تھیں ، تب عمر کا ملسو هيلع هللا ىلصخدا

ی میں زوجہ بنانا ایسا مکروہ واقعہ ہے جو کسی شریف خاندان میں اپنی سوتیلی پر نواسی کو پیرانہ سال

ا ج تک سنا نہیں گیا اس لئے میں کہتا ہوں کہ اس بے جو ڑ بے قافیہ ازدواج سے کوئی مہذب ا دمی ایسا

نہ نکلے گا جو عمر کو نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھے تم خود غور کرو از ا دم تا این دم کون سا ایسا بے

بے غیرت گزرا ہے جس نے تین بیبیوں کے ہوتے ہوئے اپنی بیٹی کی نواسی سے ) سوتیلی ہی حیا اور

سہی ( یعنی پر نواسی سے جب کہ خود پیر فرتوت ہو اور جب کہ وہ لڑکی صغیر سن زمانہ رشد کو

بھی نہ پہنچی ہو شادی کی ہے یا ایسے بے جوڑ ازدواج کی خواہش کی ہے یہ بات بجائے خود اس قدر

ت انگیز ہے کہ اگر کسی شریف کی نسبت کہی جائے تو وہ اس کو سخت گالی سمجھ کر عجب نہیں نفر

کہ دست بہ قبضہ ہو اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ اگر کوئی شیعہ کہے کہ عمر نے اپنی پر پوتی

سے شادی کی تھی تو سارے سنی بھائی اس کو سخت تبرا سمجھ کر عجب نہیں کہ اس بیچارہ کو راہ

نے نہ دیں اگر چہ ایسی نسبت عمر کو ا پ کی اسی پر پوتی سے دی جائے جو ا پ کے مادر جلو چل

پوتے کی لڑکی ہو مثال فرض کیجئے کہ ابو شحمہ نے ایک عورت سے شادی کی تھی جس کے ساتھ

ایک لڑکا سابق شوہر سے ساتھ ا یا تھا وہ ابو شحمہ کو ابا کہتا ہوگا فرض کیجئے اس لڑکے کو ایک

کی پیدا ہوئی تو وہ عمر کو بوڑهے دادا ابا یا بڑے دادا ابا کہتی ہوگی ۔ اگر اس لڑکی سے عمر بحالت لڑ

صغیر سنی اس سے ازدواج کی خواہش کریں تو اس کو حضرات شرفاء اہل سنت و الجماعت کیا کہیں

کی نسبت یہ گے ۔ ہم عمر کو اچھا نہیں سمجھتے لیکن ایک بارگی ایسا برا بھی نہیں سمجھتے کہ ان

خیال کریں کہ انھوں نے اپنی پیرانہ سالی میں اپنی نواسی پر نظر ڈالی اور ایسی خالف فطرت خواہش

ظاہر کی ہو جو سوائے بہائم کے کسی مخلوق خدا نے کی ہے ا پ لوگوں کو اختیار ہے کہ مجرد

یشوا پر ایسا داغ حضرت علی علیہ السالم سے توسل ثابت کرنے کے لئے ایسی بات بنائے اور اپنے پ

لگایئے جس سے دنیا بھر کے کل شریف النفس لوگ ان سے نفرت کریں ۔

محی الدین : مگر حضرت فاروق کی یہ خواہش جب خالف شرع نہ تھی ، تب ہم کو کچھ تردد

نہیں ۔ اگر ساری دنیا کے ا دمی اس کو برا سمجھے ۔ دنیا کے لوگ تو ہماری شریعت ہی کو برا

سمجھتے ہیں ۔

علی رضا :بھئی تمھیں وهللا ، دنیا بھر کے لوگوں کو جانے دو ۔ تم خود کہو کہ تمھارے نزدیک

یہ بات خالف فطرت اور خالف طریقہ شرفا ہر قوم و قبیلہ معلوم ہوتی ہے یا نہیں ؟ اور یہ جو کہتے ہو

ت ہی کو لوگ کہ جب شریعت میں جائز ہے تو ہم کو لوگوں کے طعن و طنز کی کیا پروا ۔ ہماری شریع

برا کہتے ہیں ۔ یہ بالکل غلط ہے ۔ اور یہ سمجھ کا پھیر ہے جو میں کہہ رہا ہوں ہر گز خالف شرع نہیں

ہے اور نہ ہماری شریعت نفرت انگیز ہے ۔ ہماری شریعت نے تہذیب اور اخالق اور فطرت کا بہت

خیال رکھا ہے ۔

ن میں صرف محرمات کا یعنی ان عورتوں ایک یہی مسئلہ ازدواج کا ہے ۔ کہ حق تعالی نے قرا

کا بیان فرمادیا ہے جس سے نکاح حرام ہے اور اس امر کو کہ غیر محرم میں کس سے شادی کرنا

چاہئے ۔ اور کس سے نہ چاہئے ۔ بالکل اپنی مخلوقات کی مصلحت اور فریقین کی رضا مندی پر چھوڑ

سن حیثیت ذاتی و صفاتی کا ضرور خیال دیاہے ۔ بیبیاناور مصلحت وقت میں ہر شخص فطرت ۔ دن

کرتا ہے ۔ اور چوں کہ ازدواج سے تو الد و تناسل اور ا رام و راحب و صلح خاندان مراد ہے ۔ اس لئے

بے ضرورت اور بے جوڑ شادیوں سے جس سے زن و شوہر میں یا سوتنوں میں جنگ و جدال ہوا کر

نے قرا ن میں پاک میں فرماتا ہے ۔ >فانکحوا ما طاب لکم ے ۔ اشارة منع کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ حق تعالی

ث و رباع فان خفتم ان ال تعدلوا فواحد <یعنی تمھیں اختیار ہے کہ نکاح کرو ، دو ، تین ، چار مثنی و ثل

)عورتوں سے ( لیکن اگر تمھیں خوف ہو کہ ان کے درمیان عدل نہ کر سکو گے تو صرف ایک سے )

(نکاح کرو

ثابت ہے کہ بوقت وفات عمر کے ان کی تین بیبیاں موجود تھیں اور کہا جاتا ہے کہ تواریخ سے

عمر نے دو برس قبل وفات اپنی نکاح کیا تھا ۔ اس لئے بوقت نکاح بیانیہ کلثوم کے تین بیبیاں حضرت

کی موجود تھیں ۔ اور اس وقت ا پ کا سن ساٹھ برس کے قریب تھا ۔ تب یہ بات قابل غور ہے کہ

ت نے کیا سمجھ کر ایسا حوصلہ کیا ہوگا ۔ کہ ساٹھویں برس کی عمر میں ا پ تین بیبیوں کے حضر

عالوہ ایک لڑکی صغیر سن کے ساتھ عدل کر سکیں گے ، اس لئے میرا دل قبول نہیں کرتا کہ عمر نے

جو خلیفہ وقت تھے اور جو غالبا اس ا یت قرا نی سے واقف ہوں گے ۔ اپنی صغیرسن پر نواسی سے

ساٹھ برس کی عمر میں تین بیبیوں کے ہوتے ہوئے نکاح کرنے کو عدل سمجھا ہو۔

محی الدین : ا پ اصل حقیقت کو نہیں جانتے ۔ عمر نے یہ عقد اپنے حظ نفس کے لئے نہیں کیا

تھا ۔ بلکہ حضرت نے یہ عقد خاندان رسالت سے سے توسل حاصل کرنے کے لئے کیا تھا جیسا کہ شیخ

مالی حاجة الی النساء و لکن اتبعنی الوسیلة ” ے عمر کا قول لکھا ہے ۔ کہ عمر نے فرمایا : شہاب الدین ن

یعنی مجھے عورت کی حاجت نہیں ہے میں فقط وسیلہ طرف حضرت “ الی محمد علیہ السالم

کے چاہتا ہوں ۔ملسو هيلع هللا ىلصمحمد

ر سن علی رضا: یہ تو اور مہمل ہے یعنی جب عدل کرنے کی صالحیت نہ ہو۔ تو ایک صغی

لڑکی کی راہ روکنے اور اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر شوہر کی حیات کے دن گننے کے لئے یا اپنے

الش پر بین کرنے کے لئے اپنے گھر میں النا ہر گز داخل محبت نہیں ۔ بلکہ داخل عداوت ہے کیوں کہ

رام و راحت کے اس ازدواج سے تو ا ئے دن خلش اور رنجش بڑهتی رہے گی اور خاندان میں بجائے ا

ہزار طرح کی بے تکلفی اور بے عنوانی رہا کرے گی کیوں کہ تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ جب بے

جوڑ شادی ہوتی ہے تو زن و شوہر کے اوقات تلخ کٹتے ہیں اور اگر اس گھر میں پہلے سے اور بھی

طے حصول وسیلہ کے ایک بیبیاں موجود رہتی ہیں تو وہاں رات دن چھگڑا پھیال رہتا ہے اور مجرد واس

صغیر سن لڑکی کی راہ روکنی تو ایسی ہے جیسی ایک نقل مشہور ہے یعنی ا فریدیوں کے ملک میں

ایک پیر میاں گئے ۔ اور ہزاروں ا فریدیوں کو اپنا مرید کیا اور وہ لوگ حضرت کے بڑے بڑے معتقد ہو

قصد کیا ۔ تو ا فریدیوں نے کہا کہ گئے ۔ جب ایک برس کے بعد پیر میاں نے اپنے وطن واپس ا نے کا

ایسے بزرگ کا قدم جب یہاں سے چال جائے گا تو ساری خیر و برکت جاتی رہے گی یہ سوچ کر ان

لوگوں نے ) بات کیا تھی ( پیر میاں کو قتل کر ڈاال اور بعدہ ان کا مقبرہ عالیشان تیار کیا جس میں ہر

!!!سال بڑی دهوم دهام سے ان کا عرس کرنے لگے

یہ قصہ صحیح ہو یا خیالی ہو یہاں پر مثال کے لئے نہایت مماثل ہے ۔ اور یہ جو کہتے ہو کہ

کے کی تھی یہ تو بالکل ملسو هيلع هللا ىلصعمر نے یہ شادی صرف بہ نظر حصول توسل ساتھ جناب رسالت ما ب

تحصیل حاصل ہے ۔ تم خود کہتے ہو کہ ا پ کو یہ شرف حاصل تھا کہ ا پ کی بیٹی حفصہ جناب رسول

کے حرم میں داخل تھیں تب پھر کون سی ایسی ضرورت ال حق ہوئی کہ حضرت عمر نے اپنی ملسو هيلع هللا ىلصبولمق

پیرانہ سالی میں اس تحصیل حاصل مقصد کا قصد کیا اور ایک کم سن لڑکی کے بیوہ بنانے پر تل گئے

اس کا نباہ اور اتنا بھی خیال نہ کیا کہ تین بیبیاں تو گھر میں موجود ہیں ۔ وہ چوتھی لڑکی جو ا ئے گی

کیوں کر ہوگا اور اس کے ساتھ کیو ں کر عدل کر سکوں گا اور اگر یہ کہ عمر کو اس تقرب یا وسیلہ کا

بطور قند مکرر استحکام مقصود تھا تو یہ امر بعنوان احسن نہایت معقول طریقے سے موافق طریقہ

جناب رسول مقبوک کے دو شرفا ہر قوم و قبیلہ انجام پا سکتا تھا یعنی اس وقت خدا کے فضل سے

فرزندان یعنی حضرت امام حسن اور امام حسین علیہما السالم جو سرداران جوانان بہشت تھے موجود

تھے ۔ عمر اپنی بیٹی یا پوتی ان شہزادوں میں سے کسی کو یا دونوں کو دیتے جس سے دوہرا تہرا

سیادت ا پ کے خاندان میں ا تی اور توسل ا پ کو خاندان رسالت سے حاصل ہوتا ۔ نسل کی ترقی ہوتی ۔

یہ وسیلہ قیامت تک قائم رہتا ایسا نہ کرکے خود ا پ کا بعالم پیری ایک صغیر سن پر نواسی سے شادی

کرنا میرے نزدیک صرف خالف فطرت اور بے جوڑ شادی کی خواہش کی ہو جس سے دنیا بھر کے

یں تو اتنا تو سوچو کہ اگر نعوذ باہلل یہ لوگ ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھیں ۔ خدا کے لئے کچھ نہ

واقعہ س ہے تو کیسا معلوم ہوتا ہوگا کہ ہر صبح کو حفصہ جناب ام کلثوم کو کہتی ہوں گی السالم

علیک یا امی و بنت بنتی و ام کلثوم اور اس کے جواب میں جناب ام کلثوم کہتی ہوں گی و علیک السالم

پنی زبان میں جناب ام کلثوم کو میری نواسی اماں اور جناب ام یا بنتی و ام امی حفصہ یعنی حفصہ ا

کلثوم حفصہ کو میری بیٹی نانی کہتی ہوں گی ۔ ال حول وال قوة اال با ہلل ۔ واضح ہو کہ بی بی حفصہ

کی خالفت تک زندہ تھیں دیکھو حافظ عبد الرحمن صاحب کی کتاب المرتضی ، ص/ لایرحضرت علی

۔۱۴

جس میں ا پ نے عالوہ “ الفاروق”مجھے تعجب ہے کہ جناب شبلی صاحب نے اپنی کتاب

تصنیف و تالیف کے مضمون ا فرینی کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ہے اور جس کی تالیف میں جناب کو

ویسی کاوش کرنی ہوئی ہوگی جیسی شعرا کو بہ زمانہ مشاعرہ غزل طرح و غیر طرح کہنے میں ہوتی

ر جس میں ا پ نے فاروق کو دنیا بھر کے اعلی طبقہ کا مہذب اور تعلیم یافتہ ہیرو بنایا ہے یہ داغ ہے او

حضرت پر کیوں رہنے دیا اور ایسے مکروہ اور مہمل قصہ کو اپنی کتاب میں درج کرکے اپنے ہیرو

بنا دیا ۔ کو اچھے اور شریف النفس لوگوں کے نزدیک ایک بے حیا اور بے غیرت حرصی ا دمی کیوں

جناب موالنا شبلی صاحب سے دور اندیش مصنف کا جو سر سید کے اسکول کے تعلیم یافتہ ہیں ۔ اور

برس کی عمر میں ۱۱جو ہر بات میں فطرت کا دم بھرتے ہیں ۔ اپنے ہیرو پر یہ داغ لگانا کہ انھوں نے

خواہش کی تھی ۔ محل تین بیبیوں کے رہتے ہوئے اپی بیٹی کی صغیر سن سوتیلی نواسی سے بیاہ کی

تعجب ہے ۔ غالبا جناب مصنف نے اس پہلو کو خیال نہ کیا اور نا فہم مولویوں کے فقرے میں ا کر اس

جنجال میں پڑ گئے میں دعوی سے کہتا ہوں کہ جناب موالنا شبلی صاحب دنیا کی تواریخ دیکھ کر

ا قبیلہ شریف یا رذیل میں ایسا فرمائیں کہ حضرت ا دم سے لے کر اس وقت تک کوئی شخص کسی قوم ی

بے حیا بے غیرت ۔ ذلیل بشر گزرا ہے جس نے اپنے ساٹھویں برس کی عمر میں کئی بی بیوں کے

رہتے ہوئے اپنی سوتیلی پر نواسی سے بحالت صغر سنی شادی کی ہے ؟اگر تواریخ سے موالنا ایک

کو دیا گیا ہے وہ بے مثال نہیں ہے ۔ میں بھی مثال نکال دیں تو البتہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو الزام عمر

نے تو ا ج تک نہ سنا کہ کوئی سسرا اپنے داماد کا نواسی داماد ہوا ہو۔

محی الدین : یہ سب قیاسات ایک طرف ہیں ۔ اور واقعہ ایک طرف ہے ا پ یہ تو فرمایئے کہ

روایات متواترات کو ا پ کیوں کر باطل کر سکتے ہیں۔

و ایسا مکروہ اور ناگفتہ بہ ہے کہ اگر نعوذ باہلل بقول علمائے اہل سنت علی رضا :یہ قصہ ت

جماعت کے صحیح مان لیا جائے تو دو بڑے رکن اسالم کی سیرت پر ایسا داغ ا تا ہے اور ان کی ایسی

توہین اور تذلیل ہوتی ہے کہ جو شخص سنے گا وہ ان کے کیریکٹر ) سیرت ( سے انتہا کی نفرت کرے

واقعی تم اس مکروہ قصے پر زور دینا چاہتے ہو ۔ تو پہلے یہ مان لو کہ عمر ایک بڑے بے گا پس اگر

حیا اور بے غیرت حرصی شخص تھے ۔ اور اپنے اپنی پیرانہ سالی میں ایک ایسے کام کی خواہش کی

ث جو از ا دم تا ایندم کسی شریف کیا معنی کسی رذیل تک نے نہ کی تھی اور اگر تمھارے علماء اس بح

پر تل جائیں تو وهللا رنگ تقریر عجب نراال اور نہات دل چسپ ہوگا اور غیر مذہب والوں کے لئے تو یہ

بحث نقل محفل ہوگی یعنی حضرات سنت جماعت جو عمر کو اعتقادا برا عالی وقار عالیشان عالی خیال ۔

حضرت موصوف پاکیزہ خیال سمجھتے ہیں اس بات کے ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ واقعتا

بڑے بیحیا اور بے غیرت تھے اور ایسے سفیہہ النفس تھے کہ جس لڑکی کو ان کی اپنی بیٹی نواسی

!!کہتی تھی اس سے بعمر شصت سالگی شادی کی خواہش تھی ۔ چھی چھی !! توبہ توبہ

اور شیعہ لوگ جن پر تبرائی ہونے کا الزام ہے وہ اس بات کے ثابت کرنے کی کوشش کریں

ہ عمر ایسے برے اور سفیہہ النفس نہ تھے : فاعتبروا یا اولی االبصار !! برائے خداتم خود غور گے ک

کرو کہ اگر اس وقت کوئی بوڑها جوالہے ڈهینے کی قوم کا بھی پیرانہ سالی میں اپنی بیٹی کی نواسی

ر ڈالیں سے ) سوتیلی ہی سہی ( شادی کی خواہش کرے تو اس کی برادری والے بوڑهے کی کیا گت ک

گے ؟

بس ایسے مکروہ قصہ کے لئے عقال سنت جماعت کا )مولوی صاحبان سے مجھے بحث نہیں (

اپنی کتاب کے صفحات کو سیاہ کرنا میری سمجھ سے باہر ہے ۔

غور تو کرو ۔ کہ اگر نعوذ باہلل یہ قصہ س ہے تو حفصہ نے اپنے پدر بزرگوار کے اس ارادے

۔ ہندوستان کی بیٹیاں تو فورا بول اٹھیں گی ۔ باوا دیوانے کیا ہو گئے ہیں ؟ کی خبر سن کر کیا کہا ہوگا

!!!میری نواسی سے ان کو شادی کرتے ہوئے کچھ بھی حیا ا تی ہے

میں نے اہل عرب سے اسے عام طریقہ سے دریافت کیا ہے ۔ وہ لوگ بھی ایسے ازدواج کی

گ سمجھتے ہیں ۔ تمھارا جی چاہے تو کسی مرد خواہش کو ویسا ہی مکروہ سمجھتے ہیں جیسا کہ ہم لو

عرب سے جس نے دو شادیاں کی ہوں اور جس کو پہلی زوجہ سے نواسی ہو ۔ پوچھ کر دیکھو ۔ کہ

تمھاری نواسی سے تمھارے خسر صاحب یعنی محل ثانیہ کے باپ اپنی پیرانہ سالی میں شادی کرنا

رد عرب کا چہرہ کیسا سرخ ہو جاتا ہے اور تم کو چاہتے ہیں تم کیا کہتے ہو ؟ پھر دیکھو تو کہ اس م

کیسی سناتا ہے خیر بات یہ ہے کہ یہ قصہ ہی محض غلط اور لغو اور مہمل ہے ۔ ا پ کی کتابوں میں

اس بے جوڑ بے قافیہ شادی کا حال جس میں لڑکا کا ساٹھ برس کا بوڑها اور لڑکی چار پان برس کی

ہے ۔ دختر نا بالغہ ہے یوں بیان کیا گیا

ان عمر بن الخطاب خطب علیا بنتہ ام کلثوم فذکرلہ صغر ها فیقل لہ انہ ردک لغاوروہ فقال لہ علی ”

ابعت بھا الیک فان رضت فھی امراتک فارسل الیہ فکشف عن ساقھا فقالت لہ لو ال انت امیر المومنین

“للمعت عینک

کی خواستگاری کی ، تو یعنی عمر ابن خطاب نے حضرت علی علیہ السالم سے ام کلثوم

حضرت نے اس کی صغر سنی کا عذر کیا تب لوگوں نے کہا کہ جناب امیر نے تمھاری بات اٹھا دی ۔

تب عمر نے پھر خواستگاری کی اس پر جناب امیر نے اس لڑکی کو ان کے پاس بھیج دیا اور کہا کہ

تو عمر نے اس کی ساق اگر یہ راضی ہو جائے تو یہ تمھاری عورت ہے جب وہ لڑکی وہاں پہنچی

کھولی ۔ اس لڑکی نے کہا کہ اگر تو امیر المومنین نہ ہوتا تو میں تمھاری ا نکھ پر طمانچے مارتی ۔

دیکھو کتاب استیعاب اور کتاب مناقب السادات میں شیخ شہاب الدین دولت ا بادی نے باب ششم شرح

خصاف سے لکھا ہے ۔

ال انھا صغیرة فقال مالی حاجة الی النساء و لکن اتبعنی الوسیلة لما خطب عمر ام کلثوم واعتذر علی و ق”

الی محمد علیہ السالم و ہو یقول کل سبب و نسب ینقطع بالموت اال سببی و نسبی فزوجھا علی اباہ لمھرار

بعین الف درهما فساق ذالک الی عمر و هی ابنة اربع الی خمس فجعلھا عمر الی جنبة فرفھا میززها و

ہ علی راسھا فجرد ساقھا فرفھعت ها و کارت ان تلطمہ و قالت لو ال انت امیر المومنین للصمت مسح ید

“علی خدک فقال عمر رعوها فانھا ہاشمیہ قریشیة

یعنی جب عمر نے ام کلثوم کی خواستگاری کی اور حضرت علی علیہ السالم نے یہ عذر کیا کہ

کے چاہتا ہوں ملسو هيلع هللا ىلصں ہے لیکن میں وسیلہ طرف محمدوہ صغیرہ ہے تو کہا کہ مجھے حاجت عورت کی نہی

۔ کیوں کہ حضرت نے فرمایا ہے کہ کل نسب اور سبب بعد موت کے قطع ہو جاتے ہیں اال میرا نسب

اور سبب تب علی نے چالیس ہزار درہم پر اس کا عقد کر دیا کہ جس وقت اس کا چار پان برس تھا تب

اس کی چادر سر سے اتاری اور اپنا ہاتھ اس کے ماتھے پر بٹھایا عمر نے اس کو اپنے پہلو میں اور

پھیرا اور ساق پا کو اس کے کھوال تب اس لڑکی نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور قریب تھا کہ خلیفہ کے منہ پر

طمانچہ مارے اور کہا کہ اگر تو امیر المومنین نہ ہوتا ۔ تو میں تیرے منہ پر طمانچے مارتی ۔ تب عمر

و واپس کرو کیوں کہ یہ زن ہاشمیہ قرشیہ ہے ۔نے کہا کہ اس ک

بھئی محی الدین ذرا غور کرو کہ اس وقت جناب شہنشاہ جاپان تحقیقات مذہب فرما رہے ہیں ۔

اور اصول اسالم کو پسند فرما کر یہ کہیں لایراگر موصوف الیہ سیرت و اخالق محمدیو تہذیب مرتضوی

ان کا وزیر اعظم بوده مذہب واال یہ بول اٹھے کہ ۔ کہ بیشک اسالم سب سے اچھا مذہب ہے اور اس

حضور یہ کیا فرماتے ہیں اسالم تو ایسا میال مذہب ہے کہ ایک بڑا رکن اسالم جو محمدصاحب کا بڑا

عالی شان نائب سمجھا جاتا ہے اس نے ساٹھ برس کے سن میں تین بیبیوں کے ہوتے ہوئے اپنی بیٹی کی

ے ساتھ عالنیہ ایسی حرکت کی تھی جو کوئی شریف نہینکرتا اور نواسی سے شادی کی تھی اور اس ک

اس لئے اس لڑکی نے اس کے منہ پر طمانچے مارنے کا قصد کیا تھا اور دوسرے رکن اسالم نے

)عیاذباہلل (اپنی بیٹی کو بازاری سودے کی طرح بطور نمونہ کے اس کے پاس بھیج دیا تھا تو شہنشاہ

گی ۔ اگر شہنشاہ جاپان نے علمائے سنت جماعت سے یہ سوال کیا کہ میرا جاپان کے دل کی کیا حالت ہو

وزیر جو بولتا ہے س ہے اور اگر س ہے تو انسان کی تواریخ میں کسی ملت اور مذہب میں اس کی

مثال مل سکتی ہے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ ان حضرات کا کیا عالم ہوگا اور اس سوال کے جواب میں

۔خدا سمجھے ان راویوں سے جنھوں نے ایسے ایسے واہیات اور مہمل قصے گڑه کر کیسا فشار ہوگا

اسالم کو محض بے ا برو اور شرم ناک رنگ میں دکھا کر ڈبو دیا ہے ۔ اور ایسے پاک مذہب کو محض

میال اور نفرت انگیز جامہ پہنایا ہے اور ہمارے ا قا گوہر درج شرافت اور قمر برج سیادت امیر المومنین

مام المتقین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السالم کو نعوذ باہلل ایسا بغیرت اور بے شرم دکھایا ہے کہ ا

اس برگیزدہ خدا نے اپنی بیٹی صاحب تطہیر کو نعوذ باہلل بطور نمونہ کے بھیج دیا اور وہ بھی ایسے

ہے ایک شخص کے پاس جس کی صورت سے ا پ کو نفرت تھی ، جیسا کہ صحیح مسلم میں لکھا

مرتبہ جب ابو بکر نے حضرت علی علیہ السالم کے پاس ا نے کی خواہش کی تھی تو حضرت علی علیہ

السالم نے بوجہ کراہت حضوری عمر کے کہال بھیجا کہ ا پ تنہا ا ئیں تو مضائقہ نہیں لیکن کو ئی دوسرا

کا ا دمی بھی اس کو مان ا پ کے ساتھ نہ ا ئے الغرض یہ قصہ اس قدر مہمل ہے کہ کوئی معمولی عقل

نہیں سکتا اور مسلمان کے لئے تو ایسی بات کا ماننا خلفائے راشدین کی سیرت پر داغ لگانا ہے ۔

ہونا غیر ممکن ہوتا لایرباعتبار واقعات کے بھی ان روایات سے اس لڑکی کا بنت فاطمہ زہرا

هء کے اندر بیان کیا جاتا ہے اور صاحب مواقف لکھتے ہیں کہ ۳۰هء سے ۹۱ہے اس لئے کہ یہ واقعہ

جب جناب فاطمہ زہرا نے باغ فدک کا دعوی کی تھا تو حضرت ام کلثوم نے گواہی دی تھی اس لئے اگر

بوقت انتقال جناب فاطمہ زہرا سالم هللا علیہا کی سن حضرت ام کلثوم کا نو سے پان برس کا بھی فرض

س زمانہ خالفت خلیفہ اول اور چھ ساتھ برس زمانہ خالفت خلیفہ ثانی اس پر اضافہ کیا جائے اور دو بر

کیا جائے تو اس وقت سن ان معظمہ کا چودہ برس سے اٹھارہ برس تک ہوتا ہے تب یہ بات کہ ایسی

لڑکی کو جناب امیر نے بطور نمونہ بھیج دیا تھا اور اس لڑکی کے ساتھ حضرت فاروق نے بقول بعض

نکاح ویسی حرکت کی تھی جو مذکور ہوئی اور یہ حرکت ا پ نے بحالت صحت ذات و ثبات عقل قبل از

ایسی عالنیہ اور بے محابا کی لوگوں نے دیکھا اور کتابوں میں لکھا کس قدر مہمل اور خالف عقل اور

سا کہ قیاس معلوم ہوتی ہے اور اگر سن اس لڑکی کا وقت نکاح چار یا پان برس کا فرض کیا جائے جی

حضرات سنت جماعت کی کتابوں میں لکھا ہے تو اسی وقت یہ قصہ فیصل ہے کیوں کہ جناب حضرت

ه ء میں چار یا پان برس کی ہوگی وہ ۹۱هء میں وفات پائی ہے تب جو لڑکی ۹۹نے لایرفاطمہ زہرا

بنت فاطمہ سن بارہ یا تیرا میں یعنی دو ایک برس بعد وفات جناب سیدہ کے پیدا ہوئی ہوگی اس لئے وہ

ہو نہیں سکتی ۔

المختصر جب متاخرین فرقہ سنت جماعت نے غور فرمایا کہ کوئی بیٹی جناب فاطمہ زہرا

کی دو برس قبل از وفات حضرت فاروق کے صغیر سن ہو نہیں سکتی تب اس راہ سے کترا کر لایر

تھا جس کا نام زید بن ایک دوسرا قصہ گڑها یعنی یہ لکھ دیا کہ ام کلثوم سے عمر کو ایک لڑکا پیدا ہوا

عمر تھا مگر خیریت یہ ہے کہ اس کے ساتھ یہ لکھ دیا کہ زید بن عمر مع اپنی مادر ام کلثوم کے زمانہ

اور عبد هللا ابن لایرخالفت معاویہ میں مر گیا اور دونوں ماں بیٹے کی نماز جنازہ حضرت امام حسین

داء سے و تحریر و شہادتین وغیرہ سے عمر نے پڑهائی لیکن متواترات سے یعنی کتاب روضة الشہ

مارکہ کربال میں ساتھ اپنے برادر بزرگوار لایرثابت ہے کہ جناب ام کلثوم بنت جناب فاطمہ زہرا

حضرت امام حسین علیہ السالم کے موجود تھیں اور بعد شہادت حضرت امام حسین علیہ السالم کے

تشریف الئیں اور اپنے شہید بھائی کی عزاداری اسیر ہو کر کوفہ و شام میں گئیں اور بعد رہائی مدینہ

کی اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو ام کلثوم زوجہ عمر فاروق تھیں وہ ہرگز بنت فاطمہ زہرا نہ تھیں

حضرات مصنفین نے ایک نام ہونے کی وجہ سے ایسا دهوکہ کھایا ہے اور اس غلط بنیاد پر ایک

م نعوذ باہلل زوجہ خلیفہ ثانی ہوتیں تو ابن زیاد و یزید عمارت بے سقف جدار قائم کی ہے اگر یہ ام کلثو

بے پاس خاطر خلیفہ دوم کچھ نہ کچھ ان کا احترام ضرور کرتے اور کم سے کم مصنفین اور مورخین

کے کچھ نہ کچھ اس لایرواسطہ دکھالنے اتحاد و ہمدردی درمیان خاندان خلیفہ ثانی و اہل بیت طاہرین

یا مورخ یا مصنف نے کسی کتاب میں ایسا نہیں لکھا ہے کہ کوئی تذکرہ فرماتے مگر کسی محدث

زوجہ خلیفہ ثانی کی مارکہ کربال میں موجود تھیں یا اسیر ہوئیں ۔ الغرض یہ قصہ عقال و نقال شرفا و

شرعا بالکل بے سر و پا اور بے بنیاد ہے ۔

پہلے حضرت واقعہ صرف اسی قدر ہے کہ ایک عورت اسما بنت عمیس تھیں جس کا نکاح

جعفر طیار سے ہوا تھا بعد ابو بکر کے نکاح میں ا ئیں اور ان سے اس عورت کو ایک لڑکی ام کلثوم

پیدا ہوئی اور تب اسما بنت عمیس مذکورہ جناب امیر کے نکاح میں ا ئیں اور ام کلثوم دختر ابو بکر بھی

نے باپ کی بیٹی کا بھی حضرت علی اپنی ماں کی ساتھ جناب امیر کے گھر میں ا ئیں لیکن عائشہ کو اپ

کے گھر میں رہنا نا گوار ہوا اس لئے ا پ نے عمر خلیفہ وقت کے ذریعہ سے اس کو طلب کرایا لایر

جناب امیر اس لڑکی کے جانے پر بھی راضی نہ تھے مگر جب حضرت عباس نے سمجھایا کہ ایسی

نے اس لڑکی کو خلیفہ لایرچھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے قصہ طول کرنا بیکار ہے تو حضرت علی

ثانی کے پاس بھیج دیا چنانچہ حسب نقل بعض متکلمین کہ مصنف کتاب بوارق نے بسند کتاب استیعاب و

کنز االعمال اس حکایت کو یوں لکھا ہے ۔

ام کلثوم دختر ابو بکر بود مادرش اسما بنت عمیس کہ اوال زن جعفر طیار بود باز بہ نکاح ابو ”

در ا مد لایران نام پسر و دختر ام کلثوم نام زائیدہ بعد از ا ن بہ نکاح علی ابن ابی طالب بکر ا مد عبد الرحم

“ام کلثوم ہمراہ مادر ا مدہ عمر ابن خطاب بہ ام کلثوم دختر ابو بکر نکاح کرد

ہر چند نکاح کرنا عمر کا اس لڑکی سے بھی خالف قیاس معلوم ہوتا ہے لیکن واقعہ اسی قدر

و عمر نے منگوایا تھا اور اسی کو طوعا و کرہا جناب امیر نے خلیفہ ثانی کے پاس ہے کہ اس لڑکی ک

بھیجا تھا ، لیکن چوں کہ اس لڑکی کا نام بھی ام کلثوم تھا اس لئے یاروں نے اس پر خوب طبع ا زمائیاں

کہ اور خامہ فرسائیاں کیں اور خوب بے پر کی اڑائی اب میں تم سے پوچھتا ہوں کہ خود غور کروں

تمھارے نزدیک ایا یہ قصہ قرین عقل و قیاس معلوم ہوتا ہے یا وہ قصہ جو تمھاری کتابوں میں مذکور

ہے ۔ اور جس سے دو خلفائے عالی جاہ کی انتہا درجہ کی توہین و تذلیل ہوتی ہے اور دونوں کی

سیرتوں پر بڑا دهبہ ا تا ہے ۔

یخی ہے اس کو میں اپنے علماء سے دریافت محی الدین : یہ امر متعلق بہ تحقیقات واقعات تار

کروں گا

اہل سنت رویات پر تبصرہ اور تنقید

آرہی ہے، وہ سنت کے درمیان قدیم زمانےسے هوتی اهل جو شیعه اور سے متعلق ایک اہم بحث خلفا

اس کے سے شادی واال مسئلہ ہے۔ کی عمربن خطاب خلیفہ دوم 1ام کلثوم دختر علی بن ابی طالب

علی الخصوص اهل سنت حضرات اس مسئلے بارے میں فریقین کے درمیان طویل بحث ہوتی رہی ہے،

ہیں، اور ایک خلیفہ کے فضائل میں سے شمار کرتے کو بڑے فخر کے ساتھ نقل کرتے اور اس کو

فریق اس کا قائل ہے دوسرا اس سے انکار کرتا ہے۔

در اصل یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے کہ تعصب سے باالتر ہوکر تاریخی نگاہ سے اس کو ثابت یا نفی کرنا

ی ہونے کے باوجود چند دیگر مسائل کی طرح اس کو بھی چاہئے، لیکن اس بحث کی حیثیت تاریخ

میں کچھ اس داستان کے بارے ذیل میں اعتقادی مسائل کے عنوان سے بھی ذکر کیا جاتا ہے،

معروضات پیش کرینگے۔

اس داستان کی حیثیت

ت سے جیسا کہ بیان ہوا یہ داستان ایک تاریخی بحث ہے، لیکن علماء نے اس واقعے سے مربوط روایا

مختصر وضاحت کریں بعض فقہی مسائل کو ثابت کرنے کےلئے استفادہ کیا ہے۔ ذیل میں ہم اس کی

گے۔

الف( روایات اهل سنت

میں بقیہ کے بہ نسبت زیادہ نقل ابواب اهل سنت کی کتابوں میں اس داستان سے متعلق روایات، دو

ہوئی ہے۔

باب ارث -7

دونوں، ایک ہی واقعہ میں مارے گئے اور کلثوم اور اس کا فرزند زید اہل سنت روایات کے مطابق، ام

فقہی مسئلے کو ثابت کیا ہے کہ معلوم نہ ہوسکا کہ کون پہلے چل بسا، ان روایات سے انہوں نے ایک

مرا ہے تو مرنے والوں کو کہ کون پہلے اگر اس جیسا واقعہ کہیں پیش آئے اور معلوم نہ ہوسکے

ارث نہی ملےگا۔ایک دوسرے سے

باب صالۂ الجنائز -2

اسی طرح باب صالہ الجنائز میں آئی ہے کہ زید اور ام کلثوم دونوں کے جنازے کو امام کے سامنے

جنازہ اداکی گئی اور چار تکبیروں پر اکتفا کی گئی ، اس ایک ہی نماز دونوں کے اوپر رکھا گیا اور

کافی ہے۔ یریں اور چار تکب ایک نماز روایت سے انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ کئی میتوں پر

ب( روایات امامیہ

اہل سنت کی طرح مذہب امامیہ کی بھی بعض فقہی کتابوں میں اس واقعے کا تذکرہ ملتا ہے، باب عدہ

اپنی بیٹی ام کلثوم 1افات میں نقل ہوا ہے کہ عمربن خطاب کے مارے جانے کے فورا بعد امیرالمؤمنین

یہ ثابت کیا ہے کہ دوران عدہ وفات بیوی کے اوپر کو اپنے گھر لے گئے، اس روایت سے فقہاء نے

ضرور شوہر کے گھر ٹھہڑے ، بلکہ کسی اور جگہ بھی چاہے تو عدہ گزار سکتی ہے۔ واجب نہیں کہ

اس داستان کی تاریخی حیثیت

ئے گا کہ اس ہے، چنانچہ آگے چل کر واضح ہو جا تاریخی حیثیت سے یہ داستان فرضی اور خیالی

کافی تضاد پایا جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے اصل واقعہ ہی مشکوک ہو جاتا ہے اگر چہ واقعے میں

مقصود نہی ہے، اس کو نفی یا اثبات کرنا ہما را فی الحال

بارے اس عالوہ باقی اس دوم کے فضائل گنوانا ہے، اس داستان کو ذکر کرنے کا مقصد صرف خلیفہ

قت سے عاری ہے، لہذا تاریخی لحاظ سے یہ واقعہ کسی بھی میں نقل ہونے والی اکثر روایات حقی

صورت قابل قبول نہی ہے۔

اس داستان کے پرچار کرنے کا مقصد

اہل سنت حضرات اس واقعے کے زریعہ درج ذیل باتوں کو اپنے حق میں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

کے خلفاء کے ساتھ دوستانہ تعلقات 3الف( حضرت علی

اختالف نہی تھا کا خلفاء کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رنجش اور 1کہ امام علی اهل سنت کا دعوا ہے

تھے، اس کو ثابت کرنے کے بہت ساری دلیلیں التے ہیں اور دوستانہ تعلقات ان کے درمیان بلکه

ا مسئلہ ہے، اس بارے میں ان ک انہیں دلیلوں میں سے ایک اہم دلیل ام کلثوم کی خلیفہ دوم سے شادی کا

کہنا یہ ہے کہ اگر حضرت علی کے خلفاء کے ساتھ اچھے تعلقات نہ ہوتے تو ہرگز اپنی بیٹی کی شادی

کا شیخین کے ساتھ کسی 1خلیفہ دوم کے ساتھ نہ کراتے، یہ شادی اس بات کی دلیل ہے کہ امام علی

غلط اور بےبنیاد ہے۔ قسم کا اختالف نہی تھا، ان کے درمیان اختالفات کا دعوا

کے گھر پر حملے کی نفی و تردید 7ضرت زہراء ح

رحلت پیغمبر کے بعد اہل سقیفہ کئی جرائم کے مرتکب ہو گئے مثال غصب خالفت اور در حضرت زہرا

حضرات ان تاریخی حقائق سے آنکھیں چراتے ہیں اور ان پر حملہ اور ان کی بے حرمتی، اہل سنت

یلیں پیش کرتے ہیں اور انہیں ادلہ میں سے ایک ان کی ناگوار واقعات سے انکار کرنے کے لئے کئی دل

نے 1ایسا تلخ واقعہ پیش آیا ہوتا تو حضرت علی نظر میں ام کلثوم کی شادی ہے، ان کے بقول اگر

کی شادی خلیفہ دوم کے ساتھ « کی بطن سے ہے 1جو کہ حضرت فاطمہ » کیوں اپنی دختر نیک اختر

اپنی بیٹی کو ایسے شخص کے عقد میں دے کہ جس نے ان کی کردای؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی

زوجہ کی توہین اور جسارت کی ہو؟ یہ شادی اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا کوئی ناگوار واقعہ پیش نہیں

اہل سنت خصوصا وہابیت ایسی دلیلیں بیان کرکے خلیفہ کو ہر قسم کی تہمت سے بری اور شیخین آیا ،

کرنا چاہتے ہیں۔کی خالفت کو برحق ثابت

بعض علماء شیعہ کی طرفسے انکار کی علت

اهل سنت کے برعکس بعض علماء امامیہ نے اس داستان کا سرے سے ہی انکار کیاہے، جس کی ایک

ہم کفو نہ ہونا ہے۔ وجہ روایات کے درمیان تضاد اور دوسری وجہ خلیفہ اور ام کلثوم کا برابر اور

روایات کا تضاد -7

اس داستان سے متعلق روایات آپس میں اس قدر متضادہیں کہ کسی بھی صورت قابل جمع نہیں ہے، اور

اکثر روایات سند کے اعتبار سے بھی قابل اشکال ہے۔ اس وقعے کا انکار کرنے والوں میں سے ایک

ہے کوئی شیخ مفید ; ہے وہ اپنی کتاب مسائل سرویہ میں لکھتے ہیں " اس بارے میں جو روایات آئی

ثابت نہی کیا جاسکتا، کیوں کہ ان روایات بھی صحیح نہیں ہے اور ان اخبار کے زریعے اس واقعہ کو

کے انتہائی دشمنوں میں 1موثق نہیں ہے، وہ حضرت علی ہےجو کہ کی سلسلہ سند میں زبیر بن بکار

ام کلثوم کی ایاج کے مطابقمتن روایات میں بھی شدید اختالف پایا جاتا ہے، کیونکہ بعض رو سے تھا،

جناب عباس نے ام کلثوم کی عقد پڑهی، نے پڑهی، اور کچھ روایات کے مطابق 1عقد حضرت علی

[ 7بعض دیگر روایات میں آیاہے عقد اس وقت پڑهی گئی جب عمر نے دہمکی دیدی ۔ ]

برابر اور ہم کفو کا نہ ہونا -2

ک وجہ یہ ہے کہ خلیفہ اور ام کلثوم ایک دوسرے کے علماء امامیہ کے ایک گروہ کے انکار کی ای

ایک دوسرے کا ہم کفوء کا ہونا ضروری ہے، اس برابر اور ہم کفو نہیں تھے، حاالنکہ شادی کے لئے

کا آپس میں کوئی تناسب نہی پایاجاتا ہے، کیونکہ اگر ان دونوں اعتبار سے لئے کہ سن اور عمر کے

ت میں عمر کی زمان خالفت میں واقع ہوی ہے، تو اس وقت وہ تقریبا یہ واقعہ صحیح ہونے کی صور

ستر اسی سال کا عمر رسیدہ شخص ہے جبکہ ام کلثوم کی عمر نو سال یا اس سے بھی کم ہے ، اس

پینسٹھ سے ستر سال کا فاصلہ ہے، اس لحظ سے دیکھا جائے تو اس واقعے کا طرح ان کے درمیان

ئی سنی ہماہنگی ان دونوں کے درمیان نہی پایا جاتا۔ نب ہیں ، کیونکہ کوحق بہ جا میں انکار کرنے

وہ اس واقعہ کی میں سے ایک عالمہ سید ناصر حسین ہندی ہے، اس واقعے سے انکار کرنے والوں

نکاح سے نقل کرتے ہیں کہ وہ خود شدت کے ساتھ تردید کرتے ہوے خود حضرت عمر کے قول کو

[ اے 2تھے: "أیھا الناس، لینكح الرجل لمته من النساء، و لتنكح المرأة لمتھا من الرجال"]متعلق کہا کر تے

لوگو، مرد عورتوں میں سے اپنے برابر کسی عورت سے، اور عورت اپنے برابر کسی مرد سے شادی

کا معنی کرے۔ اور ابن اثیر اور فیروز آبادی وغیرہ نے عمر کے اس قول کو نقل کرنے کے بعد "لمہ"

یعنی ، شکل اور مثل میں وغیرہ میں برابر ہوں، عالمہ سید کرتے ہوے کہا ہے کہ " ای شکلہ و مثلہ"

ناصر ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : اس معیار کے مطابق کیا ام کلثوم عمر کے ہم شکل

[ 1اور ہم مثل تھی؟ ]

یل نہی ہےصرف بیاہ کا ہونا دوستی اور رابطہ حسنہ کی دل

اس داستان سے متعلق روایات کی تحقیق اور ان کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کچھ فیصلہ

ضروری ہے کہ اهل سنت حضرات بالخصوص وہابیت اس کرنے سے پہلے، ایک مطلب کی وضاحت

کے اس کے زریعے سے شیخین اور حضرت علی شادی کو خلیفہ کے لئے باعث فضیلت اور

رمیان رابطہ حسنہ کو ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اس کو شیعہ عقائد کے خالف دلیل کے طور پر پیش د

حضرت علی اور کے بعد 7کرتے ہیں، چونکہ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ رحلت پیغمبر اکرم

خلفاء کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے۔

دوستی اور اچھے تعلقات ف شادی ہونا، اس واقعے کی حقیقت سے قطع نظر ایک بات مسلم ہے کہ صر

شادی کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں، ، اس لئے اس کو صرف ایک کی دلیل نہیں ہوسکتی، کیونکہ

دعوا نہیں کرسکتے کہ اس بیاہ کی وجہ صرف اور صرف زاویہ سے نہیں دیکھا جاسکتا ، اور یہ

اپر کوئی رشتہ طے ہوجائےلیکن ہمیشہ ایسا دوستی تھی! ہاں ممکن ہے کہ کبھی دوستانہ تعلقات کی بن

اس نہیں ہے ممکن ہے کہ کسی اور ہدف کے تحت بھی آپس میں اس طرح کے رشتے طے ہوجائے،

مطلب کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ مختلف معاشروں اور اقوام میں اس بات کا

مالحظہ کرسکتے ہیں۔

کرم کی ذات کو نمونے کے طور پر پیش کرسکتے ہیں، ہم مذکورہ مطلب کی وضاحت کے لئے پیغمبر ا

کی متعدد بیویاں تھی شرعی اعتبار سے بھی عام آدمی چار سے زیادہ ملسو هيلع هللا ىلصسب جانتے ہیں کہ آنحضرت

آج کل بعض مستشرقین آنحضرت کے لئے ایسا قید نہیں تھی، اس مسئلے پر شادیاں نہیں کرسکتا وہ

ہے۔ اور اسالم دشمنوں کو اعتراض

انصاف سے دیکھا جائےتو آنحضرت کی شادیان مختلف وجوہات اور مصلحتوں کی بناپر انجام پائیں،

ہوا و ہوس سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

نے اپنی کتاب "تاریخ اسالم میں ام المؤ منین عایشہ کا کردار" میں اس عالمہ سید مرتضی عسکری

ل میں اس کا خالصہ بیان کرینگے۔مسئلے کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے، ہم ذی

کے لئے ام المؤمنین عایشہ کے عالوہ کوئی دوشیزہ بیوی نصیب ملسو هيلع هللا ىلصہم سب جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم

ازواج النبی عمر رسیدہ اور بیوہ تھیں بعض کی ایک سے زیادہ شادیاں ہوچکی نہی ہوی ، باقی تمام

سے بے سہارا ہوگئی تھیں، پیغمبر اکرم نے تھیں، بعض کا شوہر جنگوں میں شہید ہوجانے کی وجہ

عمر اور ان میں سے اکثر سرپرستی کرنے کی خاطر ان سے شادی کی تھی، کرتے ہوے ہمدردی

ان میں سے بعض تو ایک سے زیادہ رسیدہ تھیں، اور ان سب نے پہلے شوہر کرچکی تھیں اور

جنگوں و غیرہ میں کھو شوہروں کو شوہروں سے جدا ہو چکی تھیں، اور ان میں سے بعض نے اپنے

چکی تھیں اس لئے یہ عورتیں بے سرپرست اور بے سہارا ہو گئے تھے۔ پیغمبر اکرم کا ان سے شادی

ان کی حمایت اور سرپرستی کی خاطر تھی۔ جیسے سودہ بنت زمعہ ، زینت بنت خزیمہ، ام سلمہ و غیرہ

بنت خزیمہ او ر ام سلمہ انہی نت زمعہ، زینبانہی افراد میں سے تھیں، جیسے ام المومنین سودہ ب

ازواج میں سے تھیں۔

، زمان جاہلیت کے کچھ غلط رسوات کو ختم کرنا تھی، بعض کے ساتھ پیغمبر کی شادی کی ایک علت

ا » قرآن کریم میں بھی اشارہ ہوا ہے۔ جیسے زینب بنت جحش کے ساتھ شادی کہ جس کی طرف فلمه

جناكھا لكي ال یكون على المؤمنین حرج فيزید منھ قضى أزواج أدعیائھم إذا قضوا منھنه وطرا ا وطرا زوه

مفعوال [ جب زید نے اس )خاتون( سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اس خاتون 4«]و كان أمر هللاه

منوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں )سے شادی کرنے( کے بارے کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مو

میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور هللا کا حکم نافذ ہو کر

ہی رہے گا۔

بعض کے ساتھ اس لئے شادی کی کہ ان کے شوہروں کی وفات کے بعد یہ مومنہ عورتیں بے سرپرست

جانے پر مجبور نہ ہوں اور کہیں دوبارہ مشرک یا قبیلے کی طرف سے اپنے مشرکہونے کی وجہ

مکہ میں رہنے جب جن کے مسلمان ہو نے کے بعد کافر نہ ہوجائیں، جیسے ام حبیبہ بنت ابی سفیان

انتقال کر گیا جس کی حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے جہاں ان کا شوہر نہیں دیا گیاتو میاں بیوی

کو جب اطالع ملی تو ام حبیبہ سے شادی کرلی، ملسو هيلع هللا ىلصہ سے ام حبیبہ بے سرپرست رہ گئی، پیغمبر اکرم وج

اس طرح سے ان کو مشرک ہونے اور دشمن اسالم باپ ابو سفیان کی طرف پلٹ جانے سے روک دیا۔

کی گئی، جیسے جویریہ بعض شادیاں اسالم دشمن قبیلوں کو اسالم کی طرف مائل کر نے کی خاطر

وہ لوگ شروع میں اسالم قبول کا باپ قبیلہ بنی المصطلق کا سردار تھا، بنت حارث کے ساتھ شادی جن

ہوی، اس جنگ میں جویریہ لشکر اسالم اور ان درمیان جنگ کرنے کے لئے تیار نہی ہوے اور

اج کی نے جویریہ سے شادی کرلی، اور اس ازدو3اور پیغبر اکرم مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوی

[ 5برکت سے جویریہ کا باپ حارث اپنے پورے قبیلے کے ساتھ اسالم قبول کرلیا۔]

پس واضح ہوا کہ پیغمبر اکرم کی شادیوں کی مختلف وجوہات ہیں ان تمام شادیوں کو ایک ہی علت کے

اندر منحصر نہی کیا جاسکتا۔

ذلت اور تحقیر کی شادی

تعلقات کو مستحکم کہ یہ شادی صرف دوستی اور ں اہل سنت حضرات اس بات پر اصرار کرتے ہی

کرنے کے لئے تھی، جب کہ اس طرح کی شادیاں کبھی کسی قوم اور قبیلے کی تحقیر اور تذلیل کے

لئے بھی ہوتی ہیں، تاریخ میں کچھ شادیاں ایسی بھی ہوئی ہیں کہ جس کے لئے لڑکی والوں کو تلوار

بھی بعض معاشروں میں ایسا نظام رائج ہے، ذیل میں ہم اس اور نیزہ کے زور پر دہمکی دی گئی ،آج

کے لئے ایک نمونہ پیش کرینگے۔

عبدهللا بن جعفر کی بیٹی کی حجاج سے شادی

کے ساتھ اس کی دشمنی کسی سے مخفی نہیں ہے، پیغمبر فی کی سفاکی اور خاندانحجاج بن یوسف ثق

اس نے بنی ہاشم کی تحقیر اور تذلیل کی خاطر عبدهللا بن جعفر کی بیٹی سے زبردستی شادی کرلی، جب

کہ نہ عبدهللا نہ اس کی بیٹی اور نہ ہی خاندان بنی هاشم میں سے کوئی بھی اس شادی پر راضی تھا۔

لما زفت ابنة عبد هللا بن جعفر و كانت هاشمیة جلیلة إلى الحجاج بن » ابن طیفور اس بارے میں لکھتا ہے:

یوسف و نظر إلیھا في تلك اللیلة و عبرتھا تجول في خدیھا فقال لھا بأبي أنت و أمي مما تبكین قالت من

شرف اتضع و من ضعة شرفت و قال المدائني قال الحجاج البنة عبد هللا إن أمیر المؤمنین عبد الملك كتب

[3«]لي بطالقك فقالت هو و هللا أبر بي ممن زوجنیك

عبدهللا بن جعفر کی بیٹی سے جوکہ هاشمی اور جلیل القدر تھی، حجاج بن یوسف نے شادی کرلی، جب

رخسار سے جاری سہاگ رات کو حجاج نے اس کی طرف نظر کی تو دیکھا وہ رو رہی ہے اور آنسو

ر قربان ہو تم کیوں رورہی ہے؟ اس نے کہا ایک شریف خاندان ہیں، حجاج نے کہا میرے ماں باپ تم پ

کے ذلیل ہونے اور ایک پست خاندان کے عزیز ہونے کی وجہ سے میں رورہی ہوں، مدائنی اس بارے

میں لکھتا ہے، حجاج نے کہا: امیر المؤمنین عبدالملک نے مجھے تمہیں طالق دینے کے بارے میں لکھا

خدا کی قسم وہ میرے نزدیک اس شخص سے بہتر ہے کہ جس نے میری ہے، تو اس نے جواب میں کہا

شادی تمہارے ساتھ کرادی ہے۔

بنابر این کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ حجاج کی عبدهللا بن جعفر کی بیٹی کے ساتھ شادی دوستانہ تعلقات کی

افتخار تھی؟ و بناپر ہوئی تھی، کیا یہ شادی حجاج کیلئے باعث فضیلت

بھی لیا جائے کہ ام کلثوم کی خلیفہ دوم سے شادی ہوئی تھی تو یہ بھی حجاج کی شادی کی اگر مان

مانند ہے، اس شادی کے بارے میں حضرت علی کی رضایت نظر نہیں آتی، بلکہ حقیقت اس کے

برعکس ہے۔

روایات اهل سنت

اس مطلب کو شروع کرنے سے پہلے چند نکات کی طرف اشارہ کرنے کو ضروری ہے۔

اس شادی کا وقوع اهل سنت کی نظر میں ایک مسلم امر ہے یہاں تک کہ اس داستان سے مربوط -7

روایات سے انہوں نے فقہی استنباط بھی کیے ہیں۔

یہ واقعہ اہل سنت کے درمیان مشہور ہونے کے باوجود صحیح بخاری اور صحیح مسلم سمیت دیگر -2

تذکرہ نہی ہے۔ ہیںصحاح ستہ میں سے کسی بھی کتاب میں اس کا ک

اسی طرح مسانید اور معاجم حدیث کی مشہور و معروف کتابوں جیسے مسند احمد، مسند ابی یعلی، -1

البته [ 1کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔] اصل واقعے مسند بزاز ، اور معجم طبرانی وغیرہ میں بھی اس

ے ان مسانید اور سنن میں ملتے هیں ام کلثوم کا فرزندان جعفر سے شادی کے حوالے سے بعض اشار

جس کی طرف هم بعد میں اشارہ کرینگے۔

سب سے پہال شخص کہ جس نے اس داستان کو ذکر کیا، وہ ابن سعد صاحب الطبقات الکبری ہے، -4

الطبقات الکبری هو اقدم کتاب رئینا فیه هذا االفک و »سید ناصر ہندی اس کے بارے میں رقم طراز ہے:

ہمارے علم کے مطابق سب سے پہلے جس نے اس جھوٹ کو قلم بند کیا وہ صاحب طبقات [8«]البھتان

هذا الخبر و مخرجیه فیما نعلم، ۀفأقدم روا» آیت هللا میالنی بھی اس بارے میں لکھتے ہیں: الکبری ہے ۔

ے کی [ قدیمی ترین کتاب جس میں اس واقع7«]هو محمدبن سعد الزهری، صاحب کتاب الطبقات الکبرای

طرف اشارہ ہواہے کتاب طبقات الکبری ہے۔

ہیں اس داستان سے متعلق روایات پر سند اور متن کے لحاظ سے بھی بہت سارے اشکاالت وارد ہوے

یہاں تک کہ ایک دوسرے کے ساتھ متضاد ہیں۔

ن میں ا اهل سنت کتابوں میں موجود روایات کئی گروہوں میں تقسیم ہو تی ہیں، اس واقعے سے مربوط

سے بعض کی طرف ہم مختصرا اشارہ کرینگے۔

، فقیل ۀابنته، فقال: هی صغیر 1خطب عمر الی علی »عبدالرزاق ابی جعفر کی سند سے نقل کرتا ہے: -7

: ابعث بھا الیک فان رضیت فھی امرئتک، قال: فبعث 1لعمر: انما اراد بذالک منعھا، قال: فکلمه فقال علی

[70«]عن ساقھا، فقالت: ارسل، فلو ال انک أمیر المؤمنین لصککت عنقک بھا الیه، فذهب عمر، فکشف

نے اس کی کمسنی کا بہانہ بنایا، 1سے ان کی بیٹی کی خواستگاری کی تو علی 1یعنی: عمر نے علی

سے 1نے کمسنی کو بہانہ بناکر تمہیں رد کر دیا ہے، پھر عمر نے علی 1کسی نے عمر سے کہا: علی

نے کہا: میں اس کو تمہارے پاس بھیج دیتا ہوں اگر وہ اس بات پر راضی 1ی تو علیدوبارہ گفتگو ک

نے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیج دیا، جب وہ عمر 1ہوئی تو وہ تمہاری بیوی ہے، اس کے بعد علی

نے اس کی پنڈلی کو پکڑا تو ام کلثوم کہنے نے لگی مجھے چھوڑ دو، کی خدمت میں پہن گئی تو عمر

گر تم امیرالمؤمنین نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن توڑ دیتی!ا

خطب عمر بن الخطاب الی علی بن ابی طالب ابنته ام کلثوم، »ابن اسحاق قتادہ سے نقل کرتا ہے: -2

فقال عمر: ال وهللا ما ذالک بک لکن اردت منعی، فان کانت کما تقول، ۀفاقبل علی علیه، و قال: هی صغیر

، و قال انطلقی الی امیر المؤمنین فقولی یقول لک أبی کیف ۀرجع علی، فدعاها فاعطاها حلفابعثھا الی، ف

[77«]؟ فأتته بھا و قالت له ذالک، فأخذ عمر بذراعھا، فاجتذبتھا منه، فقالت: ارسل فارسلھاۀتری هذہ الحل

نے کہا: وہ ابھی کمسن 1سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ مانگا، تو حضرت علی 1یعنی: عمر نے علی

ہے، عمر نے کہا : وجہ کمسنی کی نہی وہ صرف بہانہ ہے در حقیقت مجھے رد کرنا چاہتے ہو، اگرتم

کو اپنے پاس گھر لوٹ آیا اور ام کلثوم 1اس کو میرے پاس بھیج دیں، علی جو کہتے ہو س ہے تو

اور اس کو یہ کہنا بالیا، اور اس کو ایک لباس دے کر کہا: اس کو امیرالمؤمنین کی خدمت میں لے جانا

نے کہا ہے: یہ حلہ کیسی ہے؟ ام کلثوم اپنے والد کے حکم پر لباس لیکر حضرت عمر کہ میرے والد

ے ام کلثوم کی پنڈلیوں کو پکڑنا حضرت عمر ن کی پیغام پہنچائی تو 1کی خدمت میں پہنچی اور علی

شروع کیا، ام کلثوم بول اٹھی مجھے چھور دیجے تو عمر نے چھور دیا!

خطب عمر الی علی بن ابی طالب ام کلثوم، »عبدالرحمن عمر کے غالم کی سند سے نقل کرتا ہے: -1

الشھور اال العمی فی فاستشار علی العباس و عقیال و الحسن، فغضب عقیل و قال لعلی: ماتزیدک االیام و

عمر ۀ، ولکن درۀأمرک وهللا لئن فعلت لیکونن و لیکونن، فقال علی العباس: وهللا ماذالک منه نصیح

[72«]فیک یا عقیل ۀاحوجته الی ما تری، ام وهللا ماذاک لرغب

سے اس کے 1نے عباس اور عقیل حسن 1سے ام کلثوم کی رشتہ مانگا تو علی 1یعنی: عمر نے علی

سے کہا: جتنا دن رات اور زمانہ 1عقیل غضب ناک ہوا اور علی میں مشورہ کیا، اس بات پر بارے

گزرتا جاتا ہے اتنا ہی تمہارے اندهاپن میں بھی اضافہ ہو تا جارہا ہے، اگر تم نے یہ کام انجام دیا تو میں

حت نہی ہے، لیکن نے عباس سے مخاطب ہوکر کہا: یہ کوئی اچھی نصی 1بھی ایسا ویسا کرونگا، علی

اے عقیل خدا کی قسم [ 71عمر کی تازیانے نے مجھے اس کام پر مجبور کیاہے جو تم دیکھ رہے ہو۔]

مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سے اس وقت شادی کرلی 1ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں: عمر بن خطاب نے ام کلثوم دختر علی -4

اور زید بن عمر اور رقیہ بنت عمر اسی شادی کی نتیجے « م تبلغل ۀوهی جاری» وہ نابالغ تھی، جبکہ

ہوے، عمر کی رحلت کے بعد ام کلثوم نے عون بن جعفر بن ابی طالب سے شادی کرلی، اس میں پیدا

سے عقد کر لی، پھر حضرت زینب کی رحلت کے بعد عبدهللا کے فوت ہونے کے بعد محمد بن جعفر

[74سےچلی گئی جب کہ عبدهللا بن جعفر کے عقد میں تھیں۔] بن جعفر سے شادی کرلی، دنیا

روایات کا نتیجہ

کی عدم رضایت 3الف( حضرت علی

اس رشتے پرامام ان مذکورہ روایات اور اس کے مانند دوسری روایات میں اگر ہم غور کریں تو -7

بنایا ہے۔ اور خود خلیفہ علی دل سے راضی نہیں تھے ، اسی لئے ان سب روایتوں میں کمسنی کو بہانہ

خود اعتراف کرتا ہے کہ اور اس بات کا کہ علی شادی کے لئے راضی نہیں ہیں دوم بھی سمجھ گیاتھا

« ال وهللا ما ذالک بک لکن اردت منعی»کرناہے رد اصل مقصد مجھے کمسنی صرف ایک بہانہ ہے

«فقیل لعمر: انما اراد بذالک منعھا»

اس کو مشورے کے لئے طلب کرنا اور عقیل کا سرسخت مخالفت کرنا دلیل ہے جناب عقیل اور عب -2

امام علی اور عقیل کے درمیان ہونے والی کہ خلیفہ دوم کی طرف سے شادی کیلئے دباو تھا، چنانچہ

«عمر احوجته الی ما تری ۀولکن در» گفتگو میں عمر کے تازیانے اور کوڑے کی بات ہے

چنانچہ اہل سنت روایات مطابق جب حضرت شادی پر بلکل راضی نه تھی خود ام کلثوم بھی اس -1

تو ایک نازیبا حرکت کا مرتکب هوا عمر نے ام کلثوم کو حضرت عمر کے پاس بھیج دیا اور 1علی

فلو ال انک أمیر المؤمنین » عمر کو دہمکی دی که میں تمھاری ناک اور گردن توڑ کر رکھدونگی

اپنے والد کے پاس پلٹ آئی اسی طرح جب « لوال أنه أمیرالمؤمنین لھشمت انفهو هللا« » لصککت عنقک

تو اسے عمر کی نازیبا حرکت کی شکایت کی اور کھا آپ نے تو مجھے ایک بدخلق اور دیوانه بھوڑے

اس بارے میں اہل سنت کی « ارسلتنی الی شیخ مجنون« » بعثتنی الی شیخ سوء» کے پاس بھیج دیا !

سے مزید کچھ اور روایات کا ہم تذکرہ کرینگے کتابوں

اس وصلت کے بہ نسبت بالکل راضی 1بنابر این اس واقعے میں ہم بہ طور واضح دیکھتے ہیں کہ علی

اگر بالفرض یه وصلت انجام پائی هو تو بھی کچھ مصلحتوں کی بناپر هے نه دوستانه تعلقات نہی تھے،

ه کو ثابت نھی کرسکتا۔کی بناپر اور اس وصلت سے رابطه حسن

ب( آل پیغمبر کی توہین اور خلیفہ دوم کی شخصیت

اگر هم غور کریں تو هم دیکھتے هیں که ان میں کچھ ایسے مطالب کو خلیفہ کی مذکورہ روایات میں

طرف نسبت دی ہے کہ عمر بن خطاب جیسی شخصیت سے بہت بعید ہے کہ ایسی شنیع نسبت اس کی

مذید اس کے کچھ نمونے اس کے کچھ گوشے کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے اورطرف دینا صحیح ہو،

کا ہم تذکر ہ کرینگے،

الی أبیھا قال لھا: ما قال لک أمیرالمؤمنین؟ ۀفأخذ بساقھا ... فلما جائت الجاری»لکھتا ہے: خطیب بغدادی

«قالت: دعانی و قبلنی فلما قمت أخذ بساقی و قال: قولی ألبیک قد رضیت[75]

ام کلثوم کے ساتھ مالقات

علی نے ام پنڈلی پکڑنا شروع کیا ۔۔۔ جب ام کلثوم اپنے والد کے پاس پلٹی تو کے دوران خلیفہ اس کی

ام کلثوم بولنے لگی، اس نے مجھے اپنے پاس بالکر کہا؟ لمؤمنین نے تم سے کیاکلثوم سے پوچھا امیرا

جب میں جانے کے لئے کھڑی ہوگئی تو میری پنڈلی کو پکڑنا شروع کیا، اور کہا اپنے میرا بوسہ لیا،

باپ کو میری طرف سے کہدینا کہ میں راضی ہوں۔

أتفعل هذا؟ لوال أنک أمیرالمؤمنین لکسرت أنفک ثم و وضع یدہ علی ساقھا، فقالت: »عبدالبر لکھتا ہے:

«خرجت حتی جائت الی ابیھا، و قالت: بعثتنی الی شیخ سوء[73]

جب ام کلثوم کو علی نے عمر کے پاس

کی ران پر رکھدیا، تو ام کلثوم بول نے لگی کیا میرے ساتھ تم بھیج دیا، تو خلیفہ نے اپنا ہاتھ ام کلثوم

میں تمہاری ناک توڑ دیتی ، پھر وہاں رتے ہو اگر تم امیرالمؤمنین نہ ہوتے توک ایسی نازیبا حرکت

اور اپنے باپ کے پاس جاکر کہا: آپنے تو مجھے ایک بدخلق بھوڑهے کے پاس بھیج دیا۔ سے نکل گئی

خ ثم انه )عمر( لمس ساقھا، فنھرته، و اتت الی ابیھا غضبی و قالت: ارسلتنی الی شی»عصامی لکھتا ہے:

«مجنون، لمس ساقی، و هللا لوال أنه أمیرالمؤمنین لھشمت انفه[71]

عمر نے ام کلثوم کی ران کو چھونا شروع کیا تو ام کلثوم چیخ اٹھی اور غصے میں اپنے والد کے پاس

پلٹ آئی اور حضرت علی سے مخاطب ہوکر کہا، آپ نے تو مجھے ایک دیوانہ بھوڑے کے پاس بھیج

کی قسم اگر وہ لوگوں کا خلیفہ نہ ہوتا تو میں اس کی اس خدا ی ران کو چھو لیا، دیا، اس نے تو میر

نازیبا حرکت پر اس کی ناک توڑدیتی۔

ہم خلیفہ کی اس نازیبا حرکت کو اور بھی بہت سارے علماء اہل سنت نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے،

نے سے صرف نظر کرتے ۔ان کی عین عبارت کو نقل کر اختصار کو مدنظر رکھتے ہوے [78]

جس بات کا تذکرہ ضروری ان روایات پر تبصرے اور توضیح کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن

سے دو چیزیں ظاہر ہوتی ہیں، سمجھتاہوں وہ یہ ہے کہ ان روایات

Ø سے متعلق هے، چاہے خلیفہ ایسی نازیبا حرکت مطلب آل رسول کی توہین اور بےحرمتی ایک

جنہوں نے اس واقعے کونقل کرکے اپنی کتابوں کے صفحات کو سیاہ کر ڈاال ا مرتکب ہوا ہو یا نہ ہو،ک

لئے کوئی فضیلت ثابت وہ خلیفہ کے ہے، انہوں نے اس واقعے کی صرف ایک پہلو کو مدنظر رکھا

ی ہو،لیکن اس کا دوسرا پہلو کہ جس میں آل رسول کی بےحرمتی ہورہی ہے اس سے ان کو کوئ

سروکار نہیں ہے،

Ø دوسری بات خلیفہ کی نہایت بےشرمانه حرکت ہے، کہ ایک اجنبی عورت جس کے ساتھ نکاح

آپے سے نہیں آئی ہے ، خلیفہ کی نظر اس پر پڑتے ہی ابھی اس کی تحت ہمسری میں نہیں ہوا اور

ں اور کبھی اس سے بھی دیں اور کبھی اس کو سینے سے لگالی باہر ہوجائے کہ اس کو کبھی بوسہ

لباس اتارکر ران اور پنڈلیوں کوکھولنا اور چھونا شروع کردیں، اگر ایسی نازیبا حرکت یعنی اس کا

حرکت کسی عام انسان سے سرزد ہوجائے تو لوگ اس کے بارے میں کیا کہیں گے ، چہ جائیکہ خلیفہ

رتکب ہوجائے؟ اور اس غلط حرکت حرکت کےم جیسی شخصیت ایسی نازیبا مسلمین اور امیرالمؤمنین

اور اس کی ہے، خلیفہ پر اعتراض کرتی کا ام کلثوم کمسن اور کم عمر کے هوتے هوے برا مانتی

ایک معمولی ناک اور گردن توڑ نے کی دہمکی دیتی ہے، لیکن خلیفہ اس کو برا نہیں مانتے اور

باعث شرم ہو نے کی وجہ سے بعض حرکت سمجھتا ہے! اس نازیبا حرکت کو خلیفہ سے منسوب کرنا

سبط ابن جوزی اس واقعے کو نقل انصاف پسند علماء ہل سنت نے بھی اس بات پر اعتراف کی ہے،

لما فعل بھا هذا، ثم باجماع المسلمین الیجوز لمس ۀهذا قبیح وهللا لوکانت أم»کرنے کے بعد لکھتا هے:

«ۀاالجنبی[77]

کنیز ہوتی تو بھی اس کے ساتھ ایسی حرکت اور نازیبا ہے،اگر وہ خدا کی قسم یہ حرکت بہت ہی قبیح

شایستہ نہیں ہے، اس کے عالوہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ اجنبی عورت کو چھونا جائز

نہی ہے۔

تو یقنا ان کی شخصیت پر انگلی اٹھتی ہے اور مورد اشکال اگر خلیفہ سے ایسی حرکت سرزد ہوئی ہے

فعل کا ایسے قبیح معمولی شخص نہیں ہے بلکہ خلیفہ مسلمین ہوتے ہوے ایک لوگا، کیونکہ وہواقع

مرتکب ہو کر آل رسول کی توہین کی ہے۔

ام کے زریعے حال دیکھ لیا کہ کسی بھی صورت ان اس واقعے کے بارے میں موجود روایات کا

شادی ثابت هوئی تو اگر بالفرض نہیں کرسکتے کے ساتھ شادی ہو نے کو ثابت کلثوم کی خلیفہ دوم

ہماری نظر میں بھی حضرت علی اور ام کلثوم رضایت کو هرگز ثابت نھی کیا جا سکتا، اس طرح

جنہوں نے خلیفہ کے حاالت خلیفہ کی طرف اس طرح کی غلط نسبت دینے کی نوبت ہی نہی آتی ہے،

یہاں تک کہ کبھی ہی غیرت مند شخص تھا زندگی کو قلم بند کا ہے ان کے مطابق خلیفہ بہت

کبھاربےجا غیرت کا بھی مظاہرہ کیا کرتاتھا، جیسا کہ تحریم متعہ کے واقعے میں اس کا تذکرہ موجود

پر بھی اعتراض کیا کرتا تھا جیسا کہ ملسو هيلع هللا ىلص اکرم ہے، یہاں تک کہ ناموس کے مسئلے میں کبھی پیغمبر

خلیفہ کے فضائل میں سے کو ے نقل کیا ہے اور اسحکم وجوب حجاب کے مسئلے میں اہل سنت ن

شمار کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنہوں نے اس داستان کو انتہائی اہمیت کے ساتھ اپنی کتابوں

مقصد یہ ہے کہ خلیفہ کے لئے کوئی فضیلت ثابت کریں اور خلیفہ کو ہرقسم کی میں نقل کیا هے ان کا

دار کیا ہے، اور کہ انہوں نے نادانستہ طور پر خلیفہ کی شخصیت کوداغ تہمتوں سے بری قرار دیں، جب

"بھویں بناتے بینائ بھی چلی گئی "کے مصداق بن گئے۔

سے شادی ام کلثوم کی اوالد جعفر -2

بعد فرزندان جعفر طیار سے بہ ترتیب کے مطابق ام کلثوم نے عمر کے قتل کے روایات اہل سنت

ذیل میں ہم ام کلثوم کی اوالد جعفر سے شادی ، زید بن عمر اور ام کلثوم کی وفات شادی کرلی ہے ،

کے بارے میں موجود روایات پر بحث کریں گے۔

ابن سعد الطبقات میں لکھتے ہیں: خلیفہ دوم کے بعد ام کلثوم نے پہلے عون بن جعفر سے شادی کرلی،

سے د کی رحلت کے بعد عبدهللا بن جعفرعون کی رحلت کے بعد محمد بن جعفر سے شادی کرلی محم

[20حضرت زینب کی رحلت کے بعدشادی کرلی۔]

لما قتل عمر بن الخطاب، تزوجھا بعدہ ابن عمھا عون بن جعفر، فمات »اسی طرح ابن کثیر لکھتے ہیں:

[ 27«]عنھا، فخلف علیھا اخوہ محمد، فمات عنھا، فتزوجھا اخوهما عبدهللا بن جعفر، فماتت عندہ.

عمر بن خطاب کے قتل کے بعد ام کلثوم کے چچا زاد بھائی عون بن جعفر نے ان سے شادی کرلی،

ئی محمد بن جعفر نے اس سے شادی کرلی، محمد کا جب اس کے بھا پھر عون دنیا سے چل بسےتو

انتقال تو عبدهللا بن جعفر نے اس سے شادی کرلی اور ام کلثوم عبدهللا کی زوجیت میں انتقال ہوگیا

[22ہے۔] کرگئی۔ یہی مطلب اہل سنت کی کچھ اور کتابوں میں بھی آیا

اس داستان کی حقیقت

چنانچہ مالحظہ کیا کہ بہت سے بزرگان اهل سنت نے ام کلثوم کا فرزندان جعفر طیار کے ساتھ عقد سے

ن اس داستان کو اس متعلق واقعے کو نقل کیا ہے، اور اس کو تقریبا مسلمات میں سے شمار کیا ہے، لیک

زمانے کے دوسرے وقایع کے ساتھ اگر ہم مالحظہ کریں تو فرزندان جعفر کے ساتھ شادی واال مسئلہ

اور یہ داستان دوسرے تاریخی واقعات کے ساتھ تضاد رکھتا ہے، جس کو ہم ذیل میں افسانہ لگتا ہے

ذکر کررہے ہیں۔

اوالد تھی؟الف( کیا فرزندان جعفر سے ام کلثوم کی کوئی

تو یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ ان میں سے کسی کے ساتھ ام فرزندان جعفر کے ساتھ شادی ہوئی اگر

اهل سنت کی کتابوں میں تین اقوال ملتے ہیں۔ کلثوم کی کوئی اوالد تھی یا نہیں؟ اس کے بارے میں

ہو نے یا نہ ہو نے کی بعض بزرگان اهل سنت نے صرف شادی کا ذکر کیا ہے لیکن صاحب اوالد -7

طرف کوئی اشارہ نہی کیا ۔

کا ذکر کیا ہے جو محمد بن جعفر سے تھی، ان کے مطابق بقیہ فرزندان بعض علماء نے ایک بچی -2

بچپنے میں ہی یہ بچی عصامی اس کے بارے میں لکھتے ہیں: [ 21جعفر سے کوئی اوالد نہیں تھی۔]

[ 24فوت ہوگئی۔]

نام ملتے ہیں،ابن عساکر کے قول کے اس کےبارے میں ان کی کتابوں میں تین تھا؟ اس بچی کا نام کیا

[ بیہقی کے نقل کے مطابق اس 23دوالبی کے بقول اس کا نام نبتہ تھا۔] [ 25نام بثینہ تھا۔] مطابق اس کا

سے مختلف [ البتہ ممکن ہے کہ یہ مختلف اسماء تلفظ اور لکھائی میں غلطی کی وجہ21کا نام ثبنہ تھا۔]

اگر نقطے ہٹادیے جائیں تو ایک جیسے ہیں، ہوا ہوکیوں کہ

مذکورہ قول کے برعکس، بعض نےام کلثوم کے اوالد ہو نےسے مکمل انکا کرتے ہوے کہتے ہیں -1

[ 28کہ ام کلثوم کی اوالد جعفر میں سے کسی سے بھی کوئی اوالد نہ تھی۔]

رے اقوال کو مالحظہ کریں تو ایک دوسرے کے ساتھ پہلے قول سے قطع نظر ، اگر دوسرے اور تیس

متضاد پائیں گے ، کیوں کہ ایک کے مطابق کوئی اوالد نہیں تھی، دوسرے کے مطابق اوالد تھی، بعض

نے تو نام اور عمر کو بھی بیان کیا ہے۔

ب( عبدهللا بن جعفرکے ساتھ شادی

عبدهللا بن جعفر تھا، اور عبدهللا کی زوجیت میں ام روایات اهل سنت کے مطابق، ام کلثوم کا آخری شوہر

حقایق کو مدنظر رکھ کر اس واقعے کی تحقیق کی جائے تو کلثوم دنیا سے گزر گئی ، لیکن اگر تاریخی

متعدد اشکال کا شکار ہے۔ یہ مسئلہ

حضرت زینب کا عبدهللا کی زوجیت میں ہونا -7

اور واقعہ کربال تھیں جو کہ ام کلثوم کی بڑی بہن تھیں،ایک حقیقت ہے کہ ہمسر عبدهللا حضرت زینب

اس کے بعد بھی ایک مدت تک آپ بہ قید حیات رہیں، اور اسی طرح میں حضرت زینب موجود تھیں،

ام کلثوم کا بھی واقعہ کربال میں حاضر ہونا تقریبا مسلمات میں سے ہے۔ بنابر این اس مسلمہ حقیقت کو

یں حضرت زینب کی موجودگی میں یہ شادی ہوئی تھی تو یہ نہ ہونے مدنظر رکھتے ہوے فرض کر

والی بات ہے کیوں کہ ایک وقت میں دو بہنوں سے شادی نہیں ہوسکتی!

مدعی ہیں کہ حضرت زینب کی رحلت کے بعد اس مشکل کو حل کرنے کے لئے بعض علماء اهل سنت

ید الیا ہے۔ لیکن ابن حزم مدعی ہے: اس وقت کا ق « بعد اختھا زینب»اسی لئے اکثر نے یہ شادی ہوئی،

ثم » ام کلثوم سے شادی کرلی، حضرت زینب بہ قید حیات تھیں لیکن عبدهللا نے زینب کو طالق دی پھر

[ حضرت زینب کو طالق دینے کی بات 27«]خلف علیھا بعدہ عبدهللا بن جعفر بعد طالقه الختھا زینب

وبھی ہو ام کلثوم اور عبدهللا بن جعفر کی شادی حضرت لیکن حقیقت ج صرف ابن حزم نے کی ہے،

زینب کی وفات کے ساتھ تضاد رکھتی ہے۔

ام کلثوم کی رحلت کے بارے میں متضاد اقوال -2

ام کلثوم کی رحلت کے بارے میں موجود روایات متضاد اور مختلف ہیں، اکثر روایات اهل سنت کے

یا اس سے پہلے رحلت کرگئی۔ حکومت میں مطابق ام کلثوم معاویہ کے دور

پہلے گزر چکا ، اهل سنت کی فقہی اور حدیثی کتابوں کے باب صالة الجنائز میں آیا ہے کہ جیسا کہ

ایک اور اس کا بیٹا زید دونوں ایک ہی واقعے میں مارے گئے تو دونوں کے جنازے پر جب ام کلثوم

کے مطابق سعید بن العاص حاکم مدینہ نے روایت کے مطابق عبدهللا بن عمر نے اور دوسری روایت

[ 10بھی نماز جنازے میں شریک تھے۔]8امام حسن اور حسین نماز پڑهائی

بہ قید حیات تھے، اور یہ بھی 8ان روایات کی رو سے واضح ہے کہ ام کلثوم کی فوت کے وقت حسنین

زوجیت میں تھیں کیوں کہ مسلم ہے کہ اس وقت حضرت زینب بھی بہ قید حیات اور جناب عبدهللا کی

انہوں نے واقعہ کربال کے ایک عرصہ بعد وفات پائی ، اس روایت کے مطابق ام کلثوم حضرت زینب

پس یہ کیسے ممکن ہے کہ عبدهللا نے ام کلثوم سے شادی کر لی ہو؟ سے پہلے دنیا سے گئی ،

ان روایات [ 17مسن بچہ تھا۔]ک بعض روایات میں آیا ہے کہ زید اور ام کلثوم کی رحلت کے وقت زید

کے دور حکومت سے پہلے انتقال کرگئی ، اس صورت میں عبدهللا سے کے مطابق ام کلثوم معاویہ

کہ ام کلثوم کی عبدهللا سے شادی ایک افسانہ ہے شادی کا امکان مکمل ختم ہوجاتا ہے، پس ثابت ہوا

جس کی کوئی حقیقت نہیں۔

ندگی کے ساتھ تعارضاور محمد کے حاالت ز عون -7

اگر عون بن جعفر اور محمد بن جعفر کی زندگی کے بارے میں تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے

کہ ان کی ام کلثوم سے شادی ہرگز ممکن نہیں ، کیوں کہ رجال اور انساب کی کتابوں میں ایسے واقعات

ہ بن جاتی ہے، جب کہ علمائے جن کی رو سے ام کلثوم کی ان سے شادی ایک مفروض ذکر ہوئےہیں

اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ خلیفہ دوم کے بعد ام کلثوم کی اوالد جعفر سے شادی ہوئی تھی۔

عون بن جعفراور محمد بن جعفر کی سوانح حیات

کے بارے میں رقم طراز هیں: یه دو بھائی اهل سنت ،عون و محمد کی حاالت زندگی اکثر علماء

خلیفه اور شوشتر کی جنگ میں شھید هوے، جنگ شوشتر هوے کے زمانے میں پیدا 3 رسول خدا

اور عون و محمد دونو ں ایک جنگ میں شہید ہو گئے، یہ دور اہل سنت هوئی هے، دوم کے دور میں

یه سوال پیدا هو تا هے که عون اور محمد نے پھلے شوهر کا دور تھایہاں ام کلثوم کے کے مطابق

جب که ابھی ان کا پہال شوہر زندہ تھا؟ شادی کرلی ، ام کلثوم سےکیسے

ذیل میں ہم محمدبن جعفر اور عون بن جعفر کےبارے میں علمائے اہل سنت کی عبارت کو نقل کررہے

هیں.

و امه اسماء بنت 3عون بن جعفر بن ابی طالب ولد علی عھد رسول هللا »ابن عبد البر لکھتا هے: -7

یعنی : عون بن جعفر [ 12«]ستشھد عون بن جعفر و اخوہ محمد بن جعفر بتستر وال عقب لهعمیس، و ا

اور عون بن بن ابی طالب رسول خدا کے زمانے میں متولد هوا اور ان کی ما ں اسماء بنت عمیس هے

ان کی کوئی اوالد نہیں ہے۔ جعفر اور اس کا بھا ئی محمد دونوں شوشتر کی جنگ میں شھید هوے

عمر، و ماله ۀاستشھد عون بن جعفر بتستر و ذلک فی خالف»هیں: اور بالذری لکھتے ابن حجر -2

عون خالفت عمر کا زمانه تھا ، اور عون بن جعفر شوشتر کی جنگ میں شھید هوئے یه [ 11«]عقب

کی کوئی اوالد نھیں هے ۔

ولد علی عھد رسول هللا و استشھد بتستر عون بن جعفر»اور ابن اثیر رقم طراز هیں: عبد هللا طبری -1

اور جنگ شوشتر میں شھید رسول خدا کے زمانے میں پیدا ہوئے عون بن جعفر [ 14«]و ال عقب له

نھیں هے ۔ کا کوئی اوالد اور ارس هوئے

اب ان مذکورہ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوے ام کلثوم کی اوالد جعفر سے شادی ناممکن ہے، پس اس

ستان کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ دا

زید بن عمر

زید بن عمر کا داستان بھی غور طلب ہے، جس میں بہت سارے تضاد اور نقائص پائے جاتے ہیں، بہت

آیا ہے کہ ام کلثوم کا عمر سے ایک بیٹا ہوا جس کا نام زید بن عمر ہے، میں اہل سنت کتابوں ساری

کیا ہے، اور لکھا ہے کہ زید کسی واقعہ میں قتل ہوا۔ ہم اس داستان کو بعض نے ایک بیٹی کا بھی اضافہ

چند مطالب کی ضمن میں بیان کریں گے۔

اور ام کلثوم کا زمان فوت الف( زید

اس کے نمونے روایات نقل کی گئی ہیں ، دو متضاد زید بن عمر کی زندگی اور وفات کے بارے میں

ذیل میں مالحظہ کر سکتے ہیں۔

ماں بیٹے کا بیک وقت انتقال -1

ام کلثوم اور زید بن عمر دونوں ایک ہی واقعے میں مارے گئے اور معلوم نہ بعض نقل کے مطابق

ہوسکا کہ ان میں سے کون پہلے مرا۔

ان ام کلثوم بنت علی توفیت هی و ابنھا زید بن عمر بن الخطاب فی یوم، و »حاکم مستدرک میں لکھتا ہے:

ھما مات قبل، و لم یرثه و لم یرثھا.. هذا حدیث صحیح، فیه فوائد، منھا ان ام کلثوم ولدت لعمر لم ادر ای

[ 15«]ابنا

دینا سے چل بسے، لیکن معلوم نه زید بن عمر بن خطاب ایک هی دن ام کلثوم بنت علی اور اس کا بیٹا

ارث نھیں لیا، یه ایک هو سکا که ان میں سے کس کی پہلے وفات ہوئی، اس لئے ایک دوسرے سے

حدیث صحیح هے که جس سے بہت سارے مفید مطالب کا استفادہ کرسکتے مثال ام کلثوم کا عمر سے

منابع اهل سنت میں نقل هوئی هیں کہ جن کے مطابق بھی بھت ساری روایات ایک بیٹا ہوا تھا۔ اور

ماں بیٹا دونوں بیک وقت انتقال کرگئے۔

زمان فوت ایک دوسرےسے جدا هونا ام کلثوم اور زید کا -2

زید کے زمان وفات سے مختلف تھا ان کے مطابق روایات کے مطابق ام کلثوم کا زمان وفات بعض

زید اپنی ماں سے بھت پھلے فوت کرگیا، چنانچہ وہ روایات جو ام کلثوم کی فرزندان جعفر سے شادی

نے فرزندان جعفر کے را گیا اور ام کلثومسے متعلق ہے ان میں ذکر ہوا ہے زید کسی واقعه میں ما

بیقھی لکھتا ساتھ بترتیب شادی کرلی اور زوجیت عبدهللا میں دینا سے گزر گئی. مثال کے طور پر

زید بن عمر مارا گیا، اور ام کلثوم نے فرزندان جعفر که جس میں هے: مدینه میں ایک فتنه برپا هوا

[ 13سے بترتیب ازدواج کرلی.]

یہمان حکومت معاوز -7

زید کا انتقال ہوا جیسا کہ ابن حجر کہتا ہے: بعض روایات کے مطابق، معاویه کے دور حکومت میں

زید اپنے والد کی زندگی کے [ 11«]معاویه ۀکان مولدہ فی آخر حیات ابیه، و مات و هو شاب فی خالف»

معاویه کے دور میں عالم شباب میں دنیا سے گیا۔ اور خالفت آخری دور میں متولد هوا

زمان عبدالملک مروان -0

حکومت عبدالملک مروان کے بعض نقل کےمطابق زید معاویه کے دور حکومت کے بعد بھی زندہ رہا؛

دخل علیھا عمر و اولد منھا غالما یقال لھا »چنانچہ مصنف عبدالرزاق میں آیا هے دور میں دنیا سے گیا

و صلی علیھما عبدهللا بن عمر، و ذالک انه قیل له، هذا ابن ، ان عبد الملک بن مروان سمھما، فماتازید

نے ام کلثوم سے شادی کرلی یعنی عمر [ 18«]علی بن ابی طالب و ابن عمر، فخافا علی ملکه فسمھما

نے ماں بیٹے کو زہر دیا اور جس کے نتیجے میں ایک فرزند بنام زید متولد ہوا ، اور عبدالملک مروان

ئی، زہر جس کے نتیجے میں دونوں کی موت واقع ہوی اور عبدهللا بن عمر نے دنوں کی نماز جنازہ پڑها

دینے کی وجہ یہ تھی کہ عبدالملک سے کسی نے کہا : یہ علی اور عمر کا فرزند ہے، تو عبدالملک کو

اس نے دونوں کو زہر دیا۔ لہذا ان دونوں کی وجہ سے اپنی حکومت کے لئے خطرہ محسوس ہوا

زید بن عمر کی عمر کتنی تھی؟

جائزہ لیں تناقضات سے کہ ام کلثوم سے متعلق روایات کا جس پہلو سے بھی جیسا کہ مالحظہ کیا

بھرپور ہیں ان روایات کا ایک پہلو زید بن عمر کی عمر اور سن سے متعلق ہے، اس حوالے سے بھی

روایات میں تضاد پایاجاتا ہے

بچپنے اور کمسنی میں وفات -7

ن عمر کمسنی میں ہی اس دنیا سے چالگیا ، مثال ۔ وہ روایات جن کے بعض اقوال کے مطابق زید ب

مطابق زید اور ام کلثوم کا جب انتقال ہوا تو فالن نے ان پر نماز پڑهائی جب کہ امام حسن و حسین نماز

بہ قید 1تھا کیونکہ ابھی امام حسن نابالغ [ ان روایات کے مطابق زید17میں شریک تھے۔] جنازہ

نماز جنازے اور ام کلثوم کی زید ئی کتابوں میں اور روا اسی طرح اکثر اہل سنت فقہی ے،حیات تھ

بنابر این زید کمسنی آیا ہے ۔ کا تذکرہ باب صالة المیت علی الصبی )کمسن بچے پر نماز( کے باب میں

کے عالم میں دنیا سے چالگیا ۔

کمسن بچہ تھا، محمد بن ادریس کہ زید مرتے وقت اسی طرح کچھ اور روایات میں بھی صراحتا آیاہے

[ 40«]و هو صغیر، الیدری أیھما مات اوال ۀواحد ۀو امه فی ساع« زید»توفی هو »رازی لکھتے ہیں:

کمسن بچہ تھا ، اور معلوم نہ ہوسکا کہ ان دونوں میں اور اس کی ماں رحلت کرگئے تو زید یعنی زید

سے کون پہلے چل بسا۔

زید اور اس [ 47«]و هو صغیر ۀواحد ۀتوفی زید و امه ام کلثوم فی ساع»الدین نووی لکھتے ہیں: محی

کی ماں ایک ہی وقت وفات پاگئے جب کہ زید کمسن بچہ تھا۔

میں وفات جوانی -2

بعض روایات کے مطابق زید جوانی میں دنیا سے چل بسا، چنانچہ بعض کتابوں میں ایک واقعہ نقل ہوا

استقبال کیا اور حکم دیا کہ جب شام گئے تو معاویہ نے گرم جوشی سے ان کا ہ زید اور ام کلثومہے ک

[42خزانے سے ایک الکھ درہم دیا جائے۔] کے لئے ہرسال زید

ابن قتیبہ اور ایک واقعہ کو نقل کرتا ہے کہ امیر شام سے مالقات کے دوران زید اور بسر بن ارطاة

ی ہوئی، اور بسر نے حضرت علی کے شان میں گستاخی کی تو زید بن عمر سے کے درمیان تلخ کالم

اٹھاکر بسر کے سر پر دےمارا جس کی نتیجے میں بسر کا سر زخمی ہوا، جب رہا نہ گیا اور عصا کو

[ 41دونوں کی سرزنش کی۔] یہ خبر معاویہ تک پہنچی تو

اور با غیرت جوان تھا جو ا، بلکہ ایک کڑیلکمسن بچہ نہیں تھ ان روایتوں سے ظاہر ہوتاہے کہ زید

بسر جیسے پست فطرت انسان کرنے کا قابل تھا وہ معاویہ سے مالقات کرنے کے اور علی سے دفاع

کی علی کی شان میں گساخی کو برداشت نہ کرسکا اور اس کا سر پھوڑ دیا۔

، اسی لئے بہت ساری ن تھا، بعض روایات میں واضح طو پر بتایا گیا ہے کہ زید رحلت کے وقت جو

زید بن عمر مات مع أمه فی »لکھتا ہے: روایتوں میں شاب اور غالم کی قید آئی ہے، جیسا کہ ابن حجر

زید بن عمر اور [44«]ۀمعاوی ۀأبیه، و مات و هو شاب فی خالف ۀیوم واحد، و کان مولدہ فی آخر حیا

اس کی ماں ایک ہی دن میں چل بسے، وہ اپنے والد کے آخری ایام میں پیدا ہوا اور حکومت معاویہ کے

دوران جوانی کے عالم میں انتقال کر گیا۔

اما ام کلثوم فکانت عند عمربن الخطاب، فولدت له زید بن عمر، فمات و هو » دوالبی لکھتا ہے:

جو کہ جوانی کے عقد میں تھی زید بن عمر پیدا ہوا کے عمربن خطاب[ ام کلثوم جب 45«]غالم

دوران وفات پاگیا

زید کے دوران جونی میں مرنے کے بارے میں اور بھی کتابوں روایات نقل ہوئی ہیں اختصار کی

[43خاطر ہم ان کی عبارتوں کو ذکر نہیں کررہے ہیں۔]

ادهیڑ عمر میں وفات -2

زید بن عمر کے حوالے سے تیسرا نظریہ یہ ہے کہ وہ عالم جوانی کے بعد بھی بہ قید حیات تھا اور

زید ئل میں دنیا سے چالگیا، مثال وہ روایات کہ جن کے مطابق میان سالی اور بڑهاپے کے اوا

میں نے بڑهاپے کی عمر عبدالملک مروان کے ہاتھوں زہر سے شہید ہوا! اس روایت کی رو سے زید

قدم رکھا تھا، کیوں کہ حکومت عبدالملک مروان اور معاویہ کی حکومت میں کافی عرصے کا فاصلہ

ہے حکومت معاویہ کے چالیس سالوں کو مالکر دیکھا جائے توزید کی عمر کافع زیادہ محسوس ہوتی

ہے۔

تا ہے کہ زید کی اس سے معلوم ہو ہے استعمال کیا نے زید کے لئے لفظ رجال بعض علماء اہل سنت

فولدت )ام کلثوم( له زید بن »عمر جوانی سے بھی تجاوز کرچکی تھی، چنانچہ خطیب بغدادی لکھتا ہے:

یھاں تک که زید ایک پختہ ام کلثوم سے زید بن عمر پیدا هوا [41«]عمر فعاش حتی کان رجال ثم مات

انسان بن گیا تھا پھر انتقال کرگیا۔

کمسنی زید کے ابن قدامه مقدسی کو صاحب اوالد جانا هے، زید نے تواس سے بھی باالتر بعض

اما الحدیث االول الیصح، »میں مرنے کے حوالے سے موجود روایات کو رد کرتے ہوے لکھتا هے:

[48«]فإن زید بن عمر، هو ابن ام کلثوم بنت علی، الذی صلی علیه معھا و کان رجال له اوالد کذالک

ہے( صحیح نہیں ہے، کیوں کہ زید بن )جو زید کے کمسنی میں مرنے کے بارے میں ثیعنی وہ حدی

عمر جو کہ ام کلثوم بنت علی کا بیٹا تھا، کہ جس پر ام کلثوم کے ہمراہ نماز پڑهی گئی، ایک پختہ انسان

اور صاحب اوالد تھا۔

اختصار کے ساتھ ذکر کیا کو کچھ حقایق سےہم نے ام کلثوم سے متعلق اس مقالے میں اہل سنت منابع

مالحظہ کیا ہو گاکہ کسی ایک ہے، محترم قاری نے اس واقعے کے بارے میں میں موجود تناقضات کا

کا شکار ہے اس کے مانند کوئی اور مسئلے میں بھی اتفاق رای نہیں پایا جاتا ، جتنا یہ واقعہ اختالفات

لہذا اس داستان سے نہ خلیفہ دوم کے لئے ہوے ہیں، مسئلہ تاریخ میں بہت ہی کم مورد اختالف واقع

کوئی فضیلت ملتی ہے نہ حضرت علی اور خلیفہ کے درمیان دوستانہ تعلقات کو ثابت کرسکتے ہیں۔

نتیجہ

گذشتہ مباحث سے یہ نتائج اخذ کرسکتے ہیں

ے زریعے ام کلثوم کی عمر سے شادی ، تاریخی لحاظ سےمکمل مشکوک ہے اور موجودہ روایات ک -7

بلکہ صرف ایک احتمال کی حد تک ہے۔ اس کو ثابت نہیں کرسکتے

اور اس واقعے کے بارے میں جتنی روایات نقل ہوئی ہے ان کا اکثر حصہ حقیقت سے عاری -2

افسانے پر مشتمل ہیں ۔

ام کلثوم کی فرزندان جعفر سے شادی کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ -1

حضرات نے کچھ ایسی چیزوں کو خلیفہ منسوب کیا ہے جو کسی بھی اس واقعے میں اہل سنت -4

صورت مقام خالفت کے لئے مناسب نہیں ہیں، ان میں حقیقت ہو تو خلیفہ کی ذات پر سوال اٹھتی ہے

کیوں کہ نازیبا حرکات کے مرتکب ہوگئے یہ خلیفہ کی شایان شان نہیں۔

جود خارجی نہیں کہ جس کو روایات کے زید بن عمر ایک افسانوی شخصیت ہےجس کا کوئی و -5

زریعے ثابت کرسکے۔

، مطبعہ مہر، 83شیخ مفید، المسائل السرویہ، ص -[ 7]

، مادہ لمہ، موسسہ مطبوعاتی 214، ص 4ابن اثیر، مجد الدین، النھایہ فی غریب الحدیث، ج -[ 2]

اسماعیلیان، قم، طبع چھارم

، مکتبۃ النینوی الحدیثہ، تہران، 10نقوی ہندی، سید ناصر حسین، افحام االعداء و الخصوم، ص - [1]

11احزاب / -[ 4]

، 31، ص 7تفصیل کے لئے ۔ ر۔ ک:عالمہ مرتضی عسکری، نقش عایشہ در تاریخ اسالم، ج -[ 5]

ش7111انتشارات منیر، تہران،

بصیرتی، قم، ۀمکتب، 770ابن طیفور، بالغات النساء، ص -[ 3]

، قمۀ، مرکز ابحاث العقائدی70سید علی میالنی، تزویج ام کلثوم من عمر، ص -[ 1]

10سید ناصر هندی، افحام االعداء و الخصوم، ص -[ 8]

70میالنی، تزویج ام کلثوم من عمر، ص -[ 7]

، المکتب 70152، حدیث 731، ص 3صنعانی، عبد الرزاق بن همام، مصنف عبد الرزاق، ج - [70]

7401االسالمی، بیروت،

432، ص 7الطاهرہ للدوالبی، ج ۀالدوالبی، الذری -[ 77]

432، ص 7الطاهرہ، ج ۀدوالبی، الذری -[ 72]

وجتہ الی ما تری" اس صورت میں ممکن ہے کلمہ احوجتہ متکلم وحدہ کا صیغہ ہو" درۀ عمر اح -[ 71]

چونکہ متکلم حضرت علی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا ترجمہ وہی ہے جو اوپر کیا گیا،

احوجتہ مفرد مؤنث ہو اس صورت میں اس کلمہ کا ترجمہ یوں ہوگا "عمر کے تازیانے نے اس کو ایسا

کہنے پر مجبور کیا ہے" وهللا اعلم

، دار صادر، بیروت،432، ص 8الطبقات الکبری، ج ابن سعد الزہری، -[ 74]

782، ص 3خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج -[ 75]

7755، ص 4عبدالبر، االستیعاب، ج -[ 73]

225، ص 7عصامی، سمط النجوم، ج -[ 71]

، 711، ص 7ابو عثمان، کتاب السنن، ج اس بارے میں مذید تفصیل کے لئے رجوع کریں: - [78]

، صفدی، الوافی 777، ص 4، ابن حجر عسقالنی، االصابه، ج 732، ص 7طبری، ذخائر العقبی، ج

، 77، ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج 507، ص 1، ذهبی، سیراعالم النبالء، ج 283، ص 1بالوفیات، ج

5، ص 2ابن جوزی، المنتظم، ج ،482ص

7787، موسسه اهل البیت، بیروت، 287الخواص، ص ۀسبط ابن الجوزی الحنفی، تذکر -[ 77]

432، ص 8ابن سعد، الطبقات، ج -[ 20]

، دار المعرفه، بیروت، 377، ص 4، ج ۀالنبوی ۀابن کثیر، السیر -[ 27]

، 7، العصامی، سمط النجوم العوالی، ج 771، ص 7ی، ج ر۔ ک: احمد عبدهللا الطبری، ذخائر العقب -[ 22]

۔ ذهبی، سیر اعالم النبالء، ج 278، ص 7،المحب الطبری، ریاض النضرۀ فی مناقب العشرہ، ج 225ص

۔ ابن اثیر، 457، ص 1۔ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج 7778، دار الفکرللطباعۂ والنشر، بیروت، 507، ص 1

75، ص 7۔ ابن حزم، جمھرۀ انساب العرب، ج 110، ص 5البدیۂ والنھایہ، ج

710، ص 7الطبری، ذخائر العقبی، ج -[ 21]

225، ص 7عصامی، سمط النجوم، ج -[ 24]

711، ص 1ابن عساکر، تاریخ مدینۂ دمشق، ج -[ 25]

75ص 7دوالبی، الذریۂ الطاہرہ، ج -[ 23]

431، ص 8ہ، ج ئل النبو ، دال17، ص 1بیقھی، سنن بیقھی، ج -[ 21]

88، ص 7۔ ابن اسحاق، السیرۀ النبویہ، ج 431، ص 8ابن سعد، الطبقات، ج -[ 28]

75، ص 7انساب العرب، ج ۀابن حزم، جمھر -[ 27]

، العظیم 11، ص 4بیقہی، ابو بکر، سنن بیقہی، ج -17، ص 7ابن حجر عسقالنی، رواة اآلثار، ج -[ 10]

،438، ص 8ابن سعد، الطبقات، ج -115، ص 8عبود، ج آبادی، محمد شمس الحق، عون الم

الرازی التمیمی، محمد بن ادریس، الجرح و -215، ص 7النووی، محی الدین، تھذیب االسماء، ج -[ 17]

538، ص 1التعدیل، ج

7241، ص 1االصحاب، ج ۀابن عبد البر، االستیعاب فی معرف -[ 12]

بالذری، انساب االشراف، ص -387، ص 4تمیز الصحابه، ج ابن حجر عسقالنی، االصابه فی -[ 11]

122

، ص 4ابن اثیر، اسد الغابه، ج -، 227عبد هللا الطبری، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، ص -[ 14]

، پر ام کلثوم کی عون اور محمد کے ساتھ شادی 375، ص 5اسی کتاب کے ج، ، لیکن ابن اثیرنے 751

وہ بھول گئے کہ عون و محمد خلیفہ دوم کے زمانے شاید وضیح کے نقل کیاهے،کو بھی بغیر کسی ت

میں ہی شہید ہوگئے تھے، اسی لئے وہ تضاد گوئی کا شکار ہوئے۔

184، ص 4حاکم نشاپوری، مستدرک علی الصحیحین، ج -[ 15]

17، ص 1سنن بیقھی، ج -[ 13]

17، ص 7اآلثار، ج ۀابن حجر، روا -[ 11]

734، ص 3عبدالرزاق، مصنف عبدالرزاق، ج - [18]

17، ص 7، رواة اآلثار، ج 115، ص 8، عون المعبود، ج 11، ص 4سنن بیقہی، ج -[ 17]

532، ص 1الرازی تمیمی، محمد بن ادریس، الجرح و التعدیل، ج -[ 40]

215، ص 7نووی، تھذیب االسماء، ج -[ 47]

502، ص 1۔ ذہبی، سیر اعالم النبالء، ج 3، ص 5الصفدی، الوافی بالوفیات، ج -[ 42]

83، ص 7ابن قتیبہ، عیون االخبار، ج -[ 41]

17، ص 7اآلثار، ۀابن حجر عسقالنی، روا -[ 44]

71، ص 7الطاهرہ، ج ۀدوالبی، الذری -[ 45]

724، ص 7۔ االستیعاب، ج 12، ص 2۔ سنن دار قطنی، ج 17، ص 1ر۔ ک: سنن بیقہی، ج -[ 43]

782، ص 3خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج -[ 41]

227، ص 2ابن قدامه المقدسی، المغنی، ج -[ 48]

عقد ام کلثوم

کچھ لوگ شک و شبہ مسلمانوں کے درمیان ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ بن کر رہ گیا ہے

بنت علی علیہ السالم کی شادی کلثوممیں پڑے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ متحیر اور سر گرداں ہیں کہ ام

ذا اس بات کو روشن کرنے کے لئے مختصر اور مفید مضمون پیش عمر ابن خطاب سے ہوئی ہے ؟ لہ

کر رہے ہیں ۔

تذکرة ”ا پ کا ذکر کیا ہے اور سبط ابن جوزی نے اپنی کتاب ابن عبد البر نے کتاب استیعاب میں

علیہا کی اوالد کا ذکراس ترتیب کے ساتھ کیا ہے حضرت زہراسالم هللا میں حضرت فاطمہ“ الخواص

السالم حضرت امام حسین علیہ السالم ناب زینب اور جناب ام کلثوم ۔عالمہ سید محسن امام حسن علیہ

جعفر طیا ر عاملی مرحوم نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں ذکر کیا ہے کہ ا پ کی شادی جناب عون ابن

خلیفہ عمر خطاب کے ساتھ ا پ استیعاب ،اصابہ،اسد الغابہ جیسی کتابوں میںکے ساتھ ہوئی تھی جب کہ

کی شادی کی روایتیں الئی گئی ہیں جو جعلی ہیں۔

عالمہ محسن عاملی نے تحقیق کے بعد اس بات کا یقین حاصل کیا ہے کہ سرے سے یہ واقعہ جب کہ

کے اسے خلیفہ عمر کے فضائل ہی وجود میں نہیں ا یا اور اس شادی کی روایت من گڑهت ہے اور

قدر اختالفات طور پر گڑها گیا ہے جو صحیح نہیں ہے ۔اس سلسلے میں روایات واخبا رسے متعلق اس

الشریعہ نے بھی اس موجود ہیں جو خود اس واقعہ کی نفی پر داللت کرتی ہیں ۔اور صاحب ریاحین

سرے سے اس عقیدے کا کہ میں روایت سے مختلف اقوال و اخبار کو جمع کرنے کے بعد لکھا ہے

گی ۔ منکر ہوں اور اس پر عقیدہ نہیں رکھتا کہ یہ شادی واقع ہوئی ہو

ہے اورقابل قبول نہیں ام کلثوم بنت علی علیہ السالم کی شادی عمر ابن خطاب سے ہوئی یہ روایت غلط

ابل وثوق اور محققین کے نزدیک ق کیوں کہ یہ روایت زبیر ابن بکار سے نقل کی گئی ہے یہ شخص

بر بنائے دشمنی اورتہمت ہے ۔ مورد اطمینان نہیں ہے ۔ جو کچھ اس نے نقل کیا ہے وہ

دشمن تھا۔اس کا دل بنی ہاشم کے کینہ و دشمنی سے زبیر ابن بکار حضرت علی علیہ السالم کا بہت بڑا

بھی بات قابل قبول نہیں ہے۔ بھرا ہوا تھا اس وجہ سے اس کی کوئی

ذا کبھی کہ اس نے جو روایتیں نقل کی ہیں اس میں دوسری بات یہ بھی بہت زیادہ تضادپایا جاتا ہے ۔لہ

نے ام کلثوم کی شادی عمر ابن خطاب سے اپنی مرضی سے کہتا ہے کہ خود حضرت علی علیہ السالم

علیہ السالم کے چچا جناب عباس علیہ السالم نے ام کلثوم کی شادی کی۔کبھی کہتا ہے کہ حضرت علی

تھی۔کبھی کہتا ہے کہ: یہ شادی ڈرانے دهمکانے سے کی گئی یعنی عمر نے دهمکی اپنے ذمہ لے لی

تھی۔اور کبھی کہتا ہے کہ :یہ شادی ایثارواختیارسے وقوع پذیر ہوئی۔ دی

باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ عمر کی اہمیت بڑهانے کے لئے گڑها گیا ہے۔اور یہ ان متضاد

ذا اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہےاختالفات حدیث ․کے بطالن پر داللت کرتی ہے ۔لہ (۹)

روایت سے انکار کیا ہے اس کے مرحوم شیخ مفید )رح(،ابو سہل نوبختی اور ابن شہر ا شوب نے اس

ہے ۔اور عبد الرزاق مقدم وناصر حسین نفی میں شیخ محمد جواد بالغی نے ایک مفصل رسالہ لکھا

ہے۔ اس واقعہ سے انکار کیالکھنوی نے شدت سے

ہے کہ انھوں نے بہت سے اہل سنت بھی اس روایت کے منکر ہیں ۔اور ان کے انکار کرنے کی علت یہ

دیکھاہے۔ اس طرح کی شادی عمر کے لئے تاریخ کی معتبرکتابوں نہیں پس لوگوں کے ذہنوں میں اس شادی کے ا نے کی علت کیا ہے؟؟

کے وال پیدا ہو کہ اگر اس قسم کی کوئی روایت نہیں تو پھر کیوں لوگوںکی ذہنوں میں یہ س شاید لوگوں

ہو؟ درمیان رائج ہے۔اور لوگوں کو وہم وگمان میں ڈال دیا ہے کہ شاید یہ شادی ہوئی

اس روایت کے یہ روایت ابو محمد حسن ابن یحیی کی کتاب سے منتشر ہوئی ہے اور کچھ لوگوں نے

ذا یہ روایت صحیحبارہ میں کہا ہے کہ اس کو ہے ۔ جب کہ انھوں نے اس ایک علوی نے بیان کیا ہے لہ

کو زبیر ابن بکار سے نقل کیا ہے ۔

شاید یہ ہو کہ عمر کی ایک بیوی کا نام ام کلثوم تھا جو عبد هللا ابن عمر کی ماں اس وہم وگمان کا منشا

ام السالم کی لڑکی کا نام بھی ۔ام کلثوم جرول خزاعیہ کی لڑکی تھی۔چوں کہ حضرت علی علیہ تھی

ذا لوگوں نے اس بات کوام کلثوم بنت علی علیہ السالم سے مشہور کردیا ۔اور یہی سبب بنا کہ کلثوم تھا لہ

بعض لوگ جناب ام کلثوم کو عمر کی بیوی تصور کرنے لگے۔

خیال لوگوں کا بات یہ بھی ہے کہ ام کلثوم نام کی ابوبکر کی ایک لڑکی تھی جس کے بارہ میں دوسری

پیغام بھیجا تھا۔ ہے کہ یہ حضرت علی علیہ السالم کی لڑکی ہے ۔جس کے لئے عمر نے خواستگاری کا

اشارہ کردینا ضروری سمجھتاہوں۔ یہ بات اور زیادہ روشن وواضح ہوجائے اس لئے اس کی طرف بھی

جو دار ۹۰۲جلد دو ص/“ انیاغ”ہوتے ہیں اپنی کتاب ابو الفرج اصفہانی جوعلمائے اہل سنت میں شمار

نقل کرتے ہیں :قریش کے ایک شخص نے عمر بن خطاب سے الفکر بیروت سے چھپی ہے میں روایت

شادی کیوں نہیں کرلیتے تا کہ ابوبکر کے مرنے کے بعد تمھار ی کہا: تم ام کلثوم دختر ابوبکر سے

یں شامل ہو جاؤ۔محکم ہو جائے اور تم ان کے رشتہ داروں م دوستی ان کے خاندان سے

کیوں نہیں۔میں چاہتاہوں کہ ایسا ہی کروں ۔ابھی فورا تم عائشہ کے پاس جاوٴ اور عمر نے جواب دیا: ہاں

۔ وہ شخص عائشہ کے پاس گیا، جو کچھ عمر نے اس سے کہا اس تھا رشتہ کا جوا ب تم میرے پاس الوٴ

کرلیا۔اس کے وشی اس رشتہ کو قبولاس نے عائشہ کے سامنے بیان کردیا ۔عائشہ نے ظاہرا خوشی خ

غصہ کی حالت میں ہیں اس بعد مغیرہ ابن شعبہ عائشہ کے پاس گیا تو کیا دیکھا کہ عائشہ غمگین اور

نے پوچھا ا خر تم کو کیا ہوا تم غمگین کیوں ہو؟

عمر کے پیغام کو مغیرہ سے بیان کیا اور کہا یہ نوجوان لڑکی ہے ہم چاہتے کہ اس کی عائشہ نے

خشن زندگی خوش گوار ہونہیں چاہتے کہ ساری عمر تلخیوں میں گزارے کیوں کہ عمر غصہ ور اور

شخص ہے میں نہیں چاہتی کہ میری بہن اس کے ساتھ زندگی کزارے۔

سے کہا :یہ کام ہمارے ذمہ چھوڑدو تا کہ میں تمھارے اس مشکل کو حل کر دونگا اس مغیرہ نے عائشہ

ابوبکر اور بوال کہ خوش رہو اور بچے زیادہ ہوں میں نے سنا ہے کہ تم بعد وہ عمر کے پاس گیا کے

پیغام بھیجا ہے کے خاندان سے وصلت کرنا چاہتے ہو،تم نے ابو بکر کی لڑکی ام کلثوم سے شادی کا

۔عمر نے کہا : ہاں ایسا ہی ہے ۔

اخالق ہو یہ لڑکی ابھی اپنے خاندان میں سب سے زیادہ غصہ اور بد مغیرہ نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن تم

ہے پس تم ہمیشہ اس کے اوپر اعتراض کرو گے اور مارو پیٹو گے اور وہ فریاد نئی نئی جوان ہوئی

اپنے باپ کو یاد کرے گی ،عائشہ بھی تمھارے اس حرکت سے ناراض اوررنجیدہ ہوں کرے گی اور

تکرار گا ۔ اور یہ بات برابر وقت دونوں ابوبکر کو یاد کریں گی جس سے ان غم تازہ ہو جائے گی۔اس

ہوتی رہے گی۔

قسم کی بات کر رہے ہو عمر نے مغیرہ سے پوچھا تم کس وقت عائشہ کے پاس گئے تھے جو اس

جواب دیا میں ابھی ابھی ان کے پاس ؟۔عائشہ نے اپنی بہن کے لئے مجھے پسند کر لیا ہے !مغیرہ نے

گیا تھا ، اس وقت اسی کے پاس سے ا رہا ہوں ۔

ضمانت بھی لیا ہے عمر نے کہا :میں سمجھ گیا ، میں ان لوگوں کو پسند نہیں ہوں اور تونے ان سے

اور قول بھی دیا ہے کہ تو مجھ کو اس کام سے منصرف کرے ۔

لڑکی ان معلوم ہونا چاہئے کہ یہ دو ام کلثوم ایک مادر عبدهللا ابن عمر اور دوسری ابو بکر کی پس

بنت علی علیہ ے سبب بنا کہ لوگ مشکوک ہو کر سمجھ بیٹھے کہ ام کلثومدونوں کا رابطہ عمر وس

السالم عمر کی شادی عمر سے ہوئی جب کہ ایسا نہیں ہے ۔(۳)

!واضح ہو

میں ہے اور نہ صحیح مسلم میں حتی دوسری بات یہ کہ ام کلثوم کی شادی کا واقعہ نہ تو صحیح بخاری

بھی مشہور مسانید و معاجم میں بھی اس قسم اہل سنت کی کسیکسی بھی صحاح ستہ میں نہیں ہے اور

کی کوئی اثر موجود نہیں ہے ۔

جائے تعجب ہے کہاگر ایسا ہوتا تو عمر کی خالفت محکم کرنے کے لئے ضرور لکھتے۔ یہاں پر

ے ہوا کہ اس طرح ک اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا اہم واقعہ سے ان لوگوں نے غفلت کیا ہو؟ پس معلوم

واقعہ کو ہرگز نہ چھوڑتے اور اپنی واقعہ کا کوئی بنیاد ی اساس نہیں ہے۔و اال اتنے ا سانی سے اس

کتابوں صحاح و مسانید میں ضرور تحریر فرماتے۔

:خالصہ کالم

میں یہاں پر بیان کرنا چاہتاہوں کہ سے استفادہ کرتے ہوئے“ ارشاد”مرحوم محقق شوشتری کی کتاب

کلثوم تھا۔ایک ام کلثوم کبری جو فاطمہ زہرا سالم هللا السالم کی دو لڑکیوں کا نام امحضرت علی علیہ

کلثوم صغری جو )ام ولد (کنیزکی لڑکی تھیں۔ علیہا سے تھیں اور دوسری ام

صغری کی کنیت ام کلثوم تھی جو فاطمہ زہرا سالم هللا علیہا کی لکھتے ہیں کہ زینب“ ارشاد”صاحب

۔تھیں اوالد سے

کی شادی عمر بن خطاب شاید اس کی وجہ یہی رہی ہوکہ مورخین نے اشتباہ کیا ہے کہ ام کلثوم کبری

اشتباہات وجود میں ا ئے۔ سے ہوئی ۔کیوں کہ دونوں ام کلثوم باہم مل جانے کی وجہ سے یہ

کی تھیں نجفی )رح( کی تحقیق یہ ہے کہ ام کلثوم ابوبکر کی بیوی اسماء بنت عمیس هللا مرعشی ا یۃ

ذا یہ بچی ۔ابوبکر کے مرنے کے بعد اسما بنت عمیس نے حضرت علی علیہ السالم سے شادی کرلی ۔ لہ

حضرت علی علیہ السالم کی بھی محمد ابن ابوبکر کی طرح حضرت علی علیہ السالم کے گھر ا ئی اور

کرلی ۔ تربیت میں پلی بڑهی بعد میں عمر بن خطاب نے اس سے شادی

بنت علی علیہ السالم عہ یہ تھا(جس کو لوگوں نے عمر کی اہمیت بڑهانے کے لئے ام کلثومخالصہ واق)

سے شہرت دے دی۔(۲)

۱۱۶و۱۱۱ص/ ترجمہ افتخار زادہ“ فاطمہ زہر)ع(شادمانی دل پیامبر)ص(”۔ احمد رحمانی ہمدانی (۹)

۳۳و۳۰در مدرک شیعہ وسنی(ص/ ۔ فرید سائل۔ افسانہ ازدواج )بررسی ازدواج حضرت ام کلثوم با عمر(۳)

اکبر محسنی ۔ڈاکٹر علی۱۱،ص/۳۔ تاریخ تحلیل و سیاسی اسالم ج/(۲)

عنوان : خلیفہ دوم کی سیرت)تاریخ اسالم کا تعجب خیز مسئلہ

محققین اور حقیقت کی تالش کرنے والے جوانوں کے ذہنوں کو جس چیز نے زیادہ مشغول کررکھا ہے

ئی اور سخت کالمی ہے ، اس بحث کی دو لحاظ سے زیادہ اہمیت ہے ۔وہ خلیفہ دوم کی تندخو

اول : قرآن کریم نے رسول اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی جس برجستہ ترین صفت کو بیان کیا ہے

وہ مہربانی اور مالئمت اور تندخوئی اور سخت کالمی سے آپ کو منع کیا گیا ہے )ائے پیغمبر یہ هللا کی

ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس مہربانی

۔ ( ۹سے بھاگ کھڑے ہوتے( )

صلی )دوم : مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے پیش آنے کو قرآن کریم نے حضرت محمد

وہ کفاروں کے ساتھ سخت هللا علیہ و آلہ وسلم( کے چاہنے والوں کی خاص خصوصیت بیان کی ہے ۔

کے ساتھ مہربان ہیں)محمد)ص( هللا کے رسول ہیں اور جو لوگ ( ۳کالم ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں)

ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس مینانتہائی رحمدل ہیں( ، لیکن اہل سنت کی

لوم ہوتا ہے کہ خلیفہ تندخو اور سخت کتابوں میں خلیفہ دوم کے جو حاالت بیان ہوئے ہیں ان سے مع

کالم تھے اورکبھی کبھی پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے ساتھ بھی اسی طرح پیش آتے تھے

۔

فطری سی بات ہے کہ تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں ان تمام باتوں کے موجود ہونے کے بعد یہ سوال

اطور کے باوجود رسول خدا کا خلیفہ ہوسکتا ہے ؟ اورکیا وہ تمام پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ان عادات و

مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل بن سکتا ہے ؟

افسوس کہ کچھ مسلمانوں نے ان عادات و اطوار کو قبول کرلیا اور وہابیوں کا ایک گروہ ،مسلمانوں کے

کرتے ہیں ،بمبوں کے ذریعہ ساتھ تندخوئی اور سخت کالمی سے پیش آتا ہے ، یہ نہینبلکہ ان کو قتل

مسلمانوں کے مرد اور عورتوں کو قتل کرتے ہیں اور اس طرح سے اسالم کے حقیقی چہرے کو خراب

کررہے ہیں ۔

اہل سنت کے تمام علماء اور دانشورں کو خلیفہ دوم کی اس تندخوئی اور سخت کالمی پر تنقید کرنا

کریں، اورحقیقت کی تالش کرنے والے جوانوں کو چاہئے اوراس کی ان عادات کو اسالم سے مربوط نہ

اس طرح کی متضاد عمل سے آگاہ کریں ، سب کو پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی بہترین

عادات و اطوار سے آشنا کریں ۔ اس طرح دوسرے مذاہب کے مسلمانوں مینایک دوسرے سے تندخوئی

لمان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مستکبرین اورظالمین اور سخت کالمی ختم ہوجائے گی اورتمام مس

کا مقابلہ کرسکیں گے اور ایک دوسرے سے جنگ کرنے میں طاقت ختم کرنے کے بجائے ایک

دوسرے سے محبت کریں گے اور اپنی طاقت کو اسالمی ممالک کو دشمنوں کے ہاتھوں سے بچانے

میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے ۔

: ی اور سخت کالمی کو چار حصوں میں تقسیم کریں گےخلیفہ دوم کی تندگوئ

۔ پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے زمانہ میں عمر کا تندرویہ۹

۔ سقیفہ کا واقعہ۳

۔ خالفت کے دوران مسلمانوں سے تندخوئی اور سخت کالمی۲

۔ اپنے اہل وعیال کے ساتھ سخت کالمی۴

ہل سنت کی کتابوں سے تمام واقعات کو بیان کئے جائیں تاکہ اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ ا

مذہبی تعصب کا احتمال باقی نہ رہے ۔

۔ پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے زمانہ میں عمر کا تند رویہ۱

، پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے زمانہ میں خلیفہ دوم کا تندرویہ تواریخ میں نقل ہوا ہے

چاہے یہ تندرویہ دوسروں کے ساتھ ہو یا پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے سامنے انجام پایا

:ہو ، یہاں پر ہم چند نمونوں کی طرف اشارہ کریں گے

الف : اپنی مسلمان کنیز کو اذیت پہنچانا

مشہور مورخ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ان مسلمانوں کا ذکر کیا ہے جن کو بہت زیادہ اذیت اور

کا نام ذکر کیا ہے جو عمر کی کنیز “لبیبہ”شکنجے دئیے گئے ،ان میں سے بنی مومل کی ایک خاتون

ھا حتی تفتن ، ثم اسلمت قبل اسالم عمر بن الخطاب و کان یعذب ” : تھی۔ انہوں نے اس کے متعلق لکھا ہے

۔ وہ کنیز،عمر بن خطاب سے پہلے مسلمان ہوگئی تھی ، عمر اس “یدعھا و یقول : انی لم ادعک ال سآمة

کو اذیت دیتا تھااور کہتا تھا کہ اپنے دین کی طرف واپس آجائے)اور جب تھک جاتا تھا(اس کو چھوڑ

کہ میں تجھے مارتے مارتے تھک دیتا تھا اور اس سے کہتے تھا کہ میں نے تجھے اس لئے چھوڑ دیا

۔( ۲گیا ہوں)

ابن ہشام نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے : عمر اس کو اس قدر مارتاتھا کہ خود تھک جاتا

۔ )میں تجھے نہ مارنے کی “انی اعتذر الیک، انی لم اترکک اال ماللة ” : تھا ،اس کے بعدکہتا ہے

گیا ہوں( ۔ میں تجھے اس لئے نہیں مار رہاہوں کیونکہ میں تھک گیا معذرت چاہتا ہوں کیونکہ مینتھک

ہوں

پھر مزید کہتا ہے : ایک روز ابوبکر نے اس کو مارتے ہوئے دیکھ لیا توابوبکر نے اس کنیز کو خرید

۔( ۴کر آزاد کردیا )

ن کئے ہیں جنہیں ابن کثیر نے اس جگہ بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے جہاں اس نے ان لوگوں کے نام بیا

۔( ۱ابوبکر نے خرید کر آزاد کیا ہے )

ب : اپنی مسلمان بہن کو مارنا

سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں جہاں پر عمر کے ایمان النے کا سبب بیان کیا گیا ہے وہاں پر ایک

واقعہ نقل ہوا ہے جس سے عمر کی تندروی کامل طور سے واضح ہوجاتی ہے ۔

بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو وہ ان کے جس وقت عمر کو اپنی

گھر گیا تو وہ قرآن کی تالوت کررہے تھے ،عمر کو دیکھ کر انہوں نے وہ نوشتہ چھپالیا ۔ عمر نے ان

سے کہا : میں نے سنا ہے کہ تم نے محمد کے دین کو قبول کرلیا ہے ،اس کے بعد اپنے بہنوئی پرحملہ

ا ، اس کی بہن فاطمہ دفاع کے لئے آگے بڑهی تو عمر نے اس کو اس قدر مارا کہ اس کے جسم سے کی

۔ اس کے بعد پشیمان ہوتا ہے اور قرآن کی “فقامت فاطمة لتکفہ عنہ فضربھا فشجھا”خون جاری ہوگیا

۔( ۶آیات کودیکھ کر مسلمان ہوجاتا ہے)

علیہ و آلہ وسلم( پر اعتراضج : ابوہریرہ پر حملہ اور رسول خدا )صلی هللا

مسلم نے اپنی صحیح میں ایک روایت نقل کی ہے : پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( نے ابوہریرہ

سے فرمایا : جس کو بھی خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہوئے دیکھو اور وہ اس پر دل وجان سے

اعتقاد رکھتا ہو اس کو بہشت کی بشارت دو ۔

ابوہریرہ کہتا ہے : میں وہاں سے اٹھ کر چال ،سب سے پہلے میری مالقات عمر سے ہوئی ، میں نے

پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی حدیث اس کو سنائی ، اچانک اس نے مجھ پر حملہ کیا اور

ین ثدیی فخررت فضرب عمر بیدہ ب ”اتنی زور سے میرے سینہ پر مارا کہ میں پیٹھ کے بل نیچے گرگیا

۔ اس کے بعد مجھ سے کہا : واپس جاؤ۔“الستی

میں روتا ہوا پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی خدمت میں پہنچا اور وہ بھی میرے پیچھے

وہاں آگیا ۔ پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( نے فرمایا : کیا ہوا؟ میں نے پورا واقعہ سنایا ۔ رسول

لی هللا علیہ و آلہ وسلم( نے عمر پر اعتراض کیا کہ ایسا کیوں کیا؟اس نے رسول اکرم سے خدا )ص

۔ ایسے احکام صادر نہ کرو ! “فال تفعل فانی اخشی ان یتکل الناس علیھا” : عذرخواہی کے بجائے کہا

صلی هللا مجھے ڈر ہے کہ لوگ اسی بات پر تکیہ نہ کرلیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں ، لیکن رسول خدا )

۔( ۱علیہ و آلہ وسلم( نے اپنی بات پرمصر رہے)

آپ نے مالحظہ کیا کہ رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( نے لوگوں کو توحید کی طرف راغب

کرنے کیلئے ان کو یہ بشارت دی ، البتہ ایسا ایمان جس کو وہ دل وجان سے قبول کرتے ہوں ۔ لیکن

یہ و آلہ وسلم( کے حکم کے سامنے استقامت کی ، ابوہریرہ کے عمر نے رسول خدا )صلی هللا عل

پرایسے حکم کی وجہ سے اعتراض کیا ۔ (طمانچہ مارا اور رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم

د : پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی طرف حملہ

ٹا پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( جس وقت مشہور منافق عبدهللا بن ابی کا انتقال ہوا تو اس کا بی

کے پاس آیا کہ آنحضرت اس کے باپ کے جنازہ پر نماز پڑه دیں، یہ بات مدنظر رہے کہ عبدهللا بن ابی

ظاہرا مسلمان تھا اور شہادتین کو زبان پر جاری کرتا تھا اور ابھی رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم(

ی خاص حکم،خداوندعالم کی طرف سے نہیں مال تھا، لہذا آپ اس کی نماز کو اس جیسے کے متعلق کوئ

کے لئے حاضر ہوگئے ۔ اہل سنت کی صحاح ستہ کی روایت کے مطابق جس کو کبھی عبدهللا بن عمر

سے اور کبھی خود عمر سے نقل کیا ہے ، ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ عمر نے رسول خدا )صلی

پر حملہ کیا اور آپ کو اس پر نماز پڑهنے کو منع کیا ۔هللا علیہ و آلہ وسلم(

۔ جس وقت رسول خدا “فلما اراد ان یصلی علیہ جذبہ عمر ” : بخاری کے مطابق عبدهللا بن عمر نے کہا

)صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( نے عبدهللا بن ابی پر نماز پڑهنا چاہی تو عمر نے آنحضرت )صلی هللا علیہ و

ھین لیا، پھر آپ سے کہا : خداوند عالم نے آپ کو منافقین پر نماز پڑهنے سے منع کیا ہے آلہ وسلم( کو ک

۔

: صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( نے فرمایا : خداوند عالم نے مجھے اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے)رسول خدا

و ال تستغفر لہم ا ن تستغفر لہ ” لہم استغفر لہم اٴ ة فلن یغفر هللاه ۔ آپ ان کے لئے استغفار کریں “م سبعین مره

۔( ۱اگر ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے تو خدا انہیں بخشنے واال نہیں ہے)-یا نہ کریں

اور میں ) (۱اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ میری نماز سے اس کو کوئی فائدہ پہنچنے واال نہیں ہے)

صلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کام کیا ہے( ۔نے م

فاخذ عمر بن الخطاب بثوبہ فقال : تصلی علیہ و هو ” : ایک دوسری روایت کے مطابق بیان ہوا ہے

۔ عمر نے پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کا پیراہن پکڑ کر کہا ایسے شخص پر نماز “منافق

۔( ۹۰پڑه رہے ہو جو منافق ہے )

۔ میں “وثبت الیہ ” : دوسری روایت کے مطابق جس کو خود عمر سے نقل کیا ہے ،ذکر ہوا ہے ایک

پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی طرف جھپٹااورکہا : اس کے اوپر کیوں نماز پڑه رہے ہو؟ !

۔( ۹۹تا رہا)۔ رسول خدا نے تبسم کیا اورفرمایا یہاں سے چلے جاؤ، لیکن میں اسی بات کی تکرار کر

“ فعجبت من جراتی علی رسول )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( ”اس نے اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے کہا :

۔ مجھے رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے سامنے اپنی جرائت اور جسارت پر تعجب ہوتا ہے

۔( ۹۲)

وئی بھی کام هللا کی اجازت کے بغیر انجام یہ بات واضح ہے کہ رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( ک

نہیں دیتے اور آپ کے ہر قول ، فعل اور رفتار میں وحی کا دخل ہوتا ہے اور مسلمانوں کو بھی

و ما کان ” : آنحضرت کے قول،فعل اور عمل پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے ۔ قرآن کریم فرماتا ہے

و رسولہ فقد لمؤمن و ال مؤمنة ا ذا قض و رسولہ اٴمرا اٴن یکون لہم الخیرة من اٴمرہم و من یعص هللاه ی هللاه

۔ اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے “ضله ضالال مبینا

امر کے بارے میں صاحب اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے

۔( ۹۴رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھالی ہوئی گمراہی میں مبتال ہوگا)

یا اٴیہا الهذین آمنوا ال ترفعوا اٴصواتکم فوق صوت النهبی و ال تجہروا ” : اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے

۔ ایمان والو خبردار اپنی آواز کو نبی “ لہ بالقول کجہر بعضکم لبعض اٴن تحبط اٴعمالکم و اٴنتم ال تشعرون

کی آواز پر بلند نہ کرنا اور ان سے اس طرح بلند آواز میں بات بھی نہ کرنا جس طرح آپس میں ایک

یسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ دوسرے کو پکارتے ہو کہیں ا

۔ (۹۱ہو)

مذکورہ واقعہ میں آپ نے دیکھا کہ خلیفہ دوم نے اپنے اعتراض کو اس حدتک پہنچادیا کہ رسول خدا

)صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی طرف حملہ کیا اور آپ کے پیراہن کو پکڑ کر کھینچا اور رسول خدا

)صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے حکم کے سامنے اصرار کرتا رہا اور بعد میں خود بھی اپنی جسارت

اور جرائت پر تعجب کیا ۔

ه : پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( پر ناروا تہمت

صدر اسالم کے تلخ ترین واقعات میں سے ایک واقعہ وہ ہے جوپیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم(

کی زندگی کی آخری جمعرات کو پیش آیا ، اس روز پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( مریض

یا : مجھے قلم تھے اور اس کے کچھ دن بعد آپ کی رحلت ہوگئی ،آپ نے وہانپر موجود افراد سے فرما

و دوات الکر دیدو تاکہ میں تمہارے لئے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوں

گے ۔

ان النبی )صلی ” : رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی بات کو پورا کرنے کے بجائے عمر نے کہا

۔ پیغمبرا کرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( پر “حسبناهللا علیہ و آلہ وسلم( غلبہ الوجع و عندنا کتاب هللا

بیماری کا غلبہ ہوگیا )اور ان کو نہیں معلوم کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں( خدا کی کتاب جو ہمارے پاس

موجود ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے ۔

پیغمبر رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے سامنے بحث ونزاع شروع کردی ،کچھ لوگوں نے کہا

صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( )اکرم کو لکھنے دو اوربعض لوگوں نے اس کی بات کو دہرایا ،پیغمبر اکرم

نے ان کو حکم دیا کہ یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ اورمجھے تنہا چھوڑ دو ۔

آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ واقعہ ایک افسانہ یا خبر واحد ہے بلکہ مختلف تعبیر کے ساتھ اہل سنت کی

صحاح ستہ اور مسانید میں بارہا تکرار ہوا ہے ، بخاری نے چھے جگہ )کبھی عمر کے نام کی تصریح

اور مسلم نے تین جگہ اس (کرتے ہوئے اور کبھی جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے ذکر کیا ہے

۔( ۹۶واقعہ کو نقل کیا ہے )

قارئین گرامی آپ کس طرح سے اس مشہور اور موثق خبر کو برداشت کرسکتے ہیں اور اس کی کیا

تفسیر بیان کرسکتے ہیں ، اس کا فیصلہ آپ کے بیدار ذہنوں پر چھوڑدیتے ہیں ۔ )اس واقعہ کی مفصل

۔ کی بحث میں مطالعہ کریں ( “حدیث دوات وقلم”بحث اور اس کی متعدد اسناد کو اسی مقالہ کی

۔ سقیفہ کا واقعہ۳

سقیفہ کا واقعہ خود ایک طوالنی واقعہ ہے ا ور تاریخ اسالم میں اس پر سوالیہ نشان لگایا ہے ، جس کو

مستقل بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن اس واقعہ میں اور اس واقعہ کے بعد خلیفہ دوم کا غصہ اور

سخت کالمی اچھی طرح سے واضح ہوجاتی ہے ۔

سقیفہ بنی ساعدہ میں تمام انصار جمع ہوگئے اور خالفت کے متعلق گفتگو شروع ہوگئی تو جس وقت

اس کی خبر عمر تک پہنچی ،وہ ابوبکر اورابوعبیدہ جراح کو اپنے ساتھ لے کر سقیفہ پہن گیا ، وہاں پر

ر ایک ابوبکر نے ایک خطبہ دیا اس کے بعد حباب بن منذر اور عمر کے درمیان سخت کالمی ہوئی او

نے دوسرے کو ڈرایا اور دهمکایا اور آخر کار اوس و خزرج کی ہمیشہ کی رقابت کی وجہ سے قبیلہ

اوس نے یہ سوچتے ہوئے کہ خالفت سعد بن عبادہ اور قبیلہ خزرج تک نہ پہنچے ، جلدی سے ابوبکر

کی بیعت کرلی ۔

کہ سقیفہ میں موجود لوگ مشہور مورخ طبری اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے جب اس جگہ پہنچتا ہے

بیعت کے لئے ابوبکر کی طرف بڑهے تو اس وقت انہوں نے سعد کو اپنے پیروں سے کچل دیا ،وہ

: ۔ عمر نے کہا“سعد کی حفاظت کرو اس کو پیروں سے نہ مارو!”لکھتے ہیں : کسی نے فریاد کی :

کے بعد سعد کے سراہانے آیا اور کہا ۔ اس کو قتل کردو ، خدا بھی اسے قتل کرے ۔ ،اس“اقتلوہ قتلہ هللا”

۔( ۹۱: میں تجھے اس قدر مارتا کہ تیری ہڈیاں ٹوٹ جاتیں!! )

بخاری کے مطابق عمر اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : جب سعد کو ہاتھوں اور پیروں سے

۔ “ هللا سعد بن عبادہقتل ” :مارا گیا اور کچھ لوگوں نے کہا : سعد بن عبادہ کو قتل کردو تو میں نے کہا

۔ اور اس طرح اس نے لوگوں کو اس کام کے لئے ( ۱۹۱خداوند عالم سعد بن عبادہ کو قتل کردے )

ترغیب و تشویق کیا ۔

سعد(کو قتل کرے )۔ خداوند عالم اس “قتلہ هللا ! انہ منافق ” : ایک دوسرے نقل کے مطابق اس نے کہا

۔( ۹۱وہ منافق ہے !)

کے اثبات اور بیعت کے واقعہ میں عمر کی تندخوئی کامل طور سے واضح ہے ۔ابوبکر کی خالفت

کے عالوہ کسی کی (اہل سنت کے مشہور مورخ طبری کے مطابق انصار نے کہا : ہم علی )علیہ السالم

بیعت نہیں کریں گے اور جب عمر کو معلوم ہوا کہ کچھ اصحاب اور مہاجرین حضرت علی )علیہ

جمع ہیں تو آپ کے گھر کی طرف روانہ ہوا ، آپ کے گھر میں طلحہ ، زبیر اور السالم( کے گھر میں

کچھ دوسرے مہاجرین وانصار موجود تھے )جنہوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی( ،اس نے ان سب

۔ خدا کی قسم ! اگر تم بیعت کے لئے اس گھر سے “وهللا الحرقن علیکم او لتخرجن الی البیعة” : سے کہا

۔( ۳۰نہیں نکلو گے تو اس گھر میں آگ لگا دوں گا ! )باہر

بالذری کے مطابق ،عمر ایک مشعل جال کر علی )علیہ السالم( کے گھر کی طرف روانہ ہوا ، حضرت

فاطمہ زہرا )سالم هللا علیہا( کو گھر کے دروازے کے نزدیک دیکھا، حضرت فاطمہ نے اس سے فرمایا

۔ تو میرے گھر کو جالنا چاہتا ہے؟ اس نے صراحت کے “بابی؟ یابن الخطاب! اتراک محرقا علی” :

۔ جی ہاں اور یہ کام اس ہدف کے لئے ضروری ہے “ نعم و ذلک اقوی فیما جاء بہ ابوک”ساتھ کہا :

۔( ۳۹جس کے لئے آپ کے والد آئے تھے )

ذاک بمانعی ان وایم هللا ما ” : ابن ابی شیبہ کے مطابق اس نے حضرت فاطمہ )علیہا السالم( سے کہا

۔ خدا کی قسم یہ مسئلہ )ہمارے نزدیک تمہاری “اجتمع هوالء النفر عندک، ان امرتھم انیحرق علیھم البیت

اور والد کی محبت ( کبھی بھی ہمیں اس کام سے منع نہیں کرسکتا کہ اگر یہ چند لوگ)علی )علیہ

ں گا کہ اس گھر کو آگ ( اسی طرح تمہارے گھر آتے رہے تو حکم دوملسو هيلع هللا ىلصملسو هيلع هللا ىلصملسو هيلع هللا ىلص، زبیر وغیرہ(السالم

۔( ۳۳لگادی جائے )

کی وفات کے بعد (اسی تندخوئی کی وجہ سے بخاری کے مطابق ، حضرت فاطمہ زہرا )سالم هللا علیہا

جس وقت حضرت علی نے ابوبکر کو بلوایا تواس سے کہا کہ اپنے ساتھ کسی کو مت النا، اسی کی وجہ

ارسل الی ابی بکر ان ائتنا و ال یا تنا احد معک، کراهیہ ف”یہ تھی کہ وہ عمر کو پسند نہیں کرتے تھے

۔( ۳۲۔ )“لمحضر عمر

طبری اور ابن کثیر کی عبارت میں واضح تعبیر بیان کی گئی ہے کہ علی )علیہ السالم( نے ابوبکر سے

کہا : اکیلے آنا کیونکہ آپ اس کو عمر کے ساتھ بالنا نہیں چاہتے تھے ۔ اس لئے کہ آپ عمر کی

۔ (۳۴) “وکرہ ان یاتیہ عمر، لما علم من شدة عمر ”ئی سے آگاہ تھے تندخو

سقیفہ کے واقعہ میناس کی تندخوئی اور سخت کالمی کا واقعہ بہت طوالنی ہے )یہ بات بھی یاد رہے کہ

مذکورہ باال جو باتیں ہم نے بیان کی ہیں وہ سب اہل سنت کی مشہور کتابوں سے بیان کی ہیں( ۔

وران مسلمانوں سے تندخوئی اور سخت کالمی۔ خالفت کے د۲

کان عمر شدید الغلظة، و غر الجانب، ” : ابن ابی الحدید معتزلی نے خلیفہ دوم کے تعارف میں لکھا ہے

۔ عمر بہت زیادہ تند رو “خشن الملس، دائم العبوس، کان یعتقد ان ذلک هو الفضیلة و ان خالفہ نقص

یہ تند خوئی فضیلت ہے اور اس کے برخالف نقص و عیب اورسخت کالم تھا،اس کا عقیدہ تھا کہ

۔( ۳۱ہے)

اس کی تندخوئی اس قدر معروف تھی کہ جس وقت ابوبکر کی طرف سے خلیفہ معین ہوا تو لوگوں نے

اس پر بہت اعتراض کئے ۔

ابوبکر نے اپنی موت کے وقت حکم دیا کہ :کے مولف ابن ابی شیبہ نے لکھا ہے “ المصنف”کتاب

: کو بالؤ تاکہ میں اس کو اپنے بعد خالفت کے لئے منصوب کردوں، لوگوں نے ابوبکر سے کہاعمر

۔ تم ہمارے اوپر تند خو اور سخت کالم شخص “اتستخلف علینا فظا غلیظا ، فلو ملکنا کان افظ او اغلظ”

۔ ( ۳۶ہوجائے گا)کو خلیفہ بناناچاہتے ہو، اگر وہ خلیفہ بن جائے گا تو اور بھی زیادہ تند خو اور خشن

ماانت قائل لربک غدا و قد ”ابن ابی الحدید کے مطابق طلحہ نے بھی ابوبکر پر اعتراض کیا اورکہا :

۔ تم قیامت کے روز خدا کو کیا جواب دو گے کیونکہ تم نے ایک تندخو انسان کو “ولیت علینا فظا غلیظا

۔ (۳۱ہمارے اوپر والیت دی ہے؟ )

لسالم( نے بھی خطبہ شقشقیہ )نہج ا لبالغہ کے تیسرے خطبہ(میں اسی نکتہ امیرالمومنین علی )علیہ ا

۔ آخر کار ابوبکر نے “فصیرها فی حوزة خشناء یغلظ کلمھا و یخشن مسھا” : کی طرف اشارہ کیا ہے

خالفت کو ایسے شخص کے حوالہ کردی جو تند خو سخت گیر تھا ۔

اہل سنت کے مشہور دانشور ابن سعدکے قول میں “الطبقات”شاید اسی وجہ سے خود عمر نے )کتاب

اللھم انی شدید )غلیظ( ” : کے مطابق( خالفت ملنے کے بعد منبر پر سب سے پہلے یہی کلمہ جاری کئے

۔ خدایا میں تند خو ہوں لہذا مجھے نرم اور مالئم قرار “قلینی ، و انی ضعیف فقونی ، و انی بخیل فسخنی

۔( ۳۱ا دے ! اورمیں بخیل ہوں مجھے سخی بنادے )دے! میں ضعیف ہوں ، مجھے قوی بن

لیکن خالفت کے زمانہ میں اس کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی

تندخوئی اور سخت کالم کو چھوڑ نہیں سکا ۔ یہاں پر اہل سنت کی مشہور کتابوں سے خلیفہ دوم کی

: کچھ خصوصیات کو نقل کریں گے

ز تازیانہوحشت انگی

“شروانی”اور “شربینی” )لوگ اس کے تازیانہ مارنے اورخود اس سے اس طرح وحشت کرتے تھے

اہل سنت کے دو بزرگ فقہاء( کے مطابق ( جس طرح حجاج کی تلوار اور تازیانہ سے ڈرتے تھے )

۔( ۳۱)کانت درة عمر اهیب من سیف الحجاج( )

ہے کہ سب سے پہلے جس نے تازیانہ اٹھایا اور اس اسی طرح عمرکا اس وصف کے ساتھ تعارف کرایا

۔( ۲۰سے مارا وہ عمر تھا )

وہ اپنے تازیانہ سے عورتوں، مردوں، بچوں،جوانوں اورچھوٹے بڑے سب کو مارتا تھا ۔ تواریخ کی

۔ (۲۹)بعض کتابوں کے مطابق اس عمل کی وجہ سے بچے اس کو دیکھ کر بھاگ جاتے تھے

لئے مارنا بچے کو حقیر کرنے کے

ایک روز عمر بن خطاب کا ایک بچہ اس کے پاس آیا اس نے خوبصورت قمیض پہن رکھی تھی اور

فضربہ ”بالوں میں کنگھا کررکھا تھا ۔ عمر نے اس کے ایسا تازیانہ مارا جس سے وہ بچہ رونے لگا

: اس بچہ ۔ حفصہ )عمر کی بیٹی( اس واقعہ کو دیکھ رہی تھی اس نے کہا“عمر بالدرة حتی ابکاہ

کوکیوں مار رہے ہو؟ اس نے جواب دیا : میں نے دیکھا کہ وہ اپنی اس حالت سے خوش ہے میں نے

۔( ۲۳۔ )“رایتہ قد اعجبتہ نفسہ، فاحببت ان اصغرها الیہ ” !! چاہا کہ اس کو حقیر وذلی کروں

گریہ وزاری کرتی ہوئی عورتوں پرحملہ

۔ ابوبکر کے مرنے کے بعد اس کی رشتہ دار عورتیں گریہ کررہی تھیں، ۔ عمر نے ان سے خاموش ۹

ہونے کو کہا ۔ لیکن انہوں نے اس کی بات نہیں سنی، عمر نے حکم دیا ان سب عورتوں کو باہر نکالو،

زیانہ مارا جس وقت ابوبکر کی بہن ام فروہ کو باہر نکال کر خلیفہ کے پاس الئے تو عمر نے اس کو تا

۔ (۲۲) “فعالها بالدرة ، فضربھا ضربات ”

کنز العمال کے قول کے مطابق جن عورتوں کو باہر نکالتے تھے عمر ان سب کے تازیانے لگاتا تھا

۔( ۲۴)

۔ خالدبن ولیدکے مرنے کے بعد کچھ عورتیں میمونہ )پیغمبرا کرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی ایک ۳

کر رونے لگیں، عمر تازیانہ لے کر ابن عباس کے ساتھ وہاں آیا اور ابن عباس زوجہ(کے گھر جمع ہو

سے کہا : گھر میں داخل ہو کر ام المومنین سے کہو کہ پردہ کرلیں، اس کے بعد وہاں سے عورتوں کو

فعجل ”باہر نکالو ! ابن عباس نے داخل ہو کر عورتوں کو باہر نکاال ، عمر نے ان کے تازیانے لگائے

۔ جس وقت وہ عورتوں کو مار رہے تھے ایک عورت کے سر سے “خرجھن علیہ و هو یضربھن بالدرةی

چادر ہٹ گئی )اور اس کے بال کھل گئے( بعض لوگ جو وہاں پر موجود تھے انہوں نے عمر سے کہا :

م اے امیرالمومنین ! اس کا سر کھل گیا ہے ! اس نے جواب دیا اس کو چھوڑ دو ، اس کا کوئی احترا

۔“فقالوا : یا امیرالمومنین ! خمارها ! فقال : دعوها و ال حرمة لھا ”نہیں ہے

کان معمر ”عبدالرزاق صنعانی نے اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد اپنے استاد معمر سے نقل کیا ہے کہ

س کہ اس کے سر سے چادر اتر گئی(پر کہ ا)۔ معمر نے عمر کی اس بات “یعجب من قولہ : ال حرمة لھا

۔( ۲۱کا کوئی احترام نہیں ہے بہت تعجب کیا!)

مسند احمد کے نقل کے مطابق رسول اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی بیٹی رقیہ کی رحلت کے بعد

عورتیں اس کے فراق میں رو رہی تھیں، عمر وہاں پر موجود تھا اور عورتوں کے تازیانے مارر ہا تھا

دعھن ” : ل خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( نے عمر سے فرمایا۔ رسو “فجعل عمر یضربھن بسوطہ”

۔( ۲۶ان کو رونے دو، البتہ عورتوں کو ان کے غلط کام سے روکنا چاہئے ) “بیکین

کے زمانہ سے (اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ عادت ، رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم

لگتی تھی تو اس کو رسول خدا کی اجازت کے بغیر انجام دیتا تھا ۔ تھی اور اگر اس کو کوئی چیز غلط

... خوف و وحشت کی وجہ سے ایک عورت کا شلوار میں

عبدالرزاق صنعانی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ عمر عورتوں کی صفوں میں گھوم رہا تھا کہ کسی

لو اعلم ایتکن هی، لفعلت و لفعلت۔ اگر مجھے ” عورت سے خوشبو کو محسوس کرے ۔عمر نے کہا :

ا ! اس عطر( استعمال کیا ہے تو میں اس کے ساتھ ایسا کرت)معلوم ہوجائے کہ کس عورت نے خوشبو

ہر عورت اپنے شوہر کے لئے اپنے آپ کو خوشبو سے معطر کرے ۔ لیکن جب گھر : کے بعد کہتا ہے

سے باہر نکلے تو ضروری ہے کہ اپنی کنیز کے پرانے کپڑے پہن کر گھر سے باہر نکلے ۔

مجھے خبر ۔ “بلغنی ان المراة التی کانت تطیبت بالت فی ثیابھا من الفرق” : اس واقعہ کا راوی کہتا ہے

ملی ہے کہ جس عور ت نے خوشبو او رعطر استعمال کیا تھا اس کا خوف و وحشت کی وجہ سے

۔( ۲۱پیشاب نکل گیا)

و وحشت کی وجہ سے ایک دوسری عورت کا بچہ سقط ہوگیاخوف

اہل سنت فقہاء نے دیات کی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک روز عمر نے حاملہ عورت کے پاس کسی کو

یا ویلھا ” : ہ اس پر جو تہمت لگی تھی اس کی تحقیق کرے ۔ عورت نے عمر کا نام سن کر کہابھیجا تاک

۔ اس عورت پر وائے ہو )اپنی طرف اشارہ ہے( اس کو عمر سے کیا کام؟ بہر حال وہاں “مالھا و لعمر

اور سے روانہ ہو کر عمر کے پاس آئی ، راستہ میں خوف و وحشت کی وجہ سے اس کا بچہ سقط ہوگیا

۔“فالقت ولدا فصاح الصبی صیحتین ثم مات ”مرگیا

عمر نے رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے اصحاب سے اس کے حکم کے بارے میں سوال کیا

، بعض نے کہا : تجھ پر کچھ نہیں ہے ، اس وقت حضرت علی )علیہ السالم( خاموش کھڑے تھے ۔ عمر

پ کی کیا رائے ہے؟ علی )علیہ السالم( نے فرمایا : اگر ان کی نے آپ کی طرف دیکھا اور پوچھا : آ

رائے یہی تھی جو انہوں نے بیان کی ہے تو ان سب نے غلطی کی ہے اور اگر انہوں نے تجھے خوش

کرنے کے لئے ایسی بات کہی ہے تو یہ تیرے خیرخواہ نہیں ہیں ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس سقط شدہ

کہ تو نے اس عورت کوڈرایا ہے جس کی وجہ سے اس کا بچہ سقط بچے کی دیت تجھ پر ہے کیون

۔ (۲۱) “النک انت افزعتھا فالقت”ہوگیا

اپنی رائے ظاہر کرنے سے وحشت

تاریخ کے متعدد واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بعض صحابہ ،خلیفہ دوم کے ڈر کی وجہ سے

اظہار کرتے تھے تو عمر کی تند روئی کا سامنا کرنا اپنی رائے کو بیان نہیں کرتے تھے اور اگر کبھی

: پڑتا تھا اور خاموش ہوکر بیٹھ جاتے تھے ۔ اس طرح کے کچھ واقعات کو یہاں پر بیان کریں گے

۔ ابن ابی الحدید معتزلی نقل کرتے ہیں کہ عبدهللا بن عباس ،عمر کی خالفت کے زمانہ میں عول ۹

کے باطل ہونے کو بیا ن نہیں کرتے تھے اور خلیفہ کے )میراث کی بحث سے مربوط ایک موضوع(

۔ “هال قلت هذا فی ایام عمر؟ قال هبتہ” : مرنے کے بعد اس کو بیان کرتے تھے ،ابن عباس سے کہا گیا

عمر کے زمانہ میں تم نے یہ بات کیوں نہیں کہی؟ انہوں نے جواب دیا : میں اس سے ڈرتا تھا )کیونکہ

۔( ۲۱مخالف تھی()یہ بات اس کے نظریہ کے

انی الحدث احادیث لو تکلمت بھا فی ”۔ عمر بن خطاب کے مرنے کے بعد ابوہریرہ ہمیشہ کہتا تھا : ۳

۔ میں اب وہ حدیثیں بیان کررہا ہوں جن کو اگر عمر کے زمانہ یاعمر “ زمن عمر او عند عمر لشج راسی

۔( ۴۰کے سامنے بیان کرتا تو وہ میرا سر توڑدیتا! )

قال رسول هللا،حتی قبض ”ما کنت نستطیع ان نقول : ” : کہتا ہے : میں نے ابوہریرہ سے سنا ہےابوسلمہ

( ۴۹۔ جب تک عمر زندہ تھا ہم یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ رسول هللا نے اس طرح فرمایا ہے !! ) “عمر

۔

حنب ہوگیا ہوں میں م : ۔ مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص عمر کے پاس آیا اور کہا۲

اور مجھے پانی نہیں مال )میرا وظیفہ کیا ہے؟( عمر نے جواب دیا : نماز نہ پڑهو! ۔ حضرت عمار وہیں

اے امیرالمومنین ! کیا تمہیں یاد نہیں ہے کہ ایک روز میں اور تم جنگ : پر موجود تھے انہوں نے کہا

اور مجنب ہوگئے تھے ، لیکن غسل کے لئے کے ساتھ تھے ((رسول هللا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم)میں

پانی نہیں مال تو تم نے نماز نہیں پڑی اور میں نے مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑه لی تھی ، جب ہم

کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ ان کو سنایا تو پیغمبر (رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم

فرمایا : اگر پانی نہ ملے تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارو اور پھر صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( نے )اکرم

ان کو جھاڑ کر اپنے چہرے پر اور ہاتھ کی پشت پر مسح کرو ۔

عمر نے عمار کی بات کو سنن کر اپنے نظریہ پر اصرار کرتے ہوئے کہا : اے عمار ! خدا سے ڈرو

)اور ایسی بات مت کہو( ۔

اتق هللا یا عمار ! : فقال عمر )ہو تو میں اس حدیث کو نقل نہیں کروں گا عمار نے کہا : اگر تم چاہتے

۔ ہم جانتے ہیں کہ اس واقعہ میں حق عمار کے ساتھ ہے اور رسول (۴۳) “قال : ان شئت لم احدث بہ

صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے حکم نے حجت کو تمام کردیا ہے اور قرآن کریم بھی تصریح کرتا )خدا

۔( ۴۲ایسی صورت میں تیمم کرو ) ہے کہ

یہ واقعات بتاتے ہیں کہ بعض اصحاب ، عمر سے تقیہ کرتے تھے یا کچھ مسائل کو بیان نہیں کرتے

تھے یا اس کی شدت اور تندخوئی کی وجہ سے خاموش رہتے تھے ۔

حدیث نقل کرنے کی وجہ سے اصحاب کو قید کرنا

وسلم( کی احادیث کو نقل کرنے سے منع کرتے تھے اور اس عمر ،رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ

سلسلہ میں اصحاب کے ساتھ بہت زیادہ برا سلوک کرتے تھے ، یہاں تک کہ انہوں نے بعض اصحاب

کو قید کردیا ۔

ابومسعود ”اور “ابو الدرداء”، “ابن مسعود” : ذہبی نے نقل کیا ہے کہ عمر نے تین بزرگ اصحاب

( ۴۴کرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی احادیث نقل کرنے کی وجہ سے قید کردیا )کو رسول ا “انصاری

۔

حاکم نیشاپوری نے بھی نقل کیا ہے کہ خلیفہ دوم نے ابن مسعود،ابوالدرداء اور ابوذر کو حدیث نقل

کرنے کی وجہ سے مدینہ سے باہر نکلنے سے منع کردیا اور عمر کے مرنے تک یہ ممنوعیت باقی

۔( ۴۱رہی )

زمین پرهللا کا سلطان

بالذری اورطبری کے بقول عمر کے پاس کچھ مال الیا گیا تاکہ وہ اس کو تقسیم کردے ، لوگ جمع

ہوگئے ، سعد بن ابی وقاص )مشہور صحابی( لوگوں کو ہٹاتے ہوئے عمر کے پاس پہنچے ۔ جب آپ

رح میرے پاس آئے ہو جس طرح عمر کے پاس پہنچے تو ان کو تازیانہ سے مارا اور کہا : تم اس ط

انک اقبلت التھاب سلطان هللا فی : فعالہ عمر بالدرة و قال”زمین پر هللا کے سلطان سے نہیں ڈرتے؟

۔ (۴۶) “االرض

تند رو انسان اچھے لگتے تھے

ابن عبد ربہ اندلسی کے بقول ربیع بن زیاد حارثی کہتا ہے کہ میں عمر کے زمانہ میں بصرہ کے والی

سی اشعر ی کی طرف سے بحرین میں حاکم تھا ۔ عمر نے ابوموسی کو خط لکھا کہ اپنے تمام ابومو

گورنروں کے ساتھ مدینہ آؤ ، جب ہم مدینہ پہنچے تو عمر کے پاس جانے سے پہلے میں اس کے غالم

سے پوچھا کہ عمر کو کونسی عادت اچھی لگتی ہے ؟ اس نے کہا عمر کو تندروئی اورسخت “یرقا”

اچھی لگتی ہے ، لہذا میں بہت ہی تندروئی کے ساتھ وہاں پہنچا اور میں اس کو بہت اچھا لگا کالمی

۔( ۴۱،اس نے ابوموسی سے کہا کہ دوبارہ مجھے اس جگہ کا والی بنا کر بھیج دے )

! ایک سال انتظار کرنا

: میں نے ایک آیت بخاری اور مسلم نے اپنی کتاب میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس نے کہا

کا شان نزول معلوم کرنے کے لئے ایک سال انتظار کیا، میں ان کے ڈر اور خوف کی وجہ سے سوال

۔ یہانتک کہ ایک مرتبہ حج کے سفر میں ان کے ساتھ “ فما استطیع ان اسالہ هیبة لہ” نہیں کرسکتا تھا

وں کے پیچھے گئے میں انتظار گیا ، واپسی مینایک وقت وہ آیا جب وہ قضائے حاجت کے لئے درخت

کرتا رہا پھر ان کے ساتھ چل دیا ،میں نے وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا : اے امیرالمومنین !

رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی وہ دو بیویاں کون تھینجن کے خالف سب متحد ہوگئے تھے ؟

وہ دو حفصہ اور عائشہ تھیں ۔ :عمر نے کہا ( ۴۱)

عباس کہتے ہیں : میں نے عمر سے کہا : خدا کی قسم ! میں ایک سال سے اس آیت کے بارے میں ابن

وهللا ان کنت الرید ان اسالک عن ”تم سے سوال کرنا چاہتا تھا لیکن تمہارے ڈر سے سوال نہیں کرتا تھا

۔ (۴۱) “هذا منذ سنة فما استطیع هیبة لک

! ابومطر پرحملہ

تھی ، خلیفہ کے پاس آیا ۔ خلیفہ نے تازیانہ سے “ابومطر”جس کی کنیت خثیمہ بن مشجعہ نامی شخص

۔ اس سے “فحمل علیہ بالدرة فھرب من بین یدیہ”اس پر حملہ کیا اورابومطر اس کے پاس سے بھاگ گیا

وکیف ال اهرب من بین یدی من یضربنی و ال ” : پوچھا گیا : تم کیوں بھاگ گئے ؟ اس نے جواب دیا

ایسے شخص کے پاس سے کیوں فرار نہ کروں جو مجھے مارتا ہے اور میں اس کو ۔ میں “اضربہ

۔( ۱۰نہیں مارسکتا )

بالذری نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے لیکن ابومطر پر حملہ کی وجہ کو بیان نہیں کیا ہے ۔

عمروبن ”میں اور دوسرے مورخین نے “طبقات”اورابن سعد نے “انساب االشراف”بالذری نے

وکان عمر ال یکبر حتی ” : سے خلیفہ دوم کا نماز جماعت کو قائم کرنے کا طریقہ نقل کیا ہے “میمون

۔ عمر کا کام یہ “ یستقبل الصف المتقدم بوجھہ، فان رای رجال متقدما من الصف او متاخرا، ضربہ بالدرة

ے یا پیچھے ہوتا تھا کہ تکبیرة االحرام کہنے سے قبل پہلی صف کو دیکھتا تھا ،اگر کوئی صف میں آگ

۔( ۱۹تاکہ صف صحیح ہوجائے( ))تھا تو اس کو تازیانہ سے مارتا تھا

زبردستی شادی

بنت زید ، عبدهللا بن ابی بکر کی بیوی تھی۔ عبدهللا نے اس کو بہت زیادہ مال و دولت دی اور “عاتکہ”

عبدهللا کے مرنے اس سے شرط کی کہ میرے مرنے کے بعد شادی نہ کرنا اس نے بھی قبول کرلیا ۔

کے بعد بہت سے لوگوں نے رشتہ بھیجا لیکن اس نے منع کردیا اور اپنے وعدے پر باقی رہی ، خلیفہ

دوم نے اس کے سرپرست کے پاس رشتہ بھیجا ، عاتکہ نے خلیفہ کو بھی منع کردیا ۔ اس مرتبہ عمر

۔ اس “عمر : زوجنیھافقال ”نے اس عورت کے سرپرست کو حکم دیا کہ اس کی مجھ سے شادی کردو

نے بھی عمر کے حکم پر عمل کیا ۔ عمر اس عورت کے پاس گیا اور چونکہ وہ عورت اس کی طرف

مائل نہیں تھی لہذا اس نے اس کی بات کو قبول نہیں کیا، لہذا وہ اس سے زبردستی کرنے لگا اور اس

۔“غلبھا علی نفسھا فنکحھافاتاها عمر فدخل علیھا فعارکھا حتی ”پر غالب آگیا اور ہمبستری کی

خلیفہ دوم نے اپنا کام پورا کرنے کے بعد کہا : اف ، اف ، اف، اف ، اف ، اف ۔ ان کلمات کے ذریعہ اس

سے بیزاری کا احساس کیا اور پھر وہاں سے چال گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا، یہاں تک کہ اس کی

۔( ۱۳جاؤ میں اس کو تمہارے لئے آمادہ کروں گی )خدمتکار نے عمر کے پاس پیغام بھیجا کہ آ

عثمان بن حنیف کا سر توڑنا

مسجد میں “عثمان بن حنیف”نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ ایک روز عمر بن خطاب اور “ ذهبی”

ایک دوسرے کے ساتھ بحث و گفتگو کررہے تھے اور لوگ بھی ان کے چاروں طرف جمع تھے ۔

اچانک عمر کو غصہ آگیا اوراس نے کنکریاں اٹھا کر ان کے منہ پر ماری،ان کنکریوں سے عثمان کی

ھتہ فقبض من حصباء المسجد قبضة ضرب بھا و جہ عثمان ، فشج الحصی بجب ”پیشانی زخمی ہوگئی

۔“آثارا من شجاج

اپنے : عمر نے جب یہ دیکھا کہ عثمان کی پیشانی کے خون سے ان کی ڈاڈهی رنگین ہوگئی تو کہا

۔“فلما رای عمر کثرة تسرب الدم علی لحیتہ قال : امسح عنک الدم”خون کو صاف کرو

لی بنا کر جن کے پاس تم نے مجھے وا)عثمان نے کہا : مت ڈرو ! خدا کی قسم ! تمہاری رعایا

۔( ۱۲بھیجاتھا( نے میری تم سے زیادہ توہین کی ہے ! )

ابن عباس ! مجھ سے دور ہوجاؤ

طبری اور ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک روز عمر نے مجھ سے پوچھا

)بنی ہاشم(تک خالفت : کیا تم جانتے ہو کہ محمد )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے بعد تمہاری قوم نے تم

․کیوں نہیں جانے دی؟ میں نے اس کی بات کا جواب دیناپسند نہیں کیا ، لہذا میں نے کہا : اگر مجھے

یعنی عمر( مجھے اس سے آگاہ کریں گے ۔ اس نے کہا : ) !اس کا سبب معلوم نہیں ہوگا تو امیرالمومنین

ان میں جمع ہوجائے اور پھر تم لوگوں پر کیونکہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ نبوت اور خالفت ایک خاند

فخر کرو! اس وجہ سے قریش نے اپنے لئے خلیفہ معین کرلیا اور وہ کامیاب بھی ہوگئے ۔

میں نے کہا : اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ کہوں، اگر آپ مجھ سے ناراض نہ ہونتو میں اس کا سبب

۔ “ان تاذن لی فی الکالم و تمط عنی الغضب تکلمت”بتاؤں

عمر نے مجھے اجازت دیدی اور میں نے بھی کہا : تم نے جو یہ کہا کہ قریش نے اپنے لئے خلیفہ معین

کرلیا اور وہ کامیاب بھی ہوگئے تو اگر قریش اس شخص کو خلیفہ بناتے جس کو خدا نے منتخب کیا تھا

ر تم نے جو یہ کہا کہ تو اس وقت کامیاب ہوتے ۔ او( ۱۴)یعنی علی )علیہ السالم(( کو انتخاب کرتے)

قریش اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ نبوت اور خالفت ایک خاندان مینجمع ہوجائے تویہ بھی جان

لو کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں اس گروہ کی برائی کی ہے جو خداوند عالم کے حکم کی پیروی

فاٴحبط اٴعمالہم ذلک باٴنهہم کرہوا م ” :نہیں کرتے اور فرماتا ہے ۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے خدا “ا اٴنزل هللاه

۔( ۱۱کے نازل کئے ہوئے احکام کو برا سمجھا تو خدا نے بھی ان کے اعمال کو ضائع کردیا)

ابت وهللا قلوبکم یا بنی ہاشم اال ” :خلیفہ دوم ،ابن عباس کی یہ بات سن کر غصہ ہوگیا اور کہنے لگا

۔ خدا کی قسم ! تم بنی ہاشم کے دلوں میں ایک حسد ہے جو ختم نہیں “حسدا ما یحول، و ضغنا ما یزول

ہوتا اور یہ ایسا کینہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا!۔

میں نے کہا : اے امیرالمومنین ناراض نہ ہو ! جن دلوں سے خداوند عالم نے رجس اور پلیدی کو دور

ک کردیا ہے تم ان دلوں کو حسادت اور بغض سے تعریف نہ کرو ! رکھا ہے اور کامل طور سے پا

مھال یا امیرالمومنین ! ال ”کیونکہ پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کا دل بھی بنی ہاشم کا دل ہے

۔“بالحسد والغش( ۱۶تصف قلوب قوم اذهب هللا عنھم الرجس وطھرهم تطھیرا )

الیک عنی یا ” : منطقی بات کے سامنے جواب نہ دے سکا اور کہاعمر کو غصہ آگیااورابن عباس کی

۔ اے ابن عباس میرے پاس سے چلے جاؤ۔ میں وہاں سے چلنے کے لئے اٹھا تو عمر نے “بن عباس

۔( ۱۱مجھے پکڑ لیا اور پھر میری دلجوئی کے لئے دوسری باتیں کرنے لگا )

اورابن عباس نے اپنی بات کہنے کے لئے آپ نے مالحظہ کیا کہ خلیفہ دوم نے بات شروع کی تھی

اجازت مانگی تھی اور اس سے ناراض نہ ہونے کا وعدہ لیا تھا ، اس کے باوجود خلیفہ ان کی منطقی

باتوں کے سامنے تاب نہ ال سکے اور ان پر اتہام و الزامات لگانے شروع کردئیے ۔

!تم ہی خلیفہ سے کچھ کہو

سخت کالمی سے اس قدر پریشان ہوگئے تھے کہ طبری اور بالذری مسلمان ،خلیفہ دوم کی تندروی اور

کلم عمر فانہ قد ” : کے مطابق ایک روز کچھ مسلمان جمع ہوگئے اور عبدالرحمن بن عوف سے کہا

۔ عمر سے کہو )ہمارا پیغام اس تک پہنچا دو( اس نے ہمیں “اخشانا حتی ما نستیطع ان ندیم الیہ ابصارنا

۔ (۱۱)م اس کی طرف نظر بھی نہیں کرسکتے اس قدر ڈرادیا کہ ہ

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ابوبکر نے اپنی موت کے وقت عبدالرحمن بن عوف سے عمر کے متعلق

اس میں تندخوئی اور سخت کالمی ہے ۔ لیکن “فیہ غلظة ” : سوال کیا توعبدالرحمن بن عوف نے کہا

۔ وہ اس لئے سخت “افضی الیہ لترک کثیرا مما هو علیہالنہ یرانی رقیقا و لو ” : ابوبکر نے جواب دیا

کالمی اور تندخوئی سے بات کرتا ہے کیونکہ میں نرم اور مالئم ہوں، لیکن اگر خالفت اس تک پہن

۔( ۱۱جائے تو وہ ان تمام تندخوئی اور سخت کالمی کو چھوڑ دے گا)

بوبکر کی پیشین گوئی صحیح نہیں تھی لیکن مذکورہ واقعہ اور گذشتہ مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ا

! اورخلیفہ اپنے اسی اخالق پر باقی رہا

!رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے اصحاب کو اذیت نہ دو

: اس حصہ کو ابن ابی بن کعب )صحیح مسلم کے نقل کے مطابق( کی بات پرختم کرتے ہیں

ہوگئی ، ابی بن کعب بھی وہاں پر موجود تھا ، خلیفہ دوم اور ابوموسی اشعری کے درمیان کچھ نزاع

یا بن الطاب فال تکونن عذابا علی ”جب ابی بن کعب نے عمر کی سخت گیری کو دیکھا تو اس سے کہا :

۔ اے خطاب کے بیٹے !رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے اصحاب کو اذیت “ اصحاب رسول هللا

۔( ۶۰نہ دو!)

ساتھ سخت کالمی۔ اپنے اہل وعیال کے ۴

اسالم اورپیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی سیرت کے لحاظ سے ایک مسلمان کی بہترین اور

پسندیدہ خصلت یہ ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال سے محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آئے ۔

۔ تم میں سب “ا خیرکم الهلیخیرکم خیرکم الهلہ و ان” : رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( نے فرمایا

( ۶۹سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر ہوں )

۔

۔ رسول “ما ضرب رسول هللا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( خادما ، وال امراة” : اسی طرح آپ نے فرمایا

۔( ۶۲پنے خادم اور عورت کو نہیں مارا )خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( نے کبھی ا

ان تمام باتوں کے باوجود خلیفہ دوم نے اپنی زندگی میں اپنی بیویوں سے جو سلوک کیا ہے وہ بہت ہی

: تعجب خیز ہے

وہ ہمیشہ تندخو اور سخت کالم ہے

ہوا تو عمر نے بالذری ، طبری، ابن اثیر او رابن کثیر کے مطابق جس وقت یزید بن ابوسفیان کا انتقال

اس کی بیوی ام ابان )عتبہ کی بیٹی( سے رشتہ بھیجا ،اس نے قبول نہیں کیا اور اس کی علت یہ بیان کی

۔ وہ)عمر( بدمزاجی کے ساتھ گھر میں “النہ یدخل عابسا ، ویخرج عابسا، یغلق ابوابہ، و یقل خیرہ ” :

ے دروازہ کو بند کرلیتا ہے اور اپنی داخل ہوتا ہے اور بدمزاجی کے ساتھ گھر سے نکلتا ہے، گھر ک

۔( ۶۴بیویوں کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا ، اس کی نیکیاں بہت کم ہیں )

اعتراض کی فریاد

طبری اورابن اثیر نے نقل کیا ہے کہ عمر نے اپنی خالفت کے زمانہ میں ابوبکر کی بیٹی ام کلثوم سے

کم تھی ۔ عایشہ نے خلیفہ کی خواہش کو اپنی بہن ام کلثوم کے رشتہ بھیجا ،اس وقت اس کی عمر بہت

عایشہ نے کہا ، خلیفہ کی طرف ! مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے : سامنے پیش کیا ،ام کلثوم نے کہا

۔ جی ہاں ! کیونکہ وہ زندگی “ نعم انہ خشن العیش، شدید علی النسا ” : مائل نہیں ہو ؟ اس نے جواب دیا

ختی سے کام لیتا ہے اور عورتوں کے ساتھ تندروی اور سخت کالمی سے رفتار کرتا بسر کرنے میں س

ہے ۔

عایشہ نے عمروعاص سے کہا کہ اپنے طور پر عمر کو منع کردو ۔ عمروعاص ،عمر کے پاس گیا اور

ام کلثوم نے بہت ہی ناز و نعمت میں پرورش پائی ہے اور اس نے ام ”کچھ باتیں کرنے کے بعد کہا :

ومنین عایشہ کی حمایت میں رشد و نمو کیا ہے لیکن تم میں تندخوئی ہے اور ہم بھی تم سے ڈرتے الم

ہیں اور تمہاری کسی بھی عادت کو بدل نہیں سکتے لہذااگر اس لڑکی نے کسی بات میں تمہاری مخالفت

قدر ان نردک و فیک غلظة و نحن نھابک و ما ن ”کی اور تم نے اس پر حملہ کیا تو ہم کیا کریں گے ؟

( ۶۱۔ اور اس طرح اس کو منع کردیا )“عن خلق من اخالقک، فکیف بھا ان خالفتک فی شئی فسطوت بھا

۔

ابن عبدالبرکے مطابق ام کلثوم بنت ابوبکر نے اپنی بہن عائشہ سے کہا : تم چاہتی ہو کہ میں ایسے

وهللا لئن فعلت ” : شخص سے شادی کروں جو تند خو اور سخت کالم ہے ؟ اس کے بعد مزید کہا

۔ خدا کی قسم اگر مجھے اس کام کے لئے مجبور کیا تو میں “الخرجن الی قبر رسول هللا و ال صیحن بہ

۔( ۶۶رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی قبر کے نزدیک جاکر فریاد کروں گی )

م کلثوم بھی اس سے باخبر خلیفہ کی تندگوئی اور تندروی اس قدر مشہور تھی کہ بہت ہی کم سال لڑکی ا

تھی ، جب کہ عمر مسلمانوں کا خلیفہ اور اس کے باپ کا بہت گہرا دوست تھا لیکن پھر بھی ام کلثوم ا

س سے شادی کے لئے تیار نہیں ہوئی۔

اپنی زوجہ کو مارنا

اہل سنت کی معتبر کتابوں میں اشعث بن قیس سے نقل ہوا ہے کہ ایک رات میں خلیفہ دوم کے گھر

ضفت ”مہمان تھا ، آدهی رات کو عمر اٹھا اور اپنی بیوی کو مارنے لگا ۔ میں نے اٹھ کر اس کو منع کیا

عمر اپنے بستر پر لیٹ ۔ جب “عمر لیلة ، فلما کان فی جوف اللیل قام الی امراتہ یضربھا ، فحجزت بینھما

یا اشعث ! احفظ عنی شیئا سمعتہ عن رسول هللا : ال یسال الرجل فیم یضرب ” : گیا تو مجھ سے کہا

وہ جملہ یہ )۔ اے اشعث میں نے رسول خدا سے ایک جملہ سنا ہے ،اس کو اچھی طرح یاد کرلو “امراتہ

۔( ۶۱یوں مارا ہے)ہے ( : مرد سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ تم نے اپنی بیوی کو ک

اوراس طرح اس کو اس کی علت معلوم کرنے سے منع کردیا ۔

اس شرط پر شادی کروں گی کہ مجھے طمانچہ مت مارنا

بنت زید ، عبدهللا بن ابی بکر کی بیوی تھی۔ اور عمر بن خطاب کے چچا کی لڑکی تھی ۔ وہ “عاتکہ”

ے اس کو بہت زیادہ مال و دولت دی اور اس بہت زیادہ خوبصورت تھی ، اس کے پہلے شوہر عبدهللا ن

سے شرط کی کہ میرے مرنے کے بعد شادی نہ کرنا اس نے بھی قبول کرلیا ۔ عبدهللا کے مرنے کے

بعد بہت سے لوگوں نے رشتہ بھیجا لیکن اس نے منع کردیا اور اپنے وعدے پر باقی رہی ، خلیفہ دوم

دی پر ولیمہ بھی دیا ۔نے بارہ ہجری میں اس سے شادی کرلی اور اس شا

مورخین نے لکھا ہے : جس وقت عمر نے اس کے پاس رشتہ بھیجا تو اس نے شرط رکھی کہ وہ اس

کو مسجد میں جانے سے منع نہ کرے اوراس کی پٹائی نہ کرے ، عمر نے بھی نہ چاہتے ہوئے اس

ال یضربھا، فاجابھا علی فلما خطبھا عمر شرطت علیہ انہ الیمنعھا عن المسجد و ”شرط کو قبول کرلیا

۔ (۱) “کرہ منہ

شرطت علیہ اال یضربھا، وال یمنعھا من الحق، وال من ” : ابن حجر عسقالنی نے اس طرح نقل کیا ہے

۔ عمر سے شرط رکھی کہ اس کی پٹائی نہ کرے، اس کے حقوق کو ادا کرے “الصالة فی المسجد النبوی

۔( ۶۱) اور مسجد نبوی میں نماز پڑهنے سے منع نہ کرے

ابن اثیر کے نقل کے مطابق شاید اسی وجہ سے قریش نے عمر بن خطاب کے رشتوں کو قبول نہیں کیا

ان عمر بن الخطاب خطب الی قوم من ”،لیکن مغیرة بن شعبہ نے رشتہ بھیجا اور انہوں نے قبول کرلیا

۔ (۱۰) “قریش بالمدینة فردوہ ، و خطب الیھم المغیرة بن شعبة فزوجوہ

ناراض ہونا اور ہاتھ پر کاٹنا

عبیدهللا کی (ابن ابی الحدید معتزلی نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص عمر کے پاس آیا اور )عمر کے بیٹے

عمر نے اپنے (۱۹)کی کنیت سے پکارا “ابوعیسی”شکایت کی اور شکایت کرتے وقت عبیدهللا کو

تھ پر دانتوں سے کاٹا ، پھر اس کے طمانچے بیٹے کو بالیا ، پہلے اس پر اعتراض کیا ،پھر اس کے ہا

و ”مارے اور اس سے کہا : عیسی کے باپ نہیں تھے )تم نے کس طرح اپنی کنیت ابوعیسی رکھ لی( ۔

۔ (۱۳) “اخذیدہ فعضھا ، ثم ضربہ و قال : ویلک ! و هل لعیسی اب؟

بھی عمراپنے اہل وعیال میں ابن ابی الحدید معتزلی نے اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : جب

سے کسی پر ناراض ہوتا تھا تو اس وقت تک اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا جب تک اس کے ہاتھ پر

۔( ۱۲دانتوں سے نہ کاٹے )

پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی اخالق اور کردار

کے اخالق و کردار کے کچھ گوشوں پر اس مقالہ کے آخر میں پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم(

روشنی ڈالی جائے جو کہ تمام انسانوں کے لئے نمونہ عمل ہیں ، تاکہ قارئین کرام )خصوصا جوان

حضرات( اپنے آپ کو اخالق کریمہ سے آراستہ کریں، اپنی اجتماعی اور فردی زندگی میں اس سے

نقل کی گئی ہیں ( ۔ فائدہ اٹھا سکیں) یہ حدیثیں بھی اہل سنت کی کتابوں سے

کان احسن الناس خلقا، لم یکن فاحشا و ال ” : ۔ آنحضرت کے اخالق و کردا رکے متعلق عایشہ کہتی ہیں۹

۔ آپ کے اخالق سب سے “متفحشا ، و ال سخابا باالسواق، و ال یجزیء بالسیئة مثلھا، و لکن یعفو و صفح

، کبھی بھی کوچہ و بازار میں فریاد نہیں کرتے اچھا تھا ، آپ کبھی بھی کسی کو ناسزا نہیں کہتے تھے

۔( ۱۴تھے ، آپ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے ،بلکہ معاف اور نظر انداز کردیتے تھے )

کان ” : ۔ ایک دوسرے شخص نے رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی اس طرح تعریف کی ہے۳

خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( مہربان، دلسوز او ربردبار تھے ۔ رسول “ رسول هللا رحیما رقیقا حلیما

۔( ۱۱)

۔ رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( عورتوں کے ساتھ مراعات کرنے کی سفارش کرتے تھے اور ۲

۔( ۱۶مسلمانوں سے کہتے تھے کہ عورتوں کے ساتھ نرمی سے کام لو )

۔ میں نے کسی کو بھی رسول خدا “بالعیال من رسول هللا ما رایت ارحم ” : ۔ انس بن مالک کہتے ہیں۴

۔( ۱۱سے زیادہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مہربان شخص نہیں دیکھا )

اسی طرح آنحضرت )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کے اخالق کے سلسلہ میں یہ خوبصورت تعبیرات بیان

س بفظ و ال غلیظ و ال ضخاب و ال فحاش و ال کان دائم البشر ، سھل الخلق، لین الجانب لی ” : ہوئی ہیں

۔ آپ ہمیشہ خوش حال، نرم و مالئم اور بہترین اخالق کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے ، آپ “عیاب

۔( ۱۱سخت کالم، تندخو، شور مچانے والے ، ناسزا اور عیب گوئی نہیں کرتے تھے )

کان اکرم الناس والین الناس ، ” : ں۔ ازواج کے ساتھ آپ کی زندگی کے بارے میں عایشہ کہتی ہی۶

۔ آپ )اپنی ازواج کے ساتھ خلوت میں( کریم ترین اور بہترین عادت کے مالک تھے آپ “ضحاکا بساما

۔( ۱۱ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے )

خدمت رسول هللا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( عشر سنین ، ال وهللا ما سبنی ” : ۔ انس بن مالک کہتے ہیں۱

۔ میں نے دس “قط و ال قال لی : اف قط، و ال قال لشی فعلتہ لم فعلتہ ؟ و ال لشئی لم افعلہ لم ال فعلتہبسبط

سال تک رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کی خدمت کی ، خدا کی قسم ! انہوں نے کبھی مجھے

ام انجام دیتا تھا تو کبھی ناسزا نہیں کہا، اورکبھی مجھے کلمہ اف تک نہینکہا اور جب کبھی میں کوئی ک

یہ نہیں کہتے تھے یہ کام کیوں کیا؟ اور اگر کسی کام کوانجام نہیں دیتا تھا تو آپ مجھ سے سوال نہیں

۔( ۱۰کرتے تھے کہ یہ کام انجام کیوں نہیں دیا ؟! )

یی احدکم اما یستح ” : ۔ رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( نے عورتوں کو مارنے کے متعلق فرمایا۱

۔ تم سے جو شخص اپنی “ ان یضرب امراتہ کما یضرب العبد، یضربھا اول النھار ثم یضاجعھا آخرہ

صبح کو اسے مارتا ہے اور رات کو !بیوی کو )ایک کنیز کی طرح( مارتا ہے اسے شرم نہیں آتی؟

۔( ۱۹اسے اپنی آغوش میں لیتا ہے ! )

: حوالہ جات

وا من حولک ” ۔ ۹ ۔ )سورہ آل عمران ، آیت “ فبما رحمة من هللا لنت لھم ولو کنت فظا غلیظ القلب النفض

۔۹۱۱

سول هللا والهذین معه أشدهاء على الکفهار رحماء بینھم ” ۔ ۳ د ره حمه ۔( ۳۱آیت ۔ ) سورہ فتح،“ م

. 37، ص 2۔ کامل ابن اثیر، ج ۲

. 177، ص 7۔ سیرہ ابن هشام، ج ۴

عمر مسلمان ہونے سے پہلے مسلمانوں کو بہت پریشان کرتاتھا ملسو هيلع هللا ىلص58، ص 1۔ البدایة والنھایة، ج ۱

۔ اس میں مسلمانوں کے “ فکانت فیہ غلظة علی المسلمین”لہذابالذری نے اس کے متعلق لکھا ہے :

۔ (۲۰۹، ص ۹۰انساب االشراف ، ج )یری اور تندخوئی پائی جاتی تھی خالف سخت گ

تاریخ ابن خلدون، ج ; 80، ص 1; ر.ک: البدایة والنھایة، ج 288-281، ص 70۔ انساب االشراف، ج ۶

، ص 72کنزالعمال، ج ; 85، ص 2; کامل ابن اثیر، ج 144، ص 7; سیرہ ابن هشام، ج 474، ص 2

301 .

.()باب من لقى هللا باالیمان و هو غیر شاک 45-44، ص 7ح مسلم، ج ر.ک: صحی . 7

. 80توبه، آیه . 8

ویں آیت نازل ہوئی جس میں ۱۴۔ )اگر چہ اس کے بعد سورہ توبہ کی ۱۶،ص ۳۔ صحیح بخاری، ج ۱

رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( کو حکم دیا گیا کہ منافقین کی نماز جنازہ نہ پڑهو( ۔

. 201، ص 5همان مدرک، ج ۔ ۹۰

. 203، ص 5صحیح بخارى، ج . 11

.201همان مدرک، ص . 12

; مسند احمد، ج 141، ص 4; سنن ترمذى، ج 720، ص 8; ج 773، ص 1ر.ک: صحیح مسلم، ج . 13

.و دیگر کتب 78، ص 2

. 13احزاب، آیه . 14

. 2حجرات، آیه . 15

; 7، ح 715; کتاب الجھاد والسیر، باب 4)باب کتابة العلم(، ح 17صحیح بخارى، کتاب العلم، باب . 16

،(باب مرض النبى ووفاته) 84; کتاب المغازى، باب 1، ح 3کتاب الجزیة، باب

صحیح مسلم; ;1)باب قول المریض قوموا عنى(، ح 71; کتاب المرضى، باب 5; همان باب، ح 4ح

.8; همان باب، ح 1; همان باب، ح 3، ح 3کتاب الوصیة، باب

.488، ص 2; شبیه آن: تاریخ ابن خلدون، ج 221، ص 1تاریخ طبرى، ج . 17

، 1; تاریخ طبرى، ج 53، ص 7. همچنین ر.ک: مسند احمد، ج 28 ـ 21، ص 8صحیح بخارى، ج . 18

.243، ص 5; البدایة والنھایة، ج 203ص

.221، ص 1تاریخ طبرى، ج . 19

.202، ص 1ج همان مدرک، . 20

.583، ص 7انساب االشراف، ج . 21

.512، ص 8مصنف ابن ابى شیبه، ج . 22

.81، ص 5صحیح بخارى، ج . 23

.283، ص 5; البدایة والنھایة، ج 208، ص 1تاریخ طبرى، ج . 24

. 112، ص 3شرح نھج البالغه ابن ابى الحدید، ج . 25

. 43، ح 485، ص 1مصنف ابن ابى شیبه، ج . 26

۔ اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ عمر ۹۶۴، ص ۹۔ شرح نہج البالغہ ، ابن ابی الحدید، ج ۳۱

کی تعبیر اپنے والد کے لئے بھی استعمال کی ہیں، اوراس کو تندخو اورسخت “ غلیظ”اور “ فظ”نے

وقت ضجنان کالم بتایا ہے ،مورخین نے نقل کیا ہے : جب عمر اپنے آخری حج سے واپس آرہا تھا جس

کے پاس پہنچا تو کہا : ایک زمانہ وہ (میل کے فاصلہ پر رہ جاتا ہے ۳۱نامی پہاڑ ) جو کہ مدینہ سے

تھا جب میں خطاب کے لئے یہاں پر اونٹ چرا تا تھا ،اس کے بعد اپنے والد کی طرح تعریف کرتا ہے :

خت کالم اور تندخو تھا ،میں جب ۔ وہ بہت س“ وکان فظا غلیظا یتعبنی اذا عملت، و یضربنی اذا قصرت”

کام کرتا تھا وہ مجھ سے اس قدر کام لیتاتھا کہ میں تھک جاتا تھا اور جب بھی میں سستی کرتاتھا تو وہ

۔ انساب االشرف ، ج ۳۹۱، ص ۴۔ تاریخ طبری ، ج ۹۹۱۱، ص ۲مجھے مارتا تھا ۔ )االستیعاب ، ج

۔( ۳۱۱، ص ۹۰

.117، ص 8الطبقات الکبرى، ج . 28

.714، ص 70; حواشى الشروانى، ج 170، ص 4مغنى المحتاج، ج . 29

.711، ص 1; البدایة والنھایة، ج 207، ص 4تاریخ طبرى، ج . 30

۔ جبکہ رسول خدا )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( بچوں کے ساتھ ۱۱، ص ۱۔ الطبقات الکبری ، ج ۲۹

۔ ان کو سالم کرتے تھے ( ۹۳۹، ص ۲د،ج مہربان تھے، کبھی ان کے ساتھ کھیلتے تھے )مسند احم

۔ اسی مہربانی کی وجہ سے جب آپ ( ۹۳۳۰، ص ۳، سنن ابن ماجہ، ج ۳۱۶، ص ۳)سنن دارمی، ج

سفرسے پلٹتے تھے تو بچے بہت ہی شوق و اشتیاق کے ساتھ آپ کا استقبال کرتے تھے )صحیح بخاری،

ان کو اپنے اوپر سوار کرتے تھے ۔ (ہ وسلماورکبھی پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آل (۹۲۶، ص ۱ج

، ص ۴نقل ہوا ہے کہ اسی وجہ سے بہت سے بچے دوسرے بچوں پر فخر کرتے تھے )مسند احمد،ج

۔۱

.77548، ح 473، ص 70مصنف عبدالرزاق، ج .32

،2; کامل ابن اثیر، ج 75، ص 70; انساب االشراف، ج 421، ص 1تاریخ طبرى، ج . 33

.477ص

. متقی ہندی نے ابن راهویہ سے اس حدیث کو نقل کرنے 42777، ح 112، ص 75نز العمال، ج ۔ ک۲۴

صحیح )کے بعد اس کو صحیح شمار کیا ہے ۔ صحیح بخاری میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے

فتح الباری ، ج )۔ ابن حجر نے اپنی شرح میں اس کو صحیح السند بیان کیا ہے ( ۱۹، ص ۲بخاری، ج

۔( ۱۴، ص ۱

.3387، ح 551، ص 1۔ مصنف عبدالرزاق، ج ۲۱

، ص 8االصابة، ج ;71، ص 1. همچنین ر.ک: مجمع الزوائد هیثمى، ج 115، ص 7۔ مسند احمد، ج ۲۶

. اگر چہ دوسری جگہوں پر بھی پیغمبر اکرم )صلی هللا علیہ و آلہ 10، ص 8; الطبقات الکبرى، ج 718

وسلم( نے اس کومنع کیا تھا کہ عورتوں کو رونے دو،لیکن اس نے پھر بھی اپنے عمل کو جاری رکھا ،

علیہ و آلہ وسلم( پیغمبر اکرم ر)صلی هللا : میں ابوہریرہ سے نقل ہوا ہے( ۹۹۰، ص ۳ج )مسند احمد

کے خاندان سے کسی کا انتقال ہوگیا ،عورتیں جمع ہوگئی اورگریہ کرنے لگیں، عمر بن خطاب کھڑا ہوا

۔ پیغمبر اکرم “ فقام عمر بن الخطاب ینھاهن و یطردهن”اور ان کو منع کرکے وہاں سے الگ کردیا

ب فان العین دامعة والفواد مصاب و ان العھد )صلی هللا علیہ و آلہ وسلم( نے اس سے فرمایا : یا بن الخطا

۔ اے خطاب کے بیٹے )تم ان کو منع نہ کرو( کیونکہ آنکھیں رو روہی ہیں ،دل غم زدہ ہے اور “ حدیث

ان کے عزیزوں کا غم ابھی تازہ ہے ۔

.8771، ح 111، ص 4مصنف عبدالرزاق، ج . 37

..18،ص 3; کشاف القناع، ج 517، ص 7ج ; مغنى ابن قدامه،77، ص 77المجموع نووى، ج . 38

.40201، ح 84، ص 75; کنز العمال، ج 458، ص 7ر.ک: مصنف عبدالرزاق، ج

.141، ص 3شرح نھج البالغه ابن ابى الحدید، ج . 39

.701، ص 8البدایة والنھایة، ج . 40

ی زمان عمر مثل ما احدثکم لو کنت احدث ف”۔ گذشتہ حوالہ ۔ دوسری تعبیر میں ابوہریرہ نے کہا : ۴۹

۔ جس طرح میں آج حدیثوں کو نقل کررہاہوں اگر عمر کے زمانہ میں نقل کرتا تو وہ “ لضربنی بمخفقتہ

اسی جملہ کے مشابہ ابن عبدالبر نے بھی نقل ( ۱، ص ۹تذکرة الحفاظ ، ج )یقینا مجھے تازیانے مارتا

۔ (۹۳۹، ص ۳کیا ہے )جامع بیان العلم و فضلہ، ج

، باب التیمم ۔۹۱۲، ص ۹۔ صحیح مسلم، ج ۴۳

ن الغائط أو المستم النساء فلم ۴۲ نکم م موا ۔ " وإن کنتم مهرضى أو على سفر أو جاء أحد م تجدوا ماء فتیمه

هنے کے بعد قارئین کے ذہنوں میں یہ ۔ مذکورہ واقعات کو پڑ( ۴۲)سورہ نساء ،آیت ملسو هيلع هللا ىلصصعیدا طیبا"

سوال اٹھتا ہے کہ اگر خلیفہ دوم اگر اپنے اسی عقیدہ پر اصرار کرتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ پانی

نہ ہونے کی صورت میں جنابت پر باقی رہا جائے اور نماز نہ پڑهی جائے تو کیا جب بھی وہ سفر

جاتے ہوں یاجنگ میں لشکر کے ساتھ یا اپنی حکومت کرتے تھے )چاہے خانہ خدا کی زیارت کے لئے

کے شہروں میں (اور ان کو غسل کرنے کے لئے پانی نہیں ملتا تھا توکیا خلیفہ اپنی نماز کو ترک

!کردیتے تھے ؟ خدا عالم ہے

.1، ص 7تذکرة الحفاظ، ج .44

.707، ص 7مستدرک حاکم، ج .45

.272، ص 4طبرى، ج ; تاریخ117، ص 70انساب االشراف، ج .46

.()با تلخیص 75-74، ص 7العقد الفرید، ج .47

سورہ تحریم که مى فرماید )إن تتوبا إلى هللا فقد صغت قلوبکما وإن تظاهرا 4اشارہ است به آیه .48

.(...علیه

.770، ص 4; صحیح مسلم، ج 37، ص 3صحیح بخارى، ج .49

.57، ص 71االشراف، ج انساب .50

،1; فتح البارى، ج 257، ص 1; الطبقات الکبرى، ج 478، ص 70انساب االشراف، ج .51

.317، ص 72; کنز العمال، ج 47ص

.11304، ح 311، ص 71; کنز العمال، ج 108، ص 8ر.ک: الطبقات الکبرى، ج .52

ل خیز زمین کو ناپنے اور وہاں پر ۔ عمر نے عراق کی حاص۱۹۔ ۱۰، ص ۴۔ تاریخ االسالم، ج ۱۲

، عثمان ۹۰۲۲، ص ۲جزیہ معین کرنے کیلئے عثمان بن حنیف کو بھیجا )مراجعہ کریں االستیعاب، ج

کی سوانح حیات( ۔

۔ ابن عباس کا یہ بیان غدیر خم کے واقعہ اور حضرت علی )علیہ السالم( کو امامت کے لئے ۱۴

عمر نے اس کاانکار نہیں کیا ۔منصوب کرنے پر گواہ ہے ، خصوصا جب کہ

. 7محمد، آیه .55

جس أهل البیت 11اشارہ به آیه .56 سورہ احزاب است که مى فرماید: )إنهما یرید هللا لیذهب عنکم الر

.(ویطھرکم تطھیرا

.()با تلخیص 34 ـ 31، ص 1; کامل ابن اثیر، ج 224 ـ 221، ص 4تاریخ طبرى، ج .57

.114، ص 70; انساب االشراف، ج 201، ص 4تاریخ طبرى، ج .58

.725، ص 4; المنتظم، ج 425، ص 2; کامل ابن اثیر، ج 428، ص 1تاریخ طبرى، ج .59

.780، ص 3صحیح مسلم، ج .60

.7711، ح 313، ص 7سنن ابن ماجه، ج .61

.7718همان مدرک، ح .62

.7784، ح 318همان مدرک، ص .63

،1; کامل ابن اثیر، ج 400، ص 4; تاریخ طبرى، ج 138، ص 7انساب االشراف، ج .64

.740، ص 1; البدایة والنھایة، ج 55ص

.54، ص 1; کامل ابن اثیر، ج 777، ص 4تاریخ طبرى، ج .65

.7801، ص 4االستیعاب، ج .66

. شبیه همین عبارت در مسند 151، ص 1; سنن الکبرى، ج 7783، ح 317، ص 7سنن ابن ماجه، ج .67

.نیز آمدہ است 413، ص 7و سنن ابى داود، ج 20، ص 7احمد، ج

.785 ـ 781، ص 3اسد الغابه، ج .68

.228، ص 8االصابة، ج .69

.357، ص 1اسدالغابه، ج .70

کی کنیت میں عبدهللا بن عمر کی سوانح حیات میں اس ( ۴۳۲، ص ۲۔ ابن اثیر نے اسدالغابہ )ج ۱۹

بیان کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کنیت سے مشہور تھا ۔“ ابوعیسی”

۔ یہ بات واضح ہے کہ ابوعیسی کنیت رکھنا اس ۲۴۲، ص ۶۔ شرح نہج البالغہ ،ابن ابی الحدید، ج ۱۳

“ سنن ترمذی”کے والدکے والد تھے ۔ ،کیونکہ (بات کی دلیل نہیں ہے کہ حضرت عیسی )علیہ ا لسالم

کے مشہور مصنف کا نام ابوعیسی ترمذی ہے ۔

.همان مدرک .73

، ص 74; صحیح ابن حبان، ج 2085، ح 247، ص 1; سنن ترمذى، ج 213، ص 3مسند احمد، ج .74

155.

.288، ص 77المعجم الکبیر، ج .75

.()کتاب النکاح، باب مداراة مع النساء 745، ص 3ر.ک: صحیح بخارى، ج .76

.13، ص 1; صحیح مسلم، ج 772، ص 1، ج مسند احمد .77

.733، ص 1کنز العمال، ج .78

.222، ص 1کنزالعمال، ج .79

.208 ـ 201همان مدرک، ص .80

.44781، ح 111، ص 73; کنز العمال، ج 71741، ح 442، ص 7مصنف عبدالرزاق، ج .81

: فہرست مآخذ

قرآن کریم .1

(صبحى صالحنھج البالغه )با تحقیق دکتر .2

االستیعاب فى معرفة االصحاب، ابوعمر یوسف بن عبدهللا بن محمد بن عبدالبر، تحقیق على محمد .3

.ق7472البجاوى، دارالجیل، بیروت، چاپ اول،

.ق1409اسدالغابة فى معرفة الصحابة، عزالدین بن االثیر الجزرى، دارالفکر، بیروت، .4

مد بن على بن حجر عسقالنى، تحقیق عادل احمد عبدالموجود، االصابة فى معرفة الصحابة، اح .5

.ق7475دارالکتب العلمیة، بیروت، چاپ اول،

أنساب االشراف، احمد بن یحیى بن جابر بالذرى، تحقیق سھیل زکار، دارالفکر، بیروت، چاپ اول، .6

.ق7471

.ق7401البدایة والنھایة، ابن کثیر دمشقى، دارالفکر، بیروت، .7

تاریخ االسالم، شمس الدین محمد ذهبى، تحقیق عمر عبدالسالم، دارالکتاب العربى، بیروت، چاپ دوم، .8

.ق7471

تاریخ ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد بن خلدون، تحقیق خلیل شحادہ، دارالفکر، بیروت، چاپ دوم، .9

.ق7408

راهیم، دارالتراث، بیروت، چاپ دوم، تاریخ طبرى، محمد بن جریر طبرى، تحقیق محمد ابوالفضل اب .10

.ق7181

.تذکرة الحفاظ شمس الدین محمد ذهبى، دار احیاء التراث العربى، بیروت .11

.ق 7178جامع بیان العلم و فضله، ابن عبدالبر، دار الکتب العلمیة، بیروت، .12

.تحواشى الشروانى، الشروانى والعبادى، دار احیاء التراث العربى، بیرو .13

.سنن ابن ماجه، محمد بن یزید قزوینى، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقى، دارالفکر، بیروت .14

سنن ترمذى، ابوعیسى ترمذى، تحقیق عبدالرحمن محمد عثمان، دارالفکر، بیروت، چاپ اول، .15

.ق7424

.سنن دارمى، عبدهللا بن بھرام دارمى، مطبعة الحدیثة، دمشق .16

)معروف به سیرہ ابن هشام(، ابن هشام حمیرى، تحقیق مصطفى السقا و همکاران، السیرة النبویة .17

.دارالمعرفة، بیروت

.شرح نھج البالغه، ابن ابى الحدید معتزلى، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، دار احیاء الکتب العربیة .18

.ق7474سالة، چاپ دوم، صحیح ابن حبان، محمد بن حبان، تحقیق شعیب االرنؤوط، مؤسسة الر .19

.صحیح بخارى، ابوعبدهللا محمد بن اسماعیل بخارى، دارالجیل، بیروت .20

.صحیح مسلم، مسلم بن حجاج نیشابورى، دارالفکر، بیروت .21

الطبقات الکبرى، محمد بن سعد، تحقیق محمد عبدالقادر عطاء، دارالکتب العلمیة، بیروت، چاپ اول، .22

.ق7470

.ق7401الفرید، ابن عبد ربه اندلسى، دارالکتاب العربى، بیروت، العقد .23

.فتح البارى فى شرح صحیح البخارى، احمد بن على بن حجر عسقالنى، دارالمعرفة، بیروت .24

.ق7185الکامل فى التاریخ، عزالدین على بن ابى الکرم )معروف به ابن اثیر(، دار صادر، بیروت، .25

منصور بن یونس بھوتى، تحقیق ابوعبدهللا محمد حسن اسماعیل الشافعى، دارالکتب کشاف القناع، .26

.ق7478العلمیة، بیروت، چاپ اول،

.ق7407کنزالعمال، متقى هندى، مؤسسة الرسالة، بیروت، .27

.ق7408مجمع الزوائد، نورالدین ابوبکر هیثمى، دارالکتب العلمیة، بیروت، .28

.المھذب، محیى الدین بن شرف نووى، دارالفکر، بیروتالمجموع فى شرح .29

.ق7403المستدرک على الصحیحین، ابوعبدهللا حاکم نیشابورى، دارالمعرفة، بیروت، چاپ اول، .30

.مسند احمد، احمد بن حنبل، دارصادر، بیروت .31

.ق1409اول، المصنف، ابن ابى شیبه کوفى، تحقیق سعید اللحام، دارالفکر، بیروت، چاپ .32

.المصنف، عبدالرزاق صنعانى، تحقیق حبیب الرحمن األعظمى، منشورات المجلس العلمى .33

المعجم الکبیر، سلیمان بن احمد طبرانى، تحقیق حمدى عبدالمجید السلفى، دار احیاء التراث العربى، .34

.ق7404بیروت، چاپ دوم،

.عربى، بیروتالمغنى، عبدهللا بن قدامه، دارالکتاب ال .35

.ق7111مغنى المحتاج، محمد بن احمد شربینى، داراحیاء التراث العربى، بیروت، .36

المنتظم فى تاریخ االمم والملوک، عبدالرحمن بن على بن محمد بن الجوزى، تحقیق محمد عبدالقادر .37

.ق7472عطاء، دارالکتب العلمیة، بیروت، چاپ اول،